یکم تا 31 اکتوبر 2020
زمین
سندھ ہائی کورٹ کے سکھر بینچ نے کور کمانڈر کراچی کو ہدایات جاری کی ہیں کہ دریائے سندھ کے ساتھ ہزاروں ایکڑ سرکاری زمین بااثر قبضہ گیروں سے بازیاب کروائی جائے۔ دوران سماعت عدالت نے کہا کہ ”ہزاروں ایکڑ جنگلات کی زمین بااثر افراد کے قبضے میں ہے کیونکہ محکمہ جنگلات اور پولیس حکام نے ان سے ہاتھ ملا رکھا ہے“۔
(ڈان، 2 اکتوبر، صفحہ15)
کراچی کی سول سوسائٹی تنظیموں کے کارکنان اور مقامی آبادیوں کے رہائشیوں نے الزام عائد کیا ہے کہ بحریہ ٹاؤن ضلع ملیر کے گوٹھوں میں جبراً زمینیوں پر قبضے کی کوشش کررہا ہے۔ کراچی پریس کلب پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے کارکنان اور رہائشیوں کا کہنا تھا کہ دو اور تین اکتوبر کو ایک شخص جس نے خود کو بحریہ ٹاؤن کا اہلکار بتایا کچھ پولیس افسران کے ہمراہ بھاری تعمیراتی مشینری کے ساتھ زبردستی دیہہ لنگیجی، حاجی علی محمد گوٹھ میں داخل ہوگئے اور گوٹھ کی زمین پر قبضہ کی کوشش کی۔ اسی طرح کی ایک کوشش گزشتہ ماہ دیگر گوٹھوں بشمول گوٹھ علی داد گبول میں بھی کی گئی تھی۔ یہ دونوں دیہات گزشتہ 70 سالوں سے آباد ہیں اور سروے آف پاکستان میں اس زمین پر یہاں کے رہائشیوں کا ملکیتی حق تسلیم کیا گیا ہے۔ اس علاقے کے کئی دیہات پروین رحمان اور اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی کوششوں سے ریگولرائز بھی ہوچکے ہیں۔
(ڈان، 6 اکتوبر، صفحہ13)
گورنر سندھ عمران اسماعیل نے کہا ہے کہ کراچی کے ساحل کے ساتھ بنڈل آئی لینڈ منصوبہ 50 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کو راغب کرے گا جو ملک کی مجموعی معیشت کے لیے فائدہ مند ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ کوئی رہائشی منصوبہ نہیں ہے جسے اسلام آباد لایا جاسکے، یہ (جزیرہ) صوبہ سندھ کا ہی حصہ رہے گا۔ جزائر کی تعمیر کے بعد توقع ہے کہ چار سے پانچ ملین سیاح یہاں آئیں گے اور سیاحت سے حاصل ہونے والی آمدنی سندھ حکومت کو ملے گی۔ اس منصوبے سے اربوں روپے کی سرمایہ کاری ہوگی اور 150,000 ملازمتیں پیداہونگی۔
(بزنس ریکارڈر، 9 اکتوبر، صفحہ16)
کراچی بار ایسوسی ایشن (کے بی اے) نے صدر پاکستان کی جانب سے جاری کیے گئے پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے خلاف قرارد منظور کرلی ہے۔ کے بی اے کے جاری کردہ بیان کے مطابق اس آرڈننس کا نفاذ پارلیمنٹ میں باقائدہ بل پیش کیے بغیر جلد بازی میں کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اس آرڈننس کے اجراء میں آئین کی دفعہ 172 کو نظرانداز کیا گیا ہے خصوصاً اٹھارویں ترمیم کے تناظر میں (یہ آرڈننس) صوبائی خودمختاری کے خلاف ہے۔ برصغیر میں برطانوی دور سے ہی بنڈل اور بڈو جزائر سندھ کا حصہ ہیں۔
(ڈان، 11 اکتوبر، صفحہ14)
کراچی کے ساحل کے ساتھ دو جزیروں پر وفاق کے کنٹرول کے خلاف سندھ ترقی پسند پارٹی کی جانب سے احتجاجی مظاہرہ اور گورنر ہاؤس سندھ پر دھرنا دیا گیا۔ مظاہرین نے صدر پاکستان سے حال ہی میں جاری کیا گیا پاکستان آئی لینڈ اتھارٹی آرڈننس واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ ”صدر کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ گورنر ہاؤس میں سرمایہ کاروں سے ملاقات کریں اور انہیں غیرقانونی طور پر جزیروں پر قبضہ کرنے اور ان پر سرمایہ کاری کرنے پر راغب کریں“۔
(ڈان، 12 اکتوبر، صفحہ13)
سندھ اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آرڈننس کی مذمت کی گئی ہے اور وفاقی حکومت سے یہ آرڈننس واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ وزیر اعلی سندھ کا اس موقع پر کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 132 کے مطابق ناصرف جزیرے اور سمندری حدود بلکہ ان کے نیچے معدنیات بھی صوبوں کی ملکیت ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سندھ حکومت نے جزیروں پر نئے شہر کی تعمیر کے لیے کوئی سند عدم اعتراض (این او سی) جاری نہیں کی۔
(بزنس ریکارڈر، 22 اکتوبر، صفحہ4)
زراعت
کسان اتحاد کے چیئرمین راؤ طارق اشفاق نے حکومت پر زور دیا ہے کہ مختلف فصلوں کی امدادی قیمت میں کسان نمائندوں کی مشاورت سے اضافہ کیا جائے اور ان قیمتوں پر عملدرآمد کو ہر فصل کی بوائی سے پہلے یقینی بنایا جائے۔ گزشتہ سال گنے کی قیمت 180 روپے فی من تھی جس میں صرف 20 روپے اضافہ کرکے 200 روپے فی من قیمت مقرر کی گئی ہے۔ جبکہ دوسری طرف چینی کی قیمت 60 روپے فی کلو سے بڑھ کر 110 روپے فی کلو ہوگئی ہے۔ اسی طرح گندم 1,400 روپے فی من خریدا گیا جبکہ منڈی میں گندم 2,000 سے 2,300 روپے فی من فروخت ہورہا ہے۔ اس سے کسانوں یا آڑھتیوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ صرف سرمایہ داروں نے فائدہ اٹھایا ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 20 اکتوبر، صفحہ10)
کسانوں کی ایک نئی قائم ہونے والی تنظیم کسان اتحاد نے حکومت کو چھ مطالبات پیش کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر 15 دنوں میں مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو وہ اسلام آباد میں دھرنا دیں گے۔ ان مطالبات میں گنے کی امدادی قیمت 250 روپے فی من اور گندم کی امدادی قیمت 2,000 روپے فی من مقرر کرنے، زرعی ٹیوب ویلوں کے لیے بجلی کے نرخ چار روپے فی یونٹ مقرر کرنے، کیمیائی کھادوں پر زرتلافی کی فراہمی اور شوگر کین ایکٹ کے ترمیمی قوانین پر عملدرآمد کے مطالبات شامل ہیں۔
(ڈان، 20 اکتوبر، صفحہ2)
پنجاب حکومت نے لاہور ہائی کورٹ ماحولیاتی مسائل سے متعلق مقدمہ کے دوران بتایا ہے کہ اس حوالے سے اقدامات کیے جارہے ہیں جن میں فصلوں کی باقیات جلانے میں ملوث کسانوں کے خلاف مقدمات کا اندارج شامل ہے۔ اب تک فصلوں کا فضلہ جلانے والے کسانوں کے خلاف 47 مقدمات درج ہوچکے ہیں۔
(ڈان، 23 اکتوبر، صفحہ2)
وفاقی کمیٹی برائے زراعت (ایف سی اے) نے ربیع 2020-21 کے لیے 9.16 ملین ہیکٹر رقبے پر گندم کی 26.78 ملین ٹن پیداوار کا ہدف مقرر کردیا ہے۔ کمیٹی نے چنے کی پیداوار کا ہدف 0.56 ملین ٹن، آلو کا 4.87 ملین ٹن، پیاز کا 2.22 ملین ٹن اور ٹماٹر کی پیداوار کا ہدف 0.625 ملین ٹن مقرر کیا ہے۔ کمیٹی نے خریف کی پیداوار کا بھی جائزہ لیا اور اس حوالے سے بتایا گیا کہ سال 2020-21 میں گنے کی پیداوار 1.1 ملین ہیکٹر پر 75.64 ملین ٹن متوقع ہے۔
(ڈان، 23 اکتوبر، صفحہ9)
بیج
وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق نے اعلان کیا ہے کہ اس کے بیجوں کی تصدیق و اندارج (رجسٹریشن) کے وفاقی ادارے نے سال 2020 کے لیے 515,000 ٹن گندم کے بیج کی توثیق کی ہے۔ محکمہ نے پاسکو کے 200,000 ٹن بیج کی بھی جانچ کی ہے۔ وزارت کا کہنا ہے کہ بیج کی خریداری کا طریقہ کار بھی وضع کرلیا گیا ہے اور اس کے قوائد و ضوابط صوبوں کو فراہم کیے جائیں گے۔ یہ اعداد وشمار ویٹ ریویو کمیٹی کے اجلاس کے دوران پیش کیے گئے جس کی صدارت کرتے ہوئے وفاقی وزیر قومی غذائی تحفظ و تحقیق فخرامام کا کہنا تھا کہ ملکی گندم کے تحفظ کے لیے وزارت نے پہلی دفعہ گندم کے مصدقہ بیجوں کا تعین کیا ہے۔
(ڈان، 1 اکتوبر، صفحہ9)
جینیاتی بیج
سندھ آباد گار بورڈ (ایس اے بی) نے خبردار کیا ہے کہ سندھ میں کپاس کی پیداوار، جو حالیہ بھاری بارشوں اور غیر معیاری بیجوں کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوئی ہے، اگر حکومت اقدامات میں ناکام رہی تو یہ کمی جاری رہے گی۔ ایس اے بی کے چیئرمین احمد نواز شاہ نے کپاس کے نئے بیجوں کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں کپاس کی پیداوار 14.8 ملین گانٹھوں سے کم ہوکر 9.8 ملین گانٹھیں رہ گئی ہے جو اس سال مزید کم ہوگی۔ یہ سال کپاس کے کاشتکاروں کے لیے مزید تکالیف لے کر آیا ہے کیونکہ حکومت نے 50 فیصد پیداواری صلاحیت (جرمینیشن) رکھنے والے بیج کی فروخت کی اجازت دی تھی جبکہ جرمینیشن کا عالمی معیار 90 فیصد سے زیادہ ہے۔ سندھ میں 1.5 ملین ایکڑ پر کاشت کی گئی کپاس اگست میں بارشوں اور سیلاب سے شدید متاثر ہوئی ہے۔ ایس اے بی کے رہنماؤں نے نئے بیج متعارف کرنے کی تجویز دی ہے چاہے وہ درآمد شدہ ہوں یا مقامی لیبارٹریوں میں تحقیق کے بعد تیار کیے گئے ہوں۔ پاکستان کے لیے جینیاتی بیج پر غور کرنا چاہیے جیسے کہ بھارت میں اس کے نقصانات اور فوائد کی جانچ کے بعد اجازت دی گئی تھی۔
(ڈان، 5 اکتوبر، صفحہ15)
گندم
کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے روس سے حکومتی سطح پر 180,000 ٹن گندم درآمد کرنے اور درآمد پر عائد تمام ٹیکس اور ڈیوٹی ختم کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق نے پاکستان ایگری کلچر سروسس اینڈ اسٹوریج کارپوریشن (پاسکو) کو درآمد کنندہ مقرر کیا ہے۔ وزارت کو توقع ہے کہ گندم کی کھیپ اگلے مہینے پاکستان پہنچے گی۔ وزارت کے مطابق اس وقت ملک میں گندم کے ذخائر کی صورتحال کچھ یوں ہے، پنجاب میں 3,059,219 ٹن، سندھ میں 1,259,395 ٹن، خیبر پختونخوا میں 90,109 ٹن، بلوچستان میں 65,082 ٹن اور پاسکو کے پاس 701,259 ٹن گندم موجود ہے۔
(ڈان، 3 اکتوبر، صفحہ3)
وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ کی قیادت میں ہونے والے اجلاس میں سندھ کابینہ نے گندم کی قیمت اجراء 3,687.50 روپے فی (100 کلوگرام) بوری مقرر کرنے کی منظوری دے دی ہے جس سے آٹے کی مل قیمت 9.13 روپے فی کلو کم کی جاسکتی ہے۔ سیکریٹری محکمہ خوراک کی جانب سے کابینہ کو پیش کردہ معلومات کے مطابق صوبے کے چھ ڈویژنوں میں 1.262 ملین ٹن گندم کا ذخیرہ موجود ہے۔ سیکریٹری خوراک کا کہنا تھا کہ ”منڈی میں آٹے کی قیمت مستحکم ہے جو 57 روپے فی کلوگرام ریکارڈ کی گئی ہے“۔ وزیر خوراک سندھ ہری رام کی تجویز پر کابینہ نے آٹا ملوں کو 16 اکتوبر سے گندم جاری کرنے کی منظوری دے دی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 14 اکتوبر، صفحہ14)
کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس نے ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان (ٹی سی پی) کو 340,000 ٹن گندم درآمد کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ فیصلہ کیا گیا ہے کہ یہ درآمدی گندم پاسکو، پنجاب اور خیبر پختونخوا کو ترسیل پر دباؤ میں کمی کے لیے فراہم کی جائے گی۔ ایک سرکاری افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ٹی سی پی کل 1.47 ملین ٹن گندم درآمد کرے گی اور اب تک 110,000 ٹن گندم درآمد ہوچکا ہے۔ ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر قومی غذائی تحفظ و تحقیق فخر امام نے کہا ہے کہ ملک میں گندم کی پیداوار موسمی تبدیلی سے متاثر ہوئی ہے جس کے نتیجے میں پیداوار میں 0.8 تا ایک ملین ٹن کمی ہوئی ہے۔ وفاقی وزیر نے صوبوں کی جانب سے وفاق کو فراہم کیے گئے پیداوار کے اعداد وشمار میں تضاد کا بھی اعتراف کیا ہے کیونکہ حالیہ اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں ارکان نے محکمہ خوراک کی جانب سے ملک میں گندم کے ذخائر کے فراہم کردہ اعداد وشمار پر سنگین سوالات اٹھائے تھے۔
(بزنس ریکارڈر، 16 اکتوبر، صفحہ1)
کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے اگلی گندم کی فصل کے لیے کم سے کم امدادی قیمت 1,600 روپے فی من کو حتمی شکل دے دی ہے۔ گزشتہ ہفتے کابینہ نے وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کی تجویز کردہ 1,745 روپے فی من قیمت پر کچھ وزراء کے عدم اتفاق پر گندم کی قیمت کا جائزہ لینے کے لیے ایک ذیلی کمیٹی قائم کی تھی۔ اس ذیلی کمیٹی نے وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس کمیٹی کی سفارشات پر مبنی سمری حتمی فیصلے کے لیے اقتصادی رابطہ کمیٹی کو ارسال کرے۔
(ڈان، 22 اکتوبر، صفحہ9)
محکمہ خوراک پنجاب نے صوبے بھر میں مقررہ قیمت پر آٹے کی دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے آٹا ملوں کے لیے سرکاری گندم کا کوٹہ 17,500 ٹن سے بڑھا کر 20,000 ٹن یومیہ کردیا ہے۔ چیف سیکریٹری پنجاب جواد رفیق ملک کا کہنا ہے کہ منڈی میں غذائی اشیاء خصوصاً آٹا اور چینی کی کوئی قلت نہیں ہوگی اور جیسے ہی درآمدی چینی دستیاب ہوگی سہولت بازاروں اور منڈی میں اس کی ترسیل شروع ہوجائے گی۔
(ڈان، 25 اکتوبر، صفحہ2)
کپاس
ایک خبر کے مطابق ملک میں کپاس کی پیداوار غیر معیاری بیج اور جدید ٹیکنالوجی کے فقدان کی وجہ سے گزشتہ 21 سالوں کی کم ترین سطح پر آگئی ہے جو کاشتکاروں کے روزگار اور کپڑے کے صنعتی شعبہ کے لیے خطرہ ہے۔ تازہ اعداد و شمار کے مطابق ملک میں سال 2020-21 میں 8.5 ملین گانٹھیں کپاس کی پیداوار ہوگی۔ وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق نے غیر معیاری بیج، نئی بیج ٹیکنالوجی کا فقدان، گرمی کی لہر، موسمی تبدیلی، پتہ مروڑ بیماری، گلابی سنڈی اور سفید مکھی کو پیداوار میں کمی کی وجوہات قرار دیا ہے۔ پاکستان دنیا میں کپاس پیدا کرنے والے پانچ بڑے ممالک میں شامل ہے جہاں تقریباً 1.3 ملین کسان کپاس کاشت کرتے ہیں۔
(دی نیوز، 4 اکتوبر، صفحہ17)
چاول
وزیر اعظم کے مشیر برائے تجارت عبدالرزاق داؤد کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ پاکستان یورپی یونین میں باسمتی چاول پر بھارتی جغرافیائی نشاندہی حقوق (جیوگرافیکل آئی ڈینٹی فیکیشن) کے دعوے کے خلاف مقدمہ دائر کرے گا۔ اجلاس میں سیکریٹری تجارت، انٹی لیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن (آئی پی او) پاکستان کے چیئرمین اور رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان (ریپ) کے نمائندوں نے شرکت کی۔ بھارتی درخواست میں باسمتی چاول کو بھارت کی جغرافیائی اساس (اوریجن) قرار دیا گیا ہے باوجود اس حقیقت کے کہ یہ چاول پاکستان میں بھی بڑے پیمانے پر پیدا ہوتا ہے۔ یہ درخواست آدھے سچ اور غیرسنجیدہ بنیاد پر مبنی ہے جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ پاکستان کئی ممالک کو 500,000 سے 700,000 ٹن باسمتی چاول برآمد کرتا ہے جس میں سے 200,000 تا 250,000 ٹن یورپی ممالک برآمد ہوتا ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 6 اکتوبر، صفحہ12)
گنا
سندھ کے گنے کے کاشتکاروں نے صوبائی حکومت سے اس سال گنے کی امدادی قیمت 300 روپے فی من مقرر کرنے اور یکم نومبر سے گنے کی کرشنگ شروع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایوان زراعت سندھ (ایس سی اے) کے صدر میراں محمد شاہ نے سندھ حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ سندھ شوگر کین آرڈننس پر عمل کرے اور یہ یقینی بنائے کہ شوگر ملیں یکم نومبر سے کرشنگ شروع کریں۔ وقت پر کرشنگ ناصرف فائدہ مند ہوگی بلکہ گندم کی بروقت بوائی کو بھی یقینی بنائے گی۔
(دی نیوز، 4 اکتوبر، صفحہ17)
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت کے اجلاس میں وزیراعظم کے مشیر برائے تجارت عبدالرزاق داؤد نے کہا ہے کہ حکومت نے سال 2020-21 کے لیے گنے کی قیمت 200 روپے فی من مقرر کی ہے۔ حکومت پہلے ہی کرشنگ سے متعلق قانون منظور کرچکی ہے اور ملوں کو متعلقہ گنا کمشنر کی جانب سے نوٹس ملنے کے بعد کرشنگ شروع کرنی پڑے گی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ جو ملیں حکومتی پالیسی کے مطابق کرشنگ شروع نہیں کریں گی ان پر جرمانہ عائد ہوگا۔ اجلاس میں سندھ سے تعلق رکھنے والے شوگر مل مالک سینیٹر اسلام الدین شیخ کا کہنا تھا کہ سندھ میں گنے کی فصل تیار ہے اور حکومت نے گنے کی قیمت 192 روپے فی من مقرر کی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 17 اکتوبر، صفحہ1)
تل
ایک مضمون کے مطابق ضلع عمر کوٹ، سندھ کے علاقے چیل بند کے ایک کسان توریو کولہی کو امید ہے کہ وہ فی ایکڑ تل کی سات سے آٹھ من پیداوار حاصل کرلیں گے، لیکن یہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کیونکہ موسمی تبدیلی کے اثرات نے فصلوں کی کاشت کے چکر (سائیکل) کو متاثر کیا ہے۔ توریو کولہی کا کہنا ہے کہ تل کی کاشت کا موزوں وقت جون اور جولائی ہے لیکن عمرکوٹ میں زیادہ تر کسانوں نے اس سال اگست میں تل کی بوائی کی ہے کیونکہ بارشوں میں تاخیر نے خصوصاً صحرائی علاقوں میں روایتی کاشت کے وقت (کلینڈر) کو متاثر کیا ہے۔ کچھ کسان خوش نہیں ہیں کیونکہ تل کی بوائی میں تاخیر کا نتیجہ پیداوار میں کمی کی صورت (چار تا پانچ من فی ایکڑ) نکلے گا۔ کسان فی ایکڑ دو سے تین کلوگرام بیج استعمال کرتے ہیں جس سے اکثر آٹھ سے 10 من پیداوار حاصل ہوتی ہے جو ان کے لیے کافی ہوتی ہے۔ توریو کولہی کے مطابق کسان ہمیشہ اپنی ضرورت پوری کرنے اور کچھ منڈی میں فروخت کرنے کے لیے چھوٹے رقبہ پر تل کاشت کرتے ہیں۔ صحرائی کسان سمجھتے ہیں کہ یہ خشک سالی کے خلاف مزاحمت رکھنے والی کم دورانیے کی فصل ہے جو 100 سے 120 دنوں میں تیار ہوتی ہے۔ تھرپارکر، دادو، جامشورو، حیدرآباد، مٹیاری اور سندھ کے دیگر اضلاع میں یہ اہم روغنی فصل کاشت ہوتی ہے۔
(جان خاصخیلی، دی نیوز، 4 اکتوبر، صفحہ18)
چلغوزہ
اقوام متحدہ کا ادارہ خوراک و زراعت (فاؤ) نے گلگت بلتستان کے ضلع دیامر اور بلوچستان کے ضلع ژوب میں چلغوزے کی صفائی، درجہ بندی، بھنائی، پیکنگ اور اس کی لیبلنگ کے لیے مراکز (پراسیسنگ یونٹ) قائم کیے ہیں۔ فاؤ نے امید کا اظہار کیا ہے کہ اس سے مقامی آبادیاں زیادہ قیمت پر چلغوزہ فروخت کرسکیں گی۔ اس کے علاوہ بھنے ہوئے چلغوزے کی معیاد (شیلف لائف) بھی چھہ ماہ تک بڑھ جائے گی۔
(ڈان، 5 اکتوبر، صفحہ5)
چینی
وزیر اعلی پنجاب کی قیادت میں صوبائی کابینہ نے شوگر فیکٹریز کنٹرول ایکٹ 1950 میں ترمیم کا فیصلہ کیا ہے تاکہ حکومت کو یہ اختیار حاصل ہو کہ وہ مختلف علاقوں (زونز) کے حساب سے گنے کی کرشنگ کے آغاز کی تاریخ طے کرے۔ کابینہ نے تین رکنی وزراء کمیٹی تشکیل دی ہے جو تین دنوں میں صوبے میں گنے کی قیمت مقرر کرنے کے لیے تجاویز پیش کرے گی۔ اجلاس میں ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان (ٹی سی پی) کے ذریعے 300,000 ٹن چینی درآمد کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ کابینہ نے محکمہ خوراک پنجاب کو کہا ہے کہ وہ ٹی سی پی سے درآمدی چینی کی خریداری کے لیے معاہدہ کرے۔
(ڈان، 7 اکتوبر، صفحہ2)
پنجاب کے گنا کمشنر کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں گنے کے کاشتکاروں کو کہا گیا ہے کہ نئے قانون کے مطابق وہ گنے کی قیمت وصول کرنے کے لیے جن ملوں کو اپنا گنا فروخت کرتے ہیں ان کے قریبی علاقوں میں بینک کھاتہ کھولیں۔ دو ہفتے پہلے شوگرکین فیکٹریز کنٹرول ایکٹ 1950 میں ترمیم کے لیے ایک آرڈننس نافذ کیا گیا ہے جس کے تحت مل پابند ہیں کہ وہ کاشتکاروں کو نقد رقم کے بجائے بینکوں کے ذریعے ادائیگی کریں تاکہ کسانوں کو بروقت پوری رقم کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے۔ ترمیمی قانون کے تحت ادائیگی میں 14 دن سے زیادہ کی تاخیر کو قابل سزا جرم قرار دیا گیا ہے۔
(ڈان، 9 اکتوبر، صفحہ2)
مسابقتی کمیشن پاکستان (سی سی پی) نے چینی کے شعبہ پر اپنی رپورٹ کو حتمی شکل دے دی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن (پی ایس ایم اے) نے ناصرف کم لیاقت رکھنے والی (ان ایفشنٹ) شوگر ملوں کو تحفظ دینے بلکہ چینی کی قیمت بڑھا کر رکھنے کے لیے اپنے ارکان کے ساتھ گٹھ جوڑ کیا ہے۔ پی ایس ایم اے 43 روپے فی کلوگرام پیداواری لاگت رکھنے والی ملوں اور ان ملوں کے درمیان جن کی پیداواری لاگت 78 روپے فی کلوگرام ہے، غیرقانونی طور پر توازن برقرار رکھے ہوئے ہے۔ برقرار رکھے گئے اس رجحان سے دونوں طرح کے مل فائدہ اٹھارہے ہیں جو حکومتی مراعات و زرتلافی اور چینی کی زائد قیمت کی بنیاد پر اپنے کاروبار کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
(ڈان، 23 اکتوبر، صفحہ1)
ٹی سی پی کی جانب سے درآمد کردہ 25,250 ٹن چینی کی پہلی کھیپ پہنچنے کے ساتھ ہی مقامی اور درآمدی چینی کی تھوک قیمت پانچ روپے فی کلو اضافے کے بعد بلترتیب 95 اور 98 روپے فی کلو ہوگئی ہے۔ کراچی ہول سیلرز گروسرز ایسوسی ایشن کے سربراہ انیس مجید کا کہنا ہے کہ ربیع الاول میں چینی کی طلب میں اضافے کے ساتھ ساتھ مقامی چینی کے ذخائر بھی کم ہورہے ہیں جبکہ ملوں کی جانب سے 15 نومبر سے گنے کی کرشنگ شروع کیے جانے کا امکان ہے۔ تاہم سیریل ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر مزمل چیپل کا کہنا ہے کہ درآمدی چینی کی قیمت نہیں بڑھی ہے اور درآمد کنندگان نے تاجروں کو چینی 88 تا 89 روپے فی کلو فروخت کی تھی۔
(ڈان، 29 اکتوبر، صفحہ9)
بے نامی زون II، لاہور نے پارلیمانی تحقیق میں بڑے پیمانے پر بے نامی ترسیلات کا انکشاف ہونے کے بعد ان (ٹرانزیکشنز) کی تصدیق کے لیے پانچ شوگر ملوں کے معاملات کی چھان بین کا آغاز کردیا ہے۔ الائنس شوگر ملز اور ہنزہ شوگر ملز کو بے نامی ترسیلات زر (ممنوعہ) ایکٹ 2017 کے سیکشن 22 کے تحت اظہار وجوہ کے نوٹس کے اجراء کے بعد ان ملوں کے خلاف تفصیلی تفتیش کا آغاز کیا گیا ہے۔ ”بے نامی“ بنیادی طور پر ان ترسیلات زر کی تعریف کے لیے استعمال ہوتا ہے جن میں حقیقی فائدہ اٹھانے والا شخص وہ نہیں ہوتا جس کے نام پر جائیداد و اثاثے خریدے جاتے ہیں۔ الائنس اور ہنزہ شوگر ملوں کے ٹیکس ریٹرن گوشوارے ظاہر کرتے ہیں کہ 2017 سے 2019 کے دوران بلترتیب 19.1 بلین روپے اور 5.1 بلین روپے مالیت کی چینی ملوں نے غیر رجسٹرڈ افراد کو فروخت کی تھی۔ ان غیر رجسٹرڈ افراد میں سے کچھ کو زون (تفتیشی ادارے) نے طلب کیا جنہوں نے اپنے تحریری بیان میں کسی قسم کی بے نامی ترسیلات سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔
(ڈان، 29 اکتوبر، صفحہ8)
پھل سبزی
سبزیوں کی درآمد منڈی میں ٹماٹر اور پیاز کی قیمت میں کمی لانے میں ناکام رہی ہے اور پیاز کی قیمت 80 روپے اور ٹماٹر کی قیمت 200 روپے فی کلو گرام کی نئی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ صارفین پہلے ہی درآمدی ادارک کی 600 روپے فی کلو گرام قیمت ادا کررہے ہیں۔ خوردہ فروشوں کا کہنا ہے کہ ایران سے پیاز و ٹماٹر اور افغانستان سے پیاز کی درآمد گزشتہ ایک ہفتے سے بند ہونے کی وجہ سے قیمت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
(ڈان، 6 اکتوبر، صفحہ9)
افغانستان سے آنے والے پیاز کے 270 ٹرک طورخم سرحد پر پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت کے منتظر ہیں جن پر تقریباً 9,520 ٹن پیاز لدی ہے۔ منڈی میں پیاز کی قلت کی وجہ سے کچھ شہروں میں اس کی قیمت 50 روپے فی کلو سے 100 روپے فی کلو ہوگئی ہے۔ کسٹم کے ایک اہلکار کا کہنا تھا کہ زیادہ تر ٹرکوں پر پیاز لدی ہے جبکہ کچھ ٹرک ٹماٹر کے بھی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ”وہ ٹرکوں کی لمبی قطار کی وجہ نہیں جانتے۔ یہاں پیاز سے لدے ایسے ٹرک بھی ہیں جو واہگہ سرحد کے ذریعے بھارت جائیں گے“۔ وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کے ترجمان نے دعوی کیا ہے کہ شدید موسم کی وجہ سے 25 سے 30 فیصد (پیاز اور ٹماٹر کی) پیداوار متاثر ہوئی ہے۔ پاکستان میں 65,000 سے 70,000 ٹن ماہانہ ٹماٹر کی کھپت ہے اور ملک میں سالانہ 1.2 ملین ٹن ٹماٹر کی پیداوار ہوتی ہے۔ مقامی پیداوار اگلے 30 دنوں میں (پیداوار و کھپت کے) اس فرق کو ختم کردے گی۔
(ڈان، 11 اکتوبر، صفحہ9)
ایک خبر کے مطابق حکومت نے مقامی منڈی میں طلب و رسد کے فرق پر قابو پانے کے لیے متعلقہ حکام کو ہدایت کی ہے کہ افغانستان پاکستان کے درمیان طورخم سرحد سے پیاز، ٹماٹر اور آلو کی درآمد کے مرحلے کو تیز کیا جائے۔ سرکاری دستاویز ظاہر کرتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے درآمدی ڈیوٹی اور محصولات کے خاتمے سے لازمی غذائی اشیاء کی قیمت مزید 15 سے 20 فیصد کم ہوگی۔ حکومت آلو اور پیاز کی درآمد پر 17 فیصد سیلز ٹیکس، دو فیصد انکم ٹیکس اور ٹماٹر کی درآمد پر دو فیصد انکم ٹیکس وصول کرتی ہے۔
(ڈان، 15 اکتوبر، صفحہ9)
ایک مضمون کے مطابق گزشتہ کئی ہفتوں سے خوردہ منڈی میں سبزیوں کی قیمت میں اضافہ دیکھا جارہا ہے جس کی وجہ کھیتوں سے ترسیل میں کمی ہے۔ منڈی کے موجودہ خدوخال (و نظام) کی وجہ سے قیمتیں بڑھنے کے باوجود کاشتکاروں کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہورہا۔ حالیہ بھاری بارشوں کی وجہ سے سیلاب نے زیریں سندھ میں بڑے پیمانے پر پیاز، ٹماٹر، مرچ، بھنڈی اور سبزی کی دیگر فصلوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ٹماٹر اکتوبر نومبر کے درمیان حیدرآباد، ٹنڈہ الہ یار، سانگھڑ، ٹنڈو محمد خان، مٹیاری، ٹھٹھہ اضلاع میں کاشت ہوتا ہے جبکہ جولائی تا اگست یہ بدین، میرپورخاص اور عمر کوٹ اضلاع میں کاشت ہوتا ہے۔ زیریں سندھ کے ایک کاشتکار اسلم مری کے مطابق ٹماٹر کی کاشت پر 60,000 تا 70,000 روپے فی ایکڑ خرچ آتا ہے جس میں ہائبرڈ بیج کی لاگت بھی شامل ہوتی ہے جو 15,000 سے 20,000 روپے فی ایکڑ ہے۔ سندھ کی بارشوں سے بچ جانے والی پیاز کی مقامی اقسام نصرپوری اور پھلکارا اس کی کاشت کے روایتی علاقوں ٹنڈو الہ یار، سانگھڑ، مٹیاری، حیدرآباد، ٹنڈو محمدخان میں فروخت ہوگی۔ اسی طرح بھنڈی کے ایک کاشتکار عمران بوزدار کا کہنا ہے کہ اگر منڈی میں سبزیوں کی قیمت زیادہ ہو اور آڑھتی اسے زیادہ قیمت پر نیلام کرتے ہوں تو بھی انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ بھنڈی کی فی ایکڑ پیداواری لاگت 70,000 سے 80,000 روپے ہے۔ عام طور پر ایک ایکڑ سے 100 سے 125 من پیداوار ہوتی ہے یعنی 16 روپے فی کلو لاگت آتی ہے۔ حال ہی میں بھنڈی منڈی میں 45 روپے فی کلو نیلام ہوئی ہے اور 90 سے 100 روپے فی کلو فروخت ہورہی ہے۔
(محمد حسین خان، ڈان، 19 اکتوبر، صفحہ2، بزنس اینڈ فنانس)
ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان (ٹی ڈی اے پی)، گلگت بلتستان نے نامیاتی پھلوں کی پیداوار کے مواقع، ان پھلوں کی خنجراب پاس کے ذریعے چین کو برآمد اور برآمد کنندگان کے مسائل پر ایک ویبنار کا اہتمام کیا۔ ٹی ڈی اے پی محکمہ زراعت گلگت بلتستان کے پروجیکٹ کوآرڈینیٹر جاوید اختر نے گلگت بلتستان میں نامیاتی پھلوں کی پیداوار کے وسیع مواقعوں کی تفصیلات بیان کیں اور برآمد کنندگان و کسانوں کو تصدیقی سند (سرٹیفیکیشن) کی وجہ سے درپیش مسائل اجاگر کیے۔ انہوں نے کہا کہ چین ایک ابھرتی ہوئی معیشت ہے، نامیاتی پھلوں کی پیداوار میں اضافے کے ذریعے چین کو کی جانے والی برآمدات کو کئی گنا بڑھایا جاسکتا ہے۔
بزنس ریکارڈر، 29 اکتوبر، صفحہ2)
کارپوریٹ
ایک خبر کے مطابق پاکستان میں زرعی شعبہ فصلوں کے تحفظ کے لیے مصنوعات کو متعارف کرکے پیداوار اور کسانوں کی آمدنی میں اضافے کے لیے کورٹیوا ایگری سائنس پاکستان لمیٹڈ کے ذریعے عالمی خدمات سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار ہے۔ ڈوپونٹ کمپنی سے کامیاب علیحدگی کے بعد کورٹیوا ایگری سائنس نے ستمبر 2020 سے اپنا موجودہ نام ”پائینیئرپاکستان سیڈ لمیٹیڈ“ تبدیل کرکے کورٹیوا ایگری سائنس پاکستان لمیٹیڈ رکھ لیا ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 14 اکتوبر، صفحہ13)
ماہی گیری
ڈائریکٹر جنرل فشریز سندھ اللہ داد تالپور نے کہا ہے کہ حاملہ، دودھ پلانے والی ماؤں اور چھ سال تک کی عمر کے بچوں میں غذائی کمی کے مسائل پر قابو پانے کے لیے حکومت سندھ نے چیئرمین پلاننگ بورڈ کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی ہے۔ کمیٹی نے مچھلی کی پیداوار میں اضافہ کرکے غذائی کمی کو کم کرنے اور قدرتی آبی ذخائر کی بہتری کے لیے کام شروع کیا ہے۔ اس فیصلے کی روشنی میں بدین، سجاول، جامشورو، سانگھڑ، میرپورخاص اور عمر کوٹ اضلاع کے مختلف دیہات میں 193 مچھلیوں کے تالاب بنائے گئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان تالابوں کی تعمیر کا مقصد معیار زندگی بہتر بنانا اور حاملہ و دودھ پلانے والی ماؤں میں غذائی کمی کے مسائل پر قابو پانا ہے۔ ایک تالاب سے 10گھرانوں کو فائدہ پہنچا ہے۔ ایک گھر سات افراد پر مشتمل ہے، اور یوں 13,510 افراد براہ راست اس سے فائدہ اٹھارہے ہیں۔
(بزنس ریکارڈر، 24 اکتوبر، صفحہ11)
غربت
وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار نے 30 بلین روپے لاگت کے روزگار منصوبے کا افتتاح کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس منصوبے سے 1.6 ملین ضرورت مند افراد کو روزگار حاصل ہوگا۔ اس منصوبے کے تحت پنجاب اسمال انڈسٹریز کارپوریشن اور بینک آف پنجاب کے اشتراک سے 100,000 سے 10 ملین روپے تک کا قرض معمولی شرح سود پر فراہم کیا جائے گا۔
(ڈان، 2 اکتوبر، صفحہ2)
پاکستان میں پانچ سال کی عمر تک کے ہر 10 میں سے کم از کم چار بچے غذائی کمی کا شکار (اسٹنٹڈ) ہیں۔ جبکہ دو سے پانچ سال کی درمیانی عمر کے 13 فیصد بچے فعال معذوری (فنکشنل ڈس ایبیلٹی) کا شکار ہیں۔ اس کے علاوہ ماں بننے کی عمر کی 14 فیصد عورتیں غذائی کمی کی شکار ہیں۔ نیشنل نیوٹریشن سروے 2018 کے یہ اعداد وشمار وفاقی وزارت نیشنل ہیلتھ سروسس کے ڈائریکٹر نیوٹریشن پروگرام بسیر اچکزئی نے مقامی ہوٹل میں جاری کیے ہیں۔
(ڈان، 21 اکتوبر، صفحہ4)
نکتہ نظر
ناصرف زمینی حقائق بلکہ خود حکومتی اعداد وشمار اور خبریں بھی ملک میں عوام خصوصاً چھوٹے اور بے زمین کسان مزدور، ماہی گیر آبادیوں کے وسائل، ان کے روزگار اور ان کے حقوق پر قانونی و غیرقانونی طریقوں سے تسلط، جبر کی گواہی دے رہی ہیں۔ ملیر کی قدیم دیہی آبادیاں ہوں یا جزائر کے گرد ماہی گیری کرنے والے، یا زراعت پر سرمایہ دار کمپنیوں کے شکار غریب چھوٹے کسان، غرض ہر غریب طبقہ اس سامراجی طرز معیشت میں درآمد و برآمد، کھاد، بیج، چینی، زمینوں پر قبضہ کرنے والے سرمایہ دار اورجاگیردار مافیا کے رحم و کرم پر ہے۔ کبھی صرف ایک آرڈننس کے ذریعے صدیوں سے ماہی گیری کرنے والوں کے حقوق اور روزگار پر حملہ کیا جاتا ہے اور کہیں صرف ایک نام نہاد ”منصفانہ فیصلے“ سے ملیر کی دیہی آبادیوں کو اشرافیہ کی پرتعیش ”محفوظ رہائش“ کے لیے بیدخل کردیا جاتا ہے۔ ظلم و استحصال پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام پیداوار میں غیرملکی سرمایہ کاری کسی طور مقامی کسان مزدور ماہی گیر آبادیوں کو غربت سے نکال کر خوشحال نہیں بناسکتی کیونکہ سرمایہ کاری کا مقصد ہی منافع کے حصول کے لیے ان آبادیوں کے قدرتی وسائل پر قبضہ کرکے ان کا استحصال ہے جس میں ریاستی مشینری غیرملکی سرمایہ داروں اور ان کی کمپنیوں کے ایجنٹ کا کردار ادا کرتی نظر آتی ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کے وضح کردہ طریقہ پیداوار نے آبادیوں کے استحصال اور ماحولیاتی تباہی کی بنیاد پر سرمائے کا ارتکاز کیا اور اسے پاکستان جیسے ممالک میں نیولبرل پالیسیوں کے تحت استحصال اور مزید منافع کے لیے استعمال کیا ہے۔ بین الاقوامی زرعی کیمیائی کمپنیوں کے زہریلے بیج اور دیگر مداخل نے ملک میں کپاس کی پیداوار کو تباہی سے دوچار کیا اور اب اہم غذائی فصلیں بھی ہائبرڈ اور کمپنیوں کے تیارکردہ دیگر بیجوں کی بدولت موسمی شدت کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں جس کا نتیجہ ٹماٹر، تل، پیاز اور دیگر سبزی کی فصلوں کی تباہی کی صورت سامنے آرہا ہے۔ اس صورتحال میں ایک طرف چھوٹے کسان کمپنیوں کے مداخل پر بھاری رقم خرچ کرکے بھی آمدنی سے محروم ہیں دوسری طرف عوام پیداوار میں کمی کے نتیجے میں ان غذائی اشیاء کی بڑھتی ہوئی قیمت سے شدید متاثر ہورہے ہیں۔ پاکستان میں جہاں بچوں کی تقریباً آدھی تعداد پہلے ہی بھوک کی بدولت غذائی کمی کا شکار ہے وہاں خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور موجودہ وبائی حالات اس صورتحال کو مزید بدتر بناسکتے ہیں۔ تمام تر قدرتی وسائل بشمول زمین، بیج پانی جیسے زرعی پیداواری وسائل پر مقامی آبادیوں کا حق اور اختیار ہی ان آبادیوں کے خوراک کے تحفظ، خودمختاری اور خودانحصاری کی ضمانت دے سکتا ہے۔ استحصال کے شکار تمام چھوٹے اور بے زمین کسان، مزدور، ماہی گیر آبادیوں کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے حق اور اختیار کے لیے استحصالی قوتوں کے خلاف ہر طرح کی تفریق سے بالاتر ہوکر متحد ہوجائیں اور اس سے اپنا حق چھین لیں۔