زرعی خبریں ستمبر 2020

ستمبر 1 تا 30 ستمبر 2020

زمین

لاہور ہائی کورٹ نے انجمن مزارعین پنجاب (اے ایم پی) کے سابق جنرل سیکریٹری مہر عبدالستار اور رکن عبدالغفور کو دہشت گردی اور دیگر الزامات سے بری کردیا ہے۔ دونوں رہنما پہلے ہی ساہیوال کی زیریں عدالت میں 12 مقدمات میں بری ہوچکے ہیں اور اس وقت اوکاڑہ میں مجسٹریٹ کی عدالت میں ان کے خلاف تین مقدمات زیر التواء ہیں۔
(ڈان، 9 ستمبر، صفحہ2)

کراچی پریس کلب میں غیر سرکاری تنظیموں نے سے کراچی کے قریب دو جزائر ڈنگی اور بنڈل آئی لینڈ پر نئے شہر کی تعمیر کی خبروں پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ”ماہی گیروں کے روزگار پر حملہ ہے اور یہ سمندر کے لیے مزید تباہ کن ہوگا“۔ ان دو جزائر پر تعمیرات کے لیے وفاقی حکومت کی پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے قیام کی تجویز پر تنقید کرتے ہوئے ان تنظیموں کا کہنا تھا کہ ”سندھ کی ساحلی پٹی کے ساتھ تقریباً 300 جزائر ہیں جو دریائے سندھ کی آنے والی مٹی سے وجود میں آئے ہیں۔ ان جزائر کے ارد گرد سمندر کی طرف جانے والی کھاڑیوں (کریک ایریاز) کو ماہی گیر کشتیاں استعمال کرتی ہیں، جزائر پر نئے شہر کی تعمیر کے بعد ان غریب ماہی گیروں کو متبادل راستے تلاش کرنے پڑیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ”یہ ترقی نہیں ہے، یہ بربادی ہے“۔ اطلاعات کے مطابق ایک اتھارٹی کے قیام کے لیے مجوزہ قانون تیار کرلیا گیا ہے جو پارلیمنٹ میں منظوری کے لیے پیش ہوگا۔ اس اتھارٹی کے قیام کا بنیادی مقصد ان دو جزائر پر قبضہ کرنا اور نئے شہر کی تعمیر کرنا ہے۔ جنرل مشرف کی حکومت میں دو بار 2000 اور 2006 میں ان دو جزائر پر تعمیرات کی کوشش کی گئی تھی لیکن یہ منصوبہ کئی وجوہات کی وجہ سے ناکام ہوگیا تھا۔ اس کے بعد 2013 میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے ملک ریاض کے ذریعے ان جزائر کی تعمیر کی کوشش کی لیکن سپریم کورٹ نے تعمیرات پر پابندی عائد کردی تھی۔ یہ دونوں جزائر سندھ کے عوام کی ملکیت ہیں جن پر ماہی گیروں کا روایتی حق ہے جبکہ سندھ حکومت اس کی زمین اور جنگلات کی نگراں ہے۔
(ڈان، 16 ستمبر، صفحہ13)

ایک خبر کے مطابق پنجاب لینڈ ریکارڈ اتھارٹی (پی ایل آر اے) میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی جارہی ہیں۔ پی ایل آر اے کے کئی افسران صوبہ بھر میں مبینہ طور پر جعلی دستاویزات بنانے اور بھاری رشوتیں وصول کرنے اور دیگر بے قائدگیوں پر تفتیش کا سامنا کررہے ہیں۔ گزشتہ کچھ ماہ میں کئی افسران جرم ثابت ہونے پر یا تو برطرف کردیے گئے ہیں یا معطل کردیے ہیں۔ ایک سرکاری افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ”تمام اضلاع میں پٹوار خانوں کو کمپیوٹرائزڈ لینڈ ریکارڈ مراکز سے تبدیل کرنے کا بنیادی مقصد دہائیوں پرانے پٹواری کلچر اور بدعنوانی کا خاتمہ کرنا تھا۔ لیکن رفتہ رفتہ اتھارٹی کو معلوم ہوا کہ ان مراکز پر تعینات کیے گئے نوجوان اور تعلیم یافتہ افسران اس سے بھی زیادہ بدعنوان بن گئے ہیں“۔
(ڈان، 21 ستمبر، صفحہ2)

زراعت

ایک مضمون کے مطابق اس سال کے آغاز میں پنجاب حکومت نے عالمی ادارہ خوراک و زراعت (ایف اے او) کے اشتراک سے 14 زرعی ماحولیاتی علاقوں (ایگرو ایکالوجیکل زونز) پر تحقیق کی ہے۔ 2019 میں اس رپورٹ میں پیداوار میں اضافے کے لیے فصلوں کی ممکنہ متنوع پیداوار کو سامنے لانے کے لیے بڑے پیمانے پر سائنسی اعداد وشمار جمع کیے گئے۔ ایگرو ایکالوجی زون زراعت اور زمینی وسائل کے پائیدار استعمال کے لیے پالیسی سازی میں معاون ہوتے ہیں۔ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے سابق وائس چانسلر اور چیئرمین ایگرو ایکولوجی زون پروفیسر اقرار احمد خان کے مطابق ایف اے او کی جانب سے صوبائی حکومت کے اشتراک سے اسی طرح کی مشق سندھ میں بھی جاری ہے۔ ایگرو ایکولوجی زون کی وضاحت موسمی خصوصیات، مٹی کی نمی اور درجہ حرارت کو مدنظر رکھ کر کی گئی ہے جن کا براہ راست تعلق فصلوں سے ہے۔ فصلوں کی مطابقت (ایڈابٹیبلیٹی) کا براہ راست تعلق موسم سے ہے۔ دریائے سندھ کے زیریں علاقے سندھ کو کئی مسائل کا سامنا ہے۔ ان مسائل میں موسمی تبدیلی کے نتیجے میں غیرمعمولی موسمی رجحانات، پانی کی دستیابی میں کمی، پانی کی تقسیم میں صوبائی تنازعات، زیر زمین پانی کا بے دریغ اخراج، اور کسانوں کا گنا اور چاول جیسی زیادہ پانی سے کاشت ہونے والی فصلوں کی کاشت کا جنون شامل ہے۔دریائے سندھ کے دائیں جانب چاول کی کاشت کی اجازت ہے جبکہ بائیں جانب پابندی ہے لیکن ہر سال اس کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔بااثر کاشتکار چاول کاشت کرنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ چاول ملوں کے مالک ہیں۔ تاریخی طور پر کپاس کے زیر کاشت رہنے والے علاقوں میں کسانوں میں چاول کے بعد گنے کی کاشت کا رجحان بھی نظر آرہا ہے جو کپاس کی پیداوار میں کمی کی بنیاد پر سندھ میں چینی کی صنعت میں غیر معمولی بڑھوتری کی وجہ بنا۔ پارک کے سابق چیئرمین یوسف ظفر کا کہنا ہے کہ کسان وہ فصل اگاتے ہیں جس سے انہیں زیادہ پیسے ملیں یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کئی سالوں میں ہائبرڈ چاول کی پیداوار میں واضح اضافہ ہوا ہے۔ چاول کی پیداوار چار ملین ٹن سے بڑھ کر 6.8 سے سات ملین ٹن ہوگئی ہے جس میں چار ملین ٹن مقامی ضرورت ہے باقی برآمد ہوتا ہے۔ ایسا ہی گنے کی پیداوار میں ہوا، جو 2017-18 میں بلند ترین سطح 85 ملین ٹن پر دیکھی گئی۔ ایوان زراعت سندھ کے صدر نبی بخش سہتو کا کہنا ہے کہ ”ہم موسمی تبدیلی کا سامنا کررہے ہیں لیکن کروپ زوننگ کے نفاذ کے زریعے ہم پانی کی کمی کے مسائل کو حل کرسکتے ہیں۔اگر حکومت نے ریگولیٹری کردار ادا نہ کیا تو ہم گندم اور چینی کے بعد سبزیاں بھی درآمد کریں گے“۔ پروفیسر اقرار احمد خان سمجھتے ہیں کہ کروپ زونگ لازمی ہے کیونکہ موسمی تبدیلی باقائدہ اثرانداز ہورہی ہے۔
(محمد حسین خان، ڈان، 1 ستمبر، صفحہ2، بزنس اینڈ فنانس)

محکمہ زراعت پنجاب نے کاشتکاروں کو کہا ہے کہ وہ حکومت کی طرف سے بڑھائی جانے والی زرتلافی سے فائدہ اٹھانے کے لیے چنے کے زیرکاشت رقبے میں اضافہ کریں۔ پنجاب میں چنا 2.4 ملین ایکڑ رقبے پر کاشت کیا جاتا ہے جو ملک میں اس کے زیر کاشت کل رقبے کا 60 فیصد ہے۔ چنے کی کاشت صوبے میں 25 ستمبر سے شروع ہوتی ہے۔ جھنگ، میانوالی، بھاولنگر، سرگودھا، ڈیرہ غازی خان، لیہ، اٹک، خوشاب، راجن پور، چکوال، بھکر، مظفرگڑھ کے رجسٹرڈ کسان اس فصل پر زرتلافی حاصل کرنے کے اہل ہیں۔ ترجمان محکمہ زراعت پنجاب کے مطابق پانچ ایکڑ تک زمین رکھنے والے کسانوں کو فی ایکڑ 2,000 روپے زرتلافی دی جارہی ہے۔ کسانوں کو بیج کے تھیلے میں موجود پرچی پر درج نمبر فراہم کردہ موبائل نمبر پر بھیجنا ہوگا، حکومت کی جانب سے تصدیق موصول ہونے کے بعد کسان 500 روپے فوری طور پر کسی قریبی موبائل کی دکان سے وصول کرسکتے ہیں جبکہ بقیہ 1,500 روپے کٹائی پر موصول ہونگے۔
(بزنس ریکارڈر، 10 ستمبر، صفحہ4)

وزیر اعظم عمران خان نے زرعی شعبہ میں اصلاحات پر ہونے والے اجلاس میں وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق اور صوبوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ زرعی پیداوار، اس کی کھپت، اس کے زیاں اور برآمدات کے درست اعداد وشمار جمع کریں تاکہ حکومت اجناس کی درست طلب و رسد کے بارے میں جان سکے۔ وزیر اعظم نے زرعی پیداوار میں اضافے اور غذائی تحفظ کے مسائل سے نمٹنے کے لیے چین کی مہارت اور تعاون کے مکمل استعمال کو یقینی بنانے کے لیے چینی تجربات بروئے کار لانے پر زور دیا ہے۔ وزیر اعظم نے حکام کو ایگرو ایکو لوجیکل زونز کی تنظیم نو کی بھی ہدایت کی ہے۔
(ڈان، 24 ستمبر، صفحہ1)

ایک خبر کے مطابق سی پیک کے تحت زرعی شعبہ کی ترقی کے لیے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ سی پیک کے پروجیکٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر لیاقت علی شاہ نے اخبار کو بتایا ہے کہ کہ زرعی شعبہ کے لیے ایک ایکشن پلان بنایا جارہا ہے۔ اس ایکشن پلان میں سی پیک کے تحت زرعی شعبہ کی وضاحت کی جائے گی۔ وزارت منصوبہ بندی و ترقی کو اب تک زرعی شعبہ سے متعلق منصوبوں کی سفارشات (ورکنگ پیپر یا پی سی ون) موصول نہیں ہوئی ہیں۔ متعلقہ وفاقی وزارت خوراک، زراعت اور صوبائی وزارتیں یہ سفارشات تیار کریں گی جو وزارت منصوبہ بندی و ترقی میں جمع ہونگی۔ ذرائع کے مطابق دو سال پہلے زرعی شعبہ پر ایک مشترکہ گروپ (جوائنٹ ورکنگ گروپ) قائم کیا گیا تھا لیکن اس دوران اس گروپ کے صرف دو اجلاس ہوئے ہیں۔ یہ گروپ پھل و سبزیوں، بیج، قطرہ قطرہ آبپاشی نظام اور گوشت کی صنعت کی ترقی کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ یہ گروپ غیر رسمی طور پر نومبر 2019 میں قائم کیا گیا تھا تاہم اپریل 2020 میں اس کا باقائدہ اعلامیہ جاری کردیا گیا تھا۔
(بزنس ریکارڈر، 25 ستمبر، صفحہ5)

گندم

وزیر تجارت و صنعت پنجاب میاں اسلم نے ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب حکومت ہر ماہ عوام کو رعایتی قیمت پر آٹے کی فراہمی کے لیے 6.5 بلین روپے زرتلافی ادا کررہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تمام اضلاع میں آٹا ملوں کو ضرورت کے مطابق گندم فراہم کیا جارہا ہے، مل رعایتی قیمت پر گندم حاصل کررہے ہیں۔ صوبہ بھر میں 20 کلو آٹے کا تھیلا باآسانی 860 روپے اور 10 کلوگرام کا تھیلا 430 روپے میں دستیاب ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 2 ستمبر، صفحہ12)

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قومی غذائی تحفظ و تحقیق کو بتایا گیا ہے کہ سال 2019-20 میں پاکستان گندم کی پیداوار کا ہدف حاصل نہیں کرسکا۔ ملک میں 1.411 ملین ٹن گندم کی کمی کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ سال 2019-20 کے لیے گندم کی پیداوار کا ہدف 25.45 ملین ٹن مقرر کیا گیا تھا۔ سیکریٹری وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق عمر حیات خان نے کمیٹی کو بتایا کہ ہدف کے حصول میں ناکامی کی وجوہات میں اسمگلنگ، ذخیرہ اندوزی، مقامی منڈی میں زیادہ قیمت، گندم کی عالمی قیمت اور موسمی تبدیلی شامل ہے۔ اس کے علاوہ گندم کی خریداری میں صوبوں کے درمیان تعاون کا فقدان اور گندم کی بین الصوبائی نقل و حمل میں رکاوٹیں بھی اس کی وجہ ہیں۔ گندم بحران کی ایک اور وجہ 1,400 روپے فی من امدادی قیمت تھی جبکہ کھلی منڈی میں گندم کی قیمت زیادہ تھی۔
(ڈان، 23 ستمبر، صفحہ12)

چیئرمین پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن (پی ایف ایم اے)، پنجاب عاصم رضا نے خبردار کیا ہے کہ ”وفاقی حکومت کو منڈی میں آٹے کی دستیابی یقینی بنانے کے لیے فوری طور پر گندم درآمد کرنی چاہیے۔ بصورت دیگر دسمبر کے مہینے میں جب گندم کی قلت عروج پر ہوگی تو عوام سڑکوں پر آئیں گے اور حکومتی دفاتر اور آٹا ملوں پر پتھراؤ کرینگے“۔ پی ایف ایم اے کے اجلاس میں بات کرتے ہوئے انہوں نے وفاقی اور پنجاب حکومت کو موجودہ غیریقینی صورتحال کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملوں نے حکومت کو چھ ماہ پہلے کم از کم تین ملین ٹن گندم کی کمی سے متعلق خبردار کیا تھا لیکن حکام ٹس سے مس نہ ہوئے۔ انہوں نے دعوی کیا کہ مسئلہ آٹے کی قیمت کا نہیں اس کی دستیابی کا ہے جو دسمبر میں اپنے عروج پر ہوگا۔
(ڈان، 30 ستمبر، صفحہ2)

چاول

کاشتکاروں اور ہاریوں کی بڑی تعداد نے کندھ کوٹ، سندھ میں چاول کے غیرمعیاری بیج کی فروخت کے خلاف احتجاجی ریلی منعقد کی۔ احتجاجی ریلی مختلف شاہراؤں سے ہوتی ہوئی ڈپٹی کمشنر آفس پہنچی جہاں کسانوں نے دھرنا دیا اور انتظامیہ کے خلاف جعلی بیجوں کی فروخت روکنے میں ناکامی کے خلاف نعرے بازی۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ مقامی معیشت اور کندھ کوٹ و کشمور کے مقامی افراد کا روزگار زرعی شعبہ پر منحصر ہے لیکن انتظامیہ نے کسانوں کے تحفظ کے لیے غیرمیعاری بیج فروخت کرنے والے تاجروں کے خلاف کوئی اقدامات نہیں کیے۔ غیرمعیاری بیج کی وجہ سے ان کی 50 فیصد چاول کی پیداوار متاثر ہوئی ہے جو ضلع کے کسانوں کے معاشی قتل کے مترادف ہے۔ (ڈان، 20 ستمبر، صفحہ15)

چاول کے خریداروں کی دلچسپی کم ہونے کی وجہ سے پاکستان سے رواں مالی سال کے ابتدائی دو ماہ (جولائی، اگست) میں چاول کی برآمد گزشتہ سال اسی دورانیے کے مقابلے 31 فیصد کم ہوگئی ہے۔ زرعی ماہر حامد ملک کا کہنا ہے کہ غیرباسمتی چاول کی برآمد میں کمی کی وجہ قابل برآمد چاول کی کمی اور بھارت کے مقابلے زیادہ قیمت ہے۔ ستمبر میں نئے ہائبرڈ چاول کی آمد کے بعد غیر باسمتی چاول کی برآمد میں بہتری کی امید ہے۔ بھارت کے مقابلے پاکستانی چاول کی قیمت زیادہ ہونے کی وجہ سے اس سال ستمبر اکتوبر میں بھی پاکستانی باسمتی چاول کی برآمد میں کمی کا رجحان جاری رہے گا۔
(بزنس ریکارڈر، 22 ستمبر، صفحہ16)

رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان (ریپ) نے بھارت کی جانب سے یورپی یونین میں باسمتی چاول کو (جیوگرافیکل آئی ڈیٹیفی کیشن قانون کے تحت) بھارتی شے قرار دینے کی درخواست کا نوٹس لیا ہے اور عالمی تجارتی ادارہ (ڈبلیو ٹی او) کے تحت پاکستانی حقوق کے دفاع کا عزم کیا ہے۔ ریپ کا کہنا ہے کہ ”بھارت حقائق کو مسخ کرنے اور ہماری میراث چرانے کی کوشش کررہا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا ہے اور جلد انہیں معلوم ہوجائے گا“۔ وزیر زراعت پنجاب حسین جہانیاں گردیزی نے محکمہ جاتی اجلاس میں باسمتی چاول پر پاکستانی حق کا ہر سطح پر دفاع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 24 ستمبر، صفحہ10)

مکئی

ترکی نے پاکستان کو مکئی کا بیج برآمد کرنے کے لیے فائٹو سینٹری معیار کی منظوری کی درخواست کی ہے۔ اس کے علاوہ ترکی نے ادویات میں استعمال ہونے والی بلوط (الیپو اوک) کی ایک قسم کو بھی پاکستانی منڈی میں رسائی دینے کی درخواست کی ہے۔ محکمہ تحفظ نباتات (ڈی پی پی) نے ترک مکئی کے بیجوں کی درآمد کے لیے ان بیجوں پر کیڑے مکوڑوں کے حملے کے خطرات کا تجزیہ کیا ہے اور اس کے نتائج ترکی کے محکمہ تحفظ نباتات کو مزید کارروائی کے لیے بھیجے ہیں۔
(ڈان، 18 ستمبر، صفحہ9)

بھنگ

ایک خبر کے مطابق کابینہ آج ایک منصوبے کی منظوری دے گی جس کے تحت ملک میں سائنسی اور طبی مقاصد کے لیے بھنگ کاشت کی جائے گی۔ اس حوالے سے وزارت انسداد منشیات (منسٹری آف نارکوٹکس کنٹرول) نے باضابطہ طور پر ایک سمری وزیر اعظم کی منظوری کے لیے جمع کروائی ہے جس پر کابینہ یکم ستمبر کو غور کرے گی۔ پاکستان کونسل آف سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (پی سی ایس آئی آر) اور وزارت سائنس و ٹیکنالوجی نے صنعتی پیمانے پر نباتاتی باغ، جھنگ میں 50 ایکڑ رقبے پر بھنگ کاشت کرنے کی درخواست کی تھی۔
(بزنس ریکارڈر، 1 ستمبر، صفحہ1)

وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا ہے کہ مستقبل میں طبی بنیادوں پر بھنگ کی پیداوار پاکستان کے لیے ایک بلین ڈالر کی منڈی ہوگی۔ اپنے ایک بیان میں وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ کابینہ نے پہلا لائسنس وزارت سائنس و ٹیکنالوجی اور پاکستان کونسل آف سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (پی سی ایس آئی آر) کو بھنگ کے طبی و صنعتی استعمال کے لیے جاری کیا تھا۔ یہ ”تاریخ ساز فیصلہ“ پاکستان کو اربوں ڈالر کی بھنگ (Cannabidiol/CBD) منڈی تک رسائی دے گا۔
(ڈان، 3 ستمبر، صفحہ4)

چینی

اسٹیٹ بینک نے نجی شعبہ کے ذریعے چینی کی درآمد کے لیے 100 فیصد پیشگی ادائیگی کی اجازت دے دی ہے۔ وفاقی حکومت نے مقامی منڈی میں بڑھتی ہوئی قیمت پر قابو پانے کے لیے حال ہی میں نجی شعبہ کو 200,000 ٹن چینی درآمد کرنے کی اجازت دی ہے۔ اس سے پہلے وفاقی حکومت نے ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان (ٹی سی پی) کے ذریعے چینی درآمد کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن صرف دو کمپنیوں سے بولی موصول ہونے اور ان کی قیمت عالمی منڈی سے کہیں زیادہ ہونے کی وجہ سے حکومت نے نجی شعبہ کے ذریعے رعایتی ٹیکس پر چینی درآمد کرنے کا فیصلہ کیا۔
(بزنس ریکارڈر، 1 ستمبر، صفحہ1)
محکمہ انسداد بدعنوانی (اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ) نے کسانوں کی جانب سے شکایات پر 44 شوگر مل مالکان کو طلب کرلیا ہے۔ محکمہ کے مطابق اسے کسانوں کی جانب سے شوگر ملوں کے خلاف واجبات ادا نہ کرنے اور ادائیگیوں میں کٹوتی کی 2,500 شکایات موصول ہوئی ہیں۔ محکمہ نے مل مالکان کو ذاتی حیثیت میں ریکارڈ کے ساتھ طلب کیا ہے۔
(ڈان، 20 ستمبر، صفحہ2)

عالمی بینک سندھ حکومت کو منتخب کردہ علاقوں میں خشک سالی اور سیلاب کے خطرات سے نمٹنے کے لیے بارش کے پانی کے ذریعے بھرنے والے چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کے لیے 200 ملین ڈالر قرض فراہم کرے گا۔ ”سندھ ریزیلنس“ منصوبے کے تحت چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کے لیے جگہ کا انتخاب ابتدائی تجزیاتی (فزیبلٹی) رپورٹ کی بنیاد پر ہوگا جس پر کام جاری ہے۔ یہ ڈیم دادو، ٹھٹھہ، کراچی، جامشورو اور تھرپارکر اضلاع میں بنائے جائیں گے جو پانی کی کمی کے شکار ہیں۔
(ڈان، 20 ستمبر، صفحہ3)

آٹا

اگست کے آخری ہفتے میں یوکرین سے گندم کی درآمد اور اس کے نتیجے میں آٹے کی قیمت میں دو روپے فی کلو کمی کے بعد، منڈی میں آٹے قیمت دوبارہ بڑھ رہی ہے۔ سندھ میں آٹا ملوں نے کئی اقسام کے آٹے کی قیمت میں 1.50 روپے فی کلو گرام اضافہ کردیا ہے۔ پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن (پی ایف ایم اے)، سندھ کے چیئرمین خالد مسعود نے کھلی منڈی میں مقامی اور درآمدی گندم کی قیمت میں اضافے کو آٹے کی قیمت میں اضافے کی وجہ قرار دیا ہے۔ کھلی منڈی میں مقامی گندم کی قیمت دوبارہ 5,200 روپے فی بوری (100 کلوگرام) ہوگئی ہے جو درآمد گندم آنے کے بعد 4,800 روپے ہوگئی تھی۔
(ڈان، 12 ستمبر، صفحہ9)

خشک دودھ

کسٹم حکام (ماڈل کسمٹز کلکٹریٹ) نے کراچی کے صنعتی علاقے میں مشروبات بنانے والی کمپنی سے بڑی مقدار میں ایران سے اسمگل شدہ خشک دودھ اور کیمیکل ضبط کرنے کا دعوی کیا ہے۔ عملے نے کئی ملین روپے مالیت کے آٹھ کنٹینر خشک دودھ کے اور دو کنٹینر کیمیکل کے ضبط کیے ہیں۔ فیکٹری مالک کو گرفتار کرکے مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 4 ستمبر، صفحہ7)

پانی

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے بجلی کے بلوں کے ذریعے صارفین سے نیلم جہلم سرچارج کی وصولی روکنے کی ہدایت کی ہے۔ رانا تنویر حسین کی سربراہی میں ہونے والے کمیٹی کے اجلاس میں بتایا گیا ہے کہ حکومت اب بھی نیلم جہلم سرچارج وصول کررہی ہے حالانکہ منصوبہ دو سال پہلے ہی مکمل ہوچکا ہے۔ حکومت نے ایک اعلامیہ کے ذریعے چار جنوری 2008 کو بجلی صارفین پر 10 پیسہ فی یونٹ سرچارج 31 دسمبر 2015 تک کے لیے عائد کیا تھا۔ سرچارج کی مدت پوری ہونے کے بعد سے اب تک حکومت صارفین سے 70 بلین روپے وصول کرچکی ہے۔
(ڈان، 3 ستمبر، صفحہ12)

ایک خبر کے مطابق دریائے سندھ میں گڈو بیراج کے مقام پر پانی کی سطح درمیانے درجہ کے سیلاب تک بڑھ گئی ہے جس میں اضافہ ہورہا ہے۔ محکمہ آبپاشی حکام کا کہنا ہے کہ ملک کے بالائی علاقوں میں حالیہ بھاری بارشوں کی وجہ سے بیراج میں مزید 470,000 سے 480,000 کیوسک پانی کی آمد متوقع ہے۔
(ڈان، 4 ستمبر، صفحہ15)

ہائی کورٹ کے ویندر ڈیم کے ٹھیکے کی نیلامی کے حکم کے خلاف سپریم کورٹ نے بلوچستان حکومت کی اپیل کی سماعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان میں ویندر ڈیم کی تعمیر میں اب تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ بلوچستان ہائی کورٹ نے ڈیم کی تعمیر کے لیے کھلی نیلامی کے زریعے ٹھیکہ دینے کا حکم دیا تھا۔ ڈیم کی تعمیر کے لیے 28 ستمبر 2009 کو پاکستان اور کینیڈا کے مشترکہ کنسورشیم کو ٹھیکہ دیا گیا تھا جسے ٹھیکیدار کی جانب سے کارکردگی ضمانت (پرفارمنس گارنٹی) دینے میں ناکامی کی وجہ سے منسوخ کردیا گیا تھا۔ مجوزہ ڈیم میں 36,484 ایکڑ فٹ پانی کا ذخیرہ 10,000 ایکڑ اراضی کو سیراب کرے گا اور 300 کلوواٹ پن بجلی کی پیداوار کرے گا۔ یہ ڈیم اب 15.230 بلین روپے کی لاگت سے تعمیر ہوگا جس کے لیے مکمل سرمایہ وفاقی حکومت فراہم کرے گی۔
(بزنس ریکارڈر، 9 ستمبر، صفحہ3)

ماہی گیری

سندھ کے ساحلی علاقوں کے ماہی گیروں نے گہرے پانی میں شکار کرنے والے تجارتی جہازوں (ڈیپ سی فشنگ ٹرالرز) کو لائسنس جاری کرنے کے وفاقی حکومت کے فیصلے کو رد کرتے ہوئے اس طرح کے فیصلوں کے خلاف احتجاجی مہم چلانے کا اعلان کیا ہے۔ ماہی گیروں کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں نے اس حوالے سے آرٹس کونسل سے کراچی پریس کلب تک ایک احتجاجی ریلی نکالی۔ ریلی سے خطاب کرتے ہوئے شرکاء کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے ایک بار پھر لائسنس جاری کرنے کا عمل شروع کردیا ہے اور تقریباً ایک درجن ماہی گیری کرنے والے بڑے تجارتی جہاز کراچی بندرگاہ پر لنگرانداز ہیں۔ شرکاء کا کہنا تھا کہ دنیا میں 4.6 ملین چھوٹی، بڑی اور درمیانی کشتیاں ہیں جن میں سے چند یعنی صرف 35,000 ایسے تجارتی ٹرالر ہیں۔ تاہم یہ ٹرالر 35 فیصد سمندری وسائل کا اخراج کررہے ہیں۔ ان ٹرالروں کے جال کئی کلومیٹر پر پھیلے ہوتے ہیں۔ یہ ٹرالر صرف مطلوبہ مچھلی رکھتے ہیں جبکہ بقیہ 90 فیصد مردہ مچھلیاں واپس سمندر میں پھینک دیتے ہیں جو آلودگی کا باعث ہے۔ گہرے سمندر میں ان ٹرالروں کی موجودگی چھوٹے ماہی گیروں کے ساتھ ساتھ سمندری ماحول کے لیے بھی خطرہ ہے۔
(ڈان، 3 ستمبر، صفحہ13)

موسمی بحران

بارشوں سے متاثرہ زیریں سندھ کے اضلاع خصوصاً میرپورخاص اور بدین میں ہاریوں کے خیمے بائی پاس اور سڑک کنارے نظر آرہے ہیں۔ غریب طبقہ کو، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق مذہبی اقلیتوں اور ہاریوں سے ہے، ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ شدید بارشوں کے بعد کھلے آسمان تلے یہ ہاری شدید صدمے سے دوچار ہیں اور گزشتہ کئی دنوں سے اپنے دیہات میں پانی کم ہونے کے انتظار میں ہیں۔ مون سون بارشوں کا آخری سلسلہ ضلع میرپور خاص، سجاول، بدین، سانگھڑ اور عمرکوٹ میں زرعی زمینوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوا ہے۔ مقامی ہاری طوطا بھیل کا کہنا ہے کہ کپاس اور مرچ کی فصلیں تباہ ہوگئی ہیں۔ گزشتہ کئی سالوں سے سندھ میں کپاس کی فصل کئی وجوہات کی وجہ سے پہلے ہی پیداوار میں کمی کا شکار ہے، حالیہ بارشوں نے کپاس اور چاول کی فصل کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ پرونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق چھ جولائی تا چھ ستمبر بارشوں کے دوران کراچی سمیت 1.094 ملین ایکڑ رقبے پر فصلیں متاثر ہوئی ہیں۔ لیکن اتھارٹی نے بارش و سیلاب سے بے گھر ہونے والوں کی تعداد ظاہر نہیں کی ہے۔ امدادی کیمپوں میں کل 23,629 افراد رہائش پزیر ہیں۔
(ڈان، 9 ستمبر، صفحہ15)

وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے صوبے بھر میں بارش سے متاثرہ علاقوں میں امدادی کاموں کے لیے 700 ملین روپے امداد کی منظوری دے دی ہے۔ وزیر اعلی نے متاثرہ افراد کے لیے خوراک، خیمے، مچھردانیاں اور مویشیوں کے لیے چارے کی تقسیم کی ہدایت کی ہے۔ یہ منظوری وزیر اعلی نے بارشوں سے متاثرہ اضلاع میں امدادی کاموں کے حوالے سے ہونے والے اجلاس کے دوران دی جس میں وزیر اعلی کے مشیر برائے قانون مرتضی وہاب اور چیف سیکریٹری سندھ ممتاز شاہ سمیت دیگر متعلقہ افسران نے شرکت کی۔ بورڈ آف ریونیو حکام کا اجلاس میں کہنا تھا کہ ان کا محکمہ اور پرونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) بارش سے متاثرہ افراد کو ہرقسم کی امداد فراہم کرے گا لیکن جہاں تک مویشیوں کے چارے اور علاج کا تعلق ہے تو یہ کام محکمہ مال مویشی کا ہے۔
(ڈان، 12 ستمبر، صفحہ15)

دریائے جہلم کے ساتھ دونوں کناروں پر آباد کسانوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ان کے دیہات کو آفت زدہ قرار دیا جائے اور ان کی مشکلات ختم کرنے کے لیے انہیں تمام ضروری مراعات دی جائیں۔ درمیانے درجہ کے اچانک آنے والے سیلاب سے دریا کنارے تقریبا 150 دیہات میں چارا، چاول، کپاس اور سبزیوں کی کھڑی فصلوں کو شدید نقصان پہنچا تھا اور کسان اپنے مویشیوں کے ساتھ محفوظ مقام پر منتقل ہونے پر مجبور ہوگئے تھے۔ نقل مکانی کرنے والے کسانوں کی جانب سے بتایا گیا نقصان بہت بڑا ہے، ان کسانوں کی بحالی کے لیے ایک مالی پیکج کی ضرورت ہے۔
(ڈان، 21 ستمبر، صفحہ8)

ماحول

کے پی حکومت نے دریاؤں کے کنارے سے ریتی بجری نکالنے کے لیے لیز (ٹھیکے) کا اجراء بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ چیف سیکریٹری کے پی کا کہنا ہے کہ وزیر اعلی نے حالیہ کابینہ اجلاس میں دریاؤں کے کنارے سے ریتی بجری کے اخراج کو روکنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد چیف سیکریٹری نے محکمہ معدنیات و کان کنی کو دریا کنارے اور تاریخی مقامات سے ریتی بجری کے اخراج کے لیے نئی لیز جاری نہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔
(ڈان، 22 ستمبر، صفحہ8)

کسان مزدور

میرپورخاص، سندھ کے علاقے پھلادیوں (Phuladyoon) میں پولیس نے چھاپہ مار کر 30 مردوں، عورتوں اور بچوں پر مشتمل کئی ہاری خاندانوں کو زمیندار ملہار ملکانی کی زمینوں سے بازیاب کرلیا ہے۔ ایک ہاری شمو کوہلی کی درخواست پر سیشن عدالت نے پولیس کو چھاپہ مارنے کا حکم دیا تھا۔ درخواست گزار کا کہنا تھا کہ زمیندار نے اس کے خاندان اور دیگر قریبی رشتہ داروں کو حراست میں رکھا ہوا ہے۔ نہ تو انہیں اجرت دی جارہی ہے اور نہ ہی انہیں بٹائی کے قانون ٹیننسی ایکٹ کے تحت پیداوار میں حصہ دیا جارہا ہے جبکہ ان کی نقل و حرکت صرف زمینوں تک محدود کردی گئی ہے۔ پولیس نے بازیاب کروائے گئے ہاریوں کو عدالت میں پیش کیا، جنہیں بیان لینے کے بعد رہا کردیا گیا۔
(ڈان، 17 ستمبر، صفحہ15)

غربت

وزیر اعظم کی مشیر برائے غربت و سماجی تحفظ ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے کہا ہے کہ احساس کیش پروگرام کے تحت 14.6 ملین مستحقین میں 175 بلین روپے تقسیم کیے جاچکے ہیں اور جلد ہی اس پروگرام کا دوسرا مرحلہ شروع ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ”اب وزیر اعظم کی ہدایت کے مطابق دوسرا مرحلہ شروع ہوگا جس میں ان لوگوں کو اضافی نقد رقم فراہم کی جائے گی جنہیں مدد کی اشد ضرورت ہے“۔ دوسرے مرحلے کے لیے ترمیم شدہ فہرستیں جلد تیار کی جائیں گی کیونکہ کاروبار اور منڈی کھلنے اور کورونا وائرس پر قابو پانے کے نتیجے میں مستحق افراد کی تعداد میں کمی ہوسکتی ہے۔
(ڈان، 4 ستمبر، صفحہ12)

نکتہ نظر

اس ماہ کی خبروں میں ملک میں ایگرو ایکولوجیکل زون کے قیام کے حوالے سے ایک مضمون اور وزیر اعظم کے بیان پر مبنی خبر بھی شامل ہے۔ مضمون میں ملک میں فصلوں کی پیداوار میں عالمی منڈی کی ضروریات اور منافع کی بنیاد پر زرعی پیداوار کے رجحان کو واضح کیا گیا ہے، ملک میں خصوصاً سندھ کے زیریں علاقوں میں پانی کی کمی کے باوجود گنا اور چاول جیسی نقد آور فصلوں کی پیداوار میں بے تحاشہ اضافے نے اس نہج پر لاکھڑا کیا ہے کہ کپاس کے زیر کاشت رقبے اور پیداوار میں شدید کمی نے ایک طرف تو اس فصل سے جڑے کسان مزدوروں کو ان کے روزگار سے محروم کیا ہے دوسری طرف ملک میں کپڑے کی صنعت سے وابستہ لاکھوں مزدوروں کو بھی متاثر کیا ہے جو یقینا وبائی صورتحال میں مزید بھوک اور غربت میں اضافے کا پیش خیمہ ہے۔ ملک میں برآمدی اور منافع بخش نقد آور فصلوں کی پیداوار کا بڑھتا ہوا رجحان اچانک پیدا نہیں ہوا، اس کے پیچھے منافع خور سرمایہ دار کمپنیاں چاہے وہ بیج کی ہوں یا کھاد و زرعی زہر کی، جاگیردار اور صنعتکار بھی شامل ہیں جو خود چینی اور چاول ملوں کے مالکان بھی ہیں اور عالمی منڈی میں نباتاتی ایندھن یعنی ایتھنول کے برآمد کنندہ بھی، جنہوں نے منافع کی خاطر ملکی وسائل اور کسانوں کی سخت محنت کو بین الاقوامی منڈی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے استعمال کیا اور ملک میں عوام کو بھوک و غربت سے دوچار کیا۔ نقد آور فصلوں کی ضرورت سے زیادہ کاشت پانی کی کمی اور نہروں کے آخری سروں تک پانی نہ پہنچے کی بھی ایک وجہ ہے جہاں چھوٹے کسان اپنی غذائی ضروریات کے لیے فصلیں کاشت کرنے بھی محروم رہ جاتے ہیں جن کے احتجاج کی خبریں آئے دن اخباروں کی زینت بنتی ہیں۔
ملک میں کسانوں کی اکثریت بے زمین ہو یا بہت تھوڑی زمین رکھتی ہو اور پیداواری وسائل پر جاگیردار ور سرمایہ دار اشرافیہ قابض ہو تو پیداوار منافع کی بنیاد پر ہوتی ہے ناکہ غذائی تحفظ و ضروریات کی بنیاد پر۔ بحیثیت قوم پاکستان اس وقت ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہے اور ملک میں بڑے پیمانے پر گندم، چینی سمیت دیگر غذائی اشیاء کی مسلسل درآمد کے دوران یہ خدشات غلط نہیں کہ پاکستان جہاں آدھی آبادی زراعت سے وابستہ ہو سبزیاں بھی درآمد کرنے پر مجبور ہوگا۔ ملک میں بڑھتی ہوئی بھوک اور غربت خود ثابت کررہی ہے کہ منافع کی خاطر عالمی منڈی کی ضروریات کے تحت مخصوص فصلوں کی ضرورت سے زیادہ پیداوار عوام خصوصاً دیہی آبادیوں کو خوراک کا تحفظ دینے سے قاصر ہے۔
ملک میں کسان مزدور آبادیوں میں بھوک اور غربت کے خاتمے کے لیے ہمیشہ مقامی جاگیردار سرمایہ دار حکمران طبقے نے عالمی سامراجی پالیسیوں کے تحت اپنے مفادات پر مبنی حل پیش کیے ہیں اور ہمیشہ ہی زمین اور دیگر پیداواری وسائل بشمول دریا، سمندری وسائل پر قبضے کے لیے زمینی تقسیم و ملکیت اور اختیار کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو مختلف حربوں سے کچلنے کی کوشش کی ہے۔ اوکاڑہ کے کسان آج بھی زمینی ملکیت سے محروم ہیں اور اب پرتعیش طرز رہائش کے کاروبار کے لیے ناصرف ماہی گیروں کو ان کے روزگار سے محروم کرنے بلکہ سمندری ماحولیات کو بڑی بڑی تعمیراتی کمپنیوں کے منافع کی خاطر مزید برباد کرنے کے منصوبے زیر غور ہیں۔ غیرملکی ماہی گیر کمپنیوں کو بڑے بڑے تجارتی جہازوں کے زریعے ماہی گیری کرنے اور سمندری وسائل پر قبضے کی کھلی چھوٹ دیگر مقامی ماہی گیروں کو بے روزگاری اور بھوک کی طرف دھکیلنے کا سلسلہ تو جاری ہی تھا اب ان مقامی ماہی گیروں کو ساحلوں اور جزیروں سے بے دخل کرنے کا عمل تیز ہورہا ہے۔ کراچی کے قریب ڈونگی اور بنڈل آئی لینڈ دونوں جزائر تیمر کے جنگلات اور سمندری حیات کے مسکن ہیں جو ناصرف سمندری حیات کی افزائش میں بنیادی کردار ادا کرکے ماہی گیروں کے روزگار کو تحفظ فراہم کرتے ہیں بلکہ ساحلی آبادیوں کو شدید موسمی حالات سے تحفظ فراہم بھی کرتے ہیں۔ زمینی و سمندری وسائل سمیت تمام تر پیداواری وسائل پر جاگیرداروں،سرمایہ داروں اور کمپنیوں، چاہے وہ بیج و دیگر کیمیائی زرعی مداخل کی کمپنیاں ہوں یا تعمیرات و غذائی شعبہ میں کام کرنے والی کمپنیاں، کا قبضہ اور ان کا غیرپائیدار استعمال اور استحصال جدید نوآبادیاتی نظام یا عالمگیریت کے تحت آج بھی جاری ہے، ان کا جڑ سے خاتمہ ہی مظلوم طبقات کی خوشحالی کا آغاز ہوگا۔