ہفتہ وار زرعی خبریں مئی 2020

  مئی 14 تا 30 مئی 2020

زمین

محکمہ انسداد بدعنوانی (اینٹی کرپشن) کی جانب سے متعلقہ حکام کو جمع کروائی گئی رپورٹ کے مطابق تحریک انصاف کے رہنما حلیم عادل شیخ دیگر 14 افراد کے ساتھ جامشورو میں زمینی قبضے میں ملوث پائے گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق حلیم عادل شیخ نے اپنے کارندے طارق قریشی کے ذریعے غیر قانو نی طور پر 410 ملین روپے مالیت کی 207 ایکڑ سرکاری زمین اپنے نام منتقل کروائی۔ رپورٹ میں ادارہ ترقیات سہون (ایس ڈی اے) اور ڈپٹی کمشنر جامشورو کی جانب سے ماضی میں کی گئی تحقیقات کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ حلیم عادل شیخ دھوکہ دہی کے زریعے زمین کی غیرقانونی منتقلی میں بھی ملوث ہیں۔ تاہم حلیم عادل شیخ نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ مزکورہ زمین سرکاری نہیں بلکہ نجی ملکیت تھی۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 15 مئی، صفحہ5)

زراعت

ایک خبر کے مطابق کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے زرعی شعبہ کے لیے 50 بلین روپے کا پیکج منظور کر لیا ہے۔ وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق نے اقتصادی رابطہ کمیٹی سے کسانوں کو کیمیائی کھاد پر زرتلافی دینے، زرعی قرضوں پر شرح سود میں کمی، کپاس کے بیجوں اور سفید مکھی سے بچاؤ کے لیے زرعی زہر پر زرتلافی دینے اور مقامی طور پر تیار کردہ ٹریکٹروں پر سیلز ٹیکس میں چھوٹ کی صورت زرتلافی دینے کے لیے 56.6 بلین روپے کا مطالبہ کیا تھا۔ واضح رہے کہ کرونا امدادی پیکج کے تحت مختص کردہ 1,200 بلین روپے میں سے کسانوں اور چھوٹے کاروباری اداروں (اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز) کے لیے کل 100 بلین روپے مختص کیے گئے تھے۔ زرعی شعبہ کو دیے جانے والے اس پیکج کے تحت تقریباً 37 بلین روپے کیمیائی کھاد پر زرتلافی پر خرچ ہونگے۔
(ڈان، 14 مئی، صفحہ9)

کسان بورڈ پاکستان نے وفاقی حکومت کی جانب سے پیش کیے گئے زرعی پیکج کو مسترد کرتے ہوئے اسے کسانوں کے ساتھ مذاق قرار دیا ہے۔ بورڈ نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت کھاد پر زرتلافی فراہم کرنے کے لیے کھاد کی بوری میں رعایتی پرچی ”اسکریچ کارڈ اسکیم“ کے بجائے کسانوں کو امدادی قیمت پر کھاد فراہم کرے۔ بورڈ کے مرکزی صدر چوہدری نثار احمد نے ارکان کے ساتھ ایک اجلاس کے دوران کہا ہے کہ گزشتہ کچھ سالوں سے اسکریچ کارڈ کے ذریعے دی جانے والی زرتلافی کسانوں تک نہیں پہنچی۔ اجلاس میں حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ گندم کی خرید و فروخت پر حکومت غیرمنصفانہ پابندیاں عائد نہ کرے، اس سے کسانوں میں ہراس پیدا ہورہا ہے۔ اجلاس کے شرکاء کا مزید کہنا تھا کہ زرعی پیکج میں بجلی پر زرتلافی نہ دے کر کسانوں کو مایوس کیا گیا ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 19 مئی، صفحہ12)

ایک خبر کے مطابق رواں مالی سال کے دوران اہم فصلوں کی پیداوار میں کمی کے باعث پاکستانی معیشت کو بڑا جھٹکا لگے گا، جس سے غذائی تحفظ کے لیے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ پیداوار میں کمی کی بنیادی وجہ زیر کاشت رقبے میں کمی اور موسمی تبدیلی ہے۔ کپاس کی پیداوار گزشتہ سال کے مقابلے 6.90 فیصد کم ہوگئی ہے۔ دوسری طرف سال 2019-20 میں گنے کی پیداوار میں 0.4 فیصد کمی ہوئی ہے۔ اسی سال چاول کے زیر کاشت رقبے میں آٹھ فیصد اضافے کی وجہ سے اس کی پیداوار 2.9 فیصد بڑھ کر 7.410 ملین ٹن ہوگئی۔ جبکہ مکئی کے زیر کاشت رقبہ میں 2.9 فیصد اضافہ ہوا اور اس کی پیداوار چھ فیصد اضافے سے 7.23 ملین ٹن دیکھی گئی ہے۔ اسی طرح سال 2019-20 میں گندم کی پیداوار 2.5 فیصد بڑھوتری کے بعد 24.946 ملین ٹن رہی۔
(ڈان، 23 مئی، صفحہ9)

عالمی ادارہ خوراک و زراعت (فاؤ) کے مطابق پاکستان کے 38 فیصد رقبے پر ٹڈی دلوں کی افزائش جاری ہے۔ فاؤ نے خبردار کیا ہے کہ اگر ٹڈی دل پر بروقت قابو نہ پایا گیا تو پورا ملک اس حملے کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔ فاؤ کی جاری کردہ ایک دستاویز ”ڈیزرٹ لوکسٹ کرائسس اپیل“ کے مطابق متاثرہ کل 38 فیصد رقبہ میں 60 فیصد بلوچستان کا، 25 فیصد سندھ اور 15 فیصد پنجاب کا رقبہ شامل ہے۔ ابتدائی اندازوں کے مطابق تینوں صوبوں میں ٹڈی دل کی وجہ سے تقریباً 34,000 خاندان ضرورت مند ہیں۔
(ڈان، 23 مئی، صفحہ3)

اوور سیز انوسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (OICCI) نے مالی سال 2020-21 کے لیے بجٹ تجاویز میں پنجاب حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ زرعی ٹیکس (محصولات) خالص آمدنی کی بنیاد پر وصول کرے نہ کے زمینی ملکیت کی بنیاد پر۔ اس وقت زرعی محصول زمینی ملکیت اور خالص آمدنی پر لاگو ہے جو بہت زیادہ ہے۔ تاہم خالص آمدنی پر ٹیکس کے تعین کا طریقہ کار پیچیدہ ہے اور تقریباً 100 فیصد معاملات میں ٹیکس صرف زمینی ملکیت کی بنیاد پر وصول ہوتا ہے جس سے خالص آمدنی پر ٹیکس وصولی کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ لہذا ملکیتی بنیاد پر ٹیکس وصولی خالص آمدنی کی بنیاد پر عائد ٹیکس سے تبدیل ہونا چاہیے۔ OICCI چاہتی ہے کہ پنجاب حکومت زرعی اشیاء جیسے گنا، گندم، کپاس کی فروخت پر پیشگی (ایڈوانس) ٹیکس متعارف کروائے جو خالص آمدنی پر واجب الادا ٹیکس کی مد میں ضم (ایڈجسٹ) ہونا چاہیے۔
(بزنس ریکارڈر، 27 مئی، صفحہ1)

سندھ آباد گار بورڈ کے عہدیداروں اور ارکان کا کہنا ہے کہ اگر ٹڈی دل پر قابو نہ پایا گیا تو زرعی معیشت کو 500 بلین روپے سے زائد کا نقصان ہوسکتا ہے۔ صوبائی حکومتوں اور وفاقی حکومت کے مابین رابطوں اور ٹڈی دل کے خاتمے کے لیے واضح حکمت عملی کے فقدان سے کسانوں کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔ سندھ آبادگار بورڈ نے وفاقی اور سندھ حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے سیاسی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر ٹڈی دل کے خاتمے کے لیے مشترکہ حکمت عملی تشکیل دیں۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 29 مئی، صفحہ4)

گندم

وزیر خوراک پنجاب عبدالعلیم خان نے کہا ہے کہ محکمہ خوراک پنجاب اب تک 3.4 ملین ٹن گندم کی خریداری کرچکا ہے، جو گزشتہ تین سالوں میں خریدی جانے والے گندم کی بلند ترین سطح ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ”ہم پنجاب کی تاریخ کا 4.5 ملین ٹن کا بڑا ہدف حاصل کریں گے۔ صوبہ پنجاب بہترین اجتماعی کوششوں سے اپنے ہدف کے حصول کی طرف بڑھ رہا ہے اور جیسے ہی گندم کی خریداری کا ہدف پورا ہوگا آٹا ملوں کے لیے گندم کے ذخیرے کی حد بڑھا دی جائے گی۔
(بزنس ریکارڈر، 18 مئی، صفحہ11)

چیف سیکرٹری سندھ سید ممتاز علی شاہ نے صوبے کے تمام متعلقہ حکام کو اگلے دو روز میں گندم کی خریداری کا ہدف مکمل کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ گندم کی خریداری کے حوالے سے ہونے والے اجلاس میں چیف سیکریٹری کو آگاہ کیا گیا کہ حیدرآباد میں 90 فیصد، میرپورخاص میں 80 فیصد، سکھر میں 89 فیصد، شہید بینظیر آباد میں 80 فیصد اور لاڑکانہ میں 92 فیصد گندم کی خریداری مکمل کی جاچکی ہے۔ اجلاس میں وزیر خوراک سندھ ہری رام کشوری لال نے حکام کو یاددہانی کروائی کہ آٹا ملوں کو زیادہ سے زیادہ 30,000 گندم کی بوریاں ذخیرہ کرنے کی اجازت ہے۔ اس سے زیادہ گندم کی مقدار ذخیرہ اندوزی شمار ہوگی اور گندم ضبط کرلی جائے گی۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 19 مئی، صفحہ4)

پنجاب، کے پی اور بلوچستان میں ضلعی حکام اور محکمہ خوراک کی جانب سے جاری ”سخت کارروائی“ کے خلاف پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن (پی ایف ایم اے) کی ہڑتال کے نتیجے میں آٹا ملیں بند رہیں۔ پی ایم ایم اے کے مرکزی صدر عاصم رضا کا کہنا ہے کہ آٹا ملوں پر ضلعی انتظامیہ اور محکمہ خوراک کے چھاپے ختم ہونے تک ہڑتال جاری رہے گی۔ انہوں نے متعلقہ حکام سے مطالبہ کیا کہ پنجاب میں چھاپوں کا سلسلہ بند کیا جائے اور کھلی منڈی سے گندم کی خریداری پر پابندی ختم کی جائے۔ اس کے علاوہ بلوچستان کے نصیر آباد ڈویژن سے اندرون صوبہ گندم کی نقل و حمل پر عائد پابندی ختم کی جائے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 19 مئی، صفحہ3)

پانی

حکومت نے دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لئے چائنہ پاور اور فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) پر مشتمل تجارتی اشتراک (کنسورشیم) کے ساتھ 442 بلین روپے کے معاہدے پر دستخط کر دیئے ہیں۔ چین کی سرکاری کمپنی چائنہ پاور کا حصہ 70 فیصد جبکہ پاکستان کی مسلح افواج کی تجارتی تنظیم ایف ڈبلیو او کا حصہ 30 فیصد ہوگا۔ چیئرمین واپڈا لیفٹننٹ ریٹائرڈ مزمل حسین کے مطابق 1406.5 بلین روپے کی لاگت سے یہ ڈیم 2028 میں مکمل ہوگا۔ مسابقتی کمیشن (سی سی پی) نے 2010 میں اس منصوبے کی منظوری دی تھی لیکن منصوبہ تاخیر کا شکار رہا کیونکہ قرض دینے والے عالمی ادارے منصوبے سے جڑے رہے لیکن آخر میں بھارتی اعتراض پر پیچھے ہٹ گئے۔ چار سال پہلے یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس منصوبے کو دو حصوں میں تقسیم کردیا جائے۔ 650بلین روپے لاگت کا ڈیم منصوبہ سرکاری سرمائے سے تعمیر ہوگا اور دوسرے مرحلے میں 750 بلین روپے لاگت کا توانائی کی پیداوار کا منصوبہ ممکنہ طور پر توانائی کی پیداوار کرنے والی نجی کمپنیوں کے زریعے (انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز موڈ پر) تعمیر ہوگا۔
(ڈان، 14مئی، صفحہ1)

وفاقی حکومت کی جانب سے دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے عوامی تحریک نے اس منصوبے کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ عوامی تحریک سمجھتی ہے کہ ڈیم سندھ کے مفادات کو نقصان پہنچانے کا باعث ہوگا۔ زرائع ابلاغ کو جاری کردہ بیان میں عوامی تحریک کے رہنما لال جروار کا کہنا تھا کہ ”ڈیم کی تعمیر سندھ کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے“۔ انہوں نے مزید کہا کہ دریائے سندھ سے مطلوبہ پانی کی مقدار سمندر میں نہ گرنے کی وجہ سے ہزاروں ایکڑ زرخیز زمین برباد ہوگئی ہے اور مینگروز کے جنگلات کی بربادی جاری ہے جو ماحولیاتی نظام کو بری طرح متاثر کررہی ہے۔ ان علاقوں میں رہنے والی ایک بڑی آبادی میٹھے پانی کی تلاش میں سرگرداں ہے۔
(ڈان، 17 مئی، صفحہ15)

پاکستان اور عالمی بینک نے زرعی اور سماجی شعبہ جات کے لیے 371 ملین ڈالرقرض کے دو معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ زرعی شعبہ میں کیے جانے والے معاہدے میں 171 ملین ڈالر کا آبپاشی نظام کو بہتر بنانے کا منصوبہ ”خیبرپختونخوا اریگیٹڈ ایگری کلچر امپروومنٹ پروجیکٹ“ شامل ہے جس سے صوبے میں نہری پانی سے ہونے والی زراعت میں بہتری متوقع ہے۔ اس منصوبے کی مجموعی لاگت 219.30 ملین ڈالر ہے، منصوبے کی بقیہ 48.30 ملین ڈالر لاگت کے پی حکومت برداشت کرے گی۔ منصوبے کے مقاصد میں واٹر کورسوں کی بحالی، جدید آبپاشی ٹیکنالوجی کا تعارف، کسانوں اور آبپاشی کے انتظامی محکمہ کی صلاحیت میں اضافہ شامل ہے۔
(ڈان، 19 مئی، صفحہ12)

کیمیائی کھاد

کرونا وائرس کے نتیجے میں لاک ڈاؤن اور ملک کے کئی علاقوں میں ٹڈی دل حملوں کے باعث ماہ اپریل میں یوریا کی فروخت گزشتہ سال اسی دورانیے کے مقابلے 18 فیصد کم ہو کر 240,000 ٹن ہوگئی ہے۔ نیشنل فرٹیلائیزر ڈیولپمنٹ سینٹر (این ایف ڈی سی) کے جاری کردہ تازہ اعداد وشمار کے مطابق زرعی شعبہ میں سست روی کی وجہ سے یوریا کی منڈی 850,000 ٹن ذخائر کے ساتھ واضح دباؤ کا شکار ہے۔ اس صورتحال کے نتیجے میں یوریا کا استعمال 10 فیصد کم ہوکر 5.2 ملین ٹن ہونے کا امکان ہے۔ (ڈان، 14 مئی، صفحہ9)

آم

فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) کی قائمہ کمیٹی برائے باغبانی کے سابق چیئرمین احمد جواد نے سندھ اور پنجاب کے محکمہ زراعت پر زور دیا ہے کہ کرونا وائرس کے دوران آم کی محفوظ کاشت، اس کی پروسیسنگ، پیکنگ اور نقل و حمل کے لیے کاشتکاروں کو مشاورتی خدمات (کنسلٹنسی) فراہم کی جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان دنیا میں آم پیدا کرنے والا پانچواں بڑا ملک ہے۔ تاہم آم کی بڑی مقدار باغات سے منڈی تک کے مراحل میں ضائع ہوجاتی ہے۔ کچھ اندازوں کے مطابق ضائع ہونے والی یہ مقدار پیداوار کا تقریباً 35 فیصد ہے۔ اگر ضائع ہونے والے آم کو گودے میں تبدیل کردیا جائے تو اس سے اضافی 400 ملین ڈالر کا زرمبادلہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 19 مئی، صفحہ5)

ایک خبر کے مطابق آم کے برآمد کنندگان نے اس سال 80,000 ٹن آم برآمد کرنے کا ہدف طے کیا ہے جو پچھلے سال کے ہدف 130,000 ٹن سے 50 ہزار ٹن (40 فیصد) کم ہے۔ عالمی لاک ڈاؤن کی صورتحال پاکستانی آم کی طلب میں شدید کمی کا نتیجہ ہے۔ فضائی پروازوں میں کمی اور کرایوں میں غیر معمولی اضافے نے بھی آم کی برآمد کو مزید متاثر کیا ہے۔ رواں موسم میں موسمی تبدیلی کی وجہ سے آم کی پیداوار میں پنجاب کا حصہ 70 فیصد سے کم ہوکر 35 فیصد ہوگیا ہے۔
(ڈان، 23 مئی، صفحہ9)

ضلع میرپورخاص، سندھ کے باغات مالکان کا کہنا ہے کہ ضلع میں تربیت یافتہ اور تجرکار مزدوروں کی عدم دستیابی کی وجہ سے آم کی فصل کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ آم کی فصل تیار ہوچکی ہے اور نقصان سے بچنے کے لیے بغیر کسی تاخیر کے اس کی چنائی ہونی تھی۔ سندھ کے دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے زرعی مزدور گزشتہ دو ماہ سے مکمل لاک ڈاؤن میں ریل اور سڑکیں بند ہونے کی وجہ سے چنائی نہیں کرسکتے۔ باغ مالکان کا کہنا ہے کہ آم کی چنائی کے لیے انہیں مزدوروں کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ چنائی کا کام پہلے ہی 10 دن تاخیر کا شکار ہے اور ایسا امکان بھی نہیں ہے کہ اس کام کے ماہر مزدور اگلے دو ہفتے چنائی کرسکیں گے۔
(ڈان، 24 مئی، صفحہ15)

ڈیری

لاہور میں موسم گرما کی آمد کے ساتھ دودھ کی پیداوار میں کمی آنا شروع ہوگئی ہے جبکہ لاک ڈاؤن کے دوران دودھ کی طلب میں بھی 40 فیصد کمی ہوگئی ہے۔ لاہور کی دودھ فروش انجمن کے صدر چوہدری سہیل کے مطابق ”مئی کے مہینے میں دودھ کی پیداوار میں پانچ سے 10 فیصد، جون جولائی میں 20 فیصد اور اگست میں 30 سے 35 فیصد کمی معمول کی بات ہے“۔ لاہور میں اندازاً دودھ کی کھپت تین ملین لیٹر یومیہ ہے جس میں سے 20 تا 30 فیصد دودھ کا تجارتی استعمال ہوتا ہے اور بقیہ گھریلو استعمال میں آتا ہے۔ یونیورسٹی آف ویٹنری اینڈ اینمل سائنسس لاہور کے ماہرین کے مطابق جب درجہ حرارت 35 ڈگری سیلسیس تک پہنچتا ہے تو گائیں اور بھینسیں اپنی خوراک آٹھ سے 12 فیصد کم کرلیتی ہیں جس سے ان کی دودھ دینے کی صلاحیت بھی متاثر ہوتی ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 18 مئی، صفحہ9)

غربت

ٓایک خبر کے مطابق احساس ایمرجنسی کیش پروگرام کے زریعے ملک بھر میں کرونا وائرس سے بری طرح متاثر ہونے والے 7.9 ملین مستحق خاندانوں میں اب تک 96 بلین روپے تقسیم کیے جاچکے ہیں۔ وفاقی کابینہ نے لاک ڈاؤن سے متاثر ہونے والے مستحق خاندانوں کی مدد کے لیے 200 بلین روپے مختص کیے تھے۔ اس رقم میں سے 144 بلین روپے احساس ایمرجنسی کیش پروگرام کے تحت ملک بھر میں 12 ملین مستحق خاندانوں کو 12,000 روپے فی خاندان فراہم کیے جارہے ہیں۔ (بزنس ریکارڈر، 14 مئی، صفحہ7)

نکتہ نظر

مندرجہ بالا زرعی خبروں کو پڑھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مجموعی طور پر ملک کی زرعی معیشت کرونا وائرس اور ٹڈی دل حملے جیسے بحرانوں میں گھری نظر آتی ہے جن سے یقینا بڑے پیمانے پر زرعی پیداوار ممکن بنانے والے چھوٹے اور بے زمین کسان مزدور سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں، یہ طبقہ پہلے ہی بے زمینی، پانی کی کمی، زرعی مداخل پر کمپنیوں کی اجارہ داری جیسی نیولبرل پالیسیوں کے نتیجے میں بھوک و غربت کا شکار ہیں۔ یہ بھی واضح ہے کہ ان بحرانوں کا مقابلہ حکومت غیرملکی امداد و قرضوں کے حصول کے ذریعے اور زرعی شعبہ کی بحالی و کسان مزدوروں کی بہبود کے نام پر بڑے بڑے سرمایہ داروں کے منافع کو محفوظ و یقینی بنانے کے لیے زرتلافی ادا کرتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کیمیائی کھاد، زرعی مشینری اور زرعی زہر بنانے والی کمپنیوں کی موجودہ حالات میں گرتی ہوئی فروخت اور منافع کو بڑھانے کے لیے حکومتی صفوں میں موجود سرمایہ داروں نے عوامی خزانے کے منہ کھول دیے ہیں۔ دوسری طرف شدید غربت، بیروزگاری اور وبائی صورتحال کا سامنا کرنے والے غریب خاندانوں کی صرف ایک محدود تعداد کو 12,000 روپے دے کر چار ماہ کے لیے ان حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ بظاہر لگتا ہے کہ نیولبرل پالیسیوں کا تسلسل ملک کی زرعی معیشت کو اس مرحلے میں دھکیل رہا ہے جس میں چھوٹے اور بے زمین کسان مزدوروں کا استحصال کرکے پیداوار پر اجارہ داری قائم کرنے کے بعد اب اس کی تجارتی منڈی پر اجارہ داری کے لیے کارپوریٹ لابیوں نے بھرپور طاقت اور اثرورسوخ کا استعمال شروع کردیا ہے۔ سرکاری قیمت گندم و آٹے کی ہو یا گنا و چینی کی، طاقتور ملوں اور ذخیرہ اندوز سرمایہ داروں کے آگے ریاست بے بس نظر آتی ہے۔ حکومت عوام کے لیے چند ارب روپے کی امداد و زرتلافی کا اعلان کرتی ہے اور دوسری طرف صرف آٹا چینی مافیا ہی عوام کی جیب سے ناجائز منافع خوری کے ذریعے کھربوں روپے لوٹ لیتے ہیں۔ پیداواری وسائل پر قبضے اور منافع کی ہوس پر مشتمل اس طبقاتی نظام کا جڑ سے خاتمہ ہی چھوٹے و بے زمین کسان مزدور و محنت کش طبقہ کی خوشحالی کی ضمانت ہوسکتا ہے، اسی طبقہ پر لازم ہے کہ وہ متحد ہوکر، جدوجہد کرکے اس استحصالی نظام کا خاتمہ کردے۔