March 2020 ہفتہ وار زرعی خبریں

فروری 27 تا 4 مارچ، 2020

زراعت

حکومت کی جانب سے خیبرپختونخوا کے نو جنوبی اضلاع میں ٹڈی دل حملے پر ہنگامی حالت کے نفاذ کے دو ہفتے بعد ہی ضلع لکی مروت میں کھڑی فصلوں کو ٹڈی دلوں کے ایک اور حملے کا سامنا ہے۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ اس نئے حملے سے فصلوں کو شدید نقصان ہوسکتا ہے جبکہ ضلعی انتظامیہ ہنگامی حالت پر توجہ دینے میں ناکام ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 27 فروری، صفحہ6)

محکمہ زراعت پنجاب کی جانب سے منعقد کی گئی پنجاب پیسٹی سائیڈ کانفرنس 2020 میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں کسان سالانہ 67 بلین روپے لاگت کا زرعی زہر (پیسٹی سائیڈ) استعمال کررہے ہیں جس میں سے 88.3 فیصد پنجاب میں، 8.2 فیصد سندھ جبکہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان 2.8 فیصداستعمال ہوتا ہے۔ کانفرنس میں وزیر زراعت پنجاب ملک نعمان احمد لنگریال کا کہنا تھا کہ پنجاب میں استعمال ہونے والے زرعی زہر کے میعار کی جانچ کے لیے 176 معائنہ کار (انسپکٹر) کام کررہے ہیں لیکن کسانوں کی جانب سے جعلی اور غیر معیاری زرعی زہر کی شکایات اب بھی موجود ہیں۔ متعلقہ عملے نے اب تک 150 ملین روپے مالیت کی ملاوٹ شدہ کھاد اور زرعی زہر ضبط کیا ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 28 فروری، صفحہ16)

زراعت

چینی ماہرین پرمشتمل ٹیم نے چینی قونصل جنرل کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران کہا ہے کہ پاکستان میں 30 ملین ہیکٹر زمین ٹڈی دل سے متاثر ہوئی ہے جس میں سے 900,000 ہیکٹر زمین کا سروے مکمل کرلیا گیا ہے۔ زرائع ابلاغ کو چینی ماہرین کی جانب سے آگاہ کیا گیا کہ چینی حکومت پاکستان کو 50 گاڑیاں فراہم کرے گی جن کی مدد سے یومیہ 16,000 ہیکٹر زمین پر چھڑکاؤ کیا جائے گا۔ 50 ڈرونز بھی فراہم کیے جائیں گے جس سے فی گھنٹہ 1,333 ہیکٹر زمین پر چھڑکاؤ اور جانچ کی جاسکے گی۔ اس کے علاوہ ہوائی جہاز بھی فراہم کیے جائیں گے۔ حکومت پاکستان کی درخواست پر چینی حکومت نے ٹڈی دل کا مقابلہ کرنے کے لیے ماہرین پر مشتمل عملے کو پاکستان بھیجا تھا۔
(ڈان، 28 فروری، صفحہ16)

گندم

سندھ آباد گار اتحاد نے حکومت سندھ پر گندم کے خریداری مراکز قائم کرنے، گندم کی سرکاری خریداری کا ہدف 1.4 ملین ٹن سے بڑھا کر دو ملین ٹن کرنے اور گندم کی امدادی قیمت مقرر کرنے پر زور دیا ہے۔ حیدر آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سندھ آبادگار اتحاد کے صدر نواب زبیر تالپور کاکہنا تھاکہ گندم کی امدادی قیمت حکومت سندھ کی اعلان کردہ 1,365 روپے فی من کے بجائے 1,600 روپے فی من مقرر ہونی چاہیے۔ انھوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ضلع میرپورخاص کے علاقے جھڈو اور نوکوٹ میں گندم کی کٹائی جاری ہے لیکن حکومت نے اب تک وہاں گندم کے خریداری مراکز قائم نہیں کیے۔
(ڈان، 3 مارچ، صفحہ17)

کپاس

سندھ آباد گار اتحاد کے صدر نواب زبیر تالپور نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر حکومت نے فوری طور پر کپاس کی امدادی قیمت اور بیج کے مسائل حل نہ کیے تو سال 2020 میں کپاس کی پیداوار میں مزید کمی ہوگی۔ ملک میں کپاس کی 15 ملین گانٹھوں کی ضرورت ہے جبکہ سال 2019 میں صرف آٹھ ملین گانٹھوں کی پیداوار ہوئی۔ حکومت کو ناصرف کپاس کی درآمد پر 1.5 بلین ڈالر زرمبادلہ خرچ کرنا پڑتا ہے بلکہ درآمدی محصولات ختم کیے جانے کی وجہ سے بھی اربوں روپے کی ٹیکس آمدنی کا نقصان ہوتا ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 3 مارچ، صفحہ5)

پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کے مطابق یکم مارچ تک کپاس کی پیداوار 20.3 فیصدکم ہوکر 8.6 ملین گانٹھیں ہوگئی ہے جو گزشتہ سال 10.7 ملین گانٹھیں تھی۔ اس سال پنجاب میں کپاس کی پیداوار میں کمی 22.8 فیصد جبکہ سندھ 16.3 فیصد ہے۔ رواں موسم میں کپاس کی پیداوار میں 2.2 ملین گانٹھوں کی کمی ہوئی ہے۔
(ڈان، 4 مارچ، صفحہ10)

پیاز

حکومت نے پیاز کی برآمد پر پابندی کا باضابطہ اعلامیہ جاری کردیا ہے۔ وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق برآمد پر یہ پابندی 31 مئی تک عائد رہے گی۔ آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجی ٹیبل ایکسپورٹرز، امپورٹرز اینڈ مرچنٹز ایسوسی ایشن (پی ایف وی اے) نے حکومت پر زور دیا ہے کہ جو پیاز پہلے ہی بندرگاہ تک پہنچ چکی ہے اسے برآمد کرنے کی اجازت دی جائے۔ پیاز کے تقریباً 170 کنٹینر بندرگاہ پر پھنسے ہوئے ہیں جنہیں برآمد کیا جانا تھا۔ پی ایف وی اے کے سربراہ وحید احمد کا کہنا ہے کہ برآمد کنندگان کو پیاز برآمد نہ ہونے کی صورت میں دو ملین ڈالر کے نقصان کا خدشہ ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 2 مارچ، صفحہ2)

پاکستان کسٹم نے 29 فروری سے پہلے تک برآمد کی منظوری (گڈز ڈکلریشن) کی حامل پیاز برآمد کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ تفصیلات کے مطابق حکومت نے وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کی سفارش پر 29 فروری سے پیاز اور سرخ مرچ کی برآمد پر پابندی عائد کی تھی۔ اس کے علاوہ کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے بھی فوری طور پر پابندی کی منظوری دے دی تھی جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں پیاز کے کئی کنٹینر بندرگاہ میں پھنس گئے تھے لہذا محکمہ کسٹم نے 29 فروری سے پہلے گڈز ڈکلریشن حاصل کرنے والوں کو پیاز برآمد کرنے کی منظوری دی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 3 مارچ، صفحہ5)

پھل سبزیاں

سیکریٹری جنرل بزنس میں پینل احمد جواد نے کہا ہے کہ غیر روایتی برآمدات میں اضافے کے لیے باغبانی سے متعلق برآمدات کی پالیسی نہایت ضروری ہے۔ بدقسمتی سے پچھلے کچھ سالوں سے کوئی قابل عمل پالیسی نہیں ہے۔ پاکستان میں ہر طرح کے ذائقہ دار پھل اور سبزیاں موجود ہیں جن کا دنیا میں دوسرے ممالک سے کوئی مقابلہ نہیں ہے لیکن اس شعبہ کی برآمدات صرف 600 ملین ڈالر ہیں۔ ہماری ترجیح لازمی طور پر سالانہ دو بلین ڈالر کی برآمدات ہونی چاہیے۔ دنیا میں پھل و سبزی کی تجارت 180 بلین ڈالر سے تجاوز کرگئی ہے اور پاکستان کے علاقائی حریف چین اور بھارت کا قدر میں اضافے (ویلیو ایڈیشن) کے زریعے اس تجارت میں بڑا کردار ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 28 فروری، صفحہ5)

آلو

وزیر زراعت پنجاب ملک نعمان احمد لنگریال کے مطابق گزشتہ سال پنجاب میں 415,000 ایکڑ زمین پر آلو کاشت کیا گیا تھا جس سے تقریباً چار ملین ٹن آلو کی پیداوار ہوئی تھی۔ اس سال توقع ہے کہ آلو کی پیداوار گزشتہ سال سے زیادہ ہوگی۔ پاکستان میں آلو کی اوسط پیداوار آٹھ ٹن فی ایکڑ ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں 10 سے 12 ٹن فی ایکڑ آلو کی پیداوار حاصل کررہے ہیں۔
(بزنس ریکارڈر، 3 مارچ، صفحہ19)

مال مویشی

امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی یو ایس ایڈ اور محکمہ مال مویشی بلوچستان نے 8.2 ملین ڈالر کے چار سالہ تعاون پر مبنی معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ ”پاکستان ایگریکلچرل ٹیکنالوجی ٹرانسفر ایکٹیویٹیز“ کا مقصد جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے مویشیوں کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانا ہے جو مویشی مالکان کو مالی طور پر مستحکم بنائے گی اور ان کا معیار زندگی بلند کرے گا۔ مویشی پالنے والے چھوٹے کسانوں کو منڈی تک آسان رسائی فراہم کی جائے گی اس کے ساتھ ساتھ انہیں انتظامی اور تکنیکی صلاحیت میں اضافے کے لیے تربیت دی جائے گی۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 27 فروری، صفحہ7)

ڈیری

ڈیری کمپنیوں نے بغیر کوئی وجہ بتائے ڈبہ بند دودھ کی قیمتوں میں اضافہ کردیا ہے۔ جنرل سیکرٹری کراچی ریٹیل گروسرز گروپ فرید قریشی کے مطابق ڈیڑھ لیٹر دودھ کے ڈبے کی قیمت 180 روپے سے بڑھ کر 200 روپے اور ایک لیٹر والے ڈبے کی قیمت 140 روپے سے بڑھ کر 150 روپے ہوگئی ہے۔ ایک پاؤ دودھ کا ڈبہ جو 35 روپے میں دستیاب تھا، اب 38 سے 40 روپے میں دستیاب ہے۔ نیسلے پاکستان کے حکام نے اخبار سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ قیمت میں اضافے کی وجہ مداخل کی قیمت میں اضافہ، ڈیزل کی قیمت کے حساب سے نقل وحمل کے اخراجات اور پیکنگ کی لاگت میں اضافہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سویابین کی بڑھتی ہوئی قیمت کی وجہ سے مویشیوں کی خوراک پر آنے والی لاگت بھی بڑھ گئی ہے۔ نیسلے پاکستان کی مجموعی فروخت 2019 میں 116 بلین روپے ہوگئی ہے جو 2018 میں 120 بلین روپے اور 2017 میں 125 بلین روپے تھی۔
(ڈان، 27 فروری، صفحہ10)

مرغبانی

پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن (شمالی زون) کے نائب چیئرمین محمد فرغام نے کہا ہے کہ ملک میں مرغبانی شعبہ کئی مسائل کی وجہ سے بری طرح متاثر ہورہا ہے جس کے نتیجے میں مرغبانی کی تقریباً آدھی صنعت دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ گزشتہ دو سالوں میں مرغبانی کی پیداوار میں استعمال ہونے والے مداخل کی قیمت میں بتدریج اضافہ ہوا ہے۔ مداخل کی قیمتوں میں حالیہ اضافے نے مرغبانی کو غیرمنافع بخش بنادیا ہے۔ پیداواری لاگت میں اضافہ مرغبانی مصنوعات کی برآمد میں بھی رکاوٹ ہے۔ اگر مرغبانی کرنے والوں کو اس صورتحال میں امدادی پیکج نہیں دیا گیا تو اس کا نتیجہ 50 فیصد مرغی خانوں کی بندش کی صورت سامنے آئے گا۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 1 مارچ، صفحہ13)

غربت

ایک خبر کے مطابق بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کو ختم کرنے یا اس کے نام میں تبدیلی زیر غور نہیں ہے۔ بی آئی ایس پی احساس کفالت پروگرام کے تحت جاری رہے گا جو وفاقی حکومت کے احساس پروگرام کا حصہ ہے۔ گزشتہ سال اپریل میں وزیر اعظم عمران خان نے خصوصی مشیر ڈاکٹر ثانیہ نشتر کی براہ راست سربراہی میں سماجی تحفظ و تخفیف غربت ڈویژن قائم کرنے کی منظوری دی تھی۔ یہ ڈویژن احساس پروگرام کے تحت مختلف اداروں کی نگرانی کرتا ہے جن میں بی آئی ایس پی، پاکستان بیت المال، زکواۃ، پاکستان پاورٹی ایلی ویشن فنڈ شامل ہیں۔
(بزنس ریکارڈر، 1 مارچ، صفحہ2)

پانی

سندھ کابینہ کے اجلاس کے دوران ”سندھ واٹرا یکٹ 2020“ کوحتمی شکل دینے کی منظوری دیدی گئی ہے۔ اس ایکٹ کے تحت سطح اور زیر زمین پانی کے تجارتی استعمال پر ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ یہ فیصلہ عدالتی حکم کی روشنی میں کیا گیا ہے جو سندھ میں پانی و نکاسی (واٹر اینڈ سینی ٹیشن) کمیشن تحلیل ہونے کے بعد سامنے آیا ہے۔ محکمہ بلدیات سندھ کے ایک افسر کا کہنا ہے کہ بوتل بند پانی اور مشروبات کی کمپنیاں اربوں روپے مالیت کا زیر زمین پانی نکال رہی ہیں، اجلاس میں ابتدائی طور پر زیر زمین پانی نکالنے پر ایک روپیہ فی لیٹر ٹیکس عائد کرنی کی تجویز دی گئی ہے اور یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ وصول کردہ رقم صوبہ بھر کے واٹر اینڈ سیوریج بورڈ میں تقسیم کی جائے گی۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 4 مارچ، صفحہ4)

نکتہ نظر

1960 کی دہائی سے ملک میں سبز انقلاب کے زریعے پیداوار میں اضافے کے نام پر جس ٹیکنالوجی کا آغاز کیا تھا اس میں وقت کے ساتھ ہونے والی تمام تر جدت ملک میں منتقل کرکے، بڑے پیمانے پر زرعی زہر اور کیمیائی کھاد کا استعمال کرکے، بین الاقوامی سرمایہ دار کمپنیوں کے درآمدی بیج بھی استعمال کیے جارہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود کپاس ہو یا مکئی، یا پھر ہائبرڈ چاول، پیداوار مستقل نت نئی بیماریوں کے حملوں اور دیگر مسائل کا شکار ہے جس سے براہ راست چھوٹے اور بے زمین کسان مزدور غربت و قرض کے چکر میں پس رہے ہیں اور کھیتی باڑی کرکے بھی اپنی غذائی ضروریات سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔ یہی نہیں سبز انقلاب کے بعد آزاد تجارتی پالیسیوں کے تحت بین الاقوامی زرعی و کیمیائی کمپنیوں کی پیداواری ٹیکنالوجی بشمول افزائش نسل کے درآمدی ٹیکے، مویشیوں کی غیرملکی نسلیں، کمپنیوں کے بنائے گئے مصنوعی چارے بھی ملک میں مویشی پالنے والے لاکھوں چھوٹے کسانوں کو غربت و بھوک سے نکالنا تو دور انہیں الٹا قرض کے دلدل میں دھکیلنے کا ہی سبب بنے ہیں۔ 1960 کی دہائی سے اب تک سرمایہ دار حکومتوں، ان کے اداروں اور کمپنیوں نے ملک کو کہیں قرضے اور امداد دے کر اور اکثر جدید سائنسی ٹیکنالوجی کے نام پر خودمختاری خصوصاً خوراک کی خودمختاری سے محروم کیا ہے۔ 70 سالوں کے تجربات کے باوجود موجودہ حکومت کی آئی ایم ایف اور اس جیسے دیگر سرمایہ دار اداروں سے قرض کے بدلے نافذ کی گئی نیولبرل پالیسیوں نے ملکی معیشت کو ایسے شیطانی چکر میں مبتلا کردیا ہے کہ کسان بیج، کھاد، زرعی زہر اور مشینری استعمال کرکے بھی عالمی منڈی میں سرمایہ دار ممالک کی پیداوار سے مسابقت کے قابل نہیں رہا، نتیجہ کہیں کسان ناقص کمپنیوں کے بیج کی وجہ سے پیداوار میں کمی کا شکار ہوکر نقصان اٹھارہا ہے اور کہیں زیادہ پیداوار لے کر بھی منڈی میں اسے فروخت کرنے سے قاصر ہے اور نقصان اٹھا رہا ہے۔ اس کے باوجود بیج کی پیداوار ہو یا مال مویشی شعبہ میں غیرملکی منصوبے تاحال جاری ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کے چھوٹے اور بے زمین کسان مزدور زرعی مداخل سمیت تمام شعبہ جات سے بین الاقوامی منافع خور کمپنیوں کا کردار ختم کرنے کے لیے روایتی پائیدار پیداوار کی طرف واپس آئیں، اپنا بیج، مویشیوں کی نسلیں محفوظ کریں زراعت کو زریعہ خوراک بناکر خوراک کی خودمختاری کی طرف قدم بڑھائیں۔

One thought on “March 2020 ہفتہ وار زرعی خبریں

  1. Wonderful website you have here but I was wanting to know if you knew of any user discussion forums that cover the same topics discussed in this article? I’d really love to be a part of community where I can get responses from other knowledgeable individuals that share the same interest. If you have any suggestions, please let me know. Appreciate it!

Comments are closed.