نومبر 22 تا 28 نومبر، 2018
زمین
وزیر جنگلات سندھ سید ناصر شاہ نے سندھ اسمبلی کے اجلاس میں بتایا ہے کہ محکمہ جنگلات کی 15,733 ایکڑ زمین جو گزشتہ کئی سالوں سے زیر قبضہ تھی واگزار کروالی گئی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ جنگلات کی کل 3,360,000 ایکڑ زمین میں سے 149,245 ایکڑ زمین پر غیر قانونی قبضہ ہے۔ جنگلات پر قبضہ مافیا کے خلاف جولائی میں ضلعی انتظامیہ، پولیس اور رینجرز کی مدد سے سخت کارروائی کا آغاز کیا گیا تھا۔ ایک سوال کے جواب میں وزیر کا کہنا تھا ان قبضہ گیروں کی تعداد ہزاروں میں ہے جن کے خلاف کارروائی کو وسعت دی جائے گی۔
(ڈان، 23 نومبر، صفحہ16)
بلوچستان حکومت نے کابینہ کے دوروزہ اجلاس کے بعد غیرملکی سرمایہ کاروں کو پٹے پر زمین دینے کے لئے لینڈ لیز پالیسی کا اعلان کردیا ہے۔ وزیر اطلاعات بلوچستان میر ظہور احمد بلیدی نے کہا ہے کہ صوبائی حکومت نے غیرملکی سرمایہ کاروں کو زمین کے مالکانہ حقوق دینے کے بجائے مخصوص مدت کے لئے زمین دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ پٹے پر زمین دینے کی مدت کا تعین بعد میں کیا جائے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ موجودہ لیز پالیسی میں غیرملکی سرمایہ کاروں اور کمپنیوں کے حوالے سے کوئی حکمت عملی نہیں تھی۔
(ڈان، 26 نومبر، صفحہ5)
زراعت
پاکستان پیپلزپارٹی، پنجاب کے سیکریٹری اطلاعات حسن مرتضی کا کہنا ہے کہ پارٹی قیادت نے پھر سے مزاحمتی سیاست اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس حوالے سے کسانوں کے حقوق کے لیے تحریک کا آغاز پہلا قدم ہوگا۔ پیپلز پارٹی 5 دسمبر سے کسانوں کے حقوق کی مہم کا آغاز کرے گی اور پہلا مظاہرہ چنیوٹ میں ہوگا۔ پنجاب کے صوبائی صدر قمرالزماں کائرہ اس مظاہرے کی قیادت کریں گے۔ حسن مرتضی نے مزید کہا کہ شوگر مل مالکان وقت پر کرشنگ شروع نہ کرکے کسانوں کے (مفادات کے) خلاف کام کررہے ہیں جبکہ چنیوٹ میں گزشتہ ایک صدی سے زمین کاشت کرنے والے مزارعوں کو زمین سے بے دخل کیا جارہا ہے۔
(ڈان، 28 نومبر، صفحہ2)
گنا
خیبر پختونخوا کے گنے کے کاشتکاروں نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوری طور پر صوبے میں گنے کی کرشنگ شروع نہیں کی گئی تو وہ 29 نومبر کو پشاور میں صوبائی اسمبلی کے باہر احتجاجی مظاہرہ کریں گے اور مرکزی شاہراہ انڈس ہائی وے کو احتجاجاً بند کردیں گے۔ پشاور پریس کلب پر پریس کانفرنس کے دوران کسان بورڈ خیبر پختونخوا کے صدر رضوان اللہ خان کا کہنا تھا کہ شوگر کین ایکٹ کے تحت عام طور پر گنے کی کرشنگ کا آغاز 15 اکتوبر سے ہوتا تھا جس میں ترمیم کرکے کرشنگ کا وقت بڑھا کر یکم نومبر کردیا گیا۔ لیکن حکومت اور مل مالکان کے درمیان جاری مزاکرات کی وجہ سے کرشنگ میں تاخیر ہورہی ہے اور انہیں خدشہ ہے کہ ملوں کی جانب سے کرشنگ میں تاخیر کی وجہ سے صوبے میں گندم کی کاشت میں تاخیر ہوگی۔ کسان بورڈ خیبرپختونخوا نے گنے کی قیمت 250 روپے فی من قیمت مقرر کرنے اور بلا تاخیر گنے کی کرشنگ شروع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 25 نومبر، صفحہ13)
ایک خبر کے مطابق اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں پیش کی گئی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دیگر ممالک کے مقابلے پاکستان میں گنے کی (فی ایکڑ ) پیداوار بہت کم ہے اور گنے کے زیر کاشت رقبے میں اضافہ کے باوجود سال 2018-19 میں گنے کی پیداوار میں کمی آئی ہے۔ پاکستان میں گنے کی فی ایکڑ اوسط پیداوار 620 سے 700 من ہے جو دیگر ممالک کے مقابلہ میں بہت کم ہے۔ گنے کے زیر کاشت رقبے اور پیداوار کے حوالے سے پاکستان دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے جبکہ فی ایکڑ پیداوار کے حوالے سے پاکستان کا نمبر 53 واں ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے گزشتہ 7 سالوں میں گنے کے زیر کاشت رقبے میں 9 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ گنے کی پیداوار میں 22 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق ہر سال کرشنگ کا موسم شروع ہونے سے پہلے گنے کی پیداواری لاگت کا تعین کرتی ہے اور پیداواری لاگت صوبائی حکومتوں کو بھیجتی ہے۔ سال 2018-19 میں پنجاب کے لئے گنے کی پیداواری لاگت 179 روپے فی من جبکہ سندھ کے لئے 178.08 روپے فی من مقرر کی گئی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 27 نومبر، صفحہ7)
ایک خبر کے مطابق شوگر مل مالکان حکومت پر نادہندہ ملوں کو چینی برآمد کرنے کی اجازت دینے کے لئے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ حکومت نے شوگر ملوں کو چینی برآمد کرنے کی اجازت دیتے ہوئے کچھ شرائط عائد کی تھیں جس میں یہ شرط بھی شامل تھی کہ نادہندہ شوگر ملوں کو چینی برآمد کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اب ملیں چاہتی ہیں کہ حکومت یہ شرط ختم کردے۔ آل پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا کردار ختم کرنے کے لیے گنے کی قیمت اور چینی کی برآمد کو ڈی ریگولیٹ یعنی منڈی پر چھوڑ دیا جائے۔
(دی ایکسرپریس ٹریبیون، 28 نومبر، صفحہ20)
گندم
عالمی تجارتی ادارے (ڈبلیو ٹی او) کے رکن ممالک نے پاکستان کو گندم کی برآمد پر زرتلافی دینے پر عالمی تجارتی ادارے کے قوانین کے تحت کارروائی کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ پاکستان نے حال ہی میں 0.5 ملین ٹن گندم برآمد کرنے کی اجازت دی ہے جس پر زرتلافی دینے پر ڈبلیو ٹی اور کے رکن ممالک نے شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ ان ممالک کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جانب سے گندم کی برآمد پر دی جانے والی زرتلافی اس کی برآمد پر آنے والی لاگت (فریٹ چارجز) سے کہیں زیادہ ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 27 نومبر، صفحہ13)
مال مویشی
پاکستان میں ڈیری منڈی کو ترقی دینے کے لیے اینگرو فوڈز لمیٹڈ اور عالمی بینک کے زیلی ادارے انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن نے مفاہمت کی ایک یاداشت پر دستخط کیے ہیں جس کا بنیادی مقصد پاکستان میں ڈیری صنعتی ترقی کو مستحکم کرنا اور اس کے ممکنہ (کاروباری) فوائد کو بڑھانا ہے۔ دونوں ادارے مال مویشی پالنے والے کسانوں کو بااختیار بنا کر غربت کے خاتمے اور کسانوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لئے کام کریں گے۔ مفاہمت کی یاداشت کے مطابق مال مویشی پالنے والے کسانوں اور دیگر شراکتداروں کو معلومات، ٹیکنالوجی اور مالی وسائل تک رسائی فراہم کی جائے گی اور مال مویشی شعبہ سے وابستہ خواتین کو بااختیار بنایا جائے گا۔
(بزنس ریکارڈر، 24 نومبر، صفحہ17)
حکومت سندھ نے تھر میں مال مویشی پالنے والے مستحق خاندانوں کو ان کی دہلیز پر چارہ پہنچانے کے آزمائشی منصوبے کا آغاز کیا ہے۔ تھر فوڈر ڈسٹری بیوشن پروجیکٹ پر مشترکہ طور پر محکمہ مال مویشی سندھ اور تھر فاؤنڈیشن کے ذریعے ضلع تھرپارکر کی چار یونین کونسلوں میں عملدرآمد ہوگا۔ منصوبے کے تحت 20,000 مویشی پالنے والے خاندانوں کو چارہ فراہم کیا جائے گا۔
(بزنس ریکارڈر، 26 نومبر، صفحہ2)
کپاس
وزیر خزانہ اسد عمر کی سربراہی میں کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں تمام ترحفاظتی معیارات (سینٹری اور سائٹو سینٹری) پر عملدرآمد کی شرط پر طور خم سرحد کے ذریعے افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک سے کپاس درآمد کرنے کی اجازت دیدی گئی ہے۔ آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) کی درخواست پر طور خم سرحد سے کپاس درآمد کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ کپاس کے مقامی درآمد کنندگان کو برآمدی ملک کے محکمہ تحفظ نباتات کی تصدیقی سند (سرٹیفیکٹ) بھی پیش کرنی ہوگی۔ وفاقی وزیر قومی غذائی تحفظ و تحقیق کا کہنا ہے کہ کپاس ایک انتہائی حساس فصل ہے اور مختلف اقسام کے کیڑوں مکوڑوں کی حامل ہوتی ہے جس پر کیڑے مار ادویات کا چھڑکاؤ (فیومیگیشن) ضروری ہے۔ کپاس کی بیماری اور اس کے متوقع منفی اثرات کی جانچ کی سہولت صرف کراچی میں دستیاب ہونے کی وجہ سے پلانٹ کورنٹائن ایکٹ کے تحت صرف سمندری راستے ہی سے کپاس درآمد کی جاسکتی ہے۔
(ڈان، 23 نومبر، صفحہ10)
کینو
ایک خبر کے مطابق کینو کے برآمد کنندگان کو ملائشیا کو کینو کی برآمد میں واضح اضافہ کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ ملائیشیا میں چینی نسل کے لوگ بڑی تعداد میں آباد ہیں جو 5 فروری کو منائے جانے والے نئے سال کی تقریبات کی تیاری کررہے ہیں۔ روایتی طورپر چینی نئے سال کے آغاز پر ایک دوسرے کو کینو بطور مقدس پھل تحفے میں دیتے ہیں۔ اس حوالے سے یہ درست وقت ہے کہ اس پھل کو فروخت کے لیے پیش کیا جائے جو چینیوں میں مقبول ہے۔ کینو کے برآمد کنندہ احمد جواد نے ذرئع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان سے کینو کی برآمد کا ہدف 270,000 ٹن متوقع ہے جبکہ ملک میں 2.2 ملین ٹن کینو کی پیداوار کا اندازہ لگایا گیا ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 24 نومبر، صفحہ13)
پانی
دادو میں محکمہ آبپاشی کی جانب سے پانی کی چوری کے خلاف کارروائی کے نتیجے میں دادو نہر سے نکلنے والی جوہی برانچ نہر دہائیوں بعد پہلی بار اپنی پوری گنجائش کے ساتھ بہہ رہی ہے۔ پانچ روزہ اس کارروائی کے دوران نہروں سے پانی کی چوری کے لئے نصب کئے گئے آلات، پائپ وغیرہ ہٹادیے گئے ہیں۔محکمہ آبپاشی حکام کا کہناہے کہ جوہی نہرمیں 747 کیوسک پانی چھوڑا گیا ہے اور تمام کمزور حصوں کو مضبوط کیا جارہا ہے۔
(ڈان، 28 نومبر، صفحہ17)
نکتہ نظر
اس ہفتے کی خبروں میں سرفہرست خبر جنگلات اور دیگر خبروں میں پیپلز پارٹی کی جانب سے پنجاب میں کسانوں کے حقوق کے لیے احتجاجی مہم چلانے کی خبر شامل ہے۔ یقیناًسندھ میں جنگلات کی زمین واگزار کروانا اچھا عمل ہے اور کسانوں کے حقوق کے لیے احتجاجی تحریک کی بھی مخالفت نہیں کی جاسکتی۔ لیکن یہ دونوں باتیں کسانوں خصوصاً سندھ کے کسانوں کے لیے مضحکہ خیز ضرور ہیں۔ سندھ جہاں زیادہ تر زرعی زمین پر بڑے بڑے جاگیردار قابض ہیں وہاں چھوٹے اور بے زمین کسانوں کی حالت زار کا اندازہ لگانا ہرگز مشکل نہیں کہ آئے دن جبری مشقت کے شکار ہاری خاندانوں پر ظلم کی داستانیں اور کسانوں کے جاگیرداروں اور سندھ حکومت کے خلاف پانی کی غیر منصفانہ تقسیم سے لے کر گنے کی امدادی قیمت کے حصول کے لیے احتجاج کی خبریں عام ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو اگر خود پیپلز پارٹی سندھ میں بھی گنے کا کاشتکاروں اور بے دخل کیے گئے کسانوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتی جو سندھ کے بااثرخاندانوں کی شوگر ملوں کے لیے گنا فراہم کرتے ہیں اور اس کے بدلے پیٹ بھر روٹی سے بھی محروم رہتے ہیں۔ شوگر ملیں کھلے عام عدالتی اور حکومتی احکامات کی دھجیاں اڑاتی ہیں لیکن کسانوں کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ گزشتہ کئی ماہ سندھ میں جھیلوں اور دیگر آبی وسائل پر جاگیرداروں کے قبضے کے خلاف ماہی گیر اور کسان احتجاج کرتے رہے ہیں لیکن بات صرف بیان بازی تک محدورد رہی۔ ضروری ہے کہ کسانوں کے حقوق کا یہ نعرہ ملک بھر کے چھوٹے اور بے زمین کسانوں کے لیے لگایا جائے جنہیں بے زمینی اور جنگلات جیسے پیداواری وسائل پر بڑھتے ہوئے قبضے کی وجہ سے سخت غربت اور غذائی کمی کا سامنا ہے۔
نومبر 15 تا 21 نومبر، 2018
زراعت
سندھ اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران وزیر ریونیو مخدوم محبوب زمان نے صوبائی اسمبلی کو بتایا کہ گزشتہ مالی سال زرعی محصول کی وصولی کا مقررہ ہدف صرف 21 فیصد حاصل کیا جاسکا ہے۔ صوبہ میں زرعی محصول کی وصولی کا نظام تسلی بخش نہیں ہے۔ مالی سال 2017-18 میں زرعی محصول کی وصولی کا ہدف ایک بلین روپے مقرر کیا گیا تھا۔ تاہم کراچی کے علاوہ 23 اضلاع سے صرف 211 ملین روپے ہی وصول کیے جاسکے۔
(ڈان، 15 نومبر، صفحہ16)
گنا
وزیر زراعت سندھ اسماعیل راہو نے سندھ شوگر کین بورڈ کے اجلاس کے دوران تمام شوگر ملوں کو 30 نومبر تک گنے کی کرشنگ شروع کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں لیکن اب تک گنے کی امدادی قیمت مقرر نہیں کی گئی ہے۔ وزیر زراعت کا کہنا تھا کہ حکومت جلد گنے کی قیمت کا تنازعہ حل کرلے گی اور جلد ہی گنے کی قیمت کا اعلامیہ جاری کیا جائے گا۔ کسان چاہتے ہیں کہ گنے کی قیمت 200 روپے فی من مقرر کی جائے جبکہ بورڈ نے 180سے 182 روپے فی من قیمت مقرر کرنے کی سفارش کی ہے۔ محکمہ زراعت سندھ نے فی ایکڑ فصل پر لاگت کا تخمینہ 100,000 روپے پیش کیا ہے جبکہ کسانوں کے مطابق یہ لاگت 130,000 فی ایکڑ تک پہنچ گئی ہے۔ ایک ایکڑ زمین پر تقریباً 650 من گنے کی پیداوار ہوتی ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 21 نومبر، صفحہ 20)
ماہی گیری
سندھ اسمبلی نے وفاقی حکومت سے گہرے سمندر میں مچھلی کے شکار کی لائسنس پالیسی 2018 منسوخ کرنے کا کہا ہے۔ اس حوالے سے پیپلز پارٹی کے رکن سلیم بلوچ اور لیاقت اسکانی کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد میں اس پالیسی کو آئین کی خلاف ورزی اور لاکھوں ماہی گیروں کے روزگار پر یلغار قرار دیا گیا ہے۔ سلیم بلوچ کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے چینی اور کورین کمپنیوں سمیت متعدد غیر ملکی کمپنیوں کو گہرے سمندر میں شکار کے لئے لائسنس جاری کئے ہیں جو انتہائی مہلک جال استعمال کررہی ہیں یہاں تک کہ مچھلی کے بیج بھی شکار کررہے ہیں۔ اس طرح سے مچھلیوں کا شکار کر کے در اصل یہ کمپنیاں ہمارے سمندروں میں پائے جانیوالی مچھلی کی نسلیں ختم کررہی ہیں جس کی قیمت ہمارے ماہی گیر ادا کررہے ہیں۔ پیش کردہ قرارداد کو ایوان میں اکثریت کے ساتھ منظور کرلیا گیا ہے۔
(ڈان، 17 نومبر، صفحہ15)
پاکستان میری ٹائم سیکورٹی ایجنسی نے غیر قانونی طور پر پاکستانی حدود میں مچھلیوں کا شکار کرنے والے 12 بھارتی ماہی گیروں کو گرفتار کرلیا ہے۔ گرفتار ماہی گیروں کی دو کشتیوں کو بھی ضبط کرلیا گیا ہے اور انھیں مزید قانونی کاروائی کے لئے ڈاکس پولیس اسٹیشن کے حوالے کردیا گیا ہے۔
(ڈان، 19 نومبر، صفحہ14)
کپاس
پاکستان کسان اتحاد کے صدر خالد کھوکھر نے کہا ہے کہ کپڑا ملیں واہگہ اور طورخم سرحد کے راستے خام کپاس درآمد کررہی ہیں۔ انہوں نے کپاس کی درآمد کی مخالفت کرتے ہوئے اسے غیر قانونی، مقامی کسانوں اور قومی مفاد کے خلاف قرار دیا۔ تقریبا 50,000 ٹن کپاس سے لدے 300 ٹرک طورخم سرحد پر محکمہ تحفظ نباتات (پلانٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ) اور وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کی منظوری کے منتظر ہیں۔ کپاس درآمد کرنے کی اجازت دینے سے ناصرف مقامی منڈی میں کپاس کی قیمت متاثر ہوگی بلکہ یہ مقامی کپاس کی پیداوار کو بھی نقصان پہنچائے گی کیونکہ سرحد پر درآمدی کپاس کو جراثیم سے پاک کرنے کا نظام (فیومی گیشن) نہیں ہے۔ اس کے علاوہ خام کپاس کی درآمد غیرقانونی بھی ہے کیونکہ یہ صرف محکمہ نباتات کی منظوری اور اس حوالے سے قوانین کے مطابق اقدامات کے بعد صرف کراچی کی بندرگاہ سے ہی درآمد کی جاسکتی ہے جہاں کپاس کو قرنطینہ اور جراثیم سے پاک کرنے کی سہولت موجود ہے۔
(ڈان، 16 نومبر، صفحہ2)
ایک خبر کے مطابق کپاس کی پیداوار میں کمی کی وجہ سے پاکستان کو 1.5 بلین ڈالر مالیت کی 4 ملین گانٹھیں کپاس درآمد کرنا پڑیں گی۔ زرائع کے مطابق کپاس کی درآمد سے ناصرف ملک کے درآمدی اخراجات میں اضافہ ہوگا بلکہ (کپڑے کی) پیداواری لاگت بھی بڑھے گی۔ اس وقت کپاس کی درآمد پر 3 فیصد کسٹم ڈیوٹی، 1 فیصد ایڈیشنل کسٹم ڈیوٹی اور 5 فیصد سیلز ٹیکس نافذہے۔ پاکستان گزشتہ کچھ سالوں سے اوسطاً 10 ملین گانٹھیں کپاس پیدا کررہا ہے جبکہ اس کی طلب 14 ملین گانٹھوں سے زیادہ ہے۔ کپاس کی بوائی ہدف سے 8 فیصد کم ہونے کے بعد کاٹن کراپ اسسمنٹ کمیٹی نے سال 2018-19 کے لئے کپاس کا پیداواری ہدف 14.37 ملین گانٹھوں سے کم کرکے 10.847 ملین گانٹھیں کردیا تھا۔
(بزنس ریکارڈر، 19 نومبر، صفحہ1)
دالیں
ایک خبر کے مطابق عالمی منڈی میں دالوں کی قیمتوں میں کمی کے رجحان کی وجہ سے اس کی برآمدات مالی سال 2017-18 میں کم ہونے کے بعد دوبارہ بڑھنا شروع ہوگئی ہے۔ مالی سال 2018-19 کے ابتدائی چار ماہ میں دالوں کی درآمد بڑھ کر 316,324 ٹن ہوگئی ہے جس کی مالیت 202 ملین ڈالر ہے جبکہ گزشتہ سال اس ہی مدت کے دوارن 172 ملین ڈالر مالیت کی 192,942 ٹن دالیں درآمد کی گئی تھیں۔ عالمی منڈی میں دالوں کی قیمت میں کمی کے برعکس روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے ملک کی تھوک منڈیوں میں دالوں کی قیمت میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ مونگ، مسور اور چنے جیسی متعدد دالوں کی قیمتوں میں جون سے سے اب تک فی کلو 10 روپے اضافہ ہوا ہے۔
(ڈان، 21 نومبر، صفحہ10)
گندم
ایک خبر کے مطابق کئی کسان تنظیموں نے حکومت کی جانب سے گندم کی امدادی قیمت 1,300 روپے فی من برقرار رکھنے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت مہنگائی اور مداخل کی قیمت میں اضافے کے مطابق گندم کی نئی امدادی قیمت مقرر کرے۔ کسان تنظیموں نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ فوری طور پر اعلان کرے کہ سندھ، پنجاب اور پاسکو کے پاس موجود 60 ملین گندم کی بوریوں کی موجودگی میں گندم کی خریداری کا اگلا ہدف کیا ہوگا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ پانچ سالوں سے گندم کی قیمت جمود کا شکار ہے جبکہ (اس دوران) روپے کی قدر میں 50 فیصد کمی ہوئی ہے جس کا مطلب ہے کہ کسانوں کی قوت خرید بھی آدھی ہوگئی ہے کیونکہ انہیں پیداوار کی قیمت میں اضافے کی جازت نہیں دی جارہی۔ اس دوران مداخل کی قیمت بھی 50 فیصد بڑھ گئی ہے جو کسانوں پر مالی بوجھ ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 21 نومبر، صفحہ5)
ایک خبر کے مطابق سندھ حکومت نے گندم کی قیمت فروخت پلاسٹک کی 100 کلو بوری میں 3,250 روپے جبکہ پٹ سن کی بوری میں 3,315 روپے مقرر کردی ہے لیکن آٹا ملوں کو اب تک گندم کی فراہمی شروع نہیں کی گئی ہے۔ پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن، سندھ کے چیئرمین محمد جاوید یوسف کا کہنا ہے کہ صوبائی کابینہ نے چار روز قبل گندم کی قیمت کا اعلان کردیا تھا۔ تاہم محکمہ خوراک گندم کی فراہمی سے گریزاں ہے۔ پنجاب میں ڈیڑھ ماہ پہلے ہی دونوں اقسام کی 100 کلوگرام کی گندم کی بوری کی قیمت 3,250 روپے مقرر کردی گئی تھی اور ملوں کو گندم کی ترسیل بھی جاری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سندھ میں اس سال گندم کی فروخت میں تاخیر کی وجہ ناقابل فہم ہے۔ سندھ میں اس وقت 1.7 ملین ٹن گندم کا ذخیرہ موجود ہے۔
(ڈان، 17 نومبر، صفحہ10)
کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے ملک میں گندم کے 10.2 ملین ٹن اضافی ذخیرے کے تناظر میں 0.5 ملین ٹن گندم زرتلافی کے ساتھ برآمد کرنے کی اجازت دیدی ہے۔ زرتلافی کی مد میں قومی خزانے پر 6.5 بلین روپے کا بوجھ پڑے گا۔ ایک سرکاری عہدیدار کے مطابق کمیٹی کو پیش کی گئی اصل سفارشات میں 3.1 ملین ٹن گندم اور اس سے بنی اشیاء کی برآمد پر 40.5 بلین روپے زرتلافی دینے کی تجویز دی گئی تھی۔ ذرائع کے مطابق پنجاب، سندھ اور پاکستان ایگری کلچر اسٹوریج اینڈ سروسز کارپوریشن کی درخواست پر وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق نے گندم کے ذخائر اور ان کی دیکھ بھال پر آنے والی لاگت کم کرنے کے لئے 3.1 ملین ٹن گندم برآمد کرنے کی تجویز دی تھی۔
(ڈان، 21 نومبر، صفحہ10)
نکتہ نظر
اس ہفتے کی خبروں میں سرفہرست خبر سندھ میں زرعی محصول کی وصولی سے متعلق ہے جس میں خود سندھ حکومت اعتراف کررہی ہے کہ صوبے سے زرعی محصول کی وصولی انتہائی کم ہے۔ صوبہ سندھ میں جہاں ناصرف زیادہ تر زرعی زمین پر بڑے بڑے جاگیردار قابض ہیں بلکہ سیاست اور اقتدار کے ایوانوں پر بھی یہی جاگیردار طبقہ قابض ہے۔ یہ طبقہ حکومت کو معمولی محصول بھی ادا نہیں کرتا لیکن بات جب ہاریوں سے وصولی کی ہو تو یہی جاگیر دار ہاریوں کے پورے خاندان کو غلام بنانے سے بھی دریغ نہیں کرتے جس کا چرچا آئے دن زرائع ابلاغ میں ہوتا رہتا ہے۔ صوبہ سندھ اور مجموعی طور پر ملک بھر میں پالیسی سازی اور طرز حکمرانی تقریباً یکساں ہے۔ ہر شعبہ میں سرمایہ دار اور جاگیردار اشرافیہ کا تحفظ ہر دورحکومت میں جاری ہے، سندھ و بلوچستان کے غریب ماہی گیروں پر بین الاقوامی ماہی گیر تجارتی کمپنیوں کو فوقیت دی جاتی ہے، سخت محنت کے بعد گندم اور گنا اور کپاس کاشت کرنے والے کسانوں کے مفادات پر گندم کے برآمد کنندگان، کپاس کے درآمد کنندگان اور کپڑا ملوں و شوگر ملوں کے مفادات کو ترجیح دی جاتی ہے۔ حالانکہ کپاس کاشت کرنے والے کسان خود بین الاقوامی زرعی کمپنیوں کے بیج اور دیگر مداخل کی وجہ سے سخت نقصان سے دوچار چلے آرہے ہیں اس کے باوجود کپاس کی درآمد کی کھلی چھوٹ دے کر ناصرف انہیں کپاس کی جائز قیمت سے محروم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے بلکہ غیرجانچ شدہ کپاس کی درآمد سے ملکی صنعت و ذراعت کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یہی حال کچھ گنے کے کاشتکاروں کا ہے جن کا استحصال کرنے والے شوگر مافیا کے آگے حکومت بھی بے بس نظر آتی ہے۔ وزیر زراعت سندھ کے شوگر ملوں کو احکامات انتہائی مضحکہ خیز ہیں جس میں انہیں 30 نومبر سے کرشنگ شروع کرنے کی ہدایت تو کی گئی لیکن گنے کی قیمت تاحال مقرر نہیں کی گئی۔یہ یاد رہے کہ گزشتہ سال سندھ کے زیادہ تر علاقوں میں عدالتی حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ملوں نے کسانوں سے مقررہ قیمت سے کہیں کم پر بلا خوف و خطر گنا خریدا، بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ اس سال بھی ملیں اپنی روش پر قائم ہیں۔ ہر سطح پر اس ناانصافی، استحصال اور ظلم کو صرف اور صرف حقیقی جدوجہد سے ہی ختم کیا جاسکتا ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ استحصال کے شکار ملک کے تمام چھوٹے اور بے زمین کسان مزدور یکجا ہوکر جدوجہد کریں۔
نومبر 8 تا 14 نومبر، 2018
زراعت
سنکیانگ ایگریکلچرل یونیوسٹی چائنا اور زرعی یونیورسٹی فیصل آباد نے گرمی براداشت کرنے والی کپاس اور گندم کی اقسام کی تیاری کے منصوبہ پر مشترکہ طور پر کام کرنے کے لئے اتفاق کیا ہے۔ فیصل آباد زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور چینی وفد کے درمیان ملاقات میں گرمی برداشت کرنے والے جین کی شناخت اور نئی اقسام کی افزائش کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 14 نومبر، صفحہ16)
مال مویشی
چین نے گوشت اور اس سے بنی مصنوعات کی برآمدی منڈی تک رسائی کے لیے پاکستان میں منہ کھر کی بیماری سے محفوظ زون قائم کرنے کی پیشکش کی ہے۔ چین میں حفظان صحت کے سخت معیارات کی وجہ سے پاکستانی گوشت اور اس سے بنی اشیاء کی اس وقت چینی منڈی تک براہ راست رسائی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ مشرق وسطی بھی ایسی برآمدات کے لیے بڑی منڈی ہے۔ پاکستانی برآمد کنندگان کی توجہ مشرق وسطی کی منڈی تک محدود ہے۔ مالی سال 2017-18 میں گوشت اور اس سے بنی مصنوعات کی برآمدات میں صرف 2.26 اضافہ ہوا ہے۔ حکام کے مطابق ایک پاکستانی وفد اس وقت چین کے دورے پر ہے اور توقع ہے کہ گوشت کی چینی منڈی تک رسائی کے لیے کچھ پیش رفت ہوگی۔ گوشت کے ایک برآمد کنندہ کاشف اکرم کا کہنا ہے کہ پاکستان بذریعہ ویتنام چین گوشت برآمد کررہا ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 13 نومبر، صفحہ13)
چاول
پاکستانی بیج کمپنی ایم کے سیڈ نے باسمتی چاول کی دو ہائبرڈ اقسام (باسمتی سپر اور پوسا 1121) تیار کرنے کا دعوی کیا ہے جن کی پیداوار 40 فیصد زیادہ اور لمبے چاول پر مشتمل ہوگی۔ چاول کی ان نئی اقسام میں فی ہیکٹر آٹھ ٹن پیداواری صلاحیت ہے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ یہ اقسام مقامی طور پر ڈاکٹر مبشر چیمہ کی سربراہی میں تیار کی گئی ہیں جو تجارتی طور پر آئندہ دو سالوں میں دستیاب ہونگی۔
(بزنس ریکارڈر، 8 نومبر، صفحہ16)
ماہی گیری
وفاقی حکومت کی گہرے سمندر میں مچھلی کے شکار کی ’’پالیسی 2018‘‘ میں مچھلی اور جھینگے کے شکار پر سخت پابندیوں پر ماہی گیروں اور کشتی مالکان میں بے چینی پھیل گئی جو ماہی گیری بند کرکے ہڑتال کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ ماہی گیروں اور کشی مالکان نے اس پالیسی پر شدید تحفظات کیا اظہار کیا ہے جس میں شکار کے لیے سمندر کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جس کا واضح مقصد لائسنس یافتہ ماہی گیروں اور کشتی مالکان کو فائدہ پہنچانا ہے جو 200 بحری میل (ناٹیکل میل) تک شکار کرسکتے ہیں۔ لائسنس نہ رکھنے والے ماہی گیر صرف 12 بحری میل تک شکار کرسکتے ہیں جو صوبائی حکومت کی سمندری حدود ہے جبکہ مقامی ماہی گیر اور کشتی مالکان گہرے سمندر میں بغیر لائسنس کے آزادانہ شکار کا مطالبہ کررہے ہیں جیسے کہ وہ گزشتہ 70 سالوں سے کرتے آرہے ہیں۔ ماہی گیروں نے شکار کرنے والی بڑے تجارتی کشتیوں کو 200 بحری میل کے اندر شکار کی اجازت دینے کی بھی مخالفت کی ہے۔ پاکستان میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی نے بندرگاہ پر ماہی گیروں میں ایک انتباہی پرچہ تقسیم کیا ہے جس میں قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی تنبیہ کی گئی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 8 نومبر، صفحہ2)
گنا
سندھ آبادگار اتحاد نے خبردار کیا ہے کہ اگر 15 نومبر تک گنے کی کرشنگ شروع نہیں کی گئی اور اس کی امدادی قیمت 200 روپے فی من مقرر نہیں کی گئی تو کراچی میں دھرنا دیا جائے گا۔ حیدر آباد پریس کلب میں پریس کانفرنس کے دوران سندھ آباد گار اتحاد کے صدر نواب زبیر تالپور کا کہنا تھا کہ سندھ شوگر کین ایکٹ کے مطابق گنے کی کرشنگ اکتوبر میں شروع ہونی چاہیے لیکن ماہ نومبر کے نو دن گزرجانے کے باوجود اب تک شوگر ملوں کی جانب سے گنے کی کرشنگ شروع نہیں کی گئی اور ناہی سندھ حکومت کی جانب سے گنے کی امدادی قیمت مقرر کی گئی ہے۔ لاکھوں ایکڑ زمین پر گنے کی فصل تیار ہے جس کی کرشنگ میں تاخیر سے کسانوں کو مالی نقصان ہوگا۔
(بزنس ریکارڈر، 10 نومبر، صفحہ3)
چینی کی صنعت نے حکومت پر گنے کی قیمت منڈی میں چینی کی قیمت فروخت کے مطابق مقرر کرنے اور حکومت پر شوگر ملوں کے واجب الادا بقایاجات ادا کرنے پرزور دیا ہے۔ چینی کی صنعت کا کہنا ہے کہ سندھ اور پنجاب میں 89 شوگر ملیں حکومت کی جانب سے چینی کی برآمدی پر دے جانے والی زرتلافی کی مد میں 16 بلین روپے کی عدم ادائیگی اور ملکی منڈی میں چینی کی کم قیمت کی وجہ سے گنے کی کرشنگ شروع کرنے سے گریزاں ہیں۔ چیئرمین مہران شوگر مل محمد قاسم ہشام کا کہنا ہے کہ پنجاب کی ملیں بھی صوبائی حکومت کی جانب سے گنے کی مقرر کردہ قیمت 180 روپے فی من پر کرشنگ شروع کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ گو کہ سندھ حکومت نے اب تک 15 نومبر سے شروع ہونے والے کرشنگ کے موسم کے لیے باضابطہ طور پر گنے کی امدادی قیمت کااعلان نہیں کیا ہے تاہم سندھ حکومت نے گنا کمشنر کو 182 روپے فی من قیمت یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سندھ میں بارشوں اور پانی کی کمی کی وجہ سے اس سال گنے کی پیداوار میں گزشتہ سال کے مقابلے 30 کمی متوقع ہے۔
(ڈان، 11 نومبر، صفحہ11)
خشک سالی
سپریم کورٹ نے تھرپارکر کے ضلعی جج کو خشک سالی سے متاثرہ علاقوں میں حکومت سندھ کی جانب سے کیے گئے اقدامات کے درست اندازے کے لیے آزادانہ تحقیق کرنے کی ہدایت کی ہے۔ یہ ہدایت عدالت میں ایڈوکیٹ جنرل سندھ کی جانب سے ازخود نوٹس کے جواب میں حکومت سندھ کے اقدامات پر مرتب کردہ رپورٹ پیش کرنے کے بعد کی گئی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خشک سالی سے متاثرہ علاقوں کو آفت زدہ قرار دے دیا گیا ہے اور ان متاثرہ علاقوں میں فی خاندان تین ماہ تک 50 کلوگرام گندم تقسیم کرنے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ مقدمے میں سول سوسائٹی کی نمائندگی کرنے والے وکیل فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہا کہ حکومت سندھ نے کئی کمیٹیوں کی جانب سے پیش کردہ سفارشات پر عمل نہیں کیا اور اصل مسئلہ تھرپارکر میں ان سفارشات پر عملدرآمد ناکرنا ہے۔
(ڈان، 8 نومبر، صفحہ14)
پانی
چیف انجینئر سکھر بیراج کی جانب سے وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ کو دریا سندھ میں پانی کے بہاؤ کے حوالے سے مختصر جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ جائزے میں کہا گیا ہے کہ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی کے مطابق اس وقت دریائے سندھ میں 38 فیصد پانی کی کمی ہے جبکہ سکھر بیراج میں پانی اس کی طلب کے مقابلے 22 فیصد کم ہے۔ پانی کی کمی سے نمٹنے کے لیے نہروں میں وارہ بندی کی جارہی ہے۔ وزیر اعلی کا اس موقع پر کہنا تھا کہ وفاق 1991 کے پانی کی تقسیم کے معاہدے کے تحت پانی کی ترسیل یقینی بنائے۔
(ڈان، 9 نومبر، صفحہ17)
ماحول
سندھ کابینہ نے صوبے میں پلاسٹک کے تھیلوں پر مرحلہ وار پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیر اعلی کے مشیر مرتضی وہاب کے مطابق حکومت نے سندھ انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایکٹ کے نفاذ کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت ناقابل تلف پلاسٹک کے تھیلوں کی تیاری، فروخت اور درآمد نہیں کی جاسکتی۔ پہلے مرحلہ میں تین ماہ کے اندر سکھر ریجن میں مکمل پابندی عائد ہوگی جبکہ دوسرے مرحلہ میں کراچی، حیدرآباد اور باقی سندھ میں ناقبل تلف پلاسٹک پر مکمل پابندی عائد کی جائیگی۔
(ڈان، 11 نومبر، صفحہ15)
نکتہ نظر
اس ہفتے کی خبروں میں مال مویشی شعبہ میں چینی سرمایہ کاری اور چینی مدد سے گندم اور کپاس کی گرمی برداشت کرنے والی اقسام کی تیاری کے لیے دونوں ممالک کی یونیورسٹیوں کے درمیان اتفاق رائے کی خبریں شامل ہیں۔ ملک میں گندم، چاول اور کپاس جیسی اہم فصلوں کے بعد زرعی شعبہ کے اہم ستون مال مویشی شعبے میں بھی اب چینی سرمایہ کاری متوقع ہے۔ سرمایہ داروں اور اشرافیہ پر مبنی ہر حکومت میں تمام تر پالیسیوں کے مقاصد یہی بیان کیے جاتے ہیں کہ ان اقدامات سے پیداوار میں اضافہ ہوگا، ملکی برآمدات میں اضافہ ہوگا اور غیرملکی سرمایہ کاری آئے گی جس سے ملک میں خوشحالی ہوگی وغیرہ وغیرہ۔ مزید یہ کہ ان مقاصد کے لیے بڑے بڑے زمینی رقبے غیرملکیوں کو دے دیے جاتے ہیں جبکہ ملک میں کسانوں کی اکثریت بے زمین ہے۔ درحقیقت یہ تمام تر غیرملکی سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی ملکی وسائل، پیداوار اور خودمختاری خصوصا خوراک کی خودمختاری کو غیر ملکی سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں دینے کے مترادف ہے۔ یہ صاف ہے کہ ان دعوؤں میں سچائی ہوتی تو سبز انقلاب کے پچاس سال گزرجانے کے بعد بھی ملک کی آدھی آبادی غذائی کمی اور غربت کا شکار نہ ہوتی، ہر سال لاکھوں بچے غذائی کمی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی بیماریوں سے دم نہ توڑتے۔ صنعتی زراعت کا فروغ، مال مویشی شعبے میں کمپنیوں کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ سے یقیناًملک کے بڑے سرمایہ دار و جاگیرداروں نے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے جو زرعی زمینوں اور دیگر وسائل پر قابض تو ہیں ہی حکومت پر بھی قابض ہوکر کروڑوں عوام کے مستقبل اور غذائی تحفظ و خودمختاری کو غیرملکی کمپنیوں کے ہاتھوں فروخت کررہے ہیں۔ پائیدار اصولوں پر زراعت ہی ملک سے بھوک غربت و انصافی کا خاتمہ کرسکتی ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ ملک کے چھوٹے اور بے زمین کسان مزدور پیداواری وسائل، فیصلہ سازی پر اپنے اختیار کے لیے جدوجہد کا آغاز کریں اور اپنے بیج، پانی، زمین اور ان سب سے جے اپنے ماحول کا تحفظ کریں۔
نومبر 1 تا 7 نومبر، 2018
گندم
پنجاب کی آٹا ملوں نے گندم برآمدکرنے کی مخالفت کرتے ہوئے گندم سے تیار شدہ اشیاء برآمد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ حبیب الرحمن لغاری کی قیادت میں ہونے والے پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن، پنجاب کے اجلاس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ گندم برآمد کرنے کے بجائے آٹا اور گندم سے تیار شدہ دیگر اشیاء کی زمینی اور سمندری راستوں سے برآمد کی اجازت دی جائے۔ اس پالیسی سے ناصرف بند پڑی مقامی آٹا ملیں فعال ہونگی اور ہزاروں افراد کو روزگار ملے گا بلکہ ملک کو مزید زرمبادلہ بھی حاصل ہوگا۔
(ڈان، 1 نومبر، صفحہ2)
محکمہ زراعت پنجاب نے بارانی علاقے کے کسانوں کو گندم کی زیادہ سے زیادہ پیداوار کے حصول کے لیے منظور شدہ بیج کاشت کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ محکمے نے کسانوں پر زور دیا ہے کہ 15 نومبر تک بیجائی مکمل کرلیں اور منظور شدہ بیج نارک 2009،BARS 2009 ، دھرابی 2011، پاکستان 2013، فتح جنگ 2016، احسان 2016، بارانی 2017، اور چکوال 50 کاشت کریں۔ محکمہ کے ترجمان نے مزید تجویز دی ہے کسان ایک ایکڑ زمین پر 40 سے 50 کلوگرام بیج استعمال کریں۔
(بزنس ریکارڈر، 2 نومبر، صفحہ 16)
ایوان زراعت سندھ (سندھ چیمبر آف ایگری کلچر) نے صوبے میں ربیع کے موسم میں پانی کی عدم دستیابی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے گندم کی 50 فیصد بوائی متاثر ہونے کا امکان ظاہر کیا ہے۔ جنرل سیکریٹری زاہد بھرگڑی کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں کسانوں سے زرعی قرضوں کی وصولی معطل کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ زاہد بھرگڑی کا مزید کہنا تھا کہ روہڑی اور نارا کنال میں 50 فیصد پانی کم ہے اور یہ دونوں کنال ہی زیادہ تر گندم کے زیر کاشت رقبے کو سیراب کرتی ہیں۔
(ڈان، 5 نومبر، صفحہ17)
چاول
وزارت تجارت کے حکام نے کہا ہے کہ چاول کو خصوصی مراعات حاصل کرنے والے شعبہ جات کی فہرست میں شامل کرنے کے لیے تجویز تیار کرلی گئی ہے تاکہ اس کی برآمد میں اضافہ کرکے زرمبادلہ حاصل کی جاسکے۔ وزارت یہ تجویز اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اگلے اجلاس میں پیش کرے گی۔ اس وقت پانچ شعبہ جات برآمدات میں اضافے کے لیے سیلز ٹیکس، بجلی اور گیس کی بندش سے استثنی اور بجلی کے نرخو ں میں رعایت حاصل کررہے ہیں۔ حال ہی میں رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن نے حال ہی میں وزیر اعظم کے مشیر برائے تجارت سے ملاقات میں چاول کو اہم برآمدی شعبہ جات کی فہرست میں شامل کرنے ہر زور دیا تھا۔
(ڈان، 1نومبر ،صفحہ10)
غذائی کمی
تھرپارکر کے خشک سالی سے متاثرہ علاقے مٹھی، کالوئی اور نگرپارکر میں غذائی کمی اور پانی سے ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے مزید نو بچے جانبحق ہوگئے ہیں جس کے بعد اس سال مرنے والے بچوں کی تعداد 544 تک پہنچ گئی ہیں۔ محکمہ صحت کے عہدیداروں نے حکومتی موقف دہراتے ہوئے کہا ہے کہ مرنے والے زیادہ تر بچے وزن میں کمی کا شکار تھے جس کی وجہ کم عمری کی شادیاں ہیں۔ مرنے والے بچوں کے والدین کا کہنا ہے کہ ان کے گاؤں میں علاج کی سہولت میسر نہیں جس کی وجہ سے انھیں میلوں دور سفر کرکے مٹھی آنا پڑتاہے۔
(ڈان، 5 نومبر، صفحہ17)
خشک سالی
بلوچستان اسمبلی نے ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے وفاق سے مطالبہ کیا ہے کہ خشک سالی سے متاثرہ علاقوں کو آفت زدہ قرار دیا جائے اور بلوچستان میں خشک سالی سے بری طرح متاثر ہونے والے کسانوں کے لیے فوری طورپر امدادکا اعلان کیا جائے۔ قرارداد بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے ثناء ﷲبلوچ نے پیش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ عالمی اداروں کے مطابق بلوچستان کو طویل عرصے سے خشک سالی جیسے حالات کا سامنا ہے۔ ان حالات میں بلوچستان کو آفت زدہ قرار دینا چاہیے اور وفاق کی جانب سے کسانوں کے لیے امدادی پیکچ کا اعلان کیا جانا چاہیے۔
(ڈان، 6 نومبر، صفحہ5)
گنا
سندھ ہائی کورٹ نے واجبات کی عدم ادائیگی سے متعلق گنے کے کاشتکاروں کی تقریباً 1,300 درخواستوں کا جائزہ لینے کے لئے سات رکنی کمیٹی تشکیل دیدی ہے۔ کمیٹی کے سربراہ گنا کمشنر ہونگے اور دونوں فریقین کے تین تین نمائندے اس کمیٹی میں شامل ہونگے۔ شوگر ملیں اپنے تینوں نمائندے اگلے تین دنوں میں مقرر کریں گی۔ یہ کمیٹی ان درخواستوں کی انفرادی طور پر جانچ کرے گی اور درخواست گزار یا اس کے وکیل کو درخواست میں کیے گئے دعوے کی تصدیق کرے گی۔ درخواست گزار کو لازمی طور پر کمیٹی کے سامنے اپنے دعوے سے متعلق دستاویزات پیش کرنے ہونگے۔ عدالت نے کمیٹی کو لازمی طور پر 45 دنوں میں کام مکمل کرنے اور سیکریٹری محکمہ زراعت کو اس کی رپورٹ عدالت میں جمع کروانے کی ہدایت کی ہے۔
(ڈان، 1 نومبر، صفحہ15)
ایک خبر کے مطابق گنے کی کرشنگ 15 نومبرسے شروع ہوگی جبکہ حکومت نے گنے کی قیمت 180 روپے فی من مقرر کی ہے۔ حسیب وقاص شوگر مل پر گزشتہ سال کسانوں کے 100 ملین روپے واجب لادا تھے اور مل کو غیر قانونی طور پر ننکانہ صاحب سے تحصیل جتوئی، ضلع مظفر گڑھ منتقل کیا گیا تھا۔ بڑی تعداد میں عوام بشمول کسانوں نے احتجاج کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ گنے کا موسم قریب ہے اور حکومت نے بھاولپور اور رحیم یارخان اضلاع جانے والے پل بند کردیے ہیں۔
(ڈان، 5 نومبر، صفحہ6)
ماحول
ایک خبر کے مطابق معیاری اور صاف خورراک کی فراہمی یقینی بنانے کے لئے پنجاب فوڈ اتھارٹی کھیتوں میں سبزیوں اور پھلوں کو کیڑے مکوڑوں سے محفوظ رکھنے کے لیے چھڑکے جانے والے زہر یلے مواد کی لیبارٹری میں جانچ کرے گی۔ اتھارٹی کے ایڈشنل ڈائریکٹر جنرل محمد عثمان کا کہنا ہے کہ کئی کیڑے مار زہر فوری طور پر صاف نہیں ہوتے اور ان کی باقیات سبزیوں اور پھلوں میں رہ جاتی ہیں۔ اتھارٹی قوانین کے مطابق ان زہریلے اجزاء کے استعمال پر نظر رکھے گی۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 1 نومبر، صفحہ11)
پنجاب فوڈ اتھارٹی نے لاہور میں 60 کنال زمین پر آلودہ پانی سے کاشت کی جانے والی سبزیوں کو ضائع کردیا۔ اتھارٹی کے عملے نے شاہدرہ ٹاؤن میں مولی، پالک ، گاجر، تربوز اور دھنیا سمیت مختلف فصلوں کو ضائع کردیا۔ ڈائریکٹر جنرل پنجاب فوڈ اتھارٹی کے مطابق صوبے میں آلودہ پانی سے کاشت کی جانے والی سبزیوں ے خلاف کارروائی جاری رہے گی۔ کیمیائی اجزاء سے آلودہ پانی سے کاشت کی جانے والی سبزیاں ہیپاٹائٹس اور دیگر امراض کی وجہ ہیں۔
(ڈان، 5 نومبر، صفحہ2)
پانی
وزیر اعظم عمران خان نے وزارت قومی غذائی تحفظ وتحقیق کے 9 ملین ایکڑ فٹ پانی کو محفوظ کرنے کے تین بڑے منصوبوں کی منظوری دیدی ہے۔ ملک بھر میں آبی ذرائع (واٹر کورسز) کی مرمت (لائننگ)، کھیتوں میں لیزر کی مدد سے زمین ہموار کرکے اور خیبر پختونخواہ میں چھوٹے ڈیموں اور آبی ذخیروں کے رقبے میں 60 ہزار ایکڑ اضافے کے زریعے پانی کو محفوظ کیا جائے گا۔ واٹر کورسوں کو بہتر کرنے کا منصوبہ نیشنل پروگرام فار امپرومنٹ آف واٹر کورسز ان پاکستان فیز ٹوکا آغازکیا جائیگا اور اس منصوبے کے تحت 73,000 واٹر کورسز کی مرمت کا ہدف حاصل کیا جائے گا۔ یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ حکومت تمام صوبوں خصوصاً سندھ کو زمین ہموار کرنے والے لیزر لیولر پر زرتلافی دے گی۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 1 نومبر، صفحہ3)
زمین
ایک خبر کے مطابق پنجاب حکومت نے سیالکوٹ میں 26 زمینی ریکارڈ کے مراکز قائم کرنے کی منظوری دیدی ہے۔ ایک اعلی عہیدار کے مطابق محکمہ ریونیو نے ان مرکز کی تعمیر کے لئے مناسب جگہوں کی تلاش شروع کر دی ہے۔ یہ مراکز زمین کی منتقلی اور ’فرد‘ کے فوری اجراء میں سہولت فراہم کرینگے۔
(ڈان، 5 نومبر، صفحہ6)
نکتہ نظر
اس ہفتے کی خبروں کی ترتیب ہی ملک میں زرعی شعبہ میں حکومتی پالیسیوں کے تضادات کو واضح کررہی ہے۔ کہیں سرمایہ دار خود گندم کے بجائے اس سے بنی اشیاء کی برآمد کو ترجیح دینے کا مطالبہ کررہے ہیں اور کہیں بچے گندم اور دیگر غذائی اجناس نہ ہونے سے بھوک اور غذائی کمی کی وجہ سے دم توڑ رہے ہیں، خود حکومتی ادارے آلودہ پانی سے اگائی گئی فصلیں تباہ کررہے ہیں لیکن آبی وسائل کو آلودہ کرنے والے صنعتکاروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی اور کہیں خود حکومت ایسے مخصوص بیجوں کو فروغ دے رہی ہے جو بغیر کیمیائی اجزاء، کھاد کے پیداوار نہیں دیتے۔ سرمایہ داری نظام کا خاصہ ہے کہ یہ بھوک اور غربت برقرار رکھتا ہے اور اس کے خاتمے کے لیے پیش کیے جانے والے حل بھی مزید منافع کے حصول کے لیے ہی پالیسی سازی کی صورت عوام پر مسلط کردیے جاتے ہیں۔ اس کی ایک عام مثال ملک میں گنے کی بڑھتی ہوئی پیداوار ہے جس میں گندم اور دیگر غذائی فصلوں کے مقابلے کئی گنا زیادہ پانی استعمال ہوتا ہے جبکہ صرف سندھ میں ہی پانی کی کمی کی وجہ سے گندم کی کاشت میں 50 فیصد کمی کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے ۔ ہر سال کی طرح سرمایہ دار بڑے پیمانے پر گنے سے چینی اور دیگر اشیاء تیار اور برآمد کرکے بھاری منافع حاصل کریں گے جبکہ گنا فروخت کرنے والے چھوٹے کسان گزشتہ سال فروخت کیے گئے گنے کی قیمت کے حصول کے لیے عدالتوں کے دھکے کھارہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اب حکومتی نیولبرل پالیسیوں کے تحت منڈی کے لیے زراعت کرنے کے بجائے ملک کے چھوٹے اور بے زمین کسان خود پائیدار زراعت کے اصول اپناکر صاف خوراک اگائیں جو ناصرف پانی کی کمی، غربت اور غذائی کمی سے خاتمے میں مددگار ہوگی بلکہ کسانوں کے لیے خوراک کی خودمختاری کے حصول کا ذریعہ بھی ثابت ہوگا۔