اپریل 30 تا 6 مئی، 2020
زمین
ندھ ہائی کورٹ نے میرپور خاص میں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو ٹاؤن منصوبے کے لیے حاصل کی گئی زمین سندھ ہارٹی کلچر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، میرپورخاص کو واپس کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ سندھ ہائی کورٹ حیدرآباد بینچ نے حکومت کو اس فیصلے پر عملدرآمد کے لیے دو ہفتے کا وقت دیا ہے۔ سال 2010-11 میں صدر آصف علی زرداری نے کم قیمت رہائشی منصوبے کی تعمیر کے لیے سندھ حکومت کو زمین کی تلاش کا حکم دیا تھا۔ سرکاری حکام نے سندھ ہارٹی کلچر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی 282 ایکڑ زمین میں سے 78.13 ایکڑ زمین کی اس رہائشی منصوبے کے لیے نشاندہی کی تھی۔ تاہم اس فیصلے کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 1 مئی، صفحہ5)
زراعت
سندھ کے کئی اضلاع بشمول سکھر، دادو، جیکب آباد، کندھ کوٹ، کشمور، شکارپور میں کھڑی فصلوں اور سبزے پر ٹڈی دل حملے سے تشویشناک صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ جیکب آباد کے کسانوں اور دیگر شہریوں کا کہنا ہے کہ مضافاتی علاقوں میں انہوں نے بڑی تعداد میں ٹڈی دلوں کے جھنڈ آسمان پر دیکھے ہیں۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ ہزاروں ایکڑ زمین پر کٹائی کے بعد جانوروں کا چارہ اور گھاس ذخیرہ کی گئی ہے۔ یہ ذخیرہ مویشیوں کے لیے زندگی کی حیثیت رکھتا ہے جسے ٹڈی دل برباد کررہے ہیں۔ بطور روزگار مویشی پالنے والے ہاری کسان اس صورتحال سے شدید پریشان ہیں۔
(ڈان، 1 مئی، صفحہ15)
وفاقی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے وزیر زراعت سندھ اسماعیل راہو نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے ٹڈی دل کے حملوں سے بچاؤ کے لیے صوبوں کو تنہا چھوڑ دیا ہے۔ یہ صورتحال عالمی وباء کے دوران شدید خوراک کے بحران کی وجہ بن سکتی ہے۔ وفاقی حکومت نے اب تک فضائی چھڑکاؤ کے لیے ہوائی جہاز فراہم نہیں کیے ہیں۔ فضائی چھڑکاؤ میں تاخیر نے صوبے کے کئی علاقوں میں صورتحال کو سنگین بنادیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بڑے پیمانے پر ٹڈی دل بلوچستان سے سندھ میں داخل ہوگئے ہیں۔ ٹڈی دل کا حملہ کورونا وباء سے زیادہ تباہ کن ہوگا اور پاکستان کو قحط اور شدید خوراک کی کمی کا سامنا ہوگا۔
(ڈان، 2 مئی، صفحہ14)
عالمی ادارہ خوراک وزراعت (فاؤ) نے یو ایس ایڈ کے تعاون سے خیبر پختون خواہ کے سابقہ قبائلی علاقوں میں ٹنل فارمنگ متعارف کروائی ہے۔ فاؤ کا کہنا ہے کہ ٹنل فارمنگ سے اس خطے میں زرعی پیداوار بڑھانے میں مدد ملے گی۔ فاؤ کے مطابق خیبر، جنوبی وزیرستان، شمالی وزیرستان اور اورکزئی اضلاع میں 75 ٹنل نصب کی جاچکی ہیں۔ کسانوں کو ٹنل کا ڈھانچہ اور اعلی معیار کے سزیوں کے مصدقہ بیج فراہم کیے گئے تھے جن سے تیار ہونے والی فصلیں کٹائی کے لیے تیار ہیں۔
(ڈان، 2 مئی، صفحہ8)
اقوام متحدہ کا ادارہ خوراک و زراعت (فاؤ) نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ (ڈیزرٹ لوکسٹ سچوئشن ان پاکستان) میں ٹڈی دل حملوں کی وجہ سے پاکستان سمیت خطے کے کئی ممالک میں خوراک کے ممکنہ شدید بحران سے خبردار کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کا 38 فیصد علاقہ (بلوچستان 60 فیصد، سندھ 25 فیصد، پنجاب 15فیصد) ٹڈی دل کی افزائش گاہ بنا ہوا ہے۔ اگر ٹڈی دل کو ان کے افزائشی مقام تک محدود نہ کیا گیا تو پورے ملک پر ان کے حملوں کا خطرہ ہے۔
(ڈان، 3 مئی، صفحہ3)
حکومت پنجاب نے عالمی بینک کے پنجاب میں زراعت اور دیہات میں اصلاحات پروگرام کے تحت گندم کی منڈی میں اصلاحات کے منصوبے کو ازسرنو تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ 300 ملین ڈالر کے اس اسٹرینتھنگ مارکیٹ فار ایگری کلچر اینڈ رورل ٹرانسفورمیشن (اسمارٹ پروگرام) پر فروری 2018 میں عملدرآمد شروع ہوا تھا جس پر مجموعی طور پر پیشرفت منصوبے کے مطابق جاری ہے۔ تاہم گندم کی منڈی میں اصلاحات کے حوالے سے اصل منصوبے کے مطابق عملدرآمد نہیں ہوا۔ اسمارٹ منصوبے کے تحت حکومت کو گندم اور آٹے کی قیمت کم کرنے کے لیے گندم کی منڈی پر سرکاری اختیار ختم (ڈی ریگولیٹ) کرنا تھا۔ ابتدائی منصوبے کے تحت پنجاب حکومت کو گندم کی سرکاری خریداری کو 2019 تک کم کرکے تین ملین ٹن، 2020 تک دو ملین ٹن اور 2021 تک گندم کی سرکاری خریداری کو صفر کرنا تھا۔
(ڈان، 3 مئی، صفحہ9)
گندم
وزیر اعلی بلوچستان جام کمال خان کی صدارت میں بلوچستان میں غذائی تحفظ اور گندم کی خریداری کے حوالے سے ہونے والے اجلاس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بلوچستان حکومت نصیرآباد ڈویژن میں گندم کی سرکاری خریداری کا آغاز نہیں کرسکتی۔ سیکریٹری خوراک نور محمد نے اجلاس میں بتایا کہ قومی احتساب بیورو نے کاشتکاروں پر یہ شرط عائد کی ہے کہ انہیں گندم فروخت کرنے سے پہلے زمین کے ملکیتی دستاویزات پیش کرنے ہونگے۔ سیکریٹری خوراک کا مزید کہنا تھا کہ اگر نیب نے یہ شرط واپس نہ لی تو نصیرآباد ڈویژن میں گندم کی سرکاری خریداری ناممکن ہوگی۔ اجلاس میں سیکریٹری کو ہدایت کی گئی ہے کہ نیب سے رابطہ کرکے گندم کی خریداری کے حوالے سے جاری کردہ اعلامیے میں ضروری ترمیم کی جائے۔
(ڈان، 2 مئی، صفحہ5)
وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کی جانب سے وزراء اعلی سندھ و پنجاب کو لکھے گئے خط میں وفاقی حکومت نے دونوں صوبوں میں گندم کی خریداری میں سست روی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ خط میں خبردار کیا گیا ہے کہ نجی شعبہ کو گندم کی خریداری سے روکنے جیسے سخت اقدامات طلب و رسد میں فرق اور قیمت میں اضافے کی وجہ بن سکتے ہیں۔ خط میں مزید کہا گیا ہے کہ بیج کمپنیوں کو گندم کی خریداری سے روکنا اگلے موسم میں بحران کی وجہ بن سکتا ہے۔ ایسی شکایات ہیں کہ بیج کمپنیوں کو اگلے سال کے لیے بطور بیج گندم کی خریداری سے روکا جارہا ہے اور آٹا ملوں کو بھی گندم کی خریداری سے روکا جارہا ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 4 مئی، صفحہ3)
وزیر خوراک پنجاب عبدالعلیم خان نے کہا ہے کہ حکومت نے خفیہ ایجنسی کی مدد سے گندم کی غیرقانونی ترسیل کی کئی کوششوں کو ناکام بنایا ہے اور اب نیشنل ہائی وے اینڈ موٹروے پولیس کے تعاون کی ضرورت ہے۔ گندم کی خریداری کا 45 فیصد ہدف حاصل ہوگیا ہے اور گندم کی سرکاری خریداری کی مہم عروج پر ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جنوبی پنجاب میں گندم کی پیداوار اور اس کی سرکاری خریداری ہدف سے زیادہ ہوگی۔ صوبہ پنجاب گندم خریدے گا اور اسے دوسرے صوبوں خصوصاً کے پی کو فراہم کرے گا۔
(ڈان، 5 مئی، صفحہ2)
چاول
رائس ایکسپورٹ ایسوسی ایشن آف پاکستان (ریپ) نے کابینہ کی جانب سے خوردنی اشیاء کی بر آمد پر پابندی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ اس فیصلے کو فوری واپس لیا جائے کیونکہ اس فیصلے سے معیشت بری طرح متاثر ہوگی۔ ریپ کا کہنا ہے کہ ”غذائی اشیاء کی برآمد پر پابندی غیرعقلی، غیرمنطقی اور کاروبار دشمن فیصلہ ہے“۔ اس فیصلے سے چاول کی برآمد بری طرح متاثر ہوگی جس سے ملک کو سالانہ 2.2 بلین ڈالر کا زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 30 اپریل، صفحہ11)
مرغبانی
وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق نے ملک میں ابھرتے ہوئے مرغبانی کے شعبہ کو مراعات فراہم کرنے کی تجویز دی ہے جو دیگر شعبہ جات کی طرح کورونا وائرس کی وباء سے متاثر ہورہا ہے۔ وزارت کی جانب سے تیار کی گئی دستاویزات میں اقتصادی رابطہ کمیٹی کو بینکوں کی اقساط میں تاخیر کرنے اور مرغبانی شعبہ کی جانب سے لیے گئے قرض پر ایک سال کے لیے سود کو موخر کرنے پر زور دیا ہے جس کے لیے تقریباً 4.7 بلین روپے درکار ہونگے۔ یہ تجویز حکومت کی جانب سے کورونا وائرس کے تناظر میں ملکی معیشت کے لیے 1.2 ٹریلین روپے کے امدادی پیکج کے اعلان کے بعد تیار کی گئی ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 3 مئی، صفحہ18)
نکتہ نظر
اس ہفتے کی خبریں قومی غذائی تحفظ کے حوالے سے انتہائی تشویشناک صورتحال کی پیشنگوئی کررہی ہیں۔ سندھ کے بالائی اضلاع میں ٹڈی دل کے جھنڈ نمودار ہونا شروع ہوگئے ہیں، گو کہ سندھ میں گندم کی کٹائی تقریباً پوری ہوچکی ہے لیکن کٹائی کے بعد بڑی مقدار میں حاصل ہونے والا بھوسہ اور گھاس اکثر زمینوں پر ہی ذخیرہ کردی جاتی ہے جسے اطلاعات کے مطابق جیکب آباد اور اس سے ملحقہ دیگر اضلاع میں ٹڈی دل برباد کررہے ہیں۔ دیہی معیشت میں مویشیوں کا چارہ چھوٹے اور بے زمین مویشی پالنے والے کسانوں کے لیے زندگی کی حیثیت رکھتا ہے۔ مویشیوں سے حاصل ہونے والی پیداوار اس طبقہ کے لیے خوراک اور دیگر ضروریات پوری کرنے کے لیے لازمی جز ہے۔ کورونا وائرس کی وبائی صورتحال میں یہ طبقہ پہلے ہی کھیت مزدوری سے محرومی، دودھ اور سبزیوں جیسی پیداواری اشیاء کی قیمت میں کمی جیسے مسائل سے دوچار ہیں، ان حالات میں ٹڈی دل کا حملہ چھوٹے اور بے زمین کسان مزدوروں میں مزید بھوک و غربت کا سبب بن سکتا ہے۔ اس معاملے پر وفاقی حکومت کی مجرمانہ غفلت ظاہر کرتی ہے کہ اسے سرمایہ داروں کا مفاد عزیز ہے ناکہ چھوٹے اور بے زمین کسان مزدوروں کا۔ مرغبانی شعبہ ہو یا تعمیرات کا، حکومتی مشینری فوری حرکت میں آتی ہے اور تجاویز اقتصادی رابطہ کمیٹی تک پہنچ جاتی ہیں کیونکہ ملکی پالیسی سازی پر بھی وہی جاگیردار سرمایہ دار طبقہ اشرافیہ ہی قابض ہے جو کہیں مرغبانی کی صنعت تو کہیں چاول و چینی کی برآمدی صنعت سے بلواسطہ یا بلاواسطہ جڑا ہے۔ منافع کی بھوک میں، وبائی حالات میں بھی یہ طبقہ اشرافیہ عالمی سامراجی پالیسیوں کا دفاع کرتے ہوئے چاول جیسی غذائی اشیاء برآمد کرنے پر تلا ہے۔ جبکہ ملک میں ٹڈی دل کے ممکنہ اثرات اور موجودہ عالمی وبائی صورتحال میں صرف اور صرف خوراک کی خودمختاری اور خودانحصاری ہی قوم کو ان وباؤں سے بچاسکتی ہے۔ سرمایہ دارانہ عالمی سماج نے سابقہ فاٹا کے علاقوں میں پہلے اپنے مفادات اور منافع کی ہوس میں جنگ و جدل کے بیج بوکرعوام کو علاقائی خودمختاری اور وسائل سے محروم کیا اور اب یہی سامراجی ادارے وہاں اپنی سرمایہ دار کمپنیوں کے بیج اور ٹیکنالوجی کو فروغ دے کر انہیں مزید بھوک اور محتاجی میں دھکیلنے کے لیے کود پڑے ہیں۔ یہ تمام تر حالات ملک کے ہر کونے میں ظلم و استحصال کے شکار چھوٹے اور بے زمین کسان مزدور عوام کو واضح پیغام دے رہے ہیں کہ وہ صرف متحد ہوکر جدوجہد کے زریعے ہی منافع کی ہوس میں مبتلا طبقہ اشرافیہ اور اس سرمایہ دارانہ نظام سے چھٹکارہ حاصل کرسکتے ہیں۔