مارچ 2019

مارچ 21 تا 27 مارچ، 2019
مکئی
جنیاتی مکئی کے بیج تیار کرنے والوں اور کچھ سرکاری سائنسدانوں کے علاوہ کسان، خوراک تیار کرنے والی کمپنیاں، مقامی بیج کمپنیاں اور اس فصل سے جڑے دیگر شراکت دار ملک میں جینیاتی مکئی کی پیداوار کو سختی سے مسترد کرچکے ہیں۔ اس سلسلے میں فروری میں امریکن بزنس کونسل کے وفد نے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات میں وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کی جانب سے عدم تعاون پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ جنیاتی مکئی کی پاکستان میں کاشت کے حوالے سے ہونے والے ایک اہم اجلاس میں سیڈایسوسی ایشن آف پاکستان کے نمائندوں نے پاکستان میں اس کی کاشت کی اجازت دینے کی سخت مخالفت کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ جینیاتی مکئی کی کاشت سے پیداوار میں اضافے کے حوالے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کئی ممالک نے اس متنازع ٹیکنالوجی کے استعمال کی اجازت نہیں دی ہے۔ پاکسان میں مکئی سے مختلف مصنوعات بنانے اور برآمد کرنے والی سب سے بڑی کمپنی رفحان میز کے نمائندے خالد عزیز کا کہنا ہے کہ پاکستان کی برآمدات کا دارومدار غیر جنیاتی مکئی پر ہے۔ سیکریٹری وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق نے کہا ہے کہ ان کی وزارت کا سوال یہ ہے کہ ملک میں جینیاتی مکئی کی کاشت کی تجارتی بنیادوں پر اجازت کیوں دی جائے جبکہ اس سے پیداوار میں کوئی واضح اضافہ نہیں ہوگا، نا پیداواری اخراجات میں کمی ہوگی اور ناہی درآمدات میں۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 26 مارچ، صفحہ20)

گندم
وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار نے آئندہ ماہ 100 بلین روپے مالیت کی گندم خریدنے کے لئے 382 گندم کی خریداری کے مراکز کے لیے محکمہ خوراک پنجاب کے 800 سے زائد ملازمین کی تعیناتی کے لئے افسران کی قابلیت سے متعلق رپورٹ طلب کی ہے۔ پنجاب کے تمام 36 اضلاع کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں ماضی کی کاکردگی کے حساب سے ضلعی فوڈ کنٹرولرز تعینات کئے جائینگے۔ محکمہ خوراک پنجاب نے گزشتہ سال گندم کی خریداری کے 384 مراکز قائم کئے تھے۔ تاہم اس سال 382 مراکز قائم کئے جائینگے۔
(دی ایکسپریس ٹربیون، 21 مارچ، صفحہ11)

وزیر زراعت پنجاب نعمان احمد لنگریال نے امید ظاہر کی ہے کہ پنجاب میں اس سال گندم کی پیداوار مقررہ ہدف سے تجاوز کرجائیگی۔ گندم کے پیداواری علاقوں کے زرعی افسران سے بات کرتے ہوئے صوبائی وزیر نے کہا ہے کہ کچھ علاقوں میں گندم کی فصل کو بھاری بارشوں کی وجہ سے پھپوندی (رسٹ) سے بچانے کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ پھپوندی سے متاثرہ فصل 10 فیصد سے زیادہ نہیں ہے اور درجہ حرارت میں اضافہ کے ساتھ ہی فصل پر پھپوندی کا حملہ بھی ختم ہوجائیگا۔
(بزنس ریکارڈر، 21 مارچ، صفحہ16)

برآمدات
ایک خبر کے مطابق کامرس ڈویژن کے ایک افسر نے تصدیق کی ہے کہ چینی حکومت نے آخر کار پاکستان کو رواں مالی سال میں تین اجناس چاول، چینی اور دھاگہ (یارن) کی ایک بلین ڈالر مالیت کی چینی منڈی تک رسائی دینے کی پیشکش کی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ چین کو چاول کی ترسیل پہلے ہی شروع ہوگئی ہے جو وزیر اعظم عمران خان کے گزشتہ سال نومبر میں دورہ چین کے دوران ہونے والے معاہدہ کا حصہ ہے۔ معاہدے کے تحت رواں سال پاکستانی برآمد کنندگان کو 300 ملین ڈالر مالیت کے 200,000 ٹن چاول اور 300,000 ٹن چینی چین برآمد کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ معاہدے میں 700 ملین ڈالر مالیت کے دھاگے کی چینی منڈی تک ترجیحی رسائی بھی شامل ہے۔ چینی حکام متعدد بار درخواست کے باوجود پاکستان سے ان اشیاء کی درآمد میں اضافے کے حق میں نہیں تھے۔ حکام کے مطابق برآمد کنندگان کے پاس اس سہولت سے فائدہ اٹھانے کے لئے صرف نو ماہ کا وقت ہے کیونکہ یہ سہولت 31 دسمبر کو ختم ہورہی ہے۔
(ڈان، 22 مارچ، صفحہ10)

ماہی گیری
گواردر کے ماہی گیروں نے گوادر میں تعمیر ہونے والے ایسٹ بے ایکسپریس وے کے نقشے سے متعلق مسائل حل کرنے کے لئے حکام کو مزید ووقت دینے سے انکار کردیا ہے۔ ماہی گیروں نے رواں ہفتہ کے آغاز پر اپنا احتجاج دوبارہ شروع کیا تھا۔ کمشنر مکران ڈویژن کیپٹن ریٹائرڈ طارق زہری نے فشرمین الائنس کمیٹی کے رہنماؤں سے مذاکرات کے لئے ماہی گیروں کے احتجاجی کیمپ کا دورہ کیا اور ماہی گیروں سے مسائل کے حل کے لئے ایک ماہ کا وقت طلب کیا تھا۔ کمشنر کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان نے ان کے احتجاج اور مطالبات کا نوٹس لیاہے اور متعلقہ حکام کو مسائل حل کرنے کی ہدایت کی ہے۔ ماہی گیر اپنا احتجاج ایک ماہ کے لیے ختم کردیں اس دوران اس مسئلہ کا حل ڈھونڈنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ تاہم احتجاجی ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ وہ حکومت کو مزید مہلت نہیں دے سکتے ہیں اور اپنے مطالبات کی منظوری تک احتجاج ختم نہیں کریں گے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 21 مارچ، صفحہ7)

چاول
بیج تیار کرنے والی کمپنی ایم کے سیڈ پروڈکشن نے چاول کی پیداوار کو متاثر کرنے والی دو اہم بیماریوں بیکٹریل لیف بلائٹ اور لیف بلاسٹ کے خلاف مدافعت رکھنے والی چاول کی دو ہائبرڈ اقسام تیار کی ہیں۔ کمپنی کے سربراہ سجاد ملک کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس سال مختلف مقامات پر آزمائش کے لئے تیاری مکمل کرلی ہے۔ ابتدائی طور ان اقسام کو پنجاب میں تین اور سندھ میں دو مقامات پر کاشت کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ نئی ہائبرڈ اقسام پاکستانی سائنسدانوں کی مقامی طور پر کی گئی تحقیق کا نتیجہ ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 24 مارچ، صفحہ5)

پانی
لاڑکانہ کے علاقے رتو ڈیرو میں زیر زمین پانی نمکین ہونے اور انسانی استعمال کے قابل نہ ہونے کی وجہ سے 75 فیصد رہائشی پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔ پیپلز پارٹی کی رہنما فریال تالپور اس حلقہ کی منتخب رکن سندھ اسمبلی ہیں اور دو بار قومی اسمبلی کی رکن بھی منتخب ہوچکی ہیں لیکن تاحال عوام کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کے لئے کچھ نہیں کیا گیا۔ رہائشی 20 روپے فی گیلن قیمت پر پانی خریدنے پر مجبور ہیں۔ وہ لوگ جن کے پاس پانی خریدنے کی گنجائش نہیں جیسے کہ مزدور طبقہ، آلودہ پانی پینے ہر مجبور ہے جو انہیں جان لیوا بیماریوں میں مبتلا کررہا ہے۔ پیپلزپارٹی کے پہلے دور حکومت میں 120 ملین روپے کا پانی کی فراہمی کا منصوبہ منظور کیا گیا تھا جو ایک دن بھی فعال نہ ہوسکا۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 24 مارچ، صفحہ5)

کسان مزدور
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میرپورخاص نے ناؤکوٹ کے علاقے سائیں پھاٹک سے بازیاب کروائے گئے 21 ہاریوں کو رہا کردیا جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔ عدالت نے ایک ہاری گومو کولہی کی درخواست پر پولیس کو چھاپہ مارنے کا حکم دیا تھا۔ درخواست گزار کا کہنا تھا کہ اس کا اور دیگر کئی خاندان زمیندار بھگوان داس کی زمینوں پر جبری مشقت پر مامور ہیں۔ رہائی سے پہلے عدالت کی جانب سے تمام خاندانوں کے سربراہان کا بیان درج کرلیا گیا ہے۔
(ڈان، 27 مارچ، صفحہ 17)

نکتہ نظر
اس ہفتے کی خبروں میں سرفہرست خبر جینیاتی مکئی کے حوالے سے ہے۔ مزکورہ خبر میں ملک میں مکئی کی فصل سے وابستہ بیج اور مصنوعات بنانے والی کمپنیوں نے ملک میں جینیاتی مکئی کی کاشت پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے جو ناصرف ملکی صنعت، معیشت کے لیے زہر قاتل ہے بلکہ چھوٹے اور بے زمین کسان مزدوروں کے روزگار کے لیے بھی کسی خطرے سے کم نہیں۔ ملک میں اب بھی کئی علاقوں خصوصاً شمالی علاقہ جات میں مکئی بطور غذائی فصل کاشت کی جاتی ہے اور اس فصل کو مویشیوں کے چارے کے طور پر بھی کاشت کیا جاتا ہے جن سے دودھ اور گوشت جیسی خوراک بھی حاصل ہوتی ہے۔ جینیاتی مکئی کی کاشت ملک میں موجود روایتی مکئی کی اقسام کے خاتمے کی وجہ بن سکتی ہے جس کے بعد کسان جینیاتی بیج بنانے والی بین الاقوامی مخصوص کمپنیوں کے محتاج ہوجائیں گے جن کی مقرر کردہ من مانی قیمت پر ہی کسان کو بیج خریدنا ہوگا۔مقامی بیج کمپنیوں اور خود سیکریٹری وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کے مطابق جینیاتی مکئی کی ٹیکنالوجی سے ناپیداوار میں اضافہ ہوگا نا ہی پیداواری لاگت میں کوئی کمی واقع ہوگی اس صورت میں ملک میں چند سرکاری سائنسدانوں کی سفارش پر غیرملکی کمپنیوں کی منافع خوری کے لیے جینیاتی ٹیکنالوجی متعارف کرنا ملک میں مکئی سے جڑی صنعت اور برآمدات کو خود تباہ کرلینے کے مترادف ہے کیونکہ دنیا کے زیادہ تر ممالک میں جینیاتی خوراک کی درآمد پر پابندی عائد ہے۔ جبکہ ملکی کپڑے کی صنعت کپاس کے جینیاتی بیج کی بدولت پیداوار میں ہونے والی کمی سے پہلے ہی شدید متاثر ہورہی ہے اور پاکستان اس وقت کپاس کی درآمد پر بھاری زرمبادلہ خرچ کررہا ہے۔ عالمی زرعی کمپنیوں کے ملکی زراعت پر اختیار کے لیے کی جانے والی ان غیرپائیدار ماحول و کسان دشمن کوششوں کو اس ملک کے کسان اپنا روایتی بیج محفوظ بنا کر اسے پائیدار بنیادوں پر فروغ دے کر ناکام بناسکتے ہیں۔

مارچ 14 تا 20 مارچ، 2019
زمین
محکمہ جنگلات نے گھوٹکی اور سکھر کی ضلعی انتظامیہ کے تعاون سے ایک بڑی کارروائی کے دوران 4,000 ایکڑ سے زیادہ جنگلات کی زمین واگزار کروالی ہے۔ مقامی پولیس کی بھاری نفری کی موجودگی میں حکام نے زمینوں سے ٹیوب ویل اور دیگر زرعی آلات ہٹادیے اور زمین پر کاشت کی جانے والی فصلیں اکھاڑ دیں۔ محکمہ جنگلات کے افسر عارف علی جاگیرانی کے مطابق زمین خالی کرنے کے لیے پیشگی نوٹس جاری کردیے گئے تھے کہ سندھ حکومت نے زمین کی لیز منسوخ کردی ہے، اس لیے زمین از خود خالی کردی جائے۔
(ڈان 18 مارچ، صفحہ15)

ایک خبر کے مطابق ایڈشنل ڈپٹی کمشنر۔1 کی سربراہی میں جامشورو میں ہونے والے ایک اجلاس میں سرکاری زمین کے قابضین کے خلاف کارروائی اور محکمہ ریونیو کے ریکارڈ سے جعلی مندرجہ جات ختم کرنے کے لیے حکمت عملی کو حتمی شکل دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اجلاس میں ضلع میں 13,264 ایکڑ سرکاری زمین واگزار کروانے کے لیے ہونے والی کارروائی پر بھی تفصیلی بات کی گئی۔ محکمہ جنگلات کے ضلعی افسر مختیار علی ملاح نے اجلاس میں بتایا ہے کہ ضلع جامشورو میں 58,479 ایکڑ جنگلات کی زمین ہے جس میں سے 13,264 ایکڑ مین پر اب بھی بااثر افراد کا قبضہ ہے۔
(ڈان، 19 مارچ، صفحہ17)

زراعت
وفاقی حکومت نے زرعی ہنگامی منصوبے کے تحت 200 بلین روپے سے زائد کے 13 ترقیاتی منصوبوں کو حتمی شکل دے دی ہے۔ منصوبے کے تحت وفاقی حکومت کے ذریعے 180 بلین روپے کے پانی کے تحفظ کے منصوبے تعمیر کیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ فصلوں، مال مویشی اور ماہی گیری پیداوار میں اضافے کے لیے بھی بڑے منصوبے شروع کیے جائیں گے۔ زرائع کے مطابق وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق نے ملک بھر میں خوراک کی کمی پر قابو پانے اور زرعی برآمدات کو فروغ دینے کے لیے زرعی منصوبوں کو حتمی شکل دی ہے۔ حکومت 2.6 بلین روپے کی لاگت سے چھوٹے اور درمیانے درجے پر مال مویشی پالنے والوں کے لیے دو منصوبے شروع کرے گی۔ ان منصوبوں کے تحت حکومت کسانوں کو گوشت کی پیداوار میں اضافے کے لیے اور بھینسیں پالنے کے لیے 4,000 روپے فراہم کرے گی۔ اسی طرح پنجاب میں ایک مرغا اور چار مرغیاں فراہم کرنے کے مرغبانی منصوبے کو اگلے مالی سال تک پانچ ملین سے زیادہ گھرانوں تک وسعت دی جائے گی۔ اس کے علاوہ روغنی بیجوں کی پیداوار میں بھی اضافہ کیا جائے گا۔ فشری شعبے کی ترقی کے لیے حکومت کئی شہروں میں جھینگا فارمنگ اور ماہی پروری (کیج فش فارمنگ) کے منصوبے شروع کرے گی جس میں شمالی علاقہ جات میں ٹراؤٹ مچھلی کی فارمنگ بھی شامل ہے۔ یہ منصوبے اگلے سال کے ترقیاتی بجٹ میں منظوری کے لیے پیش کیے جائیں گے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 14مارچ، صفحہ3)

مرغبانی
حسن ابدال کے علاقے جلو میں واقع مرغی خانوں میں گزشتہ کچھ ہفتوں میں رانی کھیت کی بیماری سے ہزاروں مرغیاں ہلاک ہوگئی ہیں۔ رانی کھیت ایک وبائی بیماری ہے جو مرغیوں اور ہر عمر کے پرندوں کو متاثر کرتی ہے۔ متاثرہ مرغی خانوں کے مالکان کا کہنا ہے کہ تین اقسام کی بیماریاں ایک ماہ میں ہزاروں مرغیوں کی ہلاکت کی وجہ ہیں۔ مالکان نے خدشے کا اظہار کیا ہے کہ موجودہ صورتحال مقامی منڈیوں میں مرغیوں کی قلت کا سبب بنے گی۔ مالکان کا کہنا ہے کہ متعلقہ حکام نے متاثرہ علاقے میں اس بیماری کی روک تھام اور علاج کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے ہیں۔
(ڈان، 14مارچ، صفحہ4)

ماہی گیری
ایک خبر کے مطابق گوادر ایسٹ بے ایکسپریس کے نقشہ میں تبدیلی میں حکومتی ناکامی پر گوادر کے ماہی گیر دوبارہ احتجاج کا آغاز کریں گے۔ گوادر کے ماہی گیروں کی تنظیم فشرمین الائنس کمیٹی کے صدر خدائے داد واجو نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا ہے کہ کمیٹی نے اپنا احتجاج تین ماہ پہلے وزیر اطلاعات بلوچستان ظہور احمد بلیدی اور دیگر حکام کی اس صمانت پر منسوخ کردیا تھا کہ ماہی گیروں کے روزگار کے تحفظ کے لیے منصوبے کا نقشہ دوبارہ بنایا جائے گا۔ ماہی گیروں کو خدشہ ہے کہ اس منصوبے کے تحت جاری سڑک کی تعمیر سے ان کی سمندر تک رسائی بند ہوجائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ تین مہینے گزرنے کے باجود اس منصوبے کے نقشے میں تبدیلی اور ماہی گیروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔ 18 مارچ سے ماہی گیر موسی کارنر پر ایک احتجاجی کیمپ قائم کریں گے۔ 21 مارچ کو ہڑتال کی جائے گی اور احتجاجی ریلی نکالی جائے گی۔
(ڈان، 17مارچ، صفحہ5)

کپاس
پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن (پی سی جی اے) کے جاری کردہ تازہ اعداد و شمار کے مطابق رواں سال 15 مارچ تک گزشتہ سال کے مقابلے کپاس کی مجموعی پیداوار 6.84 فیصد کمی کے بعد 10.762 ملین گانٹھیں ہوئی ہے۔ پھٹی کی آمد میں سست روی اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ اپریل میں کپاس کے موسم کے اختتام تک پیداوار 10.8 ملین گانٹھوں سے زیادہ ہونے کا امکان نہیں ہے۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں پنجاب میں کپاس کی پیداوار میں 9.39 فیصد، سندھ میں 2.45 فیصد کمی ہوئی ہے۔ وزیر اعظم نے متعلقہ محکموں کو کپاس کی پیداوار 15 ملین گانٹھوں تک بڑھانے کی ہدایت کی ہے تاہم پیداوار میں اضافے کے لئے ابھی تک کسی قسم کی مراعات کا اعلان نہیں کیاگیا ہے۔
(ڈان، 19مارچ، صفحہ10)

کھاد
ایوان زراعت سندھ (ایس سی اے) نے تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے کے بعد کیمیائی کھاد کی قیمتوں میں کئی گنا اضافے کی مزمت کی ہے۔ ایس سی اے کے نائب صدر نبی بخش سہتو نے کہا ہے کہ آٹھ ماہ پہلے یوریا کی بوری کی قیمت 1,350 روپے تھی جو اس وقت 1,850 روپے ہے۔ اگر یوریا کی قیمت اس ہی شرح سے بڑھتی رہی تو اگلے دو ماہ میں قیمت 2,000 روپے فی بوری تک پہنچ جائیگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک طرف یوریا کی قیمت بلا روک ٹوک بڑھ رہی ہے اور دوسری طرف کھاد کے تاجر ذخیرہ اندوزی کے خلاف قوانین کے عدم نفاذ کی وجہ سے کھاد ذخیرہ کرکے زائد قیمت پر فروخت کررہے ہیں۔ ایس سی اے نے مطالبہ کیا ہے کہ وفاقی حکومت کمپنیوں کی طرف سے یوریا کی مطلوبہ مقدار کی ترسیل کو یقینی بنائے اور اگر کھاد کی صنعتیں مطلوبہ مقدار فراہم نہیں کرسکتیں تو انہیں وقت پر اس کی درآمد کے لیے آگاہ کرنا چاہیے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 18 مارچ، صفحہ5)

آنے والے خریف کے موسم میں کھاد کی طلب میں متوقع اضافے کے تناظر میں فوجی فرٹیلائزر کمپنی نے یوریا کی قیمت میں اضافہ کردیا ہے۔ منڈی کے زرائع کے مطابق کمپنی نے یوریا کی قیمت میں 80 روپے فی بوری اضافہ کردیا ہے جس کے بعد قیمت 1,820 روپے فی بوری ہوگئی ہے۔ تجریہ کاروں کے مطابق اینگرو فرٹیلائزر، فاطمہ فرٹیلائزر اور ایگری ٹیک لمیٹڈ فلحال فوجی فرٹیلائزر کی جانب سے قیمت میں کیے گئے اضافے کا منڈی پر پڑنے والے اثر کا جائزہ لے رہے ہیں۔ صنعتی زرائع کا کہنا ہے کہ فوجی فرٹیلائزر نے قیمت میں 80 روپے اضافہ کیا ہے جس کے بعد قیمت 1,792 روپے بنتی ہے لیکن اس وقت منڈی میں خوردہ قیمت 1,820 روپے ہے کیونکہ تاجر منڈی میں یوریا کی طلب و رسد میں فرق کا فائدہ اٹھارہے ہیں۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 20 مارچ، صفحہ20)

پانی
ایک خبر کے مطابق اگلے ہفتے کے اختتام تک تربیلا ڈیم میں پانی کا ذخیرہ انتہائی نچلی سطح (ڈیڈ لیول) تک کم ہونے کا امکان ہے۔ ڈیم میں پانی کی سطح 1393.35 فٹ ہے جو انتہائی سطح سے صرف 1.35 فٹ کی دوری پر ہے۔ تاہم انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) اس صورتحال کو پریشان کن نہیں سمجھتی۔ ارسا کو توقع ہے کہ اگلے ماہ اور مون سون کے آغاز پر درجہ حرارت میں اضافہ ہوگا اور برف پگھلنے سے ڈیم میں پانی کی سطح واضح طور پر بلند ہوجائے گی۔
(ڈان، 17 مارچ، صفحہ5)

چیئرمین قومی عوامی تحریک ایاز لطیف پلیجو نے کہا ہے کہ سندھ کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی نے گزشتہ 11سالوں میں صوبے کی زرعی معیشت کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ چھوٹے زمینداروں کا پانی روک کر انہیں اپنی زمینیں پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو فروخت کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ پانی کی ترسیل روک کر قبضہ مافیا کے لیے زرخیز زمین کوڑیوں کے مول خریدنے کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بدین اور دیگر اضلاع میں پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے جاگیرداروں نے بزور طاقت 90 فیصد نہری پانی کو غیر قانونی طریقوں سے اپنی زمینوں کی طرف موڑ دیا ہے۔ ایاز لطیف پلیجو نے مطالبہ کیا ہے کہ سیڈا اور محکمہ آبپاشی حکام کی جانب سے نہری پانی کی چوری اور نہروں میں قائم کی گئی رکاوٹیں فوری ختم کی جائیں۔
(ڈان، 14مارچ، صفحہ17)

سندھ آباد گار اتحاد نے ضلع بدین میں پانی کی قلت پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بدین میں پانی کی شدید کمی سے کسان اور گھریلو صارفین دونوں برابر متاثر ہورہے ہیں۔ سندھ آباد گار اتحاد کے صدر نواب زبیر تالپور کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں یہ بات سامنے آئی کہ مال مویشی رکھنے والے کسان پانی کی تلاش میں دیگر علاقوں کی طرف نقل مکانی پر مجبور ہیں۔ ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلوں کی تباہی کا خطرہ ہے جس سے کسانوں کو لاکھوں روپے کا نقصان ہوسکتا ہے۔ بدین کو پانی فراہم کرنے والی نہریں گزشتہ چھ ماہ سے خشک پڑی ہیں۔
(ڈان، 20مارچ، صفحہ17)

نکتہ نظر
خبریں مجموعی طور پر ملک میں زرعی شعبہ کی خستہ حالی کی عکاسی کررہی ہیں کہ جس میں سب سے زیادہ نقصان سے دوچار ہونے والا چھوٹا کسان مزدور طبقہ ہی ہے۔ کپاس کی پیداوار میں کمی ملکی معیشت کو تو متاثر کر ہی رہی ہے ساتھ ہی اس صنعت کو دی جانے والی مراعات کا بوجھ بھی بلاآخر عوام ہی بھگتے ہیں۔ چھوٹے کسان مہنگے مداخل کے استعمال اور کمپنیوں کے ماحول دشمن جینیاتی بیج کی بدولت کئی سالوں سے شدید نقصان سے دوچار ہیں۔ ملک میں رائج اور فروغ دی جانے والی زرعی پالیسیوں کو کپڑے کی صنعت، چینی کی صنعت اور کھاد کی صنعتوں کے بڑھتے ہوئے منافع اور کپاس، گنا اور گندم کاشت کرنے والے چھوٹے کسانوں کے حالات سے بخوبی جانچا جاسکتا ہے جس کی گواہی خود حکومتی ادارے دیتے نظر آتے ہیں۔ چھوٹے کسان مزدروں کے غم میں گھلنے والا حکمران طبقہ ہر بار ملکی و غیرملکی سرمایہ داروں کے لیے منافع بخش منصوبوں کو پیداوار میں اضافے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اس تضاد کو اوپر نقل کی کئی خبروں سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ ماہی گیروں کو غیر ملکی سرمایہ داروں کے مفادات کی خاطر سمندر تک رسائی سے محروم کیا جاتا ہے اور دوسری طرف غیر ملکی مالیاتی اداروں سے قرض لے کر عالمی منڈی کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے ماہی پروری کے ذریعے پاکستان میں خوراک کی کمی اور غذائی کمی دور کرنے کی تدبیر کی جاتی ہے۔ حالانکہ کے یہ حقیقت واضح ہے کہ اس طرح کے منصوبوں کے لیے درکار زمین اور پانی دونوں ہی وسائل سے ہی اس ملک کے غریب کسان مزدور محروم کیے جارہے ہیں۔ ملک میں بارشوں کے بعد پانی کی ترسیل میں بہتری کے باوجود بدین میں کسان پانی کی شدید قلت سے دوچار ہیں اور گزشتہ کئی ماہ سے سراپا احتجاج ہیں۔ کسانوں کے مطابق پانی کی قلت کی بنیادی وجہ بااثر جاگیرداروں کی جانب سے اپنی زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے مسلسل پانی کی چوری ہے جس میں محکمہ آبپاشی اور سیڈا کے حکام ملوث ہیں۔ یہ واضح ہے کہ حکومتی پالیسیاں ملک میں محرومی کے شکار طبقہ کے لیے نہیں بلکہ سرمایہ دار اور تاجر طبقے کے لیے پیداوار میں اضافے اور اس کی برآمد سے منافع کے حصول کے لیے ہیں جسے ممکن بنانے کے عالمی زرعی کمپنیاں اور مالیاتی ادارے ہمارے حکمرانوں سے گٹھ جوڑ کرتے ہیں۔ عوام بلخصوص چھوٹے اور بے زمین کسان مزدوروں کی خودمختاری صرف اور صرف پیداواری وسائل اور پالیسی سازی پر اختیار سے ہی ممکن ہے جس کے لیے اس طبقہ کو جدوجہد کرنی ہوگی۔

مارچ 7 تا 13 مارچ، 2019
زمین
ضلع لاڑکانہ، سندھ میں 11,247 ایکڑ جنگلات کی زمین واگزار کروانے کے لیے بڑی کارروائی کا آغاز کردیا گیا ہے۔ محکمہ جنگلات کے ڈویژنل افسر افتخار آرائیں نے کہا ہے کہ کارروائی کے دوران عملے کو کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ جنگلات کی زمینوں سے فصلوں کو اکھاڑنے کے لیے ٹریکٹر اور دیگر مشینری کا استعمال کیا گیا۔ محکمہ جنگلات کی لاڑکانہ ڈویژن میں 51,127 ایکڑ زمین ہے جس میں سے 11،247 ایکڑ زمین گزشتہ کئی سالوں سے زیر قبضہ تھی۔ افتخار آرائیں کا مزید کہنا تھا کہ 918 ایکڑ زمین پر چھوٹے گاؤں آباد ہیں۔ ان دیہات کو بھی جنگلات کی زمین سے بیدخل کیا جائے گا۔ سندھ حکومت نے حالیہ ہفتوں میں پٹے (لیز) پر دی گئی جنگلات کی 1,344 ایکڑ زمین کی لیز بھی منسوخ کردی تھی۔ زرائع کے مطابق کارروائی کے دوران اگر زمین پر فصلیں موجود ہوئیں تو انہیں بھی اکھاڑ دیا جائے گا۔
(ڈان، 10مارچ، صفحہ17)

زراعت
ایک خبر کے مطابق سیکریٹری جنرل بزنس مین پینل اور فیڈریشن آف پاکستان چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری کی قائمہ کمیٹی کے سابق چیئرمین احمد جاوید نے تجویز دی ہے کہ باغبانی شعبہ کو مکمل طور پر صنعت کا درجہ دیا جانا چاہیے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس حوالے سے پالیسی بنانے اور سالانہ بجٹ میں مراعات دینے کے لیے وہ لابنگ کررہے ہیں۔ 2023 تک کپاس کا پیداواری ہدف 25 ملین گانٹھ ہونا چاہیے۔ کپاس کی پیداوار میں کمی کی مختلف وجوہات میں بی ٹی کپاس کی چوتھی جنریشن کے بجائے پہلی جنریشن کا استعمال، اعلی معیار کے بیج کی عدم دستیابی، پتہ مڑور بیماری کا خاتمہ نہ ہونا، جننگ کا معیار کم ہونا اور کپاس کی پیداوار میں آلودگی شامل ہے۔ انہی وجوہات کی وجہ سے کپاس کی فصل سے کسانوں کی آمدنی کم ہوئی اور کپاس کے زیر کاشت رقبے میں 2004 سے 2016 کے درمیان 20 فیصد کمی ہوئی۔
(بزنس ریکارڈر، 7مارچ، صفحہ16)

کسانوں نے دوسرے ضمنی (بجٹ) مالیاتی ترمیمی بل 2019 پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ اس بل میں زرعی شعبہ کے لئے کوئی مراعات نہیں ہیں۔ کسانوں نے حکومت پر زرعی شعبہ کے تحفظ کے لئے سخت اقدامات اٹھانے پر زور دیا ہے۔ پاکستان کسان اتحاد کے صدر خالد محمود کے مطابق کسان تنظیموں نے مالیاتی بل میں زرعی شعبہ کو مراعات نہ دینے کے خلاف احتجاج کی منصوبہ بندی کی تھی۔ تاہم پاکستان و بھارت کے درمیان جاری کشیدگی کی وجہ سے احتجاج ملتوی کردیا گیا۔ انکا کہنا تھا کہ زرعی قرضوں پر عائد ٹیکس کو 39 فیصد سے کم کرکے 20 فیصد کرنے کے فیصلہ سے کسانوں کو نہیں بلکہ بینکاری شعبہ کو فائدہ ہوگا۔ اس کے علاوہ تمام ڈیزل انجن کی درآمد پر عائد درآمدی (ریگولیٹری) ڈیوٹی کو 17 فیصد سے کم کر کے پانچ فیصد کرنے سے بھی زرعی پیداوار میں اضافہ نہیں ہوگا کیونکہ کسان ڈیزل انجن درآمد نہیں کرتے ہیں بلکہ مقامی تیار کردہ انجن خریدتے ہیں۔ اگر حکومت زرعی شعبہ کو فائدہ پہنچانا چاہتی ہے تو اسے کیمیائی کھاد (فرٹیلائزر) کی قیمتوں میں کمی، زرعی منڈیوں سے آڑھتیوں کا خاتمہ اور زرعی مداخل پر آنے والی لاگت پر قابل ذکر مراعات فراہم کرنا ہونگی۔
(بزنس ریکارڈر، 8 مارچ، صفحہ7)

سندھ کے کاشتکاروں نے مطالبہ کیا ہے کسانوں میں پائی جانے والی تشویش کے خاتمے کے لیے سندھ حکومت گنا، گندم اور کپاس کی امدادی قیمتیں مقرر کرے۔ سندھ آبادگار اتحاد کے صدر نواب زبیر تالپور کا کہنا ہے کہ گنے کی قیمت کا اعلامیہ بلاتاخیر جاری ہونا چاہیے تاکہ چھوٹے کسان گنے کی قیمت 182 روپے فی من حاصل کرسکیں۔ گنے کی قیمت کا سرکاری اعلامیہ جاری نہ ہونے کی وجہ سے شوگر ملیں کسانوں کو 130 سے 140 روپے فی من گنے کی قیمت ادا کررہی ہیں جو ناانصافی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کسانوں کو کپاس کی قیمت کے حوالے سے بھی تشویش ہے۔ سال 2017-18میں52 بلین روپے لاگت سے 0.6 ملین ٹن کپاس درآمد کی گئی۔ اگر حکومت نے کپاس کی قیمت 4,000 روپے فی من مقرر نہیں تو وفاقی حکومت کو اس سال بھی کپاس کی درآمد پر اربوں روپے خرچ کرنا پڑیں گے۔ انھوں نے محکمہ خوراک سندھ کی جانب سے گندم کے خریداری مراکز کھولنے اور گندم کی امدادی قیمت مقرر کرنے میں تاخیر پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ چھ سال سے گندم کی مقرر کی جانے والی ایک ہی قیمت 1,300 روپے فی من کے بجائے گندم کی امدادی قیمت 1,500 روپے فی من مقرر ہونی چاہیے۔
(دی نیوز، 10مارچ، صفحہ17)

خوراک
اقوام متحدہ کی خوراک و زراعت کی عالمی تنظیم ایف اے او کے مطابق ادارہ پاکستان میں غذائی تحفظ اور غذائیت کی صورتحال پر ایک رپورٹ مرتب کرے گا۔ یہ پہلی قومی رپورٹ ہوگی جو ایف اے او کی عالمی سالانہ رپورٹوں کی طرز پر تیار ہوگی۔ اس رپورٹ کی تیاری میں سوئٹزرلینڈ کی سوئس ایجنسی فار ڈیولپمنٹ اینڈ کوآپریشن ایف اے او کو تعان فراہم کرے گی۔ رپورٹ حکومت کو خوراک کی فراہمی، طلب اور غذائی تحفظ کے حوالے سے برقت معلومات فراہم کرے گی۔
(ڈان، 13مارچ، صفحہ5)

پھل سبزی
بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میں کمی کے بعد بھارت سے سبزیوں کی غیرقانونی درآمد دوبارہ شروع ہوگئی ہے۔ بھارت سے غیر قانونی طور پر لایا گیا لہسن لاہور کی سبزی منڈی میں کھلے عالم دستیاب ہے۔ زرائع کے مطابق دو ٹرکوں پر لدا بھارتی لہسن بادامی باغ سبزی منڈی پہنچنے کے بعد گھنٹوں میں ہی فروخت ہوگیا۔ سری نگر۔مظفرآباد راستے سے مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے درمیان تجارت کا آغاز ہوچکا ہے اور بھارتی ٹماٹر اور دیگر سبزیوں سے لدے ٹرک راولپنڈی اور لاہور کی سبزی و پھل منڈیوں تک پہنچ گئے ہیں۔ بادامی باغ پھل و سبزی منڈی کی تجارتی انجمن کے جنرل سیکریٹری چودھری خالد محمود کا کہنا ہے کسٹم حکام کو تحریری طور پر اطلاع دیے جانے کے باوجود غیرقانونی درآمد بلا رکاوٹ جاری ہے۔ انہوں نے دعوی کیا کہ مبینہ طور پر بھارتی سبزیوں سے لدے ٹرک پنجاب کی منڈیوں تک کسٹم حکام کو رشوت دینے کے بعد پہنچتے ہیں۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 10مارچ، صفحہ2)

آلو
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قومی غذائی تحفظ و تحقیق نے آلو کے بحران کا مسئلہ وزیر اعظم کے سامنے اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے جس کی وجہ سے وسطی پنجاب کے آلو کے کاشتکار (قیمت میں کمی کے) بحران صورتحال کا سامنا کررہے ہیں۔ کمیٹی نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس صورتحال میں کسان اگلے سال آلو کے بجائے دوسری فصلوں کی کاشت کی طرف راغب ہوسکتے ہے۔ کمیٹی کے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ آلو کے بحران پر وزیر اعظم کو آگاہ کیا جائے گا اور اس بحران کے حل ے لیے تجاویز پیش کی جائیں گی۔ وزیر قومی غذائی تحفظ و تحقیق محبوب سلطان نے بھی اجلاس میں شرکت کی۔ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کسان آلو کی کاشت پر آنے والی لاگت بھی حاصل نہیں کرپا رہے ہیں۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ مارچ میں 160,000 ٹن آلو برآمد کیا جائے گا جس کے لیے برآمدی طلب (آڈر) موصول ہوچکی ہے۔
(ڈان، 13مارچ، صفحہ5)

کپاس
رواں موسم کے لئے جاری کردہ زرعی پالیسی کے تحت جنوبی پنجاب کے کسانوں کو منظور شدہ کپاس کے بیج کی خریداری پر زرتلافی فراہم کی جائے گی۔ ملتان، خانیوال، لودھراں، بھاولنگر، بھاولپور، رحیم یار خان، ڈیرہ غازی خان، لیہ، مظفر گڑہ اور راجن پور کے کسان اس زرتلافی کے لیے اہل ہونگے۔ یوبی۔2013، ایف ایچ لالہ زار، ایف ایچ 142، بی ایس15 اور ایم این ایچ 886 جیسے منظور شدہ بیجوں پر زرتلافی بڑھائی جائے گی۔ کسانوں کو پنجاب سیڈ کارپوریشن، بابا فرید کارپوریشن، نیلم سیڈز، جالندھر پرائیوٹ لمیٹڈ اور ہرل سیڈ کارپوریشن سے زرتلافی کی پرچی کے حامل بیج کے تھیلے خریدنے ہونگے۔ کسان کو زرتلافی کے حصول کے لیے اس پرچی پر درج نمبر اور اپنا قومی شناختی کارڈ نمبر 80709 پر بذریعہ پیغام (ایس ایم ایس) بھیجنا ہوگا۔
(بزنس ریکارڈر، 13مارچ، صفحہ16)

ماحول
پرونشل ڈیولپمنٹ ورکنگ پارٹی کے 19 ویں اجلاس میں رواں مالی سال کے لیے پنجاب حکومت نے شعبہ جنگلی حیات میں 6.01 بلین روپے لاگت کے ایک ترقیاتی منصوبے کی منظوری دیدی ہے۔ منظور شدہ منصوبہ پنجاب میں جنگلی حیات پر مشتمل وسائل کی بحالی منصوبہ (ترمیم شدہ) سرسبز پاکستان پروگرام میں شامل ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 9 مارچ، صفحہ3)

گندم
کسانوں نے رواں موسم کے لئے گندم کی خریداری مہم کے اعلان میں تاخیر پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے حکومت پر زور دیا ہے کہ خریداری مہم جنوبی پنجاب میں 15 اپریل سے اور وسطی پنجاب میں 20 اپریل سے شروع کی جائے۔ پنجاب واٹر کونسل کے بانی رہنما فاروق باجوہ کا کہنا ہے کہ اس موسم میں ملک اور صوبہ پنجاب میں بارشیں اچھی ہوئی ہیں اور نمی میں بھی اضافہ ہوگیا ہے جس کی وجہ سے کسانوں کو فصل کو بیماریوں اور پھپوندی سے محفوظ رکھنے کے لیے مزید اخراجات کرنے پڑیں گے۔ انھوں نے خدشہ کا اظہار کیا کہ اس سال محکمہ خوراک پنجاب گندم میں نمی کی سطح میں اضافہ کے بہانے اس کی خریداری کا عمل مؤخر کرسکتا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ کسانوں کو فصل کے لئے حاصل کئے گئے قرضوں کو واپس کرنے اور آئندہ فصل کے لئے بیج و مداخل خریدنے کے لئے ایک خاص وقت میں پیداوار کو فروخت کرنا ضروری ہوتا ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 12 مارچ، صفحہ18)

مال مویشی
وزیر مال مویشی و ماہی گیری سندھ عبدالباری پتافی نے کہا ہے کہ محکمہ مال مویشی، مویشیوں کی افزائش کے حوالے سے خدمات فراہم کرنے والا ادارہ لائیو اسٹاک بریڈنگ سروس اتھارٹی قائم کرنے کے لئے اقدامات کررہا ہے۔ اس اتھارٹی کے قیام کا مقصد افزائش نسل کے حوالے سے قوانین مرتب کرنا اور اس سے جڑے دیگر مسائل پر بات کرنا ہے۔ اس تھارٹی کے تحت ایک تحقیقی لیبارٹری بھی قائم کی جائے گی جہاں مختلف نسلوں کے مویشی رکھے جائیں گے اور مقامی مویشیوں کی افزائش کرنے والوں کو یہ سہولت حاصل ہوگی کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق افزائش نسل کے لیے مادہ منویہ (انسیمینیشن) حاصل کرسکیں۔
(بزنس ریکارڈر، 13مارچ، صفحہ16)

نکتہ نظر
اس ہفتے کی زرعی خبروں کا جائزہ لیا جائے تو مجموعی طور پر حکومتی ترجیحات میں زرعی تجارت میں اضافے، مال مویشی شعبہ میں پیداوار کے لیے کوششوں، زمین واگزار کروانے جیسے اقدامات نظر آتے ہیں۔ خبروں کے آغاز سے دیکھیں تو زمین واگزار کروانے کے لیے سرکاری حکام ان پر قائم چھوٹے دیہات کو بھی ختم کرکے مقامی افراد کو بیدخل کرنے پر کمربستہ ہیں جبکہ ملک میں سی پیک کے تحت جاری ترقیاتی و تجارتی منصوبوں کے لیے حکومت ملک بھر میں سرمایہ داروں کو زمین لیز پر دینے کی پیشکش کررہی ہے۔ یہی دہرا معیار آلو اور دیگر پھل سبزی کاشت کرنے والے کسانوں کے ساتھ بھی جاری ہے۔ ملک میں آلو کے کاشتکار آزاد تجارتی پالیسیوں اور غیر پائیدار طریقہ زراعت کی بدولت منڈی میں قیمت کم ہونے کی وجہ سے بحران کا شکار ہیں اور دوسری طرف کپاس کے کاشتکاروں کو بیج پر زرتلافی کی پیشکش کی جارہی ہے۔ جو کسی طور اس بات کی ضمانت نہیں کہ کسان زرتلافی حاصل کرکے کپاس کی پیداوار میں ہونے والے نقصان سے محفوظ رہیں گے۔ البتہ موجودہ کپاس کے جینیاتی بیج ہی ملک میں کپاس کی پیداوار میں کمی اور فصل کو لگنے والی مختلف بیماریوں کی وجہ سے کسانوں کی بدحالی، ماحولیاتی تباہی اور روایتی بیجوں کے خاتمے کے ذمہ دار ہیں جس سے غیر ملکی زرعی کمپنیاں آج تک منافع کمارہی ہیں۔ بیج اور دیگر زرعی مداخل بنانے والی کمپنیوں کے سرمایہ دار ایجنٹ ایک بار پھر نئی ٹیکنالوجی کا جھانسہ دے کر جینیاتی کپاس کی نئی قسم متعارف کروانے اور کارپوریٹ فارمنگ کو فروغ دینے کے لیے لابنگ کررہے ہیں۔یہاں یہ بات قابل زکر ہے کہ پڑوسی ملک بھارت میں جینیاتی بیج کی نئی قسم بھی بری طرح ناکامی سے دوچار ہے اور کسان مقروض ہوکر خودکشی کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔ سبز انقلاب سے لے کر آج تک سرمایہ دار ممالک کی جانب سے پیش کردہ زرعی ٹیکنالوجیاں ہوسکتا ہے کہ کسی حد تک پیداوار میں اضافے کا سبب بنی ہوں لیکن یہ صاف ظاہر ہے کہ کہیں پیداواری لاگت میں اضافے اور کہیں آزاد تجارتی پالیسیوں کی وجہ سے منڈی میں پیداوار کی قیمت کم ہونے کی بدولت ملک کا چھوٹا اور بے زمین کسان مزدور دو وقت کی روٹی سے بھی محروم ہوتا ہے جارہا ہے جس کی گواہی خود ان ممالک کے نام نہاد ترقیاتی و امدادی ادارے بھوک ،غربت اور غذائی کمی کے بلند ہوتے اعداوشمار کی صورت پیش کرتے ہیں۔

فروری 28 تا 6 مارچ، 2019
مکئی
ایک مضمون کے مطابق ایوان وزیر اعظم نے اعلان کیا ہے کہ عالمی زرعی اور غذائی کمپنی ’’کارگل‘‘ پاکستان میں اگلے دو سے پانچ سالوں میں 200 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گی۔ یہ اعلان وزیر اعظم عمران خان کی کمپنی کے دو اعلی افسران سے ملاقات کے بعد سامنے آیا۔ کم از کم ان لوگوں کو جو دیو ہیکل بائیو ٹیکنالوجی کمپنیوں کے بارے میں بہت تھوڑی معلومات رکھتے ہیں انہیں یہ سب بے ضرر نظرآرہا تھا۔ ان کمپنیوں میں سے ایک کمپنی مونسانٹو، جینیاتی تبدیلی کی حامل حیات یعنی جی ایم او (جینٹکلی موڈیفائیڈ آرگینزم) کی بانی ہے جس نے دنیا بھر میں کئی فصلوں اور کسانوں کو خوفناک تباہی سے دوچار کیا۔ اب کم از دنیا کے 35 ممالک نے جی ایم اوز پر پابندی عائد کردی ہے۔ یقیناًہمارے سیاسی رہنما اس طرح کے معاملات سے واقف نہیں ہیں لیکن خوش قسمتی سے وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق میں ایسے صاحب علم موجود ہیں، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اس (جینیاتی ٹیکنالوجی) پر مزاحمت کی ہے۔ اب امریکن بزنس کونسل آف پاکستان جو 64کمپنیوں کی نمائندگی کرتی ہے، وزیر اعظم سے جنیاتی مکئی کی کاشت کی اجازت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے۔ یہ امریکی کمپنیاں چاہتی ہیں کہ ان کے (جینیاتی فصلوں کے فروغ کے) متنازع منصوبوں پر عملدرآمد میں حائل رکاوٹیں ختم ہوجائیں۔ اچھی خبر یہ ہے کہ پاکستان کسان مزدور تحریک (پی کے ایم ٹی) نے اس سلسلے میں ایک پریس ریلیز ’’جینیاتی مکئی نامنظور‘‘ کے عنوان سے جاری کی ہے۔ پی کے ایم ٹی نے پاکستان میں جینیاتی مکئی کی کاشت کو رد کرنے کے وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کے موقف کی واضح حمایت کی ہے۔ بیج کمپنیوں اور جی ایم اوز پر پی کے ایم ٹی کا اپنا موقف گزشتہ ایک دہائی سے واضح ہے کہ یہ کمپنیاں کسانوں کے بیج کے اجتماعی حق کی خلاف ورزی کرتی ہیں اور چھوٹے و بے زمین کسانوں کو کنگال کردیں گی۔ سیڈ ایسوسی ایشن آف پاکستان نے بھی ملک میں جینیاتی مکئی کی کاشت کی شدید مخالفت کی ہے۔ غیر سرکاری سماجی تنظیمیں (سول سوسائٹی) بھی جینیاتی مکئی کی کاشت کے خلاف بھرپور مزاحمت کے لئے تیار ہیں۔
(زبیدہ مصطفی، ڈان، 1مارچ، صفحہ9)

خشک سالی
ایک خبر کے مطابق حلال احمر (ریڈ کراس) نے کہا ہے کہ پاکستانی تاریخ کی بد ترین خشک سالی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں غذائی کمی اور بیماریوں کی شرح انتہائی خطرناک حد پر ہے۔ ان علاقوں میں لوگ کھارا اور آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں۔ جنوبی سندھ اور بلوچستان شدید متاثرہ علاقے ہیں جہاں پینے کا صاف پانی نہ ہونے کی وجہ سے عورتیں خصوصاً حاملہ اور دودھ پلانے والی ماؤں سمیت بچے آسانی سے اسہال (ڈائریا)، الٹی اور بخار کا شکار ہیں۔ دی انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈ کراس اینڈ ریڈ کریسنٹ سوسائیٹیز پاکستان میں ریڈ کریسنٹ سوسائٹی کی عملے اور رضاکاروں میں اضافے کے لیے اور ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے 316,000 ڈالر امداد دے رہی ہے۔ حلال احمر بیماریوں کے خطرے سے دوچار اور خشک سالی سے شدید متاثرہ 15,000 افراد تک رسائی حاصل کرے گا۔ اس امداد کے ذریعے ادارہ شمسی توانائی کے حامل ٹیوب ویل کے ذریعے پینے کے صاف پانی تک رسائی، پانی کے ذخیرے، پانی صاف کرنے اور دیگر خدمات فراہم کرسکے گا۔ شدید متاثرہ افراد کو نقد رقم بھی ترسیل کی جائے گی۔
(ڈان، 2 مارچ، صفحہ3)

مرغبانی
ڈائریکٹر جنرل ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان (ٹڈاپ) اظہر علی ڈاہر کے مطابق مرغبانی شعبہ نے مرغبانی مصنوعات کی برآمد کے لیے نقل حمل پر 50 فیصد زرتلافی دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ مرغبانی شعبہ نے قیمت کے حوالے سے مصنوعات کو مسابقت کے قابل بنانے کے لیے درآمدات پر عائد ڈیوٹی، مقامی سطح پر عائد محصولات کو بھی ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ پاکستان دنیا کا دودھ پیداکرنے والا چھٹا، گوشت اور مرغبانی مصنوعات پیداکرنے والا آٹھواں بڑا ملک ہے۔ تاہم بین الاقوامی حلال منڈی میں ممکنہ مواقعوں سے اب تک فائدہ اٹھانا باقی ہے۔ اظہر علی ڈاہر نے متعلقہ اداروں پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے حلال معیارات اور سند جاری کرنے کے لئے ایک ادارہ قائم کریں جو عالمی حلال کونسل سے منسلک ہو۔ اس کے علاوہ حلال پارکس، حلال خصوصی برآمدی زون (ایکسپورٹ پروسیسنگ زون) جیسے بنیادی ڈھانچے بھی قائم ہونے چاہیے جہاں محصولات کے حوالے سے مراعات حاصل ہوں۔
(بزنس ریکارڈر، 6 مارچ، صفحہ3)

کپاس
ایک خبر کے مطابق وزیر اعظم عمران خان آئندہ ماہ کپاس کی اشارتی قیمت 3,500 روپے فی من کا اعلان کریں گے۔ اس اقدام کا مقصد کپاس کے زیر کاشت رقبے میں تیزی سے ہونے والی کمی پر قابو پانا ہے۔ وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق نے کپاس کی اشارتی قیمت 3,500 روپے فی من مقرر کرنے اور ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان کے ذریعے کسانوں سے 500,000 ٹن کپاس خریدنے کی تجویز دی تھی۔ وفاقی وزیر قومی غذائی تحفظ و تحقیق صاحبزادہ محبوب سلطان نے سینٹ کی قائمہ کمیٹی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ کپاس کی اشارتی قیمت اس کے زیر کاشت رقبے میں اضافے میں اہم کردار ادا کرے گی۔
(بزنس ریکارڈر، 28 فروری، صفحہ1)

غیر معیاری بیج اور کیڑے مار زہر کے استعمال کے ساتھ ساتھ کپاس کے زیر کاشت رقبے میں کمی کے منفی اثرات کی وجہ سے یکم مارچ تک کپاس کی پیداوار 10.47 ملین گانٹھیں ہوئی ہے جو گزشتہ سال اس ہی مدت کے مقابلہ میں 6.80 فیصد کم ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس سال کپاس کی پیداوار گزشتہ آٹھ سالوں کے عرصہ میں دوسری سب سے کم پیداوار ہے۔ کپاس کی سب سے کم پیداوار 2015-16 میں 9.7 ملین گانٹھیں ہوئی تھی۔ تاہم کپاس کی کم پیداوار کے ان دونوں واقعات کی وجوہات بالکل مختلف ہیں۔ تین سال پہلے کپاس کی پیداوار میں کمی کا سبب لشکری سنڈی (آرمی ورم) اور گلابی سنڈی کا زبردست حملہ تھا جبکہ رواں موسم میں کپاس کی پیداوار میں کمی کی وجہ اس کے زیر کاشت رقبے میں کمی اور غیر معیاری بیج و کیڑے مار زہر ہے۔ غیر سرکاری اعدادو شمار کے مطابق سال 2018-19 میں مقررہ ہدف نو ملین ایکڑ کے مقابلہ چھ ملین ایکڑ رقبے پر کپاس کاشت کی گئی ہے۔
(ڈان، 5 مارچ، صفحہ10)

پانی
ایک خبر کے مطابق دریائے سندھ پر قائم تربیلا ڈیم میں پانی کی سطح انتہائی نچلی سطح تک کم ہوگئی ہے۔ ڈیم میں صرف دو سے تین دن کا پانی موجود ہے کیونکہ ڈیم میں پانی کی آمد 17,300 کیوسک جبکہ انخلاء 30,000 کیوسک ہے۔ تاہم انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) نے دریائے چناب پر قائم منگلا ڈیم میں ربیع کی فصلوں کے لیے 0.9 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرلیا ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 28 فروری، صفحہ16)

وزیر زراعت سندھ اسماعیل راہو نے کہا ہے کہ وہ اور دیگر متعلقہ عہدیدار احتجاج کرنے والے کسانوں کے ساتھ بیٹھنے اور نہری پانی کی قلت سے متعلق ان کے مسائل پر بات کرنے کے لئے تیار ہیں۔ صوبائی وزیر نے مزید کہا کہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ضلع بدین کو پانی کی بدترین قلت کا سامنا ہے جس نے کسانوں کی کمر توڑ دی ہے۔ حالیہ بارشوں کے بعد تمام بیراجوں پر صورتحال بہتر ہورہی ہے۔ انہوں نے وفاقی حکومت اور دیگر متعلقہ اداروں کو ایک بار پھر کہا ہے کہ وہ صوبوں کے درمیان پانی کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنائیں تاکہ کسان کپاس، مرچ سمیت خریف کی دیگر فصلیں وقت پر کاشت کرسکیں۔
(ڈان، 28 فروری، صفحہ17)

ضلع بدین کے علاقے راجو خانانی میں کسانوں کی بڑی تعداد نے ماتلی۔تلہار شاہراہ پر پانی کی مسلسل قلت اور بااثر جاگیرداروں کی زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے سندھ اریگیشن اینڈ ڈرینج اتھارٹی (سیڈا) حکام کی جانب سے سیلابی نہر میں پانی موڑنے کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ پانی کی قلت نے کسانوں کی کمر توڑ دی ہے جس کے ذمہ دار محکمہ آبپاشی اور سیڈا کے حکام ہیں۔ ضلع بدین کو تھرپارکر کی طرح خشک سالی کا سامنا ہے لیکن حکمران بدین کے حصے کا پانی دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ مظاہرین نے پورے ضلع بدین کو خشک سالی سے متاثرہ ضلع قرار دینے اور فصلوں کی کاشت کے لیے پانی کی فراہمی تک تمام زرعی محصولات کی وصولی معطل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
(ڈان، 3 مارچ، صفحہ17)

بدین کے علاقے ٹنڈو باگو میں سینکڑوں کسانوں اور ان کے حامیوں نے 21 کلومیٹر طویل پیدل مارچ کے اختتام پر خبرادار کیا ہے کہ اگر انہیں 15 دنوں میں پانی فراہم نہیں کیا گیا تو وہ ڈائریکٹر سیڈا اور اس کے بعد وزیر اعلی ہاؤس، کراچی کا گھیراؤ کریں گے۔ کسانوں نے ڈائریکٹر سیڈا اور دیگر افسران کو برطرف کرنے کا مطالبہ کیا ہے جو مبینہ طور پر اکرم واہ اور پھلیلی کنال سے پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے بااثر جاگیرداروں کی زمینوں کے لیے پانی کا رخ موڑنے میں ملوث ہیں۔
(ڈان، 5 مارچ، صفحہ17)

گندم
سندھ کابینہ نے کھلی فروخت کے ذریعے پانچ ملین ٹن گندم برآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس حوالے سے وزیر خوراک ہری رام اور سیکریٹری خزانہ و دیگر ارکان پر مشتمل کمیٹی قائم کی گئی ہے جسے گندم کی برآمد کے لیے برآمدکنندگان سے بات کرنے اور انہیں سہولیات فراہم کرنے کا ہدف دیا گیا ہے۔ اجلاس میں کابینہ کے زیادہ تر ارکان نے گندم کی خریداری مہم کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس مہم سے چھوٹے کسانوں کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ کابینہ ارکان کا کہنا تھا کہ گندم کی نئی قیمت کا تعین منڈی پر چھوڑ دیا جائے۔ کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ پہلے برآمد کنندگان سے گندم کی برآمد کے لیے بات کی جائے اس کے بعد کابینہ کے اگلے اجلاس میں گندم کی خریداری کا ہدف مقرر کیا جائے گا۔ محکمہ خوراک سندھ کے پاس اس وقت 800,000 ٹن اضافی گندم موجود ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 28 فروری، صفحہ15)

ایوان زراعت سندھ نے صوبے میں گندم کی خریداری کے مراکز کے قیام میں تاخیر پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ قبول محمد کاتھیان کی سربراہی میں ہونیوالے اجلاس میں ایوان زراعت سندھ کے عہدیداران کا کہنا تھا کہ صوبے میں گندم کی کٹائی کا عمل شروع ہوچکا ہے لیکن اب تک محکمہ خوراک سندھ کی جانب سے گندم کی خریداری کے مراکز نہیں کھولے گئے۔ اجلاس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ گندم کی امدادی قیمت 1,500 روپے فی من مقرر کی جانی چاہیے۔ حکومت پر زور دیا گیا کہ گندم کی کٹائی کرنے والے کسانوں کو باردانہ فراہم کیاجائے۔ اجلاس میں حکومت سندھ کو یاد دہانی بھی کروائی گئی کہ کسان زرتلافی منصوبہ کے تحت ٹریکٹر کی قیمت ادا کر چکے ہیں، تاہم ایک سال گزرجانے کے باوجود بھی کاشتکاروں کو ٹریکٹر نہیں دئیے گئے ہیں۔
(ڈان، 4 مارچ، صفحہ15)

زمین
وزیر اعظم عمران خان نے پنجاب کے ایک روزہ دورے کے دوران اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پنجاب حکومت کو ہدایت کی ہے کہ زرعی زمین کو کم قیمت رہائشی منصوبوں کے لیے استعمال نہ کیا جائے اور زرعی زمینوں کے بڑے بڑے حصوں پر مکانات کی تعمیر کے بجائے کثیرالمنزلہ گھر تعمیر کیے جائیں۔
(ڈان، 2 مارچ، صفحہ2)

نکتہ نظر
اس ہفتے کی خبروں میں جینیاتی مکئی کے حوالے سے شائع ہونے والا ایک مضمون بھی شامل کیا گیا جس سے ملک میں امریکی اور دیگر سرمایہ دار ممالک کی دیوہیکل زرعی اور غذائی کمپنیوں کی اپنے کاروبار اور منافع میں اضافے کی خاطر پاکستانی سیاستدانوں اور حکمرانوں کے استعمال کے لیے اختیار کیے جانے والے حربوں کو باآسانی سمجھا جاسکتا ہے۔ ملک کے حکمران لاعلمی کے نہیں بلکہ مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہوئے ہیں جو جان بوجھ کر چھوٹے اور بے زمین کسان مزوروں کے پیدائشی بیج کے حق اور خوراک کی خودمختاری چھیننے کے لیے مونسانٹو جیسی دیوہیکل زرعی کمپنیوں کے مفادات کو تحفظ فراہم کررہے ہیں جس کا مظاہرہ بیج کا ترمیمی قانون اور پلانٹ بریڈرز رائٹس کو منظور کرکے کیا جاچکا ہے۔ ملک میں غیررسمی طور پر جینیاتی کپاس کو فروغ دینے کی وجہ سے کپاس کی بڑھتی ہوئی پیداواری لاگت اور کسانوں کی بدحالی جیسے نتائج آج واضح ہیں اس کے باوجود حکمران سرمایہ دار کمپنیوں کے مفاد کی خاطر ملک میں جینیاتی مکئی کو فروغ دینے میں پیش پیش ہیں جس پر دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک اس کی ماحول، کسان دشمن خصوصیات کی وجہ سے پابندی عائد کرچکے ہیں۔ معاشی حوالے سے ایک اہم ترین نکتہ یہ بھی ہے کہ اگر جینیاتی مکئی کی تجارتی بنیادوں پر کاشت کی اجازت دی گئی تو پاکستان کی دیگر غذائی برآمدات کا مستقبل خطرے سے ددچار ہوسکتا ہے کیونکہ یورپی یونین نے جینیاتی اشیاء و خوراک کی درآمد پر پابندی عائد کررکھی ہے جو پاکستانی غذائی مصنوعات کی ایک بڑی منڈی ہے۔ یہ عالمگیریت کی سفاکی ہی ہے کہ آج پاکستان اور اس جیسے تیسری دنیا کے ممالک کے حکمران ماحولیات، موسمی تبدیلی اور غربت و غذائی کمی کے ذمہ داروں کو ہی ان تمام مسائل کے حل کے طور پر پیش کررہے ہیں جو اس ملک کے کسانوں سے ان کے بیج جیسے وسائل پر اختیار چھین کر انہیں خوراک کا محتاج بنارہے ہیں۔ ملک بھر کے چھوٹے اور بے زمین کسان مزدروں کے لیے لازم ہے کہ وہ پاکستان کسان مزدور تحریک کی خوراک کی خودمختاری اور بیج کے حق کے لیے جاری جدوجہد کا حصہ بن کر زرعی شعبہ سے جینیاتی اور غیرپائیدار زرعی ٹیکنالوجی کو فروغ دینے والی کمپنیوں کو اکھاڑ پھینکیں اور جاگیرداروں، سرمایہ داروں پر مشتمل حکمرانوں کی کسان دشمن پالیسیوں اور اقدامات کے خلاف میدان عمل میں آئیں۔