جنوری 2018

جنوری: 4 تا 10 جنوری، 2018

زمین
خیبرپختونخوا حکومت نے چائنا روڈ اینڈ برج کارپوریشن کے ساتھ حطار میں خصوصی اقتصادی زون (اسپیشل اکنامک زون) کو توسیع دینے کے لیے ایک معاہدہ کیا ہے۔ چینی کمپنی حطار میں مزید 1,000 ایکڑ زمین پر اقتصادی زون قائم کریگی جہاں ادویات، ٹیکسٹائل، خوراک و مشروبات، فولاد اور انجینئرنگ سے متعلق صنعتیں قائم کی جائینگی۔ اقتصادی زون میں ملکی اور غیرملکی سرمایاکاروں کی جانب سے 100 بلین روپے کی سرمایہ کاری متوقع ہے۔ حطار کا موجودہ خصوصی اقتصادی زون مکمل طورپر فروخت ہوچکا ہے جہاں کچھ صنعتوں کی تعمیر کا آغازبھی ہوچکا ہے۔ سرمایہ کاروں کی جانب سے غیر معمولی طلب کے پیش نظر کے پی کے حکومت نے اقتصادی زون کو توسیع دینے کے لیے 1,000 ایکڑ زمین پر دفعہ چار (سیکشن 4) نافذ کردی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 4 جنوری، صفحہ8)

تحقیق
پنجاب ایگری کلچرل ریسرچ بورڈ اور زرعی یونیورسٹی فیصل آباد نے زرعی تحقیق میں تعاون کے لیے مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط کیے ہیں۔ اس اشتراک کا مقصد زرعی تحقیق میں جدت اور پائیدار بنیادوں پر زرعی پیداوار میں اضافے کو فروغ دینا، غربت میں کمی، غذائی تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔ ریسرچ بورڈ پنجاب حکومت کی پالیسی کے تحت سائنسی ورک شاپس میں شرکت کرنے کے لئے سائنسدانوں کو رقم بھی فراہم کریگا۔ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے وائس چانسلر کا کہنا ہے کہ بورڈ زرعی ترقی میں اہم کردار ادا کررہا ہے اور دونوں اداروں کے باہمی تعاون سے زرعی شعبے کے مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی۔ اس کے علاوہ بورڈ سینٹر فار ایڈوانس اسٹڈیز ان ایگری کلچر اینڈ فوڈ سکیورٹی کے 41 منصوبوں کے لئے رقم بھی فراہم کریگا۔
(بزنس ریکارڈر، 4 جنوری، صفحہ9)

زرتلافی
پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ اور محکمہ زراعت پنجاب نے مشترکہ طور پر کسانوں کو کھاد پر براہ راست زرتلافی فراہم کرنے کے منصوبے کا آغاز کیا ہے۔ چیئرمین بورڈ کے مطابق ادارے نے اس مقصد کے لیے ایک ویب سائٹ (ویب پورٹل) تیار کی ہے جس پر کھاد کمپنیاں اپنی مختلف مصنوعات کے کوڈ تیار کریں گی۔ یہ کوڈ (ایک کوپن میں) کھاد کی بوری کے اندر چسپاں ہونگے۔ رجسٹرڈکسان کھاد کی خریداری کے بعد یہ کوڈ موبائل پر ایک پیغام (ایس ایم ایس) کے زریعے مخصوص نمبر پر بھیجیں گے جس کے بعد اس کوڈ کی تصدیق موبائل پر پیغام کے زریعے کسان وصول کرینگے۔ کسان اس موبائل پیغام اور اپنے اصل قومی شناختی کارڈ کے زریعے ایجنٹ سے نقد زرتلافی وصول کرسکیں گے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 6 جنوری، صفحہ10)

پائیدار طریقہ زراعت
ایک خبر کے مطابق کیلے کے کاشتکار پیداوار بہتر بنانے اور مٹی کی زرخیزی بحال کرنے کے لیے نامیاتی کھاد استعمال کررہے ہیں۔ یہ کھاد کھیتوں سے حاصل ہونے والے فضلے، گندم، چاول، سویابین، مکئی اور دالوں سے حاصل ہونے والے بھوسے، درختوں کے پتے، گھاس پھوس، سبزیوں کی باقیات وغیرہ سے تیار کی جاتی ہے۔ کسان سمجھتے ہیں کہ یہ چیزیں پودوں کو فائدہ پہنچانے والے اجزاء پر مشتمل ہیں۔ کسان پیداوار میں اضافے کے نام پر کیمیائی مداخل کا بے تحاشا استعمال کررہے ہیں لیکن یہ عمل فصل کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔ زمین کی زرخیزی میں کمی سے مسائل کھڑے ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں پیداوار میں کمی ہوجاتی ہے۔ محکمہ زراعت سندھ کے سانگھڑ اور نواب شاہ اضلاع میں زرعی تربیتی مرکز (ایگری کلچر ایکسٹینشن ڈپارٹمنٹ) کے تربیت کار رسول بخش خاصخیلی کے مطابق کیلے کی نامیاتی کھاد زمین کی زرخیزی کے لیے صحت بخش ہے جسے کسی بھی فصل پر 70 سے 75 دنوں بعد استعمال کیا جاسکتا ہے۔
(دی نیوز، 7 جنوری، صفحہ15)

گندم
وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق نے سینٹ کی پارلیمانی کمیٹی کو آگاہ کیا ہے کہ ملک بھر میں ہدف کے مقابلے 97 فیصد گندم کی بوائی مکمل کی جاچکی ہے۔ مقررہ ہدف 8.9 ملین ہیکٹر میں سے 8.7 ملین ہیکٹر پر گندم کی بوائی کی جاچکی ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ پنجاب میں بوائی اپنے ہدف کے مقابلے 98.13 فیصد، سندھ میں 95.18 فیصد جبکہ خیبرپختونخوا اور فاٹا میں اپنے ہدف کے مقابلے 101.04 فیصد مکمل کی جاچکی ہے۔ بلوچستان میں گندم کی بوائی جاری ہے اور ہدف کے مقابلے اب تک 92.32 فیصد بوائی مکمل ہوچکی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 5 جنوری، صفحہ22)

ایک مضمون کے مطابق سندھ اور پنجاب میں گنے کی قیمت کے بحران کے بعد کسان اب گندم کی قیمت کے حوالے سے فکرمند ہیں۔ گندم کی بڑھتی ہوئی پیداوار کسانوں، تاجروں، کارخانے داروں، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ گندم کا ذخیرہ بڑھتا جارہا ہے، ملک میں گندم کی قیمت عالمی منڈی سے کہیں زیادہ ہے اور گزشتہ دو سالوں سے گندم کی برآمد میں اضافے کی کوششیں ناکام ہوئی ہیں۔ ان تمام عوامل سے گندم کی منڈی متاثر ہوگی۔ کسانوں کو خدشہ ہے کہ اس صورتحال میں منڈی میں گندم کی قیمت کم ہوجائے گی جیسا کہ گنے کی فصل کے ساتھ ہوا۔ گندم کے ذخائر اور اس پر آنے والی لاگت کسانوں کے خدشات واضح کرتی ہے۔ صرف پنجاب میں ہی 5.8 ملین ٹن گندم موجود ہے جو اگلے دوسال کی ضرورت کے لیے کافی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ماہرین کی رائے کے برخلاف گندم کی فی من امدادی قیمت 1,300 مقرر کرتی ہیں کیونکہ وہ اپنے دیہی ووٹر کو خوش کرنا چاہتی ہے۔ گندم کی قیمت اور اس کے ذخائر کی صورتحال نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ اگر حکومتیں تیزی سے گندم کی خریداری کرتی ہیں تو اس پر آنے والی لاگت ان کے لیے ناقابل برداشت ہے اور اگر وہ ایسا نہ کریں تو اس کی سیاسی قیمت چکانا بھی ان کے لیے ناقابل برداشت ہے۔
(احمد فراز خان، ڈان، 8 جنوری، صفحہ4، بزنس اینڈ فنانس)

مال مویشی
حکومت سندھ نے جانوروں کے حقوق کے تحفظ اور انہیں ہر طرح کی بدسلوکی سے بچانے کے لیے ایک قانون متعارف کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں سندھ کابینہ نے 30 دسمبر 2017 کو ایک مسودے (سندھ ویلفیئر اینڈ پریوینٹنگ آف کریلٹی ٹو اینمل ایکٹ 2017 ) کی منظوری دی ہے۔ مجوزہ قانون کے تحت جانوروں کو مناسب نشونما، رہائش اور بدسلوکی سے پاک ماحول کا حق حاصل ہوگا۔ مجوزہ قانون کے مطابق کسی بھی جانور کو قتل کرنے، پیٹنے، لات مارنے، زیادہ سامان لادنے، جسمانی اذیت دینے، طیش دلانے یا ڈرانے کو غیر قانونی تصور کیا جائے گا۔ وزیر مال مویشی سندھ محمد علی ملکانی کے مطابق جانوروں کو تنگ سواریوں میں منتقل کرنا، جانوروں کی لڑائی کروانا یا انہیں زہریلی چیز کھلانا بھی قابل سزا جرم ہوگا۔ اس قانون کی خلاف ورزی پر کم از کم تین ماہ اور زیادہ سے زیادہ تین سال کی سزا دی جاسکے گی۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 4 جنوری، صفحہ14)

ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان نے تین اقسام کے ہارمون کے ٹیکوں کا اندراج (رجسٹریشن) منسوخ کردیا ہے۔ یہ ٹیکے گائے بھینسوں کو دودھ کی اضافی پیداوار حاصل کرنے کے لیے لگائے جاتے ہیں۔ اتھارٹی نے وفاقی اور صوبائی حکام کو ہدایت کی ہے کہ وہ تینوں اقسام کے ٹیکے منڈی سے بھی ضبط کرلیں۔ ہارمون کے یہ ٹیکے بوسٹن رجسٹریشن نمبر 020819، بوسٹن۔ایس رجسٹریشن نمبر 09645 اور سوماٹیک رجسٹریشن نمبر 020827 کے نام سے فروخت کئے جارہے ہیں۔ چھ جنوری کو سپریم کورٹ نے ہدایت کی تھی کہ دودھ کی پیداوار میں اضافے کے لیے استعمال ہونے والے ہارمون (RBST/Synthetic Recombinant Bovine Somato Tropin) پر پابندی عائد کی جائے جو لڑکیوں میں وقت سے پہلے بلوغت اور چھاتی کے سرطان کا باعث ہے۔
(ڈان، 9 جنوری، صفحہ4)

سپریم کورٹ کی جانب سے ہارمون کے ٹیکے کی فروخت اور اس کی درآمد پر پابندی سے متاثرہ ڈیری فارم انجمنوں نے چیف جسٹس سے اپیل کی ہے کہ انہیں ان ٹیکوں کے استعمال پر مکمل پابندی کے لیے پانچ ماہ کا وقت دیا جائے کیونکہ ٹیکوں کا استعمال اچانک بند کرنے سے دودھ کی پیداوار میں 70 فیصد کمی ہوگی۔ روزانہ شہر کراچی میں 5.5 ملین لیٹر دودھ فراہم کیا جاتا ہے اور اس فیصلے کے بعد دودھ کے بحران کا سامنا ہوگا کیونکہ کراچی کے زیادہ تر ڈیری فارمر کئی سالوں سے ہارمون کے ٹیکے استعمال کررہے ہیں۔ مویشی ان ٹیکوں کے عادی ہوگئے ہیں۔ فوری طور پر اس پابندی پر عملدرآمد اور دودھ کی پیداوار میں قدرتی طریقے سے اضافہ کرنا ناممکن ہے۔ صحت کی وفاقی وزارت منسٹری آف نیشنل ہیلتھ سروس کے جاری کردہ بیان کے مطابق امریکہ اور دیگر ممالک میں رجسٹریشن کی بنیاد پر یہ ٹیکے 1998 میں پاکستان میں رجسٹرڈ کیے گئے تھے۔ ان ہارمون کے استعمال پر یورپ، کینیڈا، برطانیہ، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا یہاں تک کہ بھارت میں بھی پابندی ہے لیکن یہ امریکہ میں اب تک استعمال ہورہے ہیں جہاں ہارمون ملی اشیاء پر لیبل لگایا جاتا ہے اور ان کی قیمت نامیاتی (آرگینک) اشیاء کے مقابلے کم ہوتی ہیں۔
(ڈان، 10 جنوری، صفحہ18)

ماہی گیری
حکومتی احکامات کے باوجود سندھ میں میٹھے پانی کی جھیلوں پر جاگیرداروں کا قبضہ ختم نہیں کرایا جاسکا ہے۔ جھیلوں پر قبضے کے خلاف ماہی گیروں کے حقوق کے لیے سرگرم ایک غیر سرکاری تنظیم نے کراچی پریس کلب پر احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرے کے شرکاء کا کہنا تھا کہ سندھ اسمبلی نے 1209 جھیلوں پر غیر قانونی قبضہ ختم کرانے کے بل کی منظوری دی ہے لیکن اب تک جاگیرداروں کا قبضہ برقرار ہے اور ماہی گیروں کو ان جھیلوں سے اپنا روزگار حاصل نہیں کرنے دیا جارہا۔ مظاہرین کے مطابق اس وقت ایسی 600 جھیلیں ہیں جن پر جاگیردار قابض ہیں۔ حال ہی میں بااثر جاگیردار اور وزیر مال مویشی و ماہی گیری سندھ کے بھائی نے مبینہ طور پر مسلح افراد کی مدد سے تاریخی بابلی جھیل پر قبضہ کرلیا ہے۔ مظاہرین نے مزید کہا کہ وہ غریب ہوسکتے ہیں لیکن جانتے ہیں کس طرح پرامن طریقے سے اپنے حقوق کے لیے لڑا جاتا ہے۔ مظاہرین کی جانب سے سندھ بھر میں 10 جنوری سے اپنے مطالبات کی منظوری تک احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کیا گیا ہے۔
(ڈان، 9 جنوری، صفحہ18)

پانی
مہران یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی جامشورو میں قائم یو ایس پاکستان سینٹر فار ایڈوانس اسٹڈیز ان واٹر نے تقسیم اسناد کی اپنی پہلی تقریب میں ماسٹرز کرنے والے 31 طلباء کو اسناد جاری کی ہیں۔ اس موقع پر کراچی میں امریکی سفارتکار گریس شیلٹن کا کہنا تھا کہ فارغ التحصیل طلباء پاکستان میں پانی کے حوالے سے درپیش مسائل کو حل کرنے کے لئے اپنی خدمات پیش کرینگے اور اس شعبے میں اپنی مہارتوں کا استعمال کرینگے۔ پانی کے حوالے سے یہ تحقیقی مرکز امریکی امدادی ادارہ برائے بین الاقوامی یو ایس ایڈ کی مالی مدد سے 2014 میں قائم کیا گیا تھا۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 9 جنوری، صفحہ5)

بچوں کی بہبود کے عالمی ادارے یونیسیف کے مطابق پاکستان میں دو تہائی سے زیادہ گھرانے جراثیم زدہ آلودہ پانی پیتے ہیں۔ یہ آلودہ پانی پینے سے ہر سال 53,000 بچے اسہال میں مبتلا ہوکر موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اقوام متحدہ اور پاکستانی حکام کے مطابق ملک میں 30 سے 40فیصد کے درمیان بیماریوں اور اموات کا تعلق آلودہ پانی سے ہے جس سے اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ عالمی بینک نے 2012 میں خبردار کیا تھا کہ پاکستان کو نکاسی آب کو بہتر بنانے کے لیے بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ اندازے کے مطابق پانی کی آلودگی کی وجہ سے پاکستان کو 5.7 بلین ڈالر (مجموعی قومی پیداوار کا تقریباً چار فیصد) کا نقصان ہوتا ہے۔ سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے محقق عمران خالد کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ملک میں ماحولیات سیاسی ایجنڈے کا حصہ نہیں اور فضلہ صاف کرنے والے کارخانے (ٹریٹمنٹ پلانٹ) نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جو لوگ حیثیت رکھتے ہیں وہ پانی کی بوتل خریدتے ہیں لیکن ان لوگوں کا کیا ہوگا جو پانی کی بوتل خریدنے کی حیثیت نہیں رکھتے؟
(ڈان، 9 جنوری، صفحہ3)

جنگلات
ساؤتھ پنجاب فاریسٹ کمپنی اور نیشنل رورل سپورٹ پروگرام نے پنجاب میں جنگلات میں اضافہ اور موسمی سے مطابقت میں اضافے کے لیے مفاہمت کی ایک یاداشت پر دستخط کیے ہیں۔ معاہدے کا مقصد مطابق پنجاب میں نجی سرمایہ کاری اور تجاری کمپنیوں کی سماجی زمہ داریوں (کارپوریٹ سوشل رسپونسبلیٹی) کے ذریعے جنگلات میں اضافہ کرنا ہے۔ معاہدے پر دونوں اداروں کے سربراہوں نے ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر۔پاکستان اور گرین کلائمٹ فنڈ کے نمائندوں کی موجودگی میں دستخط کئے جنہوں اس موقع پر خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا۔
(بزنس ریکارڈر، 9 جنوری، صفحہ13)

غربت
مٹھی، تھرپارکر میں غذائی کمی اور بیماریوں کی وجہ سے مزید پانچ بچے جانبحق ہوگئے ہیں جس کے بعد گزشتہ تین دنوں میں مرنے والے کی تعداد 17 ہوگئی ہے۔ محکمہ صحت کے زرائع کے مطابق 2017 میں ضلع کے چھ اسپتالوں میں 512 بچوں کی اموات ہوئیں۔ بیمار بچوں کے والدین کا کہنا ہے کہ سول اسپتال مٹھی سمیت ضلع کے دیگر اسپتالوں میں کوئی سہولیات موجود نہیں ہیں۔ والدین کو دوائیں بازار سے خریدنے پر مجبور کیا جارہا ہے کیونکہ اسپتال کو رقم جاری نہ کیے جانے کی وجہ سے دواؤں کی شدید قلت ہے۔
(ڈان، 4 جنوری، صفحہ19)

ایک مضمون کے مطابق وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے غربت میں کمی کے منصوبوں پر خرچ کی گئی رقم کا تین چوتھائی حصہ دراصل غیر ترقیاتی اخراجات اور تنخواہوں کی ادائیگی پر خرچ کیا گیا۔ غربت کے خاتمے کے حوالے سے 2017-18 کی پہلی سہماہی رپورٹ کے مطابق وفاق اور چاروں صوبائی حکومتوں نے 462.7 بلین روپے خرچ کئے جو گزشتہ سال کے مقابلے 10.4 فیصد زیادہ ہے، جبکہ اس رقم میں سے 354.4 بلین روپے جاری اخراجات یعنی تنخواہوں کی ادائیگی اور دیگر غیر ترقیاتی اخراجات کی مد میں خرچ کیے گئے۔ رپورٹ کے مطابق پانچوں حکومتوں نے 5.2 بلین روپے زرتلافی کی مد میں خرچ کیے جبکہ 24 بلین روپے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت ادا کئے گئے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے غربت میں کمی کے لیے مجموعی طور پر رقم میں اضافے کے باوجود اس حوالے سے کوئی واضح تبدیلی نہیں آئی ہے۔ ملک میں غربت اور عدم مساوات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور بظاہر حکومت خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد ظاہر کرنے سے گریزاں ہے۔
(شہباز رعنا، دی ایکسپریس ٹریبیون، 5 جنوری، صفحہ10)

نکتہ نظر
مرتب کردہ ہفتہ وارزرعی خبروں میں سے کچھ خبریں یہاں قابل ذکر ہیں، خصوصا حطار میں خصوصی اقتصادی زون کی توسیع۔ دستیاب معلومات کے مطابق حطار کے علاقے میں خصوصی اقتصادی زون کے حجم میں یہ دوسری توسیع ہے۔ اس سے پہلے بھی زمین کے حصول کے لیے اس پر آباد کسانوں کو بیدخل کیا جاچکا ہے اور اب مزید 1,000 ایکڑ زمین کے حصول کے لیے سیکشن 4 نافذ کرکے خیبرپختونخوا حکومت نے بڑے پیمانے پر زراعت سے وابستہ آبادی کے لیے بھوک، بیروزگاری اور محتاجی کا ساماں کردیا ہے۔ درحقیقت ترقی کے نام پر جاری یہ منصوبے عوام سے وسائل چھین کر اشرافیہ کے لیے منافع کے حصول کا زریعہ بنادیے گئے ہیں جس کے اثرات گوادر سے بیدخل کیے گئے ماہی گیروں سے حطار کے کسانوں تک غربت اور غذائی کمی صورت باآسانی دیکھے جاسکتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں کہ جب پانی، بیج اور دیگر زرائع پیداوار کا انتظام بھی امریکی تحقیقی اداروں اور پالیسی ساز اداروں کا محتاج بنتا جارہا ہے کیلے کی پیداوار میں پائیدار زرعی اصولوں کے تحت نامیاتی کھاد کا فروغ قابل ستائش عمل ہے۔ یہاں یہ تذکرہ بھی انتہائی ضروری ہے کہ سندھ میں حکمرانوں نے جانوروں کا درد محصوص کرتے ہوئے ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے قانون سازی کا فیصلہ کیا ہے لیکن سندھ بھر میں خصوصاً تھرپارکر میں بھوک، غذائی کمی کے شکار بچے جان دے کر بھی اب تک شایہ حکومتی توجہ حاصل کرنے میں ناکام ہیں

جنوری: 11 تا 17 جنوری، 2018

صنعتی طریقہ زراعت

ایک مضمون کے مطابق صوبہ پنجاب میں زراعت میں ڈرونز کا استعمال متعارف کروانے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ یہ ڈرونز کھیتوں میں کیڑے مکوڑوں اور جراثیم کا خاتمہ زرعی زہر کے چھڑکاؤ کے ذریعے کرینگے۔ اس کے علاوہ حساس آلات (الیکٹرونک سینسرز) کے ذریعے نہروں سے پانی چوری کی نگرانی بھی زیر غور ہے۔ اس مقصد کے لیے حکام پہلے ہی بھاولپور میں نہری نظام کے کچھ حصے کو اس منصوبے کی آزمائش کے لیے منتخب کرچکے ہیں جہاں ان حساس آلات کی آزمائش جاری ہے۔ عالمی بینک نے حال ہی میں پنجاب میں 300 ملین ڈالر لاگت کے زرعی منڈی کے استحکام اور دیہات کو تبدیل (اسٹرینتھگ مارکیٹ فار ایگری کلچر اینڈ رورل ٹرانسفورمیشن) کرنے کے پانچ سالہ منصوبے کی منظوری دی ہے۔ تاہم ابھی یہ واضح نہیں کہ زرعی ڈرون اور نہروں میں حساس آلات کی تنصیب عالمی بینک کے اس پانچ سالہ منصوبے کا حصہ ہے یا نہیں۔ سی پیک میں شامل ہونے سے قبل ہم کارپوریٹ زراعت کے بارے میں سنتے آرہے ہیں، جس کے تحت بڑے زمینی رقبے غیر ممالک کو لیز پر دیے گئے خصوصا سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو۔ لیکن ہم اب تک نہیں جانتے کہ کس ملک کو کونسی زمین، کن شرائط پر دی گئی اور اس سے زرعی پیداوار میں اضافے کے لیے کیا مدد ملی؟ اب سی پیک کا بنیادی منصوبہ ہمارے سامنے ہے اور ہم جانتے ہیں کہ پاکستان چین کے ساتھ زرعی ترقی کے لیے بڑے پیمانے اشتراک کررہا ہے۔ اس کا مطلب بھی یہی ہوا کہ ایک بار پھر زراعت کو جدید بنانے اور اسے ترقی دینے کے لیے ہماری زمین چینی کمپنیوں کو دی جائے گی۔ کیا عوام کبھی ان منصوبوں کے ثمرات جان پائیں گے؟ عوام کو کیوں آگاہ نہیں کیا جاتا کہ پاکستان نے غیر ملکی اشتراک سے زرعی شعبے میں کیا کامیابی حاصل کی ہے؟ وفاقی اور صوبائی حکام قوم کے سامنے مکمل لائحہ عمل رکھیں کہ کس طرح حکومت زراعت میں انقلاب برپا کرنے کی منصوبہ بندی کررہی ہے اور اس میں ہمارے دوست ممالک بشمول چین کیا کردار ادا کرینگے تو یہ بڑی عوامی خدمت ہوگی اور اس سے عدم اعتماد کی فضاء کا خاتمہ ہوگا جو بدقسمتی سے ہمارے زرعے شعبے میں انقلابی تبدیلی کے ہر منصوبے پر عملدرآمد میں رکاوٹ کی وجہ ہے۔
(محی الدین عظیم، ڈان، 15 جنوری، صفحہ4، بزنس اینڈ فنانس)

زرتلافی

سندھ بینک نے محکمہ زراعت سندھ کی ہدایت پر مقامی طور پر تیار کردہ ٹریکٹر پر کسانوں کو دو سے تین لاکھ روپے زرتلافی دینے کے لیے درخواستیں طلب کی ہیں۔ سندھ بینک زرتلافی کے لیے اہل کسانوں کو قرعہ اندازی کے ذریعے منتخب کریگا۔ ٹریکٹر پر زرتلافی مختص کردہ ضلعی کوٹہ کی بنیاد پر اس ضلع میں زیر کاشت رقبہ کی مناسبت سے جاری کی جائے گی۔ کسان کو ان ہی اضلاع میں درخواستیں جمع کرانی ہونگی جہاں انکی زمین ہے۔ خبر کے مطابق یہ زرتلافی ان کسانوں کو دی جائے گی جو سندھ کے رہائشی ہوں اور لازمی طور پر 25 ایکڑ سے زائد زمین کے مالک ہوں۔
(بزنس ریکارڈر، 16 جنوری، صفحہ2)

پھل سبزی

محکمہ زراعت پنجاب، فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری اور آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹرز، امپورٹرز اینڈ مرچنٹز ایسوسی ایشن نے تعاون پر مبنی سہہ فریقی مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط کئے ہیں۔ معہدہ کے تحت تینوں فریقین شعبہ باغبانی میں سپلائی چین کی بہتری، پھل و سبزیوں کی برآمدات میں اضافے اور تحقیق و ترقی کے لیے محکمہ زراعت پنجاب کے منصوبوں کے لئے تعاون اور مدد فراہم کرینگے۔ باغبانی مصنوعات کی برآمدات کے فروغ کے لئے محکمہ پنجاب چار سالہ پروگرام ترتیب دیگا۔ اس کے علاوہ باغبانی شعبے میں تحقیق و ترقی کے لئے پنجاب میں ایک مرکز بھی قائم کیا جائیگا۔

(بزنس ریکارڈر، 17 جنوری، صفحہ7)

ڈیری
سپریم کورٹ نے منڈی میں دستیاب تمام کمپنیوں کے ڈبہ بند دودھ کے نمونے جمع کرنے اور ان کی پاکستان کونسل آف سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ سے جانچ کرانے کا حکم دیا ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے صوبہ سندھ میں ڈبہ بند دودھ کی پیداوار، اس کی عمل کاری (پرسسنگ) میں کمی سے متعلق انسانی حقوق کے حوالے سے دائر کردہ درخواست کی سماعت کے دوران یہ حکم جاری کیا۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ ’’یہ (ڈبہ بند) دودھ نہیں ہے یہاں تک کہ یہ دودھ کا متبادل بھی نہیں ہے‘‘۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 14 جنوری، صفحہ5)

پنجاب فوڈ اتھارٹی نے صوبے بھر میں جاری کارروائی کے تحت 144تحصیلوں کے داخلی اور خارجی راستوں پر دوھ کی جانچ کے بعد 40,000 لیٹر ملاوٹ شدہ دودھ ضائع کردیا۔ تفصیلات کے مطابق لاہور میں نو ہزار لیٹر، گجرانوالہ میں 16 ہزار لیٹر، بہاولپور میں 18,20 لیٹر، ملتان 17,00 لیٹر، خانیوال میں 380 لیٹر، ڈیرہ غازی خان میں 1388 لیٹر، فیصل آباد میں 7,000 لیٹر جبکہ وہاڑی اور بہاولنگر کے اضلاع میں 560 لیٹر دودھ تلف کیا گیا ہے۔ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل نورلامین مینگل کے مطابق پانچ سالوں کے اندر اندر کھلے دودھ کی فروخت پر مکمل پابندی ہوگی اور دودھ صرف پیک شدہ ہی دستیاب ہوگا۔
(ڈان، 15 جنوری، صفحہ2)

خشک دود

تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی نفیسہ عنایت اللہ خان خٹک نے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان ایکٹ 2010 میں ترمیم کا مسودہ پیش کیا ہے۔ مسودے میں کہا گیا ہے کہ تجارتی طور پر تیار کردہ بچوں کا خشک دودھ (فارمولا ملک) کوڈیکس الیمنٹریس اسٹینڈرڈز کے مطابق تیار کیا جاتا ہے جس کا مطلب ہے کہ اس دودھ سے کم سے کم مجموعی غذائیت ضرور حاصل ہوتی ہو۔ یہاں کئی کمپنیوں (برانڈز) کے خشک دودھ دستیاب ہیں جن میں چربی اور لحمیات ماں کے دودھ سے کم پائے گئے ہیں۔ کوئی بھی اس حقیقیت سے انکار نہیں کرسکتا کہ دودھ کا ایک ڈبہ ایک بچے کو ماں کے دودھ جیسی انتہائی مناسب خوراک سے محروم کرتا ہے۔ پاکستان ہر سال 40 ملین ڈالر بچوں کا خشک درآمد کرنے پر خرچ کرتا ہے اور منڈی میں ایسے 160 مختلف اقسام کے خشک دودھ دستیاب ہیں۔ مجوزہ ترمیم میں شفارش کی گئی ہے کہ بچوں کے خشک دودھ کی فروخت کو محدود کرنا چاہیے اور اس کی دستیابی ڈاکٹری نسخے سے مشروط ہونی چاہیے جس سے بچوں کے خشک دودھ کے نقاصندہ اثرات کم ہوسکتے ہیں۔
(ڈان، 17 جنوری، صفحہ4)

گنا

سپریم کورٹ تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کی جے ڈی ڈبلیو شوگر مل کو عدالت میں اپنی پیشکش جمع کروانے کی ہدایت کی ہے جس میں یہ وضاحت پیش کی جائے کہ مل کس طرح اپنے علاقے سے گنے کی پوری فصل سرکاری قیمت 180 روپے فی من پر خریدے گی۔ بصورت دیگر عدالت لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر بند ہونیوالی ملوں کو کرشنگ شروع کرنیکی اجازت دینے پر غور کریگی۔ عدالت نے اگلی سماعت پر جہانگیر ترین کو خود عدالت میں پیش ہونیکا حکم بھی دیا ہے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے مزید کہا کہ وہ اس وقت تک یومیہ بنیادوں پر اپنے کمرے میں اس مقدمے کی سماعت کرینگے جب تک جے ڈی ڈبلیو شوگر مل کی جانب سے گنے کی تمام فصل نہیں خریدلی جاتی۔ گنے کی خریداری پر 500 ملین سے ایک بلین روپے تک لاگت آئے گی جو اعتزاز احسن کے موکل (جہانگیر ترین) کے لیے معمولی رقم ہے۔
(ڈان، 11 جنوری، صفحہ16)

سندھ ہائی کورٹ نے کاشتکاروں اور مل مالکان کے درمیان گنے کی قیمت پر پائے جانیوالے تنازعہ کے معاملے پر 15 جنوری سے یومیہ بنیادوں پر سماعت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ گنے کے کاشتکاروں نے حکومت سندھ کی مقرر کردہ قیمت 182 روپے فی من سے کم قیمت ادا کئے جانے پر گزشتہ ماہ عدالت سے رجوع کیا تھا۔ عدالت نے 23 دسمبر کو شوگر ملوں کو فی من گنے کی قیمت 172 روپے ادا کرنے اور بقیہ رقم 10 روپے فی من عدالت میں جمع کرانیکا حکم دیا تھا۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 12 جنوری، صفحہ4)

سندھ ہائی کورٹ نے شوگر مل مالکان کو ہدایت کی ہے کہ وہ اگلے حکم تک کاشتکاروں سے 172 روپے فی من قیمت پر گنا خریدیں۔ عدالت نے حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ دو دن میں تمام شراکتداروں اور گنا کمشنر کے ساتھ ایک اجلاس منعقد کرے اور ایک ہفتے کے اندر گنے کی قیمت کا اعلامیہ جاری کرے۔ کاشتکاروں کے مطابق ملوں نے 130 روپے فی من سے زیادہ قیمت دینے سے انکار کردیا ہے۔
(ڈان، 17 جنوری، صفحہ19)

نکتہ نظر

اس ہفتے مرتب کردہ خبروں میں بھی صوبہ پنجاب میں زرعی شعبے میں ترقی کے لیے مختلف شعبہ جات میں کوششوں کا عنصر نمایاں ہے۔ خبروں میں زراعت میں قرض لے کر جدید ٹیکنالوجی کے استعمال اور ملکی پیداواری وسائل کی بندر بانٹ کے حوالے سے شامل کیا گیا مضمون حکومتی ترجیحات کی واضح عکاسی کرتا ہے۔ پنجاب حکومت کی زرعی پیداوار خصوصاً پھل سبزی کی برآمد میں اضافے کے لیے منصوبہ بندی سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں زرعی پیداوار بہت زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں ہے، چاہے گنا ہو یا گندم، چاول ہو یا آلو ملکی ضروریات سے زیادہ ہے۔ حکومتی سرمایہ دار دوست عالمگیریت پر مبنی زرعی پالیسیوں کے نتیجے میں پیداوار زیادہ ہونے کے باوجود کسان بدحال ہے اور آمدنی تو دور پیداواری لاگت بھی وصول نہیں کرپاتا۔ گنے کی اضافی پیداورا کے نتیجے میں جاری بحران ایسی ہی ایک مثال ہے۔ زرتلافی کے حوالے سے ایک اور اہم خبر کا ذکر یہاں ضروری ہے۔ صوبہ سندھ میں کاشتکاروں کی اکثریت بے زمین کسانوں پر مشتمل ہے یا ایسے کسانوں پر جو بہت کم زمین کے مالک ہیں۔ ایسے میں بجائے اس کے کہ ان چھوٹے اور بے زمین کسانوں کو مراعات دی جائیں 25 ایکڑ سے زیادہ زمین رکھنے والوں کو ٹریکٹر کی خریداری پر دو سے تین لاکھ روپے زرتلافی دینے کی منصوبہ بندی سندھ حکومت کی جاگیردارنہ سوچ کی عکاس ہے۔ چھوٹے اور بے زمین کسانوں میں غربت، بھوک، بیروزگاری اور قرض جیسے عفریت ایسی ہی سرمایہ دار جاگیردار دوست پالیسیوں کا نتیجہ ہے

January 18-24, 2018

گندم
وزیر خوراک سندھ نثار کھوڑو نے سندھ اسمبلی کو بتایا ہے کہ 2008 سے 2014 کے درمیان 630 ملین روپے کی سرکاری گندم چوری یا غبن کرلی گئی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ صوبے بھر کے مختلف گوداموں سے 130,000 سے زیادہ گندم کی بوریاں چوری یا غبن کی گئی ہیں۔ بدعنوانی کے مقدمات متعلقہ اداروں کو بھیج دیے گئے ہیں۔ نو سرکاری افسران کو برطرف کردیا گیا ہے، تین پر فردجرم عائد کی جاچکی ہے، چار افسران کو معطل کردیا گیا ہے جبکہ 27 مقدمات زیر التواء ہیں۔
(ڈان، 23 جنوری، صفحہ18)

آبپاشی
وفاقی وزیر برائے آبی وسائل جاوید علی شاہ اور سندھ کے ارکان قومی اسمبلی کے درمیان صوبہ سندھ میں پانی کے مسئلے پر سخت جملوں کا تبادلہ ہوا ہے۔ نواب یوسف تالپور کے توجہ دلاؤ نوٹس پر بحث کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی کی ہدایت پر یہ اجلاس منعقد کیا گیا تھا۔ اجلاس میں ارسا حکام نے بتایا کہ کم بارشوں کی وجہ سے ربیع کے موسم میں 26 فیصد پانی کی کمی کا اندازہ لگایا گیا تھا لیکن پانی کی کمی بڑھ کر 36 فیصد ہوگئی۔ اجلاس میں سیکریٹری وزارت آبی وسائل کا کہنا تھا کہ اگر سندھ کو پانی کی تقسیم کے طریقۂ کار پر تحفظات ہیں تو وہ مشترکہ مفادات کونسل سے رجوع کرسکتا ہے۔ اجلاس میں پنجاب کی نمائندگی کرنے والے ارسا کے سابق چیئرمین کا کہنا تھا کہ آج نہیں تو کل پاکستان کو کالا باغ ڈیم بنانا ہوگا، جس پر نواب یوسف تالپور کا کہنا تھا کہ ’’اس کے لیے پہلے پنجاب کو پاکستان سے الگ کرنا ہوگا اس کے بعد کالا باغ ڈیم تعمیر کیا جا سکتا ہے‘‘۔
(بزنس ریکارڈر، 18 جنوری، صفحہ3)

سندھ حکومت نے 85 سال پرانے سکھر بیراج کی بحالی اور اس کی مدت استعمال کو بڑھانے کے لیے عالمی بینک سے مدد مانگی ہے۔ بیراج کی بحالی کے منصوبے پر 100 ملین ڈالر لاگت کا تحمینہ لگایا گیا ہے اور اسے چار سال میں مکمل کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ بیراج پر کام محکمہ آبپاشی سندھ بیراجوں کو بہتر بنانے کے منصوبے (بیراجز امپرومنٹ پرجیکٹ) کے تحت کرے گا۔
(ڈان، 21 جنوری، صفحہ 19)

غربت
ادارہ شماریات پاکستان نے قومی اسمبلی کو آگاہ کیا ہے کہ سال 2014-15 میں کیے گئے سروے کے مطابق ملک میں 500,000 سے زیادہ گریجویٹ نوجوان بے روزگار ہیں۔ اسلام آباد کے مختلف کالجوں سے فارغ التحصیل 6,776 نوجوان بے روزگار ہیں جن میں 3,819 مرد اور 2,957 عورتیں ہیں۔ سب سے زیادہ بیروزگار گریجویٹ پنجاب میں رہتے ہیں جہاں 310,000 نوجوان بیروزگار ہیں جن میں 210,000 عورتیں اور 99,874 مرد ہیں۔ پنجاب کے بعد سندھ میں سب سے زیادہ 97,222 گریجویٹ نوجوان بے روزگار ہیں جن میں 53,673 مرد اور 43,549 عورتیں ہیں۔ اس طرح خیبر پختونخوا میں 83,367 سے زیادہ نوجوان بے روزگار ہیں جن میں سے 36,548 مرد اور 46,819 عورتیں ہیں جبکہ بلوچستان میں 11,000 سے زیادہ نوجوان بے روزگار ہیں۔ ملک میں بیروزگار نوجوانوں کے تازہ اعداوشمار 2017 میں ہونے والی مردم شماری کے نتائج مرتب ہونے کے بعد دستیاب ہونگے۔
(ڈان، 18 جنوری، صفحہ4)

گنا
سندھ کی مختلف کسان تنظیموں کے رہنماؤں نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کسانوں کے مفادات کے تحفظ میں ناکامی پر شوگر کین کنٹرول بورڈ کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ رہنماؤں نے سندھ حکومت کی جانب سے سندھ ہائیکورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گنے کی قیمت دوبارہ مقرر کرنے کے منصوبے مسترد کردیا ہے۔ رہنماؤں نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت چھوٹے کسانوں کی تنظیموں کے ساتھ ایک نیا بورڈ تشکیل دے تاکہ بورڈ کسانوں کے حقیقی مسائل کو حل کرسکے۔ سندھ ایگری کلچر ریسرچ کونسل کے صدر پالھ ایڈوکیٹ کا کہنا تھا کہ ناانصافی کے خلاف احتجاج کرنے والے کسانوں کو ضلعی انتظامیہ کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور انہیں جھوٹے مقدمات میں پھنسایا جارہا ہے۔ رہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ کسانوں پر جھوٹے مقدمات ختم کیے جائیں اور ملوں کی جانب سے قیمت میں کٹوتی بند کی جائے۔
(ڈان، 19 جنوری، صفحہ19)

رحیم یار خان اور بہاولپور اضلاع کی شوگر ملوں کی جانب سے گنے کی خریداری میں ناکامی کے خلاف قومی شاہراہ پر کسانوں نے احتجاجی مظاہر کیا۔ مظاہرین نے حکومت مخالف نعرہ لگائے اور ملوں کی جانب سے گنا نہ خریدنے کی صورت میں فصل کو آگ لگانے کی دھمکی دی ہے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ مل مالکان بشمول تحریک انصاف کے جہانگیر ترین نے عدالت میں ضمانت دی تھی کہ وہ ملوں کے اطراف تمام گنے کی فصل خریدیں گے لیکن گنے کی خریداری کا مسئلہ حل کرنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔
(ڈان، 19 جنوری، صفحہ2)

سندھ حکومت شوگر مل مالکان اور کاشتکاروں کے درمیان سال 2017-18 کے لیے گنے کی قیمت پر اتفاق پیدا کرنے میں ناکام ہوگئی ہے۔ مل مالکان نے 172 روپے فی من گنے کی قیمت ادا کرنے سے انکار کردیا ہے جبکہ کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ وہ ملوں کی جانب سے دائر کردہ درخواست پر سندھ ہائی کورٹ کی مقرر کردہ قیمت 172 روپے فی من بھی قبول نہیں کرسکتے۔ سیکریٹری زراعت سندھ کا کہنا ہے کہ معاملے پر پیش رفت نہیں ہوسکتی کیونکہ دونوں فریق اپنے موقف پر قائم ہیں۔
(ڈان، 24 جنوری، صفحہ19)

کپاس
پیداوار میں اضافہ کے لئے حکومت کی جانب سے کپاس پر تحقیقی کے لیے 10 بلین روپے مختص کیے جانے کا اعلان متوقع ہے۔ اخبار سے بات کرتے ہوئے ایک اعلی حکومتی عہدیدار نے انکشاف کیا ہے کہ ایک اعلی سطح کے اجلاس میں گزشتہ کئی سالوں سے جمود کی شکار کپاس کی پیداوار میں اضافے کے لیے ایک منصوبہ زیر غور ہے۔ اس حوالے سے منصوبہ بندی کمیشن میں ہونے والے اجلاس میں صوبہ سندھ اور پنجاب کے نمائندوں کے علاوہ دیگر شراکت داروں نے بھی شرکت کی ہے۔ رواں سال بھی مقررہ ہدف 12.6 ملین گانٹھوں کے مقابلے 11.1 ملین گانٹھیں کپاس کی پیداوار متوقع ہے۔ کپاس پر تحقیق کا یہ دس سالہ منصوبہ منظوری کے لیے وفاقی کابینہ کو بھیجا جائے گا۔ منصوبہ کے تحت حکومت کپاس کی پیداوار میں اضافے کے لیے تحقیقی سرگرمیوں پر ہر سال ایک بلین روپے خرچ کرے گی۔ حکام کے مطابق منصوبے کا باضابطہ اعلان مئی میں اگلے بجٹ کے موقع پر متوقع ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 19 جنوری، صفحہ20)

ماہی گیری
پاکستانی حدودد میں شکار کرنے والے 17 بھارتی ماہی گیروں کو پاکستان میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی نے گرفتار کرلیا ہے۔ ماہی گیروں کی تین کشتیاں بھی قبضے میں لے لی گئی ہیں۔ تمام ماہی گیروں کو مزید قانونی کارروائی کے لیے پولیس کے حوالے کردیا گیا ہے۔ گرفتار ہونے والے بیشتر ماہی گیروں کا تعلق بھارتی ریاست گجرات سے ہے۔
(ڈان، 20 جنوری، صفحہ17)

ماہی گیروں کے لیے کام کرنے والی ایک غیرسرکاری تنظیم کے زیر انتظام کراچی پریس کلب پر ماہی گیروں نے سندھ میں 600 تازہ پانی کے ذخائر اور جھیلوں پر قبضے کے خلاف بھوک ہڑتال کی ہے۔ صوبہ بھر کے مختلف اضلاع میں بھی چار روزہ بھوک ہڑتال جاری ہے۔ بڑی تعداد میں ہڑتالی مظاہرین نے وزیر ماہی گیری و مال مویشی سندھ محمد علی ملکانی اور جاگیرداروں کے خلاف نعرے لگائے جنہوں نے مبینہ طور پر جھیلوں پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ اس موقع پر غیرسرکای تنظیم کے رہنما محمد علی شاہ کا کہنا تھا کہ ’’سندھ اسمبلی نے 2011 میں اس حوالے سے ایک قانون منظور کیا تھا جس میں صوبہ بھر میں جھیلوں اور تازہ پانی کے ذخائر پر قبضہ غیرقانونی قرار دیا گیا تھا اور ان ذخائر پر ٹھیکیداری نظام ختم کردیا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے بجائے اس کے کہ وزیر ماہی گیری و مال مویشی سندھ اس قانون پر عملدرآمد کرائیں وہ خود ٹھٹھہ میں تاریخی جھیل پر قبضہ کرکے ماہی گیروں کا حق چھین رہے ہیں‘‘۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 23 جنوری، صفحہ5)

نکتہ نظر
اس ہفتے مرتب کردہ خبروں میں صوبہ سندھ خبروں میں نمایاں ہے۔ سندھ حکومت زرعی شعبے میں، معاملہ چاہے گنے کی قیمت کا ہو یا گندم کی چوری کا، ہر محاز پر ناکام نظر آتی ہے۔ صوبے میں سرکاری اداروں کی بدعنوانی کے چرچے عام تو تھے ہی اس پر خود وزیر خوراک نے اعتراف کرکے مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔ صوبے میں بچے غذائی کمی اور بھوک کے نتیجے میں بیماریوں کا شکار ہوکر دم توڑ رہے ہیں اور دوسری طرف گندم کی چوری اور بدعنوانی کے زریعے کروڑوں روپے سرکاری حکام کی جیبوں میں جارہے ہیں۔ سندھ بھر کی جھیلوں اور دیگر آبی ذخائر سے روزگار حاصل کرنے والے ماہی گیر گزشتہ کئی ماہ سے مبینہ طور پر صوبائی وزیر کی سرپرستی میں جاری قبضے کے خلاف سراپا احتجاج ہیں لیکن ارباب اقتدار ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ ماہی گیر، چھوٹے اور بے زمین کسان مزدوروں کا استحصال اسی جاگیردار اور سرمایہ دار طبقے پر مشتمل حکومت اور ان کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے جسے صرف اور صرف عوامی جدوجہد کے ذریعے ہی ختم کیا جاسکتا ہے

جنوری:25 تا 31 جنوری 2018

زمین
اجارہ گاوں، تحصیل تنگی، ضلع چارسدہ میں کسان عورت نے پولیس کی جانب سے گھر اور زمین سے بیدخل کیے جانے کے خلاف خود پر مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگالی۔ اس کے علاوہ ایک درجن سے زائد مزراعین اور پولیس اہلکار تصادم میں زخمی ہوگئے ہیں۔ ضلعی حکام اور مقامی رہائشیوں کے مطابق عورتیں اور بچے اس وقت گھروں سے باہر آگئے جب پولیس اور فرنٹیئر کانسٹبلری نے مزارعین کو زمین سے بیدخل کرنے کے لیے طاقت استعمال کرنے کی کوشش کی۔ صورتحال کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے انتظامیہ نے مزارعین کو زمین اور مکانات خالی کرنے کے لیے مزید 20 دن کی مہلت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ خالی کرائی جانے والی زمین مقامی جاگیردار کی ملکیت ہے۔ اس کے علاوہ ہوندو گاؤں میں نو مزارعین، جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں، اس وقت زخمی ہوگئے جب جاگیردار کے مسلح کارندوں نے انہیں زمین سے بیدخل کرنے کے لیے ان کے گھروں پر دھاوا بول دیا۔ ضلعی انتظامیہ نے دعوی کیا ہے کہ قندھارو، میر احمد گل اور ہوندو گاؤں کی 285 کنال زمین سے مزارعوں کو بیدخل کیا جاچکا ہے۔ اس حوالے سے ڈپٹی کمشنر متازر خان اور ضلعی پولیس افسر ظہور آفریدی نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ پولیس نے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کی روشنی میں مزارعوں سے زمین واپس لینے کے لیے کارروائی کی ہے۔
(ڈان، 26 جنوری، صفحہ7)

غذائی و نقد آور فصلیں

اخباری اداریہ کے مطابق درحقیقت پاکستان میں زرعی شعبہ کئی سالوں سے تنزلی کا شکار ہے اور اب ملک دنیا میں فی ہیکٹر کم ترین پیداواری سطح پر آگیا ہے۔ فرانس میں فی ہیکٹر 8.1 ٹن گندم کی پیداوار کے مقابلے پاکستان فی ہیکٹر 3.1 ٹن گندم پیدا کرتا ہے۔ چین میں کپاس کی فی ہیکٹر پیداوار 4.8 ٹن جبکہ پاکستان میں 2.5 ٹن فی ہیکٹر ہے۔ اسی طرح مصر میں گنے کی فی ہیکٹر پیداوار 125.1 ٹن ہے اور پاکستان میں 63.4 ٹن۔ امریکہ میں چاول کی فی ہیکٹر پیداوار 9.2 ٹن کے مقابلے پاکستان میں 2.7 ٹن ہے۔ پاکستان میں کوئی بھی فصل دیگر ممالک کی پیداوار کے برابر یا اس کے قریب تر بھی نظر نہیں آتی۔ فی ہیکٹر کم پیداوار کے اثرات معیشت پر پڑتے ہیں اور صنعتی پیداوار متاثر ہوتی ہے جس سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہوتا ہے۔ چاول، مکئی، چینی اور چینی سے بنی اشیاء کی موجودہ برآمدات پاکستان کی ممکنہ برآمدی صلاحیت سے کم ہیں۔ زرعی شعبہ اب بھی بلواسطہ یا بلاواسطہ 42 فیصد افرادی قوت کو روزگار فراہم کرتا ہے اس کے باوجود تقریباً 50 فیصد پیداوار سرد خانے اور نقل و حمل کی سہولیات نہ ہونے، ناقص طریقوں (اور پروسسنگ نہ ہونے) کی وجہ سے ضائع ہوتی ہے۔
(اداریہ، دی ایکسپریس ٹریبیون، 25 جنوری، صفحہ16)

گندم
سندھ چیمبر آف ایگری کلچر نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ سندھ میں گندم کی پیداوار میں کمی ہوسکتی ہے کیونکہ فصلوں کو ضرورت کے مطابق پانی نہیں مل رہا ہے۔ حیدرآباد میں ہونے والے ایوان کے اجلاس کے بعد جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ نارا اور روہڑی کنال کے علاقوں میں پانی کی شدید کمی ہے۔ یہ دونوں نہریں پانچ ملین ایکڑ زمین کو سیراب کرتی ہیں۔ کاشتکاروں نے اجلاس کے دوران بتایا کہ گنے کی کرشنگ میں تاخیر کی وجہ سے گندم کی کاشت پہلے ہی متاثر ہوچکی ہے۔ سال 2016-17 میں برقت بوائی کے نتیجے میں سندھ میں چھ ملین ٹن گندم کی شاندار فصل ہوئی تھی لیکن اس سال پانی کی کمی اور بوائی میں تاخیر کی وجہ سے پیداوار میں کمی کا خدشہ ہے۔ جنرل سیکریٹری سندھ چیمبر آف ایگری کلچر زاہد حسین بھرگڑی نے کہا ہے کہ سندھ حکومت فصلوں کو تباہ کرنے والے ناقص بیجوں کی فروخت پر پابندی عائد کرے اور بیج کی پیداوار کے سرکاری محکمے کو فعال کیا جائے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 29 جنوری، صفحہ5)

گنا
سندھ ہائی کورٹ نے صوبہ سندھ کے شوگر مل مالکان کو ہدایت کی ہے کہ وہ کاشتکاروں سے 160 روپے فی من قیمت پر گنا خریدیں۔ جسٹس عقیل احمد عباسی کی سربراہی میں بینچ نے کاشتکاروں اور مل مالکان کے درمیان گنے کی قیمت کے تنازعے کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران ملوں کی جانب سے کہا گیا کہ وہ گنا 140 روپے فی من سے زیادہ قیمت پر نہیں خریدسکتے جس پر کاشکاروں کے وکیل کا کہنا تھا کہ ملیں اس سے پہلے کسانوں کو 162 روپے فی من گنے کی قیمت کی پیشکش کرچکی ہیں۔ کاشتکاروں کی جانب سے درخواست کی گئی تھی کہ عدالت یہ یقینی بنائے کہ ملیں اسی قیمت پر گنا خریدیں جس کی وہ پہلے پیشکش کرچکی ہیں۔
(ڈان، 31 جنوری، صفحہ19)

کھجور، کینو
محکمہ زراعت پنجاب نے صوبے میں کھجور کے درختوں کی مفت تقسیم اور بغیر بیج کے کینو کی رعایتی قیمت پر فراہمی کے 780 ملین روپے کے پانچ سالہ منصوبے کے آغاز کیا ہے۔ منصوبے کے تحت محکمہ زراعت جنوبی پنجاب کے نو اضلاع بھاولپور، ملتان، جھنگ، رحیم یار خان، ڈیرہ غازی خان، لیہ، مظفر گڑھ، بھکر اور راجن پور میں کسانوں کو کچھور کے درخت مفت فراہم کرے گا جبکہ بغیر بیج کے کینو کے پودے چھ اضلاع سرگودھا، ٹوبہ ٹیگ سنگھ، منڈی بہاؤالدین، ساہیوال، ویہاڑی اور لیہ کے کسانوں کو رعایتی قیمت پر فراہم کیے جائیں گے۔ کسان اس سلسلے میں درخواست فارم ضلعی ڈپٹی ڈائریکٹر زراعت کے دفتر سے حاصل کرسکتے ہیں۔
(بزنس ریکارڈر، 31 جنوری، صفحہ7)

ڈیری
دودھ کے خوردرہ، تھوک فروشوں اور ڈیری فارمرز نے مشترکہ طور پر کراچی پریس کلب کے باہر دودھ کی قیمت میں 30 روپے فی لیٹر اضافے کے لیے دھرنا دیا۔ مظاہرین نے دعوی کیا ہے کہ انہیں دودھ کی موجودہ قیمت 85 روپے فی لیٹر کی وجہ سے نقصانات کا سامنا ہے۔ سپریم کورٹ نے گائے اور بھینسوں کو ہارمون کے ٹیکے لگانے سے روک دیا ہے جس کے نتیجے میں دودھ کی پیداوار کم ہوگئی ہے۔ آل کراچی فریش ملک ہولسیلرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کے صدر حاجی جمیل کا کہنا تھا کہ ہارمون کے ٹیکوں پر پابندی کے بعد دودھ کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہوگیا ہے اور فارمر موجودہ قیمت پر دودھ فراہم نہیں کرسکتے۔ کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے حکام کے مطابق کراچی میں یومیہ 7.5 ملین لیٹر دودھ کی کھپت ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 25 جنوری، صفحہ5)

ماحول
عالمی بینک کی ایک رپورٹ (کلیننگ پاکستانز ایئر : پالیسی آپشنز ٹو ایڈریس دی کاسٹ آف آوٹ ڈور ایئر پلوشن) کے مطابق پاکستان میں شہروں میں فضائی آلودگی دنیا کی بدترین آلودگی میں شامل ہے۔ فضائی آلودگی کے بھیانک اثرات ہر سال نوجوانوں میں 20,000 سے زائد قبل ازوقت اموات اور بچوں میں ہر سال تقریباً 5,000,000 بیماری کے واقعات کے ذمہ دار ہیں۔ پاکستان جنوبی ایشیا میں بڑی شہری آبادی والا ملک ہے جہاں توانائی، گاڑیوں کا استعمال اور فضائی آلودگی میں اضافہ ہورہا ہے جو ناصرف آبادیوں کی صحت اور ان کے معیار زندگی کو نقصان پہنچاتی ہے بلکہ ماحول کو بھی متاثر کرتی ہے۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ 2007-2011 کے درمیان سلفر ڈائی آکسائیڈ اور سیسہ (لیڈ) کی مقدار عالمی ادارہ صحت (ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن) کے مقررہ معیار سے کہیں زیادہ تھی۔ محکمہ تحفظ ماحولیات پاکستان (پاکستان انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی) کے سابق ڈائریکٹر آصف شجاع خان کا کہنا ہے کہ یہ رپورٹ 2014 میں شائع کی گئی تھی جس کے اعداوشمار میں ہوسکتا ہے کہ اب تک اضافہ ہوگیا ہو۔ فضائی آلودگی میں اضافے کے اہم کردار سیمنٹ، چینی، لوہا، کھاد اور بجلی کے پیداواری کارخانے زیادہ تر فرنس آئل استعمال کرتے ہیں جس میں سلفر کی مقدار زیادہ ہوتی ہے جو فضائی آلودگی کا اہم جز ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 29 جنوری، صفحہ2)

پالیسی
پنجاب حکومت صوبے میں زرعی پیداوار کی تجارت (مارکیٹنگ) کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے ایک ایگری کلچرل مارکیٹنگ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کررہی ہے اور اس کے علاوہ ایک ورچوئل منڈی بھی متعارف کروارہی ہے۔ یہ اتھارٹی زرعی پیداوار کے تجارتی نظام کو فروغ دینے کے لیے قائم کی جارہی ہے جو مختلف زرائع سے تجارتی ترقی کی راہ ہموار کرسکتی ہے۔ اتھارٹی معاہدے پر مبنی زراعت (کنٹریکٹ فارمنگ) اور زرعی پیداوار کی خرید وفروخت کے دیگر زرائع (مارکیٹنگ چینل) کو فروغ دے گی۔ زرعی پیداوار کی شفاف نیلامی کے بہتر مقامی اور بین الاقوامی طریقوں کو بھی فروغ دیا جائے گا۔ اتھارٹی مخصوص زرعی پیداوار کی درجہ بندی، کاشتکاری کے بہتر طریقوں کے استعمال اور نامیاتی طریقہ زراعت کے لئے مختلف معیارات بھی مقرر کریگی۔ اتھارٹی ڈیلرز کی جانب سے زرعی پیداوار کے خریداری مراکز قائم کرنے کے لیے قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد لائسنس جاری کرے گی۔
(ڈان، 29 جنوری، صفحہ2)

نکتہ نظر
خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ میں پولیس اور فرنٹیئر کانسٹبلری کی جانب سے کسانوں کو زمین اور گھر سے بیدخل کیے جانے کے دوران ایک کسان عورت کی احتجاجاً خودسوزی اور جاگیردار کے مسلح کارندوں کی جانب سے زمین سے کسانوں کی جبراً بیدخلی ملک میں بڑھتے ہوئے ظلم، جبر، ناانصافی، عدم مساوات کی صورتحال کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔ ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی زرعی پیداوار سے جڑی ہے اور ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ ایسے میں عوامی خوشحالی، اور ملک سے بھوک و غربت کا خاتمہ صرف اور صرف کسان مزدور مرد و عورتوں میں زمین کی منصفانہ اور مساویانہ تقسیم سے ہی ممکن ہے ناکہ ان سے زمین چھین لینے میں۔ غیر پائیدار طریقہ زراعت و صنعت ملک میں آبی وسائل کو تو زہر آلود کرہی رہا ہے اب فضائی آلودگی بھی ملکی آبادیوں کو بری طرح متاثر کررہی ہے جس کی شدت میں سی پیک میں شامل توانائی منصوبوں اور دیگر صنعتوں کے قیام سے مزید اضافے کا امکان ہے۔ ملک کو درپیش جملہ مسائل کا حل زمین، پانی اور دیگر پیداواری وسائل پر عوامی اختیار کی صورت ہی نکالا جاسکتا ہے جس میں وسائل کے پائیدار استعمال سے صاف ستھرا ماحول، بھوک و غربت اور ناانصافی کا خاتمہ ممکن ہے۔