ہفتہ وار زرعی خبریں اپریل 2020

اپریل 23 تا 29 اپریل، 2020

زراعت

ایک خبر کے مطابق عالمی ادارہ خوراک و زراعت (فاؤ) نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے دوران تھرپارکر، سندھ کے کسانوں کی مدد کے لئے اقدامات کیے ہیں۔ تھرپارکر میں فاؤ نے عالمی بینک کی مدد سے قطرہ قطرہ آبپاشی نظام (ڈرپ اریگیشن) اور سبزیوں کے بیج (کٹس) کی تقسیم میں مدد فراہم کی ہے تاکہ تھرپارکر کے کسان اس مشکل وقت سے باہر آسکیں۔ پانی کی 25 اسکیمیں جو بطور پانی کے چھوٹے آبی زخائر استعمال ہورہی ہیں تھرپارکر کے 25 دیہات میں تعمیر کی گئی ہیں۔ کورونا وائرس کی وجہ سے روزگار پر پڑنے والے اثرات کو کم کرنے کے لیے ان دیہات میں مویشیوں کے لیے پانی کی ڈونگی اور گھریلو باغبانی کے لیے قطرہ قطرہ آبپاشی کا نظام بھی قائم کیا گیا ہے۔ موجودہ حالات میں مال مویشی پالنے والے کسان مرد و عورت دونوں کو درپیش مسائل کے تناظر میں ضلع عمرکوٹ، سندھ میں ایک گشتی اسکول کا بھی آغاز کیا گیا ہے۔
(ڈان، 23 اپریل، صفحہ3)

بلوچستان فوڈ اتھارٹی نے پھلوں کو پکانے کے لیے کیمیائی مواد ایسی ٹلین (کیلشیم کاربائیڈ) کے استعمال پر پابندی عائد کردی ہے۔ یہ کیمیائی مواد صحت کے لیے انتہائی نقصاندہ سمجھا جاتا ہے۔ جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق ایسی ٹلین گیس سرطان، آنتوں میں زخم، یاداشت سے محرومی اور دیگر مہلک بیماریوں کی وجہ ہے۔ کیلشیم کاربائڈ استعمال کرنے والے کسانوں کو بلوچستان فوڈ ایکٹ 2014 کے تحت سزا دی جائے گی۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 23 اپریل، صفحہ7)

کورونا وباء کے دوران سرکاری اور نجی شعبہ کی کی جانب سے امدادی اقدامات کے لیے توجہ کا مرکز شہری آبادیاں ہیں جبکہ کورونا وائرس کے نتیجے میں صوبے کی دیہی آبادیوں میں غربت بڑھ رہی ہے۔ پنجاب کی دیہی آبادی خصوصاً بے زمین کسان اور مال مویشی شعبہ سے منسلک کسان زرعی پیداوار کی قیمت کم ہونے کی وجہ سے بدحالی کا شکار ہورہے ہیں۔ یہ زرعی پیداوار ہوٹل اور سیاحت کے شعبہ میں استعمال ہوتی ہیں اور دونوں شعبہ جات کورونا وائرس کی وجہ سے بندش کا شکار ہیں جس کی وجہ سے کسان آمدنی سے محروم ہوگئے ہیں۔ دیہی آبادیوں میں غربت میں اضافے کی دوسری اہم وجہ صنعتوں کی بندش ہے جہاں دیہی آبادی کا بڑا حصہ کام کرتا ہے۔ سیکریٹری جنرل پاکستان کسان رابطہ کمیٹی فاروق طارق کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے لاکھوں لیٹر دودھ شہری منڈیوں میں نہیں پہنچ رہا۔ دودھ کی فروخت کے اوقات کم ہونے اور ہوٹلیں بند ہونے کی وجہ سے اس کی کھپت کم ہورہی ہے۔ ان حالات میں کسان دودھ انتہائی کم قیمت 30 فی لیٹر پر فروخت کررہے ہیں۔
(ڈان، 24 اپریل، صفحہ2)

ایک اجلاس کے دوران متعلقہ حکام نے سندھ میں ٹڈی دل کے حملے میں اضافے کے حوالے سے چیف سیکریٹری سندھ سید ممتاز علی شاہ کو آگاہ کیا ہے کہ 15 مئی تک سندھ کے کئی علاقوں میں ٹڈی دل کا حملہ متوقع ہے۔ اجلاس میں پیش کی گئی معلومات کے مطابق صوبے کے 30 مقامات پر ٹڈی دل کے خاتمے کے لیے عارضی مراکز (کیمپ) قائم کیے جائیں گے اور محکمہ زراعت سندھ اور وفاقی محکمہ تحفظ نباتات کے 180 اہلکاروں پر مشتمل 57 ٹیمیں بھی اس مقصد کے لیے تیار کرلی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ سندھ حکومت نے 100,000 لیٹر فضائی چھڑکاؤ اور گاڑیوں کے زریعے مزید 25,000 لیٹر کیڑے مار زہر کا چھڑکاؤ کرنے کی تیاری کرلی ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 26 اپریل، صفحہ5)

ایک خبر کے مطابق پاکستان اور چین کی وزارت زراعت نے مشترکہ طور پر زرعی شعبہ میں باہمی تعاون کو مزید بڑھانے کے لیے جوائنٹ ورکنگ گروپ کا دوسرا اجلاس منعقد کیا ہے۔ اس مواصلاتی (آن لائن) اجلاس میں چین پاکستان نباتاتی امراض اور کیڑے مکوڑوں کے خاتمے کے لیے تعاون کے طریقہ کار اور دونوں ممالک کے درمیان زرعی تعاون پر مبنی لائحہ عمل کا مسودہ بھی زیر بحث آیا۔ اجلاس میں تعمیرات، سرمایہ کاری و تجارت میں تعاون کو مستحکم کرنے، مشترکہ طور پر نباتاتی امرض اور کیڑے مکوڑوں سے تحفظ و خاتمے، پاکستان میں ”پلانٹ پیسٹ کنٹرول سینٹر“ کی تعمیر کے لیے مفاہمت کی یاداشت پر عملدرآمد میں تعاون پر اتفاق کیا گیا۔ مفاہمت کی اس یاداشت پر صدر عارف علوی کے حالیہ دورہ چین کے دوران دستخط کیے گئے تھے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 28 اپریل، صفحہ3)

وزیر تعلیم بلوچستان یار محمدرند نے وفاقی اور صوبائی حکومت سے اپیل کی ہے کہ صوبے سے ٹڈی دل کے خاتمے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر چھڑکاؤ کا بندوبست کیا جائے۔ مقامی طور پر کیے گئے چھڑکاؤ ٹڈی دل کے خاتمے اور فصلوں کے تحفظ ناکام رہے ہیں۔ صوبائی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ ٹڈی دل نے کچھی کے علاقے تک پھیل کر فصلوں کو تباہ کرنا شروع کردیا ہے۔ کچھی، نصیرآباد اور سبی میں ٹڈی دل کی وجہ سے فصلوں کو شدید نقصان ہوا ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 28 اپریل، صفحہ7)

آم

ایک خبر کے مطابق ضلع حیدرآباد میں آم کے کاشتکاروں اور ٹھیکیداروں کو کہا گیا ہے کہ وہ دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے مزدوروں کو کام پر نہ رکھیں کیونکہ وہ کورونا وائرس سے متاثر ہوسکتے ہیں اور اسے دیگر لوگوں میں منتقل کرسکتے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر فواد غفار سومرو نے ریونیو حکام، آم کے کاشتکاروں، ٹھیکیداروں کے ساتھ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”مقامی کسان مزدوروں کو کام پر رکھا جائے تاکہ انتظامیہ موثر طریقے سے وائرس کے پھیلاؤ کی جانچ کرسکے“۔ دوسری طرف صدر سندھ آباد گار اتحاد نواب زبیر تالپور نے جاری کردہ ایک بیان میں طویل لاک ڈاؤن کی وجہ سے آم کے کاشتکاروں کو بھاری نقصان کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔ آم کی چنائی میں ایک ہفتہ باقی رہ گیا ہے اور چنائی کرنے والے کسان مزدور آمد و رفت کے لیے گاڑیوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے کام کرنے سے قاصر ہیں جبکہ منڈیوں میں خریدار بھی نظر نہیں آرہے ہیں۔ انہوں نے آم کے پیداواری علاقوں میں دیگر محصولات کے ساتھ ڈھل اور آبیانہ معاف کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔
(ڈان، 27 اپریل، صفحہ15)

ایک خبر کے مطابق تقریباً 100 بلین روپے کی آم کی صنعت کو لاک ڈاؤن اور مزدوروں کی عدم دستیابی کی وجہ سے شدید خطرات کا سامنا ہے، کیونکہ سندھ میں آم کی فصل تیار ہے لیکن اس کی چنائی کے لیے مزدور دستیاب نہیں ہیں۔ آل پاکستان فروٹ، ویجی ٹیبل ایکسپورٹرز، امپورٹرز اینڈ مرچنٹس ایسوسی ایشن (پی ایف وی اے) نے حکومت سندھ سے آم کے موسم کے لیے لاک ڈاؤن کے دوران پنجاب سے سندھ مزدوروں کی آمدرفت کے لیے خصوصی سہولیات فراہم کرنے کے لیے کہا ہے۔ اس حوالے سے وزیر اعلی پنجاب اور سندھ کو خط بھی لکھا گیا ہے۔ سندھ میں آم کی فصل مئی کے پہلے ہفتے میں چنائی کے لیے تیار ہوتی ہے جبکہ پنجاب میں ایک مہینے کے وقفے کے بعد شروع ہوتی ہے۔ سندھ میں آم کی چنائی کے لیے مزدور زیادہ تر پنجاب (بھاولپور، ملتان، مظفر گڑھ) سے آتے ہیں۔ حکومت پہلے ہی کھیتوں اور باغات میں کام کرنے کے لیے مزدوروں کو شرائط و ضوابط (ایس او پیز) کے ساتھ کام کرنے کی اجازت دے چکی ہے لیکن ریل گاڑی اور آمدورفت کے عوامی زرائع ملک بھر میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے بند ہیں۔
(بزنس ریکارڈر، 28 اپریل، صفحہ5)

ماہی گیری

حکومت نے یورپی یونین کے معیار کے مطابق مچھلی کی خرید وفروخت اور ذخیرے کی سہولیات کو بہتر بنانے کے لیے کورنگی فش ہاربر کے لیے دو منصوبوں کی منظوری دیدی ہے۔ یہ منصوبے سرد خانوں کے قیام اور نیلام گھر کی تعمیر و بحالی سے متعلق ہیں۔ پہلے مرحلے میں 170 ملین روپے کی لاگت سے 700 مربع میٹر رقبے پر سرد خانے کی تعمیر اور 1,200 مربع میٹر پر برف کے کارخانے کا قیام شامل ہے۔ 94.50 ملین روپے لاگت کے دوسرے منصوبے کے زریعے نیلام گھر میں کم درجہ حرارت پر مچھلی کی نقل و حمل اور معیاری مچھلی کی برآمد کو یقینی بنایا جائے گا۔ اس منصوبے کے تحت تین ٹن وزن اٹھانے کی صلاحیت رکھنے والی ایک گشتی کرین بھی خریدی جائے گی۔
(بزنس ریکارڈر، 23 اپریل، صفحہ19)

حکومت سندھ نے ماہی گیروں کو 12 بحری میل (ناٹیکل مائل) تک کی سمندری حدود میں مچھلیاں پکڑنے کی اجازت دے دی ہے۔ اس سے قبل ایک حکم نامے کے زریعے حکومت نے فش ہاربر پر سمندری خوراک کی تجارت و برآمد کے لیے ضابطوں (ایس او پیز) کا اجراء کیا تھا لیکن اس میں ماہی گیروں کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔ تاہم اب حکومت سندھ نے پچھلے حکم نامے میں ترمیم کرکے ہر قسم کی ماہی گیر کشتیوں کو شرائط و ضوابط کے ساتھ شکار کی اجازت دے دی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 26 اپریل، صفحہ2)

چاول

چاول کی پیداوار میں اضافے کے زریعے آمدنی میں اضافے کے پانچ سالہ ہنگامی زرعی پروگرام کا پنجاب کے 15 اضلاع میں آغاز کردیا گیا ہے۔ اس منصوبے کی لاگت 6.63 بلین روپے ہے۔ اس منصوبے کے تحت حکومت ان اضلاع کے چاول کاشت کرنے والے کسانوں کو مصدقہ بیج کے حصول کے لیے زرتلافی فراہم کی جائے گی۔ خواہشمند کسانوں کو اس منصوبے میں اندراج کے لئے مقامی محکمہ زراعت سے رجوع کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ محکمہ زراعت کے ذرائع کے مطابق اس پروگرام کے تحت ان اضلاع میں مشینی زراعت کو فروغ دینے پر توجہ دی جائے گی۔
(بزنس ریکارڈر، 27 اپریل، صفحہ4)

چینی

ایک خبر کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں وفاقی کابینہ نے تحقیقاتی کمیشن کو چینی کے حالیہ بحران کے حوالے سے رپورٹ پیش کرنے کے لیے مزید تین ہفتے کا وقت دے دیا ہے۔ تحقیقاتی کمیشن نے رپورٹ مکمل کرنے کے لیے حکومت سے مزید مہلت دینے کی درخواست کی تھی۔ تاہم حکومت نے زور دیا ہے کہ یہ رپورٹ ناصرف مکمل ہوگی بلکہ پہلی رپورٹ کی طرح عام بھی کی جائے گی۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 29 اپریل، صفحہ1)

غربت

پسماندہ اور کمزور طبقہ کی فلاح وبہود کو فروغ دینے کے لیے اینگرو کارپوریشن کے ادارے اینگرو فاؤنڈیشن نے بل اینڈ ملینڈا گیٹس فاؤنڈیشن کے ساتھ تین سالہ تعاون پر مبنی معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ معاہدے کے تحت کورونا وباء کے دوران غریب خاندانوں کے روزگار پر پڑنے والے اثرات کو کم کرنے کے لیے سرکاری اقدامات اور منصوبوں کو مختلف مواقعوں پر مدد فراہم کی جائے گی۔ دونوں ادارے باہمی دلچسپی کے مختلف شعبہ جات جیسے غذائیت، زرعی ترقی، مالیاتی شمولیت، عورتوں کو بااختیار بنانے اور ماں بچے کی صحت کے شعبہ جات کا تجزیہ کریں گے۔
(ڈان، 25 اپریل، صفحہ5)

ایک خبر کے مطابق وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے تخفیف غربت ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے کہا ہے کہ احساس ایمرجنسی کیش پروگرام کا تیسرا مرحلہ اگلے ہفتے شروع ہوگا۔ ابتدائی دو مرحلوں میں امداد 2010 کے سروے کے مطابق تقسیم کی گئی ہے۔ یہ سروے شمالی اور جنوبی وزیرستان میں امن و امان کی صورتحال کے پیش نظرنہیں کیا گیا تھا۔ احساس کیش پروگرام کے تحت تیسرے مرحلے میں ان دونوں علاقوں کا حصہ ان کی آبادی کے مطابق ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 27 اپریل، صفحہ2)

نکتہ نظر

گزشتہ ہفتے کی طرح اس ہفتے بھی زیادہ تر خبریں ملک بھر میں کورونا کی وبائی صورتحال میں کسان مزدور عوام کو درپیش سنگین معاشی حالات کی عکاسی کررہی ہیں۔ ان حالات میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے تمام تر امدادی اقدامات اور پالیسی میں دیہی عوام کے مسائل کم کرنے کے لیے اقدامات کا فقدان نظر آتا ہے۔ کسان مزدور عوامی زرائع آمد و رفت کی بندش کی وجہ سے کھیتوں اور باغات میں کام کرنے سے قاصر ہیں۔ اس وبائی صورتحال کے دوران سندھ میں ڈپٹی کمشنر کی جانب سے دیگر صوبوں سے آنے والے کسان مزدوروں کو آم کی چنائی اور روزگار سے محروم کرنے کا عمل شرمناک اور ان مزدوروں کی معاشی مشکلات میں اضافے کا باعث ہے۔ موجودہ وبائی حالات اور لاک ڈاؤن کی پابندیوں کی وجہ سے پنجاب بھر میں مال مویشی پالنے والے چھوٹے کسان اپنی پیداوار منڈی تک لے جانے اور مناسب قیمت پر فروخت سے محروم ہوگئے ہیں جس سے چھوٹے کسان شدید معاشی نقصان کا شکار ہورہے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ ڈبہ بند دودھ فروخت کرنے والی کمپنیاں کسانوں سے اس صورتحال کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے 30 روپے فی لیٹر تک دودھ خرید رہی ہیں جسے یہی کمپنیاں پیک کرکے تقریباً 150 روپے فی لیٹر فروخت کرتی ہیں۔ چھوٹے اور بے زمین کسان مزدورں کے استحصال کا یہ سلسلہ نیولبرل پالیسی سازی کے بدترین اثرات کی ایک جھلک ہے۔ زہریلی کیمیائی کھاد، ڈبہ بند دودھ، کوئلے سے بجلی بنانے اور دیگر کئی صنعتوں کے زریعے چھوٹے اور بے زمین کسان مزدوروں کو مداخل کی منڈی کا محتاج بنانے، دودھ کی پیداوار کرنے والے چھوٹے کسانوں کا استحصال کرنے اور تھرپارکر کے مقامی وسائل پر قابض ہوکر غریب عوام کو بے گھر اور ماحول کو برباد کرنے والے ہی ملک میں غربت کے خاتمے، تھر کے کسانوں کی مشکلات کم کرنے کا ڈھونگ رچارہے ہیں۔ عالمی امدادی اداروں سے ان استحصالی سرمایہ داروں کے گٹھ جوڑ کا مقصد صرف اور صرف سامراجی ممالک کی کمپنیوں کی ٹیکنالوجی کو منافع کی خاطر فروغ دینا ہے چاہے وہ چاول کی پیداوار کے لیے ہو یا آبپاشی نظام کے لیے۔ موجودہ وبائی بحران پہلے سے کہیں زیادہ تقاضہ کرتا ہے کہ زمین و دیگر پیداواری وسائل اور پالیسی سازی پر اختیار ان چھوٹے اور بے زمین کسان مزدوروں کا ہو، یہی اختیار خوراک کی خودمختاری اور پائیدار پیداوار کو ممکن بناتا ہے جو وبائی صورتحال میں قوموں کی بقاء کے لیے لازم ہے۔