ہفتہ وار زرعی خبریں اپریل 2020

اپریل 9 تا 15 اپریل، 2020

زراعت

وزیر زراعت سندھ، محمد اسماعیل راہو نے ٹڈی دل کا کرونا وائرس سے موازنہ کرتے ہوئے سندھ میں ٹڈی دل کے خاتمے کے لیے فضائی چھڑکاؤ نہ کرنے پر وفاقی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ ٹڈی دل کرونا وائرس کی طرح ہی خطرناک ہوسکتا ہے۔ ٹڈی دل گھوٹکی میں پہلے ہی حملہ آور ہوچکے ہیں جن کے خاتمے کے لیے وفاقی حکومت نے انتہائی معمولی اقدامات کیے جس کے نتیجے میں صوبائی محکمہ خوراک کو فضائی چھڑکاؤ کے انتظامات کرنے پڑے۔ صوبائی وزیر نے محکمہ تحفظ نباتات (پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ) کی کاہلی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ”اگر یہ ادارہ باقاعدہ کام نہیں کرسکتا تو اسے بند کردینا چاہیے“۔ ٹڈی دل کا خاتمہ صرف فضائی چھڑکاؤ سے ہی کیا جاسکتا ہے جو وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 13 اپریل، صفحہ5)

مواصلاتی رابطے (ویڈیو لنک) کے زریعے وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے ایک نئے بحران سے بچنے کے لیے غذائی تحفظ پالیسی کے تحت گندم، چاول اور دالوں جیسی اشیاء کی برآمد پر پابندی عائد کرنے پر زور دیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت گندم کی کٹائی جاری ہے اور ہوسکتا ہے کہ گندم کے ذخائر ضرورت سے زیادہ ہوں، لیکن کسی بھی فیصلے سے پہلے رواں سال اور اگلی فصل تک مقامی کھپت کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ اگر ان اشیاء کی برآمد کی اجازت دی گئی تو غذائی اجناس کی کمی کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ ان حالات میں درآمد پر آنے والی لاگت برآمد سے ہونے والے فوائد سے کہیں زیادہ ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ”ہمیں ان مشکل حالات میں اپنے ہی وسائل پر بھروسہ کرنا ہوگا اور اپنی خوراک کی خودمختاری کو یقینی بنانا پڑے گا“۔
(ڈان، 14 اپریل، صفحہ13)

ایک خبر کے مطابق پنجاب میں تحریک انصاف کے رہنما علیم خان کو سینئر وزیر برائے خوراک کے عہدے پر بحال کر دیا گیا ہے۔ اندرونی زرائع کے مطابق علیم خان کا بنیادی مطالبہ سینئر وزیر کے عہدے پر بحالی کا تھا جو انہیں وزیر اعلی سیکرٹریٹ پنجاب تک رسائی فراہم کرتا ہے، جبکہ مزید حکومتی ذمہ داریاں بھی جلد ان کے حوالے کی جانے کا امکان ہے۔ محکمہ خوراک کے حوالے سے مختصر جائزے کے دوران انہوں نے ہدایت کی ہے کہ پنجاب میں 4.5 ملین ٹن گندم کی خریداری کا ہدف ہرحال میں پورا ہونا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اضلاع سے باہر گندم کی نقل و حمل پر کوئی پابندی نہیں ہوگی جبکہ پنجاب کی سرحدوں کو بند کرکے ہر قیمت پر گندم کی غیر قانونی برآمد (اسمگلنگ) کو روکا جائے گا۔
(ڈان، 15 اپریل، صفحہ2)

گندم

وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار نے ضلع راجن پور کی تحصیل روجھان میں گندم کی کٹائی مہم 2020 کا افتتاح کردیا ہے۔ اس موقع پر وزیر اعلی پنجاب کا کہنا تھا کہ اس سال پنجاب میں گندم کا پیداواری ہدف 4.5 ملین ٹن مقرر کیا گیا ہے اور کسانوں سے 1,400 روپے فی من کے حساب سے گندم خریدا جائے گا۔ اس مہم کے دوران صوبے کے 15 خارجی اور داخلی مقامات کی نگرانی کی جائے گی۔
(بزنس ریکارڈر، 10 اپریل، صفحہ12)

فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کی گندم اور آٹے کے بحران پر رپورٹ میں ”مافیا“ قرار دیے جانے پر بے چینی کے شکار کچھ آٹا ملوں نے وزیر اعظم کو کھلا خط لکھا ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ تمام تر حالات کا جائزہ لیا جائے اور چند لوگوں پر ذمہ داری ڈالنے کے بجائے تمام ملوث افراد پر ذمہ داری عائد کی جائے۔ خط میں مزید کہا گیا ہے کہ نام نہاد آٹا مافیا کا کوئی وجود نہیں ہے۔ خط میں گندم کی برآمد پر زرتلافی کا دفاع کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس سے ناصرف زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے بلکہ سرکاری گوداموں میں سالوں سے موجود گندم کا ذخیرہ بھی فروخت ہوتا ہے جس کی غذائیت کم ہوتی رہتی ہے۔ خط میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ حکومت گندم کی صرف اشیاء (ویلیو ایڈڈ پروڈکٹ) برآمد کرنے کی اجازت دے چاہے وہ درآمدی گندم سے تیار شدہ ہی ہوں۔
(ڈان، 13 اپریل، صفحہ8)

کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے سرکاری ذخائر سے یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن (یو ایس سی) کے لیے 8.7 بلین روپے مالیت کا 200,000 ٹن اضافی گندم فراہم کرنے کی منظوری دیدی ہے۔ اضافی گندم کی فراہمی کا فیصلہ کورونا وائرس کی صورتحال میں عوام کو غذائی اشیاء پر 50 بلین روپے زرتلافی دینے کے منصوبے کا حصہ ہے۔ کمیٹی نے گندم کی فراہمی پاسکو کے ذخائر سے اقساط میں کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پہلی قسط 50,000 ٹن گندم پر مشتمل ہوگی اور فوری طور پر جاری ہوگی جبکہ بقیہ گندم یو ایس سی کی جانب سے مطالبہ پر ترسیل کی جائے گی۔
(ڈان، 14 اپریل، صفحہ12)

کپاس

منڈی کے زرائع کے مطابق ملک بھر میں کسان اس امید کے ساتھ کپاس کی کاشت میں مصروف ہیں کہ اس سال انہیں کپاس کی بہتر پیداوار حاصل ہوگی۔ تاہم کپاس کی قیمت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ سندھ میں کم معیار کی پھٹی کی قیمت 2,800 روپے جبکہ اعلی معیار کی پھٹی کی قیمت 4,100 روپے فی من ہے۔ اسی طرح پنجاب میں کم معیار کی پھٹی 2,800 روپے جبکہ اعلی معیار کی پھٹی کی قیمت 4,600 روپے فی من ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 10 اپریل، صفحہ8)

گنا

ایک مضمون کے مطابق چینی کی قیمت سے متعلق تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ نے پاکستان کے اعلیٰ پالیسی ساز حلقوں میں ایک بحث چھیڑ دی ہے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس رپورٹ میں ایسا کچھ نہیں جس سے کم از کم معاشی پالیسی سے جڑے حلقے آگاہ نہ ہوں۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ چینی کا شعبہ وہ واحد شعبہ نہیں ہے جو ریاست سے اضافی مراعات حاصل کرتا ہے۔ تحقیقاتی کمیٹی نے جو بھی انکشاف کیے وہ پاکستان میں گزشتہ کئی دہائیوں سے ہوتا آرہا ہے۔ یہاں ایسے کئی حربے اور زرائع کی بہتات ہے جس کے زریعے حکومت اس ملک میں سرمایہ داری کو فروغ دے رہی ہے۔ حکومت کو فوری طور پر چینی کے شعبہ پر اختیار ختم کرنے (ڈی ریگولیشن) کے لیے منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ ہمیں گنے کی قیمت مقرر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، کئی وجوہات کی بنا پر ہمیں گنے کی کاشت اور چینی کی پیداوار کم کرنے کی ضرورت ہے۔ گنا زیادہ پانی سے کاشت ہونے والی فصل ہے اور ملک میں کپاس کی پیداوار میں کمی کی وجہ ہے۔ چینی کا شعبہ اپنے مفاد میں کئی طرح کے قوانین کے نفاذ میں کامیاب رہا ہے جیسے کہ گڑ بنانے پر پابندی اور چھوٹے پیمانے پر چینی کی مل لگانے پر پابندی کا قانون۔
(نوید افتخار، دی ایکسپریس ٹریبیون، 13 اپریل، صفحہ18)

چینی

خبر کے مطابق پنجاب کے ایک سابق صوبائی وزیر اور پنجاب حکومت کے عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اخبار سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ چینی کی برآمد پر متنازع زرتلافی کے لیے مل مالکان کی جانب سے پنجاب حکومت پر دباؤ ڈالا گیا تھا۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کی دستاویز ظاہر کرتی ہیں کہ اگر صوبہ زرتلافی سے متعلق فیصلہ کرتا ہے تو وفاقی حکومت کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا اور حکومت پنجاب کو اس فیصلے سے آگاہ کردیا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وفاق اپنے گزشتہ فیصلے کی مخالفت نہیں کررہا اور تمام توجہ زرتلافی کے غلط استعمال پر مرکوز ہے۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اس فیصلے کے تقریباً اسی وقت لاہور میں گنے کے کاشتکار احتجاج کررہے تھے اور مل مالکان کی جانب سے گنے کی کرشنگ روکنے پر زور دیا جارہا تھا۔ پنجاب حکومت کے زرائع کے مطابق نامور شوگر مل مالکان نے سرکاری حکام پر زرتلافی کے حصول کے لیے دباؤ ڈالنے کے لیے اس احتجاج کی بلواسطہ حمایت کی۔ سابق وزیر خوراک سمیع اللہ چوہدری کا کہنا ہے کہ ”میں نے وزیر اعلی پنجاب پر زور دیا کہ مل مالکان کے دباؤ میں نہ آئیں، یہاں تک کہ میں نے انہیں تجویز دی کہ وہ مل مالکان کے خلاف ملیں دوبارہ کھولنے کے لیے سرکاری طاقت کا استعمال کریں“۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 12 اپریل، صفحہ3)

ماہی گیری

سمندری خوراک کے برآمد کنندگان نے سندھ حکومت کی جانب سے بندرگاہ پر ماہی گیر سرگرمیوں کی بندش کو سمندری خوراک کی برآمد پر پابندی قرار دیا ہے۔ برآمد کنندگان نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس اقدام سے سمندری خوراک کی صنعت (پروسسنگ یونٹس) کو مالی نقصان ہوگا۔ سندھ حکومت نے صوبہ میں کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں اضافے کے بعد 12 اپریل کو ایک حکم نامے کے ذریعے فش ہاربر پر ماہی گیری سے متعلق تمام سرگرمیاں معطل کردی تھیں۔
(بزنس ریکارڈر، 15 اپریل، صفحہ12)

غربت

کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے ایک اجلاس میں 2.5 بلین روپے کے رمضان پیکج کی منظوری دیدی ہے۔ حکومت اس پیکچ کے تحت یوٹیلیٹی اسٹور پر فروخت ہونے والی پانچ غذائی اشیاء کی موجودہ قیمت پر فراہمی کو یقینی بنائے گی۔ اس پیکج کا آغاز رمضان سے ایک ہفتے قبل 17 اپریل سے ہوگا۔
(ڈان، 9 اپریل، صفحہ12)

ملک میں کورونا وائرس کے باعث کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن (یو ایس سی) کے لیے 50 بلین روپے منظور کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایک سرکاری افسر کے مطابق اس رقم میں رمضان پیکچ کے 2.5 بلین روپے بھی شامل ہیں۔ مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی سربراہی ہونے والے کابینہ کی اقتصادی کمیٹی کے اجلاس میں مینجنگ ڈائریکٹر یو ایس سی کو ہدایت کی گئی ہے کہ کرونا وائرس کے دوران اور ماہ رمضان کی آمد کے موقع لازمی غذائی اشیاء کی قیمت میں کمی کو یقینی بنایا جائے۔ اجلاس میں آگاہ کیا گیا کہ دسمبر 2019 سے یو ایس سی کو لازمی غذائی اشیاء کی خریداری کے لیے 21 بلین روپے فراہم کیے جاچکے ہیں۔
(بزنس ریکارڈر، 9 اپریل، صفحہ1)

وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ 2.5 بلین روپے کے امدادی (رمضان) پیکج کا اعلان کیا گیا تھا جسے بڑھا کر سات بلین روپے تک کردیا جائے گا۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم نے یو ایس سی کے ذریعے زرتلافی کی حامل ضروری اشیاء کی متواتر فراہمی کے لیے 10 بلین روپے منظور کیے ہیں۔ حکومت نے یوٹیلٹی اسٹوروں پر یہ امدادی پیکچ عید تک بڑھادیا ہے۔ اس سے پہلے پانچ اشیاء پر زرتلافی فراہم کی جارہی تھی لیکن اب 19 اشیاء رعایتی قیمت پر دستیاب ہونگی۔
(بزنس ریکارڈر، 10 اپریل، صفحہ1)

وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے انسداد غربت ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے کہا ہے کہ حکومت اب تک احساس ایمر جنسی کیش پروگرام کے تحت 1.77 ملین افراد میں 22.466 بلین روپے تقسیم کرچکی ہے۔ 12,000 روپے فی خاندان رقم کی فراہمی میں درپیش مشکلات کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کچھ ارکان نے اس نقد رقم میں سے کٹوتی کی ہے جو برداشت نہیں کی جائے گی اور زمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ ایسے 40 افراد کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 13 اپریل، صفحہ1)

نکتہ نظر

اس ہفتے کی تقریباً تمام خبریں ملک میں عوام خصوصاًچھوٹے اور بے زمین کسان مزدروں اور ملک کے طبقہ اشرافیہ بشمول جاگیردار، سرمایہ دار و افسر شاہی کے درمیان واضح تفریق اور ان کے لیے پالیسی سازی اور حکمت عملی و مراعات کی غیر منصفانہ تفریق کو واضح کرتی ہیں۔ پیداواری وسائل بشمول زمین پانی اور دیگر قدرتی وسائل تو ایک طرف گندم، آٹا اور چینی جیسی لازمی غذائی ضروریات کے لیے سرمایہ دار چاہے و شوگر مل مالکان ہوں یا آٹا مل مالکان، حکومتی وزارء ہوں یا افسر شاہی سب غریب کسان مزدور عوام کا استحصال کرکے، انہیں محتاج بنا کر ملک کو مزید بھوک و غربت میں دھکیل دینے پر کمربستہ ہیں۔ قابل افسوس اور قابل گرفت بات یہ ہے کہ خود حکومتی شخصیات آٹا چینی کے بحران سے اربوں روپے غریب عوام کی جیب سے لوٹنے میں ملوث پائے گئے اور حکومت اس ڈاکے کو تسلیم کرتے ہوئے بھی ان سرمایہ داروں اور ان کے سیاسی رفقاء کے آگے اتنی بے بس ہے کہ کم از کم ان شیاء کی پرانی قیمتیں بحال کرنے سے بھی قاصر ہے، جو ان سرمایہ داروں کے لیے بے حساب منافع کا سبب بنی ہیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے سرمائے اور اقتدار کا یہ گٹھ جوڑ ہی آج ملک میں غذائی عدم تحفظ اور بھوک کی وجہ ہے۔ گنا اور چینی کی صنعت منافع کے لیے حصول کے لیے قوانین بنوانے اور پیداوار و قیمت کو اپنے اختیار میں کرسکتی ہے تو یہ اندازہ لگانا بھی مشکل نہیں کہ عالمی سرمایہ دار کمپنیوں اور ممالک نے قرض کے بدلے ملکی وسائل اور چھوٹے و بے زمین کسان مزدوروں کے استحصال کے لیے زمین سے لے کر بیج و پانی پر قبضے کے لیے کس سطح پر ظلم و بدعنوانی کا بازار گرم کیا ہوگا۔ کرونا کے وبائی حالات میں کروڑوں غریب کسان مزدور عوام اس ہی طبقہ حکمران سے امید لگائے بیٹھے ہیں جو انہیں مناسب طبی سہولیات دینا تو دور ”احساس“ کے نام پر صرف اتنی رقم فراہم کررہے ہیں جس سے چار ماہ کے لیے شاید آٹا، چینی اور دالوں جیسی لازمی غذائی اشیاء کا حصول بھی ممکن نہیں۔ یقینا استحصال کے شکار چھوٹے اور بے زمین کسان مزدور، ماہی گیر، محنت کش طبقات کو اپنے وسائل پر اختیار اور خوشحالی کے لیے اس ظالم، بدعنوان طبقے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہوگا جس کے لیے متحد ہوکر جدوجہد لازم ہے۔