جنوری 23 تا 29 جنوری، 2020
زمین
چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سندھ میں جنگلات کی زمین کے حوالے سے مقدمہ کی سماعت کرتے ہوئے صوبائی حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ صوبے میں جنگلات کی زمین کی غیرقانونی الاٹمنٹ منسوخ کرے ۔ عدالت نے محکمہ جنگلات کو زیر قبضہ زمین واگزار کرنے اور عدالتی احکامات پر عملدرآمد کی رپورٹ عدالت میں جمع کرانے کی بھی ہدایت کی ہے ۔ عدالت نے محکمے سے جنگلات کی زمین کی مواصلاتی تصویریں (سیٹلاءٹ امیجز) بھی طلب کی ہیں ۔
(بزنس ریکارڈر، 29 جنوری، صفحہ15)
زراعت
وزیر زراعت سندھ اسماعیل راہو نے آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) اور زرعی حکام کے ساتھ ہونے والے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پنجاب سے کپاس اور دیگر اجناس کے بیجوں کی ترسیل روکنے اور غیر معیاری بیجوں پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے ۔ وزیر زراعت نے توجہ دلائی کہ وفاقی حکومت کے لیے ضروری ہے کہ درآمد ہونے والے بیجوں کی جانچ اور تصدیق کرے لیکن اگر وفاق ملاوٹ شدہ بیجوں کا استعمال روکنے میں ناکام ہوتا ہے تو صوبائی حکومت مجبور ہوگی کہ وہ قانونی طریقہ کار کے تحت کارروائی کرے ۔ صوبائی وزیر نے اشارہ دیا ہے کہ پنجاب سے سندھ آنے والے بیجوں کی منڈی میں فروخت سے پہلے جانچ ہوگی ۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 24 جنوری، صفحہ13)
قومی اسمبلی کی ذیلی کمیٹی برائے قومی غذائی تحفظ و تحقیق نے ’’دی چیمبر آف ایگریکلچر بل 2019‘‘ پر بحث کی ہے ۔ یہ بل ایوان زراعت (چیمبر آف ایگری کلچر) کے قیام کے لیے قانونی دائرہ کار فراہم کرتا ہے ۔ اس کا مقصد زراعت سے وابستہ افراد کا ایسا پلیٹ فارم قائم کرنا ہے جہاں ان کی شکایات کا ازالہ ہو اور زراعت کو فروغ دیا جائے ۔ تین جنوری، 2020 کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قومی غذائی تحفظ و تحقیق نے اس بل کا جائزہ لینے کے لیے چوہدری محمد اشرف کی سربراہی میں چار رکنی کمیٹی قائم کی تھی ۔ 25 اپریل، 2019 کو یہ بل تحریک انصاف کے ریاض فتیانہ نے پیش کیا تھا ۔
(بزنس ریکارڈر، 25 جنوری، صفحہ13)
ایک خبر کے مطابق ٹڈی دل نے سرگودھا اور اس کے ارد گرد کے علاقوں بشمول ساہیوال، شاہ پور اور سیلن والی کے کھیتوں پر حملہ کردیا ہے ۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ ٹڈی دل نے ان کی فصلوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اور انہوں نے محکمہ زراعت کی مدد سے اپنی فصلوں کو ٹڈی دل سے محفوظ رکھنے کے لیے چھڑکاوَ شروع کردیا ہے ۔ محکمہ زراعت کے ترجمان کا کہا ہے کہ یہ چھڑکاوَ صرف ٹڈیوں کو علاقے سے دور بھگانے کے لیے کیا جاتا ہے ۔
(ڈان، 28 جنوری، صفحہ6)
گندم
وزیر اعظم عمران خان نے گندم اور آٹے کی قلت کی وجوہات اور اس کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کے اعلی سطح پر تحقیقات کا حکم دیا ہے ۔ وزیر اعظم نے ایسے وقت پر اس معاملے کا نوٹس لیا ہے جب تمام شراکت بشمول صوبائی حکومتیں ، وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق، وزارت تجارت اور کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی دار ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈال رہے ہیں ۔ ایوان وزیر اعظم سے جاری کردہ بیان کے مطابق یہ کمیٹی فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل واجد ضیاء، انٹیلجنس بیورو (آئی بی) کے نمائندے جو 20 یا 21 گریڈ سے کم نہ ہوں ، ڈائریکٹر جنرل اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ، پنجاب پر مشتمل ہوگی ۔ تحقیقاتی رپورٹ چھ فروری کو مکمل ہوگی اور اس کے بعد وزیر اعظم کو پیش کی جائے گی ۔
(ڈان، 23 جنوری، صفحہ1)
سندھ میں کسانوں کی جانب سے مخالف کے بعد ایوان زراعت سندھ نے بھی گندم کی کمی دور کرنے کے لیے یوکرین سے گندم درآمد کرنے کے وفاقی حکومت کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اس فیصلے کو واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے ۔ صدر ایوان زراعت سندھ سید میران محمد شاہ نے کہا ہے کہ حکومت کا 300,000 ٹن گندم کی درآمد کا فیصلہ غلط ہے ۔ یہ فیصلہ سندھ کے گندم کے کسانوں کو بھاری مالی نقصان سے دوچار کرے گا ۔ صوبے میں گندم کی کٹائی مارچ میں شروع ہوگی جبکہ گندم کی درآمد کا مرحلہ مکمل ہونے میں ایک ماہ سے زیادہ وقت لگے گا ۔ گندم کی درآمد سے کسانوں میں یہ خدشہ پیدا ہوگا کہ مقامی منڈی میں درآمدی گندم لایا گیا تو ملکی گندم کی قیمت میں کم ہوگی ۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ سندھ حکومت گندم کی امدادی قیمت 1,500 روپے فی من مقرر کرے اور گندم کی سرکاری خریداری کا ہدف 1;46;25 ملین ٹن سے بڑھا کر 2;46;5 ملین ٹن کیا جائے ۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 23 جنوری، صفحہ5)
گندم و آٹے کے بحران کے پیش نظر سندھ کابینہ نے سال 2019-20 کے لیے 1;46;4 ملین ٹن گندم خریدنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ کابینہ نے چھوٹے کسانوں سے گندم کی خریداری کا طریقہ کار طے کرنے کے لیے ایک کابینہ کمیٹی بھی تشکیل دی ہے ۔ کابینہ کو بتایا گیا ہے کہ سندھ کے پاس 480 ٹن گندم تھا جبکہ پاسکو سے 400,000 ٹن گندم خریدا جاچکا ہے ۔ وزیر اعلی سندھ سید مراد علی کا شاہ کا کہنا تھا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ محکمہ خوراک سندھ نے اپنے ذخائر سے 800,000 ٹن گندم جاری کیا ہے اور وہ گندم بھی جاری کیا جارہا ہے جو پاسکو سے خریدا گیا ہے ۔ ’’ادارے کے پاس مارچ کے اختتام پر منڈی میں قیمت کو مستحکم رکھنے کے لیے گندم نہیں ہوگا‘‘ ۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 23 جنوری، صفحہ4)
سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخوا حکومت نے آٹے کی بہتر فراہمی اور قیمتوں کے استحکام کے لیے وفاق سے 400,000 ٹن گندم فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ پنجاب حکومت نے وفاق کو خبردار کیا ہے کہ اگر اسے گندم کی مطلوبہ مقدار فراہم نہیں کی گئی تو روزانہ کی بنیاد پر خیبر پختونخوا کے لیے آٹے کی فراہمی مشکل ہوجائے گی ۔ دوسری طرف وفاق نے حالیہ گندم اور آٹے کے بحران اور ماضی میں صوبوں کی جانب سے گندم کی کاشت و پیداوار کے حوالے سے متنازع اعداد وشمار پیش کیے جانے کے بعد اس سال خود گندم کی فصل اور پیداوار کی براہ راست نگرانی کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے لیے سپارکو کی مدد لی جائے گی ۔ وفاقی حکومت گندم کی پیداوار میں ہونے والی کمی کے حوالے سے بھی صوبوں کو خبردار کرے گی ۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 28 جنوری، صفحہ12)
کپاس
کپاس کی بلا محصول درآمد پر وفاقی کابینہ کے ارکان میں شدید تحفظات پائے جاتے ہیں ۔ ارکان کا کہنا ہے کہ یہ اقدام مقامی منڈی میں کپاس کی قیمت پر منفی اثرات مرتب کرے گا اور کسانوں کی حوصلہ شکنی کا باعث ہوگا جو پہلے ہی پرکشش آمدنی نہ ہونے کی وجہ سے کپاس کی کاشت ترک کررہے ہیں ۔ اعلی سطح کے اجلاس میں ارکان نے وزیر اعظم کو کچھ عرصے کے لیے اس فیصلہ پر عملدرآمد موخر کرنے کی تجویز دی ہے تاکہ کسان اپنی بقیہ پیداوار بھی حاصل کرلیں ۔ تاہم وزارت ٹیکسٹائل نے اس تجویز کی مخالفت کی ہے ۔ اس سے پہلے وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق نے کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی میں درخواست کی تھی کہ کسانوں اور جننگ فیکٹریوں کے پاس اب تک کپاس کا ذخیرہ موجود ہے اور کسی بھی طرح کی بلامحصول درآمد کسانوں کو ان کی پیداوار کی مناسب قیمت سے محروم کردے گی ۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے مطابق کپاس کی بلامحصول درآمد سے ملک کو چار بلین روپے کا نقصان ہوگا ۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 24 جنوری، صفحہ13)
دالیں
چار اہم دالوں کے فروغ کے لیے وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق نے ان کی قیمت خرید کا تعین کرنے کے لیے ایک سمری تیار کی ہے جسے منظوری کے لیے اقتصادی رابطہ کمیٹی کو بھیجا جائے گا ۔ پاسکو تقریباً 14 بلین روپے کی سرمایہ کاری سے دالوں کی تقریباً 30 فیصد مقامی پیداوار کی خرید و فروخت کرے گا ۔ ان دالوں میں چنا، ماش، مونگ اور دال مسور شامل ہیں ۔ یہ تجویز دی گئی ہے کہ دال چنا کی اشارتی قیمت 90 روپے فی کلو، دال مسور کی 120 روپے فی کلو، دال مونگ کی 100 روپے فی کلو اور دال ماش کی اشارتی قیمت 145 روپے فی کلو مقرر کی جائے ۔ اس وقت ملک میں دالوں کی درآمدی لاگت ایک بلین روپے سے بڑھ چکی ہے ۔ دالوں کی اشارتی قیمت مقرر کرنے کا مقصد اس کی درآمد میں کمی کرنا ہے ۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 27 جنوری، صفحہ3)
گنا
ایک خبر کے مطابق یہ کہا جارہا ہے کہ وزارت صنعت و پیداوار اور چینی کی صنعت گنے قیمت اور جنرل سیلز ٹیکس میں اضافے کے تناظر میں ملوں کے لیے چینی کی قیمت فروخت 80 روپے فی کلو مقرر کرنے کے لیے ایک غیر رسمی معاہدے پر پہنچ گئے ہیں ۔ صنعت کے زراءع کا کہنا ہے کہ 190 روپے فی من گنے کی قیمت اور تقریباً 73 روپے فی کلو چینی کی مل قیمت کی صورت میں شوگر ملوں کے لیے منافع صفر ہوگا ۔ کسان بچاوَ تحریک پاکستان کے نمائندوں نے چیف جسٹس، وزیر اعلی پنجاب، چیئرمین قومی احتساب بیورو، چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو سے کی گئی ایک اپیل میں مل مالکان پر الزام عائد کیا ہے کہ 100 کلوگرام (ڈھائی من) گنے کی قیمت 512 روپے ہے ۔ اس سے بنے والی چینی اور دیگر ضمنی مصنوعات کی قیمت کا اندازہ 888 روپے ہے ۔ یعنی ہر 100 کلو گرام گنے پر مل 376 روپے منافع کماتے ہیں ۔ کسان بچاوَ تحریک نے یہ بھی دعوی کیا ہے کہ چینی کی قیمت میں غیرمنصفانہ اضافے کے زریعے ہر مل یومیہ 60 سے 70 ملین روپے منافع کمارہی ہے ۔ تحریک کے نمائندے چوہدری نصیر وڑاءچ کا کہنا ہے کہ چینی کی قیمت میں 25 روپے فی کلو اضافہ ہوا ہے، (اس حساب سے) بقیہ موسم کے لیے گنے کی قیمت 300 روپے فی من ہونی چاہیے ۔
(بزنس ریکارڈر، 27 جنوری، صفحہ16)
غربت
وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے سماجی تحفظ و تخفیف غربت ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے کارپوریٹ اور نجی شعبہ کو سہولت دینے کے لیے ایک خصوصی نظام جاری کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے تاکہ وہ احساس پروگرام کے لیے عطیات دیں اور غریبوں کی مدد کریں ۔ فلاحی کاموں کی حوصلہ افزائی کے مقصد کے تحت کارپوریٹ شعبہ کو مراعات کی پیشکش کرنے کے لیے ایک پالیسی بھی ترتیب دی جارہی ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نجی اور کارپوریٹ شعبہ کی غربت کے خاتمے اور سماجی تحفظ جیسے مسائل میں اہمیت سے واقف ہے ۔
(ڈان، 23 جنوری، صفحہ4)
وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے سماجی تحفظ و تخفیف غربت ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے میلوڈی مارکیٹ، اسلام آباد میں احساس کفالت پروگرام سے مستفید ہونے والوں کے لیے نئی بائیو میٹرک اے ٹی ایم مشین کا افتتاح کیا ہے ۔ وزیراعظم عمران خان 31 جنوری، 2020 کو احساس کفالت پروگرام کا آغاز کریں گے ۔ یہ نیا نظام مکمل طور پر انگوٹھے کے نشان کی شناخت یعنی بائیو میٹرک پر منحصر ہوگا جو رقوم کی ادائیگیوں میں آسانی مہیا کرے گا ۔ کفالت پروگرام سے فائدہ اٹھانے والوں کے پاس یہ سہولت ہوگی کہ وہ بائیو میٹرک نظام کی حامل خوردہ فروش دکانوں سے خریداری کرسکیں یا حبیب بینک لمیٹیڈ اور بینک الفلاح کی کسی بھی بائیو میٹرک کی حامل اے ٹی ایم اور برانچ تک رسائی حاصل کرسکیں ۔ ثانیہ نشتر کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے عورتوں کے پاس کوئی راستہ نہیں تھا ۔ عورتیں خوردہ فروش دکانوں پر اپنی قسط کی وصولی کے لیے جاتی تھیں جو ان کے شہر میں بہت کم تعداد میں تھیں ۔ یہ خوردہ فروش ان کی قسط میں دھوکہ دہی سے رقم کم کرلیا کرتے تھے ۔ اس نئے نظام کے تحت عورتیں کو بائیو میٹرک اے ٹی ایم مشینوں اور بینک برانچ تک رسائی حاصل ہوگی ۔
(بزنس ریکارڈر، 26 جنوری صفحہ3)
پاکستان پاورٹی ایلی ویشن فنڈ نے خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی اور تورغر کی 12 یونین کونسلوں میں غذائی تحفظ میں اضافے کے لیے ایک منصوبے ’’انہانسنگ فوڈ سیکیورٹی تھرو اسٹریٹیجک انٹروینشنز ان ایگری کلچر‘‘ کا آغاز کیا ہے ۔ اس منصوبے کا مقصد کسانوں میں جدید زرعی طریقوں سے متعلق آگاہی اور مہارت پیدا کرنا اور چھوٹے کسانوں کے روزگار کو بہتر بنانے کے لیے فصلوں کی قدر میں اضافے کے نظام (ویلیو چین) کے لیے مدد فراہم کرنا ہے ۔ اس حوالے سے صوابی میں ایک تقریب منعقد کی گئی ۔ اس موقع پر احساس پروگرام کے تحت دیے جانے والے بلا سود قرضے کے چیک بھی تقسیم کیے گئے ۔
(بزنس ریکارڈر، 26 جنوری صفحہ11)
کارپوریٹ
مسابقتی کمیشن (کمپیٹیشن کمیشن آف پاکستان) نے کہا ہے کہ ڈیری کی صنعت پر عائد ہونے والے مسابقتی قوانین اور صارفین کی بہبود کو نظر انداز کرنا تشویشناک ہے اور یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ اس طرح کی خلاف ورزی سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے اور انہیں نظرانداز نہ کیا جائے ۔ مسابقتی کمیشن نے پاکستان ڈیری ایسوسی ایشن کے اس موقف کی تائید کی ہے کہ ایک دودھ کمپنی نے باقی تمام کمپنیوں کی ڈیری مصنوعات کو انسانی استعمال کے لیے نامناسب قرار دے کر دھوکہ دہی کا ارتکاب کیا ہے ۔ اس حوالے سے کمیشن نے اس کمپنی کے خلاف ایک حکم نامہ جاری کیا ہے ۔ کمیشن نے اس کمپنی پر 35,000,000 روپے کا جرمانہ عائد کیا ہے ۔ کمیشن نے کہا ہے کہ کمپنی نے جان بوجھ کر صارفین سے معلومات چھپائیں اور خود دیگر تمام کمپنیوں کی مصنوعات کو صارفین کے لیے غیرصحت بخش اور انسانی استعمال کے لیے مضر صحت قرار دیا ۔
(بزنس ریکارڈر، 24 جنوری، صفحہ3)
خوراک
بزنس ریکارڈر کے ایک سروے کے مطابق دودھ، مرغی، آٹا اور چینی کی قیمتوں میں گذشتہ ہفتے اضافے کا رحجان دیکھا گیا ہے ۔ تھوک منڈی میں چینی کی قیمت 3,650 روپے سے 3,800 روپے فی بوری (50 کلوگرام) تک جا پہنچی ہے ۔ ڈبہ بند دودھ بشمول اولپرز، ملک پیک کی قیمت 135 روپے فی لیٹر سے 150 روپے فی لیٹر ہوگئی ہے ۔ اسی طرح مرغی کے گوشت کی قیمت 5,500 روپے سے 8,000 روپے فی من تک جا پہنچی ہے ۔ آٹے کے تھوک فروشوں کا کہنا ہے کہ ملوں نے 15 کلو گرام آٹے کے تھیلے کا وزن 25 کلو گرام کردیا ہے اور اس کی مل قیمت 1,350 روپے مقرر کردی ہے جبکہ آٹے کا یہ تھیلا خوردہ منڈی میں 1,400 روپے میں فروخت ہورہا ہے ۔
(بزنس ریکارڈ، 26 جنوری صفحہ11)
ماہی گیری
محکمہ فشریز کے ڈپٹی ڈائریکٹر تنویر احمد کے مطابق وزیر اعظم کے ہنگامی زرعی پروگرام کے تحت صوبے بھر میں 2,500 ایکڑ زمین پر جھینگوں افزائش کی جائے گی ۔ محکمہ نے تھائی لینڈ سے درآمد شدہ جھینگوں کی افزائش کے لیے تیاریاں کرلی ہیں ۔ اس مقصد کے لیے صوبے کے مختلف حصوں میں پانی کے تالاب پہلے ہی تیار کیے جاچکے ہیں ۔ ہر درخواست گزار کسان کو پہلے سال جھینگوں کے بیج اور خوراک پر 75 فیصد، دوسرے سال 50 فیصد زرتلافی دی جائے گی ۔ ہر کسان کو چار سے پانچ ایکڑ زمین پر نمکین پانی کے تالاب بنانے ہونگے ۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 28 جنوری، صفحہ20)
کھاد
حکومت نے کسانوں کو سہولت دینے کے لیے کھاد کی صنعت میں استعمال ہونے والی گیس پر عائد گیس انفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس (جی آئی ڈی سی) تقریباً ختم کردیا ہے ۔ اس حوالے سے وزارت توانائی نے اعلامیہ جاری کردیا ہے ۔ اب جی آئی ڈی سی کی شرح (کھاد کی فی بوری پر) 400 روپے سے کم ہو کر پانچ روپے ہوگئی ہے ۔ اس کمی سے یوریا کی فی بوری کی قیمت میں 360 سے 400 روپے کمی ہوگی ۔ یوریا کی بوری اس وقت بشمول دو فیصد سیلز ٹیکس 2,040 روپے میں فروخت ہورہی ہے ۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 29 جنوری، صفحہ13)
نکتہ نظر
اس ہفتے کی ہی نہیں گزشتہ کئی ہفتوں سے زرعی خبریں عوام کے لیے لازمی غذائی اشیاء اور ضروریات کی قیمت میں اضافے اور سرمایہ دار، صنعتکاروں کے لیے مراعات اور ان کے منافع میں اضافے کے لیے منصوبہ بندی پر مشتمل چلی آرہی ہیں ۔ ملک بھر کے کسان مزدور عوام کے لیے دودھ، گوشت، آٹا اور چینی سمیت گیس بجلی تیل کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ، جبکہ کھاد بنانے والوں کے لیے، چینی بنانے والوں کے لیے مراعات اور منافع کی یقین دہانیاں ! دلچسپ بات یہ ہے کہ ملکی پیداوار و کھپت کا نظام منڈی کے حوالے کرنے کے لیے ظلم و استحصال پر مبنی اس تمام تر نیولبرل پالیسی پر عمل کرنے والی حکومت اور اس کی صفوں میں موجود سرمایہ دار و منافع خور خود تحقیقاتی کمیٹی قائم کرکے ذمہ داروں کے تعین کا ڈھونگ بھی رچاتے ہیں ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ملک کی پیداوار و کھپت پر ملکی و غیر ملکی مافیا قابض ہوتے جارہے ہیں جن کی جڑیں ملکی ایوانوں سے لے کر اداروں تک میں پھیل چکی ہیں ۔ ملک میں ہر سطح پر پیداوار و تجارت کے عمل میں دو طبقات نظر آتے ہیں ایک وہ کسان مزدور طبقہ جو پیداوار کرتا ہے اور بھوک و غربت کا شکار ہیں جبکہ دوسرا طبقہ اشرافیہ ہے جو اس پیداوار کو صنعت میں استعمال کرتا ہے اور اسے برآمد کرتا ہے ۔ حکومت ہمیشہ چونکہ اشرافیہ پر مشتمل ہوتی ہے اسی لیے مراعات بھی ان ہی کے کاروباری مفادات اور منافع کو محفوظ بنانے کے لیے فراہم کی جاتی ہیں ۔ کسان مزدور طبقہ سے پیداواری وسائل، صاف خوراک و ماحول کا حق چھین لینے والے سرمایہ داروں اور ان کی کمپنیوں کو حکومت صرف اس لیے سہولیات اور مراعات دینے پر عمل پیرا ہے کہ وہ ’’احساس‘‘ کے نام پر غریبوں پر ’’مہربانی‘‘ کریں ۔ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ یہ کسان مزدور طبقہ اپنے حق کے لیے متحد ہوکر اس طبقہ اشرافیہ کے خلاف جدوجہد کی راہ اپنائے اور اپنا حق چھین لے ۔