2018 دسمبر

دسمبر 20 تا 26 دسمبر، 2018
زراعت
پاکستان اور اقوام متحدہ کا ادارہ برائے خوراک و زراعت نے ایک پانچ سالہ منصوبے (کنٹری پروگرامنگ فریم ورک) پر دستخط کیے ہیں۔ یہ منصوبہ 2018 تا 2022 پر مشتمل ہوگا۔ اس منصوبہ کے تحت تین شعبہ جات پر خصوصی توجہ دی جائیگی جن میں بھوک کا خاتمہ (زیرو ہنگر)، موسمی تبدیلی سے مطابقت رکھنے والی زراعت (کلائمٹ اسمارٹ ریزیلنس ایگریکلچر) اور مؤثر و جامع خوراک و زراعت کا نظام شامل ہے۔ منصوبہ پاکستان میں اقوام متحدہ کے منصوبے یونائیٹڈ نیشنز ڈویلپمنٹ اسسٹنٹ فار پاکستان اور ویژن 2025 میں وضح کردہ حکومتی ترجیحات سے ہم آہنگ ہے۔
(ڈان، 21 دسمبر، صفحہ3)

کپاس
کراچی یونیورسٹی میں قائم لطیف ابراہیم جمال نیشنل سائنس انفارمیشن سینٹر میں منعقد کی گئی ایک پریس کانفرنس میں کہا گیا ہے کہ پانی و خوراک کے بحران پر قابو پانے کے لئے پاکستان کو فوری طور پر جدید زرعی ٹیکنالوجی اپنانے کی ضرورت ہے جو سیم و تھور میں اضافہ، جنگلات کا کٹاؤ اور بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے مزید بدتر ہوتا جارہا ہے۔ پریس کانفرنس کا مقصد تجارتی بنیادوں پر جنیاتی ٹیکنالوجی (بائیو ٹیکنالوجی) کے ممکنہ فوائد سے آگاہی فراہم کرنا تھا جو پاکستان کی پائیدار ترقی کے لئے مواقع فراہم کرتی ہے۔ اس موقع پر انٹرنیشنل سروس فار دی ایکیوزیشن آف ایگری بائیو ٹیک ایپلی کیشنز کی اس سال کی رپورٹ بھی جاری کی گئی جس میں عالمی سطح پر جینیاتی فصلوں کی کاشت کی صورتحال کو اجاگر کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق سال 2017 میں پوری دنیا میں 189.9 ملین ہیکٹرز رقبے پر جینیاتی فصلیں کاشت کی گئی ہیں۔ جینیاتی فصلوں کی 90 فیصد کاشت امریکہ، برازیل، ارجنٹائن، کنیڈا اور بھارت میں ہوئی ہے۔ ایشیا یپسیفک میں جینیاتی فصلوں کی کاشت میں بھارت سرفہرست ہے جہاں 11.4 ملین ہیکٹر رقبے پر جنیاتی کپاس کاشت کی گئی۔ اسی طرح پاکستان میں تین ملین ہیکٹر رقبے پر جینیاتی کپاس کاشت کی گئی۔
(ڈان، 20 دسمبر، صفحہ16)

پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ مالیکیولر بائیولوجی میں منعقد ہونے والی تین روزہ بین الاقوامی کانفرنس میں سائنسدانوں نے زرعی شعبہ کے مسائل حل کرنے کے لیے سبزیوں کے خشک سالی اور بیماریوں کے خلاف مدافعت رکھنے والے بیجوں کی تیاری کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ شعبہ مالیکیولر بائیولوجی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر طیب حسنین کا کہنا تھا کہ ان کا ادارہ نباتاتی حیاتیات، بیج سمیت کئی تحقیقی شعبہ جات میں کام کررہا ہے۔ ادارہ پہلے ہی جینیاتی کپاس کی قسم CEMB 33 اور CA12 تیار کرچکا ہے جو پنجاب سیڈ کونسل سے منظور ہوچکی ہیں اور منڈی میں دستیاب ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس بین الاقوامی کانفرنس کے انعقاد کا مقصد سائنسدانوں کو اکھٹا کرنا، علم کا تبادلہ اور تعاون کے لئے راہیں تلاش کرنا ہے۔ کانفرنس میں جاپان، ملیشیا، ترکی، نائیجیریا کے سائنسدانوں سمیت 100 سے زائد سائنسدانوں نے شرکت کی۔
(بزنس ریکارڈر، 20 دسمبر، صفحہ5)

غذائی کمی
ایک چار روزہ سروے میں ضلع کوئٹہ، پشین اور قلعہ عبداللہ میں چھ ماہ سے پانچ سال عمر تک کے بچوں میں غذائی کمی کی شرح تشویشناک پائی گئی ہے۔ سروے کے مطابق تینوں اضلاع کی کچھ آبادیوں میں غذائی کمی کی شرح عالمی سطح پر شدید غذائی کمی کے مقررہ معیار گلوبل ایکیوٹ میلنیوٹریشن (جی اے ایم) سے 40 فیصد سے بھی زائد ہے جبکہ پنج پئی یونین کونسل کے کچھ گاؤں میں یہ شرح 40 سے 50 فیصد جی اے ایم ہے۔ عالمی ادارہ برائے صحت کے معیارکے مطابق جی اے ایم کی 15 فیصد شرح ہنگامی صورتحال ہوتی ہے۔ جی اے ایم انتہائی شدید غذائی کمی (سیویر ایکیوٹ میلنیوٹریشن) اور درمیانہ درجہ کی شدید غذائی کمی (موڈریٹ ایکیوٹ میلنیوٹریشن) کا مرکب ہے۔ کوئٹہ بلاک کے ابتدائی نتائج کے ردعمل میں یونیسیف اور دیگر شراکتداروں کے تعاون سے محکمہ صحت نے غذائی کمی کے شکار متاثرین کے علاج کے لئے کوششیں شروع کردی ہیں۔
(ڈان، 22 دسمبر، صفحہ5)

خشک سالی
ایک اعلی سطح کے اجلاس میں شرکت کے بعد وزیر داخلہ بلوچستان میر سلیم احمد کھوسہ نے ایک پریس کانفرنس کے دوران انکشاف کیا ہے کہ بلوچستان کے 33 میں سے تقریباً 20 اضلاع کو خشک سالی کا سامنا ہے جہاں اب تک 100,000 خاندان اور 1.7 ملین مال مویشی متاثر ہوچکے ہیں۔ صوبائی حکومت نے خشک سالی کے شکار اضلاع میں بحالی اور امداد پہنچانے کے لئے 500 ملین روپے کے خصوصی پیکج کا اعلان کیا ہے۔ فی خاندان حکومتی امداد کا تعین ان کی ضرورت کے مطابق کیا جائے گا لیکن ابتدائی طور پر یہ پیکج 25,000 سے 30,000 ہزار روپے فی خاندان ہوگا۔ اقوم متحدہ نے ایک سروے کے بعد بلوچستان کے 14 اضلاع کو بدترین خشک سالی کا شکار قرار دیا ہے۔
(ڈان، 20 نومبر، صفحہ3)

گنا
وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بوزدار نے واضح حکومتی ہدایت کے باوجود گنے کی کرشنگ شروع نہ کرنے والی ملوں کے خلاف قانونی کاروائی کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اس سلسلے میں محکمہ خوراک کے وزیر، سیکریٹری اور گنا کمشنر کو ضروری ہدایات جاری کردی گئی ہیں۔ وزیر اعلی پنجاب کا مزید کہنا تھا کہ ملوں کے مطالبات کی منظوری کے باوجود کرشنگ نہ کرنے کا کوئی جواز نہیں اور کسی کو بھی کسانوں کا استحصال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ سرکاری نرخ پر گنے کی فروخت کو یقینی بنایا جائے گا اور ملیں کسانوں سے گنا خریدنے کی پابند ہونگی۔
(بزنس ریکارڈر، 20 دسمبر، صفحہ5)

ماہی گیری
چیئرمین پاکستان فشریز ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن سید اخلاق حسین عابدی نے کہا ہے کہ سندھ کی ماہی گیر کشتیوں نے بلوچستان حکومت کی جانب سے کئی کشتیوں کو ضبط کرنے کے بعد بلوچستان کی حدود میں ماہی گیری روک دی ہے۔ انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ گہرے سمندر میں ماہی گیری کی موجودہ پالیسی سے پاکستان سمندری خوراک کی برآمد سے محروم ہوجائے گا۔ سندھ کی ماہی گیر کشتیوں پر بلوچستان کی پاپندی کا فوری حل نکالا جائے۔ گورنر سندھ، وزیر اعلی سندھ اور وفاقی حکومت کو برآمدی شعبہ کے مسائل کو حل کرنے اور موجودہ بحران ختم کرنے کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ پاکستان میں ماہی گیری کا سب سے بڑا شعبہ کراچی میں ہے جس کا سمندری خوراک کی برآمد میں حصہ 80 فیصد ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 20 دسمبر، صفحہ2)

بلوچستان حکومت کی جانب سے سندھ کے ماہی گیروں پر بلوچستان کی سمندری حدود میں 12 بحری میل تک مچھلی کا شکار کرنے کی پابندی کے خلاف کشتی مالکان نے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس پابندی کی وجہ سے جولائی تا نومبر 2018 میں سمندری خوراک کی برآمدات میں 13 فیصد کمی آئی ہے۔ سندھ ٹرالرز اونرز اینڈ فشرمین ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ گزشتہ ہفتہ بلوچستان نے سندھ کے 15 ماہی گیر کشتیوں سے ایندھن سمیت لاکھوں روپے مالیت کی مچھلیاں قبضہ میں لے لی تھیں۔
(بزنس ریکاردر، 19 دسمبر، صفحہ5)

موسمی تبدیلی
وزیر اعظم کے مشیر برائے موسمی تبدیلی ملک امین اسلم نے کہا ہے کہ عالمی حدت کے منفی اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان کو ہر سال سات سے 14 بلین ڈالر کی ضرورت ہے۔ایک پریس کانفرنس میں انھوں نے بتایا کہ موسمی تبدیلی کے اثرات پر پولینڈ میں ہونیوالی عالمی کانفرنس کوپ 24 میں انہوں نے پاکستان پر موسمی تبدیلی کے اثرات کو موثر طریقے سے اجاگر کیا۔ انھوں نے مزید بتایا کہ موسمی تبدیلی کی وجہ سے پاکستان کو انتہائی تباہ کن حالات کا سامنا رہا ہے جن میں بڑے سیلاب، خشک سالی، گرمی کی لہر اور گلیشئرکے تیزی سے پگھلنے کی وجہ سے سیلاب کا آناشامل ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 21 دسمبر، صفحہ15)

پانی 
منچھر جھیل کے تحفظ کے لئے سندھ آباد گار بورڈ اور مقامی تنظیموں پر مشتمل ایک اتحاد سیو منچھر الائنس نے نئی گج ڈیم کی تعمیر پر سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے اور اس کے خلاف مہم شروع کرنے کا عزم کیا ہے۔ سہون پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس میں سندھ آباد گار بورڈ کے مقامی نائب صدر عطااللہ بروہی نے کہا ہے کہ منچھر جھیل میں ذخیرہ ہونیوالا 90 فیصد پانی کیرتھر سلسلہ یا نئی گج نالے سے آتا ہے جبکہ بقیہ 10 فیصد جھیل کے مغربی علاقوں میں جمع ہونے والے بارش کے پانی سے حاصل ہوتا ہے۔ منچھر جھیل کے گردو نواح کی آبادیاں فصلوں کو پانی دینے، روزگار اور ضروریات زندگی کے لئے جھیل کے پانی پر انحصار کرتی ہے۔ نئی گج ڈیم کی تعمیر سے بارش کا پانی جھیل میں آنابند ہو جائیگا۔
(ڈان، 26 دسمبر، صفحہ17)

نکتہ نظر
اس ہفتے کی سرفہرست خبر پاکستان میں ایف اے او کے پانچ سالہ منصوبے سے متعلق ہے جس میں بھوک کے خاتمے اور موسمی تبدیلی سے مطابقت رکھنے والی زراعت اور خوراک و زراعت کے نظام کو موثر بنانے کے لیے اقدامامت شامل ہونگے۔ خوراک و زراعت کا عالمی ادارہ ہو یا امدادی منصوبے شروع کرنے والے عالمی مالیاتی ادارے، قیام پاکستان سے ہی اپنے سرمایہ دارانہ مفادات پورے کرنے کے لیے پاکستان جیسے بڑی مقدار میں خوراک پیدا کرنے والے ممالک کو ایسے ہی ہتھکنڈوں سے لوٹتے چلے آرہے ہیں۔ ملک میں بھوک، غربت، غذائی کمی کے اعداوشمار اس کی واضح دلیل ہیں کہ ان سرمایہ دار ممالک نے ہر بار اپنے منافع کی ہوس میں کبھی سبز انقلاب کے تحت بیج، کھاد، زہر اور زرعی مشینری پاکستان کو فروخت کرکے اس کے غذائی تحفظ کو داؤ پر لگایا اور اب موسمی تبدیلی کے اثرات سے بچاؤ اورزیادہ پیداوار کا لالچ دے کر یہ سرمایہ دار ممالک اور ان کی کمپنیاں جدید ٹیکنالوجی فروخت کرکے اس ملک کے عوام سے بچا کچھا نوالہ بھی چھین لینے کے درپے ہیں۔ ان سرمایہ دار ممالک کی کمپنیاں پاکستان میں اپنے ہائبرڈ، جینیاتی بیج اور دیگر مداخل فروخت کرنے کے لیے ملکی تحقیقی اداروں کو استعمال کرتی آرہی ہیں جن کی سفارشات پر مبنی پالیسی سازی ملک کے چھوٹے اور بے زمین کسان مزدوروں کو مزید غربت میں دھکیل رہی ہے۔ مفادات اور لالچ میں اندھے پالیسی ساز سندھ، بلوچستان سمیت ملک بھر میں بڑھتی ہوئی بھوک و غذائی کمی کے باوجود آزاد تجارتی پالیسیوں کو فروغ دے رہے ہیں جنہیں صرف اور صرف اس ملک کے استحصال کے شکار عوام ہی شکت دے کر حقیقی خوشحالی کی طرف گامزن ہوسکتے ہیں۔

دسمبر 13 تا 19 دسمبر، 2018
کپاس
وزیر اعظم عمران خان نے کپاس کی 15 ملین گانٹھوں کا ہدف حاصل کرنے کے لیے وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کو اقدامات کرنے کی ہدایت کی ہے۔ وزیر اعظم نے کپاس کے شعبہ میں درپیش مسائل پر ہونے والے ایک اجلاس میں جنیاتی فصلوں کی جانچ کے حوالے سے موجودہ حفاظتی قوانین کو مزید آسان، مؤثر اور وقت کی بچت پر مبنی بنانے کے لیے ان کا دوبارہ جائزہ لینے کی ہدایت کی ہے۔ وزیر اعظم نے بیج کے اندراج کے موجودہ اداروں کی کارکردگی کو بہتر کرنے کے لئے ورکنگ گروپ قائم کرنے کی منظوری بھی دے دی ہے۔ بیج کے نجی اور سرکاری شعبہ پر مشتمل ایک ورکنگ گروپ قائم ہوگا جو بیج کے اندراج و تصدیق کے نظام کو آسان بنائے گا۔
(ڈان، 18 دسمبر، صفحہ10)

زراعت
پنجاب کی پہلی خوراک کی پیداوار سے متعلق رپورٹ پنجاب فوڈ آوٹ لک جاری کردی گئی ہے جس میں ربیع کی تین اہم فصلوں گندم، آلو اور چنے کی پیداوار میں کمی کی پیشنگوئی کی گئی ہے۔ یہ تینوں فصلیں موسم سرما میں پنجاب کی 85 فیصد زرعی زمین پر کاشت کی جاتی ہیں۔ ملک میں چنے کی کل پیداوار کا 85 فیصد، آلو کی پیداوار کا 95 فیصد اور گندم کی پیداوار کا 77 فیصد پنجاب میں پیدا ہوتا ہے۔ حکومت پنجاب کی درخواست پر غذائی فصلوں کی صورتحال سے متعلق اقوام متحدہ کا خوراک و زراعت کا ادارہ (فاؤ) اور انٹرنیشنل فوڈز پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (افپری) کے اشتراک سے پنجاب فوڈ آؤٹ لک رپورٹ جاری کی گئی ہے۔ رپورٹ میں خشک سالی اور فصلوں پر بیماری میں اضافے کے نتیجے میں چنے کی پیداوار میں 9 فیصد کمی دیکھی گئی ہے۔ پاکستان چنے کی پیداوار کرنے والا چوتھا بڑا ملک ہے۔
(ڈان، 13 دسمبر، صفحہ2)

غربت
ایک خبر کے مطابق بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) اور اقوام متحدہ کے عالمی غذائی پروگرام نے آسٹریلین حکومت کی مدد سے ضلع تھرپارکر کے 428,400 متاثرین میں غذائی عدم تحفظ کے خاتمے کے لئے ایک مہم کا آغاز کردیا ہے۔ سیکریٹری بی آئی ایس پی عمر حامد خان نے منصوبے کے افتتاح کے موقع پر کہا ہے کہ فصلیں کاشت نہ ہونے اور مال مویشیوں کی پیداوار میں کمی کی وجہ سے خوراک میں ہونے والی کمی دور کرنے کے لیے ہر مستحق خاندان کو 1,000 روپے نقد فراہم کیے جائیں گے۔ اس مہم سے 63,000 غریب خاندان مستفید ہونگے۔
(بزنس ریکارڈر، 16 دسمبر، صفحہ3)

غذائی کمی
محکمہ صحت کے زرائع کے مطابق سول ہسپتال مٹھی، تھرپارکر میں بھوک اور بیماریوں سے مزید چار بچے جانبحق ہوگئے ہیں۔ رواں ماہ دسمبر میں مرنے والے بچوں کی تعداد 30 ہوگئی ہے جبکہ یکم جنوری سے اب تک مرنے والے بچوں کی کل تعداد 576 ہوگئی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 19 دسمبر، صفحہ19)

خشک سالی
بلوچستان کے سرکاری اور حزب اختلاف کے اراکین اسمبلی نے صوبے میں بڑھتی ہوئی خشک سالی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی جانب سے امدادی سامان کے کچھ ٹرک بھیجنے سے مسائل حل نہیں ہونگے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن ثناء ﷲبلوچ کا کہنا تھا کہ متاثرہ افراد کی مدد کے لئے خصوصی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کے اپنے حلقے میں صرف چھ ٹرک امدادی سامان پہنچا جو 50 خاندانوں کے لیے بھی ناکافی ہے۔ ایک قرارداد ایوان نے منظور کی تھی جس میں اس حوالے سے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا گیا تھا اور ایک کمیٹی تشکیل دی جانی تھی جو اب تک نہیں بنی۔
(ڈان، 16 دسمبر، صفحہ5)

ماہی گیری
بلوچستان حکومت کی جانب سے سندھ کے ماہی گیروں پر بلوچستان کی سمندری حدود میں 12 بحری میل تک شکار پر پابندی کے خلاف کشتی مالکان نے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے جنہیں خدشہ ہے کہ اگر کشتیوں کو پکڑنے کا سلسلہ جاری رہا تو ماہی گیری کا شعبہ مکمل طور پر تباہ ہوجائیگا۔ بلوچستان کی جانب سے عائد پابندی کی وجہ سے جولائی تا نومبر 2018-19 میں سمندری خوراک کی برآمدات میں 13 فیصد کمی آئی ہے۔ سندھ ٹرالرز اونرز اینڈ فشرمین ایسوسی ایشن کے صدر حبیب اللہ خان نیازی کا کہنا ہے کہ گزشتہ ہفتہ بلوچستان کے حکام نے سندھ کے ماہی گیروں کی 15 کشتیوں کو حراست میں لے کر ڈیزل اور لاکھوں روپے مالیت کی شکار کی گئی مچھلی ضبط کرلی۔
(بزنس ریکاردر، 19 دسمبر، صفحہ5)

کیمیائی کھاد
وزیر خزانہ اسد عمر کی سربراہی میں اقتصادی رابطہ کمیٹی نے فرٹیلائزر ری ویو کمیٹی کی سفارش پر درآمدی یوریا کی قیمت 1,712 روپے فی بوری (50 کلو) مقرر کردی ہے۔ فرٹیلائزر ری ویو کمیٹی کے اجلاس میں بتایا گیا تھا کہ منڈی میں مقامی یوریا کی قیمت 1,820 سے 1,850 روپے ہے جو بہت زیادہ ہے۔ صوبوں کے چیف سیکریٹریوں کو ہدایت کی کئی تھی کہ وہ یوریا کی ذخیرہ اندوزی اور زائد قیمت پر فروخت کے خلاف کارروائی کریں اور یوریا منڈی میں لائیں۔
(ڈان، 18 دسمبر، صفحہ10)

وزیر خزانہ اسد عمر کی سربراہی میں کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں بتایا گیا ہے کہ یوریا کی کھیپ درآمد ہوچکی ہے۔ حکومت نے مقامی منڈی میں یوریا کی کمی کے تناظر میں ستمبر میں 100,000 ٹن یوریا درآمد کرنے کی منظوری دی تھی۔ کمیٹی نے یوریا کو فوری طور پر منڈی میں ترسیل کرنے کا حکم دیا ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا ہے کہ یوریا کی ترسیل 24 گھنٹوں میں شروع ہوجائے گی۔
(ڈان، 13 دسمبر، صفحہ10)

گنا
ایک مضمون کے مطابق گنے کے کاشتکاروں کے لئے اس سال بھی حالات گزشتہ سال سے مختلف نہیں ہیں۔ سندھ میں قائم 38 شوگر ملوں میں سے اب تک صرف چھ ملوں نے گنے کی کرشنگ شروع کی ہے جبکہ مل مالکان 182 روپے فی من گنے کی قیمت دینے کے لئے بھی رضامند نہیں ہیں۔ مل مالکان نے ایک بار پھر گنے کی مقررہ قیمت کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے، تاہم عدالت نے درخواست مسترد کردی ہے۔ گنے کی قیمت پر تنازعہ کھڑا ہونا ہر سال کا معمول بن گیا ہے۔ 2000 کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں مل مالکان سرکاری قیمت پر عمل درآمد کیا کرتے تھے اور گنے کی کرشنگ 1950 کے ایکٹ کے مطابق اکتوبر کے وسط یا آخر تک شروع کردی جاتی تھی۔ تاہم پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس ایکٹ میں ترمیم کرکے گنے کی کرشنگ کی تاریخ میں 30 نومبر تک توسیع کردی۔ اس کے باوجود شوگر مل مالکان ناتو وقت پر گنے کی کرشنگ شروع کرتے ہیں اور ناہی گنے کی قیمت پر عمل سرآمد کرتے ہیں۔ سندھ میں 320,000 ہیکٹر رقبہ پر گنا کاشت کیا جاتا ہے جو زیادہ تر زریں سندھ میں کاشت ہوتا تھا۔ لیکن گزشتہ کچھ عرصہ کے دوران سندھ کے بالائی علاقوں میں صرف گھوٹکی ہی میں پانچ شوگر ملیں قائم کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ ناصرف صوبے میں ملوں کی تعداد میں اضافہ ہوا بلکہ متعدد ملوں کی گنا کرشنگ کی صلاحیت بھی 4 ۔ 5 ہزار ٹن سے بڑھ کر 10۔ 12 ہزار ٹن ہوگئی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ چینی کا کاروبار کس حد تک منافع بخش ہے۔ مزید یہ کہ گنے سے چینی کے علاوہ دیگر مصنوعات بھی حاصل ہوتی ہیں۔ ماہر اقتصادیات قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ چینی کے شعبہ کے انتطامی ڈھانچہ میں ہی تقص پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے فیصلے کا اختیار مل مالکان کے پاس ہے۔ 38 ملوں کے مالکان فیصلہ کرتے ہیں کہ کس قیمت پر گنا خریدا جائے۔
(ڈان، 17 دسمبر، صفحہ2 بزنس اینڈ فنانس)

سندھ آبادگار بورڈ نے گنے کی کرشنگ میں تاخیر کے خلا ف بے نظیر آباد میں احتجاج کرنے والے کسانوں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی مذمت کی ہے۔ بورڈ نے خبردار کیا ہے کہ اگر سندھ حکومت نے کاشتکاروں کے خلاف درج جھوٹا مقدمہ واپس نہیں لیا تو وہ صوبہ بھر میں احتجاجی سلسلہ شروع کردیں گے۔ کسان شوگر ملوں کے خلاف احتجاج کررہے تھے اور گنے کی کرشنگ شروع کرنے کے لئے حکومتی عملداری قائم کرنے کا مطالبہ کررہے تھے۔ سندھ آباد گار بورڈ کے ارکان نے کہا کہ حکومت نے 650 غریب کسانوں کے خلاف مقدمہ درج جو حکومتی عملداری کے نفاذ کا مطالبہ کررہے تھے لیکن ملوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی جو حکومت کو چیلنج کررہے ہیں۔
؂(ڈان، 18 دسمبر، صفحہ17)

تمباکو
خیبر پختونخواہ کے کاشتکاروں نے خبردار کیا ہے کہ اگر وفاقی حکومت نے تمباکو کے استعمال پر مجوزہ ’’گناہ ٹیکس‘‘ عائد کیا تو وہ صوبہ بھر میں احتجاجی مہم کا آغاز کریں گے۔ پشاور پریس کلب میں میں تمباکو کے کاشتکاروں کے نمائندے رستم خان نے تمباکو کے استعمال پر گناہ ٹیکس عائد کرنے کی فاقی وزارت صحت کی تجویز کی سخت مذمت کی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ صوبے کے غریب کسانوں کے لیے تمباکو کی فصل کی اہمیت کو سمجھے بغیر بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کو خوش کرنے کے لئے یہ ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ تمباکو خیبر پختونخوا کی ایک اہم فصل ہے جس سے بلواسطہ اور بلاواسطہ ہزاروں افراد کا روزگار وابستہ ہے۔ تقریبا 85 فیصد تمباکو کی فصل کے پی کے میں کاشت کی جاتی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 14 دسمبر، صفحہ16)

پانی
مہمند ایجنسی میں قبائلی جرگے میں مہمند ڈیم کی تعمیر سے متاثر ہونے والے قبائلیوں نے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں بھی دیا مر بھاشا ڈیم کی تعمیر سے کوہستان میں متاثر ہونے والوں کی طرز پر پیشکش کی جائیں۔ جرگہ کے دوران قبائلی عمائدین نے ڈیم کی تعمیر کو خوش آئند قرار دیا۔ تاہم انھوں نے ڈیم پر کام شروع ہونے سے پہلے زمین کی قیمت کوہستان میں ادا کی جانے والی زمین کی قیمت کے برابر مقرر کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈیم کی تعمیرکے بعد علاقہ میں 100 میگاواٹ بجلی مفت فراہم کرنے کے علاوہ صنعتی علاقے کا قیام، آبپاشی کے لئے نہروں کی تعمیر، پینے کے پانی کی فراہمی، غیر تکنیکی ملازمتوں کے لئے مقامی افراد کی بھرتی اور ڈیم سے متعلق چھوٹے ٹھیکے مقامی افراد کودینے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 18 دسمبر، صفحہ6)

نکتہ نظر
ملک میں زرعی پیداوار میں کمی، غربت اور غذائی کمی کی صورتحال اس ہفتے کی ابتدائی چار خبروں سے واضح ہے۔ اس صورتحال کی شدت کا اندازہ تھرپارکر میں بھوک اور غذائی کمی کی وجہ سے بچوں کی اموات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے جنہیں حق کے بجائے امداد دینے کے لیے حکومتی ’’فراخدلی‘‘ بھی قابل شرم ہی کہی جاسکتی ہے۔ جاگیردار اور سرمایہ دارطبقے سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی ایک دن ایوان میں آنے کے لیے بھی عوامی خزانے سے ہزاروں روپے وصول کرتے ہیں لیکن تھر کے غریب خاندانوں کو غذائی تحفظ کے نام پر ایک ہزار روپے دے کر عوام کی توہین کررہے ہیں۔ کپاس کی کاشت میں اضافے کے نام پر حکومت ملک میں جینیاتی فصلوں کی پیداوار کو فروغ دینے کی کوشش کررہی ہے اور اس کے لیے جینیاتی بیج بنانے والی کمپنیوں کے مفاد کے لیے ان ہی کی تجاویز پر حفاظتی قوانین پر نظرثانی پر آمادہ ہے۔ باوجود اس کے کہ یہی کمپنیاں ملک میں مہنگے مداخل فروخت کرکے پیداواری لاگت میں اضافے کی ذمہ دار ہیں جو کسانوں کی آمدنی میں واضح کمی کی ایک بڑی وجہ ہے اور کسانوں کو منڈی، بیج، زہریلی کھاد اور جراثیم کش زہر کا محتاج بنانے اور ماحول کی تباہی کی بھی ذمہ دار ہیں۔ بیج کمپنیوں کے لیے آسانیاں پیدا کرکے کسی طور عوام کا غذائی تحفظ حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ بیج پر کمپنیوں کے قبضے کا خاتمہ کرکے زمین اور پانی جیسے پیداواری وسائل پر بھی کسانوں کا اختیار بحال کیا جائے۔ یقیناًیہ کام کبھی بھی حکمرانوں کی ترجیح نہیں ہوسکتا جو خود سرمایہ دار جاگیردار طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اب براہ راست متاثر ہونے والا کسان مزدور طبقہ ہی جدوجہد کے لیے آگے بڑھے۔

دسمبر 6 تا 12 دسمبر، 2018 

غذائی کمی
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق معدنی تیل اور گیس کے بھاری ذخائر سے مالا مال ضلع سانگھڑ، سندھ میں 53 فیصد بچے غذائی کمی کا شکار ہیں۔ سانگھڑ کی ضلعی انتظامیہ اور محکمہ صحت کے حکام کے ایک اجلاس میں بتایا گیا کہ یہ صورتحال تشویشناک ہے کیونکہ یہ شرح صوبے میں مجموعی طور پر غذائی کمی کے شکار بچوں کی شرح 48 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر سانگھڑ سبھاش چندر نے اس صوتحال کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ حکومت کے صحت کے حوالے سے شروع کیے گئے اقدامات کے تحت ضلع سانگھڑ میں متاثرہ بچوں کو غذائیت کی حامل خوراک (فوڈ سپلیمنٹ) فراہم کرنے کے لیے مہم کا آغاز کیا جائے گا۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 10 دسمبر، صفحہ5)

زراعت
وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق نے زرعی شعبہ کے لئے 82 بلین روپے کے منصوبے کا آغاز کیا ہے۔ منصوبے کا مقصد پیداوار میں اضافہ، پانی کی فراہمی میں بہتری، مال مویشی اور ماہی گیری شعبہ میں ترقی اور زرعی منڈی کا قیام ہے۔ منصوبے کا بنیادی مقصد دیہات میں غربت میں کمی اور چھوٹے کسانوں کی حالت بہتر بنانا ہے۔ وفاقی وزیر برائے قومی غذائی تحفظ و تحقیق صاحبزادہ محبوب سلطان نے پریس کانفرنس کے دوران بتایا ہے کہ مشینی زراعت کو فروغ دینے کے لئے 4 بلین روپے کی سرمایہ کاری کی جائیگی۔ زرعی مشینری کی خریداری کے لیے کسانوں کو 50 فیصد زرتلافی فراہم کی جائے گی، زیادہ پیداوار دینے ولے بیج تیار کیے جائیں گے اور تصدیق شدہ بیجوں کی فراہمی کو بہتر بنایا جائے گا۔ نئے مراکز کے قیام اور جدید طرز کے موجودہ تحقیقی اداروں کو بہتر بنانے کے لئے غیر ملکی ماہرین کی خدمات حاصل کی جائینگی۔ اس کے علاوہ ملک میں کھالوں (واٹر کورسوں) کو بہتر بنانے کے قومی منصوبے نیشنل پروگرام فار امپرومنٹ آف واٹر کورسز ان پاکستان فیز II کے تحت 68.60 بلین روپے کی لاگت سے پانی کی فراہمی کو بہتر بنایا جائے گا۔
(ڈان، 6 دسمبر، صفحہ10)

پاکستان کسان اتحاد کی قیادت میں پنجاب کے مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والے کسانوں نے گزشتہ دو ماہ کے دوران کیمیائی کھاد کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف لاہور کے داخلی راستے ٹھوکر نیاز بیگ پر احتجاجی مظاہر کیا۔ ٹریکٹر ٹرالیوں اور دیگر گاڑیوں پر سوار کسان ٹھوکر نیاز بیگ پر جمع ہوئے اور گاڑیاں کھڑی کرکے ملتان روڈ گاڑیوں کی آمد و رفت کے لئے بند کردیا۔ کسانوں نے مطالبات کی منظوری تک احتجاج جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ کسانوں کے مطالبات میں کیمیائی کھاد ڈی اے پی اور یوریا کی پرانی قیمتوں پر فراہمی، کسان بازار کا قیام، زرعی پالیسی کے لیے کسانوں سے مشاورت اور بورے والا پولیس کی جانب سے کسان رہنماؤں پر درج مقدمات ختم کرنے کے مطالبات شامل ہیں۔
(ڈان، 6 دسمبر، صفحہ2)

وزیر اعلی پنجاب عثمان بوزدار کی جانب سے کسانوں کے حقیقی مسائل کے حل کی یقین دہانی کے بعد پاکستان کسان اتحاد نے ٹھوکر نیاز بیگ، لاہور میں احتجاجی مظاہر ختم کردیا ہے۔ پاکستان کسان اتحاد کی طرف سے جاری کردہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ شوگر مل مالکان نے یقین دہانی کروائی ہے کہ ملیں آج (7 دسمبر) سے گنے کی کرشنگ شروع کردیں گی۔ یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ کسانوں کے خلاف درج مقدمات ختم کرنے کے لیے قانونی طریقہ اختیار کیا جائے گا جبکہ کیمیائی کھادوں کی قیمتوں کو کم کرنے کے لیے اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ٹیوب ویلوں کے بجلی کے بلوں کے معاملہ کو حل کرنے کے لئے سیکریٹری توانائی تجاویز پیش کرینگے۔
(ڈان، 7 دسمبر، صفحہ2)

اقوام متحدہ کا عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت اور امریکی محکمہ خوراک کی جانب سے مشترکہ طور پر زمین کی زرخیزی کے حوالے سے جاری کردہ نقشے (سوائل فرٹیلٹی اٹلس) کے مطابق بلوچستان میں کسان پانی اور دیگر مداخل کی قلت کی وجہ سے گندم جیسی اہم فصلیں کاشت کرنے کی حالت میں نہیں ہیں۔ تقریباً 81 فیصد کسانوں نے شکایت کی ہے کہ صوبہ بھر میں زراعت کے لیے پانی کی قلت سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس کے علاوہ 65 فیصد کسانوں نے اعلی معیار کے بیجوں کی عدم فراہمی کی شکایت کی ہے جبکہ زرعی قرضوں تک رسائی صرف 61 فیصد کسانوں کو حاصل ہے۔
(ڈان، 11 دسمبر، صفحہ10)

گنا
سندھ آباد گار اتحاد نے شوگر مل مالکان کی جانب سے گنے کی کرشنگ شروع نہ کرنے اور سندھ حکومت کی سال 2018-19 کے لئے گنے کی امدادی قیمت مقرر کرنے میں ناکامی کے خلاف ٹھنڈی سڑک، حیدرآباد پر احتجاجی مطاہر ہ کیا۔ مظاہرین نے سندھ حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ اس دوران سڑک کے دونوں اطراف گاڑیوں کی آمد و رفت معطل ہوگئی۔ مظاہرین نے گنے کی قیمت 200 روپے فی من مقرر کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ سندھ کے گنا کمشنر نے مظاہرین سے مزاکرات میں یقین دہانی کروائی ہے کہ اگلے کچھ دنوں میں گنے کی قیمت کا اعلامیہ جاری کردیا جائے گا۔ مظاہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر وعدہ پورا نہ کیا گیا تو وہ احتجاجاً قومی شاہراہ بند کردیں گے۔
(ڈان، 7 دسمبر، صفحہ17)

محکمہ زراعت سندھ نے سال 2018-19 کے لیے گنے کی قیمت 182 روپے فی من مقرر کرنے کا اعلامیہ جاری کردیا ہے۔ سندھ میں کل 38 شوگر ملیں ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ان میں سے 34 ملیں گنے کی کرشنگ کا آغاز کریں گی۔ اب تک صرف چار شوگر ملوں نے کرشنگ کا آغاز کیا ہے جبکہ امکان ہے کہ باقی ملوں میں اعلامیہ جاری ہونے کے بعد کرشنگ شروع ہونے کا امکان ہے۔ پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن نے اخبارات میں ایک اشتہار شائع کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ یہ ملوں کے لیے ممکن نہیں کہ وہ گنے کی قیمت 180 روپے فی من ادا کریں اور منڈی میں فی کلو چینی پر 15 روپے نقصان برداشت کریں۔
(ڈان، 8 دسمبر، صفحہ17)

شوگر ملوں نے حال ہی میں سندھ حکومت کی جانب سے گنے کی قیمت 182 روپے فی من مقرر کرنے کے اعلامیہ کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر دی ہے، جس کے بعد عدالت نے سیکریٹری محکمہ زراعت سندھ کو تمام متعلقہ دستاویزات کے ساتھ 18 دسمبر کو طلب کرلیا ہے۔ درخواست میں موقف اختیا کیا گیا ہے کہ 30 اکتوبر کو سندھ ہائی کورٹ نے صوبائی حکام کو شوگر فیکٹریز کنٹرول ایکٹ 1950 کے تحت شوگر کین کنٹرول بورڈ قائم کرنے اور سیکشن 16 کے تحت گنے کی قیمت مقرر کرنے کے لیے بورڈ کا فوری اجلاس منعقد کرنے کی ہدایت کی تھی۔ شوگر ملوں کے وکیل کی جانب سے عدالت میں 7 دسمبر کو گنے کی قیمت 182 روپے فی من مقرر کرنے کا اعلامیہ پیش کیا گیا اور یہ دعوی کیا گیا کہ متعلقہ حکام گنے کی قیمت مقرر کرتے ہوئے سیکشن 16 کے ضوابط پورے کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
(ڈان، 11 دسمبر، صفحہ17)

چاول
سندھ اور بلوچستان میں چاول ملوں میں بجلی کی طویل بندش کی وجہ سے چاول کی برآمد متاثر ہورہی ہے۔ رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان (ریپ) نے وفاقی اور صوبائی حکام پر سندھ اور بلوچستان کی چاول ملوں کو بجلی کی بندش کا مسئلہ حل کرنے پر زور دیا ہے۔ چاول ملوں کو یومیہ 15گھنٹے تک بجلی کی بندش کا سامنا ہے جس کی وجہ سے چاول کی برآمدات کا عمل بری طرح متاثر ہورہا ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 8 دسمبر، صفحہ13)

ماہی گیری
ایک خبر کے مطابق رواں مالی سال پاکستان سے سمندری خوراک کی برآمد پہلے ہی 11.31 فیصد کم ہوچکی ہے۔ اگر بلوچستان حکومت نے سندھ کی ماہی گیر کشتیوں کو اپنی 12 بحری میل تک سمندری حدود میں شکار کرنے کی اجازت نہیں دی تو برآمدات مزید 80 فیصد تک کم ہونے کا خدشہ ہے۔ سندھ ٹرالرز اونرز اینڈ فشرمین ایسوسی ایشن (اسٹوفا) کے صدر حبیب اللہ خان نیازی کا کہنا ہے کہ اگر بلوچستان حکومت نے پابندی برقرار رکھی تو برآمدات مزید کم جائیں گی اور کارخانے بند ہوجائینگے۔
(بزنس اریکارڈر، 7 دسمبر، صفحہ7)

پانی
محکمہ موسمیات نے خشک سالی کا تیسرا انتباہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے دو بڑے آبی ذخائر تربیلا اور منگلا ڈیم میں پانی کا ذخیرہ نصف سطح پر آگیا ہے جو گزشتہ 9 سالوں کی کم ترین سطح ہے۔ یہ صورتحال اس بات کی علامت ہے کہ ربیع کے موسم میں فصلوں کے لئے پانی کی فراہمی میں کمی کا سامنا ہوسکتا ہے۔ کئی اضلاع خصوصاً سندھ اور بلوچستان میں زراعت اور مال مویشی شعبہ کے مزید متاثر ہونے کے امکانات ہیں۔ جون اور نومبر کے مہینہ میں ملک کے جنوبی علاقوں میں معمول سے کم بارشیں ہوئی ہیں۔ سندھ میں معمول سے منفی 79.9 فیصد، خیبر پختونخوا میں منفی 46.9 فیصد، اور بلوچستان میں منفی 44.2 فیصد بارشیں ہوئی ہیں۔
(بزنس ریکارڈر، 8 دسمبر، صفحہ13)

پولینڈ میں جاری اقوام متحدہ کی موسمی تبدیلی کانفرنس 2018 (کوپ 24) میں انسٹی ٹیوٹ فار انوائرنمنٹل ڈپلومیسی اینڈ سیکیورٹی کی پیش کردہ تحقیق کے مطابق پچھلے 50 سالوں میں سندھ طاس کے دریائی نظام (انڈس بیسن) میں پانی کی سطح میں 20 سے 30 فیصد تک کمی ہوئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کمی سے پاکستان میں پن بجلی کی پیداوار، غذائی تحفظ اور مجموعی قومی پیداوار کے متاثر ہونے کا امکان ہے۔ ماہرین نے تجویز دی ہے کہ کسانوں کو یہ معلومات فراہم کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ کس طرح اپنی فصلوں کو وسعت دے سکتے ہیں اور آنے والے سالوں میں کتنا پانی دستیاب ہوگا۔ پینل میں مدعو وزیر اعظم کے مشیر برائے موسمی تبدیلی ملک امین اسلم کا کہنا تھا کہ ’’سندھ طاس پر یہ تحقیق ہم سے متعلق ہے جس کا ہم خیرمقدم کرتے ہیں۔ ہم آزمائشی منصوبے شروع کررہے ہیں جن میں تمام تر توجہ موسمی تبدیلی سے مطابقت رکھنے والی زراعت پر مرکوز ہوگی‘‘۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 9 دسمبر، صفحہ3)

ایک خبر کے مطابق چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار جنہوں نے تھر میں غذائی کمی اور حاملہ خواتین کے لئے ناقص طبی سہولیات کی عدم فراہمی کی وجہ سے ہونے والی بچوں کی اموات کا نوٹس لیا تھا، آج (12 دسمبرکو) مٹھی کا دورہ کریں گے۔ علاقے کے سابق ارکان سندھ اسمبلی اور دیگر سیاسی شخصیات نے مقامی پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کے دوران اعلان کیا ہے کہ وہ چیف جسٹس کے سامنے سندھ حکومت کی جانب سے ضلع کی واحد نہر رن مائنر میں پانی جاری کرنے میں ناکامی کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کریں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس احتجاج میں بڑی تعداد میں تھری عوام بشمول کسان حصہ لیں گے۔ رن مائنر میں پانی کی عدم فراہمی کی وجہ سے تھرپارکر کی 45,000 ایکڑ زرخیز زمین بنجر ہوگئی ہے۔
(ڈان، 12 دسمبر، صفحہ17)

نکتہ نظر
اس ہفتے کی ضلع سانگھڑ، سندھ میں غذائی کمی سے متعلق سرفہرست خبر اور زراعت کے حوالے سے ذیلی خبریں پاکستان میں رائج نیم جاگیرداری و سرمایہ داری نظام کی سفاکیوں کو بے نقاب کرنے کے لیے کافی ہیں۔ ملک بھر میں جبر و انصافی پر مبنی معاشی و سیاسی نظام میں ہر شعبے میں جاگیرداروں اور ملکی و غیرملکی سرمایہ داروں کے مفادات کو ہر سطح پر ترجیح دی جاتی ہے۔ زرعی شعبہ میں 82 بلین روپے کے منصوبوں کی بنیاد بھی ان ہی سرمایہ داروں کے لیے کاروبار اور منافع کی راہیں کھولنے کا ذریعہ ہی ثابت ہونگی جیسے کہ پچھلی آمرانہ اور نام نہاد جمہوری حکومتوں میں ہوتا رہا ہے۔ موجودہ حکومت سرمایہ دار ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں کی خوشنودی کے لیے بیج اور مشینری ہی نہیں ان سرمایہ دار ممالک کے ماہرین کو بھی پاکستان میں خوش آمدید کہہ رہی ہے۔ حکومت ان منصوبوں کا بنیادی مقصد دیہات میں غربت میں کمی اور چھوٹے کسانوں کے حالات میں بہتری قرار دیتی ہے جو دیہات میں رہنے والی آبادیوں کے ان کے مقامی وسائل پر اختیار کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتے۔ اگر زیادہ پیداوار ہی خوشحالی کی ضمانت ہے تو گیس و تیل کی دولت سے مالا مال ضلع سانگھڑ کے بچے بھوک کا شکار کیوں ہیں؟ سانگھڑ سمیت ملک کے ہرکونے میں آبادیوں میں بھوک، غربت اور بیروزگاری کی بنیادی وجہ زمین، بیج، پانی، جنگلات، معدنیات جیسے وسائل پر جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کا قبضہ اور نیولبرل ایجنڈے پر عملدرآمد ہے۔ یہی طبقہ ملکی ایوانوں اور اداروں میں بیٹھ کر استحصال پر مبنی پالیسیوں کے ذریعے اپنے اقتدار کو مستحکم کرتا ہے۔ اس استحصال کے خاتمے کے لیے اس کی شکار آبادیوں کو ہی میدان عمل میں آنا ہوگا۔

 نومبر29 تا 5 دسمبر، 2018
زمین
ایک خبر کے مطابق پشاور کے علاقے شاہی بالاند کے مکینوں نے مبینہ طور پر علاقے کی زرخیز زمینوں کے لئے پانی روکنے پر چیف جسٹس سپریم کورٹ سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ پشاور پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کسان گل باچا کا کہنا تھا کہ نجی رہائشی منصوبے کے لیے زمین نہ دینے کی پاداش میں گزشتہ ایک سال سے تقریباً دو ہزار ایکڑ زرعی زمین کو پانی کی فراہمی معطل ہے۔ کسانوں کے مطابق وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے متعلقہ ادارے کو آبیانہ ادا کرتے آئے ہیں۔ گل باچا نے الزام عائد کیا کہ ڈیفنس ہاؤسنگ اسکیم نے ان سے جبراً زمین خریدی لیکن 60 سے 70 کسانوں نے اپنی وراثتی زمین فروخت کرنے سے انکار کردیا تھا جس کی وجہ سے ان کی زرعی زمینوں کے لیے پانی کی فراہمی روک دی گئی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 4 دسمبر، صفحہ19)

زراعت
سندھ ایگریکلچرل پالیسی 2018-30 کے حوالے سے محکمہ زراعت سندھ کی جانب سے حیدرآباد میں منعقدہ کیے گئے ایک ورک شاپ میں خوراک و زراعت کے عالمی ادارے فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزشن (فاؤ) کے پالیسی سازوں کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت کی پہلی زرعی پالیسی پر عملدرآمد کے لئے ضروری ہوگا کہ ایک واضح طریقہ کار اپنایا جائے۔ مزید یہ کہ پالیسی پر عملدرآمد کے لئے ضروری ہے کہ صلاحیت و مہارت کو اپنایا اور ان میں اضافہ کیا جائے۔ پالیسی مبصرین نے سندھ کے زرعی شعبہ میں 7 فیصد بڑھوتری کا ہدف حاصل کرنے کے لئے تحقیق و ترقی کے شعبہ میں سرمایہ کاری پر زور دیا ہے۔ زرعی شعبہ میں بڑھوتری کی یہ شرح اس وقت 3 فیصد ہے۔
(ڈان، 5 دسمبر، صفحہ17)

وزیر ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن پنجاب حافظ ممتاز نے لاہور میں چوتھی چین پاکستان زرعی نمائش کے آغاز کے موقع پر اس امید کا اظہار کیا ہے کہ سی پیک سے زرعی شعبہ میں تعاون کی نئی راہیں کھلیں گی اور بیج، کیمیائی کھاد اور کیمیائی زہر (پیسٹی سائیڈ) پر مبنی ٹیکنالوجی کا تبادلہ ہوگا۔ نمائش کی افتتاحی تقریب میں بڑے پیمانے پر لوگوں نے شرکت کی اور چینی و پاکستانی کمپنیوں کی جانب سے قائم کیے گئے نمائشی اسٹال میں دلچسپی کا اظہار کیا۔
(ڈان، 5 دسمبر، صفحہ10)

گنا
سندھ میں 38 میں سے 4 شوگر ملوں نے شوگر فیکٹریز کنٹرول ایکٹ 1950 کے تحت مقرر کردہ تاریخ 30 نومبر، پر کرشنگ شروع کردی ہے۔ جن ملوں نے کرشنگ شروع کی ہے ان میں مٹیاری شوگرمل، خیرپور شوگرمل، بھانڈی شوگرمل اور سانگھڑ شوگرمل شامل ہیں۔ متعد شوگر ملوں نے پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے فیصلے کی تائید کی ہے جس نے پہلے ہی گنے کی کرشنگ وقت پر شروع کرنے سے معذوری ظاہر کردی تھی۔ شوگر ملیں گنے کی قیمت فی من 140 روپے مقرر کرنے پر اصرار کررہی ہیں۔
(ڈان، 30 نومبر، صفحہ17)

ایک خبر کے مطابق گنے کے کاشتکاروں اور دو کسان تنظیموں کے ارکان نے گنے کی قیمت 250 روپے فی من مقرر کرنے، گنے کی کرشنگ فوری شروع کرنے اور ملوں کی جانب سے کسانوں کے واجبات کی ادائیگی کے لئے حیدرآباد میں تین روزہ احتجاج کا آغاز کردیا ہے۔ کسانوں نے احتجاجی مہم کا آغاز کرتے ہوئے حیدرآباد پریس کلب پر سندھ حکومت اور ملوں کے خلاف نعرے لگائے۔ کسان تنظیموں کے رہنماؤں نے ملوں کی جانب سے کسانوں کے معاشی قتل کی مذمت کی ہے۔
(ڈان، 1 دسمبر، صفحہ17)

وفاقی حکومت اور مل مالکان کے درمیان کرشنگ کے آغاز کے حوالے سے ہونے والے مزاکرات بے نتیجہ رہے ہیں اور کاشتکار ملوں کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے متاثر ہورہے ہیں۔ کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کا خصوصی اجلاس مل مالکان کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے بے نتیجہ رہا جو اپنے مطالبات کی منظوری تک کرشنگ شروع نہیں کرنا چاہتے۔ شوگر ملوں نے کمیٹی کی 15 نومبر سے گنے کی کرشنگ شروع کرنے کی ہدایت کے برخلاف اب تک گنے کی کرشنگ شروع نہیں کی ہے۔ کرشنگ میں تاخیر سے کسانوں کو گندم کی اگلی فصل کی کاشت میں پریشانیوں کا سامنا ہوسکتا ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 1 دسمبر، صفحہ20)

ایک خبر کے مطابق حکومت نے شوگر ملوں کو مزید ایک لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے اور ایک ملین ٹن چینی کی برآمد پر عائد شرائط نرم کردی ہیں۔ ملوں پر 15 نومبر تک کرشنگ شروع کرنے پابندی بھی ختم کردی گئی ہے۔ وزیر خزانہ اسد عمر کی سربراہی میں اقتصادی رابطہ کمیٹی نے شوگر ملوں کو زرتلافی کی مد میں حکومت پر واجب الادا رقم میں سے فوری طور پر 2 بلین روپے ادا کرنے کا حکم بھی دیا ہے تاکہ ملیں گنے کی کرشنگ کا آغاز کرسکیں جو پہلے ہی تاخیر کا شکار ہے جس کی وجہ سے کسان مشکلات کا شکار ہیں۔ اکتوبر کے پہلے ہفتے میں کمیٹی نے ایک ملین ٹن چینی اس شرط کے ساتھ برآمد کرنے کی منظوری دی تھی کہ ملیں 15 نومبر کو کرشنگ کا آغاز کریں گی اور صرف وہ ملیں چینی برآمد کرسکیں گی جنہوں نے کسانوں کے گزشتہ سال کے بقایاجات ادا کردیے ہوں۔
(ڈان، 5 دسبر،صفحہ10)

پانی
سینٹ کمیٹی برائے آبی وسائل میں چیئرمین واٹر اینڈ پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) مزمل حسین نے کہا ہے کہ دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم کے تعمیراتی کام کا آغاز بلترتیب فروری اور مئی 2019 میں ہوگا۔ کمیٹی کو مختصر جائزہ پیش کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان میں کچھی کنال سے 74,000 ایکڑ فٹ پانی ترسیل کرنے کا نظام موجود نہیں ہے۔ صوبے میں صرف 10,000 ایکڑ فٹ پانی کی ترسیل کا نظام موجود ہے۔ اجلاس کے دوران سنیٹر حاصل بزنجو کا کہنا تھا کہ مہمند و دیامر ڈیم کی تعمیر کے لئے وزیراعظم اور چیف جسٹس فنڈ کی رقم کو بلوچستان میں 100 ڈیم بنانے کے لئے استعمال کرنا چاہیے۔ سینٹر عثمان کاکڑ کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں 12 ملین ایکڑ سے زیادہ پانی ضائع ہورہا ہے اور صوبہ میں آبی ذخائر بنانے کے لئے 500 بلین روپے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ صوبے میں آبی ذخائر کی تعمیر کو سی پیک منصوبے میں شامل ہونا چاہیے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 29 نومبر، صفحہ3)

ایوان زرعت سندھ نے صوبے میں پانی کی قلت برقرار رہنے کی صورت میں خشک سالی کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ ایوان زراعت سندھ، لاڑکانہ کے صدر سید سراج الاولیاء راشدی نے نہروں میں پانی کی کمی کی صورتحال کو انتہائی سنگین قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ صورتحال زرخیز زمینوں کو بنجر بنادے گی۔ ان مسائل کا حل صرف پانی کی منصفانہ تقسیم کے ذریعے ہی نکالا جاسکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سوائے سندھ کے تمام صوبوں میں پانی کی فراہمی کے لئے وارہ بندی کی جارہی ہے۔ مبینہ طور پر بااثر افراد آبپاشی حکام کو رشوت دے کر بلا تعطل پانی حاصل کررہے ہیں اور آبپاشی حکام کی سرپرستی میں پانی کی چوری جاری ہے۔
(ڈان، 29 نومبر، صفحہ17)

غذائی کمی
مٹھی سول ہسپتال، تھرپارکر میں گزشتہ دو دنوں میں غذائی کمی اور پانی سے ہونے ولی بیماریوں سے مزید سات بچے جانبحق ہوگئے ہیں جس کے بعد اس سال مرنے والے بچوں کی تعداد 595 تک پہنچ گئی ہے۔ متاثرہ بچوں کو ہسپتال لانے والے والدین کا کہنا ہے کہ غذائی کمی اور مسلسل آلودہ پانی کا استعمال تھر میں بچوں کی اموات کی وجوہات ہیں۔ والدین کا مزید کہنا تھا کہ وہ کنوؤں کا انتہائی آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں کیونکہ ان کے پاس پانی کے حصول کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے۔
(ڈان، 4 دسمبر، صفحہ17)

غربت
وزیر بلدیات و دیہی ترقی سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ تھرپارکر میں بنیادی سہولیات کی فراہمی کی منصوبہ بندی کے تناظر میں بنیادی ضروریات کا حامل ایک مثالی گاؤں تعمیر کیا گیا ہے۔ یہ گاؤں 500 گھرانوں پر مشتمل ہے جہاں پینے کا صاف پانی، نکاسی آب کی سہولیات، مچھلیوں کے تالاب، ہسپتال کی جدید سہولیات اور دو تعلیمی مراکز بھی قائم کئے گئے ہیں۔ صوبائی وزیر نے زرائع ابلاغ کو مزید بتایا ہے کہا ہے اس مثالی گاؤں میں لوگ رہائش اختیار کرچکے ہیں اور اسی طرز پر تھرپارکر کے دیگر دیہات کو بہتر بنانے پر کام کیا جارہا ہے۔
(ڈان، 5 دسمبر، صفحہ17)

کپاس
وفاقی حکومت نے زمینی راستے سے کپاس کی درآمد کے لیے حفاظتی معیارات پر عمل درآمد کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے قوانین (پلانٹ کورنٹین رولز) میں ترمیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے حالیہ اجلاس میں طورخم بارڈر سے کپاس کی درآمد کے معاملے پر بحث کے بعد کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق ملکی کپڑے کی صنعت میں کپاس کی سالانہ کھپت 12 سے 15 ملین گانٹھیں ہے جسے پوری کرنے کے لئے پاکستان کپاس درآمد کرتا ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 3 دسمبر، صفحہ1)

ماہی گیری
پاکستان میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی نے 22 بھارتی ماہی گیروں کو گرفتار کرکے ان کی تین کشتیوں کو ضبط کرلیا ہے۔ ایجنسی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ماہی گیروں کو پاکستانی سمندری حدود میں غیر قانونی طور پر شکار کرنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 1 دسمبر، صفحہ3)

نکتہ نظر 
اس ہفتے کی سرفہرست خبر ملک میں بڑھتی ہوئی سرمایہ دارانہ پالیسیوں کے نفاذ کو واضح کررہی ہے۔ ایک طرف حکومت کی جانب سے کسانوں کو زرعی کمپنیوں کو نوازنے کے لیے مختلف مراعات دے کر زرعی مشینری، مخصوص بیج اور کھاد کے استعمال کو فروغ دے کر کسانوں کی خوشحالی کی امیدیں دلائی جاتی ہیں لیکن دوسری طرف کہیں صنعتی علاقوں کے قیام اور کہیں اشرافیہ کے لیے تعمیر ہونے والے رہائشی منصوبوں کے لیے کسانوں اور دیگر شعبہ سے وابستہ آبادیوں کو بیدخل کرنے کا عمل تقریبا پورے ملک میں جاری ہے۔ بات چاہے توانائی منصوبوں کے لیے تھرپارکر کے عوام کی بیدخلی کی ہو یا حطار میں اقتصادی زون کی تعمیر کی ہر سطح پر چھوٹے اور بے زمین کسان مزدور ہی اس نام نہاد ترقی کی قیمت ادا کررہے ہیں۔ حکومت کی مجموعی پالیسی سازی اشرافیہ کے مفادات کا ہی تحفظ کرتی ہے، سرکاری عملداری کا غریب شہریوں چاہے وہ کسان ہوں یا مزدور، خوب زور چلتا ہے لیکن جب شوگر مل مالکان کی بات ہو تو حکومت مزاکرات کرکے انہیں مراعات اور شرائط میں نرمی کی پیشکش کرتی ہے حالانکہ گنے کے کاشتکار کئی ماہ سے قیمت میں کمی، بقایاجات کی عدم ادائیگی اور کرشنگ شروع نہ کرنے کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ یہ صاف ظاہر ہے کہ یہ اشرافیہ کی حکومت اشرافیہ کے لیے ہی پالیسی سازی اور ان پر عملدرآمد کرتی ہے ۔ پسے ہوئے استحصال کے شکار طبقات کو ان ناانصافیوں کے خلاف منظم ہوکر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔