زرعی خبریں نومبر 2020

یکم نومبر تا 30 نومبر 2020

زمین

کراچی میں بحیرہ عرب کے ساحل کے ساتھ دو چھوٹے جزائر پر چمکتے دمکتے نئے دبئی کی تعمیر کے جھگڑے میں اکثر ان ماہی گیروں کی آواز نہیں سنی جاتی جنہوں نے صدیوں ان پانیوں میں ماہی گیری کی ہے۔ جاموٹ جیٹی، ابراہیم حیدری کے 25 سالہ ماہی گیر شکیل کا کہنا ہے کہ ان جزائر کے اطراف جہاں وہ مچھلی، کیکڑے اور جھینگے پکڑتے ہیں، اب مسلح محافظ گشت کرتے ہیں۔ ”ہم ان پانیوں میں صدیوں سے ماہی گیری کررہے ہیں“۔ لیکن جب انہوں نے حال ہی میں ڈنگی جزیرے کے قریب جانے کی کوشش کی تو مسلح محافظوں نے انہیں پکڑلیا اور مرغا بننے کا حکم دیا۔ ایک ماہ پہلے کراچی میں کورنگی کریک کے قریب بنڈل اور ڈنگی جزائر پر راتوں رات ایک صدارتی آرڈننس کے ذریعے قبضہ کرلیا گیا۔ گورنر سندھ عمران اسماعیل کے مطابق حکومت کا مقصد 50 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری سے ایک شہر کی تعمیر ہے جو دبئی کو پیچھے چھوڑ دے اور 150,000 ملازمتیں پیدا کرے۔ لیکن ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ 49 کلومیٹر پر پھیلے ان جزائر پر تعمیر ان کا روزگار تباہ کرسکتی ہے۔ مزید یہ کہ ان سے اس معاملے پر مشاورت بھی نہیں کی گئی۔
(ڈان، 4 نومبر، صفحہ3)

ایک مضمون کے مطابق جب سے راوی ریور فرنٹ ڈیولپمنٹ منصوبہ پھر سے سامنے آیا ہے تحریک انصاف اس کی پاکستان، خصوصاً لاہور کے روشن مستقبل کے طور پر وکالت کررہی ہے۔ ایک نئی کمپنی راوی اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی (آر یو ڈی اے) اس منصوبہ کے لیے قائم کی جاچکی ہے۔ حکومت خود کو اس منصوبہ میں صرف ترقیاتی ڈھانچے تک محدود رکھے گی جبکہ نجی شعبہ اس پانچ ٹریلین روپے لاگت کے منصوبے کی قیادت (ڈرائیو) کرے گا۔ تاہم اس منصوبہ میں حالیہ پیشرفت قابل تشویش ہے۔ پنجاب حکومت کی جانب سے چھ اکتوبر کو زمین کے حصول کے قانون لینڈ ایکوزیشن ایکٹ کے سیکشن چار کے تحت جاری کردہ اعلامیہ ہزاروں ایکڑ نجی زمین جبراً حاصل کرنے کے عزائم کا اشارہ ہے۔ بظاہر یہ صرف پہلا مرحلہ ہے اور اس منصوبہ کے لیے اسی طرح مزید زمین حاصل کی جائے گی۔ مختلف اندازوں کے مطابق 70,000 سے 102,000 ایکڑ زمین اس منصوبہ کے لیے حاصل کی جائے گی۔ لیکن حکومت بار بار ان بیانات کے باوجود کہ حکومت کے پاس پیسہ نہیں ہے اور نجی شعبہ اس منصوبہ کی قیادت کرے گا، کیوں یہ زمین حاصل کررہی ہے؟ آر یو ڈی اے کی جانب سے ممکنہ سرمایہ کاروں کی رہنمائی کے لیے جاری کردہ درخواست برائے اظہار دلچسپی (ریکویسٹ فار پروپوزل) میں اس کا سراغ ملتا ہے۔ اس دستاویز کے پہلے نکتہ میں کہا گیا ہے کہ جس قیمت پر آر یو ڈی اے زمین حاصل کرے گی تعمیری کمپنیاں یا ڈیولپر اور سرمایہ کار اس کی دگنی قیمت آر یو ڈی اے کو ادا کریں گے۔ یوں حکومت کی جانب سے حاصل کی گئی زمین 100 فیصد اضافی قیمت پر تعمیراتی کمپنی کو فروخت کردی جائے گی اور اس کے بعد کمپنی جو چاہے کرے۔ اس طرح ممکنہ طور پر آر یو ڈی اے کو حاصل ہونے والا منافع اس منصوبہ کے ترقیاتی ڈھانچے کی تعمیر کے لیے استعمال ہوگا۔
(منظرالحق، ڈان، 16 نومبر، صفحہ2)

سندھ ہائی کورٹ کے حیدرآباد سرکٹ بینچ نے حکام کو بائی پاس کی تعمیر کے لیے سندھ زرعی یونیورسٹی (ایس اے یو) ٹنڈوجام کی زمین حاصل کرنے سے روک دیا ہے۔ عدالت نے یونیورسٹی کے وائس چانسلر، ایگزیکٹو انجینئر ہائی وے ڈویژن۔I حیدرآباد اور حیدرآباد۔میرپورخاص دو رویہ سڑک منصوبے کے مینجر، کمشنر حیدرآباد اور دیگر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے یکم دسمبر کو پیش ہونے کی ہدایت کی ہے۔ زمین کے حصول کے خلاف درخواست دائر کرنے والے ڈاکٹر مجاہد حسین اور ڈاکٹر ظہور احمد سومرو دونوں یونیورسٹی کے فیکلٹی ممبر ہیں۔ درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ ٹنڈو جام بائی پاس کی تعمیر کے لیے تحقیقی مقاصد کے لیے مختص زرخیز زمین حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یونیورسٹی کو طالب علموں کی تحقیق اور منصوبوں پر کام کرنے کے لیے 600 ایکڑ زرعی زمین فراہم کی گئی تھی۔ شاہراہ کی تعمیر کے منصوبے کے لیے تین مجوزہ نقشہ جات تیار کیے گئے ہیں جن میں سے تیسرا نقشہ وائس چانسلر کی بدنیتی پر مبنی ہے۔ انہوں نے اپنا آم کا باغ اور فصلیں بچانے کی منصوبہ بندی کی ہے جو حیدرآباد میرپورخاص شاہراہ کے دائیں طرف واقع ہے۔ لہذا انہوں نے شاہراہ کے بائیں طرف والے تیسرے مجوزہ نقشہ کی منظوری کے لیے کوششیں کی تھیں جس کے تحت مجوزہ بائی پاس یونیورسٹی کی اس زمین سے گزرتا ہے جہاں تحقیقی زرعی زمین موجود ہے۔ درخواست گزاروں کا مزید کہنا ہے کہ مدعا علیہ ہر قیمت یونیورسٹی کی تجرباتی اور تحقیقی زرعی زمین حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
(ڈان، 25 نومبر، صفحہ15)

زراعت

عوامی تحریک کے کارکنان نے تنگوانی، سکھر میں جعلی زرعی زہر کی فروخت، چاول کی کم قیمت اور زرعی و صنعتی مزدوروں کی کم اجرت کے خلاف دھرنا دیا اور علامتی بھوک ہڑتال کی۔ عوامی تحریک کے مقامی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ زرعی شعبہ کو تحفظ دینے اور کسانوں کے لیے حکومت کو جامع پالیسی بنانی چاہیے اور دریائے سندھ سے پانی کی چوری روکنی چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک طرف سندھ حکومت نے سازش کے تحت جزائر بیچ دیئے اور دوسری طرف اجناس کے بڑے تاجروں کی سہولت کے لیے چاول کی قیمت کو کم کررکھا ہے۔ تنگوانی تعقلہ ہر سال تین ملین من چاول پیدا کرتا ہے لیکن چاول کے بڑے تاجروں کی من مانی کی وجہ سے چھوٹے کسانوں کو بہت کم آمدنی ہوتی ہے۔
(ڈان، 2 نومبر، صفحہ15)

پاکستان کسان اتحاد (انور گروپ) کی اپیل پر پنجاب کے مختلف اضلاع سے کسان اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے دھرنا دینے لاہور پہنچنا شروع ہوگئے ہیں۔ ٹھوکر نیاز بیگ، لاہور میں صبح سویرے جمع ہونے والے کسانوں نے شاہراہ ملتان کو جزوی طور پر بند کردیا۔ چوہدری انور اور ملک ذوالفقار کی قیادت میں کسان مطالبہ کررہے ہیں کہ سندھ حکومت کی تقلید کرتے ہوئے پنجاب حکومت گندم کی امدادی قیمت 2,000 روپے فی من مقرر کرے۔ کسانوں نے ٹیوب ویل کے لیے بجلی کے نرخ پانچ روپے فی یونٹ کرنے اور کھاد پر زرتلافی کے لیے ٹوکن کا نظام ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ کسانوں نے صوبہ بھر میں کسان مارکیٹ کے قیام کا بھی مطالبہ کیا ہے جہاں کسان اپنی پیداوار آڑھتیوں کو فروخت کرنے کے بجائے براہ راست خود فروخت کرسکیں۔
(ڈان، 4 نومبر، صفحہ2)

ماہر معیشت اور مالی تجزیہ کار عتیق الرحمان کے مطابق پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن پاکستانی معیشت پر کپاس، گندم، چینی، آلو اور ٹماٹر وغیرہ جیسی اشیاء کی درآمد کی وجہ سے چھ سے سات بلین ڈالر کا بوجھ ہے۔ اس بوجھ سے بیجوں کی بہتر ترسیل، نئے آبی وسائل اور طریقہ کار کے زریعے بچا جاسکتا ہے۔ پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں 50 بلین ڈالر کی کمی کی وجہ مسلسل غیر ہموار تجارتی خسارہ اور ادائیگی کا بحران ہے۔ مجموعی قومی پیداوار میں بڑھوتری 5.8 فیصد سے کم ہوکر منفی 0.04 ہوگئی ہے اور برآمدات میں اضافے کے باجود تجارتی خسارہ 2.02 فیصد بڑھ گیا ہے۔ انتہائی ضروری ہے کہ اس مالی سال برآمدات کو 40 بلین ڈالر سے اوپر لے جانے کی صلاحیت پر توجہ مرکوز کی جائے۔
(بزنس ریکارڈر، 9 نومبر، صفحہ5)

ایک مضمون کے مطابق گزشتہ دو سالوں میں زرعی مداخل کی آسمان کو چھوتی قیمتوں نے کسانوں کو خصوصا گندم، گنا، کپاس اور آلو کے کاشتکاروں کو دیگر فصلوں کی کاشت پر مجبور کیا ہے جس کے نتیجے میں ملک ان اشیاء کی درآمد پر مجبور ہے۔ زرعی شعبہ سے منسلک حکام اور کسان رہنماؤں نے حکومت پر زرعی مداخل کی قیمتوں کو کم کرنے کے لیے فوری سنجیدہ اقدامات کرنے پر زور دیا ہے۔ ماہر معاشیات ڈاکٹر اشفاق حسن خان کا کہنا ہے کہ ”حکومت کو کسی بھی فصل کی امدادی قیمت مقرر کرکے زرعی شعبہ میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ امدادی قیمت صرف بڑے کاشتکاروں کو فائدہ دیتی ہے جبکہ پاکستان کی 88 فیصد کسان آبادیاں اپنی خوراک کے لیے کاشت کاری کرتی ہیں۔ بڑے کاشتکار ہمیشہ امدادی قیمت سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں اور چھوٹے کسان کا استحصال ہوتا ہے۔ حکومت کو لازمی طور پر ہر پیداوار کی امدادی قیمت کے عمل سے نکل جانا چاہے۔ اگر حکومت گنے کی قیمت 200 روپے فی من مقرر کرتی ہے تو اسے ملوں کو مجبور کرنا چاہیے کہ وہ چینی 60 روپے فی کلو پر فراہم کریں“۔
(عبد الرشید آزاد، بزنس ریکارڈر، 12 نومبر، صفحہ15)

وزیراعظم عمران خان نے ایوان وزیر اعظم میں سرمایہ کاروں کے وفد سے ملاقات کے دوران زرعی پیداوار میں اضافے کے لیے صنعتکاروں سے کارپوریٹ فارمنگ کے لیے تجاویز طلب کی ہیں۔ سرمایہ کاروں کے وفد میں چیراٹ سیمنٹ کے اعظم فاروق، گل احمد کے بشیر علی محمد، لکی سیمنٹ کے محمد علی طبا، ہونڈا اٹلس کے ثاقب شیرازی، فاطمہ فرٹیلائزر کے فواد مختار، عارف حبیب گروپ لمیٹڈ کے عارف حبیب اور اینگرو کارپوریشن کے حسین داؤد شامل تھے۔
(بزنس ریکارڈر، 28 نومبر، صفحہ1)

گندم

ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان (ٹی سی پی) کی جانب سے لازمی غذائی اشیاء کی برآمد تیز ہوگئی ہے اور مزید تین جہاز گندم اور چینی لے کر پاکستان پہنچ گئے ہیں۔ 51,250 ٹن درآمدی گندم کا جہاز پورٹ قاسم پہنچ گیا ہے اور وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کی جانب سے مقرر کردہ کوٹے کے مطابق یہ تمام گندم محکمہ خوراک خیبرپختونخواہ کے حوالے کیا جائے گا۔
(بزنس ریکارڈر، 1 نومبر، صفحہ1)

تحریک انصاف حکومت کی اتحادی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ق) نے حکومت کی گندم خریداری پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے اسے ملکی کسانوں کے مفادات کے خلاف قرار دیا ہے۔ مسلم لیگ (ق) کے رہنما چوہدری پرویز الہی نے مقامی کسانوں کے لیے گندم کی امدادی قیمت کے مقابلے یوکرین سے بھاری قیمت پر گندم کی درآمد کا موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ ”یہ ناانصافی ہے کہ یوکرین کے کسان پھلے پھولیں اور مقامی کسان قلاش ہوجائیں“۔ پرویز الہی نے حکومت کی جانب سے سال 2020-21 کے لیے اعلان کردہ 1,600 روپے فی من گندم کی امدادی قیمت مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت کو سندھ کابینہ کی تقلید کرتے ہوئے گندم کی امدادی قیمت کم از کم 2,000 روپے فی من مقرر کرنی چاہیے۔ انہوں نے دعوی کیا کہ اس وقت کھلی منڈی میں گندم کی قیمت 2,400 روپے فی من ہے، حکومت اگر 2,000 روپے فی من قیمت مقرر کرے تو یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔
(ڈان، 2 نومبر، صفحہ2)

وفاقی کابینہ نے گندم کی امدادی قیمت 1,650 روپے فی من مقرر کردی ہے۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں آگاہ کیا گیا ہے کہ حکومت کو 1,650 روپے فی من قیمت مقرر کرکے زرتلافی کی مد میں 95 سے 105 بلین روپے کی زرتلافی کا بوجھ اٹھانا ہوگا۔ اجلاس میں شریک ایک رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وفاقی وزیر خوراک فخر امام اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی ندیم افضل چن کا موقف تھا کہ گندم کی امدادی قیمت کم از کم 1,800 روپے فی من ہونی چاہیے۔ تاہم دیگر کابینہ ارکان ندیم بابر، شیخ رشید احمد، وقار مسعود اور رزاق داؤد کا موقف تھا کہ اگر گندم کی امدادی قیمت 1,800 روپے فی من مقرر کی گئی تو آٹا عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوجائے گا۔
(ڈان، 11 نومبر، صفحہ9)

پاکستان نے 400,000 ٹن گندم کی درآمد کے لیے ایک نیا بین الاقوامی ٹینڈر جاری کردیا ہے۔ منڈی میں توقع ہے کہ پاکستان مزید گندم درآمد کرے گا کیونکہ پاکستان کی ضرورت کے مطابق گندم کی درآمد ابھی بھی پوری ہوتی نظر نہیں آتی۔ کم سے کم بولی 100,000 ٹن کے لیے ہوگی اور ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان (ٹی سی پی) کو یہ حق ہوگا کہ وہ ٹینڈر میں فراہم کردہ مقدار میں پانچ فیصد کمی یا اضافہ کرے۔
(ڈان، 13 نومبر، صفحہ9)

کسان بورڈ پاکستان (کے بی پی) کے نائب صدر جام حضور بخش نے ”زراعت بچاؤ کسان بچاؤ“ تحریک کا اعلان کرتے ہوئے وفاقی حکومت کی جانب سے گندم کی 2,000 روپے فی من امدادی قیمت مسترد کیے جانے کی مزمت کی ہے۔ پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قسمت کی ستم ظریفی ہے کہ حکمران جماعت خود اپنی قرارداد پر عمل نہیں کررہی اور کسانوں کو کمیشن ایجنٹوں یا آڑھتیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان سے برآمد کیا جانے والا گندم وسط ایشیائی ممالک اور افغانستان میں مہنگے داموں فروخت ہورہا ہے۔ انہوں نے دعوی کیا کہ اب یہی درآمدی گندم ملک کے کئی علاقوں میں 2,400 روپے فی من فروخت ہورہا ہے لیکن غریب کسان بے بس ہے۔
(ڈان، 16 نومبر، صفحہ8)

وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کے مطابق 400,000 ٹن گندم سے لدے سات جہاز اس ماہ کراچی بندرگاہ پہنچیں گے۔ مزید 20 جہاز دسمبر سے فروری کے دوران 1.4 ملین ٹن گندم لے کر کراچی پہنچیں گے۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان (ٹی سی پی) کو 1.50 ملین ٹن گندم درآمد کرنے کی اجازت دی تھی۔ صوبوں کی درخواست پر وفاقی حکومت نے مناسب قیمت پر گندم کی دستیابی یقینی بنانے کے لیے درآمد کیے جانے والے گندم کی مقدار بڑھا کر 2.2 ملین ٹن کردی ہے۔ وزارت کا کہنا ہے کہ خوراک کے صوبائی محکموں نے آگاہ کیا ہے کہ خوردہ منڈی میں گندم کی قیمت میں کمی کا رجحان ہے۔ کراچی میں درآمدی گندم کی قیمت 4,900 روپے سے کم ہوکر 4,700 روپے فی (100 کلوگرام) بوری ہوگئی ہے۔ راولپنڈی میں بھی گندم کی قیمت 2,400 روپے سے کم ہوکر 2,200 روپے فی من ہوگئی ہے۔ پنجاب، سندھ اور خیبرپختونخوا کے محکمہ خوراک نے گندم کی قیمت اجراء 1,475 روپے فی من مقرر کی ہے۔
(ڈان، 20 نومبر، صفحہ9)

ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان (ٹی سی پی) کے مطابق 115,500 ٹن گندم سے لدے دو بحری جہاز کراچی بندرگاہ اور پورٹ قاسم پہنچ گئے ہیں۔ ان دو جہازوں کی آمد کے بعد ٹی سی پی اب تک 391,625 ٹن گندم درآمد کرچکی ہے۔ تاہم بڑے پیمانے پر نجی اور سرکاری سطح پر گندم کی درآمد سے اب تک صارفین کو کوئی بڑا فائدہ نہیں ہوا ہے۔ سندھ میں آٹا ملوں نے اکتوبر کے آخری ہفتے میں آٹے کی کئی اقسام کی قیمت میں صرف سات روپے فی کلو کمی کی ہے۔ خوردہ فروشوں کی بڑی تعداد آٹا 70 روپے فی کلو فروخت کررہی ہے۔ سیریل ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین مزمل چیپل کا کہنا ہے کہ نجی شعبہ یوکرین، روس، جرمنی سے اب تک 1.2 ملین ٹن گندم درآمد کرچکا ہے۔
(ڈان، 28 نومبر، صفحہ9)

کپاس

کراچی کاٹن ایسوسی ایشن (کے سی اے) نے کپاس کی فی من قیمت میں 100 روپے کمی کردی ہے جس کے بعد قیمت 10,000 روپے فی من ہوگئی ہے۔ کپاس کے تجزیہ کار نسیم عثمان کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں کاٹن کراپ اسسمنٹ کمیٹی کے اجلاس میں جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق رواں موسم میں کپاس کی پیداوار اپنے ہدف 10.89 ملین گانٹھوں کے مقابلے 8.597 ملین گانٹھیں ہوگی۔ تاہم نجی شعبہ کے اندازوں کے مطابق کپاس کی پیداوار سات ملین گانٹھوں سے کم ہوگی۔
(بزنس ریکارڈر، 1 نومبر، صفحہ7)

پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن (پی سی جی اے) کے مطابق 15 نومبر تک جنرز تک پھٹی کی آمد 41.27 فیصد کم ہوکر 4.027 ملین گانٹھیں ہوگئی ہے جو گزشتہ سال اسی عرصہ میں 6.8 ملین گانٹھیں تھی۔ رواں موسم میں پنجاب میں 2.151 ملین جبکہ سندھ میں 1.87 ملین گانٹھیں کپاس کی پیداوار ہوئی ہے۔ جنرل سیکریٹری پی سی جی اے آصف خلیل کا کہنا ہے کہ ”کپاس کی پیداوار نچلی ترین سطح پر ہے جس پر فوری توجہ کی ضرورت ہے“۔ کپاس کے شعبہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں رواں موسم میں چھ ملین گانٹھیں کپاس کی پیداوار متوقع ہے جو گزشتہ 35 سالوں کی کم ترین پیداوار ہے۔
(ڈان، 19 نومبر، صفحہ9)

چاول

چاول کی کاشت سے جڑے شراکت داروں نے اس سال کئی وجوہات کی بناء پر قیمت میں کمی کے خدشہ کے پیش نظر مالی نقصان سے تحفظ کے لیے وفاقی حکومت سے مداخلت کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ بصورت دیگر خدشہ ہے کہ کاشتکار اپنی پیداواری لاگت بھی وصول نہیں کرپائیں گے۔ ملک کی بڑی منڈیوں میں شامل کامونکی اور گجرانوالہ میں دھان سپر کی قیمت گزشتہ سال کی ابتدائی قیمت 2,400 روپے فی من کے مقابلے اس سال 2,000 سے 2,100 روپے فی من بتائی جارہی ہے۔ اسی طرح کائنات (1121) کی ابتدائی قیمت گزشتہ سال 2,200 سے 2,300 روپے کے مقابلے اس سال 1,900 سے 2,000 روپے فی من ہے۔ چاول کے ایک کاشتکار عبداللہ کا کہنا ہے کہ دیگر کسانوں کی طرح وہ بھی کم قیمت کی وجہ سے پریشان ہیں کیونکہ اس سال ان کی پیداواری لاگت بڑھی ہے۔ بیج اور زرعی زہر فروخت کرنے والے ڈیلروں نے ان سے ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر میں کمی کے نتیجے میں قیمت میں اضافے کے نام پر مہنگے مداخل فروخت کیے تھے۔ اس کے علاوہ ٹیوب ویلوں کے بجلی کے بل بھی زیادہ رہے کیونکہ تیل کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے بجلی کی قیمت بڑھادی گئی تھی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ گندم اور گنے کی طرح چاول کی بھی امدادی قیمت مقرر کی جائے۔
(ڈان، 17 نومبر، صفحہ2)

گنا

لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب میں گنے کی کرشنگ کے آغاز کے حوالے سے محکمہ خوراک کے جاری کردہ اعلامیہ کے خلاف حکم امتناع واپس لے لیا ہے۔ اس اعلامیہ کے مطابق جنوبی پنجاب میں واقع شوگر ملوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ 10 نومبر سے گنے کی کرشنگ کا آغاز کریں اور صوبے کی باقی ملیں 15 نومبر سے کرشنگ شروع کریں گی۔ کئی ملوں نے اس اعلامیہ کے خلاف درخواستیں دائر کی تھیں جس پر عدالت نے اعلامیہ پر حکم امتناع جاری کیا تھا۔ صوبائی حکومت نے اس حکم امتناع کے خلاف اپیل دائر کی تھی۔
(ڈان، 11 نومبر، صفحہ2)

چینی

مسابقتی کمیشن پاکستان (سی سی پی) نے پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن (پی ایس ایم اے) اور اس کی رکن 84 شوگر ملوں کو مبینہ طور پر چینی کی قیمت مقرر کرنے کے لیے گٹھ جوڑ کرنے پر اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا ہے۔ اس نوٹس کے بعد پی ایس ایم اے اور اس کی رکن 84 شوگر ملیں انفرادی حیثیت میں سی سی پی کے عائد کیے گئے الزامات کا جواب دیں گی۔ سی سی پی کی سماعت دو ہفتے بعد شروع ہوگی۔
(ڈان، 11 نومبر، صفحہ9)

وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) نے تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین ان کے بیٹے اور مسلم لیگ ن کے رہنما شہباز شریف اور ان کے دو بیٹوں کے خلاف اربوں روپے کے چینی کے گھپلے میں منی لانڈرنگ، دھوکہ دہی اور دیگر الزامات پر مقدمہ درج کرلیا ہے۔ حکام کے مطابق اس گھپلے میں وفاقی وزیر خسرو بختیار اور ان کے خاندان کے خلاف بھی تحقیقات جاری ہے اور انہیں بھی جلد طلب کیا جاسکتا ہے۔
(ڈان، 16 نومبر، صفحہ1)

پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن (پی ایس ایم اے) نے وزارت صنعت کو لکھے گئے ایک خط میں خبردرا کیا ہے کہ ملک میں شوگر ملوں کو بندش کا سامنا ہوسکتا ہے کیونکہ ملوں کو گنے کی کمی کا سامنا ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ ”کسان گنے کی ترسیل روک کر اپنی حیثیت (پوزیشن) تبدیل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ملک بھر میں شوگر ملوں نے صوبائی حکومتوں کی ہدایت کے مطابق گنے کی کرشنگ شروع کردی ہے۔ تاہم ملوں کو مسائل کا سامنا ہے کیونکہ ملک کے زیادہ تر علاقوں میں کسانوں نے گنے کی کٹائی شروع نہیں کی ہے۔ کسان صوبائی حکومتوں کی مقرر کردہ قیمت 200 روپے فی من سے زیادہ قیمت کا مطالبہ کررہے ہیں۔ گنے کی محدود ترسیل کی وجہ سے یہ خدشہ ہے کہ گنے کی عدم دستیابی ملوں کو ایک ہفتے میں بند کرے گی“۔ ایسوسی ایشن نے صارفین کو مناسب قیمت میں چینی کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے مقررہ قیمت پر گنے کی ترسیل یقینی بنانے کے لیے کہا ہے۔
(ڈان، 21 نومبر، صفحہ9)

گنا کمشنر پنجاب نے صوبے کی 25 شوگر ملوں کو نوٹس جاری کردیا ہے۔ نوٹس میں کہا گیا ہے کہ ملیں 27 نومبر تک گنے کی خریداری و ادائیگی اور گزشتہ دو سالوں کی کسانوں کو ادائیگی میں تاخیر پر سود کی ادائیگی کی تفصیل فراہم کریں، بصورت دیگر پنجاب شوگر فیکٹریز (کنٹرول) ایکٹ 1950 کی دفعہ 21 کے تحت قانونی کارروائی کا سامنا کریں۔ قانون کے مطابق ملوں کو کسان کو ادائیگی میں 15 دن سے زیادہ تاخیر پر 11 فیصد سود ادا کرنا ہوگا۔
(بزنس ریکارڈر، 27 نومبر، صفحہ12)

پام آئل

سندھ حکومت کے مطابق ضلع ٹھٹھہ میں پام آئل کی پیداوار کا منصوبہ کامیابی سے مکمل کرلیا گیا ہے۔ محکمہ ماحول، موسمی تبدیلی اور ساحلی ترقی کے ادارے کوسٹل ڈیولپمنٹ ڈپارٹمنٹ کے زیر نگرانی پام آئل مل نے پیداوار شروع کردی ہے۔ ترجمان سندھ حکومت مرتضی وہاب نے کہا ہے کہ تینوں اداروں نے مل کر 50 ایکڑ زمین پر پام کے درخت کاشت کیے تھے جن سے ریکارڈ پھل حاصل ہوا جس سے یومیہ دو ٹن پام آئل حاصل ہوگا۔ سندھ حکومت نے اس تجرباتی منصوبہ کی کامیابی کے بعد مزید 1,500 ایکڑ زمین مختص کردی ہے جن پر پام درخت کاشت کیے جارہے ہیں۔ پاکستان پام آئل کی درآمد پر سالانہ چار بلین ڈالر زرمبادلہ کے ذخائر سے خرچ کرتا ہے جو ایک بڑی رقم ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 19 نومبر، صفحہ7)

ٹماٹر

پنجاب حکومت نے ٹماٹر کی قیمت قابو میں لانے کے لیے، جو اس وقت 180 روپے فی کلو فروخت ہورہا ہے، ایرانی ٹماٹر درآمد کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ قیمتوں کے حوالے سے پرائس کمیٹی کی صدارت کرتے ہوئے وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے کہا ہے کہ سندھ میں بارشوں کی وجہ سے اور شمالی علاقوں و افغانستان سے ترسیل نہ ہونے کی وجہ سے ملک بھر میں ٹماٹر کی پیداوار اور طلب رسد متاثر ہوئی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 4 نومبر، صفحہ16)

پیاز

سندھ آبادگار بورڈ (ایس اے بی) نے فوری طور پر پیاز برآمد کرنے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایس اے بی نے برآمد پر پابندی کو ظالمانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ پابندی حقائق جانے بغیر عائد کی گئی۔ ملک میں پیاز کی 45 فیصد پیداوار صوبہ سندھ میں اکتوبر تا مارچ کے دوران ہوتی ہے۔ پاکستان کے پاس یہ موقع ہے کہ وہ اس سال پیاز برآمد کرے لیکن گزشتہ 15 دنوں سے پیاز برآمد نہیں ہوئی کیونکہ وفاقی حکومت نے مقامی منڈیوں میں قیمت میں اضافے کی وجہ سے اس کی برآمد پر پابندی عائد کردی تھی۔ کراچی کی تھوک منڈی میں پیاز کی قیمت 60 روپے سے کم ہوکر 38 روپے فی کلو گرام ہوگئی ہے جبکہ کسان کو اس کی قیمت 20 روپے فی کلوگرام مل رہی ہے۔ انہوں نے دعوی کیا کہ ملک میں پیاز کی پیداوار کے باوجود جس کی قیمت خطے میں کم ترین ہے، بغیر محصول پیاز درآمد کی جارہی ہے۔
(ڈان، 23 نومبر، صفحہ15)

پیاز کی تھوک قیمت 2,800 روپے فی من سے کم ہوکر 1,200 سے 1,300 روپے ہونے کے باجود خوردہ منڈی میں پیاز کی قیمت اب بھی بلند سطح پر ہے۔ خوردہ فروش سندھ کی نئی پیاز کی قیمت معیار اور حجم کے مطابق 60 سے 80 روپے فی کلو وصول کررہے ہیں باوجود اس کے کہ برآمد کنندگان نے تین نومبر سے 15 دنوں کے لیے پیاز کی برآمد پر خود سے پابندی لگارکھی ہے تاکہ پیاز کی قیمت کنٹرول میں رہے۔ پی ایف وی اے کے سربراہ وحید احمد کا کہنا ہے کہ برآمد کنندگان نے سندھ سے پیاز کی مکمل فصل آنے اور اس کی خوردہ قیمت میں 50 فیصدتک کمی کے بعد 27 نومبر سے پیاز کی برآمد شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے پاس اضافی ایک ماہ کا وقت ہے جس میں برآمدکنندگان اضافی پیاز برآمد کرسکتے ہیں اور زرمبادلہ حاصل کرسکتے ہیں۔ ایک ماہ بعد بھارتی پیاز بھی عالمی منڈی میں دستیاب ہوگی اور پاکستانی پیاز کی برآمد کے لیے مواقع محدود ہونگے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت مقامی کسانوں کے وسیع تر مفاد میں ایران سے پیاز اور آلو کی درآمد پر پابندی عائد کرے۔
(ڈان، 25 نومبر، صفحہ9)

کھاد

فرٹیلائزر مینوفیکچررز آف پاکستان ایڈوائزری کونسل نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ کیمیائی کھاد کی صنعت کو فنانس ایکٹ 2020 کے زریعے متعارف کروائے گئے انکم اور سیلز ٹیکس قوانین سے استثنی دیا جائے کیونکہ اس شق سے کسانوں پر بوجھ پڑے گا۔ یہ قانون غیررجسٹرڈ ڈیلروں، جن کی فروخت 10 ملین روپے ماہانہ اور 100 ملین روپے سالانہ سے زیادہ ہوگی، کو 10 فیصد تک انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس کی سہولت (ٹیکس ایڈجسمنٹ) نہیں دیتا۔ فنانس ایکٹ 2020 کے ذریعے حکومت نے یہ قانونی ترامیم معیشت کو دستاویزی شکل دینے اور قابل ٹیکس کاروبار کو ٹیکس کے دائرہ کار میں لانے کے لیے کیا ہے۔ تاہم یہ پابندی کیمیائی کھاد کی پیداواری اور درآمدی لاگت میں واضح اضافے کی وجہ بن رہی ہے۔ کیونکہ کھاد کے ڈیلروں کی اکثریت رجسٹرڈ نہیں ہے۔ ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایف ایم پی اے سی ریٹائرڈ بریگیڈیئر شیر شاہ ملک کا کہنا ہے کہ ڈیلروں نے کئی کوششوں کے باوجود فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) میں رجسٹرڈ ہونے سے انکار کردیا ہے۔
(ڈان، 26 نومبر، صفحہ9)

وفاقی کابینہ کی کمیٹی برائے توانائی نے سوئی نادرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) کو ہدایت کی ہے کہ وہ کیمیائی کھاد کی قلت سے بچنے کے لیے پنجاب کے دو کھاد کارخانوں فاطمہ فرٹیلائزر اور ایگری ٹیک فرٹیلائزر کو مزید 15 دن تک سستی گیس (آر ایل این جی) فراہم کرے۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر کی قیادت میں ہونے والے اس اجلاس میں وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب سمیت دیگر وزراء بھی شریک تھے۔ کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ اس موسم کے اختتام تک 130,000 ٹن اضافی کیمیائی کھاد دستیاب ہوگی۔ تاہم وزارت صنعت و پیداوار 200,000 ٹن اضافی کھاد کا ذخیرہ برقرار رکھنا چاہتی تھی۔ اس سال کیمیائی کھاد کی اوسط طلب 5.9 ملین ٹن متوقع ہے۔
(ڈان، 27 نومبر، صفحہ9)

ٹریکٹر

رواں مالی سال کی پہلی سہماہی میں مقامی طور پر تیار ہونے والے ٹریکٹروں کی پیداوار میں گزشتہ سال کے مقابلے 17.17 فیصد بڑھوتری دیکھی گئی ہے۔ جولائی تا ستمبر 2020-21 میں مقامی طور پر 11,235 ٹریکٹر تیار کیے گئے جبکہ گزشتہ سال یہ تعداد 9,589 تھی۔ حکومت نے مقامی طور پر تیار ہونے والے ٹریکٹروں پر زرعی مالیاتی پیکچ کے تحت 1.5 بلین روپے کی سیل ٹیکس زرتلافی منظور کی تھی تاکہ فی ایکڑ پیداوار میں اضافے کے لیے مشینی زراعت کو فروغ دیا جاسکے۔ یہ زرتلافی سیل ٹیکس میں ایک سال کے لیے کمی کی صورت دی گئی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 23 نومبر، صفحہ3)

مال مویشی

نجی شعبہ نے مویشیوں کی افزائش کے لیے ان کی بلا محصول درآمد کی تجویز دی ہے تاکہ برآمد کے لیے مزید گوشت حاصل ہوسکے۔ یہ تجویز شندانہ گلزار خان کی سربراہی میں ہونے والے قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی برائے زرعی اشیاء کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں پیش کی گئی ہے۔ کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ منہ کھر کی بیماریاں پاکستان سے گوشت کی برآمد میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔ نجی شعبہ کا کہنا ہے کہ گوشت کی برآمد بڑھ رہی ہے۔ منجمد گوشت برآمد کیا جارہا ہے اور منہ کھر کی بیماریوں کی وجہ سے بہت زیادہ گوشت مشرق وسطی کے علاوہ دیگر ممالک کو برآمد نہیں کرسکتے۔ کمیٹی نے نجی شعبہ کو تحریری سفارشات پیش کرنے کے لیے کہا ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 24 نومبر، صفحہ12)

حلال گوشت

حکومت سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان معاشی سفارتکاری کو بڑھانے کے لیے حلال گوشت اور دیگر اشیاء کی سعودی عرب برآمد میں اضافے کے لیے کوششیں کررہی ہے۔ وفاقی کابینہ نے حال ہی میں کسانوں کی آمدنی میں اضافے اور زرمبادلہ کے حصول کے لیے مال مویشی شعبہ سے متعلق اشیا کی خلیجی ممالک خصوصاً سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات برآمد کی اجازت دی ہے۔ پارلیمانی سیکریٹری برائے تجارت و صنعت عالیہ حمزہ ملک کا کہنا ہے کہ گوشت برآمد کرنے والی چھ پاکستانی کمپنیاں حال ہی میں سعودی خوراک و ادویات اتھارٹی میں رجسٹرڈ ہوئی ہیں جس سے سعودی عرب برآمدات میں بڑی رکاوٹ ختم ہوگئی ہے۔ پاکستانی تاجر اور سرمایہ کار جدہ انٹرنیشنل ٹریڈ فیئر 2020 میں سعودی منڈی میں اپنی اشیاء کی نمائش کے لیے تیاریاں کررہے ہیں۔
(بزنس ریکارڈر، 2 نومبر، صفحہ11)

ڈیری

پاکستان میں ڈیری شعبہ کو درپیش مسائل کے حل کے لیے بینک آف پنجاب اور فرائزلینڈ کمپینا اینگرو پاکستان لمیٹڈ نے پاکستان بھر میں بینک آف پنجاب کی برانچوں کے ذریعے ڈیری فارمروں کو قرض تک آسان رسائی کے لیے اشتراک کیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت کسان بینک آف پنجاب سے آسان شرائط پر کم سود پر اپنے ڈیری کاروبار کے لیے قرض حاصل کرسکیں گے۔ روایتی ڈیری کسانوں کی اس قرض کی سہولت سے فائدہ اٹھانے کے لیے حوصلہ افزائی کی جائے گی تاکہ وہ بہتر آمدنی کے حصول کے لیے مویشیوں کی افزائش، مشینری اور بنیادی ڈھانچے کو توسیع دے سکیں۔
(بزنس ریکارڈر، 25 نومبر، صفحہ12)

ماہی گیری

بھارتی حکومت نے 20 پاکستانی ماہی گیروں کو رہا کردیا ہے جن میں سے سات کا تعلق کراچی سے جبکہ بقیہ ماہی گیروں کا تعلق ٹھٹھہ، بدین اور سجاول سے ہے۔ واہگہ سرحد پار کرنے کے بعد ماہی گیروں کو لاہور میں قرنطینہ میں رکھا گیا ہے جہاں وہ کراچی روانہ ہونے سے پہلے 14 دن قیام کریں گے۔
(ڈان، 26 نومبر، صفحہ14)

مرغبانی

آٹا اور چینی کی بلند قیمتیں ادا کرنے کے بعد اب صارفین کو مرغی اور انڈے کی اضافی قیمت بھی برداشت کرنی پڑے گی۔ کراچی میں زندہ مرغی کی قیمت 260 سے 270 روپے فی کلو دیکھی گئی جو گزشتہ ایک ماہ میں 100 روپے فی کلو بڑھی ہے۔ لاہور میں مرغی کا گوشت 320 روپے فی کلو فروخت ہورہا ہے جو گزشتہ ہفتے 270 روپے فی کلو تھا۔ انڈے کی قیمت بھی کئی افراد کی قوت خرید سے باہر ہوگئی ہے۔ خوردہ فروش انڈہ 14 سے 15 روپے کا فروخت کررہے ہیں جس کی قیمت گزشتہ ماہ 10 سے 11 روپے تھی۔
(ڈان، 18 نومبر، صفحہ9)

غربت

وزیر اعظم عمران خان نے احساس کفالت پروگرام سے متعلق ایک اجلاس کے دوران پروگرام سے مستفید ہونے والوں کی تعداد 4.6 ملین سے بڑھاکر سات ملین کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ اجلاس میں وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ غریب کورونا وباء سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں اس لیے احساس کفالت پروگرام سے مستفید ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ضروری ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 15 نومبر، صفحہ1)

وزیر اعظم عمران خان نے احساس کفالت پروگرام کے تحت 4.3 ملین عورتوں کو ادائیگی کے پہلے مرحلے کا آغاز کردیا ہے۔ اس حوالے سے وزیر اعظم نے اسلام آباد میں احساس کفالت پروگرام کے ادائیگی مرکز کا دورہ کیا۔ کفالت پروگرام سے فائدہ اٹھانے والی ہر عورت کو جولائی تا دسمبر 2020 کے دورانیہ کے لیے 12,000 روپے ادا کیے جائیں گے۔ وزیر اعظم پہلے ہی پروگرام سے فائدہ اٹھانے والی عورتوں کی تعداد سات ملین تک بڑھانے کی منظوری دے چکے ہیں۔
(بزنس ریکارڈر، 28 نومبر، صفحہ11)

غذائی کمی

مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) نے بچوں میں غذائی کمی (اسٹنٹنگ) پر قابو پانے کے لیے 350 بلین روپے کے منصوبے کی منظوری دے دی ہے۔ ایوان وزیر اعظم کے مطابق ٹیکلنگ مالنیوٹریشن انڈیوس اسٹنٹنگ ان پاکستان نامی منصوبہ 2020 سے 2025 تک جاری رہے گا۔ اس منصوبہ کی 50 فیصد لاگت وفاقی حکومت فراہم کرے گی جبکہ بقیہ صوبائی حکومتیں برداشت کریں گی۔ منصوبے میں ملک کی 30 فیصد آبادی ہدف ہوگی جس میں 15 ملین عورتیں (ری پروڈکٹو ایج) اور دو سال تک کی عمر کے 3.9 ملین بچے شامل ہونگے۔
(ڈان، 12 نومبر، صفحہ4)

ضلع مٹیاری، سندھ میں غذائی کمی کی شکار ماؤں، بچوں اور نوجوانوں کی صحت بہتر بنانے کے لیے زرعی یونیورسٹی ٹنڈوجام (ایس اے یو) اور آغا خان یونیورسٹی ضلع مٹیاری میں 40,000 سوہاجنا کے درخت لگائے گی۔ قومی غذائی سروے 2018 کے مطابق سندھ میں غذائی کمی ایک بڑا عوامی مسئلہ ہے جہاں ہر 10 میں سے چار بچے غذائی کمی (اسٹنٹڈگروتھ) کا شکار ہیں۔ پاکستان میں وزن میں کمی کے شکار بچوں کی سب سے زیادہ شرح 41.3 فیصد بھی سندھ میں ہے جبکہ عمر کے مقابلے جسامت میں کمی کے شکار (ویسٹڈ) بچوں کی شرح 23.3 فیصد ہے۔ ناقص یا کم غذائیت کی خوراک اس غذائی کمی کی بنیادی وجوہات میں سے ایک ہے۔ آغا خان یونیورسٹی اور سندھ زرعی یونیورسٹی درختوں کی نرسری قائم کریں گے جہاں علاقے کے عوام کو مفت اور باآسانی رسائی حاصل ہوگی۔ اس کے علاوہ 12,000 سہاجنا کی پنیری علاقے کے خاندانوں میں تقسیم کی جائے گی۔
(ڈان، 24 نومبر، صفحہ14)

ماحول
وفاقی حکومت نے نائب صدر متحدہ عرب امارات اور دبئی کے حکمران شیخ محمد کو پاکستان سے 150 نایاب اقسام کے باز برآمد کرنے کا خصوصی اجازت نامہ جاری کردیا ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ اجازت وزارت خارجہ کی جانب سے دی گئی ہے۔ باز کی نایاب اقسام عرب شکاری تلور کے شکار کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ باز کو ماحولیاتی تحفظ کے عالمی معاہدوں بشمول کنونشن آن انٹرنیشنل ٹریڈ ان انڈینجر اسپیشیز آف فلورا اینڈ فونا (سی آئی ٹی ای ایس) کے ذریعے تحفظ فراہم کیا گیا ہے اور ان کی بین الاقوامی منتقلی پر پابندی ہے۔ پاکستان بھی اس معاہدے میں شامل ہے۔
(ڈان، 24 نومبر، صفحہ3)

نکتہ نظر

خبروں کے آغاز سے اس کے اختتام تک تقریباً ہر شعبہ میں استحصال کا شکار طبقہ عوام خصوصاً چھوٹے اور بے زمین کسان مزدور ہی نظر آتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف راوی ریور فرنٹ ڈیولپمنٹ جیسے منصوبہ بنانے والے، صدیوں سے آباد ماہی گیروں کو ان کے روزگار سے محروم کرکے جزائر پر پرتعیش تعمیرات کا منصوبہ بنانے والے، چینی و گندم غرض ہر لازمی غذائی اشیاء کی درآمد و برآمد سے جڑی سرمایہ دار کمپنیوں اور سرمایہ داروں کو حکومتی ایوانوں میں مدعو کرکے مزید منافع کمانے اور عوامی خزانے سے مراعات کی پیشکش کی جاتی ہے، درحقیقت یہ طبقہ خود حکومت اور افسر شاہی کا بنیادی جز ہے۔
نیولبرل پالیسی سازی اس نہج پر ہے کہ جہاں پیداوار پر بیج اور دیگر کیمیائی مداخل کے ذریعے اجارہ داری کے بعد اب اس کی ترسیل و فروخت کی منڈی پر بھی کمپنیوں اور ان کے گروہوں کی اجارہ داری کو مکمل طور پر سرکاری تحفظ فراہم کیا جارہا ہے۔ چینی کا شعبہ ہو یا مرغبانی و حلال گوشت کا، زرعی اشیاء کے برآمد کنندگان ہوں یا کھاد تیار کرنے والی صنعتیں، غیر ملکی سرمایہ داروں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے ملکی پیداواری وسائل اور خوراک کو عالمی منڈی کی ضروریات کے مطابق ڈھال کر زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی ڈگر پر ہیں جس میں تمام ریاسی ادارے اپنا بھرپور کردار ادا کررہے ہیں۔اسی نیولبرل پالیسیوں کے تسلسل نے خوراک و زراعت سے جڑی آبادیوں کا استحصال کرکے انہیں بھوک و غربت سے دوچار کیا اور قومی غذائی تحفظ کو دیگر ممالک کا محتاج بناڈالا۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ گندم سے لے کر ٹماٹر تک کئی اشیاء درآمد کی جارہی ہیں جبکہ مقامی کسان منڈی میں طلب ہونے کے باوجود اپنی پیداوار کی اتنی بھی قیمت حاصل نہیں کرپاتے کہ اپنی غذائی اور دیگر بنیادی ضروریات پوری کرسکیں۔
جاگیردارانہ نظام میں بے زمینی اور آزاد تجارتی پالیسیوں نے چھوٹے اور بے زمین کسان مزدوروں کو زراعت چھوڑنے پر مجبور کردیا ہے اور اب پیداوار میں کمی کی بنیاد پر حکومت ملک میں کارپوریٹ فارمنگ کو فروغ دے کر اس شعبہ میں کام کرنے والے طبقہ کو مزید بھوک و غربت میں دھکیل کر انہیں صنعتوں کا ایندھن بنانے کی تیاری کررہی ہے، جس کے لیے بڑے بڑے سرمایہ دار سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں۔ شاید ملک میں سی پیک کے تحت بننے والے بڑے بڑے اقتصادی زونز کے لیے درکار افرادی قوت کا بندوبست اسی طرح کیا جارہا ہے!
ملک میں دہائیوں سے جاری آزاد تجارتی پالیسیوں کے نتیجے میں کسان بلند پیداواری لاگت، موسمی تبدیلی و قدرتی آفات کے ہاتھوں نقصان سے دوچار ہوکر احتجاج کررہے ہیں اور زرعی ٹیوب ویل کے لیے بجلی پر زرتلافی سمیت کسان کے لیے پیداوار کی یقینی قیمت کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن حکومتی پالیسی سازوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی جبکہ دوسری طرف ماحول اور خوراک میں زہر گھولنے والی کیمیائی کھاد کی صنعتوں کو سستی گیس کی فراہمی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔ بین الاقوامی سرمایہ دار اداروں اور بینکوں کی امداد اور قرض سے چلنے والے بھوک و غربت کے خاتمے کے منصوبے اربوں روپے مختص کرکے بھی بھوک و غربت کا خاتمہ نہیں کرسکتے کیونکہ اسی قرض کے بدلے مسلط کی گئی پالیسیاں اور ان کے نتیجے میں جنم لینے والا استحصال ہی اس بھوک کی اصل وجہ ہے۔ بھوک و غربت کا خاتمہ صرف اور صرف خوراک کی خودمختاری کے ذریعے ممکن ہے جس کے لیے پیداواری وسائل چاہے وہ زرعی زمین ہو یا ماہی گیروں کے ساحل و جزائر، جنگلات ہوں یا دریا غرض تمام قدرتی وسائل بشمول بیج پر مقامی کسان مزدور، ماہی گیر آبادیوں کا اختیار ہو۔ اسی اختیار کے لیے ان تمام آبادیوں کو اب متحد ہوکر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔