جنوری 2019

جنوری 24 تا 30 جنوری، 2019
زراعت
وزیر خزانہ اسد عمر نے قومی اسمبلی میں فنانس سپلیمنٹری بل 2019 (منی بجٹ) پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائرز، زرعی قرضوں اور کم قیمت رہائشی تعمیرات کے لیے بینکوں کی جانب سے دیے جانے والے قرضوں سے ہونے والی بینکوں کی آمدنی پر ٹیکس کی شرح کو 35 فیصد سے کم کرکے 20 فیصد کیا جارہا ہے۔ خبر کے مطابق وزیر خزانہ نے کھاد کی صنعتوں کے لیے گیس انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس کی شرح 50 فیصد کم کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے جس سے کیمیائی کھاد کی قیمت میں200 روپے فی بوری کمی ہوگی۔
(ڈان، 24 جنوری، صفحہ1)

کسانوں نے حکومت کی جانب سے پیش کردہ منی بجٹ کی مزمت کرتے ہوئے حکومت پرزور دیا ہے کہ نمائشی اقدامات کے بجائے زرعی شعبہ کی ترقی کے لیے حقیقی اقدامات کرے۔ وزیر خزانہ نے زرعی شعبہ کے لیے ڈیزل پر بھی ڈیوٹی کی شرح 17 فیصد سے کم کر کے پانچ فیصد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان کسان اتحاد کے رہنماء راؤ طارق اشفاق کا کہنا تھا کہ حکومت نے ہمیشہ کی طرح بجٹ میں 63 فیصد آبادی کو نظر انداز کیا ہے۔ اگر حکومت حقیقی معنوں میں زرعی شعبے کو اہمیت دیتی ہے تو اسے کھادوں کی قیمتوں میں کمی، زرعی کاروبار سے آڑھتی (مڈل مین) کا خاتمہ اور کسانوں کے لیے زرعی مداخل کی لاگت میں کمی کے لیے مراعات فراہم کرنے جیسے اقدامات کرنے چاہیے تھے۔ اس وقت کسانوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے اور وہ مڈل مین کی جانب سے کیے جانے والی استحصال کے خلاف سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں۔
(بزنس ریکارڈر، 24 جنوری، صفحہ3)

لاہور میں ایک تقریب میں صوبہ پنجاب کے لیے موسمی تبدیلی سے مطابقت رکھنے والی زراعت پر مبنی تحقیق (کلائمٹ اسمارٹ ایگری کلچر اسٹڈی) کا اجراء کردیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کا ادارہ برائے خوراک و زراعت (فاؤ)، انٹرنیشنل سینٹر فار ٹراپیکل ایگریکلچرل، محکمہ زراعت پنجاب کا ادارہ ایگریکلچرل ڈلیویری یونٹ اور حکومت پنجاب نے مشترکہ طور پر یہ تحقیق مرتب کی ہے۔ اس تحقیق میں موسمی تبدیلی سے مطابقت رکھنے والی زرعی حکمت عملیوں کو اجاگر کیا گیا ہے جو پنجاب میں شدید موسمی واقعات سے مطابقت پیداکرنے اور ان کے اثرات زائل کرنے میں مدد دے سکتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ تحقیق صوبہ میں خوراک کی پیداوار میں اضافہ اور غذائی تحفظ میں بھی کردار ادا کریگی۔ اس تحقیق میں متنوع زراعت، نقدآور فصلوں پر انحصار میں کمی اورزیادہ قدر رکھنے والی غذائیت سے بھرپور فصلوں کی کاشت پر منتقل ہونے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ تحقیق میں پانی کے انتظام سے متعلق حکمت عملیوں کو فوری طور پر بہتر کرنے، آبپاشی نظام کی افادیت کو بڑھانے اور پانی کے زیاں کو کم کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے۔ یہ تحقیق صوبائی پالیسی کی جانچ اور موسمی تبدیلی سے مطابقت پر مبنی زراعت سے وابستہ اداروں کے لیے مددگار ہوگی جس سے اداروں کو درپیش رکاوٹوں کی نشاندہی ہوگی اور صوبائی و ضلعی سطح پر پالیسی سازی اور اس پر عملدرآمد کے لیے حل کی نشاندہی کی جاسکے گی۔ یہ تحقیق صوبائی سطح پر کلائمٹ اسمارٹ ایگری کلچر کے لیے سرمایہ کاری کے مواقعوں کی بھی نشاندہی کرتی ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 25 جنوری، صفحہ11)

کھاد
صدر ایوان زراعت سندھ قبول کاتھیان کی سربراہی میں ہونے والے ایک اجلاس میں وفاقی وزیر خزانہ کی جانب سے اعلان کردہ معاشی پیکچ کو مسترد کرتے ہوئے یوریا کی قیمت میں 200 روپے فی بوری کمی کو نامناسب قرار دیا گیا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت سے پہلے یوریا کی (50 کلوگرام کی) بوری 1,380 روپے جبکہ ڈی اے پی کھاد کی بوری 2,800 روپے میں فروخت ہورہی تھی جو اب بلترتیب 1,850 اور 3,800 میں فروخت ہورہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کیمیائی کھاد کی قیمتوں میں 200 روپے فی بوری کمی کسانوں کے ساتھ کسی مذاق سے کم نہیں ہے۔
(ڈان، 28 جنوری، صفحہ15)

پانی
عالمی بینک کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں آبی وسائل سے ہونیوالی آمدنی انتہائی کم ہے اور آبی وسائل کا استعمال بھی بہتر طریقے سے نہیں کیا گیا۔ ’’پاکستان گیٹنگ مور فرام واٹر‘‘ کے عنوان سے شائع رپورٹ کے مطابق ناقص فراہمی و نکاسی آب، سیلاب اور خشک سالی کی وجہ سے معاشی نقصان کا اندازہ مجموعی قومی پیداوار کا چار فیصد یا سالانہ 12 بلین ڈالر کے برابر ہے۔ اس معاشی نقصان میں سب سے زیادہ حصہ ناقص فراہمی و نکاسی آب پر آنیوالی لاگت کا ہے۔ انڈس ڈیلٹا کی انحطاط پزیری سے ہونے والے معاشی نقصان کا اندازہ دو بلین ڈالر سالانہ لگایا گیا ہے جبکہ آلودگی اور ماحولیاتی تباہی سے ہونے والے نقصانات کا تعین نہیں کیا گیا ہے۔ معاشی نقصانات اور فوائد کے پیش کردہ ان اندازوں کا براہ راست اور مجموعی طور پر موازنہ نہیں کیا جاسکتا لیکن یہ اندازے ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان اپنے اہم آبی وسائل سے کم معاشی فوائد حاصل کررہا ہے۔ پاکستان اپنے آبی وسائل کا بہتر استعمال نہیں کررہا ہے اور پانی کا بھاری استعمال زرعی شعبے میں کیا جاتا ہے جس کا مجموعی قومی پیداوار میں پانچواں حصہ ہے۔ چار اہم فصلیں گندم، چاول، کپاس اور گنا جن پر تقریباً 80 فیصد پانی استعمال ہوتا ہے، مجموعی قومی پیداوار میں ان کا حصہ پانچ فیصد (تقریباً 14 بلین ڈالر سالانہ) سے بھی کم ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پانی اور پانی پر منحصر ماحولیات پر پڑنے والے اثرات پر بہت کم توجہ دی گئی ہے اور دریا، جھیلیں، دلدلی زمین اور انڈس ڈیلٹا تیزی سے سکڑ رہا ہے۔
(ڈان، 28 جنوری، صفحہ3)

انڈس واٹر کمشنر مہر علی شاہ کی سربراہی میں پاکستان کا تین رکنی وفد دریائے چناب پر بھارت کی جانب سے تعمیر کئے گئے پن بجلی منصوبوں کا معائنہ کرنے کے لیے کل (27 جنوری سے) بھارت کے دورے کا آغاز کرے گا۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستانی وفد اپنے دورے کے دوران دریائے چناپ پر زیر تعمیر لوئر کلنائی اور پاکل دل پن بجلی منصوبوں کا معائنہ کرے گا۔ مہر علی شاہ کا کہنا ہے کہ بھارت نے دیگر متنازعہ منصوبوں کے معائنے کی بھی اجازت دینے کا اشارہ دیا ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 26 جنوری، صفحہ1)

کپاس
سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قومی غذائی تحفظ و تحقیق نے گزشتہ کچھ سالوں سے کپاس کے زیر کاشت رقبے میں ہونے والی کمی پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے قومی معیشت کو بھاری نقصان ہورہا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ملک کو اس طرح کے نقصانات سے بچانے کے لئے فوری طور پر اقدامات کرے۔ کمیٹی کو مختصر جائزہ پیش کرتے ہوئے کاٹن کمشنر ڈاکٹر خالد عبد ﷲ نے بتایا کہ کپاس کی پیداوار جو سال 12-2011میں 13.595ملین گانٹھیں تھی سال 18-2017 میں کم ہوکر 11.980 ملین گانٹھیں ہوگئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ منظور شدہ بیجوں کی کمی، کپاس کی پیداوار سے آمدنی میں کمی اور پودوں میں کمی کے مسائل کپاس کی پیداوار میں کمی کی بنیادی وجوہات ہیں۔ کپاس کی مجموعی پیداوار بڑھانے کے لئے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بھی کپاس کی پیداوار میں اضافہ کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ ارسا کی جانب سے کپاس کے پیداواری اضلاع کو (پانی کی فراہمی میں) ترجیح دینے اور زرعی ٹیوب ویلوں کے لیے بجلی کی قیمت میں کمی بھی کپاس کی پیداوار کو فروغ دینے میں معاون ہوگی۔
(بزنس ریکارڈر، 24 جنوری، صفحہ7)

گنا
ایوب ایگری کلچر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ فیصل آباد کے ڈائریکٹر جنرل عابد محمدد کا کہنا ہے کہ ادارے نے گنے کی چار نئی اقسام متعارف کروائی ہے جو موجود اقسام کے مقابلے میں 40 فیصد زیادہ پیداوار دیں گی۔ پاکستان گنا پیدا کرنے والا دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے لیکن کئی وجوہات کی وجہ سے اس کی اوسط پیداوار کم ہے۔ اس کے علاوہ پانی کی کمی اور موسمی تبدیلی نے گنے کی پیداوار کو شدید خطرے سے دوچار کیا ہے۔ ان حالات سے نمٹنے کے لئے ادارے نے گنے کی تین نئی اقسام CPF-250,CPF-251, اور CPF-253 متعارف کرائی ہیں جو ناصرف زیادہ پیداوار دیں گی بلکہ گنے کے پیداواری عمل میں 30 فیصد پانی کی بچت بھی ہوگی۔ پانی کی کمی کی وجہ سے گنے کا زیر کاشت رقبہ کم ہوتا جارہا ہے اور صرف پنجاب میں ہی گنے کی کاشت میں 27 فیصد کمی ہوئی ہے۔
(دی نیوز، 27 جنوری، صفحہ17)

سندھ آبادگار اتحاد نے صوبائی حکومت پر گنے کی کرشنگ کے موسم 19-2018 کے لئے صوبائی کابینہ کی منظوری کے بعد گنے کی قیمت کا اعلامیہ فوری طور پر دوبارہ جاری کرنے پر زور دیا ہے تاکہ چھوٹے کاشتکاروں کو گنے کی سرکاری قیمت 182 روپے فی من حاصل ہوسکے۔ سندھ آباد گار اتحاد کے صدر نواب زبیر تالپور کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں شریک ارکان نے اعلامیہ کے دوبارہ اجراء میں غیر معمولی تاخیر پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن نے عدالت میں سماعت کے دوران اعلامیہ پر اعتراض اٹھایا تھا کہ اس اعلامیہ کی اس وقت تک کوئی اہمیت نہیں جب تک صوبائی کابینہ محکمہ زراعت کی جانب سے اس کے اجراء سے پہلے اس کی منظوری نہیں دیتی۔ اجلاس میں افسوس کا اظہار کیا گیا کہ اعلامیہ جاری ناکرنے کی وجہ سے مل مالکان کاشتکاروں کو فی من گنے کی قیمت 130 سے140 روپے ادا کررہے ہیں۔
(ڈان، 28 جنوری، صفحہ15)

چاول
وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ دورہ قطر کے دوران قطر حکومت نے پاکستانی چاول کی درآمد پر عائد پابندی ختم کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ پاکستان کی وزارت تجارت و صنعت نے قطر کے ساتھ چاول کے درآمدی ممالک کی فہرست سے پاکستان کے انخلا کے مسئلے کو دوبارہ اٹھایا تھا جو آخر کار وزیراعظم پاکستان کے دورے کے بعد حل ہوا۔ چاول برآمد کرنے کے لیے قطر کی ٹھیکہ جاری کرنے والی مرکزی کمیٹی (سینٹرل ٹینڈرنگ کمیٹی) نے 12-2011 کے دوران سوائے بھارت کے پاکستان سمیت دیگر تمام ممالک سے چاول کی برآمد پر پابندی عائد کردی تھی۔ اس پابندی کی وجہ 12-2011 میں برآمد کنندگان کی جانب سے قطر حکومت کے سرکاری ٹھیکے کے بدلے کم معیار کے پاکستانی چاول کی برآمد تھی۔ اس پابندی کا فائدہ بھارتی چاول برآمد کنندگان کو ہوا اور قطر کو بھارتی چاول کی برآمد جو 2011 میں 18,774 ٹن تھی سال 2017 میں 142,000 ٹن تک پہنچ گئی۔ اس پابندی کے خاتمے سے قطر کو مزید 40 سے 50 ملین ڈالر مالیت کے چاول کی برآمد متوقع ہے اگر معیار کو برقرار رکھا گیا۔ قطر سالانہ 200,000 ٹن چاول درآمد کرتا ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 24 جنوری، صفحہ 20)

آلو
آلو کے کاشتکاروں کو مدد فراہم کرنے کے لئے وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق نے پاکستان ایگریکلچرل اسٹوریج اینڈ سروسز کارپوریشن (پاسکو) کے ذریعے ایک لاکھ ٹن آلو خریدنے کی تجویز دی ہے۔ ابتدائی طور پر وزارت خزانہ نے اس تجویز کو مسرد کردیا تھا جسے اب منظوری کے لیے وزیر اعظم کو بھیج دی گئی ہے۔ تجویز میں کہا گیا ہے کہ پاسکو کسانوں سے آلو 11 روپے فی کلوگرام خریدے گا جو مئی میں ماہ رمضان اور گندم کی کٹائی کے موقع پر فروخت ہونگے۔ اس وقت کسان چھ روپے فی کلو آلو فروخت کررہے ہیں۔ پاسکو کی جانب سے آلو کی خریداری سے کسان مکئی اور چاول کی اگلی فصل کی تیاری کرسکیں گے۔ اس سال پاکستان میں آلو کی 4.6 ملین ٹن پیداوار متوقع ہے جبکہ ملک میں آلو کی کھپت 3.1 ملین ٹن (15.4 کلوگرام فی کس) ہے۔
(ڈان ، 25 جنوری،صفحہ10)

گلاب
پنجاب بھر میں اعلی معیار کے گلاب کی کاشت کو فروغ دینے کے لئے صوبائی حکومت جامع منصوبہ شروع کرنے کے لئے انتظامات کو حتمی شکل دے رہی ہے۔ پنجاب اور ملک کے دیگر علاقے معیاری گلاب کی پیداوار کے لئے انتہائی موزوں ہیں۔ حکام کے مطابق اس وقت کم معیار کا گلاب کاشت کیا جارہا ہے جو مقامی منڈی میں فروخت ہوتا ہے اور مشرق وسطی کے ممالک کو برآمد بھی کیا جاتا ہے۔ اس مجوزہ منصوبے کا مقصد پھولوں کی کاشت اور گلاب کی اعلی معیار کی قلمی پیداور کو فروغ دینا ہے تاکہ اس کی برآمد کا دائرہ کار یورپی ممالک تک بڑھایا جاسکے۔
(بزنس ریکارڈر، 28 جنوری، صفحہ3)

نکتہ نظر
اس ہفتے کی سرفہرست خبر وزیر خزانہ اسد عمر کی جانب سے کسانوں کے لیے نام نہاد ’’اقدامات‘‘ پر مشتمل ہے۔ حکومت کی جانب سے زرعی شعبہ کے لیے اقدامات درحقیقت اس ملک کے چھوٹے اور بے زمین کسان مزدوروں کے ساتھ سنگین مزاق پر ہی مشتمل ہے۔ بجائے اس کے کہ چھوٹے کسانوں کو دیے جانے والے زرعی قرضوں پر شرح سود میں کمی کی جاتی بینکوں کو قرضوں سے ہونے والی آمدنی پر ٹیکس میں چھوٹ دے دی گئی۔ کھاد کی صنعتوں کے لیے گیس انفرا سٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس کو 50 فیصد کم کیا جارہا ہے جبکہ اسی حکومت نے کچھ عرصے قبل ہی گھریلو صارفین کی اکثریت کے لیے گیس کے نرخوں میں 10سے 20 فیصد تک اضافہ کیا۔ ملک میں چھوٹے اور بے زمین کسان مزدور پیداوار کے حصول کے باوجود نقصان کا شکار ہیں جس کی بنیادی وجہ زرعی شعبہ میں نیولبرل پالیسیوں کا نفاذ ہے جسے نئی حکومت بھی پوری آب و تاب سے آگے بڑھارہی ہے۔ موسمی بحران اور موسمی تبدیلی کے ذمہ دار سرمایہ دار ممالک، کمپنیاں اور ان کے کٹھ پتلی ادارے ہی اب پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں ان بحرانات سے پیدا ہونے والے مسائل کے حل کے نام پر اپنی ٹیکنالوجی فروخت کرکے کسان مزدوروں کا استحصال کررہے ہیں جن کا سب سے موثر ہتھیار بدقسمتی سے اسی ملک کی حکومت اور افسر شاہی ہوتی ہے جو مقامی وسائل پر مقامی آبادیوں کے اختیار پر ڈاکہ ڈالنے کو ترقی اور جدت کا نام دیتی ہے۔

جنوری 17 تا 23 جنوری، 2019

کارپوریٹ
بین الاقوامی غذائی و زرعی کمپنی کارگل نے آئندہ تین سے پانچ سالوں میں پاکستان میں 200 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اعلان کارگل کمپنی کے اعلی افسران کی وزیر اعظم عمران خان اور دیگر اعلی سرکاری افسران سے ملاقات کے بعد کیا گیا۔ کمپنی کی حکمت عملی میں پاکستان بھر میں مختلف شعبہ جات میں اپنے کاروبار کو وسعت دینا شامل ہے۔ ان کاروباری شعبہ جات میں زرعی تجارت و ترسیلی نظام، خوردنی تیل، ڈیری مصنوعات، گوشت اور جانورں کی خوراک کے شعبے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ حفاظت (سیفٹی) اور پیداوار سے لے کر منڈی تک کے تمام مراحل میں خوراک کی نشاندہی کے عمل (فوڈ ٹریسبلٹی) کو یقینی بنانا شامل ہے۔ کارگل پاکستان کے ڈیری شعبہ کی مدد کے لئے عالمی معیار کی جدت متعارف کروائے گی جو پہلے ہی جدیدیت کی جانب گامزن ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کمپنی خوردنی تیل کی بڑھتی ہوئی طلب اور مرغبانی کی صنعت کی ترقی کی وجہ سے جانورں کی خوراک کی پھیلتی ہوئی منڈی کے لئے بھی مدد فراہم کرے گی۔ کارگل نے پاکستان میں 1948 میں کام شروع کیا تھا اور آج صاف تیل (ریفائنڈ آئل)، جانورں کی خوراک، اجناس و خوردنی تیل، کپاس، شکر اور دھات کے کاروبار سے جڑی ہے۔ کارگل پاکستان میں سویابین، پام آئل اور کوکا پاؤڈر ترسیل کرنے والے بڑے ترسیل کاروں میں سے ایک ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 18 جنوری، صفحہ1)

جنگلات
وزیر جنگلات و جنگلی حیات سندھ سید ناصر حسین شاہ نے پائیدار جنگلات کے نظام پر مبنی سسٹین ایبل فوریسٹ مینجمنٹ پالیسی 2019 کے حوالے سے ہونے والے اجلاس میں کہا ہے کہ صوبے میں جنگلات میں اضافے کے لیے ایک جامع اور شفاف حکمت عملی وضع کی جائے گی۔ موسمی تبدیلی کے باعث درجہ حرارت اور فضائی آلودگی میں اضافہ ہورہا ہے جس کے لئے صوبے کا پہلا شہری جنگل (اربن فاریسٹ) کراچی میں بنایا جائے گا جس کے بعد اسے دوسرے شہروں تک وسعت دی جائے گی۔ سبز کراچی منصوبے کے تحت نجی سرکاری شراکت داری میں ملیر ندی اور ریل پٹری کے ساتھ ماحول دوست درخت لگائے جائیں گے۔ اس طرح کے جنگل کے قیام کا مقصد موسمی تبدیلی اور آلودگی کے منفی اثرات کو ختم کرنا ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 21 جنوری، صفحہ3)

وفاقی حکومت نے ضلع مانسہرہ میں آزمائشی بنیادوں پر پائیدار و غیر پائیدار جنگلات اور دیگر متعلقہ وسائل کو دستاویزی شکل دینے کا کام شروع کردیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ 5,000 ہیکٹر زمین کی بحالی کا کام بھی شروع کردیا گیا ہے جس پر وزیر اعظم کے شروع کئے گئے منصوبے ’’پلانٹ فار پاکستان ‘‘ کے تحت بڑے پیمانے پر شجرکاری کی جائے گی۔ جنگلات کے پائیدار انتظام کے منصوبے (سسٹین ایبل فوریسٹ مینجمنٹ) کے پراجیکٹ منیجر فائق خان کا کہنا ہے کہ پائیدار وغیر پائیدار جنگلات کے تمام وسائل جن میں چراگاہوں کے انتظام کا جائزہ، لکڑی کا علاوہ جنگلات سے حاصل ہونیوالی دیگر پیداوار اور شکار کے لئے جنگلی حیات اور ماحولیاتی سیاحت کے دیگر منصوبوں کو آئندہ تین سالوں کے دوران تحریری شکل دی جائیگی۔ وزارت موسمی تبدیلی نے 2017 میں اقوام متحد کا ادارہ برائے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) اور گلوبل انوائرنمنٹل فیکلٹی کے مالی تعاون سے خیبر پختونخوا، پنجاب اور سندھ میں آٹھ ملین ڈالر کی لاگت سے جنگلات کے پائیدار انتظام کا منصوبہ شروع کیا تھا۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 22 جنوری، صفحہ6)

زراعت
پنجاب بھر کے کاشتکاروں کا مال روڈ، لاہور میں دوسرے روز بھی احتجاج جاری رہا۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ حکومت زرعی مداخل کی قیمتوں میں کمی کرے اور پیداوار کی بہتر قیمت کو یقینی بنائے۔ کاشتکار خاص طور پر آلو کے کاشتکاروں نے پیداوار کی قیمتیں گرنے پر احتجاجی مظاہرہ کیا اور پنجاب اسمبلی کے باہر آلو سے لدی ٹرالیاں خالی کردیں۔ مظاہرین نے منڈی میں مناسب قیمت نہ ملنے پر آلو کی بڑی مقدار کو احتجاجاً آگ لگادی۔ کسانوں نے آلو کی کم سے کم قیمت 12 روپے فی کلو مقرر کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ کسانوں کا کہنا تھا کہ منڈی میں آلو کی قیمت پیداواری قیمت کے مقابلے تین گنا کم ہے۔ منڈی میں 100 کلو گرام کی بوری کی قیمت 600 سے 1,100 کے درمیان ہے جبکہ اس کی نقل و حمل پر آنے والے اخراجات ہزاروں میں ہیں۔ وزیر زراعت پنجاب نعمان احمد لنگریال نے کاشتکاروں کو یقین دہانی کروائی ہے کہ کسانوں کو نقصان سے بچانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جائیگی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ آلو کی رعایتی قیمت مقرر کرنے کے لئے صوبائی حکومت وفاقی حکومت کو خط لکھ چکی ہے۔ (دی ایکسپریس ٹریبیون، 17 جنوری، صفحہ11)

وزیر زراعت پنجاب نعمان احمد لنگریال نے کہا ہے کہ اعلی قدر والی باغبانی اور زرعی پیداوار انتہائی منافع بخش کاروبار ہے جس سے ملازمت کے مواقعوں میں اضافہ ہوتا ہے اور زرعی شعبہ میں تجارت کے عمل کو فروغ ملتا ہے۔ صوبائی وزیر محکمہ زراعت کے زیر اہتمام ایکسپو سینٹر لاہور میں منعقد کی گئی دو روزہ نمائش ’’پاکستان ہورٹی ایکسپو 2019‘‘ کے افتتاح کے موقع پر بات چیت کررہے تھے۔ نمائش میں باغبانی کے شعبہ سے وابستہ مقامی و غیر ملکی برآمد کنندگان، کاشتکار اور دیگر شراکتدار شرکت کررہے ہیں۔
(بزنس ریکارڈر، 22 جنوری، صفحہ8)

گندم
وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کے مطابق سال 2018-19 کے لئے گندم کی بوائی کا 97.17 فیصد ہدف مکمل کیا جاچکا ہے۔ ملک بھر میں مقرر کردہ ہدف 8.833 ملین ہیکٹر کے مقابلے 8.583 ملین ہیکٹر رقبے پر گندم کاشت کی گئی ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں گندم کی بوائی مکمل ہوچکی ہے جبکہ سندھ میں سات فیصد اور بلوچستان میں 29 فیصد گندم کی بوائی ابھی باقی ہے۔ گندم کے زیر کاشت کل رقبے کا 88 فیصد پنجاب اور سندھ میں ہے جس سے گندم کی کل پیداوار کا 92 فیصد حاصل ہوتا ہے۔ وفاقی زرعی کمیٹی نے سال 2018-19 کے لیے گندم کی پیداوار کا ہدف 25.57 ملین ٹن مقرر کیا ہے۔ مقررہ ہدف میں سے پنجاب میں 19.5 ملین ٹن، سندھ میں 3.8 ملین ٹن، خیبر پختونخوا میں 1.36 ملین ٹن اور بلوچستان میں 0.900 ملین ٹن گندم کی پیداوار ہوگی۔
(بزنس ریکارڈر، 19 جنوری، صفحہ17)

کپاس
ملک میں اعلی معیارکی کپاس نہ ہونے کے باعث مقامی کپڑے کی صنعت کا انحصار درآمدی کپاس پر بڑھتا جارہا ہے۔ امریکہ سے درآمد ہونیوالی کپاس کپڑے کی صنعت کے لئے پیداواری لاگت میں اضافے اور کپاس کی دستیابی جیسے مسائل پر قابو پانے کے لئے بہت مدد گار ثابت ہورہی ہے۔ نتیجے میں امریکہ سے کپاس کی درآمد تیزی سے بڑھتی جارہی ہے۔ امریکی کپاس کے فروغ کے ادارے کاٹن کونسل انٹرنیشنل کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ چھ سالوں کے دوران امریکہ سے کپاس درآمد کرنے والی ملوں اور ملبوسات کے کارخانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ 2012 میں امریکی لائسنس رکھنے والے کپاس، دھاگہ اور کپڑا بنانے والے بڑے کاخانوں کی تعداد چھ سے سات کارخانوں تک محدود تھی جو 2018 میں 36 تک پہنچ گئی ہے۔ امریکہ سے کپاس درآمد کرنے والے سرفہرست ممالک میں پاکستان پانچویں نمبر پر ہے۔ پاکستان امریکہ سے 1.5 ملین گانٹھیں کپاس درآمد کررہا ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 17 جنوری، صفحہ20)

ملک میں 1.2 بلین ڈالر مالیت کی 3.5 سے چار ملین گانٹھیں کپاس کی درآمد متوقع ہے کیونکہ کپاس کی سالانہ طلب 15 ملین گانٹھوں کے مقابلے سال 2018-19 میں کپاس کی 10.8 ملین گانٹھوں کی پیداوار کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق 15 جنوری تک پاکستان کی کپاس کی پیداوار میں 7.74 فیصد کمی ہوئی ہے۔ سب سے زیادہ کپاس پیدا کرنے والا صوبہ پنجاب سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جہاں پیداوار میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 10.79 فیصد کمی ہوئی ہے جبکہ سندھ میں کپاس کی پیداوار میں گزشتہ سال کے مقابلے 2.66 فیصد کمی ہوئی ہے۔ غیر میعاری بیج، زہریلے اسپرے اور کپاس کے زیر کاشت رقبے میں کمی کی وجہ سے کپاس کی کاشت پچھلے پانچ چھ سال سے متاثر ہورہی ہے۔
(ڈان، 19 جنوری، صفحہ10)

گنا
گنے کے کاشتکاروں نے چارسدہ روڈ پر شوگر مل کے سامنے احتجاج کرتے ہوئے گنے کی قیمت 190 روپے فی من تک بڑھانے کا مطالبہ کیا ہے۔ کسانوں نے حکومت کو خبردار کیا ہے کہ وہ 24 گھنٹوں میں اس مسئلہ کو حل کرے ورنہ کسان اگلے دن دوبارہ احتجاجاً سڑک بند کردیں گے۔ کسان رہنماؤں کا کہنا تھا کہ سندھ اور پنجاب میں مل مالکان نے پہلے ہی سپریم کورٹ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے 180 سے 190 روپے فی من قیمت کی ادائیگی شروع کردی ہے لیکن خیبرپختونخوا میں ملیں عدالتی حکم پر عملدرآمد پر تیار نہیں ہیں۔
(ڈان، 18 جنوری، صفحہ7)

آلو 
ایک ایسے وقت میں کہ جب کاشتکار آلو کی قیمت کم ہونے کی وجہ سے بحران کا شکار ہیں اور پیداوار جاری رکھنے کے لیے زرتلافی کا مطالبہ کررہے ہیں، چین نے پاکستانی سفارتکار کے ساتھ اجلاس میں پاکستانی آلو درآمد کرنے میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ چین جو مختلف ممالک سے ایک ملین ٹن آلو درآمد کرتا ہے، صفائی و معیاری تقاضے (سینٹری اینڈ سائٹو سینٹری) پورے کرنے کے بعد پاکستان سے آلو درآمد کرے گا۔ فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق نائب صدر وحید احمد کا کہنا ہے کہ آلو کی پیداوار کے حوالے سے وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے تاہم اندازوں کے مطابق چھ ملین ٹن آلو کی پیداوار ہوئی ہے۔ پاکستان سالانہ تین سے چار لاکھ ٹن آلو برآمد کرتا ہے۔ آلو کی برآمد کو فروغ دینے کے لیے حکومت نے اس کی برآمد پر عائد تمام محصولات ختم کردیے ہیں۔ پاکستان وسط ایشیائی ریاستوں، روس، ملیشیا، خلیجی ممالک اور سری لنکا کو آلو برآمد کرتا ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 18 جنوری، صفحہ20)

سورج مکھی
ایک خبر کے مطابق پنجاب حکومت نے صوبے میں سورج مکھی اور روغنی بیجوں کی دیگر اقسام کی کاشت کو فروغ دینے کا جامع منصوبہ تیار کیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت صوبے کے مختلف علاقوں میں 2.10 لاکھ ایکڑ زمین پر سورج مکھی کی فصل کاشت کی جائے گی۔ محکمہ زراعت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کا مقصد خوردنی تیل کی پیداوار کو بڑھانا ہے تاکہ اس کی درآمدات کو کم کیا جا سکے۔ اس وقت ملک میں صرف 33 فیصد خوردنی تیل کی پیداور ہوتی ہے جبکہ 66 فیصد خوردنی تیل درآمد کیا جاتا ہے۔ آبادی میں اضافے کی وجہ سے خوردنی تیل کی طلب بڑھتی جارہی ہے۔ ضلع سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ، پسرور، سیالکوٹ اور سمبریال میں 4,700 ایکڑ زمین پر سورج مکھی کی فصل کاشت کی جائیگی۔
(بزنس ریکارڈر، 22 جنوری، صفحہ8)

چاول
ہائبرڈ چاول کی اقسام کے کامیاب اجراء کے بعد گارڈ ایگری کلچر ریسرچ اینڈ سروسس لمیٹڈ چاول کی پیداوار پر پانی کی کمی کے منفی اثرات کو روکنے کے لیے جلد خشک سالی برداشت کرنے والی چاول کی اقسام متعارف کرے گی۔ کمپنی کے سربراہ شہزاد علی ملک کے مطابق ان کی حرارت برداشت کرنے والی چاول کی قسم گرم ترین علاقے لاڑکانہ میں بھی نتائج دے رہی ہے۔ کمپنی نے معیاری بیج بنانے کے لئے جدید زرعی ٹیکنالوجی کے حصول اور اس کی درآمد پر 1999 میں کام کا آغاز کیا تھا۔ اب تک کمپنی پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل سے مختلف اقسام کی سات ہائبرڈ چاول کی اقسام کی منظوری حاصل کرچکی ہے جس کی کاشت سندھ اور ملک کے دیگر علاقوں میں کامیابی سے جاری ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 20 جنوری، صفحہ11)

غذائی کمی
خشک سالی کے شکار تھرپارکر میں غذائی کمی اور موسمی وبائی امراض سے تین روز کے دوران مزید 12 بچے جانبحق ہوگئے ہیں جس کے بعد گزشتہ 15 دنوں میں مرنے والے بچوں کی تعداد 36 ہوگئی ہے۔ جانبحق بچوں کے والدین نے ایک بار پھر علاقے میں طبی سہولیات نہ ہونے کی شکایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کنوں کا انتہائی آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں جو انسانوں اور جانوروں میں پانی سے ہونے والی بیماریوں کی وجہ ہے۔ تاہم پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر مہیش کمار ملانی نے ایک اخباری بیان میں کہا ہے کہ مرنے والے زیادہ تر بچے پیدائشی طور پر وزن میں کمی کا شکار تھے۔ انھوں نے دعوی کیا ہے کہ تھرپارکر میں سنگین خشک سالی کے باوجود صورتحال قابو میں ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا سندھ حکومت نے معیاری طبی سہولیات کی فراہمی اور تھر کے عوام میں خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں پر رہنمائی کے لیے کئی منصوبے شروع کیے ہیں۔
(ڈان، 17 جنوری، صفحہ17)

نکتہ نظر
اس ہفتے کی سرفہرست خبر عالمی غذائی کمپنی کارگل کی پاکستان میں سرمایہ کاری سے متعلق ہے جو ملک میں بڑے پیمانے پر زرعی کاروبار سے وابستہ ہے اور مزید سرمایہ کاری کے زریعے ملک میں زرعی اور ڈیری شعبہ کو جدت کے ساتھ ترقی دینے کی دعویدار ہے۔ اس کے ساتھ ہی زیل میں آلو اور گنے کے کاشتکاروں کی پیداواری لاگت میں اضافے اور پیداوار کی مناسب قیمت نہ ملنے کے خلاف احتجاج کی خبریں بھی نمایاں ہیں۔ ایک عام فہم انسان بخوبی اس استحصال کی شکل کو پہچان سکتا ہے کہ ملک میں آزاد تجارتی ایجنڈے پر عمل پیرا ہر حکومت غیرملکی سرمایہ کاری، برآمدات میں اضافہ اور جدت کو کسانوں کے مسائل اور غربت کا حل قرار دیتی ہے اور اسی تناظر میں پالیسیاں ترتیب دیتی ہے لیکن حقیقت میں ان پالیسیوں سے مقامی اور غیرملکی سرمایہ دار بھرپور فائدہ اٹھاتا ہے جب کہ کسان مزدور طبقے کے لیے دن با دن مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔ آلو ہو یا گنا بہتر پیداوار حاصل کرکے بھی کسان سرمایہ داروں اور منڈی کے ہاتھوں نقصان اٹھا کر خالی ہاتھ رہ جاتا ہے اور بیج چاہے وہ چاول کا ہو یا سورج مکھی کا، کھاد ہو یا زہریلے اسپرے یا اجناس کی تجارت کرنے والی بین الاقوامی کمپنی، ہر دن اپنے منافع میں اضافہ کرتی جارہی ہیں جنہیں حکومت اپنے ایوانوں میں مدعو کرکے عوام کے استحصال کی کھلی چھوٹ دینے پر بے تاب ہے۔ عالمگیریت کے تحت تجارت، جدت اور نام نہاد پائیدار انتظام کے نام پر حکومت جنگلات جیسے عوامی وسائل کو عالمی اداروں کے گٹھ جوڑ سے دستاویزی شکل دے رہی ہے جو شاید زرعی شعبہ کے بعد اگلا ہدف ہے۔ جینیاتی کپاس کے ناقص بیجوں کی بدولت ناصرف کسان اپنے روایتی دیسی بیجوں سے محروم کر شدید مالی نقصان سے دوچار ہیں بلکہ بیج کی خودمختاری سے محرومی کی قیمت اس ملک کے عوام امریکی کپاس کی درآمد کی صورت بھی چکارہے ہیں۔ نام نہاد عوامی حکومتیں عالمگیریت کے اس شکنجے کو اس ملک کے کسان مزدور طبقے کے گرد کستی جارہی ہیں جنہیں روکنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے’’ عوامی جدوجہد‘‘۔

جنوری 10 تا 16 جنوری، 2019
غربت
سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پسماندہ علاقہ جات کے سربراہ محمد عثمان کاکڑ نے تھرپارکر میں سندھ اور وفاقی حکومت کی مایوس کن کارکردگی پرافسوس کا اظہار کیا ہے جہاں غذائی کمی اور موسمی بیماریوں کی وجہ سے سینکڑوں بچے جانبحق ہوچکے ہیں۔ تھر میں خشک سالی کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے محمد عثمان کاکڑ نے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ تھر کا دورہ کیا ہے۔ سرکاری حکام اور پیپلز پارٹی کی مقامی قیادت سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ تھر میں بچے بھوک سے مررہے ہیں اور بے روزگار افراد خوکشیاں کررہے ہیں جبکہ حکمران ایک ہی راگ آلاپ رہے ہیں کہ تھر پاکستان کو تبدیل کردے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر تھر کے کوئلے کی ایک فیصد رائلٹی بھی تھرپارکر پر خرچ کی جائے تو آئندہ سالوں میں صورتحال بہت بہتر ہوگی۔ یہ کہنا ایک سنگین مزاق ہے کہ تھرپاکر جہاں 2,600 دیہات میں سے اب تک صرف 200 دیہات تک بجلی پہنچی ہے سارے پاکستان کو بجلی فراہم کرے گا۔
(ڈان، 10 جنوری، صفحہ17)

غذائی کمی
دی نیٹورک فار کنزیومر پروٹیکشن کی جانب سے خوراک میں مصنوعی غذائی اجزاء شامل کرنے (فورٹیفیکیشن) کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنے اور غیر سرکاری تنظیموں کی صلاحیت میں اضافے کے لیے ایک روزہ تربیتی پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔ تربیتی پروگرام میں شرکاء کا کہنا تھا کہ پاکستان میں عورتوں کی آدھی سے زیادہ آبادی جبکہ بچوں کی دو تہائی آبادی غذائیت کی کمی (مائیکرو نیوٹرینٹ ڈیفشنسی)، وٹامن اے، وٹامن ڈی، زنگ، فولک ایسڈ، فولاد اور خون کی کمی کی شکار ہے۔ دی نیٹورک فار کنزیومر پروٹیکشن کے سربراہ ندیم اقبال نے کہا کہ غذائی کمی کی وجہ سے (معیشت پر) پڑنے والے بوجھ کی وجہ سے پاکستان کو مجموعی قومی پیداوار میں 2-3 فیصد نقصان کا سامنا ہے۔ فولاد، مختلف وٹامن اور نمکیات کی کمی کی وجہ سے بیماریوں کے خلاف لڑنے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے جو بچوں کی اموات میں اضافے کا سبب ہے۔ پاکستان میں نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات 1,000 میں سے 42 جبکہ دیگر عمر کے بچوں میں 1,000 میں 74 ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 11 جنوری، صفحہ15)

سندھ حکومت کی درخواست پر وفاق نے 4.117 بلین روپے کے نیوٹریشن سپورٹ پروگرام میں ڈیڑھ سال توسیع کردی ہے۔ سرکاری دستاویز کے مطابق سندھ حکومت اور عالمی بینک اس منصوبے کے لیے اداروں (ایجنسیوں) کو مالی وسائل فراہم کررہے ہیں۔ اس منصوبے کا بنیادی مقصد حاملہ خواتین اور دو سال تک کی عمر کے بچوں میں بنیادی غذائیت سے بھرپور خوراک کے استعمال کو یقینی بنانا ہے۔ سندھ حکومت نے منصوبے میں بغیر کسی تبدیلی کے مزید ڈیرھ سال کی توسیع کا منصوبہ وفاق کو پیش کیا تھا۔ سندھ کے نو اضلاع کے لئے شروع کیے گئے اس منصوبے پر کام کا آغاز 2015 میں ہوا تھا۔
(بزنس ریکارڈر، 15 جنوری، صفحہ8)

گوشت
ایوان صنعت و تجارت کراچی کے دورے کے دوران ملائشیا کے صوبے ٹیرنگانو کے اقتصادی مشیر حاجی روسلن عبد الرحمن نے پاکستان کی کاروباری برادری پر زور دیا ہے کہ وہ ملائشیا گوشت برآمد کرنے کے امکانات پر سنجیدگی سے غور کریں۔ ملائشیا میں صرف گوشت کی ہی دو بلین ڈالر کی منڈی ہے جس میں سے صرف 24 فیصد گوشت ہی مقامی طور پر ترسیل ہوتا ہے اور باقی گوشت کئی ممالک سے برآمد کیا جارہا ہے۔ ملائیشیا کی گوشت کی آدھی ضرورت غیر مسلم ممالک آسٹریلیا، برازیل، نیوزی لینڈ، چین اور تھائی لینڈ سے برآمد شدہ گوشت سے پوری ہوتی ہے۔ پاکستان اور ملائیشیا کے درمیان کئی سالوں سے برادرانہ تعلقات کے باوجود گوشت کا ایک کنٹینر بھی پاکستان سے ملائیشیا برآمد نہیں کیا جاتا ہے۔
(بزنس ریکارڈرم 12 جنوری، صفحہ13)

وزیر مال مویشی پنجاب سردار حسنین دریشک نے لاہور میں یونیورسٹی آف ویٹنری اینڈ اینمل سائنسس کی شترمرغ کے گوشت کی دکان کا افتتاح کیا ہے۔ محکمہ مال مویشی پنجاب نے صوبے بھر میں شترمرغ کے گوشت کی منڈی تک ترسیل کو یقینی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ محکمہ ویٹنری یونیورسٹی اور اوسٹرچ ایسوسی ایشن آف پاکستان کے اشتراک سے شترمرغ کے گوشت کی فروخت کو فروغ دینے کے منصوبے پر کام کررہا ہے۔ صوبائی وزیر کا اس موقع پر کہنا تھا کہ پنجاب میں شتر مرغ کے 400 باڑوں کا اندراج کیا جاچکا ہے جہاں 20,000 شترمرغ پالے گئے ہیں۔ شتر مرغ کا گوشت 1,300 سے 1,500 روپے فی کلو فروخت ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’حکومت عوام کو سستا اور معیاری گوشت فراہم کرنے کے لیے کام کررہی ہے‘‘۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 16 جنوری، صفحہ11)

زراعت
اقوام متحدہ کا ادارہ برائے خوراک و زراعت کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سال 2018 میں اجناس کی پیداوار بشمول گندم، چاول اور مکئی چھ فیصد کمی کے بعد اوسط 42 ملین ٹن ہوگئی ہے۔ چھ فیصد پیداوار میں کمی گزشتہ سال 2017 کے مقابلے کمی ہوئی جس میں بہتر موسم، پانی کی مناسب فراہمی، کیمیائی کھاد اور دیگر زرعی مداخل تک رسائی کے باعث ریکارڈ پیداوار ہوئی تھی۔
(ڈان، 11 جنوری، صفحہ10)

ایک خبر کے مطابق پاکستان کا نظرانداز شدہ زرعی شعبہ بحرانی صورتحال کا سامنا کررہا ہے۔ کئی فصلوں کی قیمتوں میں مقامی منڈی میں کمی دیکھی گئی ہے جبکہ ان فصلوں میں استعمال ہونے والے مداخل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ آلو، ٹماٹر، پیاز اور دیگر پیداوار کی قیمتیں کم ہورہی ہے جس سے شہروں میں رہنے والوں کو تو سستی اشیاء مل رہی ہے لیکن اس کا بھاری خمیازہ دیہات میں رہنے والے کسان ادا کررہے ہیں جو اپنی پیداواری لاگت بھی پوری نہیں کرسکتے۔ غذائی اجناس کی قیمتوں میں دسمبر 2018 میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے جبکہ دوسری طرف ڈیزل، کھاد اور زہریلے اسپرے کی قیمتوں میں بھاری اضافہ ہوا ہے۔
(دی نیوز، 13 جنوری، صفحہ2)

پاکستان میں چین کے سفیر یاؤ جنگ نے وفاقی وزیر قومی غذائی تحفظ و تحقیق صاحبزادہ محمد محبوب سلطان سے ملاقات میں کہا ہے کہ چین پاکستان کے ساتھ سماجی معاشی تعلقات کو مستحکم کرنے اور پاکستان سے چین کو برآمدات مزید بڑھانے کا خواہشمند ہے۔ چیری، آلو، گندم، کینو، چاول اور آم چین کے لیے پرکشش غذائی اشیاء ہیں۔ چین ہائبرڈ چاول کے بیج کی مہارت کی جانچ کے لئے باضابطہ طور پر پاکستانی ماہرین کو چین مدعو کریگا۔ اس موقع پر وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک مویشیوں میں منہ کھر کی بیماری سے محفوظ زون قائم کرنے کے لئے باہمی اشتراک کی طرف بڑھ رہے ہیں اور اس حوالے سے دونوں جانب سے بات چیت جاری ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 12 جنوری، صفحہ13)

پھل سبزی
وفاقی وزیر قومی غذائی تحفظ و تحقیق صاحبزادہ محمد محبوب سلطان نے پاکستان و تاجکستان کے درمیان تجارت میں اضافے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ پاکستان دنیا کا بہترین کینو اور آم پیدا کرنے والے ملک ہے۔ تاجک سفیر سے ملاقات کے دوران وفاقی وزیر نے اس سال اپریل میں زرعی شعبہ میں دوطرفہ فوائد پر بات چیت کے لیے اجلاس منعقد کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ تاجکستان پاکستانی آم بھی درآمد کرنے پر غور کرے جو پہلے ہی ڈیری مصنوعات، چینی اور آلو پاکستان سے درآمد کررہا ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 10 جنوری، صفحہ20)

محکمہ زراعت پنجاب عالمی سطح پر پاکستانی پھل و سبزیوں کو اجاگر کرنے کے لیے دو روزہ زرعی نمائش ’’پاکستان ہورٹی کلچرل ایکسپو 2019‘‘ کا اہمتام کررہی ہے۔ نمائش 21 اور 22 جنوری کو لاہور کے ایکسپو سینٹر میں منعقد ہوگی۔ نمائش کسانوں، درآمد کنندگان، برآمد کنندگان اور پھل سبزی شعبہ سے وابستہ کمپنیوں کو مواقع فراہم کرے گی۔
(بزنس ریکارڈر، 10 جنوری، صفحہ2)

  اعداد وشمار کے مطابق پاکستان 2015-16 میں 206,569 ہیکٹر رقبے پر تقریباً 2.5 ملین ٹن ترش پھل (سٹرس فروٹ) کی پیدوار ہوتی ہے۔ ترش پھل کا 80 فیصد کینو پر مشتمل ہے جو ایک اہم برآمدی جنس ہے۔ پاکستان کینو پیدا کرنیوالا دنیا کا 12 واں بڑا ملک ہے لیکن مختلف بیماریوں، کم پیداوار، ناقص معیار، بین الاقوامی منڈی میں بغیر بیج کا کینو پسند کیے جانے کی وجہ سے مسابقت نا کرپانے کی بدولت یہ پھل ملک میں اپنی توانائی بخش افادیت سے محروم ہورہا ہے۔ کاشتکار اور برآمد کنندگان کینو کے جنیاتی وسائل کے معیار و طاقت کے حوالے سے مسائل کا شکار ہیں۔ 1950 میں منڈارین قسم کے کینو کے جنیاتی وسائل متعارف کرائے گئے تھے جو اب ناصرف پیداوار بلکہ کیڑوں کے حملہ سے مزاحمت رکھنے کے حوالے سے بھی اپنی طاقت و معیار کھو چکے ہیں۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 14 جنوری، صفحہ20)

مال مویشی ماہی گیری
وزیر مال مویشی و ماہی گیری سندھ عبد الباری پتافی نے اسمبلی کو بتایا ہے کہ 18 ویں ترمیم کے تحت اب تک مال مویشی اور ماہی گیری شعبہ مکمل طور پر صوبے کے حوالے نہیں کیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت نے اب تک تمام انتظامات اور اثاثے سندھ حکومت کے حوالے نہیں کیے ہیں۔ ان اثاثوں میں کورنگی فش ہاربر، ہاکس بے پر جھینگوں کا سینالہ (ہیچری)، مال مویشی لیبارٹریاں اور دیگر بنیادی ڈھانچہ شامل ہے۔ صوبائی حکومت نے یہ مسئلہ وزارت بین االصوبائی تعاون کے سامنے اٹھایا ہے۔
(ڈان، 16 جنوری، صفحہ16)

کپاس
کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے وزیر خزانہ اسد عمر کی سربراہی میں بغیر محصول کپاس درآمد کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ کپڑے کی صنعتوں کے مطالبے پر حکومت نے کپاس کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی، ایڈشنل کسٹم ڈیوٹی، سیلز ٹیکس پر یکم فروری تا 30 جون 2019 تک کے لیے چھوٹ دی ہے۔
(ڈان،16 جنوری، صفحہ10)

گنا
ایک خبر کے مطابق خیبر پختونخوا کے کسانوں نے گنے کی قیمت کے حوالے سے عدالتی حکم پر عملدرآمد پر حکومتی ناکامی پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ کسانوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر تین دنوں کے اندر ملوں کی جانب سے کسانوں کے بقایاجات ادا نہیں کئے گئے تو کسان خزانہ شوگرمل، پشاور کے سامنے احتجاجی دھرنا دیں گے۔ کسان اتحاد کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ پنجاب میں کسانوں کو فی من گنے کی قیمت 180 سے 190 روپے فراہم کی جارہی ہے لیکن خیبر پختونخوا میں کسانوں کو ملوں کے رحم و کرم پر چھوڑدیا گیا ہے۔ شوگر ملیں کسانوں کو لوٹ رہی ہیں اور کسانوں کو سپریم کورٹ کی مقرر کردہ قیمت ادا نہیں کی جارہی ہے۔ زراعت کو ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی سے تشبیہ دی جاتی ہے لیکن کسانوں کو زرعی پیداوار کو بڑھانے کے لئے کوئی مراعات فراہم نہیں کی جاتی ہیں۔
(بزنس ریکارڈر، 13 جنوری، صفحہ2)

پانی
حکومت بلوچستان نے ضلع خاران میں گروک ڈیم کی تعمیر میں حائل تمام رکاوٹیں دور کردی ہیں اور جلد ہی ڈیم کی تعمیر شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ بلوچستان حکومت کے جاری کردہ بیان کے مطابق گروک ڈیم کی تعمیر 2009 سے تاخیر کا شکار ہے۔ منصوبہ پر کل 10 بلین روپے لاگت کا تخمینہ ہے جس کا 90 فیصد وفاقی حکومت ادا کریگی۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 10 جنوری، صفحہ7)
ایک خبر کے مطابق سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت کے حصے کا پانی جو اب تک بھارت استعمال نہیں کررہا تھا اور یہ پانی پاکستان کی طرف بہتا تھا اب بھارت میں ہی روک لیا جائیگا۔ کئی بھارتی وزیروں نے یمنا بیسن پر ڈیم کی تعمیر کے لیے مفاہمت کی ایک یاداشت پر دستخط کیے ہیں۔ یونین منسٹر نتن گوڑکرے کا کہنا ہے کہ بھارت کے حصے میں آنے والے دریا کے پانی کا کچھ حصہ اب بھی پاکستان کی طرف بہہ رہا ہے۔ اس پانی کو روک کر پنجاب، ہریانہ، اترپردیش، راجھستان اور دہلی ترسیل کیا جائے گا۔ (دی ایکسپریس ٹریبیون، 13 جنوری، صفحہ13)

زمین
سپریم کورٹ نے تین اعلی سرکاری اداروں کو ملیر، کراچی میں بحریہ ٹاؤن کے زیر قبضہ زمین کا اصل رقبہ معلوم کرنے کا حکم دیا ہے۔ قومی احتساب بیورو (نیب) کے مطابق بحریہ ٹاؤن کے زیر قبضہ زمین 25,601 ایکڑ ہے۔ سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے اسپیس اینڈ اپر ایٹموسفیئر ریسرچ کمیشن (سپارکو)، دی سروے آف پاکستان اور نیب کو مشترکہ طور پر اس زمین کی نشاندہی کرنے کا حکم دیا ہے جس کے لئے بحریہ ٹاؤن کا دعوی ہے کہ یہ زمین اس کے زیر قبضہ نہیں ہے اور نیب نے غلطی سے بحریہ ٹاؤن سے منسلک کردی ہے۔ عدالت سپریم کورٹ کے چار مئی کے فیصلہ پر عملدرآمد کے حوالے سے مقدمہ کی سماعت کررہی تھی۔ یہ فیصلہ ادارہ ترقیات ملیر کی جانب سے 2015 میں 43 دیہات کی 9,385 ایکڑ زمین بحریہ ٹاؤن کو دینے سے متعلق تھا۔ اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے ادارہ ترقیات ملیر کی زمین حکومت سندھ کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کو دینے، اس سے تبادلہ کرنے سمیت کولونائزیشن آف گورنمنٹ لینڈ ایکٹ 1912 کے تحت کیے گئے تمام اقدامات کو غیرقانونی قرار دیا تھا۔
(ڈان، 10 جنوری، صفحہ14)

نکتہ نظر
اس ہفتے کی خبروں میں سرفہرست خبریں حکمران طبقہ اشرافیہ کی عوامی ترقی کے جھوٹے دعوں کا پول کھولنے کے لیے کافی ہیں۔ نیولبرل پالیسیوں پر من و عن عمل کرنے والی ہر حکومت نے ملک کے غریب استحصال کے شکار طبقے کے مسائل میں اضافہ ہی کیا ہے جو ملک میں غذائی کمی کے شکار افراد خصوصاً عورتوں اور بچوں کی تشویشناک تعداد سے صاف ظاہر ہے۔ خود حکومت غذائی کمی سے نمٹنے کے لیے اربوں روپے قرض لے کر غذائی کمی کے خاتمے کے منصوبے شروع کرتی ہے جس کا بنیادی مقصد بین الاقوامی فورٹیفیکیشن کرنے والی غذائی کمپنیوں کے کاروبار کو ملک میں فروغ دے کر ان کے منافع کی راہ ہموار کرنا ہوتا ہے ناکہ ملک کے غریب عوام کو غربت اور غذائی کمی سے باہر لانا۔ عالمی سرمایہ دار ایجنڈے پر عمل پیرا ایسی ہر حکومت مسئلہ کے حقیقی حل کے لیے کبھی اقدامات نہیں کرتی۔ اخباری خبریں ہی نہیں خود کسان چلا چلا کر پیداواری لاگت میں اضافے اور پیداوار کی قیمت میں کمی کے خلاف آواز اٹھارہے ہیں جو دراصل اس زرعی شعبے سے جڑی عوام یعنی کسان مزدروں میں غربت اور غذائی کمی کی اہم وجہ ہے۔ بیج، کھاد اور زہریلے اسپرے بنانے اور فروخت کرنے والی کمپنیاں کسان کی محنت پر ڈاکہ ڈال کر منافع کمارہی ہیں اور کسان پیداوار سستے داموں فروخت کرکے بھوک سے دوچار ہورہا ہے۔ انہیں نیولبرل پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ ملک میں وافر مقدار میں موجود خوراک چاہے گندم ہو یاچاول، گنا ہو یا پھل سبزی یا گوشت، اسے برآمد کرنے کے لیے حکومت سامراجی ممالک کے تلوے چاٹنے پر تلی ہے لیکن اسی ملک کی مائیں اور بچے پیٹ بھر کھانے سے محروم ہوکر مٹھی سول ہسپتال جیسے سرکاری ہسپتالوں میں دم توڑ رہے ہیں۔ پنجاب کے صوبائی وزیر کے اس بیان پر کہ ’’حکومت عوام کو سستا گوشت فراہم کرنے کے لیے 1,300 روپے فی کلو شتر مرغ کے گوشت کو فروغ دے رہی ہے‘‘ صرف ماتم نہیں کیا جاسکتا، اس ملک کے کسان مزدور عوام کو منظم جدوجہد کرکے عوامی وسائل اور اختیار پر قابض ان ناسوروں سے نجات حاصل کرنی ہوگی۔

جنوری 3 تا 9 جنوری، 2018
زمین
چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سندھ میں جنگلات کی زمین غیر قانونی طور پر پٹے پر دینے کے مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے سندھ حکومت پر شدید برہمی کا اظہار کیا ہے۔ ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ 70,000 ایکڑ زمین غیر قانونی طور پر پٹے پر دی گئی ہے۔ 11,000 ایکڑ جنگلات کی زمین کراچی میں جبکہ 4,000 ایکڑ زمین نواب شاہ میں تعمیراتی کمپنیوں کو دی گئی ہے۔ دورخواست گزار قاضی اطہر کے مطابق پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے محکمہ جنگلات کی 2.8 ملین ایکڑ زمین کو ریونیو لینڈ میں تبدیل کیا تھا جسے بعد میں سندھ حکومت نے معطل کردیا تھا۔ اس وقت کے وزیر اعلی قائم علی شاہ نے عدالتی حکم کے باوجود زمین کا فضائی سروے نہیں کروایا۔ درخواست گزار نے الزام عائد کیا کہ یہ زمین بعد میں اومنی گروپ اور دیگر کو عدالتی حکم کے برخلاف منتقل کردی گئی۔ عدالت نے سماعت نو جنوری تک ملتوی کرتے ہوئے تمام فریقین کو سات جنوری تک رپورٹ مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 3 جنوری، صفحہ20)

ایک خبر کے مطابق ضلع سانگھڑ میں 2004 میں بے زمین کسانوں کو دی گئی ہزاروں ایکڑ زمین کی منتقلی منسوخ کرکے حکومت نے واپس لے لی ہے۔ ایڈیشنل کمشنر (ریونیو) شہید بینظیر آباد یوسف عباسی نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی تحقیقات اور محتسب کو موصول ہونے والی شکایات کے تناظر میں اس وقت کے اعلی ضلعی افسر (ای ڈی او) کی جانب سے دی گئی زمین کے خلاف کارروائی کی ہے۔ ایڈیشنل کمشنر کے مطابق ای ڈی او نے زمین قوائد و صوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے منتقل کی ہے۔ تعلقہ سانگھڑ کے 26 دیہات میں ہاریوں کو زمین دی گئی تھی۔ زیادہ تر کسانوں نے حکومتی واجبات بھی ادا کردئے ہیں جس کی ادائیگی کے بعد انھیں زمین کی منتقلی کے دستاویز (الاٹمنٹ آرڈر) جاری کیے گئے تھے۔
(ڈان، 5 جنوری، صفحہ17)

سندھ کابینہ نے جنگلات کی 70,000 ایکڑ زمین کی منتقلی (الاٹمنٹ) منسوخ کردی ہے اور بااثر افراد کے قبضہ سے 145,245 ایکڑ زمین واگزار کرانے کے لئے کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کابینہ کے اجلاس میں وزیر جنگلات سندھ سید ناصر شاہ نے بتایا ہے کہ 13,000 ایکڑ زمین پہلے ہی غیرقانونی قابضین سے واگزار کروالی گئی ہے۔
(ڈان، 8 جنوری، صفحہ14)

گنا
سندھ آباد گار بورڈ نے کاشتکاروں کو گنے کی مقررہ قیمت ادا نہ کرنے اور انہیں کم قیمت پر گنا فروخت کرنے کے لیے دھمکانے کی سخت مزمت کی ہے۔ بورڈ کے اجلاس میں کاشتکاروں کے خلاف مختلف اضلاع میں جھوٹے مقدمات بنانے کی دھمکیوں پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ اجلاس میں مختلف اضلاع کے کاشتکاروں نے بتایا کہ انھیں گنے کی قیمت 140 سے 160 روپے فی من ادا کی جارہی ہے جبکہ کچھ کاشتکاروں کو گزشتہ سال کے واجبات کی ادائیگی اس سال کی فصل کی پیشگی رقم کے نام سے کی جارہی ہے۔ اجلاس میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ حبیب شوگر مل 30 سے 40 فیصد وزن میں کٹوتی کررہی ہے جبکہ النور شوگر مل اور حبیب شوگر مل کاشتکاروں کو گنے کی قیمت کی رسید نہیں دے رہی ہیں۔
(ڈان، 8 جنوری، صفحہ17)

کپاس
ایک خبر کے مطابق گزشتہ سات سالوں کے دوران کپاس کے زیر کاشت رقبے میں مسلسل کمی کی وجہ سے پیداوار اس سال کم ہوکر 10 ملین گانٹھوں تک آگئی ہے جو سال 2011-12 میں 15 ملین گانٹھیں تھی۔ سال 2011-12 میں کپاس کا زیر کاشت رقبہ نو ملین ایکڑ تھا جو سال 2018-19 میں 5.9 ملین ایکڑ تک محدود ہوگیا ہے جبکہ حکومت نے 7.5 ملین ایکڑ رقبے پر کپاس کی کاشت کا تخمینہ لگایا تھا۔ گزشتہ سالوں میں کسان تیزی سے کپاس سے گنے کی فصل پر منتقل ہوئے ہیں۔ کپاس ناصرف نقد آور فصل ہے بلکہ پانی کی قلت کا سامنا کرنیوالے پاکستان جیسے ممالک کے لئے موزوں بھی ہے۔ ملک میں کپاس کی پیداوار اس حد تک کم ہوگئی ہے کہ مقامی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے ایک سے 1.5 بلین ڈالر کی کپاس درآمد کرنا پڑتی ہے۔
(ڈان، 4 جنوری، صفحہ10)

وفاقی وزیر قومی غذائی تحفظ و تحقیق صاحبزادہ محبوب سلطان نے کہا ہے کہ حکومت اس سال کے آخر تک کپاس کی 15 ملین گانٹھوں کی پیداوار کا ہدف حاصل کرنے کے لیے حکمت عملی ترتیب دے رہی ہے۔ اس سلسلہ میں ترجیح زہریلے اسپرے پر صفر جی ایس ٹی، کھاد پر زرتلافی اور بجلی کی قیمت میں کمی پر ہوگی۔ نئی حکمت عملی کا آنیوالے دنوں میں اعلان ہوگا جو چھوٹے کسانوں کو قرضوں کی فراہمی کو بھی یقینی بنائے گی۔ حکومت زرعی تحقیق کے لئے مختص رقم کو 0.2 فیصد سے بڑھا کر ایک فیصد کرنے پر غور کررہی ہے۔
(ڈان ، 8 جنوری، صفحہ10)

کینو
وفاقی وزیر قومی غذائی تحفظ و تحقیق صاحبزادہ محبوب سلطان نے کہا ہے کہ کینو کی برآمدات میں یورپی یونین اور دیگر ترقی یافتہ ممالک سے مسابقت کے لیے پاکستانی کاشتکاروں کے لیے کیڑوں کی روک تھام کے مربوط معیاری اصولوں کو اپنانا لازمی ہے۔ امریکہ، جاپان، جنوبی کوریا اور وسطی ایشیا کے دیگر ممالک پاکستان سے کینو درآمد نہیں کررہے ہیں اور جو ممالک کینو درآمد کررہے ہیں وہ اس کی مناسب قیمت ادا نہیں کررہے ہیں۔ تاہم اب چین اور فلپائن پاکستانی کینو برآمد کیے جاسکتے ہیں۔ ان دونوں ممالک کے ذریعے کینو کی برآمدات کو 20 فیصد بڑھایا جاسکتا ہے۔ پاکستانی کینو 58 سے زائد ممالک کو آمد کیا جاتا ہے۔
(ڈان، 4 جنوری، صفحہ4)

ایک خبر کے مطابق پاکستان نے دسمبر 2018 سے اب تک 125,000 ٹن کینو 500 ڈالر فی ٹن کے حساب سے برآمد کیا ہے۔ اس سال 350,000 ٹن کینو برآمد کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے جو مارچ اپریل تک مکمل ہوگا۔ آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجی ٹیبل ایکسپورٹرز، امپورٹرز اینڈ مرچنٹز ایسوسی ایشن کے سربراہ وحید احمد کا کہنا ہے کہ اگر بارشوں سے باغات کو نقصان نہ ہوا اور کینو کی ترسیل کا عمل معمول کے مطابق جاری رہا تو کینو کی برآمد کا ہدف حاصل کرلیا جائے گا۔ گزشتہ سال 200 ملین ڈالر مالیت کا 375,000 ٹن کینو برآمد کیا گیا تھا۔ زیادہ تر کینو روس، فلپائن، انڈونیشیا اور متحدہ عرب امارات کو برآمد کیا گیا۔
(ڈان، 9 جنوری، صفحہ 11)

پانی
سندھ آباد گار بورڈ نے عبدالمجید نظامانی کی زیر صدارت اجلاس میں ربیع کے موسم میں پانی کی قلت پر سخت تنقید کی ہے جس سے کھڑی فصلیں متاثر ہورہی ہیں۔ حالانکہ چھ جنوری سے بیراجوں کی سالانہ بندش شروع ہورہی ہے لیکن 20 دسمبر سے نہروں میں پانی دستیاب نہیں ہے۔ بیراجوں کی سالانہ بندش کے باوجود نہروں کی صفائی کا کام نہیں کیا جاتا اور اس مقصد کے لیے مختص کیے جانے والے کئی ملین روپے بدعنوان افسران کھاجاتے ہیں۔ اجلاس میں نہری نظام پر پنجاب کی طرز پر پانی کی جانچ کا نظام (ٹیلی میٹری سسٹم) نصب کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے تاکہ پانی کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جاسکے۔
(ڈان، 6 جنوری، صفحہ17)

بلوچستان میں آبی وسائل کے انتظام اور آبپاشی نظام کو بہتر کرنے کے لئے بلوچستان حکومت اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے 107 ملین ڈالر کے ایک منصوبہ پر دستخط کیے ہیں۔ایشیائی ترقیاتی بینک کی پاکستان میں ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ زراعت بلوچستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ اس منصوبہ سے پانی کے مؤثر استعمال کا نظام رائج ہوگا اور کسانوں کو پیداوار اور آمدنی کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ صوبائی وزیرظہور احمد بلید ی کے مطابق اس منصوبے کے تحت سارا تھوئی ڈیم تعمیر کیا جائیگا جس سے 50,000 ایکڑ زمین کو پانی فراہم کیا جائیگا۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 6 جنوری، صفحہ7)

نکتہ نظر
اس ہفتے کی سرفہرست خبروں میں زمینی قبضے سے متعلق خبریں شامل ہیں۔ صوبہ سندھ میں لاکھوں ایکڑ جنگلات کی زمین پر ’’بااثر افراد‘‘ کا قبضہ اس ملک میں قانون و انصاف کی خستہ حالی کو بلکل اسی طرح واضح کررہا ہے جس طرح تھرپارکر میں بیماریوں اور موت کا شکار ہوتے بچے صوبے میں بھوک، افلاس، ناانصافی اورجاگیرادری نظام میں ہونے والے استحصال کو واضح کرتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ سندھ کی زیادہ تر زرعی زمین پر پہلے سے ہی قابض یہ ’’بااثر افراد‘‘ اب تعمیراتی اور صنعتی مقاصد کے لیے جنگلات کی زمینوں، جھیلوں اوردیگر پیداواری وسائل پر قابض ہوکر مقامی کسان مزدور آبادیوں سے خوراک، پانی اور صاف فضاء میں سانس لینے کا حق بھی چھین لینے کے درپے ہیں۔ سندھ میں برائے نام ہی سہی 2004 میں کسانوں کو دی جانے والی زرعی زمین کو منسوخ کرنا چھوٹے کسانوں پر سراسر ظلم اور صوبے میں غربت و بھوک کو مزید بڑھانے کے مترادف ہے۔ حالانکہ کراچی، نواب شاہ اور سندھ کے دیگر علاقوں میں زمینی قبضے کے ذمہ دار یہ ’’بااثر افراد‘‘ اب تک کسی بھی قسم کی سخت کارروائی سے محفوظ نظر آتے ہیں۔ ملک کے ان بااثر افراد کے خلاف اس ملک کی کسان مزدورآبادیوں کی اجتمائی جدوجہد ہی انہیں پیداواری وسائل پر اختیار اور خوشحالی کی راہ پر ڈال سکتی ہے۔

دسمبر 27، 2018 تا 2 جنوری، 2019
زمین
ایک خبر کے مطابق اوکاڑہ ملٹری فارمز کے دیرینہ مسئلے کا جلد حل متوقع ہے۔ پاکستان فوج اور پنجاب حکومت نے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق (نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن) اور مزارعین کی تجاویز پر دو ہفتے میں مسئلہ کو حل کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ کمیشن کے چیئرمین ریٹائرڈ جسٹس علی نواز چوہان نے اخبار کو بتایا ہے کہ مزارعین کے خلاف درج فوجداری مقدمات واپس لیے جائیں گے۔ فصلوں کی بٹائی کے سال 2000 سے پہلے رائج طریقہ کار کو بحال کیا جائیگا اور مزارعین 50 فیصد پیداوار حکومت پنجاب یا فوج کو دینے کا آغاز کریں گے۔ مزارعین کو مالکانہ حقوق نہیں دیئے جائینگے لیکن مستقبل میں کوئی انہیں حراساں نہیں کرے گا اور انہیں زمین سے بے دخل نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سماعت کے دوران فوج نے تسلیم کیا ہے کہ زمین پنجاب حکومت کی ہے۔ لیکن فوج کا دعوی ہے کہ یہ زمین گائے اور گھوڑوں کے چارے کی پیداوار کے لیے فوج کے اختیار میں تھی۔
(ڈان، 1 جنوری، صفحہ4)

کسان مزدور
بھٹ شاہ، ضلع مٹیاری، سندھ میں ایک غیر سرکاری تنظیم کی جانب سے منعقد کیے گئے کنونشن میں زرعی مزدور عورتوں نے کم اجرت کے ذریعے مزدروں کے استحصال کے خاتمے کے لیے سندھ کے لیبر قوانین کے مطابق کم از کم اجرت کے قانون پر عملدرآمد کا مطالبہ کیا ہے۔ سندھ انڈسٹریل ریلیشن ایکٹ 2013 زرعی شعبے میں کام کرنے والوں کو مزدور تسلیم کرتا ہے اور انھیں مزدور تنظیمیں (ٹریڈ یونین) قائم کرنے کی اجازت دیتا ہے، لیکن نہ تو نچلی سطح پر مزدور تنظیمیں بن رہی ہیں اور نا ہی مزدورں کو مناسب اجرت دی جارہی ہے۔ شرکاء کا کہنا تھا کہ ایک ملین سے زائد کسان مزدور عورتیں کپاس کی چنائی سے وابستہ ہیں جو کپڑے کی صنعت کو ترسیل کی جاتی ہے۔ کپڑے کے شعبے میں بڑھوتری بلواسطہ مزدور کسان عورتوں پر منحصر ہے جن کا ناصرف کم اجرت کے ذریعے استحصال جاری ہے بلکہ ان کے کام کرنے کے حالات بھی انتہائی سخت ہوتے ہیں۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 27 دسمبر، صفحہ4)

غذائی کمی
فوڈ فورٹیفکیشن پروگرام (FFP)، برطانوی امدادی ادارہ یو کے ایڈ اور تھر دیپ رورل ڈیولپمنٹ پروگرام کی جانب سے مشترکہ طور پر ضلع کراچی میں فوڈ فورٹیفیکیشن پروگرام کے آغاز کے حوالے سے ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ تقریب میں شریک تمام شراکتداروں نے اتفاق کیا کہ ملک میں گھی، تیل اور آٹے میں اضافی غذائیت شامل کرنے (فورٹیفیکیشن) کی شدید ضرورت ہے جہاں کئی ملین افراد بھوک، غذائی کمی اور غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او) کی سال 2017 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 37.5 ملین افراد کو مناسب غذائیت نہیں مل رہی۔ تھر دیپ کے سربراہ اﷲ نواز سموں نے اس موقع پر کہا کہ 2011 کے قومی غذائی سروے کے مطابق پاکستان میں 60 فیصد حاملہ خواتین خون کی کمی کا شکار ہیں۔ 37 فیصد عورتیں فولاد کی کمی، 46.7 فیصد وٹامن اے کی کمی، 71 فیصد وٹامن ڈی جبکہ 44.5 فیصد سے زیادہ عورتیں زنک کی کمی کا شکار ہیں۔
(ڈان، 2 جنوری، صفحہ16)

موسمی تبدیلی
ایک خبر کے مطابق عالمی سطح پر ہونے والی مضر گیسوں (گرین ہاؤس گیسوں) کے اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن پاکستان موسمی تبدیلی کے اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔ گلوبل کلائمٹ رسک انڈیکس 2018 کے مطابق موسمی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں پاکستان کا ساتواں نمبر ہے۔ موسمی تبدیلی پاکستان میں سالانہ 523.1 اموات کا باعث ہے۔ گزشتہ 20 سالوں کے دوران پاکستان میں 10,462 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اس عرصہ میں پاکستان 141 بار شدید موسمی حالات کا نشانہ بن چکا ہے۔ پاکستان میں توانائی اور بجلی کا پیداواری شعبہ 90 فیصد کاربن کے اخراج کا ذمہ دار ہے۔ گزشتہ 21 سالوں کے دوران پاکستان کے کاربن اخراج میں 123 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ویژن 2025 اور سی پیک کی وجہ سے پاکستان میں کاربن کا اخراج 300 فیصد تک بڑھ سکتا ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 31 دسمبر، صفحہ20)

گندم
ایوان زراعت سندھ نے حکومت سے گندم کی قیمت گزشتہ چھ سال پہلے مقرر کی گئی قیمت 1,300 روپے فی من سے بڑھا کر 1,500 روپے فی من مقرر کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ایوان کے صدر قبول کاتھیان کا کہنا تھا کہ ڈیزل، بیج، کیمیائی کھاد جیسے مداخل کی قیمتوں میں ہونے والے بھاری اضافے کی طرح گندم کی امدادی قیمت میں بھی اضافہ ضروری ہے۔ اجلاس میں تربیلا ڈیم میں پانی کی سطح میں کمی پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا۔ تربیلا ڈیم میں پانی کی سطح انتہائی حد سے صرف 16 پوائنٹ بلند ہے۔
(ڈان، 31 دسمبر، صفحہ15)

گنا
وزیر بہبود آبادی پنجاب کرنل ریٹائرڈ ہاشم ڈوگر نے شوگر مل مالکان کو کہا ہے کہ وہ ایک ہفتے میں گنے کے کاشتکاروں کے واجبات کی ادائیگی یقینی بنائیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ مل مالکان بینکوں کے ساتھ اپنے معاملات حل کریں تاکہ گنے کے کاشتکاروں کو انکا حق مل سکے۔ صوبائی وزیر گنے کے کاشتکاروں کے 880 ملین روپے کے واجبات کی ادائیگی سے متعلق اجلاس کی صدارت کررہے تھے۔
(بزنس ریکارڈر، 29 دسمبر، صفحہ5)

ایک خبر کے مطابق سندھ کی 38 شوگر ملوں میں سے 27 نے گنے کی کرشنگ شروع کردی ہے۔ گنے کی کرشنگ شروع کرنے کے لئے سندھ حکومت نے انتہائی تاریخ 30 نومبر مقرر کی تھی جبکہ دسمبر کے پہلے ہفتہ میں گنے کی امدادی قیمت کا اعلامیہ جاری کیا گیا تھا۔ ملیں کسانوں کو گنے کی مقرر کردہ سرکاری قیمت ادا نہیں کررہی ہیں۔ ملوں نے گنے کی سرکاری قیمت 182 روپے فی من کے خلاف عدالت سے رجوع کیا ہے لیکن اب تک ملوں کے حق میں کوئی عبوری حکم جاری نہیں کیا گیا ہے۔ گنے کے کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ بالائی سندھ میں کچھ ملیں سرکای قیمت پر گنا خرید رہی ہیں لیکن زیریں سندھ کی ملیں سرکاری قیمت پر گنا خریدنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ کسانوں کا مزید کہنا ہے کہ اس سال گنے کی کٹائی میں تاخیر کی وجہ سے گندم کی بوائی بھی متاثر ہوئی ہے۔
(ڈان، 28 دسمبر، صفحہ17)

پانی
وزارت پانی و بجلی نے تصدیق کی ہے کہ دو جنوری کو ہونے والی مہمند ڈیم کے سنگ بنیاد کی تقریب غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی گئی ہے۔ ضلعی انتظامیہ مہمند کے مطابق تقریب کی تمام تیاریاں مکمل تھیں اور دعوت نامے بھی تقسیم ہوچکے تھے۔ مہمند ڈیم کے سنگ بنیادکے التواء کی وجہ بیان نہیں کی گئی۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 31 دسمبر، صفحہ6)

واپڈا نے مقامی قبائلیوں کے ساتھ مہمند ڈیم کی تعمیر کے لئے زمین کے حصول کے باضابطہ معاہدہ پر دستخط کردیئے ہیں۔ معاہدہ زمین کی قیمت سے متعلق ہے جس کی منصوبے کی بحالی اور زمین کے حصول کی کمیٹی کی جانب سے توثیق کی گئی ہے۔ ڈیم کی تعمیر کے لئے 8,675 ایکڑ زمین حاصل کی جائیگی۔ دریائے سوات پر بننے والے مہمند ڈیم منصوبے سے 1.2 ملین ایکڑ پانی ذخیرہ ہوگا اور 800 میگاواٹ سستی پن بجلی حاصل ہوگی۔
(بزنس ریکارڈر، 31 دسمبر، صفحہ11)

زراعت
وزیر زراعت سندھ اسماعیل راہو نے قرعہ اندازی کے زریعے زرعی مشین (آٹو لوڈر) تقسیم کرنے کی تقریب کے دوران کہا ہے کہ سندھ حکومت نے صوبے کی زرعی پیداوار میں اضافے اور چھوٹے کسانوں کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے زرعی شعبہ میں کئی منصوبوں کا آغاز کیا ہے اور حکومت عالمی بینک کے مالی تعاون سے زرعی مشینری تقسیم کررہی ہے۔ اس منصوبے کے تحت کسانوں کو زرعی مشینری کی صرف 30 فیصد قیمت ادا کرنی ہوگی۔
(بزنس ریکارڈر، 27 دسمبر، صفحہ7)

نکتہ نظر
اس ہفتے کی خبروں کی ترتیب سے ہی عیاں ہوتا ہے کہ ملک میں اکثریتی کسان مزدور طبقہ بے زمین ہے، اس بے زمینی کی وجہ کیا ہے اور اس طبقے کے حالات کیا ہیں۔
اوکاڑہ ملٹری فارم کے مزارعوں کی بے زمینی اور ان پر جبر اس ملک کے صرف ایک چھوٹے سے حصے کی کہانی ہے۔ تقریباً پورے ملک میں بڑے بڑے جاگیردار اور سرمایہ داروں کے ہاتھوں کسان مزدور شدید استحصال کا شکار ہیں جو نا صرف ملکی غذائی ضرورت پوری کرتے ہیں بلکہ برآمدات کی صورت میں ملکی معیشت کو بھی رواں دواں رکھے ہوئے ہیں۔ اشرافیہ کے زیر قبضہ ان زمینوں پر ان کے گھوڑوں اور مویشیوں کے لیے خوراک کی بہتات ہے لیکن ان ہی زمینوں پر سخت محنت کرکے اناج پیدا کرنے والے کسان پیٹ بھر روٹی سے بھی محروم ہوتے جارہے ہیں۔ کپاس چننے والی لاکھوں عورتیں اپنی جائز محنت سے محروم ہیں لیکن اشرافیہ کی کپڑا ملیں سونا اگل رہی ہیں۔ غذائی کمی کے اعدادوشمار ظاہر کررہے ہیں کہ کسان مزدور طبقے کی اکثریت غربت کی وجہ سے شدید غذائی کمی کا شکار ہے لیکن ملک کے حکمران و محافظ صرف ان مسائل پر پالیسی بیان اور منصوبوں کا اعلان کرکے بری ہوجاتے ہیں۔ یہ حالات شدید تقاضہ کرتے ہیں کہ استحصال کے شکار عوام اب متحد ہوں اور اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کا آغاز کریں۔