ہفتہ وار زرعی خبریں اپریل 2020

اپریل 16 تا 22 اپریل، 2020

زراعت

ایک خبر کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا ہے کہ آئندہ بجٹ زرعی شعبہ کی بحالی کا ایک موقع ثابت ہوسکتا ہے۔ پاکستان کے زرعی شعبہ کو عالمی سطح پر مسابقت کے قابل بنانے کے لیے کسان دوست پالیسیوں پر مبنی ماحول انتہائی اہم ہے۔ زرعی شعبہ میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری مراعات (پیکجز) کی ضرورت ہے کیونکہ یہ شعبہ پاکستان کے قومی غذائی تحفظ، غربت کے خاتمے اور مستقبل میں ممکنہ پائیدار روزگار کے لیے اہم ہے اور رہے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی برائے زراعت کسانوں اور زرعی شعبہ کے مفادات کے تحفظ کے لیے موثر اقدامات کرے گی جو آئندہ بجٹ میں نمایاں ہونگے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 17 اپریل، صفحہ3)

پاکستان میں مارچ اور اپریل میں بے موسم بارشوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے عالمی ادارہ خوراک و زراعت (فاؤ) نے اپنی تجزیاتی رپورٹ میں کہا ہے کہ ملک میں ٹڈی دل کا حملہ بدتر ہوجائے گا جس سے گندم کی فصل کو نقصان ہوگا۔ مارچ اور اپریل کے دوران بارشوں سے پودوں کی افزائش میں بہتری ہوئی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپریل میں گرم موسم ٹڈیوں کی افزائش میں بھی مددگار ہوسکتا ہے۔
(ڈان، 19 اپریل، صفحہ9)

خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع میں تباہی مچانے کے بعد ٹڈی دل نے پشاور کا رخ کر لیا ہے۔ محکمہ تحفظ نباتات، پشاور کے ڈپٹی ڈائریکٹر ساجد خان کا کہنا ہے کہ ٹڈی دل پشاور کے قریب بارانی علاقے مٹانی تک پہنچ گئے ہیں۔ تاہم انہوں نے متاثرہ علاقے میں چھڑکاؤ کے لیے عملہ تعینات کردیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ٹڈیوں کا حملہ شدید نہیں ہے اور اس پر باآسانی قابو پایا جاسکتا ہے۔ زرعی ماہرین کو امید ہے کہ اگر ٹڈی دل کو محدود کرکے ان کا خاتمہ کردیا جائے تو صوبہ میں ٹڈی دل کا 90 فیصد مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 19 اپریل، صفحہ7)

برطانیہ کا محکمہ برائے بین الاقوامی ترقی (ڈیفڈ) اور اقوام متحدہ کا ادارہ خوراک و زراعت (فاؤ) کے درمیان مواصلاتی رابطے (ورچوئل) کے زریعے ایک ترمیمی معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ یہ معاہدہ ”بلڈنگ ڈیزاسٹر ریزیلنس ان پاکستان“ منصوبہ کے تحت ملک بھر میں ٹڈی دل کے خاتمے کی کوششوں کو جاری رکھنے کے لیے اضافی ایک ملین پاؤنڈ کی رقم مختص کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ برطانوی حکومت نے امداد کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت فاؤ وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق، محکمہ تحفظ نباتات، نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) اور صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیوں کے ساتھ متعلقہ سرکاری اداروں اور مقامی کسان آبادیوں کے اشتراک متاثرہ علاقوں میں کام کرے گا۔
(ڈان، 20 اپریل، صفحہ5)

حکومت کی جانب سے گندم اور چینی کے بحران پر ایف آئی اے کی رپورٹ موصول ہونے اور اس کی تفتیش قومی احتساب بیورو (نیب) کے حوالے کیے جانے کے بعد نیب نے تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔ زرائع کے مطابق کیس موصول ہونے کے بعد نیب نے زمہ داروں کو نامزد کرنے کے لیے تحقیقات شروع کردی ہے۔ نیب نے آٹا اور چینی بحران کے تمام قانونی پہلوں پر نظرثانی کے بعد قانونی کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 21 اپریل، صفحہ1)

سینٹر فار گلوبل اینڈ اسٹریٹجک اسٹڈیز کے زیر اہتمام منعقد کیے گئے (آن لائن) سیشن میں محمد نواز شریف زرعی یونیورسٹی ملتان کے وائس چانسلر ڈاکٹر آصف علی نے کہا ہے کہ کرونا وائرس کے دوران پابندیوں سے پاکستان کی عالمی تجارت متاثر ہورہی ہے اور اگر باقائدہ پالیسی سازی نہ کی گئی تو پھل و سبزیوں کی تجارت پر منفی اثرارت مرتب ہونگے۔ اس موقع پر پارک کے سابق چیئرمین ڈاکٹر یوسف ظفر کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس طبی بحران کے ساتھ ایک بڑا سماجی اور معاشی مسئلہ بھی ہے۔ انہوں نے ملک میں تحقیق و ترقی کے شعبہ میں استحکام کے لیے سرکاری شعبہ میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کرنے پر زور دیا۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 22 اپریل، صفحہ11)

گندم

ایک خبر کے مطابق گندم کے بحران سے متعلق ایف آئی اے کی جانب سے وزیر اعظم کے دفتر میں جمع کروائی گئی ضمنی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاسکو، محکمہ خوراک پنجاب اور سندھ کی جانب سے سال 2018 کی دوسری ششماہی میں اضافی گندم برآمد کرنے کی سفارشات منصفانہ تھیں۔ ایف آئی اے نے یہ ضمنی رپورٹ وزیر اعظم آفس کی جانب سے پہلے جمع کروائی گئی رپورٹ پر اٹھائے گئے سوالات کے جواب میں تیار کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ضرورت سے زیادہ گندم کے ذخائر، بیماریوں سے متاثرہ پرانا گندم کا ذخیرہ، سرکاری ذخائر سے گندم کی کم ترسیل، نئی فصل کے لیے گوداموں کی ضرورت اور بینک کے قرضہ جات پر بھاری سود نے صوبائی حکومتوں اور پاسکو کو گندم برآمد کرنے کی تجاویز پیش کرنے پر آمادہ کیا۔
(ڈان، 16 اپریل، صفحہ12)

ایک خبر کے مطابق سندھ میں چھوٹے کسان باردانے کے حصول میں مشکلات کی شکایت کررہے ہیں۔ سابق نائب صدر سندھ ہاری آبادگار بورڈ گاڈا حسین مہیسر کا کہنا ہے کہ ناصرف چھوٹے کسان بلکہ ہاری بھی بڑے تاجروں اور محکمہ خوراک کے درمیان پس رہے ہیں۔ چھوٹے کسانوں کو گندم 1,250 روپے فی من قیمت پر کھلی منڈی میں فروخت کرنے پر مجبور کردیا گیا ہے جبکہ گندم کے خریدار فی من ایک کلو کٹوتی کررہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ بڑے جاگیردار اور بااثر افراد کو باآسانی باردانے تک رسائی حاصل ہے جبکہ چھوٹے کسان اس سے محروم ہیں۔
(ڈان، 17 اپریل، صفحہ15)

زرعی یونیورسٹی فیصل آباد نے اگلے سال کے لئے گندم کے معیاری بیج تیار کرنے کے لیے منصوبہ بندی کرلی ہے۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد اشرف نے کہا ہے کہ یونیورسٹی کی گندم کی پیداوار گزشتہ سال کے مقابلے بڑھ جانے کی توقع ہے۔ انہوں نے سائنسدانوں پر زور دیا کہ وہ ملک کے غذائی تحفظ کے لیے چھوٹے قد کی بڑے گندم کے دانوں کی حامل اقسام تیار کریں جو فی ایکڑ پیداوار اور کسانوں کی آمدنی میں اضافے کے لیے مددگار ہونگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ”اناج“ نامی گندم کی قسم تین سے پانچ پانی کے بجائے صرف ایک بار پانی دے کر یونیورسٹی کے فارم میں کاشت کی گئی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 17 اپریل، صفحہ20)

غربت

ایک خبر کے مطابق وفاقی حکومت 3.134 ملین مستحق خاندانوں میں اب تک احساس ایمرجنسی کیش پروگرام کے تحت 37.608 بلین روپے تقسیم کرچکی ہے۔ جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق یہ پروگرام 15 اپریل کو دوسرے مرحلے میں داخل ہوچکا ہے جس میں دوسرے زمرے (کیٹگری) میں آنے والے مستحق افراد کو رقم کا اجراء شروع ہوگیا ہے۔ ان مستحق افراد کو نادرا کے کوائف کی جانچ کے بعد اہل قرار دیا گیا ہے۔ رقم کی تقسیم کے دوران بھڑ سے بچنے کے لیے حکومت کی جانب سے تقسیم کے مراکز میں اضافہ کیا جارہا ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 16 اپریل، صفحہ3)

ادارہ شماریات پاکستان کی جانب سے کیے گئے پاکستان سوشل اینڈ لیونگ اسٹینڈرڈ میجرمنٹ سروے رپورٹ 2018-19 کے مطابق پاکستان میں 84 فیصد گھرانوں کو غذائی تحفظ حاصل ہے جبکہ 16 فیصد گھرانے کم یا شدید غذائی کمی کا شکار ہیں۔ اس سروے میں دیہی اور شہری آبادی کے 2,5940گھرانوں سے تعلیم، صحت اور غذائی تحفظ پر مبنی معلومات حاصل کی گئی تھیں۔ رپورٹ کے مطابق شہری علاقوں کی نسبت دیہی علاقوں میں غذائی عدم تحفظ زیادہ ہے۔
(ڈان، 21 اپریل، صفحہ12)

پانی

ایشیائی ترقیاتی بینک نے پانی کی دستیابی بڑھانے اور زرعی پیداوار میں اضافے کے لیے 8.32 ملین ڈالر قرض کے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ یہ رقم پنجاب حکومت کی جانب سے منتخب کیے گئے پانچ بڑے آبی منصوبوں کی ابتدائی تجزیاتی رپورٹ و نقشہ جات کی تیاری پر خرچ ہوگی۔ یہ قرض زرعی شعبہ کی ترقی کے لیے مستقبل کے اہم آبپاشی منصوبوں کے بہتر آغاز کو یقینی بنائے گا۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 16 اپریل، صفحہ18)

نکتہ نظر

اس ہفتے کی زرعی خبریں پالیسی سازی، اقدامات اور موجودہ صورتحال کے تناظر میں حکومتی تضادات کی عکاسی کرتی ہیں۔ ملک بھر میں کرونا وائرس کے دوران جو بحران درپیش ہے اس میں ٹڈی دل کے زبردست حملوں کے امکانات پر مبنی خبریں قومی غذائی تحفظ کے لیے خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں جس کا نتیجہ موجودہ عالمی وبائی بحران میں مزید بھوک و غربت کی صورت سامنے آسکتا ہے۔ ٹڈی دل حملوں پر عالمی سامراجی اداروں کی پریشانیاں اور امداد کا مقصد کسی طور اس ملک کے غریب کسان مزدور عوام کی خوراک کی خودمختاری کا تحفظ نہیں بلکہ عالمی زرعی پیداواری منڈی پر ان آفات کی صورت پڑنے والے اثرات سے اپنی سرمایہ دار کمپنیوں اور معیشت کو محفوظ رکھنے اور ان کے مفادات کے تحفظ کے لیے ہے۔ چاہے پانی کی دستیابی کے لیے دیے جانے والے قرض ہوں یا آلات و ٹیکنالوجی، تمام تر منصوبے سرمایہ کاری کے زمرے میں آتے ہیں جن کا مقصد منافع کے حصول کے اس استحصالی نظام کو مزید مستحکم بنانا ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ملک کے زرعی اداروں کے ارباب اختیار بھی سامراجی آلہ کار بن کر ان حالات میں بھی زرعی برآمدت میں کمی کا رونا رورہے ہیں جبکہ موجودہ وبائی حالات خوراک کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے ہر طرح کی غذائی برآمدات پر پابندی کا تقاضہ کرتے ہیں۔ سرکاری سطح پر مجموعی طور پر بات چاہے گندم و چینی بحران کے ذمہ دار سرمایہ داروں کو گرفت میں لینے کی ہو یا ملک میں سامراجی اداروں کی مالی امداد سے کیے گئے بھوک و غربت کے سروے ہوں ہر سطح پر حکومت اور سرکاری ادارے تضادات اور ابہام کا شکار نظر آتے ہیں جس سے واضح پیغام ملتا ہے کہ چور اور انہیں پکڑنے والے ساہو کار چاہے وہ گندم کی خریداری کا معاملہ ہو، یا اس کی اسمگلنگ کا، چینی کی برآمد اور اس سے منافع خوری ہی کیوں نہ ہو، یا پھر انہیں پکڑنے کے لیے سرکاری تحقیقاتی تفتیشی ادارے سب جاگیردار، سرمایہ دار طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں جو کسی طور استحصال کے شکار کسان مزدور طبقات میں بھوک، غربت، وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم اور قبضے کا خاتمہ نہیں کریں گے۔ اس کے لیے چھوٹے اور بے زمین کسان مزدور، ماہی گیر طبقے کو ہی متحد ہوکر جدوجہد کے لیے میدان میں اترنا ہوگا اور اس استحصالی نظام کو ہی جڑ سے اکھاڑ پھیکنا ہوگا۔