مارچ 5 تا 11 مارچ، 2020
زمین
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے گذشتہ پانچ سالوں کے دوران غیر ملکیوں کے ذریعے خریدی گئی تمام زمین کا ریکارڈ حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد کی جانب سے پیش کیے گئے آئین کے آرٹیکل 253 اے کے ترمیمی بل 2018 پر تبادلہ خیال کے بعد کیا گیا۔ ترمیمی بل کے حوالے سے سینیٹر کا کہنا تھا کہ یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ اس بل کے تحت کوئی غیرملکی ملک میں غیرمنقولہ جائیدار رکھنے اور خریدنے کا اہل نہیں ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ غیر ملکی سرمایہ کاری کو خوش آمدید کہنا چاہیے لیکن قومی مفاد پر سمجھوتا نہیں ہونا چاہیے۔ کسی بھی غیرملکی کو 20 سال سے زیادہ عرصے کے لیے زمین لیز پر نہیں دینی چاہیے کیونکہ پاکستان میں دو دہائیوں بعد ریکارڈ کا حصول تقریباً ناممکن بن گیا ہے۔ 20 سال بعد یہ دیکھا جائے کہ آیا زمین کی لیز بڑھنی چاہیے یا نہیں۔
(ڈان، 10 مارچ، صفحہ4)
پانی
محکمہ آبپاشی سندھ اور سندھ ایریگیشن اینڈ ڈرینج اتھارٹی کے اہلکاروں نے سیو بدین ایکشن کمیٹی کے سربراہ میر نور احمد تالپور کی زمین کو سیراب کرنے والے واٹرکورس بند کردیے ہیں۔ میرنور احمد تالپور نے پھلیلی نہر میں تین مقامات پر رکاوٹیں کھڑی کرنے اور بااثر افراد کو پانی فراہم کرنے پر آواز اٹھائی تھی۔ ان کا کہا ہے کہ اگر انتقامی کارروائیاں بند نہ کی گئیں اور نہروں میں پانی جاری نہیں کیا گیا تو وہ ضلع کے تمام چھوٹے بڑے قصبوں میں 20 مارچ سے ہڑتال کریں گے۔ چیئرمین ایریا واٹر بورڈ قبول محمد کاتھیان نے ان دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ غیرقانونی واٹرکورسوں کے خلاف کارروائی کا آغاز عدالتی احکامات پر کیا گیا ہے۔
(ڈان، 7 مارچ، صفحہ17)
زراعت
چین نے ٹڈی دل کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے مختلف صوبوں میں اپنی خدمات فراہم کرنے کے لیے رضامندی کا اظہار کیا ہے۔ چین پاکستان کو پانچ ملین ڈالر کی تکنیکی معاونت کے ساتھ ساتھ 50 عدد ڈرونز اور 300,000 لیٹر کیڑے مار مواد بھی فراہم کرے گا جو صوبہ سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے متاثر علاقوں میں استعمال کیا جائے گا۔ سیکریٹری وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق ہاشم پوپلزئی کا کہنا ہے کہ چینی حکومت نے فوری طور پر ڈرونز بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے جن کی پہلی کھیپ نو مارچ کو پاکستان پہنچے گی۔ چین سے تکنیکی ماہرین کی ٹیم بھی بھیجی جائیگی جو محکمہ تحفظ نباتات اور متعلقہ صوبائی محکموں کو تربیت بھی دے گی۔
(ڈان، 5 مارچ، صفحہ5)
گندم
وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق نے گندم کی امدادی قیمت 1,365 روپے سے بڑھا کر 1,400 روپے فی من کرنے کے لیے کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی سے دوبارہ رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزارت کو خدشہ ہے کہ اعلان کردہ قیمت (1,365 روپے فی من) پر 8.25 ملین ٹن گندم کی خریداری کا ہدف حاصل نہیں ہوگا۔ سیکریٹری وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق ڈاکٹر ہاشم پوپلزئی نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتایا ہے کہ اس سلسلے میں بین الصوبائی اجلاس میں اقتصادی رابطہ کمیٹی کو بھیجی جانے والی سمری کو حتمی شکل دی جائے گی جس میں گندم کی امدادی قیمت 1,400 روپے فی من کرنے کی سفارش کی جائے گی۔
(بزنس ریکارڈر، 5 مارچ، صفحہ3)
قومی احتساب بیورو، بلوچستان نے لاکھوں روپے مالیت کی گندم کی چوری کے الزام میں محکمہ خوراک کے اعلیٰ افسر کے خلاف احتساب عدالت میں مقدمہ دائر کیا ہے۔ مقدمہ ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولر بشیر ابڑو کے خلاف اختیارت کے غلط استعمال اور مبینہ طور پر بدعنوانی میں ملوث ہونے پر قائم کیا گیا ہے۔ قومی احتساب بیورو کے مطابق بشیر ابڑو تحقیقات کے دوران یہ وضاحت دینے میں ناکام رہے کہ محکمہ کی 7,000 گندم کی بوریاں کہاں غائب ہوئی ہیں اور 3,000 بوریاں کس طرح ضائع ہوئی ہیں۔
(ڈان، 6 مارچ، صفحہ5)
آٹا مل مالکان نے ان اطلاعات پر اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ آئندہ موسم میں انہیں گندم کی خریداری سے روک دیا جائے گا۔ مل مالکان کا کہنا ہے کہ اس حکومتی اقدام سے ناصرف کسانوں کو نقصان ہوگا بلکہ اس سے صوبے پر مالی بوجھ بھی پڑے گا۔ آٹا مل مالکان کی جانب سے وزیر اعلیٰ، وزیر خوراک پنجاب و دیگر ذمہ داران کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ حکومت کو 4.5 ملین ٹن گندم کی خریداری کے لیے 154 بلین روپے مختص کرنے پڑیں گے اور خریدی گئی گندم کو ذخیرہ کرنے کے لیے چھ ماہ تک یومیہ اوسطاً 100 ملین روپے اخراجات ہونگے۔ آٹا مل مالکان حکومت کے اس مالی بوجھ کو بانٹ سکتے ہیں اگر حکومت انہیں منڈی میں متحرک کردار ادا کرنے کی اجازت دے۔
(ڈان، 7 مارچ، صفحہ2)
اقوام متحدہ کا عالمی ادارہ خوراک و زراعت (فاؤ) کے مطابق اس سال مناسب موسمی صورتحال اور زرعی مداخل کی مناسب دستیابی کی وجہ سے پاکستان میں 25.2 ملین ٹن گندم کی پیداوار متوقع ہے۔ تاہم پنجاب اور سندھ میں حالیہ ٹڈی دل حملے سے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ حکومت نے اس سال گندم کا پیداواری ہدف 27.03 ملین ٹن مقرر کیا ہے۔ جبکہ گزشتہ سال شدید موسمی صورتحال کی وجہ سے 1.5 ملین ٹن گندم ضائع ہوگئی تھی۔
(ڈان، 7 مارچ، صفحہ10)
ٰوفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے ملک میں گندم کے بحران پر وزیراعظم عمران خان رپورٹ پیش کردی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک میں گندم کی کوئی کمی نہیں تھی۔ یہ بحران مصنوعی طور پر پیدا کیا گیا۔ رپورٹ میں بد انتظامی آٹے کے بحران کی وجہ بتائی گئی ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اب بھی ملک میں 2.1 ملین ٹن گندم موجود ہے۔
(دی نیوز، 8 مارچ، صفحہ1)
وفاقی حکومت نے چاروں صوبوں کے تعاون سے خریداری مہم میں 8.25 ملین ٹن گندم خریدنے کے لیے تمام انتظامات مکمل کرلیے ہیں۔ وزارت قومی غذائی تحفظ وتحقیق کے ترجمان کے مطابق گندم کی خریداری مہم سندھ میں 15 مارچ سے جبکہ پنجاب میں اگلے مہینے شروع ہوگی۔ سندھ 1.4 ملین ٹن گندم خریدے گا۔ گندم کی سرکاری خریداری کے لیے صوبے میں 57 مراکز قائم کیے گئے ہیں اور باردانے کی تقسیم کا آغاز 15 مارچ سے ہوگا۔ اس کے علاوہ پاسکو تمام صوبوں سے 1.8 ملین ٹن گندم خریدے گا۔ اس سال صوبہ پنجاب 4.5 ملین ٹن، خیبرپختونخوا 0.45 ملین ٹن اور بلوچستان 0.1 ملین ٹن گندم خریدے گا۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 9 مارچ، صفحہ3)
ویٹ ریویو کمیٹی نے گندم کی امدادی قیمت 1,400 روپے فی من مقرر کرنے کے لیے کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی میں سفارش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ گندم کی امدادی قیمت 1,365 روپے فی من مقرر کی گئی تھی۔ تاہم حالیہ گندم کے بحران میں یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ کسان کیوں اپنی پیداوار کم قیمت پر صوبائی حکومتوں اور سرکاری اداروں کو فروخت کریں گے جبکہ منڈی میں اس کی قیمت زیادہ ہے۔
(ڈان، 10 مارچ، صفحہ3)
کپاس
سندھ چیمبر آف ایگری کلچر (ایس سی اے) نے معیاری بیج کی عدم دستیابی کی وجہ سے کپاس کی پیداوار میں شدید کمی کے تناظر میں ہنگامی حالت (کاٹن ایمرجنسی) نافذ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ صدر میران محمد شاہ کی زیرصدارت ہونے والے اجلاس میں بات سامنے آئی کہ گزشتہ سال کپاس کی پیداوار غیر تسلی بخش تھی اور کپاس کی پیداوار میں کمی کا رجحان دیکھا گیا ہے۔ اگر کپاس کے کاشتکاروں کو معیاری بیج دستیاب نہ ہوئے تو حکومت کو چار بلین ڈالر کی کپاس درآمد کرنا پڑے گی۔ ایس سی اے نے کپاس کی فصل پر تحقیق کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
(ڈان، 9 مارچ، صفحہ15)
چاول
چیئرمین رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان (ریپ) نے کہا ہے کہ ملک سے باسمتی چاول کی برآمد میں اضافے کے لیے ریپ سعودی عرب اورآسٹریلیا کا دورہ کررہی ہے۔ آسٹریلیا پاکستانی باسمتی چاول کے لیے ایک بڑی منڈی ثابت ہوسکتا ہے۔ اس وقت پاکستان آسٹریلیا کو سالانہ 15,000 ٹن چاول برآمد کررہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آسٹریلیوی صنعت میں سینیٹری اور سائٹو سینیٹری معیار بہت اچھے ہیں۔ اس لیے ریپ نے اپنے معیارات کو بڑھانے کے لیے کچھ آسٹریلوی فیکٹریوں کا دورہ کرکے ان سے سیکھنے کی منصوبہ بندی کی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 8مارچ، صفحہ3)
چینی
حکومت نے یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کے لیے چینی کی خریداری کے لیے ٹینڈر کے اجراء کا طریقہ کار ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس حوالے سے ایک سمری وفاقی کابینہ کو منظوری کے لیے بھیج دی گی ہے۔ چیئرمین یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن ذوالقرنین خان کا کہنا ہے کہ خریدی جانے والی چینی کی کل مقدار میں سے 20,000 ٹن چینی جہانگیر ترین سے خریدی جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ”جہانگر ترین نے وزیراعظم کو آگاہ کیا تھا کہ شوگر مل مالکان عوام کے لیے 1.5 بلین روپے کا نقصان برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں“۔ جہانگیر ترین 67 روپے فی کلو جبکہ دیگر مل مالکان 70 روپے فی کلو چینی فراہم کریں گے۔ ”منڈی میں چینی کی قیمت 81 روپے فی کلو ہے تاہم ہم یہ چینی 67 روپے فی کلو حاصل کرینگے“۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 11 مارچ، صفحہ3)
ماہی گیری
وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ صوبائی حکومت نے کراچی فش ہاربر کی ترقی و بحالی کے لیے 1.61 بلین روپے کے منصوبوں کا آغاز کیا ہے۔ اس کے علاوہ 100 ملین روپے غریب ماہی گیروں کو کشتیاں اور جال فراہم کرنے کے لیے خرچ کیے جائیں گے۔ اس منصوبے سے ماہی گیروں کو کام کے لیے بہتر ماحول دستیاب ہوگا اور غریب ماہی گیروں کو اپنی کشتی اور جال میسر ہوں گے۔
(ڈان، 8 مارچ، صفحہ15)
نکتہ نظر
گزشتہ کئی ہفتوں کی طرح اس ہفتے بھی زیادہ تر خبریں گندم سے متعلق ہیں۔ حکومت گندم کی امدادی قیمت میں اضافے پر غور کررہی ہے جبکہ دوسری طرف مل مالکان اور گندم کی تجارت سے وابستہ افراد اس خدشے کا شکار ہیں کہ انہیں گندم کی خریداری سے محروم نہ کردیا جائے۔ زرعی پیداوار و مداخل پر کمپنیوں کی اجارہ داری کے بعد جیسے جیسے نیولبرل پالیسیاں جڑ پکڑ رہی ہیں ویسے ہی زرعی پیداوار کی ترسیل و فروخت کے نظام میں بھی سرمایہ داروں اور کمپنیوں کا کردار بڑھتا جارہا ہے۔ ملک میں گندم اور دیگر غذائی اشیا پر کمزور ہوتی سرکاری گرفت سے اس کی خوب نشاندہی ہوتی ہے۔ عالمی اداروں سے قرض کے بدلے مقامی منڈیوں میں اصلاحات کرنے کا عمل کروڑوں پاکستانیوں کی جیب سے گندم و آٹے کا بحران پیدا کرکے اربوں روپے منافع کمانے کے لیے استعمال ہوا۔ حکومت ان ہی سرمایہ داروں سے عوام کو مدد دینے کے لیے تعاون کی توقع کرتی ہے جو مضحکہ خیز ہے۔ سرمایہ داری نظام میں پالیسی ساز ہمیشہ مسئلہ کا حل تو پیش کرتے ہیں لیکن وہ سراسر مزید منافع کے حصول کے لیے ہوتا ہے نہ کہ عوامی بھلائی کے لیے، اب یہی منافع خور چینی مل مالکان حکومت کو لاکھوں ٹن چینی بغیر کسی مسابقت کے فروخت کرکے منڈی میں طلب و رسد میں توازن پیدا کررہے ہیں تاکہ چینی کی موجودہ بلند ترین قیمت کو برقرار رکھا جاسکے۔ سندھ حکومت 100 ملین روپے کی قلیل رقم سے جال اور کشتیاں دے کر لاکھوں ماہی گیروں کو خوشحال کرنے کی منصوبہ بندی کررہی ہے، لیکن کمپنیوں کے غیرملکی مچھلی پکڑنے والے جہازوں کو ممنوعہ جالوں سے مچھلی پکڑنے کی کھلی چھوٹ حاصل ہے جبکہ ماہی گیروں کے روزگار پر ان غیرملکی کشتیوں نے ڈاکہ ڈال رکھا ہے جو زیادہ سے زیادہ مچھلی پکڑ کر برآمد کرتے ہیں اور مقامی ماہی گیر بھوک سے دوچار ہیں۔ ملک کی کسان مزدور آبادیاں جب تک کھیت سے منڈی تک ہر مرحلے اور اس سے متعلق پالیسی سازی اپنے اختیار میں نہیں لیتیں بھوک غربت سے نہیں نکل سکتیں۔ یقینا اس کے لیے کسان مزدور آبادیوں کو متحد ہوکر اس سرمایہ دارانہ و جاگیردارانہ نظام کے خلاف جدوجہد کرنی ہوگی۔