اکتوبر 2018

اکتوبر 26 تا 31 اکتوبر، 2018 

بیج

زرعی شعبہ سے وابستہ شراکتداروں نے پنجاب حکومت کی نئی زرعی پالیسی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ شعبہ سے وابستہ تاجروں کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف حکومت کی تشکیل کردہ نئی زرعی پالیسی میں ملکی تاجروں کو یکساں مواقع فراہم نہیں کئے گئے ہیں۔ اس پالیسی سے صوبے میں کام کرنے والی بین الاقوامی کمپنیوں کو فائدہ ہوگا۔ نئی پالیسی کے تحت وفاق اور دیگر صوبائی حکومتوں کی مشاورت سے بیج کے اندراج اور اس حوالے سے قوائد و ضوابط کے لیے پنجاب سیڈ رجسٹریشن اینڈ ریگولیشن اتھارٹی کے قیام کی تجویز دی گئی ہے۔ اتھارٹی کے قیام کا مقصد کمپنیوں کا اندراج اور انہیں بیج کی تھیلی پردرج درست معلومات کی فراہمی کے لئے ترغیب دینا ہے۔ لیبل پر فراہم کی گئی تفصیلات کے مطابق بیج کے معیار کو برقرار رکھنے، بیج کی جانچ خود کرنے اور اس کی خصوصیات لیبل پر درج کرنے کی ذمہ داری (ملکی) نجی کمپنی پر ہوگی۔ لیبل پر کیے گئے دعوؤں کی جانچ اتھارٹی کرے اور چھوٹے دعوے کی صورت میں جرمانہ اور پابندیاں عائد کرے گی۔ صدر سیڈ ایسوسی ایشن آف پاکستان شفیق الرحمان کا کہنا ہے کہ وفاقی پہلے ہی بیج کے کاروبار کو کنٹرول کررہی ہے، ایک ہی شعبہ میں اس طرح کا متوازی نظام بیج کی صنعت میں مشکلات پیدا کرے گا۔ اس پالیسی مسودے میں بیج کمپنیوں کے لیے دہرا معیار تجویز کیا گیا ہے۔ یہ امتیازی سلوک ہے کہ بین الاقوامی بیج کمپنیاں درست لیبل کے ساتھ بیج فروخت کریں لیکن مقامی کمپنیوں کو کہا جارہا ہے کہ وہ بیج کی آزمائشی کاشت اور اس کے اندارج کے عمل سے گزریں۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 26 اکتوبر، صفحہ13)

پانی

سپریم کورٹ نے بوتل بند پانی (منرل واٹر) تیار کرنے والی کمپنیوں کے پانی کے استعمال سے متعلق مقدمہ میں چاروں صوبائی چیف سیکریٹریوں کو طلب کرلیا ہے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کی ان کمپنیوں پر عائد ٹیکس سے متعلق رپورٹ مسترد کردی ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل نے رپورٹ جمع کرواتے ہوئے کہا کہ پنجاب حکومت نے پانی کے استعمال کو مختلف درجوں میں تقسیم کیا ہوا ہے۔ ایسی کمپنیاں جو ان علاقوں سے زیر زمین پانی نکالتی ہیں جہاں پانی کی قلت کا سامنا ہے، وہ کمپنیاں75 پیسے فی لیٹر، اور جن علاقوں میں پانی کی کمی نہیں ہے 15 پیسے فی لیٹر ادا کرتی ہیں۔ چیف جسٹس نے دوران سماعت کہا کہ نیسلے کمپنی شیخوپورہ میں چھ ایکڑ زمین سے اربوں روپے کا بوتل بند پانی فروخت کرتی ہے اور حکومت نے اس پر صرف 75 پیسے فی لیٹر ٹیکس عائد کیا ہے۔ عدالت نے منرل واٹر فروخت کرنے والی تمام کمپنیوں کے کھاتوں کی چھان بین کرنے اور ہفتہ وار رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
(ڈان، 25 اکتوبر، صفحہ3)

ایک خبر کے مطابق پشاور کے میدانی علاقوں میں پانی کی کمی کی وجہ سے ہزاروں باغات اور زرعی زمین تیزی سے بنجر ہورہی ہے۔ مختلف دیہات سے تعلق رکھنے والے کاشتکاروں نے متعلقہ محکموں کی پانی کی قلت پر توجہ دلانے کے لیے چارسدہ روڈ پر احتجاجی ریلی نکالی۔ مظاہرین نے وزارت آبپاشی اور سیکریٹری آبپاشی کو خبردار کیا ہے کہ اگر وقت پر پانی کی ترسیل ممکن نہ بنائی گئی تو ان کے دفاتر کا گھیراؤ کیا جائے گا۔ پانی کی کمی کی وجہ سے گندم، مکئی گنے کی فصلیں اور ناشپاتی، خوبانی و دیگر پھلوں کے باغات بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔
(دی نیوز، 28 اکتوبر، صفحہ3)

گنا

اسٹیٹ بینک نے شوگر ملوں کو کہا ہے کہ وہ چینی کی برآمد کے لئے کسانوں کے بقایاجات اداکریں اور گنے کی کرشنگ نومبر سے شروع کریں۔ حکومت کی جانب سے ایک ملین ٹن چینی برآمد کرنے کی توثیق کرتے ہوئے بینک نے یہ شرائط عائد کی ہیں۔ چینی کی برآمد کے لیے ملوں کو متعلقہ گنا کمشنر کی تصدیقی سند درکار ہوگی کہ مل نے کسانوں کو سال 2017-18 کے تمام واجبات ادا کردیے ہیں۔ 15 نومبر کے بعد ایسی ہی ایک اور سند بھی درکار ہوگی جس میں تصدیق کی گئی ہو کہ مل نے پوری پیداواری صلاحیت کے ساتھ گنے کی کرشنگ کا آغاز کردیا ہے۔ چینی کی برآمد کے لیے یہ تصدیق بھی لازم ہوگی کہ شوگر مل ملک میں کسی بھی بینک کا نادہندہ نہیں ہے۔
(ڈ ان، 31 اکتوبر، صفحہ10)

پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن نے ملک بھر میں اگلے ماہ گنے کی کرشنگ شروع کرنے کے لیے چار مطالبات پیش کیے ہیں۔ ایسو سی ایشن نے حکومت سے 2011-12 سے اب تک کے 16.6 بلین روپے کے واجبات ادا کرنے اور گنے کی امدادی قیمت 180 روپے فی من کے بجائے چینی کی مقامی قیمت سے منسلک کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایسوسی ایشن نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ حکومت بغیر کسی شرائط کے ایک ملین ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دے جبکہ وزارت تجارت نے صرف ان شوگر ملوں کو چینی برآمد کرنے کی اجازت دی ہے جنھوں نے کسانوں کے گزشتہ سال کے واجبات ادا کردیے ہوں۔ اس کے علاوہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو ر 60 روپے فی کلو قیمت کے حساب سے ٹیکس وصول کرنے کے بجائے منڈی میں چینی کی قیمت کے حساب سے ٹیکس وصول کرے۔
(بزنس ریکارڈر، 31 اکتوبر، صفحہ6)

سندھ ہاری کمیٹی، سندھ گروورز آرگنائزیشن اور کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی زیرصدارت کاشتکاروں اور ہاریوں کی بڑی تعداد نے حیدرآباد میں احتجاجی دھرنا دیا۔ مظاہرین نے مطالبہ کیا ہے کہ گنے کے کاشتکاروں کو بقایاجات ادا کیے جائیں، گنے کی فی من قیمت 250 روپے مقرر کی جائے اور گنے کی کرشنگ 15 نومبر سے شروع کی جائے۔ مظاہرین نے سندھ حکومت سے کہا ہے کہ وہ ملوں کی جانب سے کسانوں کے بقایاجات کی ادائیگی کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کرے۔
(ڈان، 28 اکتوبر، صفحہ17)

مال مویشی

بلوچستان کے مال مویشیوں کے لیے خمیری چارے (سائیلج) کی پیداوارکے لیے مارکیٹ ڈیولپمنٹ فیسلٹی اور طلحہ انٹر پرائزز نے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ اقوام متحدہ کا عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او) بھی بطور شراکت دار کسان مرد و عورتوں میں خمیری چارے کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنے میں مدد فراہم کرے گا۔ اس معاہدے کے تحت مکئی کی خریداری، چارے کی تیاری اور اس کا ذخیرہ ملتان میں کیا جائے گا جہاں سے یہ چارہ بلوچستان ترسیل ہوگا۔ طلحہ انٹرپرائزز کے مطابق مارکیٹ ڈیولپمنٹ فنڈکی مشرکہ سرمایہ کاری سے بلوچستان میں خمیری چارے کی پیداوار اور اس کے فروغ میں تیزی آئے گی۔ مارکیٹ ڈیولپمنٹ فیسلٹی کو آسٹریلیا کی حکومت پاکستان میں تجارتی بڑھوتری میں مدد کے لیے سرمایہ فراہم کرتی ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 30 اکتوبر، صفحہ7)

خشک سالی

ایک خبر کے مطابق بلوچستان کے ضلع چاغی میں سنگین خشک سالی سے 7,000 سے زائد خاندان متاثر ہوئے ہیں۔ صوبائی حکومت کو بھیجے گئے ایک خط میں ڈپٹی کمشنر چاغی قسیم خان نے متاثرہ خاندانوں کے لئے فوری امداد کا مطالبہ کیا ہے۔ ڈائریکٹر پرونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی عطاء اللہ مینگل کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت کی ہدایت پر چاغی میں 3,000 متاثرہ خاندانوں کو غذائی اشیاء فراہم کی گئی ہیں۔ 2002 میں بھی ضلع چاغی بدترین خشک سالی کا شکار ہوا تھا جس کے نتیجے میں ہزاروں خاندانوں کو دیگر اضلاع کی طرف نقل مکانی کرنی پڑی تھی۔
(ڈی ایکسپریس ٹریبیون، 25 اکتوبر، صفحہ7)

غذائی کمی

وزیر اعلی سندھ کے مشیر برائے اطلاعات و قانون مرتضی وہاب نے کہا ہے کہ سندھ حکومت نے آئندہ ہفتے تھر کے 50,000 خاندانوں کے لئے غذائیت کا جامع منصوبہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ آزمائشی منصوبہ کے تحت غذائیت سے بھرپور غذائی اشیا پر مشتمل تھیلے 50,000 خاندانوں کو فراہم کئے جائینگے۔ خوراک کے ایک تھیلے پر 4,500 روپے لاگت آئیگی۔ ان خاندانوں کا انتخاب نادرا کے فراہم کردہ اعدادوشمار سے کیا گیا ہے۔ یہ آزمائشی منصوبہ تین مہینوں تک جاری رہے گا جس پر ہرماہ 220 ملین روپے لاگت آئے گی۔
(ڈان، 26 اکتوبر، صفحہ17)

نکتہ نظر

پاکستان میں نیولبرل پالیسیوں کا تسلسل کسی مخصوص حکومت کا محتاج نہیں ہے، حکمران جماعت کوئی بھی ہو سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور طبقہ اشرافیہ پر مشتمل ہر حکومت بین الاقوامی سرمایہ داروں کو عوامی مفاد کے خلاف مراعات اور چھوٹ دیتی ہے۔ بین الاقوامی بیج کمپنیوں کو ملک میں متعارف کردہ بیجوں کی آزمائشی کاشت جیسے ضابطوں سے مستثنی قراردینے اور مقامی بیج پیدا کرنے والوں پر کڑی شرائط عائد کرکے بین الاقوامی بیج کمپنیوں کے مفادات کو مکمل طور تحفظ دیاجارہا ہے جو ملک سے غربت بھوک ختم کرنے کے حکومتی دعوؤں کے برعکس اور خوراک کی قومی خودمختاری پر کمپنیوں کے قبضے کے مترادف ہے۔ اس صورتحال میں کہ جب تھر میں خشک سالی کی وجہ سے بچے بھوک اور غذائی کمی سے دم توڑتے ہوں، پشاور سے لے کر کوٹری تک کسان پانی کی کمی سے شدید متاثرہوں نیسلے جیسی بین الاقوامی غذائی کمپنی معمولی ٹیکس دے کر ہمارے آبی وسائل ہمیں ہی فروخت کرکے اربوں روپے سالانہ منافع سمیٹ رہی ہے۔ اب وقت ہے کہ اس ملک کے چھوٹے اور بے زمین کسان مزدور ملکی خودمختاری اور وسائل سرمایہ داروں کو سونپنے والے اس ظالم طبقے کے خلاف متحد ہو کر جدوجہد کا آغاز کریں اور اپنا حق چھین لیں۔

اکتوبر: 18 تا 24 اکتوبر، 2018

زمین

ہزارہ موٹروے کے متاثرین نے زمین کی قیمت نہ ملنے اور موٹروے سے ملحقہ سڑکوں (لنک روڈز) کی تعمیر میں تاخیر کے خلاف شنائی بالا میں احتجاج کرتے ہوئے ایک گھنٹے کے لیے شاہراہ قراقرم بند کردی۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ حکومت نے ہزارہ موٹروے کی تعمیر کے لئے ان کی زمینیں لیں لیکن نہ تو انہیں قیمت ادا کی جارہی ہے اور نہ ہی ملحقہ سڑکیں بنائی جارہی ہیں۔ مظاہرین ایڈشنل اسسٹنٹ کمشنر اور پولیس افسران کی جانب سے اس معاملے پر وفاقی حکومت کے اعلی حکام سے بات کرنے کی یقین دہانی کے بعد پرامن طور پر منتشر ہوگئے۔
(دی نیوز، 21 اکتوبر، صفحہ3)

گنا

ایک خبر کے مطابق چھوٹے کسانوں نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے درخواست کی ہے کہ سال 2018-19 کے لیے گنے کی امدادی قیمت 220 سے 250 روپے فی من مقرر کی جائے، شوگر ملوں کو کسانوں کے واجبادت ادا کرنے کا حکم دیا جائے اور پانی کی شدید کمی کے مسئلے کو حل کیا جائے۔ سندھ ایگریکلچر ریسرچ کونسل کے صدر علی پالھ ایڈوکیٹ سمیت دیگر مقررین نے حیدرآباد پریس کلب پر گنے کی کاشت اور پانی کی قلت کے موضوع پر ہونے والے مزاکرے میں کہا ہے کہ پانی کی کمی اور گنے کی کم قیمت کی وجہ سے کسانوں کا معاشی قتل ہورہا ہے۔ شوگر ملیں کسانوں کو گنے کی قیمت ادا کرنے میں تاخیر کرتی ہیں اور گزشتہ چار سالوں سے مسلسل کسانوں کو گنے کی جائز قیمت نہیں دی جارہی۔
(ڈان، 19 اکتوبر، صفحہ 17)

ایک خبر کے مطابق پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن نے حکومت کی جانب سے گنے کی کرشنگ کے لئے مقرر کردہ نئی تاریخ پر اعتراض کیا ہے۔ ایک بیان میں ایسوسی ایشن کے چیئرمین اسلم فاروق نے کہا ہے کہ روایتی طور پر گنے کی کرشنگ کا آغاز 30 نومبر سے ہوتا ہے۔ تاہم نئی حکومت نے گنے کی کرشنگ کے لئے 15 نومبر کی تار یخ مقرر کی ہے جو نامناسب ہے کیونکہ اس وقت تک گنا پک کر تیار نہیں ہوتا۔ ایسوسی ایشن نے گنے کی کرشنگ سے پہلے سے حکومت کو چار مطالبات منظوری کے لیے پیش کیے ہیں۔ ان مطالبات میں ملوں کو واجب الادا زرتلافی کی ادائیگی، چینی کی مقامی قیمت کی بنیاد پر گنے کی کم سے کم قیمت کا تعین، وفاقی حکومت کی جانب سے ایک ملین ٹن چینی برآمد کرنے کی غیر مشروط اجازت اور چینی پر سیلز ٹیکس کی شرح فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی جانب سے مقرر کرنے بجائے اس کی خوردہ قیمت کے مطابق مقرر کرنے کے مطالبات شامل ہیں۔
(ڈان، 23 اکتوبر، صفحہ10)

سندھ ہائی کورٹ نے واجبات کی عدم کی ادائیگی سے متعلق گنے کے کاشتکاروں کی دائر کردہ درخواست پر سیکریٹری زراعت سندھ کو طلب کرلیا ہے۔ سندھ گروورز الائنس اور دیگر کاشتکاروں نے عدالت سے رجوع کرتے ہوئے کہا تھا کہ شوگر ملوں کی جانب سے بقایاجات کی عدم ادائیگی کے خلاف کاشتکاروں نے گنا کمشنر کے پاس سینکڑوں درخواستیں جمع کرائی ہیں جو تاحال تعطل کا شکار ہیں۔ گزشتہ سماعت کے دوران عدالت نے گنا کمشنر کو ہدایت کی تھی کہ وہ جائزہ لے کر بتائیں کہ آیا کاشتکاروں کو 160 روپے فی من گنے کی قیمت ادا کی جارہی ہے اور ساتھ ہی کسانوں کو گنے کی قیمت کی ادائیگی کو یقینی بنائیں۔ گنا کمشنر کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ انہیں کسانوں کی جانب سے 1,012 درخواستیں موصول ہوئی تھیں جنہیں شوگر ملوں کو بھجوادیا گیا تھا کہ وہ کسانوں کو ادائیگی کریں۔ عدالت نے عدم ادائیگی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سیکریٹری زراعت سندھ کو اگلی سماعت پر طلب کرلیا ہے۔
(ڈان، 23 اکتوبر، صفحہ17)

زراعت

سندھ کے کاشتکاروں نے صوبائی حکومت سے کہا ہے کہ وہ زرعی شعبہ پر پانی کی قلت کے اثرات کم کرنے اور درآمدی اخراجات کم کرنے کے لیے روغنی بیج کی فصلوں پر زرتلافی فراہم کرے۔ ایوان زراعت سندھ نے پنجاب کی طرز پر ایک بلین روپے کی زرتلافی دینے کا مطالبہ کیا ہے جہاں پنجاب حکومت گزشتہ دوسال سے روغنی بیج کی فصلوں پر زرتلافی ادا کررہی ہے۔ نائب صدر ایوان زراعت سندھ نبی بخش سہتو کا کہنا تھا کہ خوردنی تیل کی کاشت کو فروغ اور زرعی شعبہ کو زرتلافی کی فراہمی کے ذریعے صرف سندھ ہی ملکی (خوردنی تیل کے) درآمدی اخراجات کو سالانہ تین بلین ڈالر سے ایک بلین ڈالر تک کم کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ ان کا مزید کہناتھا کہ گزشتہ دہائی کے دوران سورج مکھی اور سویابین کی کاشت میں کمی کی وجہ ان فصلوں کی قیمت میں کمی ہے۔ گزشتہ سال سندھ میں 65,000 ایکڑ رقبے پر روغنی بیج کی فصلیں کاشت کی گئی تھیں جبکہ ایک دہائی قبل ان فصلوں کا زیر کاشت رقبہ 300,000 ایکڑ تھا۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 21 اکتوبر، صفحہ5)

پھل سبزی

سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت نے حکومت کو سستی خوراک کی درآمد اور پڑوسی ممالک سے سبزیوں اور پھلوں کی غیرقانونی درآمد روکنے کے لیے موثر مؤثر اقدمات کرنے کی تجویز دی ہے۔ اس کے علاوہ کمیٹی نے پاکستان ایگری کلچرل اسٹوریج اینڈ سروسز کارپوریشن کو بھی بلوچستان کے کسانوں سے پھل اور سبزیاں خریدنے کی تجویز دی ہے۔ سستی سبزیوں اور پھلوں کی درآمد کے بلوچستان کے کسانوں پر پڑنے والے اثرات سے متعلق سنیٹر میر کبیر احمد شاہی کا کہنا تھا کہ حکومت ایسی پالیسیاں اپناتی ہے جو بلواسطہ اور بلاواسطہ بلوچستان کے کسانوں کو متاثر کرتی ہیں۔ حکومت پھل و سبزیوں کے منڈی میں آنے کے موسم میں بھارت، افغانستان اور ایران سے ان اشیاء کی درآمد کی اجازت دیتی ہے۔ سینٹر نے حکومت پر زور دیا ہے کہ بلوچستان کے کسانوں کی مدد کے لیے پھل و سبزیوں کی درآمدات محدود کی جائیں۔
(ڈان، 18 اکتوبر، صفحہ10)

غربت

سیکریٹری محکمہ صحت سندھ عثمان چاچڑ نے ایک اعلی سطح اجلاس کے دوران وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ کو بتایا ہے کہ سال 2018 میں تھر میں مرنے والی بچوں کی تعداد گزشتہ چار سالوں کے مقابلے زیادہ ہے۔ رواں سال کے دوران تھرپاکر میں 505 بچے ہلاک ہوچکے ہیں۔ سال 2017 میں 450، 2016 میں 479 اور 2015 میں 398 بچے تھرپاکر میں ہلاک ہوئے تھے۔ سیکریٹری صحت نے مزید کہا کہ بچوں کی اموات کی کئی وجوہات ہیں جن میں پیدائشی طور پر وزن میں کمی، نمونیا، شدید غذائی کمی اور اسہال وغیرہ شامل ہیں۔
(ڈان، 20 اکتوبر، صفحہ15)

مال مویشی

وزیر مال مویشی سندھ عبدالباری پتافی نے مٹھی، تھرپارکر میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا ہے کہ تھرپار کر کے مال مویشیوں کو چارہ فراہم کرنے کے لئے حکومت کے پاس مالی وسائل کی کمی ہے۔ تھرپارکر کے سات ملین مال مویشیوں کو چارہ فراہم کرنا ایک مشکل اور مہنگا عمل ہے۔ صوبائی وزیر نے سیکریٹری سندھ کے صوبے کے تمام آفت زدہ اضلاع میں چارے کی فراہمی سے متعلق بیان سے لاعلمی کا اظہار کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’سندھ حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کررہی ہے، لیکن تھرپارکر پاکستان کا حصہ ہے اور وفاقی حکومت کو خشک سالی سے متاثرہ افراد کی مدد کے لیے آگے آنا چاہیے‘‘۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 23 اکتوبر، صفحہ5)

ماہی گیری

ترجمان پاکستان میر ی ٹائم سیکورٹی ایجنسی کے مطابق ادارے نے 12 بھارتی ماہی گیروں کو مبینہ طور پر پاکستانی سمندی حدود میں مچھلیوں کا شکار کرنے کے الزام میں حراست میں لے لیا ہے۔ ماہی گیروں کی ایک کشتی بھی ضبط کرلی گئی ہے۔ ان بھارتی ماہی گیروں کو مزید قانونی کارروائی کے لئے ڈاکس پولیس کے حوالے کردیا گیا ہے۔
(ڈان، 19 اکتوبر، صفحہ 15)

ایک خبر کے مطابق پاکستان میری ٹائم سیکورٹی ایجنسی نے پاکستانی سمندری حدود میں شکار کرنے والے 16 بھارتی ماہی گیروں کو گرفتار کرلیا ہے۔ بھارتی ماہی گیروں کی دو کشتیاں بھی ضبط کرلی گئی ہیں۔ گرفتار ہونے والے تمام ماہی گیروں کا تعلق بھارتی ریاست گجرات سے ہے جنہیں مزید قانونی کارروائی کے لیے مقامی پولیس کے حوالے کردیا گیا ہے۔
(ڈان، 24 اکتوبر، صفحہ 16)

نکتہ نظر

اس ہفتے کی خبروں میں گنے کی قیمت کے حوالے سے خبریں نمایاں ہیں۔ ہر سال کی طرح اس بار بھی گنے کی کرشنگ اور اس کی قیمت کے حوالے سے شراکت داروں کے درمیان بحث اور کھینچا تھانی کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے جس میں اب تک بظاہر حکومت تماشائی کا کردار ادا کررہی ہے۔ پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن نے اس دفعہ کرشنگ سے پہلے ہی شرائط عائد کردی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی گنے کے چھوٹے کسان خصوصا سندھ میں، نقصان کا شکار ہوسکتے ہیں جہاں اب تک کسان گنے کی قیمت وصول کرنے کے لیے عدالتی دھکے کھارہے ہیں۔ پاکستان میں نیو لبرل پالیسیوں کے تحت ایک طرف تو صنعتی بنیادوں پر منڈی کی ضروریات کے تحت پیداواری طریقے رائج کیے گئے جن کے نتیجے میں وسائل کے غیرپائیدار استعمال کے ذریعے زہریلی اور ماحول دشمن زرعی پیداوار کو فروغ حاصل ہوا اور کسانوں کی پیداواری لاگت میں بے تحاشہ اضافہ ہوا۔ اب دوسری طرف اس پیداوار سے بھرپور منافع کمانے کے لیے سرمایہ دار طبقہ برآمدات میں اضافے اور معاشی ترقی کی دہائیاں دے کر، ٹیکسوں میں چھوٹ، زرتلافی اور غیرمشروط برآمد کے لیے چھوٹے کسانوں کا معاشی قتل کرنے پر تلا ہے۔ سرمایہ داروں کو نفع پہنچانے کے لیے خود سرمایہ دار حکمرانوں اور جاگیرداروں کی رائج کردہ حکومتی پالیسیاں کس طرح غریب کسان مزدور طبقے کا استحصال کرتی ہیں، بلوچستان کے کسانوں کے حوالے سے خبر اس کی ایک چھوٹی سی مثال ہے۔ ایک طرف تھر میں خوراک نہ ہونے سے بھوک سے مرتے بچے ہیں اور ایک طرف خود خوراک اگانے والے غربت کے شکار کسان آزاد تجارتی پالیسیوں، ناانصافی اور وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم کا نتیجہ ہیں۔ ان وجوہات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے استحصال کے شکارطبقے کی جدوجہد ہی خوراک کی خودمختاری اور خوشحالی کی ضمانت ہے۔

اکتوبر 11 تا 17 اکتوبر، 2018

زرعی قرضے

ایک مضمون کے مطابق گزشتہ مالی سال صرف 18,606 بڑے زمینداروں نے 222.7 بلین روپے کے زرعی قرضے حاصل کیے ہیں جبکہ 1.752 ملین چھوٹے کسانوں نے صرف 183.6 بلین روپے کے زرعی قرضے حاصل کیے۔ اسی طرح درمیانے درجے کے 110,000 زمینداروں نے 76.3 بلین روپے کے قرضہ جات حاصل کیے۔ یہاں یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں 50 ایکڑ سے زیادہ زمین جبکہ سندھ اور بلوچستان میں 64 ایکڑ سے زیادہ زمین رکھنے والوں کو بڑا زمیندار کہا جاتا ہے۔ پنجاب اور کے پی کے میں 12.5 ایکڑ تک، سندھ میں 16 ایکڑ تک اور بلوچستان میں 32 ایکڑ تک زمین رکھنے والوں کو چھوٹا کسان کہا جاتا ہے۔ درمیانے درجے کا کسان تمام صوبوں میں اسے کہا جاتا ہے جو (زمینی ملکیت کے حساب سے) چھوٹے کسان اور بڑے زمیندار کے درجہ کے درمیان میں آتا ہو۔ زرعی قرضوں کی فراہمی میں چھوٹے کسانوں کو مستقل نظر انداز کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے زرعی شعبہ میں ممکنہ ترقی کا مکمل حصول مشکل ہوجاتا ہے۔ ویسے تو ملک میں چھوٹے کسانوں کی بدحالی زمین کی ملکیت سے لے کر جبری مشقت، فصلوں کے لئے پانی کی فراہمی یا زرعی مداخل کی دستیابی تک ہر سطح پر دیکھی جاسکتی ہے لیکن بینک بھی زرعی قرضوں کی فراہمی میں چھوٹے کسانوں کو نظر انداز کررہے ہیں جو حیرت انگیز ہے۔
(محی الدین اعظیم، ڈان، 15 اکتوبر، صفحہ2 بزنس اینڈ فنانس)

کپاس

کپاس کمشنر ڈاکٹر خالد عبداﷲ نے سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قومی غذائی تحفظ و تحقیق میں کپاس کی پیداوار کا مختصر جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں کپاس کی پیداوار میں 3.52 ملین گانٹھوں کی کمی کا خدشہ ہے۔ 14.37 ملین گانٹھوں کے ہدف کے مقابلے 10.84 ملین گانٹھیں کپاس کی پیداوار متوقع ہے۔ پانی کی شدید کمی کی وجہ سے کاشتکاروں نے کپاس کے زیر کاشت رقبے میں کمی کردی ہے جس کی وجہ سے کپاس کی پیداوار میں شدید کمی ہوگئی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 11 اکتوبر، صفحہ19)

زراعت

آنے والے ربیع کے موسم میں پانی کی متوقع کمی کے تناظر میں وفاقی کمیٹی برائے زراعت (فیڈرل کمیٹی آن ایگری کلچر) نے گندم کا پیداواری ہدف 25.6 ملین ٹن مقرر کیا ہے جو گزشتہ سال کے ہدف 26.46 ملین ٹن سے 3.25 فیصد کم ہے۔ سیکریٹری وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق ڈاکٹر محمد ہاشم پوپلزئی کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں صوبوں کو تجویز دی گئی ہے کہ وہ روغنی بیجوں اور دالوں کی کاشت پر توجہ مرکوز کریں تاکہ ان کے درآمدی اخراجات کم کیے جاسکیں۔ اس کے علاوہ 1,194,600 ہیکٹر رقبے پر 5.5 ملین ٹن مکئی کی پیداوار کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ کمیٹی میں خریف کی فصلوں کا جائزہ لیتے ہوئے بتایا گیا کہ سال 2018-19 میں گنا اور چاول کی پیداوار کا اندازہ بلترتیب 68.25 ملین ٹن اور 7.1 ملین ٹن لگایا گیا ہے۔
(ڈان، 12 اکتوبر، صفحہ10)

صدر ایوان زراعت سندھ (سندھ چیمبر آف ایگری کلچر) قبول محمد کاتھیان نے وفاقی حکومت سے ان زرعی مداخل پر زرتلافی دینے کا مطالبہ کیا ہے جن کی قیمت میں روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے اضافہ ہوا ہے۔ حیدرآباد میں ایوان زراعت سندھ کے اجلاس میں ارکان نے کیمیائی کھاد، زرعی زہر، ہائبرڈ بیج، ڈیزل اور دیگر زرعی مداخل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اجلاس میں گنے کی امدادی قیمت مقرر کرنے کے لئے شوگر کین بورڈ کا اجلاس طلب کرنے میں صوبائی حکومت کی جانب سے تاخیر کی مذمت بھی کی گئی۔ ارکان نے حکومت سندھ سے مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر شوگر کین بورڈ کا اجلاس طلب کیا جائے اور گنے کی قیمت 250 روپے فی من مقرر کی جائے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 15 اکتوبر، صفحہ5)

ایک خبر کے مطابق پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک کے تحت ایک قانونی معاہدے پر دستخط کیے جانے کا امکان ہے۔ اس معاہدے کا مقصد زرعی شعبہ میں سرمایہ کاری لانا اور اضافی پیداوار چین کی بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے برآمد کرنا ہے۔ وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق اور منصوبہ بندی و ترقی کے حکام کے مطابق اگر یہ معاہدہ ہوجاتا ہے تو یہ دونوں حکومتوں کے مابین خودمختاری کی بنیاد پر ہوگا جس میں ترجیح زرعی پیداوار میں اضافے اور اضافی پیداوار چین برآمد کرنے پر ہوگی۔ معاہدے کے تحت چینی کمپنیوں کی جانب سے کسانوں کو نقصان سے محفوظ رکھنے کے لیے ان کی پیداوار کو خریدنے کی ضمانت دی جاسکتی ہے۔ مشترکہ منصوبوں میں چینی سرمایہ کاری کی اجازت ہوگی لیکن ہوسکتا ہے کہ انہیں زمین خریدنے کی اجازت نہ دی جائے۔ ایک وفد چین کے زراعت اور دیہی معاملات کے نائب وزیر کی قیادت میں معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے اس وقت پاکستان کے دورے پر ہے جس نے وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی خسرو بختیار سے ملاقات کی ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 16 اکتوبر، صفحہ13)

خیبرپختوخوا حکومت نے بجٹ 2018-19 میں زرعی شعبے میں 40 منصوبوں کے لئے 2.57 بلین روپے مختص کیے ہیں۔ ان منصوبوں میں سے 30 منصوبے پہلے سے جاری ہیں جبکہ 10 نئے منصوبوں کے لئے 355 ملین روپے مختص کیے گئے ہیں۔ بجٹ دستاویز کے مطابق زرعی اور مال مویشی شعبہ کے پی کے کی مجموعی پیداوار کا 24 فیصد ہے جس سے صوبہ کی 50 فیصد افرادی قوت وابستہ ہے۔
(ڈان، 16 اکتوبر، صفحہ7)

گندم

آٹا مل مالکان نے سندھ حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ (ملوں کو) گندم کی قیمت فروخت کا اعلامیہ جاری کرے۔ اخبار سے بات کرتے ہوئے پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن سندھ کے چیئرمین جاوید یوسف کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال سندھ حکومت نے اگست کے مہینہ میں گندم کی قیمت فروخت مقرر کردی تھی اور ستمبر کے آغاز سے گندم کا اجراء شروع ہوگیا تھا لیکن اس سال محکمہ خوراک سندھ نے اب تک گندم کی قیمت کا اعلان نہیں کیا۔ مسئلہ کے حل کے لیے ایسوسی ایشن کے وفد نے سیکریٹری محکمہ خوراک سندھ نواز شیخ سے ملاقات کی ہے۔ ملاقات میں سیکریٹری محکمہ خوراک کا کہنا تھا کہ انہوں نے پلاسٹک کی بوری میں 100 کلو گرام گندم کی قیمت 3,150 روپے جبکہ پٹ سن کی بوری میں 100 کلوگرام گندم کی قیمت 3,250 روپے مقرر کرنے کی سمری منظوری کے لئے وزیر اعلی سندھ کو بھیج دی ہے۔ محکمہ خوراک سندھ اس سال آٹا ملوں کو ایک ملین ٹن گندم فراہم کریگا۔
(ڈان، 14 اکتوبر، صفحہ10)

چینی

ایک خبر کے مطابق پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن نے حکومت پر زور دیا ہے کہ چینی کو چین برآمد کی جانے والی محصولات سے مستثنی اشیاء کی فہرست میں شامل کیا جائے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی عدم توازن کو بہتر بنایا جاسکے۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے تجارت و صنعت اور ٹیکسٹائل کو لکھے گئے ایک خط میں ایسوسی ایشن نے کہا ہے کہ گزشتہ سال ملک میں چینی کی 6.6 ملین ٹن شاندار پیداوار ہوئی جبکہ سال 2016-17 کی دو ملین ٹن چینی پہلے ہی ذخائر میں موجود تھی۔ پچھلی حکومت نے دو ملین ٹن چینی کی برآمد پر زرتلافی فراہم کی تھی جس کی 60 فیصد ادائیگی اب بھی حکومت پر واجب الادا ہے۔ اگر ملوں کو یہ واجبات ادا نہیں کیے گئے تو مل گنے کی گرشنگ شروع نہیں کرسکیں گے۔ خط میں مزید کہا گیا ہے کہ شوگر ملیں چین کو ایک ملین ٹن چینی برآمد کرسکتی ہیں جس سے ناصرف مقامی منڈی میں چینی کی قیمت بہتر ہوگی بلکہ ملوں کو گنے کی امدادی قیمت ادا کرنے میں بھی مدد ملے گی اور ساتھ ہی ملک کو زرمبادلہ بھی حاصل ہوگا۔
(بزنس ریکارڈر، 17 اکتوبر، صفحہ17)

آٹا

وزیر زراعت سندھ اسماعیل راہو نے صوبے میں اچانک آٹے کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹس لیتے ہوئے ذمہ داروں کے خلاف فوری کاروائی کا حکم دیا ہے۔ صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ سندھ میں گندم کا کوئی بحران نہیں ہے گوداموں میں بڑی مقدار میں گندم موجود ہے۔ یہ سراسر ناانصافی ہے کہ عوام کو سرکاری نرخ سے زیادہ قیمت پر آٹا فروخت کیا جائے۔
(ڈان، 11 اکتوبر، صفحہ17)

پانی

ایک خبر کے مطابق چیئرمین انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) شیر زمان خان نے سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قومی غذائی تحفظ و تحقیق کو بتایا ہے کہ حالیہ مون سون کے موسم میں بارشیں کم ہونے کی وجہ سے ربیع کے موسم میں 40 فیصد پانی کی کمی کا خدشہ ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سال کے اختتام تک مناسب مقدار میں متوقع بارشوں کی صورت میں صورتحال بہتر ہونے کی امید ہے۔
(ڈان، 11 اکتوبر، صفحہ10)

پشاور یونیورسٹی میں ماہرین نے دریائے کابل کے حوالے سے ہونے والی قومی کانفرنس میں کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان دریائے کابل کے پانی پر معاہدہ کریں۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اس دریا پر ڈیموں کی تعمیر سے ماحولیاتی نظام متاثر ہوگا۔ پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر آصف کا کہنا تھا کہ افغان حکومت نے بھارتی مالی اور تکنیکی معاونت سے دریائے کابل پر 12 آبی ذخائر تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے جس سے 2,400 میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی۔ ان ڈیموں کی تعمیر سے پاکستان خصوصاً خیبرپختونخوا کا زرعی شعبہ شدید متاثر ہوگا کیونکہ دریا کی تین بنیادی شاخوں میں پہلے ہی پانی کا بہاؤ 50 فیصد کم ہوچکا ہے۔ پشاور میں تعینات افغان قونصل جنرل پروفیسر معین مارسٹییل نے کانفرنس میں دریائے کابل کے پانی پر دوطرفہ معاہدے کی تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے علاقائی اور بین الاقوامی آبی قوانین دونوں ممالک کے درمیان مسئلے کے حل کے لئے رہنمائی کرسکتے ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان پاکستان کے ساتھ پانی کے مسئلے پر عالمی قوانین بشمول ہیلسنکی کنونشن کے تحت مزاکرات کے لیے تیار ہے۔
(ڈان، 11 اکتوبر، صفحہ7)

ایک خبر کے مطابق حکومت نے آبی شعبہ کے لیے اہداف مقرر کرنے اور صوبوں کے درمیان پائے جانے والے آبی تنازعہ کے حل کے لئے اس مہینے کے آخری ہفتے میں قومی آبی کونسل (نیشنل واٹر کونسل) کا اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سال اپریل میں مشترکہ مفادات کونسل (کونسل آف کامن انٹرسٹ) میں ملک کی پہلی آبی پالیسی منظوری کی گئی تھی جس کے تحت ضروری ہے کہ ملک کے آبی مسائل بشمول آبی ذخائر کی ترقی کے لیے قومی آبی کونسل قائم کی جائے۔ وزیر اعظم کی صدارت میں اس کونسل میں چاروں وزراء اعلی اور وفاقی وزراء برائے آبی وسائل، خزانہ، توانائی اور منصوبہ بندی و ترقی بھی شامل ہونگے۔ نجی شعبہ کے پانچ آبی ماہرین بھی اس کونسل میں شامل ہونگے۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم آزاد کشمیر اور وزیر اعلی گلگت بلتستان کی بھی قومی آبی کونسل کے اجلاس میں شمولیت ضروری ہے۔
(ڈان، 13 اکتوبر، صفحہ3)

غربت

سندھ حکومت نے وزیر اعلی سندھ کی زیر صدارت کابینہ کے اجلاس میں دیہات اور شہروں میں غربت میں کمی کے لیے حکمت عملی کی منظوری دے دی ہے۔ اس منصوبے کے تحت اگلے پانچ سالوں میں تعلیم، صحت، پانی، نکاسی اور دیہات کی اندرونی سڑکوں کی تعمیر کے لیے 72.5 بلین روپے کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔ یہ حکمت عملی محکمہ منصوبہ بندی و ترقی سندھ کی جانب سے یورپی مدد سے دو سالہ تحقیق و سروے کے بعد تیار کی گئی ہے۔ وزیر اعلی سندھ کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ پہلے سے جاری غربت میں کمی کے منصوبوں میں ایک اضافہ ہے۔
(ڈان، 15 اکتوبر، صفحہ15)

نکتہ نظر

پاکستان میں نئی حکومت کے بعد تبدیل شدہ پالیسیوں کے اثرات بھی واضح ہونا شروع ہوچکے ہیں۔ روپے کی قدر میں کمی، ایندھن کی قیمت میں اضافہ یقیناً زرعی مداخل کی قیمتوں میں اضافے اور پیداواری لاگت میں اضافے کا سبب بنے گا جو بلاآخر ملک میں چھوٹے اور بے زمین کسان مزدروں اور صارفین کو متاثر کرے گا اور غربت وغذائی کمی میں مزید اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔ سندھ میں غربت کے خاتمے لیے اربوں کے منصوبوں کا اجراء ہوسکتا ہے کہ بنیادی ڈھانچے میں بہتری کا سبب بن سکے لیکن یہ توقع رکھنا کہ اس سے غربت کا خاتمہ ہوسکتا ہے، حقیقت سے نظریں چرانے کے مترادف ہے۔ جب زرعی ملک میں پیداوار کے لیے لازمی جز زمین ہی سے ملک کا اکثریتی کسان طبقہ محروم ہو تو وہاں کس طرح بھوک، غربت اور غذائی کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے! حد تو یہ ہے کہ سرکاری سطح پر زرعی ترقی کے لیے شروع کیے گئے منصوبوں سے بھی یہی زمیندار جاگیردار طبقہ اشرافیہ ہی بھرپور طریقہ سے فائدہ اٹھارہا ہے اور چھوٹا اور بے زمین کسان مزدور طبقہ مسلسل غربت میں دھنستا چلا جارہا ہے۔ ملک میں زرعی قرضوں کی فراہمی اور زمینی ملکیت کے اعدادوشمار اس ناانصافی اور طبقاتی تفریق کی گواہی دے رہے ہیں۔ مجموعی طور پر زرعی شعبہ کو پانی کی کمی اور اس کے نتیجے میں پیداوار کی کمی جیسے گھمبیر مسائل کا سامنا ہے لیکن حکومت ملک سے زرعی پیداوار کو برآمد کرنے کے لیے معاہدوں اور سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کی کوششوں میں ہے بجائے اس کے کہ ملک میں زرعی پیداوار کرنے والے ان چھوٹے اور بے زمین کسان مزدوروں کو رعایت فراہم کرے غیرملکی سرمایہ داروں اور چینی کی مقامی صنعتوں کو بھاری رعایتیں دینے پر کمربستہ ہے۔ ملکی زرعی معیشت میںآزاد تجارت اور منڈی پرمشتمل اصلاحات کے اس عمل کو صرف اس ملک کے چھوٹے اور بے زمین کسان مزدور یکجا ہوکر جدوجہداور پائیدار طریقہ زراعت کے استعمال سے ہی شکست دے کر اپنے حقوق حاصل کرسکتے ہیں۔

اکتوبر 4 تا 10 اکتوبر، 2018

مکئی

ایک خبر کے مطابق زرعی ماہرین نے نئی حکومت کو مکئی کی کاشت کے لئے جینیاتی ٹیکنالوجی کے استعمال سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مکئی ملک کی اہم نقد آور فصل ہے اور جینیاتی ٹیکنالوجی کے استعمال سے ملک میں مکئی کی فصل متاثر ہوسکتی ہے۔ معروف زرعی ماہر حافظ وصی کا کہنا تھا کہ مویشیوں کے خمیری چارے کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ملک میں مکئی وافر مقدار میں پیدا ہوتا ہے جس کی پیداوار میں اضافہ کے لئے کسی تجربہ کی ضرورت نہیں ہے۔ وفاقی حکومت مستقبل قریب میں مکئی کا جنیاتی بیج در آمد کرنے کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔ ماہرین کے مطابق مکئی کی جنیاتی قسم مقامی روایتی اقسام کے لئے یقینی طور پر نقصاندہ ثابت ہوگی ہے۔ اس کے علاوہ جینیاتی فصل پر نباتات کش کیمیائی زہر کے استعمال کے مضر صحت خطرناک اثرات دنیا بھر میں سامنے آچکے ہیں اور ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی بھی جاری ہے۔ سیڈ ایسوسی ایشن آف پاکستان کے ترجمان کا کہنا ہے کہ بیج کا ترمیمی قانون 2015 اور پلانٹ بریڈرز رائٹس ایکٹ 2016 بیج تیار کرنے والی بین الاقوامی زرعی کمپنیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے بنایا گیا ہے جو پاکستان میں کام کرنے کے لئے ان کمپنیوں کی پہلی شرط تھی۔ ایگری فورم پاکستان کے سربراہ ابراہیم مغل کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ مقامی کاشتکاروں کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے حکومت کو جنیاتی مکئی کی کاشت کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔
(دی نیوز، 7 اکتوبر، صفحہ15)

کھاد

نیشنل فرٹیلائزر ڈیولپمنٹ سینٹر نے آئندہ سال جنوری کے مہینہ میں ملک میں یوریا کی قلت کی پیشنگوئی کی ہے۔ ادارے کے مطابق 100,000 ٹن یوریا درآمد کرنے اور مقامی سطح پر دو کارخانوں سے پیداوار کے آغاز کے بعد بھی اس سال دسمبر میں صرف 85,000 ٹن یوریا کھاد دستیاب ہوگی جبکہ جنوری 2019 میں 30,000 ٹن یوریا کی قلت کا خدشہ ہے۔
(بزنس ریکارڈڑ، 4 اکتوبر، صفحہ7)

گیس کی قیمت میں اضافہ کے بعد حکومت کی جانب سے زرتلافی فراہم کرنے کی یقین دہانی کے باوجود کھاد کی پیداواری لاگت پر اضافے کا بوجھ کسانوں پرمنتقل کرنے کے لئے کارخانوں نے یوریا کی 50 کلو کی بوری پر 130 روپے تک کا اضافہ کردیا ہے۔ پاک کویت انویسٹمنٹ کمپنی کے اعلی افسر عدنان سمیع شیخ کا کہنا ہے کہ کسانوں کو مدد فراہم کرنے کے لئے حکومت کھاد پر زرتلافی دینے پر غور کررہی ہے تاہم کھاد کی مقدار اور زرتلافی فراہم کرنے کے طریقہ کار کا ابھی تعین نہیں کیا گیا۔ حکومت کے ذمہ کھاد کمپنیوں کے زرتلافی کی مد میں واجبات اب بھی باقی ہیں یہی وجہ ہے کہ کھاد کمپنیوں نے فوری طور پر لاگت میں ہونے والے اضافے کو قیمت بڑھا کر کسانوں پر منتقل کردیا۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 6 اکتوبر، صفحہ13)

کپاس

ایک خبر کے مطابق حکومت کی جانب سے کپاس کی درآمد پر عائد 5 فیصد سیلز ٹیکس ختم کئے جانے کا امکان ہے۔ زرائع کے مطابق برآمدات کو بہتر بنانے کے لئے 10 جنوری 2017 کو اس وقت کے وزیر اعظم نے کپاس کی درآمد پر سیلز ٹیکس اور ڈیوٹی کی شرح صفر کردی تھی۔ تاہم بعد میں کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے فیصلے پر یہ چھوٹ واپس لے لی گئی تھی۔ تاہم فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے کپاس کی درآمد پر 5 فیصد سیلز ٹیکس کی شرح صفر کرنے کی تجویز دی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 7 اکتوبر، صفحہ12)

خشک سالی

ایک خبر کے مطابق خشک سالی کے شکار تھر کے عوام کی جانب سے سندھ حکومت کی طرف سے امداد کے نام پر خراب گندم فراہم کرنے کی شکایتیں جاری ہیں۔ تاہم وزیر اعلی سندھ کے مشیر مرتضی وہاب نے غیر معیاری گندم کی فراہمی کے حوالے سے خبروں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعلی کی ہدایات پر امدادی سرگرمیوں کا جائزہ لینے کے لئے انھوں نے صوبائی وزیر برائے توانائی امتیاز احمد شیخ کے ہمراہ تھرپارکر کا دورہ کیا ہے جہاں انہیں کسی قسم کی شکایات موصول نہیں ہوئی ہیں۔ تاہم تھر کے 7 تعلقوں میں قائم امدادی مراکز جانے والے متاثرین نے محکمہ ریونیو اور محکمہ خوراک کی جانب سے انہیں سڑی ہوئی گندم فراہم کئے جانے کا الزام عائد کیا ہے۔ متاثرین کا مزید کہنا تھا کہ مسلسل احتجاج اور زرائع ابلاغ کی جانب سے مسائل کی نشاندہی کے باوجود ذمہ دار افراد کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جارہی ہے۔
(ڈان، 10 اکتوبر، صفحہ17)

نکتہ نظر

اس ہفتے کی سرفہرست خبر ملک میں جینیاتی مکئی کے اجراء سے متعلق ہے۔ ماہرین زراعت ماضی میں بھی جینیاتی فصل خصوصاً کپاس کے حوالے سے خبردار کرتے رہے ہیں جس کا نتیجہ ملک میں کپاس کی بڑھتی ہوئی پیداواری لاگت اور کم ہوتی پیداوار کی صورت آج ملکی معیشت کے لیے سفید ہاتھی کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ ایک طرف چھوٹے اور بے زمین کسان پیداوار میں نقصان کی صورت متاثر ہورہے ہیں تو دوسری طرف حکومت سرکاری خزانے پر بوجھ ڈال کر کپاس کے درآمد کنندگان کو ٹیکسوں میں چھوٹ دینے پر مجبور ہے۔ ملک میں جینیاتی ٹیکنالوجی غیرملکی سرمایہ دار زرعی کمپنیوں کے مفادات کو تحفظ دینے اور ان کے منافع میں اضافے کے لیے متعارف کروائی جارہی ہے باوجود اس کے کہ ملک میں اس ٹیکنالوجی کے مہلک اثرات کی جانچ کرنے کی بھی صلاحیت اور تجربہ نہیں ہے۔ دوسری طرف جینیاتی فصلوں پر استعمال کیے جانے والے مخصوص زرعی زہر انسانوں میں سرطان جیسے موزی امراض کی وجہ بن رہے جس کی تصدیق عالمی ادارہ صحت بھی اپنی رپورٹوں میں کرچکا ہے۔ امریکہ میں جینیاتی بیج کمپنی مونسانٹو کے خلاف عدالتی کارروائی اس بات کا واضح ثبوت ہے جسے ہمارے حکمران نظر انداز کرتے ہوئے ناصرف ملکی زرعی معیشت، خوراک کا تحفظ، انسانی صحت اور ماحولیات کو داؤ پر لگانے کے لیے بے چین نظرآتے ہیں۔ ملک کے چھوٹے اور بے زمین کسان مزدوروں کے لیے لازم ہے کہ وہ خوراک کی خودمختاری اور اس کے تحفظ کے لیے اپنے روایتی بیج کو محفوظ اور کاشت کریں تاکہ ان بین الاقوامی زرعی کمپنیوں کی اجارہ داری کا خاتمہ کیا جاسکے۔

ستمبر 27 تا 3 اکتوبر، 2018

زمین

خیبرپختونخوا کابینہ نے ضلع سوات میں فوجی چھاؤنی کی تعمیر کے لیے 19کنال جنگلات کی زمین فوج کو دینے کے لئے قواعد میں نرمی کا فیصلہ کیا ہے۔ صوبائی حکومت کے ترجمان شوکت یوسف زئی کا کہنا ہے کہ جنگلات کی یہ زمین 75 کنال سرکاری زمین کا حصہ ہے جو فوج کو دی جائے گی۔ قانون کے مطابق جنگلات کی زمین نہ تو ٹھیکہ پر دی جاسکتی ہے اور نہ ہی کسی اور مقصد کے لیے استعمال کی جاسکتی ہے۔ کابینہ کو یہ زمین فوج کو دینے کے لیے قوائد میں نرمی کرنی ہوگی۔
(ڈان، 28 ستمبر، صفحہ7)

زراعت

عالمی بینک کے 11 رکنی وفد نے وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ سے ملاقات میں کراچی سمیت سندھ میں متعدد اداروں میں اصلاحات اور ترقی کے لیے دس بلین ڈالر فراہم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ آبپاشی و زراعت کے شعبوں میں اصلاحات اور موسمی تبدیلی سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے بھی عالمی بینک نے 300 ملین ڈالر کے منصوبہ کی پیشکش کی ہے جس میں صوبائی حکومت کا حصہ 150 ملین ڈالر ہوگا۔ وزیر اعلی سندھ کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کے تحت دادو کنال، رائس کنال، اکرم واہ، پھلیلی کنال اور گھوٹکی فیڈر کنال کی مرمت و بحالی کا کام کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ عالمی بینک نے ماہی گیری شعبہ میں اصلاحات و بحالی کے لیے بھی 150 ملین ڈالر کی پیشکش کی ہے۔
(ڈان، 3 اکتوبر، صفحہ16)

ایک خبر کے مطابق پنجاب حکومت نے کسانوں کے لیے بھاری زرتلافی کے ذریعے جدید ٹیکنالوجی کے حصول کو ممکن بنانے کے لیے کسانوں سے درخواستیں طلب کی ہیں تاکہ پیداوار میں اضافہ اور زراعت کو جدید بنایا جاسکے۔ زرعی مشاورتی کمیٹی (ایگری کلچرل ایڈوائزری کمیٹی) کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر علی اکبر بھٹی کا کہنا تھا کہ حکومت پنجاب قطرہ قطرہ آبپاشی نظام کی تنصیب پر 60 فیصد، شمسی پینل پر 80 فیصد، اور ٹنل فارمنگ پر 50 فیصد زرتلافی فراہم کررہی ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 27 ستمبر، صفحہ20)

خشک سالی

سندھ حکومت نے دو مزید اضلاع جامشورو اور بدین کے زیادہ تر علاقے کو خشک سالی کی وجہ سے آفت زدہ قرار دے دیا ہے۔ ان اضلاع کو بھی آفت زدہ قرار دینے کے بعد صوبہ میں متاثرہ اضلاع کی تعداد آٹھ ہوگئی ہے۔ جامشورو اور بدین کے کل 198 دیہات کو آفت زدہ قرار دیا گیا ہے۔ ان دیہات میں ضلع جامشورو کے تعلقہ سہون، منجھان، تھانہ بولا خان اور کوٹری کے 110 دیہات شامل ہیں جبکہ ضلع بدین کے تعلقہ ٹنڈو باگو، گولارچی، بدین، ماتلی، تلہار کے 88 دیہات شامل ہیں۔ اس سے قبل پانچ ستمبر کو سندھ حکومت تھرپارکر، عمرکوٹ، ٹھٹہ، دادو، سانگھڑ، اور قمبر شہداد کوٹ اضلاع کو آفت زدہ قرار دے چکی ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 27 ستمبر، صفحہ5)

اچھرو تھر کے خشک سالی سے متاثرہ رہائشیوں کی بڑی تعداد نے سندھ حکومت سے فوری طور پر مال مویشیوں کے لئے پانی، چارہ اور متاثرہ انسانوں کے لیے امدادی اشیاء کی فراہمی کا مطالبہ کیا ہے۔ صحافیوں سے بات کرتے ہوئے مقامی افراد کا کہنا تھا کہ اچھرو تھر کی اکثریتی آبادی تعلقہ کھپرو کی دو یونین کونسلوں میں رہتی ہے جو دو سو دیہات پر مشتمل ہے۔ اچھرو تھر میں انسان اور ان کے مال مویشی 2011 سے پانی اور چارے کی قلت کا سامنا کررہے ہیں۔ اندازے کے مطابق اچھرو تھر میں تقریبا دو ملین مویشیوں کی آبادی ہے جن پر تھر کی غریب آبادی انحصار کرتی ہے۔
(ڈان، 28 ستمبر، صفحہ17)

غذائی کمی

سول ہسپتال مٹھی، تھرپارکر میں گزشتہ دو دنوں میں غذائی کمی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے میں مزید سات بچے جانبحق ہوگئے ہیں۔ ان بچوں کی ہلاکت کے بعد اس سال تھر میں مرنے والے بچوں کی تعداد 472 ہوگئی ہے۔ بیمار بچوں کو ہسپتال لے کر آنے والے والدین نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ ہسپتال کو ادویات اور دیگر سہولیات کی کمی کا سامنا ہے اور ان کے بچوں کو معیاری طبی سہولیات فراہم نہیں کی جارہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’ہمیں کنووں کا آلودہ پانی پینے پر مجبور کردیا گیا ہے جو بچوں کی اموات کی بنیادی وجہ ہے‘‘۔
(ڈان، 29 ستمبر، صفحہ 17)

گوشت

چیئرمین آل پاکستان میٹ پروسیسرز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن نصیب احمد سیفی نے حکومت پر زور دیا ہے کہ گوشت کی برآمد کو بھی دیگر برآمدی شعبہ جات خصوصاً کپڑے کی صنعت کے مساوی مراعات دی جائیں ہے۔ دو بلین ڈالر سے زیادہ کی برآمدات کے باوجود اس شعبہ کو ایک صنعت کے طور پر تسلیم نہیں کیا جارہا۔ اگر اس شعبہ کو دیگر شعبہ جات کی طرح مراعات دی جائیں تو یہ پانچ سالوں میں 10 بلین ڈالر کی صنعت بن سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان مسلمان ملک ہونے کے باوجود 3.6 ٹریلین ڈالر کی عالمی حلال منڈی سے فائدہ نہیں اٹھارہا ہے اور پاکستان کا اس عالمی منڈی میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 28 ستمبر، صفحہ13)

مرغبانی

ایک خبر کے مطابق پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام مرغبانی سے متعلق تین روزہ نمائش ’’انٹرنیشنل پولٹری ایکسپو 2018 ‘‘ لاہور ایکسپو سینٹر میں 27 ستمبر سے شروع ہوگی۔ 29 ستمبر تک جاری رہنے والی اس نمائش میں انسانی صحت کے لیے مرغی کے گوشت کی اہمیت اور اس صنعت کی ممکنہ بڑھوتری کو اجاگر کیا جائے گا۔ اس نمائش میں سماجی تنظیموں، زرائع ابلاغ، صحت و طب سے جڑے ماہرین کے ساتھ مزاکرے کا بھی اہتمام کیا جائے گا۔
(بزنس ریکارڈر، 27 ستمبر، صفحہ17)

وزیر مال مویشی پنجاب سردار حسنین بہادر دریشک نے لاہور میں مرغبانی سے متعلق نمائش ’’انٹرنیشنل پولٹری ایکسپو 2018‘‘ کا افتتاح کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت مرغبانی شعبہ کو درپیش مسائل سے پوری طرح واقف ہے اور انہیں حل کرنے کے پر عزم ہے۔ حکومت کی جانب سے مرغیوں کی خوراک کو جی ایس ٹی سے مستثنی قرار دینا، مرغیوں کی خوراک کے لیے خام مال پر محصول (ریگولیٹری ڈیوٹی) میں کمی اس حوالے سے کچھ اہم اقدامات ہیں جو موجودہ حکومت نے کیے ہیں۔
(بزنس ریکارڈر، 28 ستمبر، صفحہ13)

پانی

ربیع کے موسم میں 23 فیصد پانی کی متوقع کمی کے تناظر میں انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) نے تمام صوبائی حکام کو پیداواری نقصان کو کم سے کم رکھنے کے لیے پانی کا بہتر انتظام کرنے کی ہدایت کی ہے۔ متوقع پانی کی کمی زرعی شعبہ کو متاثر کرسکتی ہے جو غذائی تحفظ کے لیے مسائل کا سبب بن سکتی ہے۔ گندم ربیع کی اہم ترین فصل ہے۔ اس کے علاوہ سرسوں، دالیں، چنا اور دیگر اہم فصلیں بھی ربیع کے موسم میں ہی کاشت ہوتی ہیں۔
(ڈان، 2 اکتوبر، صفحہ 10)

ٹماٹر

کسٹم حکام نے آزاد جموں و کشمیر سے غیر قانونی طور پر لاہور ترسیل کیے جانے والے تین ٹرک بھارتی ٹماٹر گجرانوالہ کے نزدیک ضبط کرلیے ہیں۔ ٹماٹروں کا کل وزن 21,440 کلوگرام ہے جس کی مالیت چار ملین روپے ہے۔ ترجمان کسٹم کا کہنا ہے کہ گرفتار کیے گئے ڈرائیور کے مطابق یہ ٹماٹر مقبوضہ کشمیر سے درآمد کیے گئے تھے جنہیں لاہور کی منڈیوں میں ترسیل کیا جانا تھا۔ ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ان دنوں پاکستان اور بھارت کے درمیان پھل سبزی وغیرہ کی درآمد و برآمد پر مکمل پابندی ہے۔ پاکستان حکومت نے آزاد جموں و کشمیر کو یہ خصوصی سہولت دی ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر سے اس طرح کی اشیاء بغیر کسی محصول کے ٹٹری نوٹ چوکی کے راستے درآمد کرسکتا ہے۔ ان درآمد شدہ اشیاء کو آزاد جموں وکشمیر کے علاوہ پاکستان کے کسی اور علاقے میں ترسیل نہیں کیا جاسکتا۔
(ڈان، 27 ستمبر، صفحہ2)

چاول

پاکستان میں انڈونیشیا کے سفیر ایوان سویودی عامری نے کہا ہے کہ انڈونیشیا پاکستان سے 2019 میں ایک ملین ٹن چاول درآمد کرنے کے لیے دونوں ممالک کے لیے قابل قبول طریقہ کار وضع کرنے کے لیے کام کررہا ہے۔ ایوان صنعت وتجارت ملتان کے ارکان سے بات کرتے ہوئے انھوں نے تاجروں کو 24 تا 28 اکتوبر انڈونیشیا میں منعقد ہونے والی تجارتی نمائش میں شمولیت کی دعوت بھی دی۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 29 ستمبر، صفحہ20)

ماہی گیری

بھارتی جیل سے رہائی پانے والے 14 پاکستانی ماہی گیر کراچی پہنچ گئے ہیں۔ ان ماہی گیروں کو 26 ستمبر کو واہگہ سرحد پر پاکستانی حکام کے حوالے کیا گیا تھا۔ ایک دن ایدھی ہوم میں قیام کے بعد انہیں ایدھی فاؤنڈیشن کی مدد سے کراچی لایا گیا ہے۔ ان ماہی گیروں کی رہائی کے بعد اب بھی بھارتی جیلوں میں 52 ماہی گیر قید ہیں۔
(ڈان، 30 ستمبر، صفحہ15)

گنا

ایک خبر کے مطابق پانی کی کمی، مل مالکان کی جانب سے مقررہ قیمت پر گنا نہ خریدنے، کاشتکاروں کوادائیگی میں تاخیر اور گنے کی کرشنگ میں تاخیر جیسی وجوہات کی وجہ سے سندھ میں سال 2018-19 میں گنے کی پیداوار میں تقریباً 15 فیصد کمی رپورٹ کی گئی ہے۔ پچھلے چار سالوں سے سندھ میں گنے کے زیر کاشت رقبے کا ہدف 320,000 ہیکٹر چلا آرہا ہے جبکہ سال 2017-18 میں ہدف کے مقابلے 333,000 ہیکٹر رقبے پر گنا کاشت کیا گیا تھا۔ نائب صدر سندھ آبادگار بورڈ محمود نواز شاہ کا کہنا ہے کہ متعدد ملوں نے تصدیق کی ہے کہ ان کے علاقوں میں 20 سے 25 فیصد گنے کے زیر کاشت رقبہ میں کمی آئی ہے۔
(ڈان، 27 ستمبر، صفحہ17)

چینی

کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے بغیر کسی حکومتی امداد و زرتلافی کے ایک ملین ٹن چینی برآمد کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ فیصلے کے مطابق صرف وہ شوگر ملیں چینی برآمد کرسکیں گی جنہوں نے کسانوں کے 2017-18 کے تمام گنے کے بقایا جات ادا کردیے ہوں۔
(بزنس ریکارڈر، 3 اکتوبر، صفحہ1)

نکتہ نظر

اس ہفتے کی خبریں مجموعی طور پر ملک میں دو طرح کے انتظام و اقدامات کی طرف واضح اشارہ کرتی ہیں، یا یوں کہیں کہ ملک میں سرمایہ داروں اور طبقہ اشرافیہ کے لیے قوانین تبدیل بھی کیے جاسکتے ہیں اور انہی قوانین پرریاست کسی بھی قیمت پر عملدرآمد کروانے سے چوکتی بھی نہیں۔ خیبرپختونخوا حکومت کہیں تو زمین دینے کے لیے قوانین میں ترمیم کرنے کے لیے بھی تیار ہے لیکن اسی صوبہ میں سڑکوں کی تعمیر اور صنعتی زون کے قیام کے لیے آباد کسان مزدوروں کو جبراً بیدخل کردیا جاتا ہے جس کا مظاہر ماضی میں ہری پور، حطار میں ہوچکا ہے۔ پنجاب میں موسمی تبدیلی سے مطابقت پیدا کرنے، پانی کے تحفظ اور جدید ٹیکنالوجی کے نام پر عالمی سرمایہ دار کمپنیوں کے لیے بھرپور کاروباری مواقع فراہم کرنے کے بعد بظاہر یہ لگتا ہے کہ عالمی بینک نے صوبہ سندھ پر اپنی توجہ مرکوز کرلی ہے اور بڑے پیمانے پر سندھ میں اداروں میں اصلاحات اور اس حوالے سے قانون سازی کا عمل شروع ہونے کو ہے۔ خود پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ قرض کے بدلے اپنی خودمختاری گروی رکھ کر پاکستان آج بھی غربت، غذائی کمی، تعلیم اور صحت جیسے بنیادی مسائل پر قابو نہیں پاسکا ہے۔