2019 نومبر

نومبر 28 تا 4 دسمبر، 2019

زراعت

پنجاب اسمبلی نے پنجاب ایگری کلچرل مارکیٹنگ ریگولیٹری اتھارٹی (ترمیمی) آرڈننس 2019 کی معیاد میں اضافہ کردیا ہے ۔ اسمبلی نے 26 ستمبر 2019 کو نافذ ہونے والے اس آرڈننس کی مدت میں مزید 90 دن کی توسیع کی ہے جس کا آغاز 25 دسمبر 2019 سے ہوگا ۔

(بزنس ریکارڈر، 29 نومبر، صفحہ16)

لاڑکانہ سے 12 کلومیٹر دور آغانی گاؤں اور اس سے ملحقہ علاقوں میں امرود کے باغ 10 دنوں بعد ایک بار پھر ٹڈی دل کے حملہ کی لپیٹ میں آگئے ہیں ۔ مقامی زمیندار فرید آغانی اور دیگر کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ ٹڈی دل علاقے میں تیزی سے پھیل رہے ہیں ۔ علاقے میں گندم کی فصل اپنے ابتدائی مراحل میں تھی جسے ٹڈی دل نے شدید متاثر کیا ہے ۔ کاشتکاروں کا کہناتھا کہ اس دفعہ موسمی تبدیلی نے امرود کی تیاری میں تاخیر میں اہم کردار ادا کیا، پھر اس پر ٹڈی دل کا حملے سے امرود کے کاشتکاروں اور ٹھیکیداروں کو بھاری نقصان ہوگا ۔ ٹڈی دل کے حملے نے علاقے میں کھجور کے درختوں کو بھی نقصان پہنچایا ہے ۔

(ڈان، 29 نومبر، صفحہ17)

ضلع میرپورخاص میں سندھڑی کے مقام پر جبکہ نوشہروفیروز میں تھارو شاہ کے نزدیک نہر میں شگاف پڑنے سے کئی دیہات اور سینکڑوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں زیر آب آگئی ہیں ۔ میرپورخاص میں سندھڑی کے نزدیک پلی نہر میں 15 فٹ چوڑا شگاف پڑا جسے محکمہ آبپاشی کے حکام نے مقامی افراد کی مدد سے پر کردیا ہے ۔ نوشہروفیروز میں سہرا مائنر میں 30 فٹ چوڑا شگاف پڑنے سے لیموں کی فصل، حنا کے باغات اور حال ہی میں بوئی گئی گندم کی فصل زیر آب آگئی ۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ ایک ماہ پہلے بھی اس ہی مقام پر ایک شگاف پیدا ہوا تھا ۔ اس وقت سے وہ محکمہ آبپاشی کے حکام سے پشتوں کو مضبوط کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں ۔ محکمہ کی غفلت سے نہر میں دوبارہ شگاف پڑا ۔

(ڈان، 29 نومبر، صفحہ17)

ایک خبر کے مطابق پنجاب حکومت کسانوں کے عظیم تر مفاد میں گندم اور گنے کی امدادی قیمت میں اضافہ کررہی ہے ۔ گندم کی قیمت 1,365 روپے فی من مقرر کی گئی ہے جبکہ گنے کی نئی قیمت 190 روپے فی من ہوگی ۔ وزیر تجارت و صنعت پنجاب میاں اسلم اقبال، وزیر زراعت ملک نعمان احمد لنگریال اور وزیر خوراک پنجاب سمیع اللہ چوہدری نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں دعوی کیا ہے کہ کسانوں کو امدادی قیمت میں اضافے سے 40 بلین روپے سے زیادہ کا فائدہ ہوگا ۔ وزیر زراعت کا کہنا تھا کہ گزشتہ پانچ سالوں سے گندم اور گنے کی قیمت میں اضافہ نہیں کیا گیا تھا ۔ گنا اور گندم کی پیداواری لاگت میں اضافے اور کسانوں کی مشکلات کو دیکھتے ہوئے موجودہ حکومت نے امدادی قیمت میں اضافے کا فیصلہ کیا ۔

(بزنس ریکارڈر، 30 نومبر، صفحہ5)

کسانوں کی مدد کے لئے پنجاب حکومت کی جانب سے متعارف کئے جانے والا ’’کارپوریٹ فارمنگ پراجیکٹ‘‘ صوبائی حکومت کے خزانہ اور کوآپریٹو محکموں کے درمیان عدم اتفاق کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہوگیا ہے ۔ منصوبہ بندی و ترقی بورڈ پنجاب کے سربراہ نے منصوبہ کی مشروط منظوری دیتے ہوئے دونوں محکموں کو اختلافات ایک طرف رکھ کر منصوبہ کا آغاز کرنے کے لئے محکمہ زراعت کی مدد کرنے کی ہدایت کی ہے ۔ 400 ملین روپے لاگت کے اس منصوبہ کا مقصد رحیم یارخان، سرگودھا اور سیالکوٹ کے 137 دیہات میں زرعی مصنوعات و زرعی مشینری کی فروخت کے لئے دیہات کی سطح پر تنظی میں قائم کرکے فروخت کے مراکز (مارکیٹ) قائم کرنا ہے ۔ اس منصوبہ کے تحت بارانی علاقوں کی فصلیں خریدنے کے لئے مراکز بھی قائم کئے جائینگے اور کسانوں کو معمولی شرح سود پر دو ملین روپے کا گردشی سرمایہ (ریوالونگ فنڈ) فراہم کیا جائے گا تاکہ وہ زرعی آلات خریدسکیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ پانچ ایکڑ تک زمین کاشت کرنے کے لیے آسان قرضوں تک رسائی دی جائیگی ۔ تفصیلات کے مطابق منتخب شدہ 137 دیہات کو چار حصوں میں تقسیم کیا جائے گا ۔ ہر گاؤں میں کوآپریٹو ڈپارٹمنٹ کے اشتراک سے دیہی تنظیم قائم کی جائیگی اور گاؤں کا 12 ایکڑ تک زمین رکھنے والا کوئی بھی کسان جو رکن بننے کا خواہش مند ہو ایک بار فی ایکڑ 500 روپے ادا کرکے کمیٹی کا رکن بن سکتا ہے ۔ دیہی تنظیم اپنے ارکان کی درخواست پر مطلوبہ زرعی مشینری خریدنے کے لیے اپنے بجٹ کے مطابق پانچ فیصد شرح سود پر کسانوں کو آسان قرضوں کی پیشکش کرے گی ۔ مزید یہ کہ محکمہ زراعت مختلف کمپنیوں کی شراکت سے ہر گاؤں میں رعایتی قیمت پر کھاد، بیج اور زرعی زہر فروخت کرنے کے لیے دکانیں قائم کرے گا ۔ یہ دکانیں بھی دیہی تنظیم کے زیر انتظام ہونگی اور ان سے حاصل ہونے والا منافع دیہی کونسل کے بینک کھاتے میں جمع ہوگا ۔ اس کے علاوہ ہر گاؤں میں خریداری مراکز قائم کئے جائینگے جہاں کسان اپنی فصل فروخت کرسکیں گے اور حکومت یہ یقینی بنائے گی کہ کسانوں کو فصل کی مناسب قیمت ملے ۔ دوسری طرف دیہی تنظیم پیداوار کو فروخت کے لئے لانے والے کسانوں سے (اپنی خدمات کے بدلے) معمولی رقم وصول کرے گی ۔ آزمائشی منصوبہ کے تحت 137 دیہات کے کسانوں کو قرضہ فراہم کرنے کے لئے دیہی تنظیم کو دو سال کے لئے 297 ملین روپے فراہم کئے جائینگے ۔ دو سال بعد دیہی تنظیم کو دی گئی نصف رقم معاف کردی جائیگی جبکہ بقیہ نصف رقم سالانہ اقساط میں اگلے پانچ سالوں میں واپس لی جائے گی تاکہ دیہی تنظی میں مرحلہ وار اپنے مالی وسائل میں اضافہ کرسکیں ۔

(دی ایکسپریس ٹریبیون، 3 دسمبر، صفحہ11)

ٹڈی دل کے حملہ سے پیدا ہونیوالی صورتحال پر ہونے والے اجلاس میں وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے سندھ کے متاثرہ علاقوں میں کیڑے مار زہر کے جھڑکاوَ کے لیے وفاق کے زیر انتظام محکمہ تحفظ نباتات (ڈپارٹمنٹ آف پلانٹ پروٹیکشن) کو 10 ملین روپے جاری کرنے کا حکم دیا ہے ۔ محکمہ اس رقم سے تین ہوائی جہاز، ایندھن اور کیڑے مار زہر کا بندوبست کرے گا ۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ ٹڈی دل کے حملے سے11 اضلاع میں کھڑی فصلوں کو شدید نقصان پہنچا ہے ۔ وزیر اعلی نے چیف سیکریٹری سندھ کو ہدایت کی ہے کہ وہ ٹڈی دل کے خلاف اقدامات کی نگرانی کرتے رہیں اور ضلعی انتظامیہ، محکمہ تحفظ نباتات اور محکمہ زراعت سندھ سے رابطہ رکھیں ۔

(ڈان، 3 دسمبر، صفحہ17)

پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل (پارک) نے تھرپارکر میں تھر فاوَنڈیشن کے کھارے پانی سے زراعت کے آزمائشی منصوبہ کو بڑی کامیابی قرار دیا ہے ۔ تھر فاوَنڈیشن اور پارک نے تھر پارکر میں مقامی کسانوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور پائیدار آمدنی کے لئے اس منصوبہ کو وسعت دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ تھر فاوَنڈیشن اور پارک نے کھارے پانی سے قطرہ قطرہ آبپاشی نظام کے زریعے 20 ایکڑ رقبے پر بیر، لیموں اور چیکو کی کاشت کا کامیاب تجربہ کیا ہے ۔ منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے تھر فاوَنڈیشن اور پارک نے باہمی تعاون کے لئے مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط کئے ہیں جس کے تحت نمکیات کے خلاف مدافعت رکھنے والے چارے و نقدآور فصلوں کی آزمائش، کسانوں کی تربیت، معلومات کا تبادلہ، آگاہی مہم اور آزمائشی بنیادوں پر کاشت کی جاچکی فصلوں کی قدر میں اضافے (اکنامک ویلیو چین) کا بندوبست کیا جائے گا ۔(بزنس ریکارڈر، 4 دسمبر، صفحہ3)

گندم

کابینہ کی اقصادی رابطہ کمیٹی نے اپنے تین ارکان کی جانب سے گندم کی قیمت میں مزید اضافے کی تجویز مسترد کردی ہے ۔ زراءع کے مطابق نئے مقرر کیے گئے وفاقی وزیر برائے قومی غذائی تحفظ و تحقیق خسرو بختیار نے گندم کی قیمت بڑھاکر 1,400 روپے فی من کرنے کی تجویز دی تھی ۔ خسرو بختیار گندم کی قیمت میں 50 روپے فی من اضافے پر مطمئن نہیں ہیں کیونکہ متعلقہ حکام کے مطابق پنجاب میں گندم کی پیداواری لاگت 1,350 روپے فی من ہے ۔

(ڈان، 28 نومبر، صفحہ10)

کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے پیداواری لاگت میں اضافے کی وجہ سے گزشتہ دو ہفتوں میں گندم کی امدادی قیمت میں دوسری بار اضافہ کرکے 1,365 روپے فی من کردی ہے ۔ 13 نومبر کو گندم کی اگلی فصل کے لیے امدادی قیمت 1,300 روپے فی من سے بڑھاکر 1,350 روپے فی من کردی گئی تھی اور اب دوبارہ کمیٹی نے قیمت میں اضافے کا فیصلہ کیا ہے ۔ مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے ان اطلاعات کے بعد کہ گندم کی پیداواری لاگت 1,349 روپے فی من تک پہنچ گئی ہے اور کسانوں بشمول سرکاری حلقوں ، کابینہ اور قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی برائے زراعت کے مطالبے کے بعد گندم کی امدادی قیمت میں اضافے کا فیصلہ کیا ہے ۔

(بزنس ریکارڈر، 29 نومبر، صفحہ1)

وزیر زراعت پنجاب نعمان احمد لنگریال نے کسانوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب حکومت نے گندم کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافے کے لیے نو بلین روپے کے منصوبے کا آغاز کردیا ہے ۔ یہ منصوبہ وزیر اعظم کی ہدایت پر شروع کیا گیا ہے ۔ صوبائی وزیر نے کسانوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ گندم کی شاندار فصل کے لیے پنجاب سیڈ کارپوریشن کے تصدیق شدہ بیج استعمال کریں ۔

(بزنس ریکارڈر، 29 نومبر، صفحہ16)

ایک مضمون کے مطابق اس سال سندھ میں گنے کی کٹائی میں تاخیر کی وجہ سے گندم کی بوائی میں تاخیر کا امکان ہے ۔ گنے کی کٹائی اکتوبر تا نومبر ہوتی ہے لیکن کئی وجوہات کی وجہ سے اس سال بھی یہ تاخیر کا شکار ہے ۔ تقریباً 800,000 ایکڑ رقبے پر گنا کاشت کیا گیا ہے جس پر کٹائی کے بعد گندم کی بوائی ہوتی ہے ۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ صوبہ سندھ سال 2014-15 سے چار ملین ٹن گندم کا پیداواری ہدف حاصل کرنے سے قاصر ہے ۔ ماہ نومبر گزر چکا ہے اور سندھ حکومت نے اب تک گنے کی قیمت اور کرشنگ کی تاریخ کا اعلامیہ جاری نہیں کیا ہے ۔ گنے کی کٹائی میں تاخیر کے نتیجے میں گندم کی فصل کے لیے دستیاب پانی بھی گنے کی فصل میں استعمال ہوتا ہے جسے بہت زیادہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ صوبہ سندھ گزشتہ پانچ سالوں سے گندم کی پیداوار کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام ہے اور گزشتہ موسم میں ژالہ باری کی وجہ سے پیداواری ہدف حاصل نہیں ہوسکا جس نے گندم کی شاندار فصل کو بری طرح متاثر کیا ۔ حکومت نے اس سال 1,350 روپے فی من گندم کی امدادی قیمت کا اعلان کیا ہے ۔ تاہم کسان اس سرکاری قیمت سے خوش نہیں ہیں اور بلند پیداواری لاگت کی وجہ سے اس قیمت کو غیرمنصفانہ قرار دیتے ہیں ۔ گندم کے ایک کاشتکار سید ندیم شاہ کا کہنا ہے کہ مداخل بشمول کیمیائی کھاد، بجلی، بیج اور زرعی زہر کی موجودہ لاگت کے ساتھ گندم کی امدادی قیمت 1,500 روپے فی من مقرر ہونی چاہیے تھی ۔ حکومت کو مستقل مسائل جیسے کہ چاول کی فصل سے (اس میں موجود نمی کی بنیاد پر کی جانے والی) ناجائز کٹوتی، کپاس کی فی ایکڑ کم پیداوار، بروقت کرشنگ اور گندم کی مناسب قیمت کے معاملات کو حل کرنے کے لیے ہرسطح پر زرعی شعبہ کو ایک طریقہ کار کے ماتحت لانا ہوگا کیونکہ یہ تمام عوامل آپس میں جڑے ہوئے ہیں ۔

(محمد حسین خان، ڈان، 2 دسمبر، صفحہ2، بزنس اینڈ فنانس)

چینی

ایک خبر کے مطابق وزارت صنعت و پیداوار حکومت سندھ اور کے پی کو چینی کی قیمت 70 روپے فی کلو مقرر کرنے کے لیے خط لکھے گی کیونکہ پنجاب حکومت چینی کی قیمت مقرر کرچکی ہے ۔ یہ فیصلہ وزیر اعظم کے مشیر برائے صنعت و تجارت عبدالزاق داوَد کی سربراہی میں ہونے والے شوگر ایڈوائزری بورڈ کے اجلاس میں کیا گیا ۔ اجلاس میں مل سے خوردہ فروش تک کے مراحل میں چینی کی قیمت پر تفصیلی بات چیت کی گئی ۔ اجلاس میں آگاہ کیا گیا کہ گزشتہ ایک سال میں چینی کی تھوک قیمت 32 فیصد اضافے کے بعد 55;46;20 روپے فی کلوگرام سے 72;46;70 روپے فی کلوگرام ہوگئی ہے ۔ پنجاب حکومت نے چینی کی قیمت 70 روپے فی کلوگرام مقرر کردی ہے جبکہ دیگر صوبوں میں قیمت ابھی بھی زیادہ ہے ۔

(بزنس ریکارڈر، 28 نومبر، صفحہ12)

غربت

ایک خبر کے مطابق حکومت نے یوٹیلٹی اسٹورز پر فروخت ہونے والی لازمی غذائی اشیاء پر زرتلافی دینے کے لیے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے لیے مختص کیے گئے چار بلین روپے یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن (یو ایس سی) کو منتقل کردیے ہیں ۔ یو ایس سی بورڈ کے چیئرمین، مینجنگ ڈائریکٹر اور ایڈشنل سیکریٹری وزارت صنعت و پیداوار نے ایک اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان کو لازمی غذائی اشیاء پر زرتلافی دینے میں مالی مشکلات سے آگاہ کیا تھا ۔ وزیر اعظم نے یو ایس سی کو زرتلافی دینے کے لیے چھ بلین روپے مختص کرنے کی منظوری دی تھی ۔ یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ بی آئی ایس پی اپنے زراءع سے چار بلین روپے فراہم کرے گا جبکہ فنانس ڈویژن بقیہ دو بلین روپے کے اجراء کا بندوبست کرے گا ۔ وزارت صنعت و پیداوار نے کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے حالیہ اجلاس میں اس بات پر طرف توجہ دلائی کہ وزیر اعظم کی جانب سے اعلان کردہ رقم ملک کے غریب طبقہ کے لیے ہے تاہم یو ایس سی کے پاس ایسے مستحق صارفین کی شناخت کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے ۔ اس حوالے سے اقتصادی رابطہ کمیٹی کی جانب سے تجویز دی گئی ہے کہ ایک کمیٹی بنائی جاسکتی ہے جو اس مقصد کے لیے شفاف اور قابل عمل طریقہ کار وضع کرے ۔

(دی ایکسپریس ٹریبیون، 28 نومبر، صفحہ13)

پانی

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آبی وسائل نے وزارت آبی وسائل کو ہدایت کی ہے کہ وہ صوبوں کے درمیان چشمہ جہلم لنک کنال پر متنازع بجلی گھر کی تعمیر کا معاملہ مشترکہ مفادات کونسل میں اٹھائے ۔ محمد یوسف تالپور کی سربراہی میں کمیٹی نے اس معاملے پر پچھلے اجلاس کی کارروائی پر مبنی دستاویز کی تصدیق نہیں کی اور ہدایت کی پہلے یہ مسئلہ 11 دسمبر کو ہونے والے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں پیش ہونا چاہیے ۔ محمد یوسف تالپور کا کہنا تھا کہ سندھ کو پنجاب حکومت کے اس 25 میگاواٹ کے منصوبے پر شدید اعتراضات ہیں جسے حال ہی میں انڈس ریور سسٹم اتھارٹی کی جانب سے اکثریتی ووٹ کی بنیاد پر منظور کیا گیا تھا ۔ اس سے پہلے وزیر اعلی سندھ نے بھی اس منصوبے پر اعتراض اٹھایا تھا ۔

(ڈان، 30 نومبر، صفحہ10)

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس (پی آئی ڈی ای) کی جانب سے پانی کے تحفظ کے حوالے سے منعقد کردہ سمینار ’’واٹر کنزرویشن میتھڈ‘‘ میں مقررین نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں تقریباً 50 ملین افراد کو پینے کے صاف پانی تک رسائی حاصل نہیں ہے ۔ مقررین نے سالانہ 40 فیصد اموات کا سبب آلودہ پانی کو قرار دیا ہے ۔ پاکستان میں کل پانی کا 90 فیصد زراعت میں ، سات فیصد صنعتوں میں جبکہ تین فیصد گھریلوں مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ انجینئر شمس الملک کا کہنا تھا کہ مون سون کے موسم میں پانی کے زیاں پر قابو پانے، بڑھتی ہوئی توانائی کی ضرورت پوری کرنے اور بڑھتی ہوئی آبادی کی توانائی اور زرعی ضروریات پوری کرنے کے لیے کالا باغ ڈیم سمیت نئے ڈیموں کی تعمیر لازمی ہے ۔

(بزنس ریکارڈر، 4 دسمبر، صفحہ7)

نکتہ نظر

زرعی خبروں میں شامل پنجاب میں ’’کارپوریٹ فارمنگ منصوبہ‘‘ خصوصاً قابل ذکر ہے ۔ زرعی شعبہ میں حکومتی سرپرستی اور قومی سرمائے سے کمپنیوں کے کاروبار اور منافع میں اضافے کی نیولبرل پالیسیاں چھوٹے اور بے زمین کسان مزدوروں کے گرد شکنجہ مزید کس رہی ہیں ۔ بیج، زرعی مشینری، زہریلے مداخل اور قرضوں کی فراہمی کا یہ گورکھ دھندا عمدہ زرعی پیداوار کی صورت ملکی وسائل کو بین الاقوامی منڈیوں میں برآمد کرنے اور زرعی مداخل اور پیداوار کا کاروبار کرنے والی سرمایہ دار کمپنیوں کے لیے تیز ہوتا جارہا ہے ۔ دیہات کی سطح پر کمپنیوں کے تعاون سے کسانوں کو مخصوص بیج، زرعی زہر و مشینری کی فراہمی کے ساتھ ساتھ زرعی پیداوار کی خریداری مراکز کا قیام اورپنجاب ایگری کلچرل مارکیٹنگ ریگولیٹری اتھارٹی جیسے قوانین کی توسیع ظاہر کرتی ہے کہ زرعی پیداوار میں چھوٹے کسانوں کو مسابقت سے باہر کرنے کا یہ عمل اب مقامی چھوٹے تاجروں اور صنعتوں تک آچکا ہے، جو مزید بیروزگاری اور بھوک و غربت کی وجہ بن سکتا ہے ۔ زرعی شعبہ میں منڈی سے لے کر پیداواری مراحل تک میں جدت یا ڈیجیٹلائزیشن کا عمل اسی سلسلے کی کڑی معلوم ہوتی ہے ۔ بات چاہے جدید آبپاشی نظام کی تنصیب کی ہو یا زرعی مداخل کے استعمال کی، کسانوں کو ہر سطح پر منافع کے حصول کے لیے کمپنیوں کا محتاج بنانے کا عمل ہی ان میں بھوک غربت کی اہم وجہ ہے ۔ یقینا اس گورکھ دھندے سے نجات ممکن ہے، لیکن اس کے لیے لازم ہے کہ کسان شعوری طور بیدار ہوکر صاف اور پائیدار زراعت پر واپس آئیں جس میں کسی کمپنی کے بیج اور مداخل پر انحصار کی ضرورت نہیں ، کسان کا بیج اور دیگر پیداواری وسائل پر اختیار اسے ناصرف بلند پیداواری لاگت سے تحفظ فراہم کرے گا بلکہ صاف ماحول، صحت بخش غذائیت کا بھی ضامن ہوگا ۔

نومبر 21 تا 27 نومبر، 2019

زمین

سندھ کابینہ نے ٹھٹھہ، دادو اور جامشورو میں 10 نجی کمپنیوں اور نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) کو قابل تجدید توانائی (رینیوبل انرجی) منصوبوں اور قومی گرڈ کے لیے 5,801 ایکڑ زمین 30 سالوں کے لیے پٹے پر دے دی ہے ۔ متعلقہ ڈپٹی کمشنروں نے پٹے کی سالانہ رقم مختلف اقسام کی زمینیوں کے لیے 3,000، 5,000 اور 8,000 روپے فی ایکڑ تجویز کی تھی ۔ کابینہ نے حکام کو اس حوالے سے ضروری اقدامات کرنے کی ہدایت کی ہے ۔

(ڈان، 27 نومبر، صفحہ15)

زراعت

سندھ آباد گار بورڈ نے حکومت پر ٹماٹر اور پیاز کی درآمد پر پابندی عائد کرنے پر زور دیا ہے ۔ دونوں اشیاء کی درآمد سے مقامی پیداوار کو ایسے وقت میں ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا کہ جب دونوں فصلیں اگلے کچھ دنوں میں کٹائی کے لیے تیار ہیں ۔ بورڈ کے صدر عبدالمجید نظامانی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ٹھٹھہ، سجاول، بدین، ٹنڈو محمد خان، حیدرآباد، میرپورخاص اور سانگھڑ میں ٹماٹر اور پیاز کی فصل کٹائی کے لئے تیار ہے ۔ نصرپور میں پیاز کی فصل تیار ہونے والی ہے اور ٹماٹر بھی جلد منڈی میں دستیاب ہوگا ۔ لہذا اس وقت ٹماٹر اور پیاز کی درآمد سے زریں سندھ میں کسانوں کو بھاری نقصان برداشت کرنا پڑے گا ۔ ان کا مزید کہنا تھاکہ اس سال ٹماٹر کی شاندار فصل متوقع ہے ۔ گزشتہ سال 21,000 ہیکٹر پر ٹماٹر کی کاشت سے 153,000 ٹن پیداوار ہوئی تھی ۔ تاہم اس سال ٹماٹر کا زیر کاشت رقبہ بڑھ کر 27,000 ہیکٹر ہوگیا ہے جس سے 210,000 ٹن ٹماٹر کی پیداوار متوقع ہے ۔

(ڈان، 21 نومبر، صفحہ17)

سیکریٹری وزارت قومی غذائی تحفظ وتحقیق ہاشم پوپلزئی نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو آگاہ کیا ہے کہا کہ سندھ اور بلوچستان میں ٹڈی دل پر قابو پانے کے لیے 500 ملین روپے مختص کیے گئے ہیں ۔ اس مقصد کے لیے 100,000 ٹن کرم کش زہر (پیسٹی سائیڈ) درآمد کیا جائے گا ۔ اس زہر کے چھڑکاوَ کے لیے ہوائی جہاز استعمال کیے جارہے ہیں ۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ٹڈی دل نے متاثرہ علاقوں میں انڈے دیے ہیں اور توقع ہے کہ ان کا لاروا اگلے دو سے تین سالوں تک وہیں موجود رہے گا ۔

(ڈان، 22 نومبر، صفحہ14)

وفاقی حکومت کے جانب دار رویہ پر تنقید کرتے ہوئے وزیر زراعت سندھ اسماعیل راہو نے سندھ اسمبلی کو بتایا ہے کہ وفاق ٹڈی دل سے نمٹنے کے لئے صوبائی حکومت کی مدد نہیں کررہا ہے ۔ حالانکہ وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کے ماتحت محکمہ تحفظ نباتات (ڈپارٹمنٹ آف پلانٹ پروٹیکشن) اس مسئلہ سے نمٹنے کا ذمہ دار ادارہ ہے، تاہم اس کے باوجود وفاقی حکومت صوبے کی مدد نہیں کررہی ہے ۔ محکمہ کے پاس ٹڈی دل پر قابو پانے کے لئے 20 ہوائی جہاز ہیں جن میں سے صرف تین فعال ہیں ۔ ان تین جہازوں میں سے دو پنجاب میں ٹڈی دل کے حملے سے پیشگی بچاوَ کے لیے تیار رکھے گئے ہیں جہاں اب تک ٹڈی دل پہنچے بھی نہیں ہیں ۔ کئی بار درخواستوں کے بعد ایک جہاز سندھ بھیجا گیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وفاق کا سندھ اورپنجاب کے لیے دہرا معیار ہے ۔ اس ایک جہاز نے نارو، تھرپارکر اور صالح پٹ، سکھر میں صرف 6,000 ایکڑ پر چھڑکاوَ کیا جبکہ کئی ملین ایکڑ رقبہ پر چھڑکاوَ باقی ہے ۔ وفاقی حکومت کو تینوں فعال ہوائی جہاز سندھ بھیجنے چاہیے تاکہ زیادہ تر صحرائی علاقے میں چھڑکاوَ کیا جاسکے ۔

(ڈان، 23 نومبر، صفحہ15)

نصیرآباد، بلوچستان کے کئی علاقوں میں ٹڈی دل نے حملہ کردیا ہے جس سے کئی فصلوں کو خطرہ ہے ۔ ادارہ ترقیات بلوچستان کے پارلیمانی سیکریٹری میر سکندر خان عمرانی نے صوبائی وزیر زراعت زرمک خان پیرالزئی سے ہنگامی بنیادوں پر فصلوں کو بچانے کے لیے اقدامات پر بات چیت کی ہے جس کے بعد وزیر زراعت نے محکمہ زراعت کے ڈائریکٹر جنرل کو متاثرہ علاقوں میں بلاتاخیر عملہ بھیجنے کی ہدایت کردی ہے ۔ سکندر خان عمرانی نے مزید کہا ہے کہ نصیر آباد صوبہ کا زرعی مرکز ہے جہاں زیادہ تر آبادی زاعت سے وابستہ ہے ۔ نصیرآباد کے علاقوں میں ٹڈی دل کے حملے سے ٹماٹر، سبزیاں ، سرسوں اور دیگر فصلیں متاثر ہوئی ہیں ۔ انہوں نے یقین دہانی کروائی ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو ہیلی کاپٹر کے ذریعے کرم کش چھڑکاوَ کیا جائے گا ۔

(ڈان، 24 نومبر، صفحہ5)

ایک خبر کے مطابق وزیر اعظم کے 277 بلین روپے کے زرعی ہنگامی پروگرام کے 13 منصوبوں میں سے صرف چار منصوبوں میں صوبہ سندھ شامل ہے ۔ گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور باقی تینوں صوبے تمام 13 منصوبوں کا حصہ ہیں ۔ وزیر زراعت سندھ اسماعیل راہو نے کہا ہے کہ سندھ حکومت گندم، چاول، گنا اور روغنی بیجوں کی پیداوار میں اضافے کے منصوبوں کا حصہ ہے جبکہ بارانی علاقوں میں چھوٹے اور درمیانے ڈیموں میں پانی محفوظ کرنے کی گنجائش میں اضافہ زیر غور ہے ۔ فصلوں کی پیداوار میں اضافے کے منصوبے کی لاگت کا 25 فیصد وفاقی حکومت جبکہ 75 فیصد سندھ حکومت کے ذمہ ہے ۔ روغنی بیجوں کی پیداوار کا قومی منصوبہ نیشنل آئل سیڈ انہانسمنٹ پروگرام کی کل لاگت میں سندھ حکومت کا حصہ 60 فیصد اور وفاق کا 40 فیصد ہے ۔

(بزنس ریکارڈر، 27 نومبر، صفحہ3)

گندم

قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی برائے زرعی مصنوعات کی ذیلی کمیٹی نے حکومت سے 2019 کے لئے گندم کی امدادی قیمت 1,400 روپے فی من مقرر کرنے کی سفارش کی ہے ۔ کمیٹی ارکان کا کہنا ہے کہ امدادی قیمت زرعی مداخل خصوصاً کیمیائی کھاد، ڈیزل اور زرعی زہر کی قیمتوں میں اضافے کے تناسب سے مقرر ہونی چاہیے ۔ حکومت کی جانب سے مقرر کی جانے والی گندم کی امدادی قیمت 1,350 روپے فی من پر نظرثانی ہونی چاہیے ۔ کمیٹی کے سربراہ سید فخر امام کا کہنا ہے کہ گندم قومی غذائی تحفظ کے لیے انتہائی اہم فصل ہے اور قیمت کے تعین کا نظام قومی ضروریات کے مطابق فصلوں کو فروغ دینے کے لیے اہم ہے ۔

(بزنس ریکارڈر، 21 نومبر، صفحہ19)

ٹماٹر

ایران سے ٹماٹر کی درآمد تیز ہوگئی ہے ۔ گزشتہ ایک ہفتہ کے دوران 1,276 ٹن ٹماٹر درآمد کیا گیا ہے جبکہ حکومت نے ٹماٹر کی قیمت کم کرنے کے لئے مزید درآمد کی اجازت دیدی ہے ۔ حکومت کی جانب سے ایران سے ٹماٹر کی درآمد کی اجازت دینے کے بعد کراچی کی سبزی منڈی میں ٹماٹر سے لدے کل 19 کنٹینر لائے گئے ہیں ۔ ہر کنٹینر میں 22 ٹن ٹماٹر لدا ہوا تھا ۔ سپر ہائی وے پر قائم کراچی کی سبزی منڈی میں ٹماٹر کی قیمت 300 روپے فی کلوگرام سے کم ہوکر 180 سے 210 روپے فی کلو ہوگئی ہے ۔ آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجی ٹیبل ایکسپورٹرز، امپورٹرز اینڈ مرچنٹز ایسوسی ایشن کے سربراہ وحید احمد کا کہنا ہے کہ میرپورخاص اور بدین سے بھی ٹماٹر آنا شروع ہوگیا ہے ۔ انھوں نے دعوی کیا ہے کہ کراچی پہنچ کر ایرانی ٹماٹر کی قیمت 125 روپے فی کلوگرام ہے ۔ تھوک و خوردہ فروشوں کو ناجائز منافع سے روکنے کی ذمہ داری شہری حکومت کی ہے ۔

(ڈان، 21 نومبر، صفحہ15)

وزیر زراعت سندھ اسماعیل راہو نے ایسے وقت میں کہ جب بدین، ٹھٹھہ، سجاول، ٹنڈو محمدخان، میرپورخاص اور دیگر اضلاع میں ٹماٹر کی فصل تیار ہے، اس کی درآمد کی اجازت دینے اور بنگلہ دیش کو پیاز برآمد کرنے پر وفاقی حکومت پر تنقید کی ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایران سے ٹماٹر کی درآمد پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ مقامی پیداوار کو بھاری نقصان پہنچائے گی ۔ ملک میں سبزی اور دیگر زرعی اشیاء کی قیمتوں کو توازن میں رکھنے کے لیے ایک طریقہ کار بنانے کی ضرورت ہے ۔

(ڈان، 25 نومبر، صفحہ15)

گنا

سندھ آباد گار اتحاد کی جانب سے سال 2019-20 کے لیے گنے کی قیمت مقرر کرنے میں تاخیر کے خلاف گنے کے کاشتکاروں کی بڑی تعداد نے حیدر آباد میں شہباز بلڈنگ کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا اور شاہراہ فاطمہ جناح بند کردی ۔ کسان رہنماؤں کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت گنے کی سرکاری قیمت کا اعلامیہ جاری کرنے میں تاخیر کرکے کسانوں کا معاشی قتل کررہی ہے ۔ شوگر مل مالکان گٹھ جوڑ کرکے کسانوں کو مجبور کررہے ہیں کہ وہ 182 روپے فی من گنے کی قیمت قبول کریں ۔ یہ نا انصافی کسانوں کے بھاری نقصان کی وجہ ہے ۔ سندھ میں تقریباً 500,000 ایکڑ پر گنا کاشت کیا گیا ہے جو کٹائی کے لیے تیار ہے ۔ دو گھنٹے کے احتجاج کے بعد کمشنر حیدرآباد نے کسان رہنماؤں کو مزاکرات کے لیے اپنے دفتر طلب کیا اور چیف سیکریٹری سے مسئلہ حل کرنے کی درخواست کی ۔ چیف سیکریٹری نے کسانوں کو آگاہ کیا کہ ان کے مسائل کابینہ میں زیر غور ہیں اور جلد حل ہونگے ۔ اس یقین دہانی کے بعد کسانوں نے اپنا احتجاج ختم کردیا ۔

(ڈان، 22 نومبر، صفحہ17)

سندھ آباد گار اتحاد، میرپورخاص نے سرکاری قیمت کے اعلان تک گنے کی کٹائی نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ چودھری سیف اللہ گل کی سربراہی میں ڈگری میں ہونے والے سندھ آباد گار اتحاد کے مقامی اجلاس میں کاشتکاروں کے واجبات ادا نہ کرنے والی ملوں کا بائیکاٹ کرنے کا عندیہ دیا ہے ۔ اجلاس میں کہا گیا ہے کہ سندھ حکومت گنے کی قیمت کا اعلامیہ جاری کرنے میں جان بوجھ کر تاخیر کررہی ہے، جس کا بالآخر فائدہ شوگر ملوں کو ہوگا اور کسانوں کے پاس کم قیمت پر گنا بیچنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا ۔ ضلع میرپورخاص میں چار میں سے تین ملوں نے گزشتہ سال کی قیمت 182 روپے فی من پر گنا خرید کر کرشنگ شروع کردی ہے ۔

(ڈان، 26 نومبر، صفحہ17)

زیتون

پاکستان رواں موسم میں 40,000 ٹن زیتون پیدا کرے گا جس سے 3,500 ٹن زیتون کا (ایکسٹرا ورجن) تیل تیار ہوگا ۔ اس پیداوار سے خوردنی تیل کی مقامی ضرورت پوری کرنے میں مدد ملے گی ۔ تجارتی پیمانے پر زیتون کی کاشت کے منصوبے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد طارق نے کہا ہے کہ 1;46;2 ملین زیتون کے پودے پنجاب میں پوٹھوہار کے علاقے میں لگائے گئے ہیں ۔ اس کے علاوہ خیبرپختونخوا میں ایک ملین جبکہ بلوچستان میں 500,000 زیتون کے پودے لگائے گئے ہیں ۔ سال 2019-20 کے لیے سرکاری ترقیاتی پروگرام میں حکومت نے زیتون کی تجارتی کاشت کے فروغ کے لیے 2;46;3 بلین روپے مختص کیے ہیں ۔ پاکستان سالانہ چار بلین ڈالر خوردنی تیل کی درآمد پر خرچ کرتا ہے ۔ (بزنس ریکارڈر، 25 نومبر، صفحہ11)

نکتہ نظر

تیسری دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی پیداواری وسائل اور منڈی پر عالمی کمپنیوں کے اختیار اور قبضے کا سلسلہ زور پکڑتا جارہا ہے ۔ صوبہ سندھ جہاں کسانوں کی اکثریت بے زمین ہے وہاں ہوائی اور شمسی توانائی کے لیے ہزاروں ایکڑ زمین دینا اور گنے کی پیداوار میں اضافے کے لیے سرکاری سطح پر منصوبوں کے لیے اربوں روپے مختص کرنا اس کی کچھ مثالیں ہیں ۔ یاد رہے کہ ہوائی اور شمسی توانائی کے زیادہ تر منصوبے بین الاقوامی توانائی کمپنیوں کے ہیں جو اپنے کاروبار اور منافع کے لیے حکومتی مراعات حاصل کررہی ہیں ۔ سندھ و پنجاب میں کپاس کی پیداوار میں مسلسل کمی ناصرف اس فصل سے جڑے لاکھوں کسان مزدورں کے روزگار میں کمی کی وجہ ہے بلکہ ملکی معیشت و صنعت کو بھی شدید متاثر کررہی ہے جس کا نتیجہ صنعتی مزدوروں کی بیروزگاری کی صورت نکلتا ہے ۔ لیکن حکومت کی ترجیحات میں کپاس کے بجائے گنے کی پیداوار میں اضافہ شامل ہے کیونکہ گنا اتھنول یعنی نباتاتی ایندھن کی پیداوار کا ایک بنیادی جز ہے جو مغربی ممالک خصوصاً یورپی ممالک کی اولین ضرورت اور مقامی سرمایہ داروں کے لیے منافع بخش بھی ہے ۔ شوگر مل مالکان سرکاری مراعات سے فائدہ اٹھا کر اتھنول اور چینی برآمد کرکے بے تحاشہ منافع کمارہے ہیں اور گنا کاشت کرنے والے چھوٹے کسان جائز قیمت اور ملوں پر واجب الادا اپنے بقایاجات کے حصول کے لیے سڑکوں پر احتجاج پر مجبور ہیں ۔ ملک میں پانی کی قلت کے تناظر میں گنا اور چاول کی ضرورت سے زیادہ پیداوار کو فروغ دینا کسی طور پائیدار عمل نہیں ہے کیونکہ پاکستان پہلے ہی پانی کی شدید کمی کا شکار ہے اور اکثر چھوٹے کسان پانی کی کمی کی وجہ سے غذائی فصلوں کی کاشت سے بھی محروم رہ جاتے ہیں ۔ ملک میں زیتون کی کاشت کا فروغ بھی اسی سلسلے کی کڑی نظر آتی ہے ۔ یہ حیرت انگریز امر ہے کہ جس ملک کی تقریباً آدھی عوام غربت و بھوک کا شکار ہے، جس کے لیے مہنگا کنولا تیل خریدنا ہی ایک مسئلہ ہے، وہ کس طرح دگنی سے بھی زیادہ قیمت کا زیتون کا تیل استعمال کرسکتے ہیں ، زیتون کی پیداوار میں اضافے سے خوردنی تیل کی درآمد میں کمی کا یہ منصوبہ بظاہر ناقص اور عالمی و ملکی اشرافیہ کے لیے عمدہ غذائیت کے حصول کا ایک زریعہ معلوم ہوتا ہے جس سے خوردنی تیل کی درآمد میں کمی شاید ممکن نہیں ۔

نومبر 14 تا 20 نومبر، 2019
زمین
پشاور کے کئی دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے کسانوں نے پشاور نادرن بائی پاس کی تعمیر کے لئے زمینوں سے کسانوں کو جبراً بے دخل کرنے کے خلاف تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے معاوضے کا مطالبہ کیا ہے۔ پشاور پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے کسان نمائندوں نبی جان، اسماعیل خان، سکندر خان و دیگر کا کہنا تھا کہ وہ گزشتہ 80 سالوں سے اس زمین پر کاشتکاری کررہے ہیں جو ان کا واحد ذریعہ روزگار ہے۔ حکومت پشاور نادرن بائی پاس کی تعمیر کے لیے معاوضہ اور متبادل زمین دیے بغیر ان کی زمینوں پر قبضہ کررہی ہے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ حکومت نا صرف ان کا روزگار چھین رہی ہے بلکہ انہیں گھروں سے بھی محروم کررہی ہے اور معاوضہ دینے سے گریزاں ہے۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ یہ شاملات کی زمین تھی جسے ان کے بزرگوں نے 80 سال پہلے زرعی زمین میں تبدیل کیا اور اب انہیں جبراً ان زمینوں سے بے دخل کرنا سراسر ناانصافی ہے۔ کسان رہنماؤں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں حراساں کرنا بند کیا جائے، ان کے خلاف مقدمات واپس لیے جائیں، زراعت اور رہائش کے لیے متبادل زمین دی جائے اور معاوضہ کی ادائیگی یقینی بنائی جائے۔
(ڈان، 20 نومبر، صفحہ7)

زراعت
خیبرپختونخوا حکومت نے صارفین کے لیے پھل اور سبزیوں کی طلب پوری کرنے کے لیے ہر تحصیل میں دو کسان منڈیاں قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیر اعلی خیبرپختونخوا نے ہدایت کی ہے کہ کسانوں کو مفت جگہ اور خدمات مہیا کی جائیں۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 14 نومبر، صفحہ6)

اقوام متحدہ کا ادارہ برائے خوراک و زراعت (فاؤ) نے خیبر پختونخوا میں حال ہی میں ضم ہونے والے قبائلی علاقوں میں تقریباً 8,000 گھرانوں کو ربیع پیکج کی تقسیم شروع کردی ہے۔ ان گھرانوں میں 410 وہ گھرانے بھی شامل ہیں جن کی سربراہ عورتیں ہیں۔ یہ پیکج برطانوی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (ڈپارٹمنٹ فار انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ) کے تعاون سے چلنے والے منصوبے ”کے پی مرجڈ ڈسٹرکٹ پروگرام“ کا حصہ ہے۔ اس منصوبے کے تحت فاؤ ہر گھرانے کو 50 کلوگرام گندم کے، 25 کلو گرام مٹر کے بیج اور چارے کے لئے استعمال ہونے والی گھاس (روڈس گراس) کے بیج فراہم کررہا ہے۔ اس کے علاوہ مزید 1,000 گھرانوں کو یہ پیکج جاپان انٹرنیشنل کارپوریشن ایجنسی (جائیکا) کے تعاون سے فراہم کیے جارہے ہیں۔ موسمی تبدیلی سے مطابقت رکھنے والے فصلوں کے بیج فصلوں کی پیداوار بحال کرنے، غذائی تحفظ، اور کسانوں کی معیاری بیج کے حوالے سے خو دانحصاری میں اضافے کے لیے فراہم کیے گئے ہیں۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 15 نومبر، صفحہ6)

پاکستان کسان اتحاد کے صدر خالد محمود کا کہنا ہے کہ زرعی شعبے کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف ک