ہفتہ وار زرعی خبریں مئی 2020

  مئی 14 تا 30 مئی 2020

زمین

محکمہ انسداد بدعنوانی (اینٹی کرپشن) کی جانب سے متعلقہ حکام کو جمع کروائی گئی رپورٹ کے مطابق تحریک انصاف کے رہنما حلیم عادل شیخ دیگر 14 افراد کے ساتھ جامشورو میں زمینی قبضے میں ملوث پائے گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق حلیم عادل شیخ نے اپنے کارندے طارق قریشی کے ذریعے غیر قانو نی طور پر 410 ملین روپے مالیت کی 207 ایکڑ سرکاری زمین اپنے نام منتقل کروائی۔ رپورٹ میں ادارہ ترقیات سہون (ایس ڈی اے) اور ڈپٹی کمشنر جامشورو کی جانب سے ماضی میں کی گئی تحقیقات کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ حلیم عادل شیخ دھوکہ دہی کے زریعے زمین کی غیرقانونی منتقلی میں بھی ملوث ہیں۔ تاہم حلیم عادل شیخ نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ مزکورہ زمین سرکاری نہیں بلکہ نجی ملکیت تھی۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 15 مئی، صفحہ5)

زراعت

ایک خبر کے مطابق کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے زرعی شعبہ کے لیے 50 بلین روپے کا پیکج منظور کر لیا ہے۔ وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق نے اقتصادی رابطہ کمیٹی سے کسانوں کو کیمیائی کھاد پر زرتلافی دینے، زرعی قرضوں پر شرح سود میں کمی، کپاس کے بیجوں اور سفید مکھی سے بچاؤ کے لیے زرعی زہر پر زرتلافی دینے اور مقامی طور پر تیار کردہ ٹریکٹروں پر سیلز ٹیکس میں چھوٹ کی صورت زرتلافی دینے کے لیے 56.6 بلین روپے کا مطالبہ کیا تھا۔ واضح رہے کہ کرونا امدادی پیکج کے تحت مختص کردہ 1,200 بلین روپے میں سے کسانوں اور چھوٹے کاروباری اداروں (اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز) کے لیے کل 100 بلین روپے مختص کیے گئے تھے۔ زرعی شعبہ کو دیے جانے والے اس پیکج کے تحت تقریباً 37 بلین روپے کیمیائی کھاد پر زرتلافی پر خرچ ہونگے۔
(ڈان، 14 مئی، صفحہ9) Continue reading

A renowned geneticist and agronomist cautions against the adoption of GMO crops

 
A renowned Ethiopian geneticist and agronomist has cautioned against the adoption of a genetically modified (GM) variety, saying that it could pose a serious threat to the tremendous genetic and biological diversity of the country. Dr. Melaku Worede, a plant geneticist and former Director of the Ethiopian Plant Genetic Resources Centre, said that any move to improve the agricultural inputs of the country should take into account the interests and desires of local farmers who have been maintaining and adapting their indigenous crop resources for centuries, and should not be imposed in a top-down fashion, he said in an interview with TechTalk With Solomon, a weekly technology TV show on Ethiopian Broadcasting Service (EBS).

Melaku, 84, said that the preservation of indigenous seed varieties which he said are not only cost-effective for farmers but was the most sustainable way to develop agriculture should be an utmost priority. “Attempts to improve agricultural outputs should be done in collaboration with farmers, not by imposing it upon them. Let us explore the genes that we have on the ground first and make good use of it. Knowledge system and the material go hand in hand, he said.

“It is too risky to rely on seeds that have no local adaptation and built-in genetic diversity. Farmers should rather be helped to improve the genetic performance of crops than to be dictated to buy costly GM seeds.  In the context it is being developed and used, GMOs has a danger. It is a double-edged sword. “Let us be careful not to be a basket case,” he told the interviewer. “From the farmer’s point view, the yield was not the only criterion, farmers place also importance to diversity in seasons, topography, taste, specific harvest that could be used for specific cultural activities, and a number of things. For farmers, sustainability is an important criterion. They have developed the strategy to spread the risk between factors of season, location, and diversity.  So their varieties will have enough plasticity to allow them to grow in diverse conditions.” he said.

Though many are voicing their concern about the risk of smallholder’s loss of sovereign control of their seeds as western companies push to enhance their access to Ethiopian markets, the Ethiopian government is showing a willingness to accept the uptake of GM seeds. In a recent meeting, the Ethiopian Institute of Agricultural Research (EIAR) Director, Tadesse Daba said that Bt-cotton was permitted for a confined field trial in 2016 and licensed in 2018, the first for the country. GM maize is also currently under confined field trial to check whether it really prevents diseases or not, he said.

Continue reading

Pandemics and Hunger: Lessons from the 1918 Pandemic in India

It wasn’t the influenza virus alone, but the agricultural exploitation imposed by colonialism which devastated India in 1918

A patient treatment and isolation ward in Bombay. Image: Narratives of the Bombay Plague via Outlook

A patient treatment and isolation ward in Bombay. Image: Narratives of the Bombay Plague via Outlook

As government-imposed lockdowns against the COVID-19 global pandemic have brought much of the world to a stand-still, the question of food has assumed central importance. This is often framed in terms of food provision as an essential service which is being disrupted by restrictions at various stages of the commodity chain. That is, a question of maintaining transportation of food commodities while limiting the movement of consumers and labour. However, such an analysis ignores that there was already a food crisis for many prior to the pandemic. It also leaves unquestioned the role of capitalism in producing populations vulnerable to global crises. 

The national lockdown in India is causing concern over an impending food crisis, as transportation networks and labour supply are impacted. Similarly, working peoples in Pakistan are experiencing the strain of increased prices of food staples like rice, sugar, and pulses. This is despite a drop in international prices of diesel, pulses, edible oils, and tea. Lockdowns in Pakistan are similarly interrupting the transportation of food commodities. As the wheat harvest is upon us, there is a labour shortage as landless workers stay home while others feel empowered to demand higher day wages from landlords. 

While there is reason to be concerned about the impending food crisis, we also need to ask: for whom will there be a crisis? More importantly, what do we mean by a food crisis? 

One could argue that a food crisis was already underway prior to the novel coronavirus arriving in the subcontinent. The 2018 Pakistan National Nutrition Survey found that 36.9% of the population experiences food insecurity, probably an underestimate in itself. The Food and Agriculture Organization reports that 14.5% and 20.3% of the population is undernourished in India and Pakistan, respectively.

Continue reading

ہفتہ وار زرعی خبریں مئی 2020

مئی 7 تا 13 مئی، 2020

زمین

سندھ ہائی کورٹ سکھر بینچ نے محکمہ جنگلات کو حکم دیا ہے کہ وہ کیٹی ممتاز، کیٹی کھرل، کیٹی فرید آباد، کیٹی جتوئی اور دیگر علاقوں میں غیر قانونی طور پر قبضہ کی گئی جنگلات کی زمین واگزار کروائے۔ عدالت نے یہ حکم کئی اضلاع میں جنگلات کی ہزاروں ایکڑ زمین پر قبضے سے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران جاری کیا۔ گزشتہ سماعت پر عدالت نے قومی احتساب بیورو (نیب) کو 1985 سے اب تک جنگلات کی زمین کی منتقلی (الاٹمنٹ) کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔ نیب کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا ہے کہ اب تک کی تحقیق کے مطابق خیرپور میں 10 اور نوشہروفیروز میں کچے کے علاقے میں واقع ایک قطعہ اراضی جنگلات کی زمین پر کچھ بااثر سیاسی شخصیات کا غیرقانونی قبضہ ہے۔ عدالت نے ڈائریکٹر جنرل سندھ رینجرز کو سرکاری حکام کو زمین واگزار کروانے کے لیے تحفظ فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے۔
(ڈان، 13 مئی، صفحہ15)

زراعت

وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے ٹڈی دل کے خلاف چھڑکاؤ شروع کرنے کے لیے محکمہ زراعت کے منجمد شدہ 132 ملین روپے جاری کرنے کے علاوہ مزید 286 ملین روپے کی منظوری دیدی ہے۔ ٹڈی دل پہلے ہی صوبے میں 166,701 ایکڑ پر کھڑی فصلوں کو متاثر کرچکے ہیں۔ وزیر اعلیٰ کی زیرصدارت مواصلاتی اجلاس میں وزیر زراعت سندھ اسماعیل راہو نے بتایا کہ ٹڈی دل کی پہلی اطلاع جیکب آباد سے 25 اپریل کو موصول ہوئی تھی۔ دیگر متاثرہ اضلاع میں شکارپور، لاڑکانہ، کندھ کوٹ، کشمور، گھوٹکی، سکھر، دادو، جامشورو، حیدرآباد اور کراچی میں ملیر اور گڈاپ شامل ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر بروقت چھڑکاؤ نہ کیا گیا تو حال ہی میں کاشت کی گئی گنا، کپاس اور دیگر فصلیں شدید متاثر ہوسکتی ہیں۔
(ڈان، 10 مئی، صفحہ15)

کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے اثرات کے تناظر میں زرعی شعبہ کے لیے 56 بلین روپے کا امدادی پیکج منظور کرنے کی تیاری کرلی ہے۔ وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق نے کئی ضمنی شعبہ جات میں کورونا کے اثرات کا مقابلہ کرنے میں کسانوں کی مدد کے لیے یہ امدادی پیکچ تیار کیا ہے۔ وزارت نے اقتصادی رابطہ کمیٹی میں اپنی سفارشات جمع کروادی ہیں۔ وزارت نے ڈی اے پی کھاد پر 925 روپے فی بوری اور دیگر کیمیائی کھادوں پر 243 روپے فی بوری زرتلافی دینے کی تجویز دی ہے۔ اس زرتلافی پر 37 بلین روپے لاگت آئے گی۔ یہ زرتلافی کھاد کی بوری میں موجود پرچی (اسکریچ کارڈ اسکیم) کے زریعے تقسیم ہوگی جس پر پنجاب میں پہلے ہی عملدرآمد جاری ہے۔ حکومت اس وقت کھاد بنانے والوں کو گیس پر زرتلافی دیتی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مکمل طور پر کسانوں تک نہیں پہنچتی۔ اس بار حکومت نے براہ راست کسانوں کو پرچی اسکیم کے زریعے زرتلافی فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس وقت زرعی ترقیاتی بینک کی جانب سے دیے جانے والے زرعی قرضوں پر شرح سود 18.4 فیصد ہے جس میں 10 فیصد کمی کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ شرح سود پر دی جانے والی اس زرتلافی کے لیے 8.8 بلین روپے درکار ہونگے۔ اس کے علاوہ سندھ اور پنجاب میں کپاس کے بیج پر 150 روپے فی کلو زرتلافی دینے کی تجویز دی گئی ہے جس کے لیے 2.3 بلین روپے درکار ہونگے۔ اس کے ساتھ ہی سفید مکھی سے بچاؤ کے لیے زرعی زہر (پیسٹی سائیڈ) کے فی تھیلے پر 300 روپے زرتلافی دینے کی تجویز دی گئی ہے جس پر چھ بلین روپے خرچ ہونگے۔ وزارت نے مقامی طور پر تیار ہونے والے ٹریکٹروں پر ایک سال کے لیے پانچ فیصد سیلز ٹیکس میں چھوٹ بطور زرتلافی دینے کی سفارش کی ہے جو 2.5 بلین روپے بنتی ہے۔ زرائع کے مطابق فنانس ڈویژن نے زرعی شعبہ کو زرتلافی فراہم کرنے کی توثیق کی ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 12 مئی، صفحہ11) Continue reading

ہفتہ وار زرعی خبریں مئی 2020

اپریل 30 تا 6 مئی، 2020

زمین

ندھ ہائی کورٹ نے میرپور خاص میں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو ٹاؤن منصوبے کے لیے حاصل کی گئی زمین سندھ ہارٹی کلچر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، میرپورخاص کو واپس کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ سندھ ہائی کورٹ حیدرآباد بینچ نے حکومت کو اس فیصلے پر عملدرآمد کے لیے دو ہفتے کا وقت دیا ہے۔ سال 2010-11 میں صدر آصف علی زرداری نے کم قیمت رہائشی منصوبے کی تعمیر کے لیے سندھ حکومت کو زمین کی تلاش کا حکم دیا تھا۔ سرکاری حکام نے سندھ ہارٹی کلچر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی 282 ایکڑ زمین میں سے 78.13 ایکڑ زمین کی اس رہائشی منصوبے کے لیے نشاندہی کی تھی۔ تاہم اس فیصلے کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 1 مئی، صفحہ5) Continue reading

ہفتہ وار زرعی خبریں اپریل 2020

اپریل 23 تا 29 اپریل، 2020

زراعت

ایک خبر کے مطابق عالمی ادارہ خوراک و زراعت (فاؤ) نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے دوران تھرپارکر، سندھ کے کسانوں کی مدد کے لئے اقدامات کیے ہیں۔ تھرپارکر میں فاؤ نے عالمی بینک کی مدد سے قطرہ قطرہ آبپاشی نظام (ڈرپ اریگیشن) اور سبزیوں کے بیج (کٹس) کی تقسیم میں مدد فراہم کی ہے تاکہ تھرپارکر کے کسان اس مشکل وقت سے باہر آسکیں۔ پانی کی 25 اسکیمیں جو بطور پانی کے چھوٹے آبی زخائر استعمال ہورہی ہیں تھرپارکر کے 25 دیہات میں تعمیر کی گئی ہیں۔ کورونا وائرس کی وجہ سے روزگار پر پڑنے والے اثرات کو کم کرنے کے لیے ان دیہات میں مویشیوں کے لیے پانی کی ڈونگی اور گھریلو باغبانی کے لیے قطرہ قطرہ آبپاشی کا نظام بھی قائم کیا گیا ہے۔ موجودہ حالات میں مال مویشی پالنے والے کسان مرد و عورت دونوں کو درپیش مسائل کے تناظر میں ضلع عمرکوٹ، سندھ میں ایک گشتی اسکول کا بھی آغاز کیا گیا ہے۔
(ڈان، 23 اپریل، صفحہ3) Continue reading

Free virus testing for workers demanded

May 02, 2020

PESHAWAR: The rights activists on Friday demanded of the government to start free mass coronavirus testing, especially for workers and farmers, besides ensuring their social protection.

The demand was made during a webinar organised by Pakistan Kissan Mazdoor Tehreek and NGO Roots for Equity here to mark the Labour Day.

The panelists included labour and peasant leaders and rights activists from different cities, including Dr Azra Talat Sayeed, Tariq Mehmood, Raja Mujeeb, Junaid Awan, Zahoor Joya and Wali Haider.

They said the Covid-19 pandemic had not only exposed the ineffectiveness of the capitalist system to deal with a crisis but also its ‘criminal tendency’ to disregard hunger and impoverishment suffered by the people at the current critical juncture prioritising profits over people.

They added that in the face of the pandemic, deregulation, privatisation and trade liberalisation policies were the structural reasons for the workers facing joblessness, financial instability and lack of health and other forms of social protection.

The panelists said that in the pre-neoliberal era, workers were given job protection, healthcare, education, shelter and other facilities.

They said under privatisation, even the right to permanent job security had been eroded and that was the basic reason for joblessness, poverty and hunger in the country, which had aggravated under the pandemic.

The panelists said during the Covid-19 crisis, factories and businesses had been closed leaving workers with acute economic hardship.

They said according to the provincial planning and development department, if the lockdown continued than 460,000 workers, including daily wagers and street vendors, would be left without a livelihood.

The panelists said in the Hattar Industrial zone, many hundreds of workers had already been laid off.

They claimed that the relief package provided by the federal and provincial governments was inaccessible for a majority of workers due to lack of registration and other handicaps.

The panelists said women faced increased domestic violence under the pandemic as well as economic hardship and hunger.

They said self-sufficiency and self reliance including food-self sufficiency was a critical element for national stability and development and that was only possible when workers had full access and control over resources and production to pave the way for a peaceful prosperous sovereign nation without the shackles of imperialism.

The panelists demanded of the government to guarantee incomes and benefits, cash grants and relief or the working people and nationalise public health system, respect democratic and human rights.

They said sanctions against Iran, Palestine and several other countries should be lifted.

Published in Dawn, May 2nd, 2020

https://www.dawn.com/news/1553901/free-virus-testing-for-workers-demanded

ہفتہ وار زرعی خبریں اپریل 2020

اپریل 16 تا 22 اپریل، 2020

زراعت

ایک خبر کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا ہے کہ آئندہ بجٹ زرعی شعبہ کی بحالی کا ایک موقع ثابت ہوسکتا ہے۔ پاکستان کے زرعی شعبہ کو عالمی سطح پر مسابقت کے قابل بنانے کے لیے کسان دوست پالیسیوں پر مبنی ماحول انتہائی اہم ہے۔ زرعی شعبہ میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری مراعات (پیکجز) کی ضرورت ہے کیونکہ یہ شعبہ پاکستان کے قومی غذائی تحفظ، غربت کے خاتمے اور مستقبل میں ممکنہ پائیدار روزگار کے لیے اہم ہے اور رہے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی برائے زراعت کسانوں اور زرعی شعبہ کے مفادات کے تحفظ کے لیے موثر اقدامات کرے گی جو آئندہ بجٹ میں نمایاں ہونگے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 17 اپریل، صفحہ3) Continue reading

ہفتہ وار زرعی خبریں اپریل 2020

اپریل 9 تا 15 اپریل، 2020

زراعت

وزیر زراعت سندھ، محمد اسماعیل راہو نے ٹڈی دل کا کرونا وائرس سے موازنہ کرتے ہوئے سندھ میں ٹڈی دل کے خاتمے کے لیے فضائی چھڑکاؤ نہ کرنے پر وفاقی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ ٹڈی دل کرونا وائرس کی طرح ہی خطرناک ہوسکتا ہے۔ ٹڈی دل گھوٹکی میں پہلے ہی حملہ آور ہوچکے ہیں جن کے خاتمے کے لیے وفاقی حکومت نے انتہائی معمولی اقدامات کیے جس کے نتیجے میں صوبائی محکمہ خوراک کو فضائی چھڑکاؤ کے انتظامات کرنے پڑے۔ صوبائی وزیر نے محکمہ تحفظ نباتات (پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ) کی کاہلی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ”اگر یہ ادارہ باقاعدہ کام نہیں کرسکتا تو اسے بند کردینا چاہیے“۔ ٹڈی دل کا خاتمہ صرف فضائی چھڑکاؤ سے ہی کیا جاسکتا ہے جو وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 13 اپریل، صفحہ5)

Continue reading

ہفتہ وار زرعی خبریں اپریل 2020

اپریل 2 تا 8 اپریل، 2020

زراعت

پنجاب میں کسانوں کو گندم کی کٹائی میں سہولت فراہم کرنے کے لیے پنجاب حکومت نے صوبے میں زرعی مشینری کی نقل وحمل کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ چیف سیکریٹری پنجاب اعظم سلیمان خان نے صوبے میں کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے عائد کی گئی دفعہ 144کے دوران زرعی مشینری کو مستثنی قرار دینے کا حکم دیا ہے۔ زرائع کے مطابق زرعی شعبہ سے متعلق مشینری کی نقل و حمل کی اجازت دی گئی ہے لیکن کٹائی کرنے والے کسان مزدوروں کو عائد کیے گئے ضوابط (ایس او پیز) پر عملدرآمد کرنا ہوگا۔
(بزنس ریکارڈر، 3 اپریل، صفحہ12)

Continue reading