اپریل 2 تا 8 اپریل، 2020
زراعت
پنجاب میں کسانوں کو گندم کی کٹائی میں سہولت فراہم کرنے کے لیے پنجاب حکومت نے صوبے میں زرعی مشینری کی نقل وحمل کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ چیف سیکریٹری پنجاب اعظم سلیمان خان نے صوبے میں کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے عائد کی گئی دفعہ 144کے دوران زرعی مشینری کو مستثنی قرار دینے کا حکم دیا ہے۔ زرائع کے مطابق زرعی شعبہ سے متعلق مشینری کی نقل و حمل کی اجازت دی گئی ہے لیکن کٹائی کرنے والے کسان مزدوروں کو عائد کیے گئے ضوابط (ایس او پیز) پر عملدرآمد کرنا ہوگا۔
(بزنس ریکارڈر، 3 اپریل، صفحہ12)
سندھ آباد گار بورڈ کے نائب صدر محمود نواز شاہ نے کہا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا کے بعد زرعی شعبہ کہیں زیادہ اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ یہ شعبہ پاکستان میں ناصرف غذائی تحفظ کو یقینی بناتا ہے بلکہ اب بھی ملک میں روزگار فراہم کرنے والا سب سے بڑا شعبہ ہے۔ تاہم حکومت نے اس وبائی صورتحال میں اس کی اہمیت کے باوجود زرعی شعبہ کی پائیداری کے لیے بہت کم اقدامات کیے ہیں۔ حکومت نے گندم کی خریداری کے لیے 280 ارب روپے مختص کیے ہیں جبکہ صنعتوں کے تحفظ کے لیے اربوں روپے مالیت کے امدادی پیکج کا اعلان کیا گیا ہے۔ حکومت گندم کی خریداری کے لیے ہر سال ہی رقم مختص کرتی ہے، زرعی شعبہ کے لیے کوئی پیکج نہیں رکھا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ”اس مشکل وقت میں حکومت کی جانب سے کونسی انوکھی مراعات کا اعلان کیا گیا ہے؟ نہ ہونے کے برابر“۔ جب سے کرونا وائرس کی وباء پھیلی ہے کسان اور ان کی پیداوار، خصوصا جلد خراب ہونے والی سبزیاں اور پھل، بری طرح متاثر ہوئے ہے۔ کسان گندم کی سرکاری قیمت 1,400 روپے فی من سے کم پر گندم فروخت کررہے ہیں۔ حکومت نے باضابط طور پر اب تک گندم کی خریداری شروع نہیں کی ہے جبکہ فصل کٹائی کے لیے تیار ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 4 اپریل، صفحہ11)
سندھ آباد گار بورڈ نے دعوی کیا ہے کہ سندھ میں جاری لاک ڈاؤن سے زرعی معیشت متاثر ہوئی ہے اور کئی فصلوں کی قیمت میں 70 فیصد تک کمی ہوئی ہے۔ زرعی معیشت دودھ، ٹماٹر، کیلا، گوبھی، ہری مرچ اور دیگر فصلوں کی پیداوار میں شدید نقصان سے دوچار ہے۔ ان اشیاء کی قیمت میں لاک ڈاؤن کے بعد 40 سے 70 فیصد تک کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ سورج مکھی کی کٹائی اس وقت عروج پر ہے لیکن کسانوں کو وعدے کے مطابق 2,700 روپے قیمت نہیں دی جارہی اور قیمت کم ہوکر 2,300 روپے ہوگئی ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 5اپریل، صفحہ4)
سندھ آباد گار بورڈ نے محمود نواز شاہ کی صدارت میں مواصلاتی رابطے کے زریعے ہونے والے اجلاس (آن لائن میٹنگ) میں حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ملک بھر میں سبزیوں، پھلوں اور دیگر اجناس کی نقل و حمل کو بلا روک ٹوک جاری رکھنے اور پھل و سبزیوں کی افغانستان, ایران اور دیگر ممالک کو برآمد کرنے کی اجازت دی جائے۔ اس کے علاوہ گندم کی خریداری کے مراکز بغیر کسی تاخیر کے کھولے جائیں۔ سندھ آبادگار بورڈ کا مزید کہنا تھا کہ لاڑکانہ اور شکارپور میں مزدوروں کی آمد و رفت پر پابندی سے پہلے ہی ٹماٹر کی چنائی متاثر ہورہی ہے اور جلد ہی آم کی چنائی کے لیے بھی مزدور درکار ہونگے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ مزدوروں کی صحت پر سمجھوتہ کیے بغیر ان کی آمد و رفت کی اجازت ہونی چاہیے۔
(ڈان، 6اپریل، صفحہ15)
گندم
حکومت کی جانب سے گندم کے بحران پر فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے سربراہ کی قیادت میں بنائی گئی تفتیشی ٹیم نے تحقیقات کے بعد وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق، صوبائی حکومتوں اور فلور ملز ایسوسی ایشن کو ملک میں پیدا ہونے والے حالیہ گندم اور آٹے کے بحران کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاسکو نے پیداواری ہدف سے 0.42 ملین ٹن کم گندم خریدا۔ اس ناکامی کے ذمہ دار سیکریٹری وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق اور پاسکو کے موجودہ منیجنگ ڈائریکٹر ہیں۔ وزارت کی جانب سے سات اگست 2019کو گندم کی اشیاء جیسے میدہ اور سوجی کی برآمد کی اجازت دینے کا عمل سمجھ سے بالاتر تھا اور سیکریٹری بھی اس پابندی کو ختم کرنے پر کوئی خاطر خواہ جواب نہیں دے سکے۔ وزارت وفاقی حکومت کو بروقت گندم درآمد کرنے کی سفارش کرنے میں ناکام رہی۔ گندم درآمد کرنے کی پالیسی افواہوں کے سدباب اور ذخیرہ اندوزی و منافع خوری کی موثر طریقے سے حوصلہ شکنی کرسکتی تھی جو گندم کی قلت اور قیمتوں میں اضافے کی وجہ بنی۔ رپورٹ کے مطابق پنجاب حکومت نے گندم کی خریداری میں 20 سے 22 دن تاخیر کی جس کے وجہ سے مقرر کیے گئے ہدف سے 0.67 ملین ٹن کم گندم خریدا گیا جبکہ گندم کا محفوظ ذخیرہ پچھلے پانچ سالوں کی کم ترین سطح پر تھا۔ محکمہ خوراک پنجاب فلور ملوں کو قابو کرنے میں ناکام رہا جس کی وجہ سے ملوں نے بے تحاشہ منافع کمایا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان حالات میں حکومت گندم کی طلب و رسد قابو کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی تھی۔ اس کے علاوہ محکمہ خوراک پنجاب نے مرغیوں کا چارہ بنانے والی ملوں کو منڈی سے بھاری مقدار میں گندم خریدنے کی اجازت دی۔
(بزنس ریکارڈر، 5 اپریل، صفحہ1)
پودوں میں پھپوندی کی بیماریوں (رسٹ پلانٹ ڈیزیز) کے تباہ کن اثرات کی وجہ سے ایوب ایگری کلچر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (اری) کے سائنسدانوں نے گندم کی نو اقسام کو فہرست سے نکالنے کی سفارش کی ہے اور کسانوں پر مستقبل میں کم پیداوار دینے والی ان اقسام کی کاشت نہ کرنے پر زور دیا ہے۔ ان اقسام میں ٹی ڈی۔1، سحر۔06، گلیکسی۔13، گلیکسی۔2، گندم1، اے اے آر آئی۔12، اے ایس۔ 2002، چکوال۔50 اور پاکستان۔13 شامل ہیں جن میں دوسری اقسام کے مقابلے ذیادہ پھپوندی کے امکانات دیکھے گئے ہیں۔ ڈائریکٹر اری ڈاکٹر جاوید احمد کا کہنا ہے کہ ”ہم نے گزشتہ سال بھی ان اقسام کو فہرست سے نکالنے کی تجویز دی تھی تاہم پنجاب سیڈ کونسل نے یہ یقینی بنانے کے لیے کہ وقت کے ساتھ ان اقسام میں پھپوندی کے خلاف مدافعت نہیں پیدا ہورہی ہے، انہیں مزید ایک سال کا وقت دیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ کسانوں کو مصدقہ بیج کی فراہمی کے لیے تمام تر اقدامات کیے جانے چاہیے اور گھروں میں محفوظ کردہ بیجوں کی کاشت کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ ادارے نے اکبر۔19، اناج۔17، اجالا۔16، فیصل آباد۔08، بارانی۔17، فتح جنگ۔16، فخر بھکر، زنکول، گولڈ۔16 اور نارک۔11 جیسی اقسام کو نقصان سے بچنے اور بہتر پیداوار کے حصول کے لیے کاشت کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 7 اپریل، صفحہ9)
چینی
ملک میں چینی کے بحران پر قائم کی گئی تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ جاری کردی ہے۔ 32 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں کمیٹی نے تحریک انصاف حکومت کے چینی برآمد کرنے کے فیصلے کو بلاجواز قرار دیا جس کی وجہ سے چینی کی قیمت میں 30 فیصد اضافہ ہوا۔ چینی کے برآمد کنندگان نے دو طرح سے فائدہ اٹھایا۔ ایک انہوں نے چینی کی برآمد پر زرتلافی حاصل کی اور دوسری طرف مقامی منڈی میں چینی کی بڑھتی ہوئی قیمت سے منافع بنایا۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ تحریک انصاف کے سابق جنرل سیکریٹری جہانگیر ترین اور وفاقی وزیر خسرو بختیار اس صورتحال سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والوں میں شامل ہیں۔ دونوں رہنماؤں نے عوام کے ٹیکس کے پیسے سے چینی کی برآمد پر 1.03 بلین روپے زرتلافی حاصل کی جو پنجاب حکومت کی جانب سے شوگر مل مالکان کو دی جانے والی کل زرتلافی کا 41 فیصد ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ شوگر مل مالکان جنہوں نے زیادہ تر زرتلافی حاصل کی ان کا سیاسی پس منظر ہے اور فیصلہ سازی میں اثرورسوخ تھا اور انہوں نے محدود وقت میں زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنے کی کوشش کی۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 5 اپریل، صفحہ1)
دالیں
ایک خبر کے مطابق دالوں کے درآمد کنندگان اور خوردنی تیل کی صنعت کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ وہ اب تک بندرگاہ سے اپنا مال وصول کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ اب تک محصولات (ٹیکس اور ڈیوٹی) میں چھوٹ سے متعلق اعلامیہ (ایس آر او) جاری نہیں کیا گیا ہے۔ حکومت نے 30 مارچ کو دالوں کی درآمد پر دو فیصد پیشگی ٹیکس اور روغنی بیج و پام آئل پر دو فیصد اضافی کسٹم ڈیوٹی ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ حکومت نے کورونا وائرس کی وباء سے نمٹنے کے لیے مختلف غذائی اجناس کی درآمد پر ٹیکس اور ڈیوٹی میں کمی کی ہے۔ کراچی ہول سیل گروسرز ایسوسی ایشن کے سربراہ انیس مجید کا کہنا ہے کہ ان کے ارکان دالوں پر دی جانے والی چھوٹ کے حصول کے انتظار میں ہے۔
(ڈان، 7 اپریل، صفحہ9)
مرغبانی
پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن شمالی زون کے چیئرمین چوہدری فرغام نے کہا ہے کہ طلب میں کمی اور قیمت گرجانے کے باعث برائلر مرغی کے فارمروں نے ایک دن کے چوزوں کی افزائش میں کمی کردی ہے جس کے نتیجے میں سینالوں (ہیچریوں) نے مرغیوں کی پیداوار کے لیے انڈوں کی تیاری تقریباً روک دی ہے۔ گزشتہ ہفتے تک ایک چوزہ دو سے تین روپے میں فروخت ہورہا تھا جبکہ ایک چوزے کی پیداواری لاگت 38 سے 40 روپے ہے۔ اس وقت مرغبانی شعبہ کو شادی ہال اور ہوٹلیں بند ہونے کی وجہ سے طلب میں 30 فیصد کمی کا سامنا ہے جس کی وجہ سے پولٹری فارموں نے چوزوں کی افزائش روک دی ہے اور وہ وقت سے پہلے اپنی مرغیاں فروخت کررہے ہیں۔ انہوں نے خدشہ کا اظہار کیا کہ کاروباری حالات معمول پر آنے کے بعد مرغیوں کی طلب بڑھ جائے گی اور مرغیوں کی دستیابی میں کمی کے نتیجے میں اس کی قیمت بہت بڑھ جائے گی۔ انہوں نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ مرغیوں کی دکانوں کے کھلنے کے اوقات میں اضافہ کیا جاسکتا ہے بجائے اس کے کہ وہ شام پانچ بجے تک کھلیں۔ مرغی کی دکانوں کو رات آٹھ بجے تک کھولنے کی اجازت دی جائے۔
(بزنس ریکارڈر، 7 اپریل، صفحہ12)
ماہی گیری
ایک خبرکے مطابق ٹھٹھہ، بدین، سجاول، کراچی، شاہ بندر، جاتی، کھاروچن اور گولارچی کے ماہی گیر صوبے میں جاری لاک ڈاؤن کے دوران مچھلی منڈی بند ہونے اور خریداروں کی عدم موجودگی میں مچھلی خراب ہونے کی وجہ سے فاقہ کشی کا شکار ہیں۔ کوسٹل کمیونٹی آرگنائزیشن کے چیئرمین امیر بخش جٹ کا کہنا ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ماہی گیروں کے حالات بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ حکومت کو ماہی گیروں کو اس مشکل وقت میں گزارے کے لیے مناسب امداد فراہم کرنی چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کی جانب سے مختلف جالوں پر پابندی، غیرملکی مچھلی پکڑنے والی کشتیوں کے لیے بڑھتی ہوئی سہولیات کی وجہ سے پہلے ہی مچھلی کا شکار بہت کم ہوگیا ہے جبکہ کوٹری بیراج سے نیچے دریائی بہاؤ میں کمی ہوگئی ہے جو مینگروز کے جنگلات کی بڑھوتری کے لیے ضروری ہیں، یہ جنگلات مچھلیوں اور جھینگوں کی افزائش کے مسکن ہوتے ہیں۔
(ڈان، 3 اپریل، صفحہ15)
سندھ کے ساحلی علاقوں میں مقیم ماہی گیروں کو فشرمین کو آپریٹیو سوسائٹی (ایف سی ایس) کے چیئرمین حفیظ عبد البار کی ہدایت پر راشن اور مالی مدد فراہم کی گئی ہے۔ چیئرمین کا کہنا تھا کہ وہ دور دراز ساحلی علاقوں میں بھی ماہی گیروں تک امداد ی سامان پہنچانے کے لیے کوشش کررہے ہیں۔ انہوں ڈائیریکٹر ایف سی ایس کو جزائر بابا، بھٹ، شمس پیر، مبارک ولیج اور یونس آباد میں امداد تقسیم کرنے کی نگرانی کرنے اور تمام مستحق افراد کی مدد یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 6 اپریل، صفحہ5)
غربت
وفاقی حکومت کے احساس ایمرجنسی پروگرام کے تحت ملک بھر میں 12 ملین مستحق خاندانوں میں 12,000 ہزار روپے فی خاندان مالی معاونت کا آغاز نو اپریل سے کیا جائے گا۔ حکام کے مطابق اس پروگرام کے تحت امداد کے لیے مختص کردہ نمبروں پر 40 ملین سے زائد پیغامات (میسجز) موصول ہوئے ہیں۔ مستحق افراد کی مدد یقینی بنانے کے لیے درخواستوں کی نادرہ کے زریعے جانچ کی جارہی ہے۔ یہ نقدرقم بائیو میٹرک تصدیق کے بعد وصول کی جاسکے گی۔ وفاقی حکومت کی جانب سے رقم کی وصولی کے لیے دونجی بینکوں کی شراکت سے چیک کے زریعے اور خوردہ فروش دکانوں سے نقد ترسیل کے لیے مراکز کی تعداد 18,065کردی گئی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 8 اپریل، صفحہ16)
نکتہ نظر
اس ہفتے کی خبریں ملک بھر میں کرونا وائرس سے شدید متاثر ہونے والے چھوٹے اور بے زمین کسان مزدور اور ماہی گیروں کی مشکلات کا واضح اظہار کرتی نظر آتی ہیں ساتھ ہی خوراک کی پیداوار و ترسیل کے حوالے سے خدشات کو بھی جنم دے رہی ہیں۔ ٹماٹر، ہری مرچ جیسی سبزیوں، دودھ اور پھلوں کی پیداوار سے منسلک ناصرف چھوٹے کسان قیمت میں کمی کی وجہ سے براہ راست متاثر ہورہے ہیں بلکہ زرعی شعبہ میں کام کرنے والے مزدور لاک ڈاؤن کی پابندیوں کی وجہ سے شدید مسائل سے دوچار ہیں جو ملک میں مزید غربت اور بھوک کی وجہ بن سکتاہے۔ اس صورتحال کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ حکومت نے زرعی شعبہ کے لیے اب تک کسی امدادی پیکچ کا اعلان نہیں کیا اور صرف گندم کی سالانہ خریداری کے لیے مختص کیے گئے 280 بلین روپے تک ہی محدود رہی جبکہ دیگر صنعتوں بشمول تعمیراتی صنعت کے لیے اربوں روپے کی مراعات کا اعلان کیا جارہا ہے۔ حکومت کا یہ اقدام توقع کے عین مطابق ہے کیونکہ جس ملک میں سرمایہ دار جاگیردار چینی سے لیکر آٹا و گندم تک کی تجارت و برآمد اور ان کے پیداواری وسائل پر قابض ہوں وہاں چھوٹے اور بے زمین کسان مزدور و ماہی گیروں کا ان حالات سے دوچار ہونا انہونی بات نہیں۔ ملک بھر کے کسان مزدور عوام کا استحصال کرکے اربوں روپے کا منافع سمیٹنے والا یہ طبقہ اشرافیہ ہر گز کسان مزدوروں کے لیے خوشحالی اور خوراک کی خودمختاری کا زریعہ نہیں بن سکتا۔ بیج کی شکل میں کسانوں کی صدیوں پر مشتمل میراث کو غیرملکی کمپنیوں اور سرمایہ داروں کے ہاتھوں فروخت کردینے والے پالیسی ساز اب کسانوں کے گھروں میں محفوظ کردہ گندم کے بیج کو ناقص قرار دے کر انہیں دو وقت کی روٹی سے بھی محروم کرنے پر تلے ہیں۔ ملک بھر کے چھوٹے اور بے زمین کسان مزدورں پر لازم ہے کہ وہ پنے ان کھلے دشمنوں کا مقابلہ اپنے محفوظ کردہ بیج، پائیدار طریقہ زراعت اور پیداوار وسائل پر اختیار حاصل کرکے کریں۔ پیداواری وسائل بشمول بیج، زمین، پانی پر استحصال کے شکار کسان مزدوروں طبقے کا اختیار ہی خوراک کی خودمختاری کی ضمانت سے جو موجودہ وبائی صورتحال میں بقاء کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ لازم ہے کہ اب چھوٹے اور بے زمین کسان مزدور و ماہی گیر ان وسائل پر اختیار کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور اپنا غذا تحفظ یقینی بنائیں۔