زرعی خبریں جنوری 2021

یکم جنوری تا 31 جنوری 2021

زمین

ترجمان سندھ حکومت مرتضی وہاب نے کہا ہے کہ پاکستان آئی لینڈ اتھارٹی آرڈننس 31 دسمبر، 2020 کو ختم ہوگیا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت جانتی ہے کہ اس کے پاس قومی اسمبلی سے اس آرڈننس کی منظوری کے لیے درکار اکثریت نہیں ہے۔ اس آرڈننس پر حکومتی اتحادی بھی اس کا ساتھ نہیں دیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ آرڈننس ستمبر میں پیش کیا گیا تھا لیکن وفاقی حکومت کے پاس اس آرڈننس کو بطور بل قومی اسمبلی میں پیش کرنے کی استعداد نہیں تھی۔
(بزنس ریکارڈر، 3 جنوری، صفحہ3)

مختلف دیہات کے رہائشیوں نے حکومت کی جانب سے راوی ریور فرنٹ اربن ڈیولپمنٹ پرجیکٹ کے لیے جبراً زمینوں کے حصول کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا ہے۔ مظاہرین نے حکومت کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے عمران خان کو ”لینڈ مافیا کا سرغنہ قرار دیا“۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کے لیے مختص کیا جانے والا علاقہ تازہ سبزیوں اور پھلوں کی پیداوار سے مالا مال ہے جہاں سے لاہور سمیت دیگر شہروں میں پھل سبزیاں ترسیل ہوتی ہیں۔ حکمران لینڈ ایکوزیشن ایکٹ کے نام پر ان کی زمین پر قبضے کی کوشش کررہے ہیں جو انہیں منظور نہیں۔ ایک مقامی کاشتکار حاجی عبدالغنی کا کہنا ہے کہ لینڈ ایکوزیشن ایکٹ صرف مفاد عامہ کے لیے زمین حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ کوئی قانون یہ اجازت نہیں دیتا کہ مقامی لوگوں کی زمین حاصل کرکے اس پر رہائشی منصوبے بنائے جائیں اور انہیں لینڈ مافیا کے حوالے کردیے جائیں“۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ دریائے راوی سے متصل زمین کو حکومت غلط بیانی کرتے ہوئے بنجر قرار دے رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ”ہم حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ اس علاقے کا دوبارہ سروے کرنے کے لیے ایک آزاد کمیشن قائم کیا جائے اور دیکھا جائے کہ یہ زمین کتنی زرخیز ہے۔ ہم اپنی زمینیں عوامی مفاد میں نہر اور جھیل کی تعمیر کے لیے دینے کے لیے تیار ہیں، لیکن ہم اپنی زمینیں رہائشی کالونیاں بنانے کے لیے نہیں دیں گے“۔
(ڈان، 25 جنوری، صفحہ2)

زراعت

سندھ آبادگار اتحاد (ایس اے آئی) نے ایران سے ٹماٹر اور پیاز کی درآمد کے خلاف 14 جنوری کو احتجاج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ درآمد پر پابندی کا مطالبہ کرتے ہوئے ایس اے آئی کا کہنا ہے کہ دونوں فصلیں تیار ہیں اس کے باجود اب بھی حکومت ٹماٹر اور پیاز درآمد کررہی ہے۔
(ڈان، 8 جنوری، صفحہ15) Continue reading

زرعی خبریں دسمبر 2020

یکم تا 31 دسمبر، 2020

زمین

پنجاب کابینہ نے چولستان اور رحیم یار خان میں متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے صدر کو دی گئی سرکاری زمین کی لیز میں گزشتہ نرخوں پر ہی توسیع دے دی ہے۔ کابینہ کے اجلاس میں وزیر اعلی عثمان بزدار کا کہنا تھا کہ زمین کی لیز میں توسیع کا عمل پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تعلقات کو مستحکم کرے گا۔ اجلاس میں راوی اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی (آر یو ڈی اے)کی زمین کے حصول کے لیے پانچ بلین روپے قرض اور اس کے ماسٹر پلان کے لیے سرکاری زمین کی منظوری بھی دی گئی ہے۔
(ڈان، 18 دسمبر، صفحہ2)

سندھ یونائیٹڈ پارٹی (ایس یو پی) کے صدر سید جلال محمود شاہ نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے بڈو اور بنڈل آئی لینڈ سے سندھ اور بلوچستان کے جزائر پر قبضے کا آغاز کردیا ہے۔ پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آرڈننس کے حوالے سے ایک روزہ قومی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت 31 اگست کو آئین کو نظرانداز کرتے ہوئے آرڈننس لیکر آئی۔ ”سندھ کے عوام کے ساتھ دھوکہ بازی کرتے ہوئے پیپلز پارٹی اور وفاقی حکومت نے اس آرڈننس کو خفیہ رکھا“۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت کی سندھ اور بلوچستان کے جزائر پر نظر ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آئین کی دفعہ 172 (2) اور میری ٹائم ایکٹ 1976 کے تحت یہ واضح ہے کہ سمندر میں 12 بحری میل (ناٹیکل مائل) کے اندر جو بھی معدنیات ہیں وہ صوبے کی ہیں۔
(ڈان، 29 دسمبر، صفحہ13) Continue reading

زرعی خبریں نومبر 2020

یکم نومبر تا 30 نومبر 2020

زمین

کراچی میں بحیرہ عرب کے ساحل کے ساتھ دو چھوٹے جزائر پر چمکتے دمکتے نئے دبئی کی تعمیر کے جھگڑے میں اکثر ان ماہی گیروں کی آواز نہیں سنی جاتی جنہوں نے صدیوں ان پانیوں میں ماہی گیری کی ہے۔ جاموٹ جیٹی، ابراہیم حیدری کے 25 سالہ ماہی گیر شکیل کا کہنا ہے کہ ان جزائر کے اطراف جہاں وہ مچھلی، کیکڑے اور جھینگے پکڑتے ہیں، اب مسلح محافظ گشت کرتے ہیں۔ ”ہم ان پانیوں میں صدیوں سے ماہی گیری کررہے ہیں“۔ لیکن جب انہوں نے حال ہی میں ڈنگی جزیرے کے قریب جانے کی کوشش کی تو مسلح محافظوں نے انہیں پکڑلیا اور مرغا بننے کا حکم دیا۔ ایک ماہ پہلے کراچی میں کورنگی کریک کے قریب بنڈل اور ڈنگی جزائر پر راتوں رات ایک صدارتی آرڈننس کے ذریعے قبضہ کرلیا گیا۔ گورنر سندھ عمران اسماعیل کے مطابق حکومت کا مقصد 50 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری سے ایک شہر کی تعمیر ہے جو دبئی کو پیچھے چھوڑ دے اور 150,000 ملازمتیں پیدا کرے۔ لیکن ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ 49 کلومیٹر پر پھیلے ان جزائر پر تعمیر ان کا روزگار تباہ کرسکتی ہے۔ مزید یہ کہ ان سے اس معاملے پر مشاورت بھی نہیں کی گئی۔
(ڈان، 4 نومبر، صفحہ3) Continue reading

زرعی خبریں اکتوبر 2020

یکم تا 31 اکتوبر 2020

زمین

سندھ ہائی کورٹ کے سکھر بینچ نے کور کمانڈر کراچی کو ہدایات جاری کی ہیں کہ دریائے سندھ کے ساتھ ہزاروں ایکڑ سرکاری زمین بااثر قبضہ گیروں سے بازیاب کروائی جائے۔ دوران سماعت عدالت نے کہا کہ ”ہزاروں ایکڑ جنگلات کی زمین بااثر افراد کے قبضے میں ہے کیونکہ محکمہ جنگلات اور پولیس حکام نے ان سے ہاتھ ملا رکھا ہے“۔
(ڈان، 2 اکتوبر، صفحہ15) Continue reading

‘Capitalist dominated agriculture system results in food crisis’

Bureau Report Ι 19 Oct 2020

Quoting Pakistan Economic Survey 2019-20, they said the Covid-19 pandemic had a severe negative impact on Pakistani economy and at least another 10 million people were feared to be pushed below the poverty line in the country.

These activists belong to different civil society organisations including Roots for Equity and Pakistan Kisan Mazdoor Tehreek (PKMT), which in collaboration with People’s Coalition for Food Sovereignty, Pesticide Action Network Asia and Pacific and Asian Peasant Coalition marked the World Food Day as “World Hunger Day” on Oct 16 by holding protests and a webinar attended by participants from different cities.

This year’s global campaign focuses on the plight of rural populations during the pandemic and their demands for change in the food and agriculture systems.

Another leader of PKMT from Sahiwal, Mohammad Zaman, stated that according to Pakistan Economic Survey 2019-20, because of the Corona virus around 10 million people were feared to be pushed to living below the poverty line in the country.

He said that in the Global Hunger Index, Pakistan ranked 106 out of 119 countries where consumption of meat, poultry, fish, milk, vegetables and fruits was six to 10 times lower than that of developed countries.

Roots for Equity’s chairperson Dr. Azra Sayeed stated that according to National Nutrition Survey 2018, 53% of children and 44.3% of women in the country are suffering from anemia.

She said that the livestock and dairy sector accounted for 56% of the total agricultural production and majority of the farmers involved in milk and meat production were small scale.

“It consisted of cattle breeders, especially women, who make it possible to produce 60 billion liter of milk annually in the country, but these same rural populations are starving themselves as a result of monopoly of capitalist companies in the food and agriculture sector,” she added.

Another representative of Roots for Equity, Wali Haider, said the domination of imperialist powers over global food and agriculture system had linked the rural economy in the third world countries like Pakistan to the global agriculture market.

“This has resulted in the most important resources like our agriculture produce, our land and water have become a source of surplus profit for multinational corporations,” he said adding that there was an urgent need to change the system where farmers were forced to depend on seeds, chemicals and toxic inputs of multinational companies.

Published in Dawn, October 19th, 2020

https://www.dawn.com/news/1585819

World Food Day marked as world hunger day

Our Correspondent, October 18, 2020
SUKKUR: Roots for Equity and Pakistan Kissan Mazdoor Tehreek (PKMT) in collaboration with People’s Coalition for Food Sovereignty (PCFS), Pesticide Action Network, Asia and Pacific (PAN AP) and Asian Peasant Coalition (APC) marked the World Food Day as World Hunger Day.

زرعی خبریں ستمبر 2020

ستمبر 1 تا 30 ستمبر 2020

زمین

لاہور ہائی کورٹ نے انجمن مزارعین پنجاب (اے ایم پی) کے سابق جنرل سیکریٹری مہر عبدالستار اور رکن عبدالغفور کو دہشت گردی اور دیگر الزامات سے بری کردیا ہے۔ دونوں رہنما پہلے ہی ساہیوال کی زیریں عدالت میں 12 مقدمات میں بری ہوچکے ہیں اور اس وقت اوکاڑہ میں مجسٹریٹ کی عدالت میں ان کے خلاف تین مقدمات زیر التواء ہیں۔
(ڈان، 9 ستمبر، صفحہ2)

کراچی پریس کلب میں غیر سرکاری تنظیموں نے سے کراچی کے قریب دو جزائر ڈنگی اور بنڈل آئی لینڈ پر نئے شہر کی تعمیر کی خبروں پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ”ماہی گیروں کے روزگار پر حملہ ہے اور یہ سمندر کے لیے مزید تباہ کن ہوگا“۔ ان دو جزائر پر تعمیرات کے لیے وفاقی حکومت کی پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے قیام کی تجویز پر تنقید کرتے ہوئے ان تنظیموں کا کہنا تھا کہ ”سندھ کی ساحلی پٹی کے ساتھ تقریباً 300 جزائر ہیں جو دریائے سندھ کی آنے والی مٹی سے وجود میں آئے ہیں۔ ان جزائر کے ارد گرد سمندر کی طرف جانے والی کھاڑیوں (کریک ایریاز) کو ماہی گیر کشتیاں استعمال کرتی ہیں، جزائر پر نئے شہر کی تعمیر کے بعد ان غریب ماہی گیروں کو متبادل راستے تلاش کرنے پڑیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ”یہ ترقی نہیں ہے، یہ بربادی ہے“۔ اطلاعات کے مطابق ایک اتھارٹی کے قیام کے لیے مجوزہ قانون تیار کرلیا گیا ہے جو پارلیمنٹ میں منظوری کے لیے پیش ہوگا۔ اس اتھارٹی کے قیام کا بنیادی مقصد ان دو جزائر پر قبضہ کرنا اور نئے شہر کی تعمیر کرنا ہے۔ جنرل مشرف کی حکومت میں دو بار 2000 اور 2006 میں ان دو جزائر پر تعمیرات کی کوشش کی گئی تھی لیکن یہ منصوبہ کئی وجوہات کی وجہ سے ناکام ہوگیا تھا۔ اس کے بعد 2013 میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے ملک ریاض کے ذریعے ان جزائر کی تعمیر کی کوشش کی لیکن سپریم کورٹ نے تعمیرات پر پابندی عائد کردی تھی۔ یہ دونوں جزائر سندھ کے عوام کی ملکیت ہیں جن پر ماہی گیروں کا روایتی حق ہے جبکہ سندھ حکومت اس کی زمین اور جنگلات کی نگراں ہے۔
(ڈان، 16 ستمبر، صفحہ13) Continue reading

The Struggle of Rural Communities for Food System Change!

Press Release

October 16, 2020

Roots for Equity and the Pakistan Kissan Mazdoor Tehreek (PKMT) in collaboration with  People’s Coalition for Food Security (PCFS), Pesticide Action Network, Asia and  Pacific (PAN AP) and Asian Peasant Coalition (APC) is marking the World Food Day as World Hunger Day on October 16, 2020. A webinar and protest has been organized in this regard in which small and landless peasants including PKMT members participated from different districts.

This event is part of a campaign, launched on the occasion of World Hunger Day, and titled “Rural People are Hungry for Food System Change”. It aims to promote a strategy for highlighting the toxic impacts of industrial chemical agriculture production systems and the acute need for food sovereignty and agro-ecology based food production systems. This year’s global campaign focuses on the plight of rural populations during the pandemic, and their demands for changes in the food and agricultural systems.

Tariq Mehmood, a member of PKMT, Khyber Pakhtunkhwa, spoke on the situation of hunger, poverty and unemployment during the Covid19 pandemic, He said that the transnational mega agro-chemical corporations’ domination in the food and agriculture system around the world, their exploitation and destruction of biodiversity and natural habitats is a catalyst for Corona pandemic.

According to a report by the United Nations FAO (The State of Food Security and Nutrition in the World), the epidemic could lead another 83 to 132 million people suffering from hunger by 2020, and if the current situation continues by 2030, 841.4 million people in the world will be hungry.

According to a member of PKMT Mohammad Zaman from Sahiwal, it is reported in the Pakistan Economic Survey 2019-20, the corona virus had a severe negative impact on the Pakistani economy and at least another 10 million people are feared to be pushed to living below the poverty line in Pakistan. The number could increase from 50 million presently to 60 million.

In the Global Hunger Index, Pakistan ranks 106th out of 119 countries where consumption of meat, poultry, fish, milk, vegetables and fruits is six to 10 times lower than that of developed countries. The worsening situation of hunger and poverty can be gauged from the statement of Sania Nishtar, Special Assistant to the Prime Minister for Poverty and Social Protection, that “almost half of the country’s population will be covered by the Ehsas Program.” The statement indicates that in Pakistan, where almost half of the population is employed in the agricultural sector, the current epidemic of rising hunger, poverty and unemployment has exacerbated the pervasive exploitation and brutality of this rotten food and agriculture system that is based extracting super-profits from the poorest segments of society.

Speaking on the global food and employment crisis, Wali Haider, of Roots for Equity said that rural populations around the world are already aware of these facts and now the food and employment crisis and growing hunger during the Corona virus pandemic has proved that the current system of food and agriculture, which is dominated by the big capitalist countries and their for profit companies, has failed.

This domination of the imperialist powers over the global food and agriculture system has linked the local rural economy, in third world countries like Pakistan, to the global agricultural market. This has resulted in the most important resources like our agricultural produce, our land and water have become a source of surplus profits for multinational corporations.  A clear example of this is the increasing production of sugarcane and other cash crops for the production and export of agro-fuels like ethanol, while the production of the most important food crops such as wheat is declining.

This is one of the reasons for the rise in food prices and the consequent increase in hunger. There is an urgent need to change the system where farmers are forced to depend on seeds, chemicals and toxic inputs of companies. These chemicals also pollute the entire food and agricultural system and destruction of the ecosystems and biodiversity.

In contrast, a sustainable food production system, agro-ecology, provides farmers with a strategy that protects not only their rights but also of other small food producers. Farmers’ right to land under agro ecology guarantees the establishment of collective and individual seed banks and their exchange. It also protects and promotes safe and natural systems of food and agriculture production ensuring food security of the most marginalized and vulnerable communities as well as safe nutritious food and environment for all.

Speaking on the women farmers’ rights Azra Sayeed of Roots for Equity said that the livestock and dairy sector accounts for 56% of the total agricultural production and the majority of farmers involved in milk and meat production are small scale. It consists of cattle breeders, especially women, who make it possible to produce 60 billion liters of milk annually in the country, but these same rural populations are starving themselves as a result of the monopoly of capitalist companies in the food and agriculture sector.

In the name of achieving so called standardization of milk, meat and other foods, corporations are paving a clear path to monopolizing the dairy and meat sector. This will only lead to further exacerbation of hunger and malnutrition in the country. It is important to note that according to the National Nutrition Survey 2018, 53% of children and 44.3% of women in the country are suffering from anemia.

Raja Mujeeb, a member of PKMT Sindh, referring to the small and landless peasants are most affected by the Covid19 epidemic, said that food producers have been forced to depend on poor quality seeds where the companies have established a monopoly and at the same time land is in the hands of feudal lords and increasing encroachment of capitalist systems of production and marketing.

If the farmers have control over all the productive resources including land and seeds, then our farmers, laborers, fishermen and the rural population can get food even in the face of the current pandemic or any kind of emergency. That is why PKMT believes that food sovereignty and self-sufficiency in food and agriculture based an end to feudalism through just and equitable land distribution among farmers and imperialist food policies is critical for a peaceful democratic sovereign state!

Released by: Roots for Equity & Pakistan Kissan Mazdoor Tehreek (PKMT)

Press Release in Urdu (PDF)

زرعی خبریں آگست 2020

اگست 1 تا 31 اگست، 2020

زراعت

ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) نے اپنی تازہ ترین مختصر رپورٹ (کووڈ۔19 امپیکٹ آن فارم ہاؤس ہولڈ ان پنجاب، پاکستان: اینالسس آف ڈیٹا فرام اے کراس سیکشنل سروے) میں کہا ہے کہ زرعی مداخل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے شدید خدشات پیدا کردیے ہیں کیونکہ کسان کورونا وائرس کے دوران اپنی نقد آمدنی سے محروم ہوگئے ہیں جو پاکستانی معیشت کے لیے اہم مسائل کی وجہ بن ہوسکتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس کی وباء سے پہلے 2019-20 میں پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار میں اضافے کی شرح 3.2 فیصد تھی جس میں زراعت کا حصہ 2.9 فیصد تھا۔ تاہم کورونا وائرس کے بعد مجموعی قومی پیداوار میں اضافے کی شرح کا اندازہ منفی 0.4 فیصد لگایا گیا ہے جس میں زراعت وہ واحد شعبہ ہے جس میں بڑھوتری کی شرح مثبت 2.7 فیصد ہے۔ پنجاب میں 400 سے زیادہ کسانوں سے کورونا وائرس کی وجہ سے نافذ کیے گئے لاک ڈاؤن اور ٹڈی دل حملے کے اثرات پر سروے کیا گیا تھا۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ایک تہائی کسان آمدنی سے محروم ہوئے اور سروے کیے گئے 22 فیصد گھرانوں کے افراد شہروں سے واپس گھر آگئے تھے۔ لاک ڈاؤن نے زیادہ قدر والی زرعی اشیاء جیسے پھل، سبزی اور دودھ کے ترسیلی نظام (فوڈ سپلائی چین) کو متاثر کیا ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 11 اگست، صفحہ14) Continue reading

زرعی خبریں جون 2020

جون 1 تا 30 جون، 2020

زراعت

وفاقی وزیر برائے قومی غذائی تحفظ و تحقیق سید فخر امام نے ایک جائزہ اجلاس کے دوران کہا کہ وفاقی حکومت 37 بلین روپے کے زرعی پیکج کے کامیاب نفاذ کے لیے صوبوں کے ساتھ ہر سطح پر تعاون کرے گی۔ اس پیکج میں کیمیائی کھاد، کپاس کے بیج، سفید مکھی کیڑے مار زہر پر زرتلافی شامل ہے۔ پیکج میں زرعی قرضوں پر سود میں کمی اور مقامی طور پر تیار ہونے والے ٹریکٹروں کی فروخت پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ بھی شامل ہے۔ زرعی پیکچ میں کسانوں کو کھاد کی خریداری پر 37 بلین روپے زرتلافی کی پیشکش کی گئی ہے۔
(ڈان، 4 جون، صفحہ9)

وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے فارمرز ایسوسی ایشن آف پاکستان (ایف اے پی) کے وفد کو یقین دہانی کروائی ہے کہ اگلے مالی سال کے بجٹ میں 50 بلین روپے کا زرعی پیکچ ان کا ہدف ہوگا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت نے کسانوں کے لیے امداد میں اضافے اور انہیں براہ راست زرتلافی دینے کے لیے یہ پیکج منظور کیا ہے اورکسانوں کو براہ راست رقم کی فراہمی حکومت کی اولین ترجیح رہے گی۔ وفد نے عبدالحفیظ شیخ سے ملاقات کرکے بجٹ تجاویز جمع کروائی ہیں جن میں کیمیائی کھاد کی درآمد پر ڈیوٹی میں کمی، زرعی قرضوں کی معافی اور اس کی شرح سود میں کمی، زرعی ٹیوب ویلوں کے لیے بجلی کے نرخوں میں کمی اور زرعی و مال مویشی شعبہ سے متعلق اشیاء کی درآمد و برآمد کو آزاد (ڈی ریگولیٹ) کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 9 جون، صفحہ1)

پاکستان اقتصادی سروے 2019-20 کے مطابق کرونا وائرس سے زرعی شعبہ پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا ہے۔ مجموعی طور پر گزشتہ سال 0.5 فیصد بڑھوتری کے مقابلے اس سال 2.67 فیصد بڑھوتری ہوئی۔ سوائے کپاس اور گنے کے تمام فصلوں کی پیداوار میں بڑھوتری مثبت رہی ہے۔ تاہم 2019 کے آخر میں شروع ہونے والے ٹڈی دل حملوں سے بلوچستان، پنجاب اور سندھ میں اہم پیداواری علاقوں میں فصلوں کو نقصان ہوا ہے۔ ابتدائی اندازے ظاہر کرتے ہیں کہ 115,000 ہیکٹر پر فصلیں بشمول گندم، روغنی بیج، کپاس، دالیں، پھل و سبزی اور چراہ گاہیں متاثر ہوئی ہیں۔ چاول کی پیداوار 2.9 فیصد اضافے سے 7.410 ملین ٹن جبکہ مکئی کی پیداوار چھ فیصد اضافے سے 7.236 ملین ٹن ہوئی۔ کپاس کی پیداوار 6.9 فیصد کم ہوکر 9.178 ملین گانٹھیں ہوئی جبکہ گنے کی پیداوار 0.4 فیصد کمی کے بعد 66.880 ملین ٹن ہوئی۔ گندم کی پیداوار 2.5 فیصد اضافے کے بعد تقریباً 25 ملین ٹن رہی۔
(ڈان، 12 جون، صفحہ10) Continue reading