ہفتہ وار زرعی خبریں مارچ 2020

مارچ 19 تا 25 مارچ، 2020

زراعت

وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق نے صوبائی حکومتوں کی جانب سے کورونا وائرس کے حوالے سے کیے جانے والے اقدامات اور خریف 2020کے آغاز کے پیش نظر تمام صوبوں سے درخواست کی ہے کہ وہ زرعی مداخل کی بروقت دستیابی یقینی بنانے کے لیے کیمیائی کھاد، زرعی زہر، اور بیجوں کی ترسیل کو لاک ڈاؤن کے دوران پابندی سے استشنی دیا جائے۔ اس سلسلے میں وزارت کی جانب سے تمام صوبائی چیف سیکریٹریوں کو خط لکھا گیا ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ یہ قدم ملک میں غذائی تحفظ کو یقینی اور تمام فصلوں کے پیداواری ہدف کے حصول کو یقینی بنائے گا۔
(بزنس ریکارڈر، 24 مارچ، صفحہ3)

گندم

سندھ حکومت کی جانب سے شہروں کے درمیان جزوی طور پر سفر پر عائد پابندی پر آٹا ملوں نے کراچی کو گندم کی ترسیل کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ کراچی آٹا چکی ایسوسی ایشن کے صدر انیس شاہد نے کہا ہے کہ ٹرانسپورٹر صوبے کے مختلف علاقوں سے گندم کراچی نہیں لارہے ہیں۔ ڈرائیوروں اور دیگر ارکان کو خوف ہے کہ انہیں شہر میں قیام کرنا پڑے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پولیس نے آٹا فروخت کرنے والے کئی مراکز کو جبراً بند کروا دیا ہے کیونکہ وہاں صارفین کا ہجوم تھا۔ انہوں نے کمشنر کراچی سے اپیل کی ہے کہ گندم سے لدی گاڑیوں کو شہر میں داخلے کی اجازت دی جائے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 20 مارچ، صفحہ5)

وفاقی وزیر قومی غذائی تحفظ و تحقیق مخدوم خسرو بختیار کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں ضلع سے باہر گندم کی ترسیل اور نجی شعبہ پر اس وقت تک گندم کی خریداری پر پابندی کی تجویز دی ہے جب تک گندم کی خریداری کا سرکاری ہدف پورا نہیں ہوجاتا۔ اجلاس میں فیڈ (چارہ بنانے والے) ملوں، چاول ملوں اور کپاس کی جننگ ملوں کو گندم کی خریداری سے روکنے پر اتفاق کیا گیا۔ اس سال پاسکو کا گندم کی خریداری کا ہدف 1.8 ملین ٹن، پنجاب کا 4.5 ملین ٹن اور سندھ کا 1.4 ملین ٹن مقرر کیا گیا ہے۔ حکومت کی جانب سے گندم کی امدادی قیمت 1,400 روپے فی من مقرر کی جاچکی ہے۔
(ڈان، 20 مارچ، صفحہ10)

ڈپٹی ڈائیریکٹر ایگری کلچر (ایکسٹینشن) ڈاکٹر افتخار احمد وڑائچ نے انکشاف کیا ہے کہ پنجاب میں گندم کی پیداوار میں اضافے کے زریعے آمدنی میں اضافے کا 16,518 ملین روپے کی لاگت کا پانچ سالہ قومی منصوبہ شروع کیا گیا ہے۔ اخبار سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ منصوبے کا مقصد گندم کی فی ایکڑ پیداوار میں سات من کا اضافہ کرنا ہے۔ منصوبے کے تحت زرعی مشینری پر 50 فیصد زرتلافی کی فراہمی کے زریعے مشینی زراعت کے فروغ پر توجہ مرکوز ہوگی۔ منصوبے کے تحت مصدقہ بیجوں، مناسب کیمیائی کھاد کے استعمال، بروقت بوائی، نباتات کا انتظام اور کٹائی کے بعد ہونے والے نقصانات میں کمی اس منصوبے میں شامل ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 23 مارچ، صفحہ14)

ایک خبر کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے امدادی پیکج کا اعلان متوقع ہے جس میں کئی شعبہ جات بشمول برآمد، غذائی تحفظ، سیفٹی نیٹ (بی آئی ایس پی وغیر)، سرمایہ کار منڈی، چھوٹے اور درمیانے کاروباری ادارے، ادویات اور اس سے متعلق اشیاء، بجلی، گیس و پٹرولیم شامل ہونگے۔ ایک اعلی سرکاری افسر کے مطابق امدادی پیکج میں برآمد کنندگان کے لیے 200 بلین روپے، یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کے لیے 200 روپے بلین روپے، 100 بلین روپے چھوٹے اور درمیانی کاروباری اداروں، 280 بلین روپے کسانوں کو گندم کی خریداری کی صورت میں، یوٹیلٹی اسٹوروں کے لیے 50 بلین روپے شامل ہیں۔ سرکاری ملازمین اور طبی عملے کے لیے بھی 50 بلین روپے مختص ہونگے۔
(ڈان، 24 مارچ، صفحہ12)

کپاس

ایک خبر کے مطابق 15 مارچ 2020 تک ملک بھر میں جنرز کے پاس 8.57 ملین گانٹھ کپاس کے برابر پھٹی پہنچ چکی ہے جو پچھلے سال کے مقابلے 20.36 فیصد کم ہے۔ پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کے مطابق 8.57 ملین گانٹھیں کپاس جننگ کے مرحلے سے گزری ہے۔ پنجاب میں جنرز کو 5.09 ملین جبکہ سندھ میں 3.47 ملین گانٹھیں کپاس موصول ہوچکی ہے۔ تقریبا آٹھ ملین گانٹھیں کپاس فروخت ہوچکی ہے جبکہ بقیہ کپاس جنرز کے پاس موجود ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 19 مارچ، صفحہ16)

پھل سبزی

ایک خبر کے مطابق ایڈوکیٹ ذوالفقار احمد بھٹہ کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ عدالت تین مہینوں کے لیے پھل اور سبزیوں کی برآمد پر پابندی عائد کرے تاکہ عوام مناسب قیمتوں پر پھل اور سبزیاں خرید سکیں۔ درخواست گزار کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں کرونا وائرس کے تیزی سے پھیلاؤ کی وجہ سے ہر کوئی اپنی بقاء کے لیے خوفزدہ ہے۔ اس وبائی مرض کی ویکیسین دستیاب نہیں ہے اور واحد حل انسانی قوت مدافعت میں اضافہ ہے جو صرف مختلف سبزیوں اور پھلوں کے زریعے ممکن ہے۔ خصوصاً کینو جس میں وٹامن سی کی زیادہ مقدار ہوتی ہے۔ منڈی میں مناسب کینو 230 روپے فی درجن فروخت ہورہا ہے جو ایک غریب خاندان کی پہنچ سے باہر ہے۔ قیمتوں کی اضافے کی وجہ حکومت کی جانب سے پھلوں اور سبزیوں کی دیگر ممالک کو برآمد کے لیے عوام کی بھوک کی بنیاد پر اپنائی گئی بدترین پالیسی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 25 مارچ، صفحہ5)

چینی

ملک میں چینی کی قیمت میں اضافے کے باوجود وزارت صنعت و پیداوار نے آخری لمحات میں کابینہ کی اقتصاد ی رابطہ کمیٹی میں چینی درآمد کرنے کی درخواست واپس لے لی ہے۔ باخبر زرائع کے مطابق وزارت نے ملک میں گنے کی کرشنگ کے جاری موسم کے باوجود چینی کی بڑھتی ہوئی قیمت کے تناظر میں بلا محصول 30,000 ٹن چینی درآمد کرنے کی درخواست کی تھی۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے آغاز میں ہی سیکریٹری کابینہ نے آگاہ کیا کہ وزارت صنعت و پیداوار نے چینی کی درآمد کی درخواست واپس لے لی ہے۔
(ڈان، 19 مارچ، صفحہ10)

پانی

ایک خبر کے مطابق لاڑکانہ میں مہوٹا ریگولیٹر اور نیو بس اسٹینڈ کے قریب رائس کنال سے بڑے پیمانے پر ریتی بجری نکالنے کا عمل سیلاب بچاؤ بند کو نقصان پہنچانے کا باعث بن رہا ہے جس کی تعمیر اور مضبوطی پر کئی بار لاکھوں روپے کی لاگت آچکی ہے۔ متعلقہ حکام اس غیر قانونی عمل پر اپنی آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں۔ ریتی بجری کا انخلا نہری پشتوں کو بھی آہستہ آہستہ کمزور کرنے کاسبب بن رہا ہے۔ مقامی افراد سمجھتے ہیں کہ اس کام میں ضلع لاڑکانہ کے کچھ سیاسی اثر ورسوخ کی حامل شخصیات ملوث ہیں اور حکومتی اہلکار بھی اس میں ملوث ہیں۔ آخری بار 2010-11 کے سیلاب کے بعد محکمہ آبپاشی کی جانب سے اس بند کو مستحکم کرنے کا کام کیا گیا۔
(ڈان، 24 مارچ، صفحہ15)

کھاد

اینگرو فرٹیلائزر نے قومی غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اور کسانوں کی مدد کے لیے یوریا کی فی بوری قیمت میں مزید 240 روپے کمی کر دی ہے۔ کمپنی کے مطابق کرونا کی صورتحال میں موجودہ کمی کے نتیجے میں اس سال کے آغاز سے اب تک یوریا کی قیمت میں 400 روپے فی بوری کمی ہوئی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 25 مارچ، صفحہ5)

غربت

وزیر اعظم عمران خان نے کرونا وائرس سے متاثرہ ملک کے مختلف شعبہ جات کے لیے کئی بلین روپے کے امدادی پیکج کی منظوری دے دی ہے۔ زرائع کے مطابق بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے تحت ماہانہ وظیفہ 2,000 سے 3,000 روپے کردیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پروگرام سے فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ اس وقت بی آئی ایس پی سے فائدہ اٹھانے والوں کی کل تعداد 5.2 ملین ہے۔
(ڈان، 24 مارچ، صفحہ1)

       نکتہ نظر

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی کرونا وائرس سے براہ راست عوام خصوصاً کسان مزدور عوام معاشی، جسمانی اور نفسیاتی طور پر متاثر ہیں جس کی جھلک اس ہفتے کی خبروں میں بھی نمایاں ہے۔ ملک بھر میں اس صورتحال میں گندم کی کٹائی، اس کی سرکاری خریداری، اس کی ترسیل شدید متاثر ہونے کا اندیشہ ہے اور تاحال یہ اطلاعات نہیں کہ ملک میں گندم کی سرکاری خریداری کا آغاز کیا گیا۔ وزیر اعظم کے امدادی پیکچ میں سوائے گندم کی خریداری کے لیے مختص رقم کے سوا کچھ نہیں جو اس شعبہ سے وابستہ کسان مزدوروں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے کیونکہ گندم کی سرکاری خریداری کے لیے رقم پہلے ہی مختص کی جاچکی ہے۔ حسب معمول سرمایہ داروں اور جاگیرداروں پر مشتمل اشرافیہ کی حکومت کی جانب سے اس تمام تر موجودہ وبائی صورتحال سے متاثر ہونے والے غریب، محنت کش، کسان مزدوروں کے بجائے ملک کے سرمایہ دار برآمد کنندگان، کاروباری اداروں اور کمپنیوں کے لیے بڑے پیمانے پر مراعات کا اعلان کیا جارہا ہے۔ ملک کی آدھی سے زیادہ کسان مزدور و محنت کش آبادی کے لیے 200 بلین روپے اور یوٹیلیٹی اسٹوروں کے زریعے سستی خوراک کی فراہمی کے لیے 50 بلین روپے مختص کیے گئے جو اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ جبکہ دوسری طرف سرمایہ دار اداروں اور کمپنیوں کے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے کمپنیوں کے بیج، زرعی مشینری، کیمیائی و زہریلے مداخل کو فروغ دینے کے لیے 16 بلین روپے سے زیادہ کی رقم مختص کی جاتی ہے۔ یقینا سرمایہ داری نظام میں غیر پائیدار طریقہ پیداوار اور وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم موجودہ وبائی صورتحال میں غریب کسان مزدور طبقے کے حالات زندگی بدترین بنانے کی ذمہ دار ہے جسے جڑ سے اکھاڑ پھینکے کی ضرورت ہے۔