اپریل 2019

اپریل 18 تا 24 اپریل، 2019
زراعت
قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی برائے زراعت کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا ہے کہ خشک سالی کے خلاف مدافعت رکھنے والے بیجوں کو فروغ دیا جائے اور مزید ایسے بیج تیار کیے جائیں جو خشک سالی کے خلاف مدافعت رکھتے ہوں۔ اجلاس میں سیکریٹری قومی غذائی تحفظ و تحقیق کا کہنا تھا کہ 18ویں ترمیم کے بعد زرعی شعبے کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ زرعی بجٹ میں ملک بھر میں 60 فیصد کمی ہوچکی ہے۔ اس وقت ملک کا کل زرعی بجٹ 15بلین روپے ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جلد زرعی ہنگامی منصوبہ (ایگری کلچر ایمرجنسی پروگرام) مرتب کیا جائے گا۔ وفاق اور صوبے اگلے پانچ سالوں میں زراعت پر 287 بلین روپے خرچ کرینگے۔ اس منصوبے کے تحت گندم، چاول اور گنے کی پیداوار میں اضافہ ہوگا۔ وزارت گندم کی فی ایکڑ پیداوار سات ٹن اور چاول کی پیداوار فی ایکڑ 10 ٹن یقینی بنائے گی۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 18 اپریل، صفحہ3)

جنوبی پنجاب کے کپاس اور گندم کی پیداوار کرنے والے 14 اضلاع میں آندھی اور ژالہ باری کی وجہ سے کھڑی فصلوں کو وسیع پیمانے پر نقصان پہنچا ہے۔ ضلع انتظامیہ کی جانب سے تاحال نقصان کا اندازہ لگانے کے لیے سروے جاری ہے۔ تاہم کسانوں اور سرکاری حکام کے مطابق گندم، مکئی، آم اور سبزیوں کی فصل کو شدید نقصان پہنچا ہے اور بعض مکمل طور پر تباہ ہوگئی ہیں۔ ضلع خانیوال کے زرعی افسر سردار جمیل کا کہنا ہے کہ ضلع میں 40,000 ایکڑ پر محیط سبزیوں، آم اور دیگر فصلوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ بارشوں اور طوفان سے متاثرہ اضلاع میں میانوالی، بھکر، لیہ، راجن پور، ڈیرہ غازی خان، مظفرگڑھ، ملتان، لودھراں، بھاولنگر، بھاولپور، ویہاڑی، رحیم یارخان، خانیوال اورساہیوال شامل ہیں۔
(ڈان، 18اپریل، صفحہ10)

ایک خبر کے مطابق ملک میں ہونے والی حالیہ بارشوں سے ہونے والے بھاری نقصان کی وجہ سے زرعی شعبہ شدید بحران کا شکار ہے۔ صرف پنجاب میں ہی کٹائی کے لیے تیار گندم اور مکئی کی 35,000 ایکڑ پر محیط فصلیں تباہ ہوگئی ہیں۔ ابتدائی اندازوں کے مطابق صوبے میں 200,000 ٹن گندم کی فصل کو نقصان پہنچا ہے۔ فیصل آباد میں گندم کی پانچ فیصد فصل متاثر ہوئی ہے۔ ڈائریکٹر محکمہ زراعت چوہدری عبدلحمید کے مطابق فیصل آباد میں 33,787 ایکڑ پر گندم،510 ایکڑ پر سبزیاں جبکہ 342 ایکڑ پر محیط پھلوں کے باغات متاثر ہوئے ہیں۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 19 اپریل، صفحہ3)

وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق نے اعلان کیا ہے کہ ملک میں خوراک کے تحفظ کو کوئی خطرہ نہیں ہے اور ناہی گندم کی قلت کا خطرہ ہے۔ حالیہ بارشوں اور آندھیوں کے باعث گندم، مکئی اور چنے کی فصلوں کو معمولی نقصان ہوا ہے۔ اس تناظر میں گندم کی قلت کے حوالے سے افواہیں درست نہیں ہیں۔ وزارت حالیہ بارشوں سے فصلوں کو ہونیوالے نقصانات کے حوالے سے صوبائی زرعی محکموں سے رابطے میں ہے۔
(ڈان، 20 اپریل، صفحہ1)

فصلیں
وفاقی زرعی کمیٹی کے اجلاس میں ربیع 2018-19 میں ملک بھر میں 8.83 ملین ہیکٹر رقبے پر 25.16 ملین ٹن گندم کی پیداوار کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ گندم کے پچھلے سال کے تین ملین ٹن ذخیرے کے ساتھ ملک میں مجموعی طور پر 28.16 ملین ٹن گندم دستیاب ہوگی جو قومی ضرورت سے زیادہ ہے۔کمیٹی کو بتایا گیا ہے کہ ملک میں 943,700 ہیکٹر زمین پر چنے کی کاشت کی گئی جس سے 439,000 ٹن چنے کی پیداوار کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ کمیٹی نے خریف کے موسم میں 2.895 ملین ہیکٹر رقبے پر کپاس کی 15 ملین گانٹھوں کی پیداوار کا ہدف مقررکیا ہے جبکہ 2.88 ملین ہیکٹر رقبے پر 7.433 ملین ٹن چاول کی پیداوار کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔
(دی ایکسپریسٹریبیون، 18 اپریل، صفحہ20)
گندم
محکمہ خوراک پنجاب کو باردانے کے حصول کے لیے کل 850,000 درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔ پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ اور پنجاب لینڈ ریکارڈ اتھارٹی نے درخواستوں کی جانچ شروع کردی ہے۔خبر کے مطابق مقامی ریونیو افسران کی ملی بھگت سے باردانے کے حصول کے لیے بڑی تعداد میں جعلی درخواستیں موصول ہوئی ہیں اور یہ امکان ہے کہ جانچ پڑتال کے دوران 250,000 سے زائد درخواستیں جعلی اور نامکمل ہونے کے بناء پر تین دن کے اندر مسترد ہوجائیں گی اور تقریبا 550,000 درخواست گزار کسانوں کو باردانہ فراہم کیا جائے گا۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 19اپریل، صفحہ11)

ایک خبر کے مطابق پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ہونے والی مسلسل بارشوں سے اس سال گندم کی 25.51 ملین ٹن پیداوارکا ہدف حاصل ہونے کا امکان نہیں ہے۔ پچھلے تین دنوں سے ملک کے مختلف علاقوں میں بارشوں نے پنجاب اور بلوچستان کے میدانی علاقوں میں گندم کی فصل کو اور پہاڑی علاقوں میں پھلوں کی پیداوار کو نقصان پہنچایا ہے۔ محکمہ زراعت پنجاب کے ابتدائی اندازے کے مطابق صرف پنجاب میں 200,000 ٹن گندم ضائع ہوگئی ہے۔ وفاقی وزیر قومی غذائی تحفظ و تحقیق صاحبزاہ محبوب سلطان نے صوبائی حکومتوں سے گندم کی فصل کو ہونے والے نقصانات کی رپورٹ طلب کی ہے۔
(ڈان، 18 اپریل، صفحہ1)

آم
آم کے کاشتکاروں اور برآمد کنندگان کے مطابق نامناسب موسمی حالات کی وجہ سے آم کی پیداوار میں 20 سے 25 فیصد کمی ہوسکتی ہے۔ مینگو گرور ایسوسی ایشن ملتان کے صدر طارق خان کا کہنا ہے کہ پچھلے سال کے مقابلے اس سال آم کی پیداوار میں 300,000 سے 400,000ٹن کمی کا خدشہ ہے۔ اس سال آم کی پیداوار میں کمی موسمی تبدیلی کی وجہ سے آنے والی شدید موسمی آفات ہیں۔ملک کی کل 1.7 ملین ٹن آم کی پیداوار میں پنجاب کا حصہ 72 فیصد ہے۔
(دی نیوز، 21اپریل، صفحہ17)

مال مویشی
پاکستان میں زرعی منڈی کو فروغ دینے کا امریکی منصوبہ یو ایس۔ پاکستان پارٹنر شپ فار ایگریکلچرل مارکیٹ ڈیولپمنٹ نے پاکستان کے گوشت کے برآمد کنندگان کی عالمی منڈی تک رسائی بڑھانے کے لیے ایک نیا کمپیوٹر سوفٹ وئیر جاری کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ سوفٹ وئیر مویشیوں کے (پیدائش و افزائشی) مقام، اس کے گوشت کی عمل کاری کے مراحل (پروسیسنگ) کی نشاندہی کرے گا جو مویشیوں میں بیماریوں کے پھیلاؤ کو روکنے میں معاون ہوگا۔ یوایس ایڈ پاکستان کے ڈائریکٹر (Leslie-An Nwokora) نے کہا ہے کہ یہ سوفٹ ویئرپاکستانی برآمد کنندگان کے لیے نئی عالمی منڈیوں کی تلاش میں بہت مددگار ثابت ہوگا۔ گوشت کے خریدار اس سے متعلق تمام معلومات حاصل کرسکیں گے جبکہ مویشیوں کی مناسب خوراک کا تعین کرنے والا یہ سافٹ ویئر کسانوں کی پیداواری لاگت میں کمی اور مویشیوں کو درست تناسب سے خوراک کی فراہمی کے ذریعے انہیں صحتمند رکھنے میں معاون ہوگا۔ یوایس ایڈ نے 2015 میں پاکستان میں تجارتی زراعت اور مال مویشی شعبے کے لیے یہ منصوبہ شروع کیا تھا تاکہ پاکستان کی زیاد قدر والی اور بے موسم سبزیوں، آم، کینو کی مقامی اور عالمی منڈیوں میں مسابقت کی صلاحیت کو بہتر بنایا جاسکے۔
(بزنس ریکارڈر، 19اپریل، صفحہ15)

زرعی قرضہ
وفاقی زرعی کمیٹی (فیڈرل کمیٹی آن ایگری کلچر) کے اجلاس میں بتایا گیا ہے کہ کسانوں کو زرعی قرضوں کی فراہمی میں صوبہ بلوچستان تمام صوبوں سے پیچھے ہے۔ بلوچستان کے کسانوں نے زرعی ترقیاتی بینک اور دیگر تجارتی بینکوں سے اپنے حصے کا صرف 1.1 فیصد زرعی قرضہ لیا ہے جبکہ صوبہ پنجاب اپنے حصے کا 66 فیصد یعنی 590 بلین روپے بینکوں سے زرعی قرضہ لیا۔ دستاویزات کے مطابق مالی سال 2018-19 میں ملک بھر میں کسانوں نے زرعی قرضہ جات کے لیے کل مختص رقم 1,250 بلین روپے میں سے 701 بلین روپے کے زرعی قرضے حاصل کیے۔ پنجاب کے لیے مختص 890 بلین روپے میں سے 590 بلین روپے، سندھ میں 261.5 بلین روپے میں سے 97.9 بلین روپے، خیبرپختونخوا میں 43 بلین روپے میں سے 10.2بلین روپے کا کسانوں نے قرض حاصل کیا۔ بلوچستان کے کسانوں کے لیے 50 بلین روپے مختص کیے گئے تھے جس میں سے صرف 0.6 بلین روپے کے زرعی قرضے جاری ہوئے۔ آزاد کشمیر کے کسانوں نے مختص کردہ 2.4 بلین روپے میں سے 2.3 بلین روپے اور گلگت بلتستان میں مختص کردہ 3.2 بلین روپے میں سے 0.4 بلین روپے کے زرعی قرضے جاری کیے گئے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 19اپریل، صفحہ7)

برآمدات
چیئرمین آل پاکستان میٹ پروسیسرز اینڈ ایکسپورٹر ایسوسی ایشن ناصب احمد سیفی نے دعوی کیا ہے کہ کویت نے غیر میعاری گوشت کی فراہمی کی وجہ سے کچھ بڑے بھارتی گوشت برآمدکنندگان پر پابندی عائد کردی ہے جس کے بعد اب پاکستانی گوشت برآمدکنندگان کے لیے کویت، سعودی عرب اور ایران کی منڈی پر قبضہ کرنے کا نادر موقع ہے۔ جن کمپنیوں پر پابندی عائد کی گئی ہے وہ صرف سعودی عرب کو ہی یومیہ تقریباً 200 ٹن گوشت برآمد کررہی تھیں۔ حکومت کی مدد سے پاکستان اپنی گوشت کی برآمد کو سالانہ دو بلین ڈالر تک بڑھا سکتا ہے۔اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے حکومت کو برآمد کنندگان کو مراعات دینی ہونگی۔ حکومت کو گوشت کی برآمد پر آٹھ سے 10 فیصد (ٹیکس میں) چھوٹ دینی چاہیے۔
(بزنس ریکارڈر، 18اپریل، صفحہ7)

وزیر اعظم کے مشیر برائے صنعت و تجارت اور ٹیکسٹائل عبدالرزاق داوؤد نے سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت کو آگاہ کیا ہے کہ چین کی جانب سے ایک بلین ڈالر کے ٹیکس فری پیکیچ کے تحت اب تک 150,000 ٹن چینی برآمد کی جاچکی ہے جبکہ 200,000 ٹن چاول کی برآمد جون تک مکمل ہوجائے گی۔ چین نے پاکستان کو چاول، چینی اور 350,000 ٹن سوتی دھاگہ (محدود مدت کے لیے) بلامحصول چین برآمد کرنے کی سہولت دی تھی۔ سینٹ کمیٹی کے چیرمین مرزا محمد آفریدی نے خدشہ ظاہر کیا کہ سوتی دھاگے کی برآمد سے مقامی کپڑے کی صنعت کو نقصان ہوگا اور پاکستانی منڈی میں اس کی قیمت بڑھے گی۔اس خدشہ پر مشیر تجارت کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سوتی دھاگے کی وافر پیداوارہے اس لیے ایسی صورتحال پیدا نہیں ہوگی۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 24اپریل، صفحہ 20)

پانی
برف پگھلنے اور بارشوں کی وجہ سے ملک کے دو بڑے آبی ذخائر تربیلا اور منگلا میں پانی کی سطح بڑھ رہی ہے۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق تربیلا ڈیم میں پانی کی سطح 1417.23 فٹ تک پہنچ گئی ہے جبکہ اس کی پانی ذخیرہ کرنے کی حد 1,550 فٹ ہے۔ اسی طرح منگلا ڈیم میں اس وقت پانی کی سطح 1140.90 فٹ ہے جبکہ انتہائی حد 1,242 فٹ ہے۔
(ڈان، 20 اپریل، صفحہ2)

ایک خبر کے مطابق پنجاب کابینہ نے اپنے آٹھویں اجلاس میں پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019 اور واٹر ایکٹ 2019 سمیت مختلف قوانین کی منظوری دیدی ہے۔ دونوں مجوزہ ایکٹ کو پنجاب اسمبلی میں قانون سازی کے لئے پیش کیا جائیگا۔ مجوزہ واٹر ایکٹ 2019 کے تحت وزیر اعلی کی سربراہی میں ایک واٹر ریسورس کمیشن بنایا جائیگا۔
(ڈان، 20 اپریل، صفحہ2)
صوبہ پنجاب میں آبادی کو پینے کے صاف پانی فراہم کرنے کے لیے پنجاب آب پاک اتھارٹی قائم ہوگئی ہے جس کے سربراہ گورنر پنجاب ہونگے۔ یہ اتھارٹی صوبے کی 110 ملین آبادی کو پانی صاف کرنے والے پلانٹ نصب کرکے پینے کا پانی فراہم کرے گی۔ یہ پلانٹ جیل، ہسپتال اور یونیورسٹیوں میں بھی قائم کیے جائیں گے۔
پنجاب اسمبلی نے 14 مارچ کو کثرت رائے سے ایک بل کے ذریعے پنجاب آب پاک اتھارٹی قائم کرنے کی منظوری دی تھی۔ گورنر پنجاب نے اتھارٹی کے قیام کے لیے اس پر دستخط کردئیے ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں حزب اختلاف نے گورنر کو اتھارٹی کا سربراہ بنائے جانے پر اعتراض کیا ہے۔
(ڈان، 22 اپریل، صفحہ2)

سندھ حکومت کی جانب سے بدین میں پانی کی قلت کے حوالے سے قائم کی گئی 19 رکنی تکنیکی کمیٹی نے ڈپٹی کمشنر کو آگاہ کیا ہے کہ کمیٹی اپنی رپورٹ پیش نہیں کرسکتی کیونکہ اس کا کام ابھی مکمل نہیں ہوا ہے۔ کمیٹی نے اپنا کام مکمل کرنے کے لیے مزید تین ماہ کا وقت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔کمیٹی کے سربراہ ادریس راجپوت نے ڈی سی آفس میں اجلاس کے دوران بتایا ہے کہ کمیٹی کے اراکین آبی ماہرین کے ہمراہ دیگر شراکت داروں سے پانی کے مسئلے پر بات چیت کر رہے اور اس وقت ان علاقوں کا دورہ کر رہے ہیں جہاں پانی روکے جانے کی اطلاع ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کی سیڈا کے عہدیداروں کے مطابق انھوں نے پانی کے بہاؤں میں آنے والی رکاؤٹوں کو ختم کردیا ہے لیکن کسان رہنماء اس دعوے کو رد کرتے ہیں۔
(ڈان، 24 اپریل، صفحہ17)

خشک سالی
وفاقی حکومت نے ملک میں ممکنہ خشک سالی جیسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے جامع منصوبہ متعارف کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس منصوبے پر کابینہ کے اجلاس میں بحث کی جائے گی۔ یہ منصوبہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی جانب سے تیار کیا گیا ہے جس کے کابینہ سے منظور ہوجانے کا امکان ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 21 اپریل، صفحہ3)

ماہی گیری
پاکستان نے جزبہ خیر سگالی کے تحت مزید 100 بھارتی ماہی گیروں کو کراچی سینٹرل جیل سے رہا کردیا ہے۔ ان ماہی گیروں کو مختلف کارروائیوں کے دوران پاکستانی سمندری حدود میں غیر قانونی طور شکار کرتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا۔ ان ماہی گیروں کو ریل گاڑی کے ذریعے لاہور روانہ کیا جائے گا جہاں سے انہیں واہگہ سرحد پر بھارتی حکام کے حوالے کردیا جائے گا۔ پاکستان گزشتہ ایک ماہ میں خیرسگالی کے طور پر 360 بھارتی ماہی گیروں کو رہاکرچکا ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 22 اپریل، صفحہ15)

نکتہ نظر
اس ہفتے کی زرعی خبروں میں سرفہرست خبر قومی اسمبلی کی زراعت کے حوالے سے خصوصی کمیٹی کے اجلاس سے متعلق ہے جس میں ملک میں موسمی تبدیلی کے نتیجے میں ہونے والی خشک سالی سے بچاؤ کے لیے نئے بیج متعارف کرنے پر زور دیا گیا۔ اسی اجلاس میں سیکریٹری وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کا یہ بیان کہ آٹھویں ترمیم زرعی شعبہ کی خستہ حالی کی وجہ ہے، سراسر چھوٹے اور بے زمین کسان مزدور اور عوام کو گمراہ کرنے کی ایک کوشش ہے۔گو کہ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مجموعی طور پر زرعی شعبہ کے بجٹ میں اضافہ ہونا چاہیے لیکن کیا یہ سچ نہیں کہ ہر حکومت میں زرعی شعبہ سے جڑی کھاد اور دیگر مداخل تیار کرنے والی صنعتوں اور زرعی پیداوار برآمد کرنے والوں کو اربوں روپے زرتلافی اور مراعات کی مد میں دیے جاتے رہے ہیں خصوصا کھاد اور چینی کے صنعتکاروں کو۔اس کی ایک مثال نئی حکومت کی جانب سے کپڑے کی صنعت کو گیس کی قیمت اور بقایات کی مد میں دی جانے والی مراعات ہیں۔ اخباری اطلاع کے مطابق ان مراعات سے قومی خزانے پر 25 ارب روپے کا بوجھ پڑے گا۔ حکومت عالمی بیج اور دیگر مداخل بنانے والی کمپنیوں کو ملک میں کاروبار کی کھلی چھوٹ دے کر گندم، چاول اور گنے کی پیداوار میں اضافے کی خواہشمند ہے، قابل غور بات یہ ہے کہ تینوں اجناس کی پیداوار میں پاکستان پہلے ہی خودکفیل ہے لیکن اس کے باوجود گنا، گندم اور چاول کاشت کرنے والے کسان پیداواری لاگت میں اضافے اور پیداوار کی قیمت کم ہونے کی وجہ سے سخت نقصان اور غربت کا شکار ہیں۔ ا س صورتحال میں پیداوار میں اضافہ کیا کسانوں کی خوشحالی کی ضمانت ہوسکتا ہے؟ ملک کے چھوٹے کسان ان کمپنیوں کی متعارف کردہ زہریلی زراعت و صنعتکاری اور موسمی تبدیلی کی چکی کے درمیان پس رہے ہیں۔ پہلی دنیا کی اس زہریلی ترقی اور ان کمپنیوں کے بڑھتے ہوئے منافع کا خمیازہ پاکستان جیسے ممالک کے کسان بے موسم بارشوں، خشک سالی اور سیلاب جیسی آفات کے ذریعے بھگت رہے ہیں۔ شدید موسمی حالات کے شکار چھوٹے کسانوں کے لیے گندم اور دیگر غذائی فصلیں ان کی خوراک کا تحفظ ہیں جسے بچانے کے لیے دنیا بھر کے کسانوں کو پائیدار طریقہ زراعت کو فروغ دے کر میدان عمل میں آنا ہوگا۔

اپریل 11 تا 17 اپریل، 2019
زراعت
نشاط ایگریکلچرل فارمنگ (پرائیوٹ) لمیٹڈ کے فارم منیجر لوئس لیٹگن کا کہنا ہے کہ پاکستان میں زراعت کے لئے زمین زرخیز اور موسم سازگارہے۔ تاہم طریقہ زراعت خصوصا صدیوں پرانے آبپاشی طریقوں کو جدید مشینی زراعت کو فروغ دے کر بہتر کرنے کی ضرورت ہے، جس سے پانی کے استعمال، آبپاشی اور بیجائی پر وقت اور افرادی قوت پر آنے والے اخراجات میں کمی ہوگی۔ جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے لوئس نشاط گروپ کے زرعی فارموں پر فصلوں کو پانی دینے کے بالائی فوارہ آبپاشی نظام (پائیوٹ سسٹم) کی نگرانی کررہے ہیں جو ان کے مطابق روایتی پانی دینے کے طریقے کے مقابلے بہترین آبپاشی نظام ہے۔ نشاط ایگری کلچرل فارمنگ لمیٹڈ کا یہ منصوبہ 1,200 ایکڑ زمین پر مشتمل ہے جس پر یہ آبپاشی نظام نصب کیا گیا ہے جبکہ مزید زمین کے حصول کا عمل جاری ہے۔ کمپنی اس زمین پر کاشت کی جانے والی روڈس گھاس برآمد بھی کررہی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 14 اپریل، صفحہ3)

زمین
ایک اخباری رپورٹ کے مطابق سندھ حکومت سیاسی اثرو رسوخ رکھنے والے افراد سے اربوں روپے مالیت کی جنگلات کی زمین کا قبضہ چھڑانے میں بے بس نظر آتی ہے۔ محکمہ جنگلات کے اعداد وشمارکے مطابق سندھ میں جنگلات کی 80 فیصد زمین پر قبضہ ہوچکا ہے اور بمشکل 100,000 ایکڑ (0.3 فیصد) جنگلات کی زمین بچی ہے۔ سندھ حکومت نے صوبائی آمدنی میں اضافے کے لئے (یوٹیلائزیشن پالیسی کے تحت) تجارتی مقاصد کے لئے ہزاروں درختوں کو کاٹنے کی اجازت دی۔ دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ جنگلات کی کٹائی کی وجہ سے بھی صوبہ بھرمیں درجہ حرار ت میں ہرسال اضافہ ہورہا ہے۔ سیکریٹری محکمہ جنگلات و جنگلی حیات آصف حیدر شاہ کی جانب سے وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ کو پیش کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق محکمہ جنگلات کی 145,300 ایکڑ زمین مافیا کے قبضے میں ہے اور 64,500 ایکڑ زمین غیر قانونی طور پر الاٹ کی گئی ہے۔ تاہم اس قبضے کے خلاف کارروائی صرف کاغذوں تک محدود ہے۔ رپورٹ کے مطابق سندھ حکومت نے 2004-05 میں جنگلات کی پالیسی (ایگرو فوریسٹری لیز پالیسی) متعارف کروائی تھی جس کے تحت مقامی شہریوں کو جنگلات کی کچھ زمین کی ملکیت حاصل کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ اس پالیسی کے تحت صوبے کی 72,000 ایکڑ جنگلات کی زمین 35,000 افراد میں تقسیم کی گئی تھی۔ سندھ کابینہ نے سات جنوری کو غیر قانونی طور پر الاٹ کی گئی 70,000 ایکڑ زمین کی لیز منسوخ کردی تھی اور 145,245 ایکڑ زمین پر قبضہ کرنے والے بااثر افراد کے خلاف کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 12 اپریل، صفحہ4)

ماہی گیری
وزیر مال مویشی و ماہی گیری سندھ عبدالباری پتافی نے سندھ اسمبلی کو بتایا ہے کہ پاکستان مرین فشریز ڈپارٹمنٹ جو وفاقی حکومت کا ماتحت ادارہ ہے، ساحل پر غیر قانونی طور پر مچھلیوں کا شکار کو روکنے میں ناکام رہا ہے۔ محکمہ کی خامیوں کی وجہ سے سمندر میں مچھلیوں کا غیر قانونی شکار جاری ہے جس کا کام ساحلی علاقوں میں غیرقانونی ماہی گیری کا نگرانی کرنا ہے لیکن وہ اپنا کام کرنے میں ناکام ہے۔ انہوں نے مزیدکہا کہ ’’مجھے نہیں پتا کہ انہوں نے غیر قانونی ماہی گیروں سے کوئی سمجھوتہ کیا ہے یا وہ ان کی نگرانی کی صلاحیت نہیں رکھتے‘‘۔ ایوان میں پوچھے گئے ایک اور سوال پر صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ ’’منچھر جھیل میں ماحولیات اور پانی کے معیار سے آبی حیات کو کسی قسم کا خطرہ لاحق نہیں ہے اور آلودہ ماحول کی وجہ سے منچھر جھیل میں کوئی مچھلی ہلاک نہیں ہوئی‘‘۔
( ڈان، 17اپریل، صفحہ 16)

گندم
سندھ آبادگار بورڈ نے وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ کو لکھے گئے خط میں مطالبہ کیا ہے کہ اگر حکومت گندم کی خریداری مراکز قائم کرنے کی طاقت نہیں رکھتی تو کسانوں کو بھاری نقصان سے بچانے کے لئے گندم کی بین الصوبائی نقل و حرکت پر پابندی کو ختم کردے۔ اخبار سے بات کرتے ہوئے سندھ آبادگار بورڈ کے بانی رکن گاڈا حسین مہیسر کا کہناتھا کہ سندھ میں 4.1 ملین ایکڑ رقبے پر گندم کی فصل کاشت کی گئی تھی۔ اس سال 6.2 ملین ٹن گندم کی شاندار پیداوار متوقع ہے اور سندھ حکومت نے اب تک نہ گندم کی خریداری پالیسی کا اعلان کیا ہے اور نہ ہی گندم کی سرکاری قیمت کا اعلان کیا ہے۔ اس صورتحال میں کسانوں کو مجبور کردیا گیا ہے کہ وہ اپنی پیداوار مقامی تاجروں کو 1,050 سے 1,120 روپے فی من کی انتہائی کم قیمت پر فروخت کردیں۔
(ڈان، 16 اپریل، صفحہ17)

ڈیری
ایک خبر کے مطابق لاہور میں کھلے دودھ کی فروخت پر پابندی اور جراثیم سے پاک دودھ (پیسچرائزیشن) پالیسی کے نفاذ کا منصوبہ حتمی مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔ وزیر خوراک پنجاب سمیع اللہ چودھری اور ڈائریکٹر جنرل پنجاب فوڈ اتھارٹی محمد عثمان کے درمیان ہونیوالی ملاقات میں جراثیم سے پاک دودھ کے حوالے سے لاہور کو ایک مثالی شہر بنانے کے منصوبے پربات چیت کی گئی۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی کے ترجمان کا کہنا ہے پہلے مرحلہ میں ترقی یافتہ ممالک کے مقرر کردہ معیار کے مطابق لاہور میں کھلے دودھ کی فروخت پر پابندی عائد ہوگی جس سے ملاوٹ پر قابو پانے میں مددملے گی۔ انہوں مزید کہا کہ کم لاگت سے جراثیم سے پاک دودھ کی ترسیل کے لیے جامع حکمت عملی تیار کی جارہی ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 12اپریل، صفحہ11)

بارشیں
گزشتہ تین روز میں شدید بارشوں کی وجہ سے ڈیرہ غازی خان میں پہاڑی ندی نالوں میں پانی کے بہاؤ میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا ہے۔ اس صورتحال کے تناظر میں ضلعی انتظامیہ نے علاقے میں سیلاب کا انتباہ جاری کردیا ہے۔ بارشوں سے سینکڑوں ایکڑ پر کھڑی گندم کی فصل بھی متاثر ہوئی ہے۔ کسانوں نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت انہیں اس بحران کے جاری رہنے تک مالی مدد فراہم کرے۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے گندم کی خریداری کا عمل تاخیر سے شروع کرنے کی وجہ سے ان کی پورے سال کی محنت بارش میں بہہ گئی ہے۔ انھوں نے حکومت سے متاثر ہ علاقوں کا سروے کرکے کسانوں کو ہونیوالے نقصانات کا اندازہ لگانے اور انہیں معاوضہ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 16 اپریل، صفحہ11)

پنجاب بھر میں حالیہ طوفانی بارشوں سے ضلع بھکر میں کھڑی فصلیں تباہ ہوگئی ہیں جس سے لاکھوں ایکڑ پر گندم اور چنے کی فصل کو سخت نقصان پہنچا ہے۔ کسان حکومت سے اس صورتحال کا نوٹس لینے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر وقاص رشید کا کہنا ہے کہ محکمہ ریونیو کا عملہ حالیہ بارشوں سے ہونے والے نقصان کا سروے کررہا ہے۔ اس کے علاہ ضلع بھکر کے تمام اسسٹنٹ کمشنروں کو سروے رپورٹ تیار کرنے کی ہدایت کردی گئی ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 17اپریل، صفحہ 11)

پانی
انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کے مطابق اس سال ملک میں گزشتہ ماہ تک ہونے والی بھاری برفباری کی وجہ سے دریاؤں میں پانی کا بہاؤ بڑھ رہا ہے۔ دریا میں پانی کا بہاؤ 156,400کیوسک ریکارڈ کیا گیا ہے جو گزشتہ سال 92,600 کیوسک تھا۔ آبی ذخائر کی صورتحال بھی ماضی کے مقابلے بہت بہتر ہے جو اس وقت گزشتہ سال 0.143ملین ایکڑ فٹ کے مقابلے 1.185ملین ایکڑ فٹ ہے۔ ارسا نے پچھلے ہفتے خریف کے آغاز پر سندھ اور پنجاب میں 14 فیصد پانی کی کمی کا عندیہ دیا تھا تاہم اب یہ کمی خریف کے آخر تک کم ہوکر چھ فیصد ہوجائے گی۔
(بزنس ریکارڈر، 11اپریل، صفحہ 3)
تحریک انصاف کا پنجاب بھر میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کا منصوبہ ’’پنجاب آب پاک اتھارٹی‘‘ مشکلات کا شکار ہے۔ پنجاب اسمبلی سے ایک ماہ پہلے منظوری کے باجود اب تک اتھارٹی کے قیام کا بل گورنر کو توثیق کے لیے نہیں بھیجا گیا۔ اس بل میں گورنر کا کردار بطور اتھارٹی کا سربراہ یقینی بنایا گیا ہے جسے پنجاب کابینہ نے عمران خان کی توثیق کے بعد منظور کیا تھا۔ حزب اختلاف نے پنجاب حکومت کی جانب سے مجوزہ اتھارٹی میں گورنر کے کردار پر شدید اعتراض کرتے ہوئے اسے صوبائی حکومت کے اختیارات غضب کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ یہ اتھارٹی گزشتہ حکومت کے کئی بلین روپے کے صاف پانی منصوبے کا متبادل ہوگی۔
(ڈان، 14 اپریل، صفحہ2)

نکتہ نظر
اس ہفتے کی سرفہرست خبر سے ملک میں زرعی شعبے کو دی جانے والی سمت کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ کس طرح ملکی زرعی پیداواری وسائل کو مقامی سرمایہ دار غیرملکی سرمایہ دار کمپنیوں کی ملی بھگت سے صرف اور صرف منافع کمانے کے لیے بے دریغ لوٹ رہے ہیں۔ ملک میں پانی کی شدید کمی، بے زمینی اور موسمی تبدیلی کے ہاتھوں کئی طرح کے بحرانوں کی شکار تقریبا آدھی آبادی تاحال ضرورت کے مطابق خوراک اور غذائیت سے محروم ہے اور اسی ملک میں چند سرمایہ دار پانی اور بڑے بڑے زرخیز زمینی رقبے پر غیرملکیوں کے لیے گھاس کاشت کرکے برآمد کرہے ہیں۔ کارپوریٹ زراعت کے یہ عملی نمونے ملک میں ناصرف آبی و زمینی وسائل پر قبضے کے ذریعے کسانوں کے استحصال کے ذمہ دار ہیں بلکہ بڑے پیمانے پر کسانوں میں بے روزگاری اور ماحولیاتی آلودگی کے بھی ذمہ دار ہیں جو زیادہ سے زیادہ پیداوار کے حصول کے لیے صنعتی طریقوں کا استعمال کرکے زرعی زہر، کیمیائی کھادوں کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں جو زیر زمین پانی اور آبی وسائل میں زہر گھول رہے ہیں۔ کسانوں کے ساتھ ساتھ جھیلوں، دریاؤں اور سمندر میں ماہی گیری کرنے والی آبادیاں اس غیرپائیدار طریقہ پیداوار سے براہ راست مچھلی اور دیگر آبی خوراک کی دستیابی میں کمی سے متاثر ہورہی ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ ملکی ایوانوں میں سرمایہ داروں اور ان کی کمپنیوں کے استحصال کے شکار کسان ہو یا ماہی گیر، ان کے لیے آواز اٹھانا تو دور حقائق کو تسلیم کرنے سے ہی انکاری ہیں۔ زرائع ابلاغ منچھر جھیل میں آلودگی، وہاں آباد ماہی گیروں کی معاشی بدحالی اور ان کی نقل مکانی کی مسلسل عکاسی کررہا ہے۔ ایسے میں صوبائی وزیر مال مویشی و ماہی گیری کا منچھر جھیل میں آلودگی ناہونے کا دعوی ناصرف مضحکہ خیز بلکہ قابل گرفت ہے۔

اپریل 4 تا 10 اپریل، 2019
جینیاتی مکئی
ایک اخباری رپورٹ کے مطابق حکومت بظاہر مقامی بیج کمپنیوں کے دباؤ کی وجہ سے ملک میں جینیاتی بیج کے استعمال میں تاخیر کررہی ہے جو فصلوں کی پیداوار میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ جدید زرعی ٹیکنالوجی پر کام کرنے والے سائنسدان کہتے ہیں کہ پالیسی سازوں کو سائنسدانوں کی رائے پر غور کرنا چاہیے بجائے اس پر لاحاصل بحث کا آغاز کرنے کے۔ ’’اگر اہم جینیاتی مکئی کی مثال لیں تو حکومت اس حوالے سے فیصلہ کرتے ہوئے شک و شبہہ کا شکار ہے حالانکہ تمام ضروری جانچ کے عمل کو بیج کے قانون میں شامل کیا گیا ہے اور تمام ضوابط جینیاتی کپاس کی ایک سے زائد بار منظوری کے دوران پورے کیے گئے ہیں۔ مقامی (بیج کمپنیاں) جان بوجھ کر اپنے تجارتی مفادات کے لیے اسے ایک مسئلہ بنارہی ہیں‘‘۔
(بزنس ریکارڈر، 10 اپریل، صفحہ7)

کھاد
وزیر خزانہ اسد عمر کی زیر صدارت اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں ہنگامی بنیادوں پر 100,000 ٹن یوریا درآمد کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔ کمیٹی کو آگاہ کیا گیا تھا کہ بیجائی کا موسم شروع ہوتے ہیں منڈی میں یوریا کی قیمت 1,850 روپے تک پہنچ گئی ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ مارچ میں یوریا کی 50 کلو بوری کی قیمت میں 150 روپے تک کا اضافہ کردیا گیا ہے جبکہ اس کی سرکاری قیمت 1,700 سے 1,720 روپے فی بوری ہے۔
(ڈان، 4 اپریل، صفحہ1)

زرعی مداخل
سیکریٹری جنرل کسان بورڈ پاکستان چوہدری شوکت نے حکومت کو خبردار کیا ہے کہ اگر حکومت نے کسانوں کے مسائل حل نہیں کئے تو کسان بورڈ پاکستان احتجاج کا اعلان کریگا۔ زرعی مداخل کی قیمتوں میں اضافے نے کسانوں کو بری طرح متاثر کیا ہے اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان مسائل کو حل کرے۔ حکومت کو زرعی مداخل بشمول بیج، کیمیائی کھاد اور زرعی زہر کی قیمتوں پر قابو پانے کے لئے جنگی بنیادوں پر اقدامات کرنے چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کسان بورڈ پاکستان تمام ضلعی مراکز میں احتجاجی مظاہرے اور دھرنے کا اعلان کرے گا اور احتجاج کے بعد صورتحال کی ذمہ دار حکومت ہوگی۔
(بزنس ریکارڈر، 7 اپریل، صفحہ11)

گندم
وفاقی حکومت نے آئندہ ہفتہ صوبائی حکومتوں کی مشاورت سے گندم کی خریداری و برآمد کی شفاف پالیسی مرتب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ باخبر زرائع کے مطابق یہ فیصلہ وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں ایک اعلی سطح کے اجلاس میں کیا گیا۔ اجلاس میں واضح کیا گیا کہ اس سال گندم کی زبردست پیداوار متوقع ہے جس کی خریداری کے لئے شفاف اور مناسب انتظامات ہونے چاہیے۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ پانچ اہم فصلوں اور مال مویشی شعبہ میں پیداوار میں اضافے، مقامی اور عالمی منڈی میں زرعی پیداوار کی بہتر طریقے سے تشہیر کے لیے ایک جامع زرعی پالیسی کی ضرورت ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 6 اپریل، صفحہ17)

سندھ آباد گار بورڈ نے گندم کی خریداری پالیسی کے نفاذ میں غیر ضروری تاخیر پر سندھ حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ کسان پہلے ہی نصف سے زائد پیداوار کھلی منڈی میں سرکاری قیمت سے کہیں کم پر فروخت کرچکے ہیں۔ مقامی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سندھ آبادگار بورڈ کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت نے گندم کی خریداری پالیسی کا اعلان کردیا ہے لیکن سندھ حکومت نے اب تک کوئی اعلان نہیں کیا ہے۔ سندھ حکومت گندم کی خریداری نہیں کررہی ہے جس کی وجہ سے کھلی منڈی میں اس قیمت گرتی جارہی ہے جو اس وقت 850 سے 900 روپے فی من تک کم ہوگئی ہے۔ اگر کسان سرکاری قیمت سے کم پر گندم فروخت کرتے ہیں تو انہیں مجموعی طور ہر 25 سے 30 بلین روپے کا نقصان ہوگا۔ موجودہ صورتحال میں کہ جب روپے کی قدر میں کمی کا سامنا ہے، اگر حکومت درست وقت پر گندم کی برآمد شروع کرے تو اس کے لیے گندم کی فصل منافع بخش ہوسکتی ہے۔ لیکن اگر کھلی منڈی میں گندم کی قیمت انتہائی کم ہوئی تو آڑھتی اور ذخیرہ اندوز اس سے فائدہ اٹھائیں گے اور صارفین ایک بار پھر کم قیمت آٹے تک رسائی سے محروم رہیں گے۔
(ڈان، 7 اپریل، صفحہ17)

پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن، پنجاب کے چیئرمین حبیب الرحمن اور دیگر ارکان نے گندم کی خریداری پالیسی میں بطور نجی شراکت دار ان کا واضح کردار نہ ہونے کی شکایت کی ہے۔ ارکان کا کہنا تھا کہ حکومت نے ان کے لئے مسائل کھڑے کردیئے ہیں اور یہ خدشہ ہے کہ اس عمل سے گندم کی خریداری مہم متاثر ہوسکتی ہے۔ انھوں نے افسوس کا اظہار کیا ہے کہ حکومت اب تک (مل مالکان کو) گندم کی قیمت فروخت کا اعلان کرنے میں ناکام ہے۔ گندم کے نجی خریداروں کو مسائل کا سامنا ہوگا کیونکہ بینکوں کی عائد کردہ شرح سود بہت زیادہ ہے۔ محکمہ خوراک پنجاب اور پاسکو زیادہ قیمت پر گندم خریدیں گے اور پھر اس کی فروخت پر زرتلافی دیں گے جبکہ نجی شعبہ ایسا نہیں کرسکتا۔
(ڈان، 8 اپریل، صفحہ2)

وزیر خوراک پنجاب سمیع ﷲ چودھری نے دعوی کیا ہے کہ صوبائی حکومت اس سال 130 بلین روپے کی لاگت سے گندم خریدے گی اور اس مقصد کے لیے رقم کی منظوری دی جاچکی ہے۔ صوبے بھر میں 384 گندم کی خریداری کے مراکز قائم کیے جاچکے ہیں جہاں 1,300 روپے فی من قیمت پر گندم خریدی جائے گی جبکہ کسانوں کو نو روپے فی بوری ترسیلی اخراجات بھی ادا کیے جائیں گے۔ باردانے کے لیے درخواستوں کی وصولی آٹھ اپریل سے 17 اپریل تک جاری رہے گی۔ درخواستوں کی تصدیق کے بعد 21 اپریل کو کسانوں کی فہرست خریداری مراکز پر آویزاں کی جائے گی اور 22 اپریل سے کسانوں کو باردانے کی فراہمی شروع ہوگی۔
(ڈان، 9 اپریل، صفحہ2)

ایک خبر کے مطابق گندم کی خریداری کے ہدف اور اس کے لیے مالی ضروریات کے حوالے سے وزارت خوراک نے فروری میں ویٹ ریویو کمیٹی کا ایک اجلاس منعقد کیا تھا جس میں تمام صوبوں کے حکام نے شرکت کی اور 6.90 ملین ٹن گندم کی مجموعی خریداری کا ہدف مقرر کیا تھا۔ تاہم سندھ اور پنجاب حکومت اب تک وفاقی حکومت کو گندم کی خریداری کے ہدف سے آگاہ کرنے میں ناکام ہیں۔ خیبرپختونخوا حکومت نے آگاہ کیا ہے کہ وہ اپنے ہی وسائل سے اس سال 0.3 ملین ٹن گندم خریدے گی۔ دوسری طرف پاسکو نے 1.1 ملین ٹن گندم کی خریداری کے لیے منظوری دینے کی سفارش کی ہے۔ تفصیلات کے مطابق گندم کا موجودہ سرکاری ذخیرہ 4.4725 ملین ٹن ہے جو گزشتہ سال اسی عرصے کے دوران 7.287 ملین ٹن تھا۔
(ڈان، 9 اپریل، صفحہ10)

لاہور کی ضلعی انتظامیہ نے باردانے کے لیے درخواستیں وصول کرکے گندم کی خریداری مہم کا آغاز کردیا ہے۔ اس سلسلے میں انتظامیہ نے چار گندم کے خریداری مراکز قائم کیے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر لاہور صالحہ سعید نے کچا منڈی گندم خریداری مرکز کا افتتاح کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کسانوں کو زیادہ سے زیادہ مدد فراہم کرنے کے لیے تمام مراکز میں ہر ممکن انتظامات کیے گئے ہیں۔
(بزنس ریکارڈر، 9 اپریل، صفحہ8)

کپاس
پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق ملک میں یکم اپریل تک 10.772 ملین گانٹھیں کپاس کی پیداوار ہوئی ہے جو پچھلے سال کے مقابلے 6.90 فیصد کم ہے۔ تفصیلات کے مطابق پنجاب میں کپاس کی پیداوار میں 9.50 فیصد جبکہ سندھ میں 2.45 فیصد میں کمی ہوئی ہے۔ جنرز کے پاس اس وقت غیرفروخت شدہ 809,195 گانٹھیں کپاس کا ذخیرہ موجود ہے جو گزشتہ سال اسی عرصے میں 486,963 گانٹھیں تھا۔ کپاس سے جڑے شراکت داروں کا کہنا ہے کہ ضروری ہے کہ حکومت فوری طور پر ایک مراعاتی پیکج کے ساتھ کسانوں کی حوصلہ افزائی کرے تاکہ کسان (پھٹی کی اشارتی قیمت کے ذریعے) کپاس کی کاشت کی طرف واپس آئیں۔
(ڈان، 4 اپریل، صفحہ10)

کابینہ کمیٹی برائے قانونی امور نے کپاس کی فصل پر حملہ آور ہونے والی گلابی سنڈی کے خاتمے میں مدد کے لیے حیاتیاتی کیڑے مار مواد گوسپ لیور (Gossyplure) برآمد کرنے کی منظوری دیدی ہے۔ پنجاب حکومت اور کپاس کے کاشتکاروں نے حکومت پر اس مواد کی درآمد پر زور دیا تھا جس کی درآمد پر کچھ قانونی مسائل کی وجہ سے پابندی عائد تھی۔ کمیٹی نے پاکستان ایگریکلچرل پیسٹی سائڈ ایکٹ 1971 کے تحت بطور ایک عام کیمیکل اس مواد کو درآمد کرنے کی منظوری دی ہے۔ تاہم اس فیصلے پر عملدرآمد کے لئے وفاقی کابینہ کی منظوری ابھی باقی ہے۔ گوسپ لیور نر کیڑوں کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے۔ اس مادے کو کھیتوں میں (بزریعہ ڈسپنسر) رکھا جاتا ہے جو نراور مادہ میں اختلاط کا عمل متاثر کرتا ہے اور ان کی آبادی کم کرتا ہے۔ اس مواد کے ذریعے کاشتکاروں کو گلابی سنڈی پر بغیر کیمیائی زہر کے قابو پانے میں مدد ملے گی جو منڈی میں مناسب قیمت پر دستیاب ہوگا۔
(ڈان، 6 اپریل، صفحہ10)

ڈیری
حکام کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کو جمع کرائی جانیوالی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پنجاب کے شہری علاقوں میں فروخت ہونیوالے 70 فیصد کھلے دودھ میں نقصان دہ کیمیائی اجزاء اور جراثیم پائے گئے ہیں۔ لاہور، ملتان، فیصل آباد، بھاولپور، گجرانوالہ اور راولپنڈی سے اکھٹے کئے گئے 601 نمونوں میں سے 422 نمونے استعمال کے لئے غیرموزوں پائے گئے ہیں۔ ان نمونوں میں فارمل ڈی ہائیڈ، امونیم سلفیٹ، ہائیڈروجن پر آکسائیڈ، یوریا اور صابن میں پائے جانیوالے کیمیائی اجزاء پائے گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ملاوٹ مافیا شہروں میں دودھ کی طلب پوری کرنے کے لئے ایران سے درآمد شدہ مصنوعی خشک دودھ بھی فروخت کررہا ہے۔ رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد وزیر اعظم نے تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کو پنجاب کے حکام کے ساتھ مل کر ترکی میں استعمال ہونیوالی جراثیم سے پاک دودھ کی ’’ پیسچرائزیشن پالیسی‘‘ پر کام کرنے کی ہدایت کی ہے۔ ترکی نے 1995 میں دودھ کو جراثیم سے پاک کرنے کا عمل (پیسچرائزیشن) لازمی قرار دیا تھا اور 2008 میں کھلے دودھ کی فروخت پر مکمل پابندی عائد کردی تھی۔
(ایکسپریس ٹریبیون، 5 اپریل، صفحہ11)

ماہی گیری
پاکستان نے جزبہ خیرسگالی کے تحت 100 بھارتی ماہی گیروں کو رہا کردیا ہے۔ بھارتی ماہی گیروں کو کراچی جیل سے آزاد کیا گیا ہے۔ ایدھی فاؤنڈیشن نے ان ماہی گیروں کے لیے کراچی تا واہگہ بارڈر تک سفری انتظامات کئے ہیں۔ محکمہ داخلہ سندھ کے افسر کے مطابق اس ماہ کے دوران پاکستان مزید 260 بھارتی ماہی گیروں کو رہا کرے گا۔ اس سے پہلے محکمہ خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے ہفتہ وار جائزے میں کہا تھا کہ پاکستان ماہ اپریل میں 360 بھارتی قیدیوں کو رہا کرے گا جن میں 355 ماہی گیر اور پانچ دیگر شہری شامل ہیں۔
(ڈان، 8 اپریل، صفحہ13)

پانی
وفاقی حکومت صوبائی حکومتوں اور دیگر شراکتداروں بشمول کسانوں کے ساتھ مل کر آبی وسائل میں ہونے والی کمی اور ملک بھر میں آبپاشی کے لئے پانی محفوظ کرنے کے لئے ایک پالیسی مرتب کررہی ہے۔ وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کے اعلی عہدیدار کے مطابق حکومت موجودہ 50,000 واٹرکورسوں کی مرمت و بحالی کے ساتھ ساتھ 73,000 نئے واٹر کورس تیار کرے گی۔ حکومت واٹر کورسوں کو بہتر بنانے اور نچلی سطح پر پانی ذخیرہ کرنے کے ٹینک کی تعمیر پر 178 بلین روپے خرچ کرنے کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔ تحقیق کے مطابق ہر سال ملک میں 24 ملین ایکڑ فٹ پانی ضائع ہورہا ہے۔ پانی کے تحفظ کے پروگرم کے ذریعے سالانہ آٹھ ملین ایکڑ فٹ پانی کو محفوظ کیا جاسکتا ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 4 اپریل، صفحہ7)

بدین میں مہینوں سے جاری پانی کے بحران کے خلاف احتجاج درج کرانے کے لئے کسانوں کی بڑی تعداد نے سیرانی تا بدین 23 کلو میٹر پیدل مارچ کیا۔ مظاہرین نے دوگھنٹے کی مسافت کے بعد بدین پریس کلب کے سامنے دھرنا دیا۔ احتجاج کی قیادت کرنے والے سیو بدین ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ بااثر افراد کی جانب سے آبی وسائل اور سیلابی نہروں سے بڑے پیمانے پر بلاروک ٹوک پانی کی چوری بدترین پانی کے بحران اور ساحلی علاقہ میں خشک سالی جیسی صورتحال کی ذمہ دار ہے۔ انھوں نے بااثر افراد کی جانب پانی کا رخ موڑنے کے آلات اور رکاوٹیں ہٹاکر پانی کی منصفانہ تقسیم کا مطالبہ کیا ہے۔
(ڈان، 7 اپریل، صفحہ17)

غذائی کمی
شدید گرم موسم میں بیماریوں اور غذائی کمی نے مٹھی سول ہسپتال، تھرپارکر میں مزید سات بچوں کی جان لے لی۔ محکمہ صحت کے حکام کے مطابق ان ہلاکتوں کے بعد اس سال مرنے والے کل بچوں کی تعداد 225 ہوگئی ہے۔ متاثرہ والدین کا کہنا ہے کہ انھیں بچوں کی لاشیں گاؤں لے جانے کے لیے مفت ایمبولنس بھی فراہم نہیں کی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر ہسپتال سے مفت دوائیں فراہم کرنے کے بجائے انہیں نجی دکانوں سے ادویات خریدنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔ والدین اور سماجی کارکنوں نے سندھ اور وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ تھر کے لوگوں کو مفت ایمبولنس اور ادویات فراہم کی جائیں۔
( ڈان، 4 اپریل، صفحہ 17)

فضائی آلودگی
امریکہ کا ہیلتھ افیکٹز انسٹی ٹیوٹ اور یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا کی فضائی آلودگی سے متعلق رپورٹ ’’اسٹیٹ آف گلوبل ائیر‘‘ کے مطابق پاکستان ان 10 ممالک کی فہرست میں جہاں فضائی آلودگی سے ہونے والی شرح اموات سب سے زیادہ ہے دوسرے نمبر پر ہے جبکہ بھارت چین کے ساتھ ملک کر پہلے نمبر پر ہے۔ سروے سے معلوم ہوا کہ چین اور بھارت میں مجموعی طور پر سال 2017 میں فضائی آلودگی سے 2.4 ملین افراد ہلاک ہوئے تھے۔ بھارت میں 60 فیصد گھرانے گھروں کے اندر فضائی آلودگی سے متاثر ہیں۔ اسی طرح چین میں یہ شرح 32 فیصد، بنگلہ دیش میں 79 فیصد جبکہ پاکستان میں 52 فیصد ہے۔ پاکستان میں 128,000، انڈونیشیا میں 124,000، بنگلہ دیش میں 123,000، نائجیریا میں 114,000، امریکہ میں 108,000، روس میں 99,000، برازیل میں 66,000 اور فلپائن میں 64,000 ہلاکتوں کی وجہ فضائی آلودگی ہے۔
(ڈان، 4 اپریل، صفحہ14)

نکتہ نظر
اس ہفتے کی ہی نہیں گزشتہ کئی ہفتوں کی خبریں مسلسل زرعی شعبہ میں استعمال ہونے والے زرعی مداخل کی قیمتوں خصوصاً کھاد کی قیمت میں ہونے والے اضافے، جس کی بنیادی وجہ ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر میں کمی اور اس کی پیداواری یا درآمدی لاگت میں اضافہ ہے، پر کسان تنظیموں کی تشویش پر مبنی ہیں۔ فصل چاہے آلو کی ہو یا گنے کی
اور اب گندم کی بھی ،چھوٹے کسان پیداواری لاگت اور قیمت میں بڑھتے ہوئے فرق کی وجہ سے مسلسل معاشی مشکلات کا شکار ہورہے ہیں جس کی بنیادی وجہ زرعی کمپنیوں کے فروخت کیے جانے والے زرعی مداخل پر مبنی غیر پائیدار زراعت ہے۔ جدت، پیداوار میں اضافے کے نعروں کے ساتھ سرمایہ دار ممالک کی سبز انقلاب کے نام سے متعارف کردہ اس زہریلی زراعت نے ہی آج کسانوں کو منڈی کی محتاجی، غربت اور بھوک میں مبتلا کیا ہے۔ ایک بار پھر یہ سرمایہ دار کمپنیاں اس ملک کے ماہرین اور سائنسدانوں کے ذریعے خوراک کی پیداوار کو اپنے منافع کی خاطر صنعت میں تبدیل کرنے لیے اس بار مکئی کے جینیاتی بیج کے ساتھ میدان میں اتر آئی ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ نام نہاد تعلیم یافتہ ماہرین خود مقامی بیج کی پیداوار کرنے والوں کی مزمت کررہے ہیں بجائے اس کے کہ یہی ملکی زرعی سائنسدان ایسی پائیدار زراعت کے لیے کام کریں جس میں ناصرف کسان کی بلکہ ملکی خودمختاری، خوشحالی، صاف و صحتمند ماحول کو یقینی بنائی جاسکے۔

مارچ 28 تا 3 اپریل، 2019

جینیاتی فصلیں
وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق نے وزیر اعظم عمران خان کو ملک میں خوراک میں جینیاتی ٹیکنالوجی (جی ایم اوز) متعارف کرنے کے حوالے سے سمری ارسال کر دی ہے۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قومی غذائی تحفظ وتحقیق میں سیکریٹری ڈاکٹر محمد ہاشم پوپلزئی نے کہا ہے کہ حکومت حتمی فیصلہ کرے گی کہ جینیاتی خوراک متعارف کروائی جائے یا نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ خوراک میں جینیاتی ٹیکنالوجی متعارف کروانے سے پاکستان اپنی غذائی اشیاء ان ممالک کو برآمد نہیں کرسکے گا جہاں جینیاتی خوراک پر پابندی ہے۔ اس موقع پر رکن قومی اسمبلی راؤ محمد اجمل خان کا کہنا تھا کہ جن ممالک نے جینیاتی ٹیکنالوجی متعارف کرنے کی اجازت دی تھی ان کے پاس اب مزید جدید ٹیکنالوجی ہے جبکہ ’’ہم اب تک سوچ رہے ہیں کہ (خوراک میں) جینیاتی ٹیکنالوجی متعارف کروائی جائے یا نہیں‘‘۔
(بزنس ریکارڈر، 30 مارچ، صفحہ5)

زراعت
سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی و ترقی میں سیکریٹری منصوبہ بندی ظفر حسن نے کہا ہے کہ حکومت کسان کی زیادہ سے زیادہ آمدنی کو یقینی بنانے کے لیے زرعی پیداوار میں آڑھتیوں (مڈل مین) کا کردار ختم کرنے کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔ منڈیوں اور آڑھتیوں کی وجہ سے کسان اپنی پیداوار کی جائز قیمت حاصل نہیں کرپاتے جس سے ان کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور وہ کم فصلیں اگانا شروع کردیتے ہیں۔ اس سلسلے میں آئندہ بجٹ میں سرکاری ترقیاتی پروگرام کی مد میں 12 سے 13 بلین روپے مختص کیے جائیں گے جبکہ گزشتہ سالوں میں ایک سے دو بلین روپے مختص کیے جاتے تھے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 3 اپریل، صفحہ20)

سیکریٹری وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق محمد ہاشم پوپلزئی نے کہا ہے کہ حکومت پانچ سالوں میں 290 بلین روپے کی لاگت سے زراعت کے پانچ اہم شعبہ جات پانی، فصلیں، منڈی، ماہی گیری اور مال مویشی میں مختلف منصوبے شروع کرنے کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔ منصوبہ کے تحت گنا، چاول اور گندم کی پیداوار میں اضافے اور روغنی بیجوں کی پیداوار کو فروغ دینے کے منصوبے جولائی میں شروع کیے جائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ زرعی شعبے کی وفاق سے صوبوں کو منتقلی کے بعد اس شعبہ کی کارکردگی میں ترقی اور بجٹ کے حوالے سے 60 فیصد کمی ہوئی ہے۔ صوبوں کو زرعی شعبہ کی منتقلی سے پہلے وفاقی اور صوبائی بجٹ میں اس شعبہ کے لیے مختص رقم تقریباً 40 بلین روپے ہوا کرتی تھی جو اب کم ہوکر 20 سے 22 بلین روپے ہوگئی ہے۔ زرعی شعبے کی صوبوں کو منتقلی کے بعد سے پہلی بار وفاق کی جانب سے پانچ سالوں میں 18 منصوبوں کے ذریعے پانچ اہم زرعی شعبہ جات میں 92.5 بلین روپے خرچ کیے جائیں گے۔ وفاق کی جانب سے پانی کے شعبے کے لئے 71 بلین روپے، فصلوں کے لیے 1.65 بلین، ماہی گیری میں 3.51 بلین اور مال مویشی شعبہ میں 1.32 بلین روپے فراہم کیے جائیں گے۔
(ڈان، 3اپریل، صفحہ 10)

گندم
وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں گندم کی خریداری پالیسی کی منظوری دے دی گئی ہے۔ تاہم گندم خریداری کا کوئی ہدف مقرر نہیں کیا گیا ہے۔ گندم کی فی من کی قیمت 1,300 روپے برقرار رکھی گئی ہے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ باردانے کے حصول کے لئے درخواستیں آٹھ اپریل سے وصول کی جائیں گی جس کی آخری تاریخ 15ا پریل ہوگی۔ باردانے کی تقسیم کا عمل 21 اپریل سے شروع ہوگا۔ پنجاب میں 6.35 ملین ایکڑ رقبے پر گندم کاشت ہوتی ہے اور تقریباً ہر سال چھوٹے کسان یہ شکایت کرتے ہیں کہ باردانہ صرف بااثر لوگوں کو فراہم کیا جاتا ہے۔ محکمہ خوراک پنجاب تین سے چار ملین ٹن گندم خریدتا ہے جبکہ وفاقی ادارہ پاکستان ایگریکلچرل اسٹوریج اینڈ سروسز کارپوریشن (پاسکو) کسانوں سے 1.2 سے 1.5 ملین ٹن گندم خریدتا ہے۔
(ڈان،28 مارچ، صفحہ2)

ایک خبر کے مطابق پانی کی کمی اور کھاد کے استعمال میں کمی کی وجہ سے کسانوں نے کم رقبے پر گندم کاشت کی جس کی وجہ سے اس سال 25.6 ملین ٹن گندم کی پیداوار کا ہدف پورا نہ ہونے کا خدشہ ہے۔ اسٹیٹ بینک کی جاری کردہ دوسری سہماہی رپورٹ کے مطابق ملک میں 24.8 ملین ٹن گندم کی پیداوار متوقع ہے جو گزشتہ پانچ سالوں کی کم ترین پیداوار ہے۔ پیداوار میں کمی کی ایک اہم وجہ سندھ ہے جہاں کم رقبے پر گندم کاشت کی گئی ہے اور کسانوں نے کاشت کے دوران ڈی اے پی اور دوسرے ضروری اجزاء کا استعمال کم کیا ہے۔ گندم کے کل زیر کاشت رقبے میں 2.9 فیصد کمی کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ زیر کاشت رقبے میں سب سے زیادہ کمی سندھ میں دیکھی گئی ہے۔ تاہم گندم کی پیداوار میں کمی سے ملکی غذائی تحفظ کے حوالے سے کوئی خطرہ نہیں کیونکہ ملک میں وافر ذخیرہ پہلے سے ہی موجود ہے۔
؂(دی ایکسپریس ٹریبیون، 28 مارچ، صفحہ13)

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے زرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی کابینہ نے ایک ملین ٹن گندم برآمد کرنے کی منظوری دیدی ہے۔ اس کے علاوہ شماریات ڈویژن (اسٹیٹسٹک ڈویژن) کا نام تبدیل کرکے ’’سوشل پروٹیکشن اینڈ پاورٹی ایلیویشن ڈویژن‘‘ کرنے اور اس کے انتظامی اختیارات وزارت منصوبہ بندی و ترقی کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 3 اپریل، صفحہ1)

کپاس
پاکستان کسان اتحاد نے حکومت سے پر زور مطالبہ کیا ہے کہ کپاس کی 15 ملین گانٹھوں کی پیداوار کا ہدف حاصل کرنے کے لئے پھٹی کی 4,000 روپے فی من امدادی قیمت کا اعلان کرکے کسانوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ پاکستان کسان اتحاد کے صدر خالد کھوکھر کا کہنا تھا کہ دیگر ممالک کے مقابلے پاکستان میں کپاس کی پیداوار کے لئے مداخل پر آنے والی لاگت زیادہ ہے۔ دیگر ممالک سے کپاس کی بلا محصول درآمدی پالیسی اور زمینی راستوں سے بھی کپاس کی درآمد کی وجہ سے مقامی کپاس کی قیمت پر بہت زیادہ دباؤ ہے۔ یہاں تک کہ انٹرنیشنل کاٹن ایڈوائزری کمیٹی نے پاکستان میں کپاس کی پیداواری لاگت کو بھارت، ترکی، تنزانیہ، ارجنٹائن، آسٹریلیا برازیل کے مقابلہ زیادہ قرار دے دی ہے۔ ان ممالک سے کپاس کی درآمد کی وجہ سے اس کی مقامی قیمت متاثر ہورہی ہے اور کسانوں کی آمدنی کم ہورہی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 29 مارچ، صفحہ12)

پانی
وزیر آبپاشی پنجاب محسن لغاری نے کہا ہے کہ پنجاب میں پانی کے استعمال کی نگرانی اور جانچ کے لیے پانی کے ایک جامع قانون ’’واٹر ایکٹ‘‘ کا مسودہ تیار ہے جسے اگلے دوماہ میں کابینہ میں منظوری کے لیے پیش کیا جاسکتا ہے۔ اس وقت یہ قانونی مسودہ نظرثانی کے مرحلے میں ہے اور امید ہے کہ یہ آبی وسائل کے منصفانہ اور موثر استعمال کو یقینی بنائے گا۔ اس مجوزہ قانون کے تحت زیر زمین پانے نکالنے کے عمل کی نگرانی کی جائے گی اور پانی کے اخراج اور اس کے استعمال کے لیے لائسنس جاری کیے جائیں گے۔ وزیر آبپاشی پانی کے بحران پر زرائع ابلاغ میں آگاہی کے لیے ورلڈ وائڈ فنڈ۔پاکستان اور نیسلے کی جانب سے منعقد کردہ ایک روزہ ورکشاپ سے خطاب کررہے تھے۔
(بزنس ریکارڈر، 28 مارچ، صفحہ12)

عالمی بینک نے بلوچستان میں آبی وسائل کے انتظام اور ترقی کے منصوبے ’’انٹی گریٹڈ واٹر ریسورسس مینجمنٹ اینڈ ڈیولپمنٹ پروجیکٹ‘‘ انتظامی اور مالی طور پر کوئی پیشرفت نہ ہونے کی وجہ سے معطل کردیا ہے۔ 28 جون، 2016 کو عالمی بینک نے اس منصوبے کے لیے 200 ملین ڈالر قرض کی منظوری دی تھی۔ عالمی بینک نے اپنے بیان میں اگلے 30 دنوں میں بلوچستان حکومت کے ساتھ مل کر صوبے میں حقیقی پائیدار آبی ترقی کے لیے انتظامی معاملات کو دوبارہ ترتیب دینے کی پیشکش کی ہے۔ یہ منصوبہ نئے آبپاشی ڈھانچے اور اس کے انتظام میں بہتری کے ذریعے کسانوں کی آمدنی میں اضافے کے لیے ترتیب دیا گیا تھا۔
(ڈان، 30 مارچ، صفحہ3)

سندھ مدرستہ اسلام یونیورسٹی میں پائیدار ترقی اور ماحولیات پر ہونے والی قومی کانفرنس میں ماہرین نے کہا ہے کہ پاکستان میں پانی کی دستیابی گزشتہ 70 سالوں کے مقابلے پہلے ہی پانچ گنا کم ہوچکی ہے اور 2025 تک اس میں مزید 14 فیصد کمی ہوگی۔ نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے پروفیسر عمران ہاشمی کے مطابق 2025 تک فی کس پانی کی دستیابی کم ہوکر 860 مربع میٹر ہونے کا خدشہ ہے جو 2016 میں 1,000 مربع میٹر فی کس تھی۔ دریاؤں میں پانی کا بہاؤ 41 فیصد برفانی پہاڑوں کے پگھلنے، 22 فیصد برفباری، 27 فیصد بارشوں پر منحصر ہے۔ 50 ملین ایکڑ فٹ پانی زمین سے نکالا جاتا ہے جو پہلے ہی پانی کے اخراج کی پائیدار حد سے تجاوز کرچکا ہے۔ پاکستان میں اندازاً سالانہ 46 ملین ایکڑ فٹ پانی ضائع ہوجاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی 84 فیصد آبادی کو پینے کے صاف پانی تک رسائی حاصل نہیں ہے۔
(ڈان، 30 مارچ، صفحہ16)

ترائی ٹاؤن، ضلع بدین میں کسانوں کی جانب سے منعقد کردہ عوامی کچہری نے پیپلزپارٹی کے ارکان اسمبلی، سیڈا اور محکمہ آبپاشی سندھ کے حکام کے ان دعوں کو مسترد کردیا ہے کہ بدین کے کسانوں کو اکرم واہ نہر میں نقص کی وجہ سے پانی نہیں مل رہا ہے۔ عوامی کچہری کے مقررین کا کہنا تھا کہ سیڈا اور محکمہ آبپاشی کے حکام کی مدد سے بااثر افراد سیلابی نہروں اور کوٹری بیراج کی نہروں میں رکاوٹیں کھڑی کرکے بدین کے حصہ کا پانی کھلے عام چوری کررہے ہیں۔ کسانوں کی جانب سے دو اپریل کو ضلع بدین کے تمام علاقوں میں ہڑتال کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔
(ڈان، 1 اپریل، صفحہ15)

کئی ماہ سے سندھ میں مسلسل پانی کے بحران کے خلاف بدین بچاؤ ایکشن کمیٹی (سیو بدین ایکشن کمیٹی) کی درخواست پر بدین میں مکمل ہڑتال کی گئی۔ ہڑتال کے دوران تمام دکانیں، تجارتی مراکز سات گھنٹے تک مکمل طور پر بند رہے۔ ضلع بدین سے تعلق رکھنے والے ہر شعبہ زندگی کے افراد نے بدر چوک پر احتجاجی مظاہرے میں شرکت کی۔ کسان رہنما خلیل احمد بھرگڑی نے ڈائریکٹر سیڈا کو پانی کی شدید قلت کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اگلے کچھ دنوں میں پانی فراہم نہیں کیا گیا تو وہ بدین سے وزیر اعلی ہاؤس، کراچی تک لانگ مارچ کرینگے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ شدید ناانصافی ہے کہ ان کے حصے کا پانی بااثر جاگیرداروں کی زمینوں کی طرف موڑ دیا گیا۔
(ڈان، 3 اپریل، صفحہ17)

حکام کو طویل عرصے بعد یکم اپریل کو شروع ہونے والے خریف کے موسم میں پانی کی دستیابی میں بہتری کی توقع ہے۔ تاہم صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم پر تحفظات اب تک حل طلب ہیں۔ چیئرمین انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں 108.67 ملین ایکڑ فٹ پانی کے بہاؤ کا اندازہ لگایا گیا ہے جو گزشتہ سال 88.04 ملین ایکڑ فٹ کے مقابلے 23 فیصد زیادہ ہے۔ پانی کے بہاؤ میں ہونے والے متوقع زیاں کے بعد آبپاشی کے لیے 80 ملین ایکڑ فٹ پانی کی دستیابی کا امکان ہے جو گزشتہ سال کے (61.37 ملین ایکڑ فٹ) مقابلے 30 فیصد زیادہ ہے۔ پیشنگوئی کے مطابق خریف کے آغاز میں 14 فیصد پانی کی کمی کی توقع ہے جبکہ خریف کی درمیانی مدت (جولائی۔ اگست) میں یہ کمی چھ فیصد ہوگی۔
(بزنس ریکارڈر، 3 اپریل، صفحہ21)

ڈیری 
ادارہ شماریات پاکستان کے مطابق ملک میں جولائی تا فروری 2018-19 کے دوران ڈیری مصنوعات کی درآمد چھ فیصد کمی کے بعد 158.143 ملین ڈالر ہوگئی ہے۔ ڈیری مصنوعات کی درآمد میں ہونے والی کمی کی مالیت 9.984 ملین ڈالر ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 30 مارچ، صفحہ3)

ایک خبر کے مطابق پاکستان دودھ پیدا کرنے والا دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے جہاں دودھ کی پیداوار سالانہ 50 بلین لیٹر ہے۔ اندازے کے مطابق ملک میں پنیر کی سالانہ طلب 5,000 ٹن ہے جبکہ پنیر کی مقامی پیداوار تقریباً 3,049 ٹن ہے۔ سرمایہ کاری کے لیے پنیر کی پیداوار ایک ابھرتا ہوا شعبہ ہے۔ اس حوالے سے چھوٹے اور درمیانے درجہ کے کاروبار کو فروغ دینے والے ادارے اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے ملکی اور غیرملکی سرمایہ کاری کے لئے پنیر سے تیارکردہ ڈیری مصنوعات سے متعلق ایک دستاویز (چیز ویلیو ایڈڈ ڈیری پرڈکٹ پروسپیکٹ) کا اجراء کیا ہے۔ یہ دستاویز ملکی اور غیرملکی سرمایہ کاروں کے لیے مستقبل میں اس شعبہ میں سرمایہ کاری کے لیے معاون ہوگی۔
(بزنس ریکارڈر، 1 اپریل، صفحہ5)

غربت
پنجاب پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ بورڈ کی جانب سے جاری کردہ ملٹی پل انڈیگیٹرز کلسٹر سروے رپورٹ 2018 کے مطابق پنجاب میں پانچ سال کی عمر تک کا تقریباً ہر تیسرا بچہ نشونما میں کمی کی وجہ سے قد میں کمی کا شکار (اسٹنٹڈ) ہے جن کی اکثریت کا تعلق جنوبی پنجاب کے 11 اضلاع سے ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دیہی علاقوں میں قد میں کمی کے شکار بچوں کی شرح 34.4 فیصد ہے جبکہ شہری علاقوں میں یہ شرح 26 فیصد ہے۔ اس ہی عمر کے بچوں میں تقریباً 21.2 فیصد بچے اپنی عمر کے مقابلے وزن میں کمی کا شکار (ویسٹڈ) ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پنجاب میں 26.1 فیصد آبادی غربت (کثیرالجہتی غربت) کا شکار ہے جس میں سے 12.3 فیصد شہری اور 33.9 فیصد دیہی آبادی پر مشتمل ہے۔
(ڈان، 29 مارچ، صفحہ2)

غذائی کمی
وزیر اعظم عمران خان نے غریب اور پسماندہ طبقے خصوصا عورتوں کو بااختیار بنانے کے لیے غربت کے خاتمے اور سماجی تحفظ کے ایک منصوبے ’’احساس‘‘ کا آغاز کردیا ہے۔ منصوبے کا آغاز کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حکومت آئین میں تبدیلی چاہتی ہے جس کے تحت تمام شہریوں کو بلاتفریق خوراک، کپڑا، مکان، تعلیم اور طبی سہولیات کی ریاست کی طرف سے فراہمی یقینی ہو اور انہیں عوام کے بنیادی حقوق تصور کیا جاتا ہو۔ آئین کے آرٹیکل 38 (ڈی) کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے مزکورہ پانچ بنیادی ضروریات آئین میں بطور بنیادی حقوق شامل کرنے کا عزم کیا۔ منصوبے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے ملک کے غریب طبقے کی بہتری کے لیے 80 بلین روپے مختص کرنے کا فیصلہ کیا ہے جسے اگلے سال بڑھا کر 120 بلین روپے کر دیا جائے گا۔ غربت کے خاتمے کے حوالے سے ایک نئی وزارت کے قیام کا علان بھی کیا گیا جس کا مقصد تمام متعلقہ محکموں اور اداروں کے درمیان روابط کو بڑھانا ہے۔ اس وقت بیت المال، پاورٹی ایلیویشن کونسل، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام اور زکوۃ کونسل ملک میں کام کررہے ہیں لیکن ان کے درمیان آپس میں کوئی تعان نہیں ہے۔ بیت المال اگلے چار سالوں میں 10,000 یتیم بچوں کے لیے گھر جبکہ چار ضعیف افراد کے رہائشی مراکز تعمیر کرے گا۔ اس وقت غربت کے حوالے سے کوئی حتمی اعداد وشمار موجود نہیں ہیں جس کے لئے حکومت ایک نئے سروے کا آغاز کرے گی جو دسمبر میں مکمل ہوگا۔
(ڈان، 28 مارچ، صفحہ1)

محکمہ صحت سندھ کے مطابق غذائی کمی اور بیماریوں کی وجہ سے تھرپارکر میں مزید سات بچے جاں بحق ہوگئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق سول ہسپتال مٹھی میں سات بچوں کی موت کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ درجنوں غذائی کمی اور بیماریوں کے شکار بچے زیر علاج ہیں۔ ان ہلاکتوں کے بعد مارچ کے مہینے میں جانبحق ہونے والے بچوں کی تعداد 38 جبکہ اس سال کے آغاز سے اب تک جانبحق ہونے والے بچوں کی تعداد 184 ہوگئی ہے۔ محکمہ صحت کے مطابق ہر سال تھرپارکر میں غذائی کمی اور بیماریوں کی وجہ سے 1,500 بچے ہلاک ہوجاتے ہیں۔
(بزنس ریکارڈر، 28 مارچ، صفحہ3)

ؒ زرعی قرضہ جات
پسماندہ علاقوں کے مسائل کے حوالے سے سینٹ کمیٹی نے زرعی ترقیاتی بینک کو کسانوں سے قرض پر وصول کیے جانے والے سود میں کمی کرنے کی تجویز دی ہے۔ سینٹر محمد عثمان خان کاکڑ کی سربراہی میں کمیٹی نے بینک کی بارانی اور نہری زمین کے کاشتکاروں سے ایک ہی شرح سے سود وصول کرنے کی موجودہ پالیسی پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ کمیٹی چیئرمین محمد عثمان کاکڑ کا کہنا تھا کہ پسماندہ علاقوں کی تلافی ہونی چاہیے، سینٹ نے بلوچستان کے چھوٹے کسانوں کے تقریباً دو بلین روپے کے قرضہ جات معاف کرنے کی قرارداد منظور کی تھی کیونکہ وہاں خشک سالی نے زرعی شعبہ کو متاثر کیا ہے۔ تاہم بینک نے اس حوالے سے اب تک کچھ نہیں کیا۔ خشک سالی کی وجہ سے کسان نادہندہ ہوگئے۔ تقریباً ایک ملین پھلوں کے درخت تباہ ہوگئے اور کسان اپنے 9.3 ملین مال مویشیوں سے محروم ہوگئے ہیں۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 29 مارچ، صفحہ7)

ماحول
ایڈشنل سیکریٹری وزارت موسمی تبدیلی بابرحیات نے صحافیوں سے غیررسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزارت موسمی تبدیلی شجرکاری کے سرکاری منصوبے ’’بلین ٹری سونامی‘‘ کو حتمی شکل دینے کے قریب ہے۔ اس منصوبے پر صوبائی حکومتوں کی مدد سے ایک بلین ڈالر خرچ ہونگے۔ منصوبے کی لاگت کا آدھا حصہ صوبے فراہم کریں گے کیونکہ یہ منصوبہ پورے ملک کے لیے ہوگا۔ منصوبے کے تحت ملک بھر میں پودوں کی پنیری فراہم کرنے کے مراکز قائم کیے جائیں گے اور درختوں کی مقامی اقسام کی کاشت کو ترجیح دی جائے گی تاکہ حیاتیاتی تنوع کو یقینی بنایا جاسکے۔
(بزنس ریکارڈر، 30 مارچ، صفحہ2)

ٰٰٓموسمی تبدیلی
اقوام متحدہ کے اعلی سطح اجلاس میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی کا کہنا ہے کہ موسمی تبدیلی کے مسائل سے نمٹنے کے لئے جامع حکمت عملی اپنانے کے لئے پاکستان کو سالانہ 14 بلین ڈالر کی ضرورت ہے۔ پاکستان موسمی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں سے ایک ہے۔ ’’کلائمیٹ اینڈ سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ فار آل‘‘ کے عنوان سے منعقدہ اجلاس میں حکومت کے اعلی سطح نمائندگان نے شرکت کی۔ ملیحہ لودھی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں آنے والی 90 فیصد قدرتی آفات کا تعلق موسمی تبدیلی سے ہے جس سے پاکستان کی ترقی کی استعداد اور پائیدار ترقی کے حصول کی صلاحیت پر زبردست بوجھ پڑ رہا ہے۔ اس تناظر میں پاکستان نے موسمی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی مرتب کی ہے۔ پاکستان کو موسمی تبدیلی سے موافقت پیدا کرنے کے لئے سالانہ 14 بلین ڈالر کی ضرورت ہے۔ پاکستان نے اپنے شراکت داروں پر زور دیا ہے کہ وہ 2020 تک ہر سال 100 بلین ڈالر فراہم کرنے کے اپنے وعدے کی تکمیل کریں۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 31 مرچ، صفحہ2)

نکتہ نظر
اس ہفتے کی خبروں میں گزشتہ کئی ہفتوں کی طرح زرعی شعبہ میں پالیسی سازی اور منصوبوں کا اجراء واضح نظر آتا ہے۔ تمام تر خبروں سے ایک بات واضح ہے کہ ملکی معیشت میں زور اس بات پر ہے کہ کسی طرح سرمایہ دار ممالک کی جدید ٹیکنالوجی چاہے وہ آبپاشی نظام سے متعلق ہو یا جینیاتی بیج سے متعلق، زرعی منڈیوں سے مڈل مین کا خاتمہ کرکے جدید اطلاعاتی نظام پر مبنی منڈیوں کا قیام ہو یا زرعی قرض کی زیادہ سے زیادہ فراہمی، بھرپور طریقے سے فروغ دے کر زیادہ پیداوار حاصل کی جائے اور اسے برآمد کیا جائے۔ خود حکومتی جاری کردہ پالیسیاں ہی اس تضاد کو واضح کررہی ہیں۔ اگر زیادہ پیداوار ہی غربت اور غذائی کمی کے خاتمے کا حل ہے اور عوامی عوامی خوشحالی ضمانت ہے تو پھر خود حکومت کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پنجاب میں، جہاں ضرورت سے زائد گندم اور چاول پیدا ہوتا ہے وہاں پانچ سال کی عمر تک کا ہرتیسرا بچہ غذائی کمی کا شکار کیوں ہے؟ دودھ پیدا کرنے والے دنیا کے پانچویں بڑے ملک کے صرف ایک ضلع میں ہی سر سال 1,500 بچے غذائی کمی سے کیوں مرجاتے ہیں؟ حکومت کیوں 80 بلین روپے غربت کے خاتمے کے لیے مختص کررہی ہے؟ ۔مسئلہ پیداوار اور وسائل کی کمی کا نہیں دراصل اس کی غیر منصفانہ تقسیم کا ہے۔ ملک میں جہاں پہلے ہی جاگیرداری نظام کے تحت زیادہ تر زمین پر طبقہ اشرافیہ قابض ہے اب وہاں عالمی سرمایہ دار ممالک اور ان کی کمپنیاں بھی مقامی وسائل کی لوٹ مار میں حکومتی سرپرستی میں سرگرم ہیں۔ ایک طرف بدین کے چھوٹے کسان مسلسل پانی سے محرومی کے خلاف احتجاج کررہے ہیں کیونکہ زمین کے ساتھ ساتھ اب زیاد تر آبی وسائل پر بھی جاگیردار اور اشرافیہ سرکاری افسر شاہی کی مدد سے قابض ہوتی جارہی ہے۔ دوسری طرف خود نیسلے کمپنی جسے حال ہی میں سپریم کورٹ میں مقامی آبی وسائل کو بڑے پیمانے پر تجارتی طور پر فروخت کرکے اربوں روپے منافع کمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا، ملک میں پانی کے پائیدار استعمال پر ورکشاپ منعقد کرتی ہے اور افسوس کا مقام یہ کہ ہمارا حکومتی وزیر اسی ورکشاپ میں عوام کے لیے پانی کے استعمال کی نگرانی اور اس پر لائسنس کی پابندی کا اعلان کررہا ہے۔ ملک میں استحصال کے شکار چھوٹے اور بے زمین کسان مزدورصرف اور صرف اس وقت خوشحال ہونگے جب زمین، بیج اور آبی وسائل سمیت تمام تر پیداواری وسائل اور ان سے ہونے والی پیداوار پر اختیار اس طبقے کا ہو جو اسے ممکن بناتا ہے۔