فروری 2019

فروری 21 تا 27 فروری، 2019
زمین
پنجاب حکومت نے سرمایہ کاروں کو سرکاری زمین پٹے (لیز) پر دینے کے لئے پالیسی تیار کرلی ہے۔ ذرائع کے مطابق اس پالیسی کا مقصد صوبے میں سرمایہ کاروں کو راغب کرنا ہے۔ محکمہ صنعت نے یہ پالیسی تیار کی ہے جس کی وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار نے منظوری دیدی ہے۔ نئی پالیسی کے مطابق مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے اب حکومت زمین نہیں خریدے گی بلکہ انہیں سرکاری زمین پٹے پر لینے کی پیشکش کی جائے گی۔
(بزنس ریکارڈر، 24 فروری، صفحہ5)

وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے سندھ پولیس کو جنگلات کی زمین اور ہندو برادری کی قبضہ کی گئی زمین واگزار کروانے میں محکمہ جنگلات اور ضلعی انتظامیہ کی مدد کرنے ہدایت کی ہے۔ امن و امان کے حوالے سے منعقد کیے گئے اجلاس کے دوران وزیر اعلی سندھ کا کہنا تھا کہ 70,000 ایکڑ جنگلات کی زمین زیر قبضہ تھی جس میں سے 25,000 ایکڑ زمین واگزار کروالی گئی ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 27 فروری، صفحہ4)

زراعت
ایک خبر کے مطابق پنجاب حکومت نے معاشی بڑھوتری اور عوام بلخصوص دیہی آبادی کے معیار زندگی میں اضافے کے لیے زرعی پالیسی جاری کردی ہے۔ پالیسی کا اجراء کرتے ہوئے وزیر زراعت پنجاب ملک نعمان لنگریال نے دعوی کیا ہے کہ یہ پالیسی تمام شراکت داروں، زرعی اداروں کے سربراہان اور یو ایس ایڈ کے ماہرین کی مشاورت سے بنائی گئی ہے۔ سرمایہ کاری میں نجی اداروں کی شراکت، بہتر انتظام اور زراعت میں مشینری کے استعمال کو فروغ دینا اس پالیسی کے بنیادی خدوخال ہیں۔ پالیسی میں دیہی عورتوں اور نوجوانوں کے زرعی پیداواری شعبے میں موثر کردار کے لئے مراعات پیش کی جائیں گی۔ ہدف کے مطابق کسانوں کو براہ راست زرتلافی کی فراہمی کے لیے حکومت انہیں نقد رقم ترسیل کرے گی۔ زرعی کاروباری منڈی کو جدید بنایا جائے گا، فصلوں کا بیمہ اور موسمی تبدیلی سے مطابقت رکھنے والی زراعت (کلائمٹ اسمارٹ ایگری کلچر) کے زریعے کسانوں کے مفادات کا تحفظ کیا جائے گا۔ صوبائی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ ملک میں صدیوں پرانا آبپاشی کا نظام رائج ہے جسے عالمی معیار کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے۔
(ڈان، 21 فروری، صفحہ2)

پاکستان کسان اتحاد کے صدر خالد محمود کھوکھر نے ایک مشاورتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے حکومت پر زرعی تحقیق کے لیے مختص رقم میں اضافے، زرعی قرضوں پر شرح سود کم کرنے اور اہم فصلوں کی امدادی قیمت مقرر کرنے پر زور دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ زرعی قرضوں پر شرح سود پانچ فیصد سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے جو اس وقت 14 فیصد ہے۔ جبکہ زرعی تحقیق کے لیے مختص رقم مجوعی قومی پیداوار کے ایک فیصد کے برابر ہونی چاہیے جو اس وقت 0.2 فیصد ہے۔ کیمیائی کھاد اور دیگر مداخل خصوصاً زرعی زہر کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں جنہیں کم کرکے بھارت کے برابر لانا چاہیے۔ اس کے علاوہ زرعی زہر کی درآمد پر 30 فیصد زرتلافی دی جانی چاہیے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت زرعی مشینری اور آلات پر عائد پانچ فیصد سیلز ٹیکس ختم کرے۔
(بزنس ریکارڈر، 22 فروری، صفحہ2)

گندم
وزیر خزانہ پنجاب مخدوم ہاشم جوان بخت نے کہا ہے کہ حکومت پنجاب گزشتہ 10 سالوں میں کسانوں سے گندم کی خریداری، اسے ذخیرہ اور فروخت کرنے کے عمل میں 447 بلین روپے کی مقروض ہوئی ہے۔ غذائی اجناس کے اس سارے عمل سے زیادہ سے زیادہ ہر دس میں سے ایک فرد کو فائدہ پہنچتا ہے لیکن حکومت کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے۔ گندم کی حکومتی خریداری سے کسانوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ہم نجی شعبے کے کردار میں اضافے پر یقین رکھتے ہے اور حکومت کو ایک سہولت کار کے طور پر دیکھتے ہیں‘‘۔
(ڈان، 21 فروری، صفحہ2)

یورپی تاجروں کے مطابق پنجاب حکومت کی جانب سے 100,000 ٹن گندم کی فروخت اور برآمد کے لیے دیے جانے والے ٹینڈر میں 250 ڈالر فی ٹن قیمت نے خریداروں کو متوجہ کیا ہے۔ ٹینڈر کا اجراء حکومتی سطح پر گندم کے برآمدی پروگرام کا حصہ ہے۔ تاجروں کے مطابق گندم کی قیمت زیادہ ہے جس کا مطلب ہے کہ گندم بغیر زرتلافی برآمد ہوسکتی ہے۔ حکومت پاکستان نے نومبر میں 500,000 ٹن گندم زرتلافی کے ساتھ برآمد کرنے کی منظوری دی تھی۔
(بزنس ریکارڈر، 21 فروری، صفحہ15)

حکومت نے گندم کے اضافی ذخیرے کو کم کرنے اور بین الاقوامی منڈی میں قیمتوں میں اضافے کے تناظر میں پاسکو کو0.5 ملین ٹن اضافی گندم برآمد کرنے کی منظوری دیدی ہے۔ اس سے قبل حکومت نے پاسکو، سندھ اور پنجاب کو ایک ملین ٹن گندم اور اس سے بنی مصنوعات برآمد کرنے کی منطوری دی تھی۔ وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کے مطابق پاسکو اور سندھ و پنجاب کے محکمہ خوراک نے کسانوں سے 0.9 ملین ٹن گندم خریدی تھی جبکہ ان کے پاس پہلے ہی 5.94 ملین ٹن گندم کا ذخیرہ موجود تھا۔ سال 2018 کا آغاز 11.93 ملین ٹن گندم کے بھاری ذخائر کے ساتھ ہوا تھا اور اس وقت ملک میں 7.43 ملین ٹن گندم کا ذخیرہ موجود ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 24 فروری، صفحہ20)

جنگلات 
وزیر جنگلات و جنگلی حیات سندھ ناصر حسین شاہ نے کہا ہے کہ حکومت صوبے میں جنگلات کے فروغ وتحفظ کے لیے پالیسی تیار کررہی ہے۔ اس پالیسی کے اجراء کے بعد اس سے متعلق تمام اداروں (افراد) کو پالیسی پر عمل کرنا ہوگا۔ تمام نئے ترقیاتی منصوبوں میں سڑک کے دونوں جانب درخت لگانا لازمی ہوگا۔ عنقریب شروع ہونیوالی شجر کاری مہم میں مختلف اقسام کے سایہ دار اور پھلدار درخت لگائے جائینگے جس کا آغاز شہید بے نظیر بھٹو پارک، کلفٹن سے کیا جائیگا۔
(بزنس ریکارڈر، 24 فروری، صفحہ3)

مکئی
دی انٹرنیشنل میز اینڈ ویٹ امپروومنٹ سینٹر نے پاکستان کو ’’فال آرمی ورم‘‘ نامی سنڈی کے خطرے سے آگاہ کیا ہے اور فصلوں کو اس کے حملہ سے بچانے کے لئے اقدامات کرنے کے لئے کہا ہے۔ فال آرمی ورم ایک مہلک کیڑا ہے جسے برصغیر میں پہلی بار دیکھا گیا ہے۔ اس وقت پاکستان کے دورے پر موجود دی انٹرنیشنل میز اینڈ ویٹ امپروومنٹ سینٹر کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر مارٹن کروپف نے وفاقی وزیر قومی غذائی تحفظ و تحقیق صاحبزادہ محبوب سلطان سے ملاقات میں اس کیڑے سے تحفظ کے لیے اپنے تعاون کی پیشکش کی ہے۔ امریکہ سے تعلق رکھنے والے اس کیڑے کو مغربی افریقہ میں پہلی بار 2016 میں نائجیریا میں دیکھا گیا جہاں یہ 40 افریقی ممالک تک تیزی سے پھیلا۔ بھارت میں اس کیڑے کی وجہ سے مکئی کی فصل متاثر ہونے کا واقعہ ایشیا میں اس کی موجودگی کا پہلا واقعہ ہے۔ یہ کیڑا ناصرف پورے بھارت بلکہ دیگر پڑوسی ممالک تک تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔
(ڈان، 23 فروری، صفحہ10)

کپاس
کپاس کے کاشتکاروں کی حوصلہ افزائی کرنے اور اس کے زیر کاشت رقبے میں کمی پر قابو پانے کے لئے حکومت کپاس کی اشارتی قیمت مقرر کرنے کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔ وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کے ڈاکٹر محمد ہاشم پوپلزئی کا کہنا ہے کہ حکومت گندم اور گنے کی طرح کپاس کی قیمت بھی مقرر کرنے کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قومی غذائی تحفظ و تحقیق کو کپاس کے حوالے سے مختصر جائزہ پیش کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کپاس کی پیداوار اور اس کے زیر کاشت رقبے میں اضافہ کے لئے مختلف اقدامات اٹھارہی ہے۔ گنے کی زیادہ پیداوار کے لئے کسانوں کو راغب کرنا کپاس کی پیداوار میں واضح کمی کا سبب ہے۔ کپاس کے زیر کاشت علاقوں میں بااثر چینی کی صنعت کی جانب سے شوگر ملوں کا قیام کپاس کے زیرکاشت رقبے میں کمی کی بنیادی وجہ ہے۔ کپاس کمشنر ڈاکٹر خالد عبداللہ کا کہنا تھا کہ ملک میں گندم اور گنے کی اضافی پیداوار گندم کی امدادی قیمت اور گنے کی اشارتی قیمت مقرر کرنے کی وجہ سے ہوتی ہے۔ لہذا کپاس کے کاشتکاروں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے انتہائی ضروری ہے کہ کپاس کی اشارتی قیمت معین کی جائے۔
(بزنس ریکارڈر، 22 فروری، صفحہ20)

ایوان صنعت و تجارت لاہور سے خطاب کرتے ہوئے وزیر زراعت پنجاب ملک نعمان احمد لنگریال نے کہا ہے کہ حکومت نے کسانوں کو کپاس کی کاشت کی طرف راغب کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے اور پانچ ملین ایکٹر رقبے پر کپاس کی کاشت کا ہدف مقرر کردیا گیا ہے۔ کسانوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ایک لاکھ ایکڑ زمین کے لیے حکومت معیاری بیج فراہم کرے گی کیونکہ کسان زیادہ آمدنی کے حصول کے لیے گندم، چاول اور روغنی بیج کی کاشت کو ترجیح دے رہے ہیں۔ وزیر زراعت نے مزید کہا کہ رواں سال کپاس کی فی ایکڑ پیداوار 18 من سے بڑھ کر 25 من ہوجائے گی۔
(بزنس ریکارڈر، 26 فروری، صفحہ7)

کپاس کی پیداوار کو بہتر بنانے کے لیے تصدیق شدہ بیجوں کی فراہمی اور قطرہ قطرہ آبپاشی نظام کے لئے دو بلین روپے مختص کرنے کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار نے کہا ہے کہ زرعی پیدوار اور کسانوں کی آمدنی میں اضافے کے لیے جدت پر مبنی منصوبوں کا آغاز کیا جائیگا۔ وزیر اعلی پنجاب ایک اجلاس کی سربراہی کررہے تھے جس میں زرعی کارکردگی اور دیگر معاملات پر مستقبل کی حکمت عملی کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں صوبے میں مرغیوں اور مچھلیوں کی افزائش کو فروغ دینے کے لئے جامع منصوبہ وضع کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 27 فروری، صفحہ16)

گنا
سندھ آباد گار اتحاد نے گنے کی قیمت خرید کا اعلامیہ جاری کرنے میں تاخیر کے خلاف 25 فروری کو ٹنڈوالہ یار میں مہران شوگر مل کے سامنے دھرنا دینے کا اعلان کیا ہے۔ صدر سندھ آباد گار اتحاد نواب زبیر تالپور نے ایک اجلاس کے دوران کہا ہے کہ مل مالکان سندھ میں 2014 سے کاشتکاروں کا استحصال کررہے ہیں لیکن صوبائی حکومت تاحال خاموش اور پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے سامنے بے بس نظر آتی ہے۔ محکمہ زراعت نے سندھ کابینہ سے 182 روپے فی من قیمت کے اعلامیہ کی منظوری حاصل کرلی ہے اس کے باوجود محکمہ زراعت کی طرف سے اعلامیہ (نوٹیفیکیشن) کے بجائے اعلانیہ (سرکلر) جاری کیا گیا جو پاکستان شوگرملز ایسوسی ایشن کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔
(ڈان، 23 فروری، صفحہ17)

مال مویشی ماہی گیری
وزیر مال مویشی و ماہی گیری سندھ عبدالباری پتافی نے سندھ اسمبلی کو آگاہ کیا ہے کہ ٹھٹھہ اور بدین میں زیرو پوائنٹ کے مقام پر قبضہ چھڑا کر علاقہ مقامی ماہی گیروں کے حوالے کردیا گیا ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ آخری مویشی شماری 2006 میں ہوئی تھی اور اگلی شماریات 2016 ہونا تھی جو کئی وجوہات کی بنا پر نہیں ہوسکی۔ اندازوں کے مطابق 2008 میں مویشیوں کی تعداد 15,417,833 (15.4 ملین) تھی جبکہ 2018 میں مویشیوں کی تعداد کا اندازہ 22,796,419 (22.7 ملین) لگایا گیا تھا۔
(ڈان، 26 فروری، صفحہ 16)

غربت
پاکستان پاورٹی ایلیویشن پروگرام ملک بھر کی 375 یونین کونسلوں میں 157,000 گھرانوں کو شدید غربت سے نکالنے کے لیے 150 ملین ڈالر کا نیشنل پاورٹی گریجویشن پروگرام شروع کررہی ہے۔ یہ خاندان بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے مستفید ہورہے ہیں جنھیں اس پروگرام کے تحت اپنا معیار زندگی بہتر بنانے کے لیے پیشہ ورانہ و فنی تربیت اور بلاسود قرضوں تک رسائی فراہم کی جائے گی۔ 23-2018 پر مشتمل اس منصوبے کو اقوام متحدہ کا زرعی ترقی کا عالمی ادارہ انٹرنیشنل فنڈ فار ایگری کلچر ڈیولپمنٹ اور حکومت پاکستان کی مدد حاصل ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 21 فروری، صفحہ3)

سندھ یونین کونسل اینڈ کمیونٹی اکنامک اسٹرینتھنگ سپورٹ (ایس سی سی ای ایس ایس) کے تحت حیدر آباد میں منعقد کیے گئے ورکشاپ میں نیشنل رورل سپورٹ پروگرام کے سربراہ نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ سندھ اگلی دہائی تک غربت سے چھٹکارا حاصل کرسکتا ہے اگر نئے متعارف کردہ پانی، حفاظتی ٹیکہ جات، نکاسی اور تعلیم کا منصوبہ (ڈبلیو آئی ایس ای) صوبے کے تمام اضلاع تک پھیلا دیا جائے۔ سندھ یونین کونسل اینڈ کمیونٹی اکنامک اسٹرینتھنگ سپورٹ کی ٹیم لیڈر کیتھرین انس کارٹر کا اس موقع پر کہنا تھا کہ سندھ حکومت نے 72.5 بلین روپے کی لاگت سے غربت میں کمی کی حکمت عملی کی منظوری دی ہے۔ سندھ کے آٹھ اضلاع میں شروع کیے گئے اس چھ سالہ پروگرام کے لیے سرمایہ یورپی یونین فراہم کررہا ہے جبکہ منصوبے پر عملدرآمد رورل سپورٹ آرگنائزیشن، نیشنل رورل سپورٹ پروگرام، تھر دیپ رورل سپورٹ پروگرام کے ذریعے کیا گیا ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 21 فروری، صفحہ5)

مرغبانی
حکومت پنجاب (پرونشل ڈیولپمنٹ ورکنگ پارٹی) نے پنجاب میں شترمرغبانی کے لئے 90.57 ملین روپے کی منظوری دے دی ہے۔ اس منصوبے کے تحت حکومت مویشی پالنے والوں کو شترمرغبانی کے لیے زرتلافی فراہم کرے گی اور ان کی صلاحیتوں میں اضافہ کرے گی۔ اس کے علاوہ حکومت یونیورسٹی آف ویٹنری اینڈ اینمل سائنسس، پتوکی میں ایک مثالی فارم قائم کرے گی۔ منصوبے کے مطابق پنجاب بھر سے مویشی پالنے والے کسانوں کو منتخب کیا جائے گا اور انہیں شترمرغبانی کے لیے مدد فراہم کی جائے گی۔ منتخب شدہ کسانوں کے خریدے گئے شترمرغوں کا اندراج کیا جائے گا۔ تین ماہ بعد پہلی قسط کے طور پر ان کسانوں کو فی شترمرغ 2,000 روپے ادا کیے جائیں گے۔ آٹھ ماہ بعد دوسری قسط 3,000 روپے اور 12 ماہ بعد تیسری قسط 5,000 روپے فی شترمرغ ادا کی جائے گی۔ اس طریقہ کار کے تحت ابتدائی طور پر اندراج شدہ 5,000 شترمرغوں پر سارا سال زرتلافی فراہم کی جائے گی۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 21 فروری، صفحہ11)

کارپوریٹ
ایک خبر کے مطابق اینگرو کارپوریشن نے 31 دسمبر 2018 کو ختم ہونے والے سال میں 23.6 بلین روپے منافع کا اعلان کیا ہے۔ کمپنی کا حاصل کردہ منافع گزشتہ سال کے منافع 16.3 بلین روپے کے مقابلے 45.1 فیصد زیادہ ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 21 فروری، صفحہ20)

غذائی اشیاء
وزارت تجارت و ٹیکسٹائل نے درآمدی پالیسی میں ترمیم کرکے درآمد شدہ غذائی اشیاء پر اردو اور انگریزی زبان میں چھپے ہوئے لیبل کو لازمی قرار دے دیا ہے جس میں غذائی معلومات اور اشیاء کے استعمال کی ہدایات درج ہوں۔ وزارت کی طرف سے جاری کردہ اعلامیے میں درآمد کنندگان کو یہ بھی کہا گیا ہے اشیاء پر ’’حلال‘‘ کی علامت (لوگو) چسپاں ہونی چاہئے اور اس سلسلے میں حلال کی سند جاری کرنے والے ادارے سے تصدیق نامہ بھی لیا گیا ہو جو انٹرنیشنل حلال ایکریڈیشن فورم اور اسٹینڈرڈ میٹرولجی انسٹی ٹیوٹ فار اسلامک کنٹریز کا رکن ہو۔ غذائی اشیاء کے درآمد کنندگان کی تنظیم پاکستان ایف ایم سی جی امپورٹرز ایسوسی ایشن کے چیرمین انجم نثار اور دیگر عہدیداروں کا کہنا ہے کہ انھیں ان قوانین پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن درآمد کنندگان کو ان ضوابط پر عملدرآمد کے لیے مناسب وقت ضرور دیا جائے۔
(بزنس ریکارڈر، 21 فروری، صفحہ16)

نکتہ نظر
اس ہفتے کی خبریں مجموعی طور پر ملک میں زرعی شعبہ کے حوالے سے اپنائی جانے والی پالیسیوں کو واضح کررہی ہیں جس میں زرعی پیداوار سے لے کر زرعی کاروبار تک نجی سرمایہ دار کمپنیوں کی بھرپور شراکت کے لیے تقریباً ہر شعبہ میں حکمت عملی وضع کی جارہی ہے۔ یہ حکومتی پالیسیاں چاہے وہ پیداواری شعبہ میں ہوں یا ملک سے غربت و غذائی کمی کے خاتمے کے لیے، ان میں پایا جانے والا تضاد خود اہداف کے حصول میں ناکامی کو ظاہر کررہا ہے۔ حکومت غربت، غذائی کمی کے خاتمے کے لیے جس کی بنیادی وجہ چھوٹے اور بے زمین کسان مزدوروں میں بے زمینی ہے، ناصرف غیرپائیدار طریقہ پیداوار کو فروغ دے رہی ہے بلکہ ملکی پیداواری وسائل جیسے کہ زمین، ملکی اور غیرملکی سرمایہ داروں کو پٹے پر دینے کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔ دوسری طرف اسی صوبہ پنجاب میں زرعی پیداوار اور کسانوں کی آمدنی میں اضافے کے لیے حکومت غیرپائیدار مشینی زراعت میں جدت لانے، نئے بیج، قطرہ قطرہ آبپاشی نظام متعارف کرنے کے لیے اربوں روپے مختص کررہی ہے جو خود کسانوں کے استحصال، ان میں غربت کا سبب ہیں۔ کیونکہ اس پالیسی کے تحت پیداواری لاگت میں اضافے کی وجہ سے ہی کسان اپنی پیداوار فروخت کرکے بھی خسارے کا شکار ہیں جس کی ایک تازہ مثال آلو ہے، جسے منڈی تک لے جانے کا خرچ ہی شاید منڈی میں اس کی موجودہ قیمت سے زیادہ ہے۔ مجوزہ زرعی پالسیاں آزاد تجارتی اصولوں کے تحت زمین اور پیداواری مراحل و منڈی پر کسان کا اختیار ختم کرکے اسے محتاج بنانے کا ایک ایساحربہ ہے جسے جدت کے لبادے میں لپیٹ کر پیش کیا جارہا ہے۔ امریکی ماہرین کی بنائی گئی پالیسیاں کسی طور ہمارے ملک کے کسانوں اور عوام کے لیے خوشحالی کا سبب نہیں بن سکتیں، جو بنتی ہی اس لیے ہیں کہ امریکہ اور اس جیسے سرمایہ دار ممالک کے تجارتی مفادات کو تحفظ دیا جائے اور پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک کے قدرتی وسائل کو اپنے منافع کے لیے استعمال کیا جائے۔ ضروری ہے کہ اب پیداواری پالیسیاں امریکہ سمیت سرمایہ دار ممالک اور ان کے پاکستانی سرمایہ دار ایجنٹوں کے بجائے خود پیداوار کرنے والے چھوٹے اور بے زمین کسان مزدور خود ترتیب دیں۔ یقیناًاس حق کے لیے انہیں یکجا ہوکر جدوجہد کرنی ہوگی۔

فروری 14 تا 20 فروری، 2019
زراعت
پنجاب حکومت اگلے ہفتے زرعی پالیسی کا اعلان کرے گی جس میں زرعی شعبہ سے وابستہ محقیقن اور تحقیقی اداروں کے ہزاروں ملازمین کو مراعات دی جائیں گی۔ زرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے وزیر زراعت پنجاب ملک نعمان لنگریال کا کہنا تھا کہ وزیر اعلی پنجاب 20 فروری کو زرعی پالیسی جاری کرینگے۔ پالیسی میں زرعی سائنسدانوں کے تیار کردہ بیج کی نیلامی سے حاصل ہونے والی آدھی رقم انہیں دینے جیسی مراعات کا بھی اعلان کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ ایک ہفتے کے اندر تحقیقی ڈھانچے میں تبدیلی بھی متعارف کروائی جائے گی اور اس سے جڑے 25,000 ملازمین کو بہتر تنخواہیں دی جائیں گی۔ وزیر زراعت کا مزید کہنا تھا کہ حکومت نے زرعی شعبے میں بڑھوتری کے لئے سال 19-2018 میں 36 بلین روپے مختص کیے ہیں۔ جبکہ ربیع کے موسم کے لئے بلاسود قرض کی حد 25 ہزار سے بڑھا کر 30ہزار روپے کردی گئی ہے۔ یہ قرضہ جات 101,228 اندراج شدہ کسانوں کو فراہم کیے جائیں گے۔ وزیر زراعت نے چاول، کپاس اور گندم کاشت کرنے والے 30,000 کسانوں کے لیے نو اضلاع میں فصلوں کے لیے بیمہ (تکافل)، روغنی بیجوں کی کاشت پر فی ایکڑ 5,000 روپے زرتلافی، ڈی اے پی کھاد کے ہر تھیلے پر 500 روپے، نائیٹرو فاس پر 200 روپے اور ایس او پی کھاد پر 800 روپے فی بوری زرتلافی کا بھی تزکرہ کیا۔ اس کے علاوہ حکومت مختلف اضلاع میں اندراج شدہ کسانوں کو کپاس کے بیج پر فی تھیلی 1,000 روپے زرتلافی فراہم کرے گی۔
(ڈان، 14 فروری، صفحہ2)

زراعت
اقوام متحدہ کا ادارہ برائے خوراک و زراعت (فاؤ) کے اشتراک سے سندھ زرعی یونیورسٹی، ٹنڈو جام میں فاؤ ریسورسس سینٹر کا افتتاح کردیا گیا ہے۔ اس مرکز کے قیام کا مقصد کسانوں اور محققین کے درمیان مضبوط روابط کے ذریعے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کو فروغ دینا ہے۔ اس موقع پر پاکستان میں فاؤ کی نمائندہ مینا ڈو لاچی کا کہنا تھا کہ اس مرکز کے قیام سے زرعی شعبہ کی کارکردگی بہتر ہوگی اور صوبہ میں پائیدار زراعت کے لئے مشترکہ سرمایہ کاری و حکمت عملیوں کو فروغ دینے میں مدد ملے گی۔ غذائی تحفظ کو یقینی بنانے اور غذائی کمی کے خاتمہ کے لئے فاؤ زمین کے کرایہ داری نظام (لینڈ ٹینیور سسٹم) پر عملدرآمد کے لئے یورپی یونین کی مالی مدد سے سندھ کے آٹھ اضلاع میں ’’امپروو لینڈ ٹیننسی ان سندھ پرونس‘‘ نامی منصوبے کے تحت کام کررہی ہے جو زمین اور قدرتی وسائل تک پائیدار اور منصفانہ رسائی کو بہتر بناسکتا ہے اور پیداوار، غذائی تحفظ اور غذائیت میں بہتری ممکن بناتا ہے۔ اس کے علاوہ انڈس بیسن کے ساتھ واقع منتخب اضلاع میں موسمی تبدیلی سے مطابقت و بحالی کی صلاحیت پیدا کرنے اور چھوٹے کسانوں کی مدد کے لئے ایک اور منصوبے کو حتمی شکل دیدی گئی ہے جس سے 1.5 ملین افراد کو فائدہ ہوگا۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 18 فروری، صفحہ5)

گندم
پاکستان ایگری کلچر اسٹوریج اینڈ سروسس کارپوریشن (پاسکو) کے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے 500,000 ٹن گندم برآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاسکو پہلے سے موصول شدہ قیمت فروخت 32,759 روپے فی ٹن پر 400,000 ٹن گندم بحری راستے سے اور 100,000 ٹن گندم زمینی راستے سے برآمد کرے گی۔ جنوری میں پاسکو کو 100,000 ٹن گندم کی برآمد کے لیے کیے گئے نیلام عام میں 32,759 روپے فی ٹن کی بولی موصول ہوئی تھی۔ اب پاسکو مزید 500,000 ٹن گندم اسی قیمت پر فروخت کرنا چاہتی ہے۔ ادارہ شماریات پاکستان کے مطابق پاکستان نے موجودہ پیشکش 234 ڈالر (32,759 روپے) فی ٹن کے مقابلے میں گزشتہ چھ ماہ (جولائی تا دسمبر 2018) میں اوسطاً 210.5 ڈالر فی ٹن کے حساب سے گندم برآمد کی تھی۔ ایگری فورم پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر ابراہیم مغل کے مطابق ملک میں اندازاً 4.5 ملین ٹن ضرورت سے زائد گندم موجود ہے۔ گزشتہ سال 25.5 ملین ٹن گندم کی پیداوار ہوئی تھی جبکہ ملکی طلب 24.4 ملین ٹن ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 15 فروری، صفحہ13)

گنا 
ایک مضمون کے مطابق اسٹیٹ بینک نے رواں مالی سال کی پہلی سہہ ماہی رپورٹ میں کہا ہے کہ جنوبی پنجاب اور سندھ میں کپاس کی کاشت کے اہم علاقوں میں شوگر ملوں کی تعداد میں اضافے نے کپاس کی پیداوار کو وسائل اور رقبے کے حوالے سے گنے سے مسابقت میں لاکھڑا کیا ہے۔ جب بھی کسی علاقہ میں نئی شوگر مل قائم ہوتی ہے کسانوں کو کپاس سے گنے کی فصل پر منتقل ہونے کا حوصلہ ملتا ہے۔ جب شوگر ملوں کے قیام میں اضافہ ہوا تو حکومت نے گنے کی کاشت پر اپنی توجہ مرکوز کی۔ 9-2008 میں آصف علی زرادری دور کے آغاز سے یہ رجحان نواز شریف دور تک جاری رہا۔ پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے مطابق 8-2007 کے اختتام تک شوگر ملوں کی تعداد 78 تھی جو 18-2017 میں 89 تک پہنچ گئی۔ گنے کی پیداوار میں اضافہ کپاس کی فصل پر منفی اثرات کا سبب بنا جو کپڑے کی صنعت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ مقامی سطح پر کپاس کی پیداوار میں کمی کی وجہ سے 13-2012 سے 18-2017 تک پھٹی کی در آمدات 450,000 ٹن سے 610,000 ٹن تک پہنچ گئی ہے۔ کپاس کی درآمد پر ایک بلین ڈالر سے زائد رقم خرچ کی جاتی ہے۔ شکر مل مالکان کا کہنا ہے کہ کپاس کی درآمد پر آنے والی لاگت کے برابر چینی کی برآمد سے تلافی ہوجاتی ہے۔ 18-2017 میں چینی کی برآمد سے نصف بلین ڈالر کی آمدنی ہوئی جو چینی کی اضافی پیداوار کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ گنے کی پیداوار میں تیزی سے اضافہ کا اندازہ ان اعداد و شمار سے لگایا جاسکتا ہے کہ 15-2014 کی 62.8 ملین ٹن پیداوار کے مقابلہ میں 18-2017 میں گنے کی پیداوار میں 31 فیصد اضافہ ہوا۔ گنے کی کاشت میں اضافے کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ شوگر ملوں کو زرتلافی دیئے بغیر اضافی چینی برآمد نہیں کی جاسکتی ہے۔ جس کی اہم وجوہات میں چینی کی برآمد کے حتمی فیصلے میں تاخیر، اضافی پیداواری لاگت اور عالمی منڈی میں (چینی کی قیمت میں کمی) کی صورتحال ہے۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق گزشتہ مالی سال عالمی سطح پر چینی کی اوسط قیمت 330 ڈالر کے مقابلہ میں مقامی سطح پر چینی کی اوسط قیمت 448 ڈالر فی ٹن تھی۔ حکومت کو چینی کی برآمد پر 14 بلین روپے زرتلافی دینی پڑی تھی۔ ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ گنے کی پیداوار میں اضافے کا کسانوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ مل مالکان کسانوں کو گنے کی مقرر کردہ امدادی قیمت سے بھی کم قیمت ادا کرتے ہیں جس سے چھوٹا کسان سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ حکومت اب تک چینی پر زرتلافی کی مد میں کروڑوں روپے خرچ کررہی ہے۔ بینک کی رپورٹ کے مطابق چینی کی برآمد حکومت کے لئے فائدے سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہورہی ہے۔
(محی الدین عظیم، ڈان، 18 فروری، صفحہ2 بزنس فنانس)

کپاس
ایک خبر کے مطابق کپاس کے زیر کاشت رقبے میں کمی، ناقص معیار کے بیج اور زرعی زہر کے استعمال سے بری طرح متاثر ہونے کے بعد 15 فروری تک گزشتہ سال کے مقابلے کپاس کی پیداوار 6.83 فیصد کم ہوکر 10.7 ملین گانٹھ کی سطح پر ہے۔ یہ مسلسل ساتواں سال ہے جب ملک کو سال 12-2011 میں ریکارڈ 15 ملین گانٹھوں کی پیداوار کے مقابلے 4.8 ملین گانٹھوں کی کمی کا سامنا ہے۔ کپڑے کی صنعتیں کپاس کی طلب پوری کرنے کے لئے 3.5 سے چار ملین گانٹھیں کپاس درآمد کررہی ہیں۔ چیئرمین پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن میاں محمود احمد کا کہنا ہے حکومت کو ملک میں کپاس کی بہتر فصل کے لئے جنگی بنیادوں پر اقدامات کرنے پڑیں گے۔ اعداد وشمار کے مطابق پنجاب میں 9.41 فیصد جبکہ سندھ میں پانی کی کمی کی وجہ سے کپاس کی کاشت میں 2.44 فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
(ڈان، 19فروری، صفحہ10)

چاول
جولائی سے شروع ہونے والے خریف کے اگلے موسم میں ہائبرڈ چاول کی کم از کم 12 اقسام کاشت کے لیے دستیاب ہونگی۔ نئی اقسام کو پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل کی بیج کی جانچ کرنے والی کمیٹی (ورائٹی ایویلوایشن کمیٹی) نے منظور کیا ہے۔ اب تک چاول کی 130 مختلف اقسام تیار کی گئی ہیں جن میں سے 12 اقسام ملک میں چاول کے پیداواری علاقوں میں کاشت کی گئی ہیں۔ ان اقسام کے علاوہ کھلی زیرگی کی حامل چاول کی ایک قسم کو بھی تجارتی طور پر کاشت کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔
(ڈان، 14 فروری، صفحہ10)

دالیں
سرکاری اعداد وشمار کے مطابق ملک میں دالوں کی درآمد (جولائی تا جنوری 19-2018) تین فیصد اضافے کے بعد 324.386 ملین ڈالر تک بڑھ گئی ہے۔ دالوں کی درآمدی لاگت میں 8.948 ملین ڈالر اضافہ ہوا ہے جو گزشتہ سال اسی مدت کے دوران 315.448 ملین ڈالر تھی۔
(بزنس ریکارڈر، 19 فروری، صفحہ5)

زیتون
محکمہ زراعت نے جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے پیداوار میں اضافے اور زیتون کی کاشت کی اہمیت کے بارے کسانوں کو آگاہی دینے کے لئے اپر دیر میں ایک روزہ ورکشاپ کا انعقاد کیا۔ ورکشاپ میں زرعی ماہرین کا کہنا تھا کہ زیتون بہت قیمتی اور فائدہ مند ہے اور ضلع کی مٹی اور موسم زیتون کی کاشت ک لئے موزوں ہے جس سے کسان اچھی آمدنی حاصل کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ کسان زیتون کے ساتھ ساتھ مختلف اقسام کی سبزیاں اور فصلیں بھی کاشت کرسکتے ہیں۔
(ڈان، 18 فروری، صفحہ9)

مال مویشی
وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ حکومت مال مویشی شعبے کو جدید سائنسی بنیادوں پر ترقی دینے کے لیے کوششیں کررہی ہے۔ محکمہ لائیو اسٹاک اینڈ ڈیری ڈیولپمنٹ پنجاب کے اشتراک سے یونیورسٹی آف ویٹنری اینڈ اینمل سائنسس، لاہور کی جانب سے منعقد کردہ عالمی بھینس کانگریس 2019 (انٹرنیشنل بفیلو کانگریس 2019) کے افتتاح کے موقع پر وزیر اعلی کا کہنا تھا کہ حکومت چاہتی ہے کہ ہر کسان جدید پیداواری طریقوں کو سیکھے اور اپنائے، اور زیادہ سے زیادہ دودھ اور گوشت کی پیداوار حاصل کرے۔ وزیر اعلی نے بھینسوں پر تحقیق کا مرکز سائنو ۔ پاک بفیلو ریسرچ سینٹر کا بھی افتتاح کیا۔ یہ مرکز چین اور پاکستان میں بھینسوں پر تحقیق کو فروغ دے گا۔ کانگریس میں امریکہ، بھارت، آسٹریلیا، ترکی اور متحدہ عرب امارات سمیت کئی ممالک سے 500 سے زائد مندوبین شرکت کررہے ہیں۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 19فروری، صفحہ11)

ماہی گیری
ماہی گیروں کی تنظیم گوادر فشرمین الائنس نے اعلان کیا ہے کہ وہ مقامی ماہی گیروں کے صدیوں پرانے روزگار کے تحفظ کے لئے یکم مارچ سے دوبارہ احتجاج شروع کریں گے۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے تنظیم کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ پاکستان کی ترقی کے لئے مقامی ماہی گیروں نے اپنے آباؤ اجداد کا علاقہ ملا بند کی زمین کی ملکیت چھوڑ دی تھی۔ تاہم حکومت کی جانب سے ایسٹ بے ایکسپریس وے کی تعمیر شروع ہونے کے بعد انھوں نے وفاقی و صوبائی حکومتوں کے سامنے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا کہ اس ایکسپریس وے کی تعمیر سے سمندر تک ان کی رسائی بند ہوجائے گی۔ ماہی گیروں نے اس پر احتجاج کا فیصلہ کیا لیکن ضلعی انتظامیہ اور گوادر بندرگاہ کے حکام کی یقین دہانی پر فیصلہ واپس لے لیا گیا تھا۔ ماہی گیر رہنماؤں کا مزید کہنا تھا کہ انہیں بتایا گیا تھا کہ نئی جیٹی قائم کرنے کے لئے رقم کی منظوری دی جائیگی اور ہم اب تک منصوبہ بندی کمیشن کے حتمی فیصلے کے منتظر ہیں۔ ماہی گیروں نے 28 فروری تک انتظار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر ان کے مطالبات پورے کرنے کے لئے اقدامات نہیں کیے گئے تو یکم مارچ سے احتجاج کا آغاز کیا جائیگا۔ ماہی گیروں کے مطالبات میں سمندر تک رسائی کے لیے بلوچ وارڈ پر ایک راستہ بنانے، نیلام گھر (آکشن ہال) کی تعمیر، ماہی گیروں کے بچوں کے لیے تعلیمی وظائف اور گیس، پانی و بجلی کی فراہمی شامل ہے۔
(ڈان، 18 فروری، صفحہ5)

وزیر اعلی بلوچستان جام کمال خان نے پسنی کی بندرگاہ (فش ہاربر) کی دوبارہ جدید سہولیات کے ساتھ علاقے کے کسی اور مقام پر تعمیر کی تجویز دی ہے، کیونکہ موجودہ بندرگاہ کو فعال نہیں بنایا جاسکتا۔ پسنی بندرگاہ کے حوالے سے منعقد کیے جانے والے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیر اعلی نے گزشتہ 10 سالوں سے بندرگاہ کے غیرفعال ہونے اور ملازمین کو تنخواہوں کی مد میں 1.5 بلین روپے کی ادائیگی پر برہمی کا اظہار کیا۔ وزیر اعلی نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی ہے کہ صوبے کی تمام بندر گاہیں اور جیٹیوں کو ایک اتھارٹی کے تحت نجی سرکاری شراکت داری میں چلانے پر غور کریں اور دلچسپی رکھنے والے سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے اخبارات میں اس منصوبہ بندی کا اشتہار شائع کریں۔
(ڈان، 19 فروری، صفحہ5)

غربت
جاپان کی حکومت نے پاکستان کو غذائی کمی سے نمٹنے، بہتر روزگار اور خیبر پختونخوا، سندھ و بلوچستان میں قدرتی آفات سے مطابقت کے لیے 10.6 ملین ڈالر کی مالی امداد کا اعلان کیا ہے۔ جاپان کی یہ امداد اس کا یونائیٹڈ نیشنز ڈیولپمنٹ پروگرام اور عالمی غذائی پروگرام کے ساتھ ہونیوالی شراکتداری کا حصہ ہے جس پر اسلام آباد میں دستخط کئے گئے تھے۔ 3.5 ملین ڈالر خیبر پختونخوا میں شدید غذائی کمی کی شکار 155,000 ماؤں اور بچوں کی ابتدائی تشخیص اور ان کے علاج کے لیے استعمال کئے جائینگے۔ 3.55 ملین ڈالر یونائیٹڈ نیشنز ڈیولپمنٹ پروگرام کے خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقہ جات کے لیے منصوبے ’’اسٹیبلائزیشن تھرو انکلوزو لائیولی ہڈ‘‘ پر خرچ ہونگے۔ اس منصوبے پر خیبرپختونخوا حکومت اور فاٹا سیکٹریٹ کے اشتراک سے عملدرآمد کیا جارہا ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ جاپانی حکومت قدرتی آفات، سونامی کے خطرے سے پیشگی خبردار کرنے والا نظام، ساحلی آبادیوں کی آفات سے بحالی کی صلاحیت میں اضافہ کرنے کے لئے بھی پاکستان کی مدد کریگی۔
(ڈان، 20 فروری، صفحہ3)

غذائی کمی
سندھ کے ضلع تھرپارکر میں بیماریوں اور غذائی کمی کی وجہ سے بچوں کی اموات کا سلسلہ جاری ہے جہاں سول ہسپتال مٹھی میں مزید پانچ بچے جانبحق ہوگئے ہیں۔ ان ہلاکتوں کے بعد تھرپارکر میں رواں مہینے میں ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد 38 جبکہ اس سال کے آغاز سے اب تک مرنے والے بچوں کی تعداد 105 ہوگئی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 19 فروری، صفحہ5)

خشک سالی
ایک خبر کے مطابق اقوام متحدہ کے وفد نے وزیر اعلی بلوچستان جام کمال سے ملاقات میں صوبہ بھر میں خشک سالی جیسی صورتحال پر قابو پانے اور متاثرہ افراد کو امداد کی فراہمی کے لیے بھرپور معاونت فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ اقوام متحدہ کے وفد میں عالمی غذائی پروگرام، یونیسیف، عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او)، یو این پاپولیشن فنڈ اور یو این ڈیولپمنٹ پروگرام کے حکام شامل تھے۔ اجلاس میں بلوچستان میں اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی اداروں کی مدد سے طویل اور مختصر مدت پر مبنی منصوبے شروع کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ وزیر اعلی بلوچستان نے خشک سالی سے متاثرہ علاقوں میں جائزہ لینے کے لیے اقوام متحدہ کے اداروں کو مکمل تعاون اور مکمل رسائی دینے کی یقین دہانی کروائی ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 15 فروری، صفحہ7)

زرعی مشینری
بیلاروس کے نائب وزیر ڈمٹری کورچک نے کہا ہے کہ ان کا ملک پاکستان میں مشترکہ طور پر ٹریکٹر اور دیگر زرعی مشینری تیار کرنے کا خواہشمند ہے۔ وفاقی وزیر قومی غذائی تحفظ و تحقیق محمد محبوب سلطان سے بیلاروس کے وفد کی ملاقات کے دوران دو طرفہ سرمایاکاری کے مواقعوں پر بات چیت کی گئی۔ 18-2017 میں بیلاروس سے پاکستان کی درآمد کا حجم 45.13 ملین ڈالر تھا جو زیادہ تر ٹریکٹر کی درآمد پر مشتمل ہے۔
(ڈان،20 فروری، صفحہ10)

نکتہ نظر
مجموعی طور پر اگر زرعی شعبے کی اہم خبروں کا جائزہ لیا جائے تو حکومت کی جانب سے مرتب کردہ پالیسیوں کا ہر سطح پر ایک ہی مقصد نظر آتا ہے۔ چاہے گوشت، دودھ کی پیداوار ہویا گنا و کپاس، حکومت چھوٹے اور بے زمین کسان مزدوروں کے بجائے صرف اور صرف منافع کے حصول کو اہمیت دیتی ہے چاہے اس کے لیے عالمی کمپنیوں اور سرمایہ دار ممالک پر تحقیق، مداخل، ٹیکنالوجی اور منڈی کے لیے انحصار ہی کیوں نہ پڑے۔ یہ واضح ہے کہ مقصد پاکستان کے کسان مزدور طبقہ سے غربت، بھوک، بیروزگاری کا خاتمہ کرکے خوشحالی، انصاف اور برابری لانا نہیں بلکہ ملکی عالمی سرمایہ داری ایجنڈے کے تحت قومی پیداوار میں اضافہ کرکے منڈی کی ضروریات پوری کرنا اور زیادہ سے زیادہ منافع سمیٹنا ہے۔ صنعتکاروں کو زرتلافی، برآمد کنندگان کو زرتلافی، بیج، کھاد پر زرتلافی اسی سلسلہ کی کچھ مثالیں ہیں تاکہ بیج اور کھاد کمپنیوں کے دھندے چمکتے رہیں چاہیے کسان مزدوروں کے چولہے ٹھنڈے ہوجائیں ۔ کیا یہ عجب نہیں کہ تھرپارکر میں بچے بھوک اور غذائی کمی سے مرتے ہوں ، جاپانی امداد خیبرپختونخوا میں غذائی کمی کے شکار بچوں اور عورتوں میں غذائی کمی و بھوک کے خاتمے کے لیے خرچ ہو لیکن ملک میں دستیاب لاکھوں ٹن گندم سستے داموں برآمد کردی جائے تاکہ خزانے میں زرمبادلہ دستیاب رہے۔ سرمایہ دار ممالک کی درآمدی جدید ٹیکنالوجی کے دھوکے پر مبنی عالمگیریت کے پیش کردہ حل حکمرانوں کو باآسانی سمجھ آجاتے ہیں لیکن وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ماہی گیر ہوں یا کسان اسی وقت خوشحال ہوسکتے ہیں جب پیداواری وسائل پر اختیار ان کا ہو۔ حکومتی پالیسیاں عالمگیریت پر مبنی ہیں جن میں مقامی وسائل اور محنت کو عالمی سرمایہ دار اپنے منافع کے لیے ترتیب دیتے ہیں۔ استحصال کے شکار طبقات اس وقت تک حقیقی معاشی خودمختاری حاصل نہیں کرسکتے جب تک وہ اس پالیسی سازی کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے لیتے، اس حقیقی تبدیلی کے لیے استحصال کے شکار طبقہ کو خود جدوجہد کا آغاز کرنا ہوگا، یہی راہ نجات ہے۔

فروری 7 تا 13 فروری، 2019
کھاد
ایک خبر کے مطابق اینگرو فرٹیلائزر کا منافع سال 2018 میں 56 فیصد اضافے کے بعد 17.4 بلین روپے تک پہنچ گیا ہے۔ سال 2017 میں کمپنی کا منافع 11.5 بلین روپے تھا۔ کمپنی کے منافع میں اضافہ اس کی فروخت میں اضافے کی وجہ سے ہوا ہے جو گزشتہ سال کی فروخت 77 بلین سے بڑھ کر سال 2018 میں 109 بلین ہوگئی ہے۔ کمپنی کی فروخت میں اضافے کی شرح 42 فیصد ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 9 فروری، صفحہ20)

ایک خبر کے مطابق وفاقی حکومت نے کھاد کے کارخانوں سمیت بجلی بنانے والے آزاد اداروں اور دیگر کارخانوں کے لیے (2012-18 سات سالوں پر مشتمل) گیس انفرااسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس کی مد میں واجب الادا 50 فیصد رقم معاف کردی ہے۔ یہ فیصلہ وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں ہونے والے کابینہ کے اجلاس میں پیٹرولیم ڈویژن کی جانب سے جلد بازی میں تیار کردہ سمری پر کیا گیا۔
(بزنس ریکارڈر، 9 فروری، صفحہ1)

پانی
ایک خبر کے مطابق آبیانے کی وصولی کو بہتر بنانے اور نادہندگان کے خلاف سخت کاروائی کو یقینی بنانے کے لئے ایک ٹیم (ٹاسک فورس) قائم کردی گئی ہے۔ پنجاب اریگیشن اینڈ ڈرینج اتھارٹی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ آبپاشی نظام کی مؤثر دیکھ بھال کے لئے آبیانے کی وصولی کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹاسک فورس آبیانے کی وصولی پر نظر رکھے گی اور نادہندگان کو پانی کی ترسیل کے لیے وارہ بندی سے خارج کرنے کے لیے سفارش کرے گی۔ پنجاب اریگیشن اینڈ ڈرینج اتھارٹی کے ایگزیکٹو انجینئروں کو تمام کسان تنظیموں کے ریکارڈ مرتب کرنے کی ہدایت کردی گئی ہے۔ کسانوں کو خریف 2018 کے بل بھیجے جاچکے ہیں اور نادہندگان کی فہرست کو بھی حتمی شکل دی جارہی ہے۔
(ڈان، 9 فروری، صفحہ2)

مال مویشی
وفاقی وزیر قومی غذائی تحفظ و تحقیق صاحبزادہ محمد محبوب سلطان نے امریکی امدادی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) کی جانب سے منہ اور کھر کی بیماریوں سے تحفظ کے لئے منعقد کردہ ورکشاب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان حلال گوشت کی مقامی اور عالمی طلب پوری کرنے کے لیے جدید خطوط پر مال مویشی شعبہ کو ترقی دینے کے لیے پرعزم ہے۔ اس ورکشاپ کا مقصد امریکہ اور پاکستان کے مشترکہ منصوبے ایگری کلچرل مارکیٹ ڈیولپمنٹ کے تحت مال مویشی شعبہ سے متعلق شراکت داروں کو اکھٹا کرنا، انہیں ملک میں منہ کھر کی بیماری کے خاتمہ پر پیش رفت سے آگاہ کرنا اور گوشت کی زیادہ طلب رکھنے والی منڈیوں تک اس کی تجارت میں اضافے کے لیے (منہ کھر کی بیماری کی) پائیدار روک تھام کے لیے لائحہ عمل سے پیش کرنا تھا۔ اس موقع پر یو ایس ایڈ کے ڈائریکٹر جیف جیوبل کا کہنا تھا کہ زرعی معیشت میں مال مویشی شعبہ کا حصہ 58 فیصد ہے جو دنیا میں حلال گوشت کی مجموعی پیداوار کا پانچ فیصد گوشت پیدا کرتا ہے۔ مسلسل کوشش اور منہ کھر کی بیماری پر قابو پاکر پاکسان حلال گوشت کی عالمی ضرورت میں اپنا حصہ ڈال سکتا ہے جس کا حجم 600 بلین ڈالر ہے۔ پاکستان نے سال 2018 میں 6.598 ملین ڈالر کی لاگت سے منہ کھر کی بیماری کی روک تھام کے منصوبے ’’رسک بیسڈ کنٹرول آف فٹ اینڈ ماؤتھ ڈیزیز ان پاکستان 2018-2024 شروع کیا ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 7 جنوری، صفحہ3)

غربت
خشک سالی سے متاثرہ تھرپارکر میں گزشتہ دو دنوں میں خوراک کی کمی اور پانی سے ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے مزید چار بچے جانبحق ہوگئے ہیں۔ ان بچوں کی اموات کی ساتھ اس سال تھر میں مرنے والے بچوں کی تعداد 76 ہوگئی ہے۔ ڈپٹی کمشنر تھر پارکر محمد آصف جمیل کا کہنا ہے کہ ضلع کے مختلف طبی مراکز میں 600 سے زائد بچے زیر علاج ہیں۔ تھرپارکر میں گندم کی مفت تقسیم کے تیسرے مرحلہ میں 1,681 خاندانوں کو فی کس 50 کلو گرام گندم فراہم کردی گئی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 11 فروری، صفحہ11)

ایک خبرکے مطابق بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) غربت کا سروے کرنے میں ناکام ہوگیا ہے۔ سابقہ حکومت نے تین سال قبل بی آئی ایس پی کو سروے کرنے کے لیے کہا تھا۔ اس سروے کو دو مراحل میں مکمل ہونا تھا۔ پہلے مرحلہ کی لاگت 900 ملین روپے جبکہ دوسرے مرحلہ کی لاگت نو بلین روپے تھی۔ بی آئی ایس پی نے 2016 میں 16 اضلاع میں ابتدائی مرحلہ کا آغاز کیا تھا جو اسی سال کے آخر تک مکمل ہونا تھا، جبکہ جنوری 2017 سے تمام اضلاع میں سروے کا انعقاد کرنا تھا۔ نیشنل سوشل اینڈ اکنامک رجسٹری نامی یہ سروے ملک کے 137 اضلاع میں کیا جانا تھا۔ تاہم ایک سال گزر جانے کے باوجود سروے اب تک مکمل نہیں کیا جاسکا۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 13 فروری، صفحہ2)

گندم
محکمہ موسمیات نے گندم کاشت کرنے والے کسانوں کو اپنے کھیتوں سے جڑی بوٹیاں صاف کرنے کا مشورہ دیا ہے کیونکہ ملک کے وسطی علاقوں میں فصل اب پکنے کے مراحل میں داخل ہوگئی ہے۔ کسانوں سے مزید کہا گیا ہے کہ موسم کو مدنظر رکھتے ہوئے ربیع کی فصلوں کے لئے آبپاشی کی منصوبہ بندی کریں۔ اس کے علاوہ کسانوں کو فصلوں کو سرد موسم سے بچانے کے لئے اقدامات کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 10فروری، صفحہ2)

ماحول
ایک خبر کے مطابق گزشتہ تین دہائیوں میں سائبیریا سے ہجرت کرکے آنے والے پرندوں کی تعداد میں تیزی سے کمی آئی ہے۔ موسم سرما میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق 12 آبی مقامات پر مقامی اور ہجرت کرکے آنے والے پرندوں سمیت تقریباً 150,000 پرندوں کی آمد کا اندازہ لگایا گیا ہے جو گزشتہ سال 2017-18 کے مقابلے میں 70 فیصد کم ہیں۔ پاکستان ہجرت کرکے آنے والے پرندوں کی آمد کا سلسلہ اگست کے آخر سے شروع ہوجاتا ہے۔ فرروی کے مہینے سے ان پرندوں کی واپسی شروع ہوجاتی ہے اور مارچ تک تمام پرندے واپس چلے جاتے ہیں۔ محکمہ جنگلی حیات کے افسر کا کہنا ہے کہ یہ پرندے پاکستان میں 19 مقامات پر قیام کرتے ہیں جن میں سے 10 مقامات سندھ میں پائے جاتے ہیں۔ ماہرین نے انسانی مداخلت اور دیگر قدرتی وجوہات کو پاکستان میں ہجرت کرکے آنے والے پرندوں کی تعداد میں کمی کا سبب قرار دیا ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 11 فروری، صفحہ5)

نکتہ نظر 
اس ہفتے کی سرفہرست خبر اینگرو فرٹیلائزر کے منافع میں ایک سال میں تقریبا چھ ارب روپے اضافے کی ہے جو ملک میں زراعت میں ماحول دشمن کیمیائی اجزاء کے استعمال میں اضافے کو تو ظاہر کرتی ہے، ساتھ ساتھ اس ماحول دشمن کیمیائی زراعت اور موسمی تبدیلی کے اثرات بھی ملک میں ہجرت کرنے والے پرندوں کی بری تعداد میں کمی کی صورت ظاہر ہورہے ہیں۔ یہی نہیں اس غیر پائیدار طریقہ پیداوار اور ماحول کی تباہی کے ذمہ دار سرمایہ دار واجب الادا ٹیکس معاف کرواکر قومی خزانے کو لوٹ رہے ہیں جو اس ملک میں ناصرف طبقاتی تفریق میں مزید اضافے بلکہ غربت میں مزید اضافے کی بھی ایک وجہ ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ کھاد کی صنعت کے منافع میں اربوں روپے کا اضافہ ہوتا ہے اس کے باوجود ان کے ذمہ واجبات معاف کیے جاتے ہیں لیکن بات جب کسان سے آبیانہ وصولی کی ہو تو حکومت وصولی کے لیے ان کا پانی بند کرنے پر اتر آتی ہے۔ یہی ناانصافی اور ظلم و استحصال پر مبنی نظام اس ملک کے عوام کی ترقی، خوشحالی اور خودمختاری میں سب سے بری رکاوٹ ہے جسے دور کرنے کے لیے استحصال کے شکار کسان مزدور طبقے کو میدان عمل میں آنے کی اشد ضرورت ہے۔

جنوری 31 تا 6 فروری، 2019
زمین

ایک خبر کے مطابق پاکستان فضائیہ نے قومی سلامتی کے لیے حاصل کردہ زمین کو رہائشی منصوبے میں تبدیل کردیا ہے جس سے قومی خزانے کو 1.92 بلین روپے کا نقصان ہوا۔ پبلک اکاؤنٹ کمیٹی میں جمع کروائی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جانچ پڑتال کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی اپنی 19.21 ایکڑ خالی زمین پاکستان فضائیہ سے حاصل نہیں کرسکی جس نے قومی سلامتی اور ریڈار کی تنصیب کے لیے 07-2006 میں جبراً یہ زمین حاصل کی تھی۔ تاہم یہی زمین پاک فالکن سوسائٹی کے ارکان کو  فروخت کردی گئی۔
(ڈان، 1 فروری، صفحہ3)

بلوچستان حکومت نے ضلع گوادر کی تحصیل پسنی میں 36,000 ایکڑ زمین کی موجودہ ملکیت (سیٹلمنٹ) منسوخ کرتے ہوئے اسے حکومتی ملکیت قرار دے دیا ہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق منسوخ کی جانے والی زمین ضلع پسنی کی 19تحصیلوں میں واقع ہے۔ زمین کے مقامی مالکان نے اس حکومتی فیصلے پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ حکومتی ملکیت قراردی گئی زمینیں سرکاری دستاویزات میں ان کے ناموں پر رجسٹرڈ تھیں کیونکہ یہ زمینیں ان کے آباؤ اجداد کی ہیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے رکن صوبائی اسمبلی میر حمال کلمتی نے بورڈ آف ریونیو کے فیصلے کی مزمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ تیسری دفعہ ہوا ہے کہ حکومت زمین مالکان کو ان کی زمین سے محروم کررہی ہے۔
(ڈان، 4 فروری، صفحہ5)

زرعی قرضہ جات

سندھ حکومت نے وفاق حکومت پر زور دیا ہے کہ صوبہ سندھ کے آفت زدہ آٹھ اضلاع کے کسانوں کے زرعی قرضے معاف کردیے جائیں۔ وزیر زراعت سندھ اسماعیل راہو نے زرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے سندھ حکومت کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کو لکھے گئے خط میں قرض معاف کرنے کی درخواست کی ہے۔ خط میں جن آٹھ اضلاع کی وضاحت کی گئی ہے ان میں بدین، ٹھٹھہ، تھرپارکر، عمرکوٹ، دادو، جامشورو، سانگھڑ اور قمبرشہدادکوٹ شامل ہیں۔
(ڈان، 3 فروری، صفحہ17)

مکئی

بائیر پاکستان کی جانب سے کسانوں کے ساتھ قصور، پنجاب میں منعقد کردہ ایک مزاکرے میں کمپنی کے ایشیا وافریقہ کے سربراہ لوئس کماچو  نے کسانوں پر زور دیا ہے کہ وہ پیداوار میں اضافہ، کاروبار میں بڑھوتری اور اپنے روزگار میں بہتری کے لئے خود کو ضروری علوم اور مہارت سے لیس کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کسانوں کے لیے جدید زرعی ٹیکنالوجی متعارف کروانے کے وعدے کے مطابق ’’ہم بائیو ٹیک ہائبرڈ مکئی متعارف کروائیں گے جو کیڑے مکوڑوں کے حملوں کے خلاف مزاحمت کی حامل ہے اور جڑی بوٹیوں کے خلاف بہتر کنٹرول فراہم کرتی ہے جس کے نتیجے میں مداخل پر اخراجات کی مد میں کسانوں کو بچت ہوتی ہے اور پیداوار بڑھتی ہے‘‘۔ 500 سے زائد کسان پنجاب کے 14 اضلاع سے بطور نمبردار منتخب کیے گئے ہیں جن کی تعداد منتخب علاقوں میں 30,000 تک بڑھنے کی توقع ہے۔ منتخب اضلاع میں اکاڑہ، پاکپتن، ساہیوال، گجرانوالہ، گوجرہ، چنیوٹ، دیپالپور، قصور، بسیر پور، بورے والا، عارف والا، میاں چنوں، چیچہ وطنی اور میلسی شامل ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 2 جنوری، صفحہ17)

کپاس

کوٹ سبزل، رحیم یارخان میں منعقد کی گئی ایک تقریب میں بلوچستان نے پاکستان کی پہلی نامیاتی کپاس کی گانٹھ کی تصدیق کا اعزاز حاصل کرلیا ہے۔ وزیر زراعت بلوچستان انجینئر زمرک خان کا کہنا تھا کہ حکومت صوبہ بھر میں نامیاتی زراعت کے فروغ کے لئے پر عزم ہے اور جلد بلوچستان نامیاتی زراعت کی پالیسی مرتب کرے گا۔ اس موقع پر ورلڈ وائڈ فنڈ پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل حماد نقی خان کا کہنا تھا کہ ملکی کپاس کے شعبہ میں یہ ایک اہم پیش رفت ہے جس سے شراکتداروں اور ملک کی مجموعی معیشت کو فائدہ ہوگا۔ ورلڈ وائڈ فنڈ پاکستان نے 2015 میں سی اینڈ اے فاؤنڈیشن کی مالی معاونت اور ڈائریکٹوریٹ آف ایگریکلچرل ایکسٹینشن بلوچستان کے ساتھ مل کر ’’آرگینک کاٹن کلٹی ویشن پروموشن ودھ اسمال اینڈ مارجینل ٹرائبل فارمرز ان پاکستان‘‘ کے عنوان سے اس منصوبے پر کام کا آغاز کیا تھا۔ نامیاتی کپاس کی کاشت میں کسی قسم کی کیمیائی کھاد یا کیڑے مار زہر کا استعمال نہیں کیا گیا ہے اور ایک ایسی زمین پر کاشت کی گئی جس پر کم از کم تین سالوں سے کیمیائی کھاد یا کیڑے مار زہر استعمال نہیں کیا گیا۔ نامیاتی کپاس کی کاشت میں جنیاتی بیج کے استعمال سے بھی گریز کیاگیا ہے۔
(ڈان، 31 جنوری، صفحہ10)

ایک خبر کے مطابق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے کپڑے کی صنعت کو کپاس کی درآمد پر ٹیکس اور ڈیوٹی کا خاتمہ کرکے ایک اور 29 بلین روپے کا امدادی پیکج دیا ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت مسلم لیگ ن کی گزشتہ حکومت کی طرح بڑے سرمایہ داروں کو مدد فراہم کررہی ہے جنہوں نے اربوں روپے کے امدادی پیکچ حاصل کیے ہیں۔ حکومت نے حال ہی میں صفر درجہ ٹیکس کی حامل پانچ صنعتی شعبہ جات کے لیے گیس پر 25 بلین روپے کی زرتلافی فراہم کی ہے جس سے سب سے زیادہ فائدہ کپڑے کی صنعت کو ہوا۔ حکومت نے کپڑے کی صنعتوں کے لیے گیس انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس کی شرح میں 50 فیصد کمی کرکے ایک اور امدادی پیکچ دیا ہے جس کا حجم 40 بلین روپے بنتا ہے۔ کپاس کی درآمد پر چھوٹ دینے سے حکومت کو کسٹم ڈیوٹی کی مد 14.6 بلین روپے، ایڈیشنل کسٹم ڈیوٹی کی مد میں 6.9 بلین اور سیل ٹیکس کی مد میں 7.7 بلین روپے کا نقصان ہوگا۔ ان مراعات سے ملک کے کپڑے کے بڑے صنعتکار اور پاکستان کو کپاس برآمد کرنے والے ممالک کے کسان فائدہ اٹھائیں گے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 2 فروری، صفحہ20)

چاول

وزیر اعظم کے مشیر برائے تجارت، ٹیکسٹائل، صنعت و پیداوار عبدالرزاق داؤد نے چاول کے برآمد کنندگان سے بات چیت کے دوران کہا ہے کہ پاکستان سی پیک کے تحت بنیادی ڈھانچوں اور توانائی منصوبوں کے بجائے زرعی بڑھوتری اور برآمدات میں اضافے کے لئے چین سے مدد چاہتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’ہم سی پیک کے تحت مزید توانائی کی پیداوار اور شاہراہوں کے منصوبے نہیں چاہتے ہیں، ہمیں زرعی اور برآمدی شعبوں کے لئے چین کے تعاون کی ضرورت ہے‘‘۔ گزشتہ کچھ سالوں میں چاول کی برآمدات 300 ملین ڈالر سے دو بلین ڈالر تک پہنچ گئی ہے، اور یہ سب رائس ایکسپورٹ ایسوسی ایشن (ریپ) کی قیادت کی دوراندیشی کی وجہ سے ممکن ہوا۔ انہوں نے ریپ کو یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ کوشش کریں گے کہ چاول صفر درجہ محصول شعبہ جات میں شامل ہو تاکہ چاول کے برآمد کنندگان مزید فوائد حاصل کرسکیں۔
(بزنس ریکارڈر، 3 فروری، صفحہ12)

گندم

سندھ آبادگار بورڈ کے صدر عبدالمجید نظامانی نے سندھ حکومت سے مطالبہ کیا ہے باردانہ کی تقسیم یقینی بنانے کے لئے یکم مارچ تک گندم کی خریداری کے مراکز قائم کیے جائیں اور محکمہ خوراک سندھ میں 220 ملین روپے کی مالی بے قائدگی کی تحقیقات کی جائے۔ انہوں مزید کہا کہ ہرسال جان بوجھ کر گندم کی خریداری کے مراکز قائم کرنے میں تاخیر کی جاتی ہے۔ کسانوں میں باردانہ تقسیم نہیں کیا جاتا اور زیادہ تر سیاسی شخصیات کو باردانہ فراہم کیا جاتا ہے۔
(ڈان،6 فروری، صفحہ17)

کارپوریٹ

فوجی فرٹیلائزر کمپنی نے سال 2018 میں 14.44 بلین روپے خالص منافع کا اعلان کیا ہے جو گزشتہ سال کے مقابلے 35 فیصد زیادہ ہے۔ کمپنی کی جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق کمپنی نے یوریا کی 2,522,000 ٹن پیداوار حاصل کی جو 2016 میں کمپنی کی حاصل کردہ اب تک کی بلند ترین پیداوار سے صرف 1,000 ٹن کم ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 1 فروری، صفحہ7)

پانی

ایک خبر کے مطابق پاکستانی ماہرین کا تین رکنی وفد دریائے چناب پر بھارت کے پن بجلی منصوبوں کی جانچ کے بعد پاکستان واپس پہنچ گیا ہے۔ وفد نے اپنے چھ روزہ دورے کے دوران سندھ طاس معاہدے کے تحت مختلف منصوبوں کا جائزہ لیا۔ وفد کی قیادت کرنے والے پاکستان کے انڈس واٹر کمشنر سید مہر علی شاہ کے مطابق چار پن بجلی منصوبوں 1,000میگاواٹ کے پاکل دل، 48 میگاواٹ کے لوئر کلنائی، 850 میگاواٹ کے رتلے اور 900 میگاواٹ کے بگلیہار ڈیم کا جائزہ لیا گیا ہے۔ وفد نے بگلیہار ڈیم کا بھی معائنہ کیا جو موسم سرما میں پانی کے بہاؤ میں کمی کی وجہ سے 150 میگاواٹ بجلی پیدا کررہا تھا۔ سید مہر علی شاہ نے مزید کہا کہ ’’ہمیں وہاں یہ دیکھنا تھا کہ (بگلیہار ڈیم) نقشہ کے مطابق چلایا جارہا ہے یا نہیں، معائنہ کے بعد ہم نے پایا کہ منصوبہ نقشہ کے مطابق چلایا جارہا ہے‘‘۔
(ڈان، 2 فروری، صفحہ1)

دنیا میں 70 فیصد پانی زرعی شعبے میں استعمال ہوتا ہے جبکہ پاکستان میں یہ شرح 90 فیصد ہے جہاں ناقص طریقہ آبپاشی کی وجہ سے 50 فیصد پانی ضائع ہوجاتا ہے۔ پانی کے تحفظ اور پیداوار میں اضافے کے لیے نیسلے پاکستان حکومت اور کسانوں کے ساتھ شراکت داری بڑھا کر قطرہ قطرہ آبپاشی نظام کو فروغ دے رہی ہے۔ نیسلے واٹر کے نائب صدر پیٹر ہیگ مین نے شیخوپورہ کے نزدیک نیسلے پاکستان ایگری کلچرل ایفیشنسی پروجیکٹ کے تحت قطرہ قطرہ آبپاشی نظام کی تنصیب کا افتتاح کیا ہے۔ اس نظام کی تنصیب نیسلے پاکستان نے پنجاب حکومت کی شراکت سے کی ہے جس میں کسان کی اس پر آنے والی لاگت کا 40 فیصد نیسلے اور 60 فیصد حکومت پنجاب نے برداشت کی ہے۔ یہ منصوبہ 54 ملین لیٹر سالانہ پانی بچانے میں مدد دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 6 فروری، صفحہ12)

مال مویشی

وزیر مال مویشی و ماہی گیری سندھ عبد الباری پتافی نے کہا ہے کہ ان کا محکمہ مویشیوں کی مقامی نسلوں کی بڑھوتری کے لئے حیدرآباد میں مارچ کے پہلے ہفتے میں قومی سطح کی مال مویشی نمائش منعقد کرے گا۔ اس نمائش میں زرعی مشینری اور مال مویشی شعبہ سے متعلق مشینری تیار کرنے والی تمام کمپنیوں کو مدعو کیا جارہا ہے تاکہ کسان جدید مشینری کا استعمال سیکھ سکیں۔ صوبائی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ محکمہ مقامی مویشیوں کی اقسام کے تحفظ کے لیے پر عزم ہے۔ مال مویشی شعبہ میں ترقی ہی غذائی تحفظ کو یقینی بناسکتی ہے۔ (ڈان، 1فروری، صفحہ17)

ماہی گیری

وزیر مال مویشی وماہی گیری سندھ عبدالباری پتافی نے وفاقی حکومت کی جانب سے گہرے سمندر میں شکار کے لئے اجاز ت ناموں (لائسنس) کے مسلسل اجراء اور سندھ میں ماہی گیری کی نگرانی کے نظام سے متعلق ٹھیکے پر تحفظات کااظہار کیا ہے۔ صحافیوں سے بات کرتے ہوئے صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ اٹھارویں آئینی ترمیم سے پہلے ماہی گیری 12 بحری میل تک محدود تھی۔ اس سے آگے 20 بحری میل تک بفرزون تھا۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد شعبہ ماہی گیری کے معاملات صوبوں کو منتقل ہوگئے اور سندھ بھی گہرے سمندر میں شکار کے اجازت نامے جاری کرنے کا مجاز ہوگیا ہے۔ تاہم وفاقی حکومت اب تک سندھ میں ماہی گیری کی نگرانی کے نظام کے لئے ٹینڈر جاری کررہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کا ادارہ (سمندری نگرانی کے لیے) اپنی پولیس متعارف کروائے گا اور سندھ اسمبلی اس حوالے سے ضروری قانونی سازی کرے گی۔
(ڈان، 3 فروری، صفحہ17)

مرغبانی

ایک خبر کے مطابق جاپان کی حکومت نے پاکستان کی جانب سے مرغی اور مرغبانی مصنوعات کی درآمد کی اجازت نہ دینے پر پاکستانی حکومت سے احتجاج کیا ہے۔ کامرس ڈویژن نے 18 اپریل 2016 میں درآمدی پالیسی میں مرغیوں میں ہونے والی بیماری ایویان انفلوائنزہ کی وجہ سے جاپان سے مرغیوں اور مرغبانی سے متعلق مصنوعات کی درآمد پر پابندی عائد کی تھی۔ جاپانی سفارتخانے کے مطابق جاپان نے 15 اپریل 2018 کو جانوروں کی صحت کی عالمی تنظیم کو آگاہ کردیا ہے کہ ان کا ملک ایویان انفلوائنزہ سے مکمل طور پر پاک ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 3 فروی، صفحہ1)

موسمی تبدیلی

سال 2019 میں موسمی تبدیلی پر آکسفام کی شائع ہونیوالی ایک رپورٹ کے مطابق موسمی تبدیلی ایک حقیقت ہے ا مختلف خطوں میں اس کے تباہ کن اثرات پہلے ہی ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ موسمی تبدیلی انسانی زندگیوں، ماحولیاتی نظام یہاں تک کہ سطح سمندر کے ساتھ قائم زیریں ممالک کی خودمختاری بھی خطرے میں ہے۔ رپورٹ کے مطابق 1997 تا 2016 کے دستیاب اعداد وشمار کے مطابق پاکستان موسم سے متعلق آفات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ساتواں ملک ہے۔ 20 سالوں کے دوران ملک میں شدید موسمی آفات کے 141 واقعات دیکھے گئے ہیں جن سے سالانہ اوسطاً 523 ہلاکتیں ہوئیں اور معیشت کو 3816.82 ملین ڈالر کا نقصان ہوا۔ صرف 2016 میں ہی موسمی آفات میں 566 ہلاکتیں ہوئیں اور قوم کو 47.31 ملین ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 31 جنوری، صفحہ4)

ایک خبر کے مطابق اگرچہ ماحولیاتی شعبہ حکومتی ترجیحات میں شامل ہے۔ تاہم کلائمٹ کونسل کے قیام کے ایک ماہ بعد بھی حکومت کونسل کو فعال کرنے میں ناکام ہے۔ 26 دسمبر، 2018 کو وزیر اعظم کی منظوری کے بعد پاکستان کلائمٹ کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ کونسل کے قیام کا مقصد موسمی تبدیلی پر قابو پانے کے لیے عالمی کنونشن کے تحت پاکستان کی ذمہ داریوں کو پورا کرنا ہے۔ اس کونسل میں 46 ارکان شامل ہیں۔ وزیر اعظم یا ان کا نامزد کردہ شخص کونسل کا سربراہ ہوگا۔ کونسل میں وزیر موسمی تبدیلی، خزانہ، قومی غذائی تحفظ، منصوبہ بندی، سائنس و ٹیکنالوجی، آبی وسائل، توانائی، خارجہ امور، گلگت بلتستان سمیت چاروں صوبوں کے وزرائے اعلی اور آزاد کشمیر کے وزیر اعظم اور دیگر متعلقہ سرکاری اور غیرسرکاری شخصیات بھی شامل ہونگی۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 31 جنوری، صفحہ10)

ماحول

پنجاب میں ماحولیاتی انتظام کو مستحکم کرنے اور ماحول دوست سرمایہ کاری کے فروغ کے منصوبے ’’پنجاب گرین ڈیولپمنٹ پراجیکٹ‘‘ پر کام کی رفتار کا جائزہ لینے کے لئے عالمی بینک کا وفد پاکستان آرہا ہے۔ یہ منصوبہ گزشتہ سال مئی میں قابل عمل ہوگیا تھا لیکن اس پر عملدرآمد میں عام انتخابات کی وجہ سے تاخیر ہوگئی تھی۔ عالمی بینک منصوبہ پر عملدرآمد کے لیے ضروری اقدامات کے حوالے سے نئی حکومت کے ساتھ مسلسل رابطہ میں ہے۔ منصوبہ پر پانچ سال میں 273 ملین ڈالر خرچ ہونگے۔
(ڈان، 31 جنوری، صفحہ3)

پنجاب فوڈ اتھارٹی نے 10کینال زمین پر نالہ لئی کے آلودہ پانی سے کاشت کی جانے والی فصلوں کو تلف کردیا ہے۔ ان فصلوں میں گوبھی، سلاد پتہ، پالک اور اجوائن شامل ہیں۔ کچھ کاشتکار نالہ لئی کے کنارے غیر قانونی طور پر کئی سالوں سے سبزیاں کاشت کررہے ہیں جنہوں نے نالے سے آلودہ پانی کھیتوں کی طرف موڑا ہوا ہے۔ محکمہ صحت راولپنڈی کے افسر ڈاکٹر نوید اختر کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ نالہ لئی کے پانی میں پولیو اور ڈینگی کے جرثومے پائے جانے کا انتباہ جاری کیا جاچکا ہے۔ اس پانی سے فصلیں اگانا تو دور اس کے قریب سانس لینا بھی صحت کے لئے نقصان کا باعث ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 1 فروری، صفحہ10)

نکتہ نظر

اس ہفتے کی خبریں ترتیب وار ملک میں پالیسی سازی، انصاف و خدمات کی فراہمی میں پایا جانے والا طبقاتی فرق واضح کرتی ہیں۔ حکومتی اور سرکاری ادارجاتی سطح پر زمینیں چاہے لاہور میں ہو یا پسنی میں، بیدخل ہوکر انصاف کے لیے دہائی صرف اس ملک کا عام شہری ہی دے رہا ہے جسے تحفظ و انصاف فراہم کرنے کا ذمہ دار ہر ادارہ بری الزمہ نظر آتا ہے۔ استحصال کی بنیاد پر قائم یہ طبقاتی فرق صاف دیکھا جاسکتا ہے کہ جب حکومت کپڑے، کھاد، چینی اور چاول کی صنعتوں کا ’’دکھ‘‘ فوراً محسوس کرتے ہوئے انہیں اربوں روپے کی مراعات دیتی ہے جبکہ اسی ملک میں وہ کسان جن کی محنت کے بغیر یہ کارخانے چل نہیں سکتے، موسمی تبدیلی اور خشک سالی کے ہاتھوں اپنی پیداوار سے محروم ہوکر غربت کی دلدل میں دھنستے چلے جارہے ہیں لیکن ان پر واجب الادا زرعی قرضے بھی حکومت کی طرف سے معاف نہیں کیے گئے۔ اسی موسمی تبدیلی اور ماحولیاتی تباہی کے ذمہ دار سرمایہ دار ممالک اور ان کی بین الاقوامی کمپنیاں آج ملک میں موسمی تبدیلی اور پانی کی قلت سے نمٹنے کے لیے کہیں ہائبرڈ، جینیاتی بیج، قطرہ قطرہ آبپاشی نظام جیسی ٹیکنالوجی آزاد تجارتی پالیسیوں کے تحت کسانوں کو فروخت کرکے منافع سمیٹ رہی ہیں۔ یہ ماحول دشمن غیر پائیدار زراعت کا ہی نتیجہ ہے کہ پاکستان کی صرف ایک کھاد کمپنی ایک سال میں اربوں روپے منافع کمالیتی ہے جبکہ اس کھاد کو استعمال کرنے والا کسان بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہوتا جارہا ہے۔ یہ عالمگیریت کا ہی کرشمہ ہے کہ وہی نیسلے کمپنی جو پاکستان سے ہی بڑی مقدار میں زیر زمین نکال کر پاکستانیوں کو کئی گنا زیاد قیمت پر فروخت کرتی ہے، پاکستان میں پانی کے تحفظ کا علم لے کر حکومتی سرپرستی میں میدان میں نکل آئی ہے۔ طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے حکمران ہر گز اس ملک کے عوام یعنی چھوٹے اور بے زمین کسان مزدوروں کے حقوق نہیں دیں گے کیونکہ ان ہی کا استحصال ان کی حاکمیت کی بنیاد ہے جسے اس ملک کے محروم طبقات کو متحد ہوکر جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہوگا۔