ہفتہ وار زرعی خبریں مارچ 2020

مارچ 26 تا 1 اپریل، 2020

زمین

چھوٹے اور بے زمین کسان مزدوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت یہ یقینی بنائے کہ عوامی غذائی تحفظ کی قیمت پر لاک ڈاؤن اور قرنطینہ نافذ نہ کیا جائے۔ حکومت پسماندہ شعبہ جات بشمول بے زمین دیہی افراد کو فوری طور پر معاشی مدد فراہم کرے۔ 29 مارچ، بے زمینوں کے دن کی مناسبت سے روٹس فار ایکوٹی اور پاکستان کسان مزدور تحریک نے مطالبہ کیا کہ یہ یقینی بنایا جائے کہ کووڈ۔19 کے دوران مزید دیہی عوام کو ان کی زمینوں اور روزگار سے بیدخل نہ کیا جائے۔ بے زمین کسانوں کے ساتھ ساتھ چھوٹے کسان جاگیرداری نظام میں کئی طرح کے ظالمانہ حالات میں کام کرنے پر مجبور ہیں، خصوصاً کسان عورتیں جاگیرداروں اور پدر شاہی کے ہاتھوں دہرے استحصال کا شکار ہیں۔ بڑی کمپنیوں کے زریعے سرمایہ دارانہ زراعت نے زرعی پیداوار اور منڈیوں پر قبضہ کرلیا ہے جس کے نتیجے میں بے زمینوں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔
(ڈان، 30 مارچ، صفحہ9)

زراعت

ایک خبر کے مطابق زرعی شعبہ میں اطلاعاتی (انفارمیشن) ٹیکنالوجی کے ذریعے ترقی کے لیے وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور اقوام متحدہ کا ادارہ خوراک و زراعت (فاؤ) کے درمیان تعاون پر مبنی ایک معاہدے طے پاگیا ہے۔ یہ معاہدہ مواصلاتی رابطے کے زریعے ہونے والی ایک تقریب میں کیا گیا۔ اس موقع پر فاؤ کی نمائندہ مینا ڈولاچی کا کہنا تھا کہ زراعت میں جدت ضروری ہے کیونکہ چھوٹے کسان ناصرف خوراک پیدا کرنے والے ہیں بلکہ صارف بھی ہیں اور پاکستان کے قدرتی وسائل زمین، پانی، حیاتیاتی تنوع اور بیجوں کے نگہبان ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ 80 فیصد قابل کاشت زمین چھوٹے کھیتوں پر مشتمل ہے اور ان کی اکثریت اب تک فرسودہ زرعی طریقوں کے تحت کاشت کی جاتی ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 26 مارچ، صفحہ3)

ایک خبر کے مطابق پنجاب میں موجود ٹڈی دل کے انڈوں (ہیچری) سے زراعت کو شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر ان انڈوں کا بر وقت خاتمہ نہ کیا گیا تواگلے دو سے تین ماہ کے دوران کچھ اضلاع میں ٹڈی دل کے حملے سے فصلوں کو کافی نقصان ہوسکتا ہے۔ ٹڈی دل کے حملے کا خطرہ ساہیوال، خوشاب، بہاولنگر اور راجن پور میں دیکھا جاسکتا ہے۔ ضلع اوکاڑہ کی تحصیل دیپالپور میں 7,203 ایکڑ رقبے پر محیط قدرتی جنگل ٹڈی دل کی افزائش کے مقام کے طور پر شناخت کیا گیا ہے جہاں گزشتہ دو سے تین ہفتوں میں ٹڈی دلوں نے اربوں انڈے دیے ہیں۔ محکمہ زراعت کا کہنا ہے کہ ٹڈی دل کے اڑنے کی صلاحیت حاصل کرنے سے پہلے ہی ان کے خاتمے کا انتظام کرنا انتہائی ضروری ہے۔ راجستھان، بھارت سے ان کے جھنڈ کے جھنڈ آنے کاخدشہ ہے جس سے بہاولپور، بہاولنگر، خانیوال، ملتان، بھکر اور لیہ کے اضلاع زیادہ متاثر ہوں گے۔
(ڈان، 27 مارچ، صفحہ2)

کھاد

ایک خبر کے مطابق مقامی کھاد بنانے والوں کی جانب سے یوریا کی قیمت میں کمی کے نتیجے میں سالانہ 28 بلین روپے کا فائدہ ہوگا جو قومی خزانے پر اثر انداز ہوئے بغیر کسان آبادیوں کو منتقل ہوگا۔ حال ہی میں اینگرو فرٹیلائزر کی قیادت میں کھاد کی صنعتوں نے ملک میں غذائی تحفظ کو یقینی بنانے اور زرعی شعبے کو مدد فراہم کرنے کی غرض سے یوریا کی قیمت میں کمی کردی ہے۔ اینگرو فرٹیلائزر نے کھاد کی فی بوری قیمت میں 240 روپے کمی کی ہے۔ اسی طرح دیگر صنعتوں نے بھی یوریا کی قیمت میں کمی کی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 28 مارچ، صفحہ1)

پانی

پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز (پی سی آر ڈبلیو آر) کی ایک تحقیق کے مطابق اگر موجودہ تناسب سے آبادی میں اضافہ جاری رہا اور آبی وسائل پر دباؤ برقرار رہا تو پاکستان سال 2025 تک پانی کی شدید قلت کمی سطح پر آجائے گا۔ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا آبپاشی نظام سب سے بڑے آبپاشی نظاموں میں سے ایک ہے، لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس کا انتظام بہت اچھا نہیں ہے۔ لہذا پانی کی قلت ایک بڑے مسئلے کے طور پر ہمارے سامنے موجود ہے۔ عالمی بینک کے مطابق ایک ملین ایکڑ فٹ پانی بچانے کا مطلب ہے ایک بلین ڈالر کا تحفظ۔ چیئرمین پی سی آر ڈبلیو آر ڈاکٹر محمد اشرف کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پانی سے متعلق انتظامی ادارہ (واٹر اتھارٹی) نہ ہونے کے باعث ملک میں کوئی بھی کسی بھی حجم کا ٹیوب ویل لگاسکتا ہے اور جتنی مقدار میں چاہے زمین سے پانی نکال سکتا ہے۔ امیر کاشت کار اس کا فائدہ اٹھا کرپانی غریب کسانوں کو فروخت کرتے ہیں جو اپنے استعمال کے لیے ٹیوب ویل لگانے کا خرچ برداشت نہیں کرسکتے۔
(بزنس ریکارڈر، 26 مارچ، صفحہ12)

پنجاب حکومت نے صوبے میں آبپاشی کا جدید نظام متعارف کرنے کے لیے 3.68 بلین روپے لاگت کا ایک تفصیلی منصوبہ تیار کیا ہے۔ یہ اقدامات پنجاب میں آبپاشی میں استعمال ہونے والے پانی کے زیاں پر قابو پانے کے لیے کیے جارہے ہیں۔ یہ نیا نظام پیداواری اخراجات میں کمی کرے گا، فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کرے گا اور جدید و منافع بخش زراعت کو فروغ دے گا۔ زمین ہموار کرنے اور پانی و بجلی کی بچت میں معاون ہوگا۔ حکومت صوبے میں فوارہ (اسپرنکلر) آبپاشی نظام کی تنصیب کے لیے کسانوں کو 50 فیصد زرتلافی فراہم کرے گی۔ سرکاری ذرائع کے مطابق منصوبے کے تحت پنجاب کے مختلف علاقوں میں 20,000 ایکڑ زمین پر فوارہ آبپاشی نظام کے لیے شمسی توانائی کا نظام بھی نصب ہوگا۔ یہ آبپاشی نظام کاشتکاروں کو 50 فیصد پانی کو محفوظ کرنے کے قابل بنائے گا۔
(بزنس ریکارڈر، 30 مارچ، صفحہ39)

گندم

وزیر زراعت سندھ اسماعیل راہو نے کہا ہے کرونا وائرس کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں آٹا ملوں کو حکومت سے گندم خریدنے کی اجازت دے دی گئی ہے جبکہ حکومت نے کسانوں سے گندم کی خریداری شروع کردی ہے۔ آٹا مل یومیہ 5,000 ٹن گندم حاصل کررہے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سال سندھ میں 3.8 ملین ٹن گندم کی پیداوار متوقع ہے اور حکومت 1,400 روپے فی من قیمت پر 1.4 ملین ٹن گندم کسانوں سے خریدے گی۔ باردانے کی تقسیم میں تاخیر کی وجہ سے گندم کی خریداری میں ایک ہفتے کی تاخیر ہوئی ہے۔ سندھ حکومت نے ہدف کے حصول کے لیے 12 ملین پلاسٹک کی اور 2.8 ملین پٹ سن کی بوریاں خریدی ہیں۔ گندم کی سرکاری خریداری کے لیے 23 اضلاع میں 525 مراکز قائم کیے گئے ہیں۔
(ڈان، 29 مارچ، صفحہ15)

سندھ چیمبر آف ایگری کلچر (ایس سی اے) نے سندھ حکومت کی جانب سے گندم کی ایک ضلع سے دوسرے ضلع منتقلی پر عائد کی جانے والی پابندی کی مزمت کی ہے۔ ایس سی اے کے نائب صدر نبی بخش سہتو نے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ اس فیصلے سے یہ تاثر ابھرے گا کہ یہ فیصلہ محکمہ خوراک کے بدعنوان عہدیداروں کی ایما پر کیا گیا ہے، یہ فیصلہ کسانوں کو اپنی پیداوار کم قیمت پر تاجروں کو فروخت کرنے پر مجبور کرے گا۔ اس کے بعد تاجروں سے یہی گندم محکمہ خوراک کے زریعے خریدی جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس پابندی سے پہلے منڈی میں گندم 1,550 سے 1,600 روپے فی من فروخت ہورہا تھا اور اب یہ قیمت کم ہوکر 1,250 سے 1,300 روپے فی من پر آگئی ہے۔ انھوں نے چیرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری اور وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ پر زور دیا ہے کہ وہ گندم کی نقل و حمل پر عائد کی گئی پابندی فوری طور پر ختم کرنے کے احکامات جاری کریں۔
(ڈان، 31 مارچ، صفحہ15)

سندھ چیمبر آف ایگری کلچر (ایس سی اے) لاڑکانہ کے صدر سراج الاولیا راشدی نے کہا ہے کہ لاڑکانہ ڈویژن میں حالیہ بارشوں اور آندھی نے گندم کی تیار فصل کو نقصان پہنچایا ہے لیکن اس کے باوجود سندھ میں گندم کی شاندار پیداوار ہوگی اور لاک ڈاؤن کے دوران صوبے میں آٹے اور گندم کی کمی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ 2019 کے اندازوں کے مطابق لاڑکانہ اور قمبر شہداد کوٹ کے اضلاع میں 220,000 ایکڑ زمین پر گندم کاشت کی گئی تھی۔ انہوں نے اس خیال کو بھی رد کیا ہے کہ ٹڈی دل نے گندم کی کاشت کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔
(ڈان، 31 مارچ، صفحہ15)

ماہی گیری

کراچی کے ساحلی علاقوں میں رہنے والی آبادیوں نے احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے حکام کی توجہ لاک ڈاون کی وجہ سے گزشتہ سات روز سے ماہی گیروں میں بیروزگاری، بھوک کی طرف مبذول کروائی ہے۔ ساحلی علاقے ابراہیم حیدری میں واقعہ بے نظیر بھٹو چوک پر عورتوں اور بچوں سمیت سینکڑوں افراد نے احتجاجی دھرنا دیا۔ پولیس اور نیم فوجی دستوں کی جانب سے ان کے مسائل اعلیٰ حکام تک پہنچانے کی یقین دہانی پر دھرنا ختم کردیا گیا۔ ماہی گیروں کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم کے سربراہ کاکہنا ہے کہ گزشتہ سات دنوں سے ساحلی علاقوں میں آباد افراد خصوصاً ماہی گیر بے روزگار ہوگئے ہیں، اپنے خاندان کے لیے خوراک کی کمی کی وجہ سے متاثر ہورہے ہیں جس کی وجہ سے ماہی گیر سڑکوں پر آنے پر مجبور ہوئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کراچی اور اس سے ملحقہ علاقوں میں اندازاً ایک ملین سے زیادہ ماہی گیر ہیں جو ساحلی علاقوں میں رہتے ہیں اور اس وقت لاک ڈاؤن کے باعث سمندر میں نہیں جاسکتے۔ ان کا واحد زریعہ روزگار ماہی گیری ہے۔
(ڈان، 30 مارچ، صفحہ14)

مرغبانی

مرغبانی صنعت سے وابستہ حکام کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی وجہ سے ملک بھر میں ہونے والے لاک ڈاؤن سے مرغبانی کی صنعت کو کئی ملین روپے کا نقصان ہوا ہے۔ ہوٹلوں اور شادیوں کی بندش سے سینکڑوں پولٹری فارمر متاثر ہوئے ہیں کیونکہ مرغی کی فروخت 50 سے بھی زیادہ کم ہوگئی ہے۔ طلب میں کمی کی وجہ سے مرغی کی قیمت میں بھی 50 فیصد کمی ہوگئی ہے۔ پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن کے ترجمان خلیل ستار کا کہنا ہے کہ نقصانات سے بچنے کے لیے ایسوسی ایشن نے حکومت سے بجلی کے نرخوں میں کمی اور قرضہ جات کی وصولی موخر کرنے کی درخواست کی ہے۔
(دی نیوز، 29 مارچ، صفحہ17)

غربت

کرونا وائرس کے منفی اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے وزیراعظم عمران خان کے اعلان کردہ امدادی پیکچ کے تحت کم آمدنی والے 10 ملین افراد کو چار ماہ کے لیے 12,000 روپے پر مشتمل وظیفہ فراہم کیا جائے گا۔ فنانس ڈویژن کے دستاویز کے مطابق حکومت اس پیکچ کے تحت 144 بلین روپے فراہم کرے گی۔ یہ رقم حکومت کی جانب سے پہلے سے جاری احساس پروگرام کے تحت دی جانی والی رقم کے علاوہ ہوگی۔ اس کے علاوہ وزیراعظم نے یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کے لیے 200 بلین روپے کا اعلان کیا ہے اور توقع ہے کہ یہ رقم صوبائی حکومتوں کے ذریعے ادا کی جائے گی۔ تاہم اس حوالے سے حکمت عملی اب بھی تیاری کے مراحل میں ہے۔ احساس پروگرام سے منسلک اعلی حکومتی حکام نے حکومت کو تجویز دی تھی کہ کرونا وائرس سے بری طرح متاثرہ ہونے والے غریب افراد کو ماہانہ 4,000 روپے دینے کا اعلان کیا جائے لیکن وزارت خزانہ نے اس تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے 3,000 روپے ماہانہ فراہم کرنے کا فیصلہ کیا۔
(ڈان، 27 مارچ، صفحہ3)

نکتہ نظر

اس ہفتے کی خبریں بھی ملک بھر میں چھوٹے اور بے زمین کسان مزدورں، ماہی گیروں کے لیے کرونا وائرس کے دوران بدتر ہوتے حالات کو ظاہر کررہی ہیں۔ ساحلی علاقوں کی ماہی گیر آبادیاں بھوک اور بیروزگاری سے تنگ آکر احتجاج پر مجبور ہوچکی ہیں جن کے لیے ایک ہفتہ گزرجانے کے باوجود امداد تاحال حکومتی اعلانات اور حکمت عملی کی تیاری کے بہانوں تک محدود ہے۔ یقینا ملک بھر میں سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام ہی موجودہ وبائی صورتحال میں چھوٹے اور بے زمین کسان مزدوروں، ماہی گیروں اور دیگر شعبہ جات سے منسلک مزدوروں میں بھوک اور غربت کا ذمہ دار ہے، جس میں سرمایہ دار اور جاگیردار زمینی اور دیگر پیداوار وسائل کے ساتھ ساتھ منڈیوں پر بھی قابض ہیں۔ اس صورتحال نے ظلم و استحصال کے شکار اس اکثریتی طبقے کا غذائی تحفظ چھین کر انہیں موجودہ حالات میں بے یارومددگار چھوڑ دیا ہے۔ اس ہی ظالم طبقے پر مشتمل حکومت اور پالیسی ساز چند ہی دنوں میں ہی کیمیائی کھاد اور دیگر صنعتوں کو عوامی خزانے سے اربوں روپے کی امداد دینے اور ٹیکس میں چھوٹ دینے کے لیے فوری اقدمات کرتے ہیں لیکن بات جب کسان مزدور عوام کی ہو تو یہی سرمایہ داروں کے ایجنٹ اور جاگیر دار پالیسی ساز کئی اجلاسوں کے بعد غریب کسان مزدور کو 4,000 روپے ماہانہ امداد دینے کی مخالفت پر اتر آتے ہیں۔ پاکستان کسان مزدور تحریک اور دیگر کسان دوست تنظیموں کی جدوجہد اور مطالبات یقینا آفت کی اس گھڑی میں اہم ترین ضرورت ہے۔ موجودہ وبائی صورتحال نے پی کے ایم ٹی کے اس نظریہ کو تقویت فراہم کی ہے کہ خوراک کی خودمختاری اور دیگر بنیادی ضروریات بشمول صحت و تعلیم اس گلے سڑے سرمایہ دارانہ و جاگیردارانہ نظام میں ممکن نہیں۔ چھوٹے اور بے زمین کسان مزدوروں سمیت تمام تر استحصال کے شکار عوام کی بقاء صرف و صرف پیداواری وسائل بشمول زمین کی منصفانہ اور مساویانہ تقسیم اور پائیدار پیداوار و کھپت کے نظام میں ہے۔