یکم جنوری تا 31 جنوری 2021
زمین
ترجمان سندھ حکومت مرتضی وہاب نے کہا ہے کہ پاکستان آئی لینڈ اتھارٹی آرڈننس 31 دسمبر، 2020 کو ختم ہوگیا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت جانتی ہے کہ اس کے پاس قومی اسمبلی سے اس آرڈننس کی منظوری کے لیے درکار اکثریت نہیں ہے۔ اس آرڈننس پر حکومتی اتحادی بھی اس کا ساتھ نہیں دیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ آرڈننس ستمبر میں پیش کیا گیا تھا لیکن وفاقی حکومت کے پاس اس آرڈننس کو بطور بل قومی اسمبلی میں پیش کرنے کی استعداد نہیں تھی۔
(بزنس ریکارڈر، 3 جنوری، صفحہ3)
مختلف دیہات کے رہائشیوں نے حکومت کی جانب سے راوی ریور فرنٹ اربن ڈیولپمنٹ پرجیکٹ کے لیے جبراً زمینوں کے حصول کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا ہے۔ مظاہرین نے حکومت کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے عمران خان کو ”لینڈ مافیا کا سرغنہ قرار دیا“۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کے لیے مختص کیا جانے والا علاقہ تازہ سبزیوں اور پھلوں کی پیداوار سے مالا مال ہے جہاں سے لاہور سمیت دیگر شہروں میں پھل سبزیاں ترسیل ہوتی ہیں۔ حکمران لینڈ ایکوزیشن ایکٹ کے نام پر ان کی زمین پر قبضے کی کوشش کررہے ہیں جو انہیں منظور نہیں۔ ایک مقامی کاشتکار حاجی عبدالغنی کا کہنا ہے کہ لینڈ ایکوزیشن ایکٹ صرف مفاد عامہ کے لیے زمین حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ کوئی قانون یہ اجازت نہیں دیتا کہ مقامی لوگوں کی زمین حاصل کرکے اس پر رہائشی منصوبے بنائے جائیں اور انہیں لینڈ مافیا کے حوالے کردیے جائیں“۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ دریائے راوی سے متصل زمین کو حکومت غلط بیانی کرتے ہوئے بنجر قرار دے رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ”ہم حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ اس علاقے کا دوبارہ سروے کرنے کے لیے ایک آزاد کمیشن قائم کیا جائے اور دیکھا جائے کہ یہ زمین کتنی زرخیز ہے۔ ہم اپنی زمینیں عوامی مفاد میں نہر اور جھیل کی تعمیر کے لیے دینے کے لیے تیار ہیں، لیکن ہم اپنی زمینیں رہائشی کالونیاں بنانے کے لیے نہیں دیں گے“۔
(ڈان، 25 جنوری، صفحہ2)
زراعت
سندھ آبادگار اتحاد (ایس اے آئی) نے ایران سے ٹماٹر اور پیاز کی درآمد کے خلاف 14 جنوری کو احتجاج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ درآمد پر پابندی کا مطالبہ کرتے ہوئے ایس اے آئی کا کہنا ہے کہ دونوں فصلیں تیار ہیں اس کے باجود اب بھی حکومت ٹماٹر اور پیاز درآمد کررہی ہے۔
(ڈان، 8 جنوری، صفحہ15)
کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں حکومت نے 800,000 ٹن چینی اور 300,000 ٹن گندم بغیر محصول درآمد کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ کمیٹی نے 500,000 ٹن سفید چینی کی سرکاری خریداری اور ملوں کو 300,000 ٹن خام چینی درآمد کرنے کی اجازت دی ہے۔ وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ چینی کی درآمد کا فیصلہ وزارت صنعت و پیداوار کی تجویز پر کیا گیا ہے۔
(ڈان، 21 جنوری، صفحہ1)
جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ارکان قومی اسمبلی سے ملاقات کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کابینہ کی زیلی کمیٹی سفارشات تیار کررہی ہے اور حکومت جلد ہی کسانوں کے لیے ایک خصوصی پیکج کا اعلان کرے گی۔
(ڈان، 25 جنوری، صفحہ3)
پنجاب ایگری کلچر کمیٹی نے وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کو تجویز دی ہے کہ ملک میں کپاس کی پیداوار میں اضافے کے لیے کسانوں کے لیے مراعات پر مبنی پروگرام تیار کیا جائے۔ مراعات پروگرام منظوری کے لیے وفاقی کابینہ میں پیش کیا جائے گا جس کا مقصد کپاس کی کم ہوتی ہوئی پیداوار کو مستحکم کرنا ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 27 جنوری، صفحہ18)
قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی برائے زراعت کی جانب سے اگلے سات سالوں کے لیے بنیادی اصلاحات پر مبنی ایک مربوط زرعی بڑھوتری پالیسی تیار کی گئی ہے۔ یہ پالیسی وزیراعظم کو پیش کی جائے گی اور اسے پارلیمنٹ میں بحث کے لیے پیش کیا جائے گا۔ اسلام آباد میں خصوصی کمیٹی کی صدارت کرتے ہوئے چیئرمین کمیٹی اور اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اس پالیسی کی باریک بینی سے جانچ کا عندیہ دیا ہے تاکہ اس پر قومی اتفاق رائے پیدا کیا جاسکے۔
(ڈان، 30 جنوری، صفحہ9)
پنجاب کی زرعی کمیٹی نے وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کو چین کے ساتھ سی پیک منصوبے کے تحت زرعی شعبہ میں اشتراک کے لیے ایک جامع منصوبہ بنانے سفارش کی ہے تاکہ زراعت میں مشینری کے استعمال اور ٹیکنالوجی کی منتقلی کو فروغ دیا جاسکے۔ اس تجویز پر پنجاب زرعی کمیٹی کے تیسرے اجلاس میں بحث کی گئی ہے جس کی حال ہی میں گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے سربراہی کی تھی۔ اس اجلاس میں زرعی شعبہ کے تمام شراکت داروں بشمول نجی و سرکاری شعبہ نے بھی شرکت کی۔ اس اجلاس میں چیئرمین سی پیک عاصم سلیم باجوہ بھی شریک تھے۔ گورنر پنجاب نے چیئرمین سی پیک کو بھی اس کمیٹی میں شامل کرنے کی ہدایت کی ہے جو گورنر کی جانب سے زرعی شعبہ کو درپیش مسائل کا جائزہ لینے اور ان کا حل تلاش کرنے کے لیے قائم کی گئی ہے۔ چیئرمین سی پیک اتھارٹی نے اجلاس کے دوران تجویز دی ہے کہ چین کے ساتھ اشتراک کے لیے ایک جامع زرعی منصوبہ ہونا چاہیے جس میں ٹیکنالوجی کی منتقلی، بیج اور مشینری کی درآمد، پاکستان میں چین کی جانب سے متوقع سرمایہ کاری اور زرعی سائنسدانوں کی صلاحیت میں اضافہ شامل ہو۔
(بزنس ریکارڈر، 31 جنوری، صفحہ7)
پانی
ایک خبر کے مطابق پاکستان میں بڑی تعداد میں اموات کی وجہ ناتو دہشت گردی ہے اور نا ہی قدرتی بحران، بلکہ پینے کے صاف محفوظ پانی کی عدم دستیابی بڑی تعداد میں اموات کی وجہ ہے۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق غیر صاف شدہ صنعتی فضلے کا اخراج، ناقص نکاسی آب کا نظام، زرعی پانی کا اخراج اور بغیر منصوبہ بندی کے بڑھتی شہرکاری نے پاکستان میں پانی کے معیار کو گھٹا دیا ہے جو 200 ملین پاکستانیوں میں سے تقریباً دو تہائی افراد کو پینے کے پانی سے محروم کررہی ہے۔ یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ تمام بیماریوں میں سے 30 فیصد بیماریاں اور کل اموات میں سے 40 فیصد اموات پانی کے ناقص معیار کی وجہ ہیں۔ پاکستان میں بچوں میں اموات کی اہم وجہ اسہال (ڈائریا) ہے جو پانی سے پیدا ہوتا ہے جبکہ پاکستان کا ہر پانچواں شہری گندے پانی کی وجہ سے بیماریوں کا سامنا کرتا ہے۔
(ڈان، 1 جنوری، صفحہ13)
ایک خبر کے مطابق آبی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی 220 ملین کی آبادی کو بڑھتی ہوئی پانی کی قلت کا سامنا ہے جو موسمی تبدیلی سے جڑی خشک سالی اور زرعی صنعت کی وجہ سے بدتر ہورہی ہے کیونکہ زراعت میں بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کوشش کی جارہی ہے۔ ملک میں جو پانی کسان استعمال کرتے ہیں اس کا تقریباً 20 فیصد بارشوں سے حاصل ہوتا ہے۔ وزیر اعلی سندھ کے مشیر برائے ماحولیات مرتضی وہاب کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت کو امید ہے کہ بارش کے پانی کو محفوظ کرنے والے ڈیم ناصرف کسانوں کو پانی کی ترسیل میں مدد دیں گے بلکہ زیر زمین پانی کی سطح میں اضافے کے لیے بھی معاون ہونگے کیونکہ ڈیموں کا کچھ پانی زمین میں سرائیت کرجاتا ہے۔ تازہ اقتصادی سروے کے مطابق مالی سال 2019-20 میں پاکستان میں سطح کے اوپر 94 ملین ایکڑ فٹ پانی زراعت کے لیے دستیاب تھا۔
(ڈان، 26 جنوری، صفحہ3)
وزیر اعلی خیبر پختونخوا محمود خان نے ضلع کرک میں 814 ملین روپے لاگت کے مکھ بندہ ڈیم منصوبے کا افتتاح کردیا ہے۔ یہ منصوبہ تین سالوں میں مکمل ہوگا اور تکمیل کے بعد ڈیم سے 725 ایکڑ زمین زیر کاشت آئے گی۔
(بزنس ریکارڈر، 27 جنوری، صفحہ16)
سیاسی جماعتوں کے کارکنان اور مقامی افراد نے چلاس، ضلع دیامر میں واپڈا کے دفتر کے باہر دیامر بھاشا ڈیم پن بجلی منصوبے میں مقامی لوگوں کو روزگار نہ دینے کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا ہے۔ مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ ڈیم منصوبے میں گریڈ ایک سے 16 کی ملازمتوں کے لیے مقامی افراد کو بھرتی کیا جائے اور گریڈ 17 سے اوپر کی ملازمتوں کے لیے بھی دیامر اور گلگت بلتستان کے لوگوں کو ترجیح دینی چاہیے۔ مظاہرین نے ڈیم منصوبے کے لیے گریڈ چھ سے 16 تک کی 100 ملازمتوں کے لیے واپڈا کا جاری کردہ اشتہار مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ صرف دیامر سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کا حق ہے۔
(ڈان، 28 جنوری، صفحہ8)
گندم
سندھ آبادگار بورڈ (ایس اے بی) نے اپنے ایک اجلاس میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ گندم پالیسی پر نظرثانی کریں اور مطالبہ کیا ہے کہ گندم کی مناسب مستقل پالیسی اپنائی جائے۔ اجلاس میں کہا گیا کہ موجودہ عارضی پالیسی کسانوں، صارفین اور ملکی معیشت کو متاثر کررہی ہے۔ کسانوں نے گندم 35 روپے فی کلو فروخت کیا جبکہ صارفین نے 60 روپے فی کلو سے زیادہ اس کی قیمت ادا کی۔ مزید یہ کہ حکومت پہلے ہی گندم کی درآمد پر 78 بلین روپے کا زرمبادلہ خرچ کرچکی ہے۔ یہ تمام صورتحال گندم کی ناقص پالیسی کو ظاہر کرتی ہے جو زخیرہ اندوزوں، آڑھتیوں اور اسمگلروں کو فائدہ دیتی ہے۔ ایس اے بی نے مطالبہ کیا کہ گندم کی امدادی قیمت 2,000 روپے فی من تک بڑھائی جائے تاکہ مقامی پیداوار کی حوصلہ افزائی ہو اور ذخیرہ اندوزی و غیرقانونی برآمد کی حوصلہ شکنی ہو۔
(ڈان، 4 جنوری، صفحہ15)
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے 300,000 ٹن گندم کی درآمد کو ٹیکس سے مستثنی قرار دے دیا ہے۔ گندم کی درآمد پر یہ سہولت صرف ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان (ٹی سی پی) کو بولی کے طریقہ کار کے لیے حاصل ہوگی۔ پاکستان نے گزشتہ سال کی پہلی سہماہی میں 661.148 ملین ڈالر مالیت کی 2.489 ملین ٹن گندم درآمد کی ہے۔ دسمبر 2020 میں گندم کی درآمد 903,707 ٹن پر تھی جبکہ سال 2019 میں اسی دورانیہ میں گندم کی درآمد صفر تھی۔ حکومت نے ربیع 2020-21 کے لیے 9.16 ملین ہیکٹر زمین پر 26.78 ملین ٹن گندم کی پیداوار کا ہدف مقرر کیا ہے۔ اس ہدف کے حصول کے لیے ایک پیکج کے تحت پانچ اقدامات کیے گئے ہیں جن میں امدادی قیمت میں اضافہ بھی شامل ہے۔ اس پیکج کے تحت حکومت ڈی اے پی، فاسفیٹ اور پوٹاشیم کھاد پر 1,000 روپے فی (50 کلوگرام) بوری زرتلافی فراہم کررہی ہے۔ زرتلافی کے لیے مختص کردہ کل رقم 20 بلین روپے ہے جس کا وفاقی اور صوبائی حکومتیں بلترتیب 70 اور 30 فیصد بوجھ برداشت کریں گی۔
(ڈان، 27 جنوری، صفحہ9)
چاول
رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن (ریپ) نے اعلان کیا ہے کہ پاکستان نے جیوگرافکل انڈیکیشن ایکٹ 2020 کے تحت باسمتی چاول کی رجسٹریشن کرلی ہے۔ ملک میں باسمتی کی جی آئی رجسٹریشن یورپی یونین میں بھارت کے خلاف پاکستان کے مقدمہ کو مستحکم کرے گی۔ انٹی لیکچول پراپرٹی آرگنائزیشن (آئی پی او) کی جانب سے جی آئی رجسٹری
ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان (ٹی ڈی اے پی) کے نام کی گئی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 28 جنوری، صفحہ1)
کپاس
چیئرمین ٹاول مینوفیکچررز ایسوسی ایشن آف پاکستان (ٹی ایم اے پی) فیروز عالم لاری نے کہا ہے کہ بڑے پیمانے پر برآمدی طلب کے باوجود سوتی دھاگہ (کاٹن یارن) کی قلت کی وجہ سے برآمد اور تیار کنندگان اپنی پوری صلاحیت پر کام نہیں کرسکتے۔ کپڑے کی صنعت کے لیے کاٹن یارن بنیادی خام مال ہے۔ یہ ملکی معیشت کے لیے انتہائی خطرناک ہے کہ کپاس کی پیداوار 15 ملین گانٹھوں سے کم ہوکر 5.5 ملین گانٹھیں ہوگئی ہے۔ کچھ دنوں پہلے حکومت نے کاٹن یارن کی درآمد پر صرف پانچ فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی کم کی ہے۔ اس وقت حکومت کاٹن یارن کی درآمد پر 11 فیصد کسٹم ڈیوٹی، 17 فیصد سیلز ٹیکس، 11 فیصد انکم ٹیکس اور دو فیصد ایڈشنل کسٹم ڈیوٹی وصول کررہی ہے۔ یعنی مجموعی طور پر حکومت کاٹن یارن کی درآمد پر 41 فیصد ٹیکس وصول کررہی ہے۔ ایسوسی ایشن نے حکومت سے درآمد پر تمام ٹیکس اور ڈیوٹی ختم کرنے اور کاٹن یارن کی برآمد پر مکمل پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 13 جنوری، صفحہ18)
پاکستان میں گزشتہ سال کی پیداوار 8.3 ملین گھانٹھوں کے مقابلے رواں سال کپاس کی پیداوار 5.7 ملین گانٹھیں ہونے کا امکان ہے۔ کپاس کی پیداوار میں یہ کمی سال 2014 کے مقابلے 60 فیصد ہے۔ پنجاب سے 30.6 فیصد جبکہ سندھ سے 38.7 فیصد کپاس کی آمد میں کمی دیکھی گئی ہے۔ چیئرمین پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن (پی سی جی اے) جیسو مل کے مطابق جننگ کارخانوں میں پھٹی کی آمد گزشتہ 30 سالوں کی کم ترین سطح پر ہے جس کے نتیجے میں کل 1,200 کارخانوں میں سے 800 جننگ کے کارخانے بند ہوگئے ہیں۔ اس صورتحال میں ہزاروں ملازمتیں ختم ہوگئیں اور کپاس چننے والی عورتوں کی آمدنی کم ہوگئی ہے۔ 1.2 ملین کسانوں کو روزگار فراہم کرنے والی کپاس کی پیداوار میں کمی کی کئی وجوہات ہیں۔ یہ کسان آٹھ ملین ایکڑ پر خصوصاً سندھ اور پنجاب میں کپاس کاشت کرتے ہیں۔ زرعی معیشت کا بڑا حصہ، کپڑے کی برآمدی صنعت ہے جو ملکی برآمدات کے 60 فیصد پر مشتمل ہے اور مقامی طور پر کاشت ہونے والی کپاس پر انحصار کرتی ہے۔
(ڈان، 31 جنوری، صفحہ9)
گنا
گنا کمشنر پنجاب محمد زمان وٹو نے صوبے کی ضلعی انتظامیہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ گنے کی خریداری کے غیرقانونی مراکز اور آڑھتیوں کے خلاف کارروائی کرے۔ انہوں نے تمام ڈپٹی کمشنروں کو جن کے پاس ایڈشنل گنا کمشنر کا اختیار بھی ہے، کارروائی کی یومیہ رپورٹ پیش کرنے کی درخواست کی ہے۔ تاہم پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن (پی ایس ایم اے) نے آڑھتیوں کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے انہیں تحفظ دینے کا الزام عائد کیا ہے جس کی وجہ سے گنے کی قیمت بڑھ رہی ہے۔ حکومت نے گنے کی سرکاری قیمت 200 روپے فی من مقرر کی ہے جبکہ صوبہ بھر میں گنے کی قیمت 300 روپے فی من تک پہنچ گئی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 8 جنوری، صفحہ2)
چیئرمین پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن (پی ایس ایم اے) اسکندر خان نے وزیر اعظم کو لکھے گئے ایک خط میں چینی کی قیمت کے حوالے سے مسائل کو اجاگر کرتے ہوئے مقامی منڈی کو استحکام دینے کے لیے افغانستان اور وسط ایشیا کو گڑ اور چینی کی غیرقانونی برآمد روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔ پی ایس ایم اے کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کو گڑ کنٹرول ایکٹ 1948 کا نفاذ کرنا پڑے گا جو صرف 25 فیصد گنے سے گڑ بنانے کی اجازت دیتا ہے۔ تاہم اس وقت پشاور میں تقریباً 100 فیصد گنے سے گڑ بنایا جارہا ہے جو زیادہ تر بیرون ملک برآمد ہوتا ہے۔ زرائع کے مطابق شوگر ایڈوائزی بورڈ (ایس اے بی) کے اجلاس میں بتایا گیا کہ ”حالانکہ حکومت نے گنے کی قیمت 200 روپے فی من مقرر کی ہے، لیکن سندھ میں موجودہ نرخ 300 روپے، پنجاب میں 270 سے 290 روپے اور خیبرپختونخوا 290 روپے فی من ہے“۔
(ڈان، 10 جنوری، صفحہ1)
سندھ آبادگار اتحاد (ایس اے آئی) نے وفاقی حکومت کے چینی درآمد کرنے کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس فیصلے سے کسانوں کا استحصال ہوگا۔ ایس اے آئی کے صدر نواب زبیر تالپور نے ایک بیان میں الزام عائد کیا ہے کہ کسانوں کے استحصال کے لیے بند کمروں میں فیصلے کیے جارہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں چینی کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن چینی برآمد کی جارہی ہے۔ یہ سندھ کے کسانوں کے ساتھ ناانصافی ہے جہاں 40 فیصد گنے کی کرشنگ اب بھی جاری ہے۔ کرشنگ ختم ہونے سے پہلے چینی کی قلت ظاہر کرنا بیوقوفانہ عمل ہے۔ حکومت ہمیشہ فصل کی کٹائی سے پہلے قیمتوں پر قانو پانے کے نام پر اشیاء درآمد کرتی ہے۔
(ڈان، 22 جنوری، صفحہ15)
چینی
وفاقی وزیر برائے صنعت و تجارت حماد اظہر نے کہا ہے کہ کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اگلے اجلاس میں 0.5 ملین ٹن چینی کی درآمد کے لیے سمری پیش کی جارہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ چینی کی مقامی پیداوار گزشتہ سال کے مقابلے زیادہ ہوگی لیکن موجودہ ذخائر کم ہونے کی وجہ سے ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان (ٹی سی پی) صوبوں کی مشاورت سے جلد چینی درآمد کرنے کی تجویز دے گی۔
(بزنس ریکارڈر، 18 جنوری، صفحہ16)
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے ان شوگر ملوں پر بھاری جرمانہ عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو 31 جنوری تک شوگر مل میں پیداواری عمل کو ریکارڈ کرنے والا نظام ویڈیو اینالیٹک سسٹم (وی اے ایس) نصب کرنے میں ناکام رہیں گی۔ ایف بی آر کے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق اس نظام کے سات فروخت کنندہ کو اے وی ایس نصب کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ ان فروخت کنندہ کی تفصیلات پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن (پی ایس ایم اے) کو فراہم کردی گئی ہیں۔ تاہم ملوں کی بڑی تعداد اس نظام کی تنصیب پر عملدرآمد نہیں کرنا چاہتی۔
(بزنس ریکارڈر، 30 جنوری، صفحہ8)
گڑ
گڑ کے برآمد کنندگان نے عالمی منڈی میں اس کے فروغ اور افغانستان برآمد کے لیے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور وزارت تجارت سے رابطہ کیا ہے۔ حیات آباد، پشاور سے تعلق رکھنے والے ماہر خان فراز کے مطابق گنے کی پیداوار کا کچھ حصہ خصوصاً خیبر پختونخوا میں گڑ بنانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ پاکستان دنیا میں چینی کی پیداوار کرنے والا پانچواں اور اس کا استعمال کرنے والا آٹھواں بڑا ملک ہے اور چینی کی صنعت کپڑے کے بعد سب سے بڑی صنعت ہے جو زراعت پر انحصار کرتی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 31 جنوری، صفحہ9)
کینو
پاکستان بزنسس فورم (پی بی ایف) کے نائب صدر احمد جواد نے کہا ہے کہ باوجود اس کے کہ دو دہائیوں میں عالمی باغبانی (ہارٹی کلچر) پیداوار کی تجارت میں چار گنا اضافہ ہوا ہے، جو اس وقت 200 بلین ڈالر پر کھڑی ہے، پاکستان اب تک اس تجارت میں اپنا مناسب حصہ حاصل نہیں کرسکا ہے۔ پاکستان کینو کی پیداوار میں دنیا کے 10 بڑے ممالک میں شامل ہے جس کی برآمد پیداوار سے کہیں کم ہے۔ حکومت نے اب تک کینو کی افغانستان اور ایران برآمد میں درپیش مسائل کو حل نہیں کیا ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 27 جنوری، صفحہ16)
کھاد
پاکستان میں سال بھر یوریا اور ڈی اے پی کا استعمال ظاہر کرتا ہے کہ سال 2020 میں کورونا وائرس کی وجہ سے ترسیلات میں تعطل اور موسمی تبدیلی کے باوجود زرعی شعبہ میں شاندار کارکردگی جاری رہی۔ صنعتی اندازوں کے مطابق دسمبر میں 837,000 ٹن یوریا اور 207,000 ٹن ڈی اے پی فروخت ہوئی۔ اس وقت یوریا کی قیمت 2012 کی سطح پر یعنی 1,630 روپے فی (50 کلوگرام) بوری ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 5 جنوری، صفحہ3)
زرعی معیشت میں بہتری اور کیمیائی کھاد کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے جولائی تا دسمبر 2020 کے دوران کھاد کے استعمال میں گزشتہ سال کے مقابلے اضافہ ہوا ہے۔ سال 2020 میں کورونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے زیادہ تر شعبہ جات تقریبا پورے سال متاثر ہوئے ہیں لیکن کھاد کی صنعت میں بڑھوتری ہوئی ہے۔ اس دورانیے میں 3.36 ملین ٹن کھاد استعمال کی گئی جو گزشتہ سال اسی دورانیے میں 3.34 ملین ٹن تھی۔ تجزیہ کاروں نے اس کی کئی وجوہات بیان کی ہیں جن میں کھاد کی قیمت میں کمی اور گنا و گندم کی قیمت میں اضافہ بھی شامل ہے۔ اس صورتحال نے کسانوں کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ گزشتہ سال کے مقابلے مزید یوریا اور فاسفیٹ استعمال کریں۔
(ڈان، 31 جنوری، صفحہ9)
ٹریکٹر
وزیر اعظم کے مشیر برائے تجارت عبدالرزاق داؤد نے کہا ہے کہ رواں مال سال کی پہلی سہماہی میں ٹریکٹر کی برآمد میں متاثر کن بڑھوتری ہوئی ہے۔ ملت ٹریکٹر کی برآمد 68 فیصد بڑھ کر 6.9 ملین ڈالر ہوگئی ہے جو گزشتہ سال 4.1 ملین ڈالر تھی۔ تعداد کے حساب سے ملت ٹریکٹر نے 850 ٹریکٹر برآمد کیے جبکہ گزشتہ سال یہ تعداد 500 تھی۔
(ڈان، 30 جنوری، صفحہ9)
ماہی گیری
بابا آئی لینڈ پر ماہی گیروں کے لیے کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیموں کی جانب سے منعقد کیے گئے کنونشن میں مقامی ماہی گیروں نے اپنے بنیادی حقوق کی فراہمی اور ماہی گیری کے لیے سمندر میں بلاروک ٹوک رسائی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ گہرے سمندر میں شکار کرنے والی تجارتی کشتیوں (ڈیپ سی ٹرالرز) پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے۔ ماہی گیروں کا کہنا تھا کہ وہ کراچی کے بانی ہیں لیکن انہیں پالیسی سازی میں نظرانداز کیا جاتا رہا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی آبادیوں میں پانی، تعلیم، طبی سہولیات، بجلی، گیس، روزگار اور زندگی کی دیگر بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ ماہی گیر رہنماؤں کا کہنا تھا کہ ناقص منصوبہ بندی اور متنازع حکمت عملیوں کی وجہ سے ماہی گیروں کا روزگار متاثر ہوا ہے کیونکہ جب بھی وہ ماہی گیری کے لیے سمندر میں جاتے ہیں وفاقی اور صوبائی حفاظتی ادارے انہیں تحفظ کے نام پر حراساں کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سمندر ان کے روزگار کا زریعہ ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ عالمی اور ملکی قوانین کے مطابق انہیں اس تک بغیر کسی رکاوٹ رسائی کا حق ہو۔
(ڈان، 23 جنوری، صفحہ14)
مرغبانی
نائب چیئرمین پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن (پی پی اے)، شمالی ریجن راجہ عتیق الرحمن عباسی نے خبردار کیا ہے کہ مرغیوں کی خوراک کی درآمد پر عائد ٹیکس جلد واپس نہ لیا گیا تو مستقبل قریب میں مرغی کے گوشت اور انڈوں کی شدید قلت ہوگی اور یہ قلت قیمت کو مزید بلند ترین سطح پر لے جائے گی۔ مرغی کی قیمت منڈی میں طلب و رسد کی بنیاد پر مقرر ہوتی ہے اسی لیے جب ان اشیاء کی قیمت فارمر کی پیداواری لاگت سے بھی کم ہوتی ہے تو بھی وہ اپنی پیداوار کم قیمت پر فروخت کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ کم اور زیادہ قیمت کا یہ نظام فارمر کو سالانہ اوسط قیمت حاصل کرنے میں مدد دیتا ہے جو اس کی پیداواری لاگت سے کچھ زیادہ ہوتی ہے اور وہ منافع کمانے کے قابل ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مرغی کے گوشت کی پیداواری لاگت 180 روپے فی کلو ہے اور اس کی منڈی میں قیمت تقریباً 265 روپے فی کلو ہے۔ انہوں نے دعوی کیا کہ 30 سے 35 فارم گزشتہ کچھ مہینوں میں نقصان کی وجہ سے پہلے ہی بند ہوچکے ہیں۔ مرغبانی شعبہ گزشتہ چھ ماہ سے حکومت سے مرغیوں کی خوراک میں استعمال ہونے والے مکئی اور دیگر اجزاء کی بلامحصول درآمد کی درخواست کررہا ہے لیکن اب تک اس کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 12 جنوری، صفحہ3)
غربت
ادارہ شماریات پاکستان (پی بی ایس) کی جانب سے کیے گئے ایک سروے کے مطابق ملک کی 20.76 ملین افرادی قوت کورونا کی وجہ سے ہونے والے لاک ڈاؤن میں روزگار سے محروم ہوئی اور ان کی زیادہ تر تعداد جولائی 2020 کے بعد اپنے روزگار پر واپس آئی۔ منصوبہ بندی کمیشن کا کہنا ہے کہ 10 سال اور اس سے زیادہ عمر کی 35 فیصد آبادی (تقریباً 55.74 ملین افراد) کورونا سے پہلے کام کررہی تھی لیکن لاک ڈاؤن کے بعد یہ تعداد کم ہوکر 22 فیصد (تقریباً 35.04 ملین افراد) ہوگئی۔ یعنی تقریبا 20.76 ملین آبادی کورونا وباء کی وجہ سے متاثر ہوئی۔
(ڈان، 8 جنوری، صفحہ1)
وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے سماجی تحفظ و غربت ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے کہا ہے کہ نئے سروے کے بعد ملک بھر میں احساس پروگرام سے فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد سات ملین ہوجائے گی۔ ملک بھر میں سروے جاری ہے اور 61 فیصد سروے مکمل ہوچکا ہے۔
(ڈان، 9 جنوری، صفحہ3)
حکومت نے پانچ سال سے کم عمر بچوں میں نشونما، وزن میں کمی اور موٹاپے جیسے مسائل پر قابو پانے کے لیے احساس پروگرام کے تحت 48 غذائیت مرکز (نیوٹریشن سینٹر) قائم کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے۔ ملک میں یہ مراکز خصوصاً پسماندہ اور غریب علاقوں میں قائم ہونگے۔ اس پروگرام کے تحت ماؤں اور بچوں کو غذائی، طبی سہولیات اور مشروط نقد رقم کی ادائیگی کی سہولت دستیاب ہوگی۔ ابتدائی طور پر یہ مراکز 13 اضلاع میں قائم ہونگے۔ وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے غربت و سماجی تحفظ ڈاکٹر ثانیہ نشتر کی زیر صدارت ایک اجلاس میں بتایا گیا ہے کہ اس منصوبہ پر عمل درآمد عالمی غذائی پروگرام (ڈبلیو ایف پی) اور صوبائی حکومتوں کی شراکت سے کیا جارہا ہے۔ تین سالوں پر مشتمل اس پروگرام کے زریعے حاملہ عورتوں، ماؤں اور پانچ سال سے کم عمر بچوں کو مشروط نقد رقم منتقل کی جائے گی اور انہیں غذائیت بخش خوراک، حفاظتی ٹیکہ جات اور طبی حوالے سے آگاہی فراہم کی جائے گی۔
(ڈان، 12 جنوری، صفحہ3)
برطانوی قونصل جنرل ڈاکٹر کرسٹین ٹرنر نے کوئٹہ، بلوچستان کے اپنے پہلے دورے کے موقع پر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر 3.5 ملین پاؤنڈ کی امداد دینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ برطانوی امداد 41,000 عورتوں اور بچوں کو تیارشدہ مصنوعی غذائیت کی حامل خوراک (تھراپیٹک فوڈ) کے ذریعے ضروری غذائیت کی فراہمی میں مدد گار ہوگی۔ بلوچستان میں غذائی کمی اور غذائی عدم تحفظ کی شرح کورونا وباء سے پہلے ہی بہت بلند تھی لیکن اب کورونا وباء نے روزگار کو متاثر اور مسائل کو بدتر کردیا ہے۔
(ڈان، 29 جنوری، صفحہ5)
ماحول
ایک اعلی سطح کے اجلاس میں محکمہ تحفظ ماحولیات سندھ (سیپا) کو ہدایت کی گئی ہے کہ ادارہ فضلہ صاف کرنے والے پلانٹ نہ رکھنے والی صنعتوں پر پابندی کے لیے قوائد وضع کرے۔ وزیر اعلی سندھ کے مشیر برائے ماحولیات مرتضی وہاب نے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی بھی نئی صنعت فضلہ صاف کرنے والے پلانٹ کے بغیر قائم نہیں ہوگی۔ اندازاً کراچی میں چھوٹی بڑی 10,000صنعتیں ہیں اور ان کی اکثریت صوبائی ماحولیاتی اداروں سے رجسٹرڈ نہیں ہے۔ اس وقت شہر میں فضلہ بشمول طبی و صنعتی فضلے کو ٹھکانے لگانے کا کوئی باقائدہ نظام موجود نہیں ہے۔ اس فضلے کا زیادہ تر حصہ بغیر صفائی سمندر میں گرتا ہے۔
(ڈان، 8 جنوری، صفحہ14)
وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے موسمی تبدیلی امین اسلم نے اٹک، پنجاب میں فتح جنگ کے قریب قلیار علاقے میں بڑے پیمانے پر جنگلات کی کٹائی کا نوٹس لیتے ہوئے ضلعی انتظامیہ اور محکمہ جنگلات کو حکم دیا ہے کہ لکڑی مافیا کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے اور سرکاری زمین سے بڑے پیمانے پر درختوں کی کٹائی میں ملوث کرداروں کے خلاف مقدمات درج کیے جائیں۔مقامی انتظامیہ نے اخبار کو بتایا ہے کہ محکمہ جنگلات، محکمہ ماحولیات اورمقامی انتظامیہ درختوں کی کٹائی سے لاعلم تھی۔ محکمہ ریونیو نے تصدیق کی ہے کہ 3,100 کنال پر واقع جنگل سرکاری زمین پر واقع ہے جہاں سے لکڑی مافیا نے درخت کاٹے ہیں۔
(ڈان، 22 جنوری، صفحہ4)
ڈپٹی اٹارنی جنرل سید محمد طیب نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو آگاہ کیا ہے کہ پاکستان نے متحدہ عرب امارات (یو اے ای) حکومت کو باز برآمد کرنے کی اجازت دوستی اور نیک نیتی کے اظہار کے لیے دی تھی۔ یو اے ای حکومت نے بازوں کے لیے ایک تحریری درخواست دی تھی اور پاکستان حکومت نے برادرانہ تعلقات کو مستحکم کرنے اور عظیم تر قومی مفاد میں یو اے ای کو باز بطور تحفہ پیش کیے اور یہ کوئی تجارتی سرگرمی نہیں تھی۔ اٹارنی جنرل یہ معلومات اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ (آئی ڈبلیو ایم بی) کے سابق چیئرپرسن ڈاکٹر انیس الرحمان کی جانب سے 150 باز دبئی برآمد کرنے کے خلاف دائر کی گئی درخواست کی سماعت کے دوران فراہم کیں۔
(ڈان، 23 جنوری، صفحہ4)
سعودی عرب کے صوبہ تبوک کے گورنر فہد بن سلطان بن عبدالعزیز اپنے 13ساتھوں کے ساتھ خصوصی ہوائی جہاز کے زریعے دالبدین، بلوچستان تلور کے شکار کے لیے پہنچ گئے ہیں۔ گورنر بلوچستان امان اللہ یاسین زئی اور پاکستان میں سعودی سفیر نے ان کا استقبال کیا۔ مہمانوں کو پولیس کی جانب سے سلامی بھی پیش کی گئی۔ وزارت خارجہ کی جانب سے 19 جنوری کو جاری کیے گئے سرکاری خط کے مطابق گورنر تبوک تقریباً تین ہفتے ضلع چاغی میں قیام کریں گے۔
(ڈان، 28 جنوری، صفحہ5)
نکتہ نظر
اس ماہ کی خبروں میں ریاستی اور سرمایہ دارانہ گٹھ جوڑ کے نتیجے میں ملکی معیشت میں بڑھتے ہوئے سامراجی تسلط کو کئی شعبہ میں جات میں دیکھا جاسکتا ہے، جس کے نتائج بے زمینی، بھوک، غربت، ماحولیاتی تباہی کی صورت دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی چھوٹے اور بے زمین کسان مزدوروں کی زرعی پیداوار حاصل ہونے کے باوجود غربت و بدحالی بھی ان ہی خبروں سے عیاں ہورہی ہے۔ سرمایہ دار چاہے تعمیراتی صنعت سے جڑا ہو، کھاد کی اور ٹریکٹر سازی کی، یا کپڑے، چینی، مرغبانی کی صنعت سے، ہر سطح پر عالمی سامراجیت مکمل سرکاری سرپرستی اور تعاون کے ذریعے منافع سمیٹ رہی ہے اور پیداواری عمل سے جڑے ہر غریب طبقہ کے مزید استحصال کے ذریعے لامحدود منافع کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔ جیسے کہ لاہور میں راوی کنارے کسانوں سے ان کی زرعی زمین چھین کر، کراچی میں ماہی گیروں کے جزائر پر اور سمندری غذائی وسائل پر غیرملکی تجارتی ماہی گیر کمپنیوں کے قبضے کے ذریعے خوراک و روزگار کا حق چھین لینے کا عمل جاری ہے جبکہ پہلے ہی ناصرف کسان ماہی گیر بھی موسمی تبدیلی کے نتیجے میں سیلاب، بے موسم بارشوں اور خشک سالی کی وجہ سے نقصانات کا شکار ہیں اور ماہی گیر سمندری خوراک کی پیداوار میں کمی کی وجہ سے اپنا روزگار تبدیل کرنے پر مجبور ہیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں میں سرمایہ دار ممالک کی بین الاقوامی زرعی کمپنیوں کی ملکی زراعت و پیداوار پر اجارہ داری اور منافع خوری کے لیے مرتب کی گئی آزاد تجارتی زرعی پالیسیوں کی بدولت ہی آج صرف کپاس سے ہی جڑے 1.2 ملین کسان مزدوروں کا روزگار داؤ پر لگ چکا ہے جن میں کپاس کی چنائی سے وابستہ دیہی مزدور عورتوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ ان پالیسیوں کے نتیجے میں ہی آج ناصرف کسان مزدور طبقہ بلکہ عام صارفین بھی گندم، چینی جیسے درآمدی و برآمدی مافیا کے ہاتھوں اپنی آمدنی اور روزگار سے محروم ہورہے ہیں۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال ٹماٹر اور پیاز کی بلا روک ٹوک درآمد کے خلاف کسانوں کا احتجاج ہے جو آزاد تجارتی پالیسیوں کی سفاکیت کو بے نقاب کررہے ہیں۔ ایک بار پھر شعبہ زراعت میں سی پیک کے تناظر میں پالیسی سازی کا عمل شروع کیا جارہا ہے۔ سڑکوں، خصوصی اقتصادی زون، توانائی کی پیداوار کے کئی منصوبوں کے لیے ملک بھر میں پہلے ہی کسان مزدور آبادیوں کو زرعی زمینوں سے بیدخل کیا جاچکا ہے، اب زراعت میں مجوزہ پالیسیاں مزید غیر ملکی کارپوریٹ زراعت اور ویلیو ایڈیشن کی صنعت کے فروغ کا سبب بنیں گی جس سے بے زمینی بڑھے گی اور چھوٹے و بے زمین کسان مزدور مزید بھوک و غربت کا شکار ہونگے۔ خوراک کی خودمختاری اور روزگار کا حق چھین کر سرکاری امدادی منصوبوں کے زریعے ماہانہ دو ہزاروپے امداد دے کر حکومت چھوٹے و بے زمین کسان مزدوروں، ماہی گیروں کو کارپوریٹ زراعت اور صنعتوں کا ایندھن بننے پر مجبور کررہی ہے۔ ظلم پر مبنی اس نظام کا خاتمہ یقینی ہے، لیکن اس کے لیے استحصال کی شکار کسان مزدور ماہی گیر آبادیوں کی تمام تر تفریق سے بالاتر ہوکر اجتماعی جدوجہد ضروری ہے۔