2018 اگست

اگست 22 تا 29 اگست، 2018
خشک سالی
بورڈ آف ریونیو کے رکن اقبال حسن درانی نے کہا ہے کہ تھر کے عوام کو زیادہ سے زیادہ مدد فراہم کرنے کے لیے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کارڈ کے ذریعے مفت گندم اور وظیفہ فراہم کیا جائے گا۔ حسن درانی، جن کے پاس ریلیف کمشنر کا اضافی عہدہ بھی ہے، نے محکمہ ریونیو، مال مویشی، صحت اور دیگر محکموں سے خشک سالی سے متاثرہ تھر کے عوام اور ان کے مویشیوں کی زیادہ سے زیادہ مدد کے لیے منصوبہ سازی اور ہرممکن کوشش کرنے پر زور دیا ہے۔ ایک غیر سرکاری تنظیم کے سربراہ اللہ نواز سموں نے حکام سے درخواست کی ہے کہ تین ماہ تک متاثرہ خاندانوں کو رعایتی قیمت پر مویشیوں کے چارے کی فراہمی یقینی بنائی جائے جس سے بکریوں کو بچانے میں مدد مل سکتی ہے جو ان غریب عوام کا بنیادی اثاثہ ہیں۔ منتخب یونین کونسلوں میں جہاں پانی کی سطح نیچے ہوگئی ہے اور کنوئیں خشک ہوگئے ہیں وہاں ٹینکروں کی مدد سے پینے کا پانی فراہم کیا جا ئے۔ اس کے علاوہ بچوں اور ماؤں میں خصوصاً حاملہ عورتوں میں دودھ، خوردنی تیل اور گندم تقسیم کیا جائے۔
(ڈان، 26 اگست، صفحہ19)

ایک خبر کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں میں تھرپارکر میں غذائی کمی اور وبائی امراض کی وجہ سے 5 بچے جانبحق اور درجنوں متاثر ہوئے ہیں۔ یہ تمام اموات سول ہسپتال مٹھی میں ہوئی ہیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ بھوک کی شکار حاملہ مائیں ہسپتال آتی ہیں جو مردہ بچوں کو جنم دیتی ہیں۔ ضلع تھرپارکر میں دور دور تک طبی سہولیات کا نام و نشان نہیں ہے کیونکہ اکثر طبی مراکز کا اب تک افتتاح نہیں کیا گیا ہے۔ زمینی حقائق کے برعکس دورہ تھرپارکر کے دوران وزیر صحت سندھ عذرا فضل پیجوہو کا کہنا تھا کہ ان اموات کا سبب غذائی کمی نہیں ہے اور ضلع میں مناسب طبی سہولیات موجود ہیں۔
(بزنس ریکارڈر، 26 اگست، صفحہ17)

چاول
زرعی ماہرین کا کہنا ہے کہ سندھ میں چاول کی پیداوار میں کمی کا خدشہ ہے کیونکہ پانی کی کمی وجہ سے چاول کا زیر کاشت رقبہ کم ہوگیا ہے۔ سندھ زرعی یونیورسٹی، ٹنڈو جام کے پروفیسر محمد اسماعیل قنبر کا کہنا ہے کہ پانی کی کمی کی وجہ سے سندھ میں بیجائی کا عمل تاخیر سے شروع کیا گیا اور تقریباً 30 سے 40 فیصد رقبہ پر چاول کی فصل کاشت نہیں جاسکی ہے۔ پاکستان ہر سال 6.5 سے 7 ملین ٹن چاول پیدا کرتا ہے جس میں سے تقریباً 4 ملین ٹن صوبہ سندھ میں پیدا ہوتا ہے۔ سندھ میں پیدا ہونے ولا چاول زیادہ تر غیرباسمتی اقسام پر مشتمل ہوتا ہے جن میں اری اور کچھ ہائبرڈ چاول کی اقسام شامل ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ تاخیر سے بیجائی کی وجہ سے ابر آلود موسم میں فصل پر کیڑوں مکوڑوں کے حملے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔
(دی نیوز، 26 اگست، صفحہ15)

محمد نواز شریف زرعی یونیورسٹی میں قائم ہونیوالی سائنو۔پاک ایگری بائیو ٹیکنالوجی لیب نے چائنیز اکیڈمی آف ایگریکلچر سائنسز کے اشتراک سے کپاس کے اعلی معیار کے جین تیار کرنے کے لئے تحقیق کا آغاز کردیا ہے۔ لیبارٹری کے قیام کا مقصد کپاس کے ایسے جین تیار کرنا ہے جو گلابی سنڈی، سفید مکھی کے خطرہ سے نمٹنے میں مددگار ثابت ہوں نیز جراثیم اور گرمی کے خلاف مدافعت رکھتے ہوں۔ یہ جدید لیبارٹری حال ہی میں 40 ملین روپے کی لاگت سے تیار کی گئی ہے جس کے لئے 20 ملین روپے چین نے فراہم کئے ہیں جبکہ بقیہ رقم نواز شریف زرعی یونیورسٹی کی جانب سے دی گئی۔
(بزنس ریکارڈر، 27 اگست، صفحہ2)

زراعت
ایوان زراعت سندھ (سندھ چیمبر آف ایگری کلچر) نے حیدرآباد میں اپنے ایک اجلاس میں وفاقی حکومت سے صوبہ سندھ کے کسانوں کے لیے 10 بلین روپے کا امدادی پیکج دینے کی درخواست کی ہے۔ ایون نے تمام چھوٹے کسانوں پر واجب الادا ایک لاکھ اور اس سے کم قرضہ جات معاف کرنے کی درخواست کی ہے تاکہ کسان پیداواری قیمت میں کمی کے نتیجے میں ہونے والے نقصان سے ابھر سکیں، اور وہ کسان جن پر ایک لاکھ سے زائد کے قرضہ جات واجب الادا ہیں انہیں قرض کی ادائیگی کے لیے تین سال کا وقت دیاجائے۔ اجلاس میں مزید کہا گیا ہے کہ سندھ کے کسان وفاقی حکومت کی جانب سے کھاد پر دی جانے والی زرتلافی بند ہونے سے متاثر ہورہے ہیں۔ وفاقی حکومت اس زرتلافی کو بحال کرے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 27 اگست، صفحہ 5)

موسمی تبدیلی
محکمہ موسمیات پاکستان کے مرتب کردہ اعداو شمارکے مطابق معمول کے برعکس پاکستان میں ماہ اگست میں 47 فیصد کم بارشیں ہوئی ہیں جبکہ مون سون ختم ہونے میں صرف دو ہفتے باقی رہ گئے ہیں۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقے سندھ اور بلوچستان ہیں۔ بارشوں میں ہونے والی اس کمی کو ماہر موسمیات نے موسمی تبدیلی قرار دیا ہے۔ یکم جولائی تا 27 اگست کے دورانیہ میں سندھ میں بارشوں میں 87 فیصد اور بلوچستان میں 54 فیصد کمی ہوئی ہے۔
(ڈان، 28 اگست، صفحہ4)

مال مویشی 
اس سال مویشیوں کی کھال کی قیمتوں میں 10 فیصد کمی واقع ہوئی ہے جبکہ عید الاضحی پر مویشیوں کی قربانی میں 5 سے 10 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ سال عید کے موقع پر 7.5 ملین جانوروں کی قربانی کی گئی تھی۔ اس سال گائے کی کھال کی قیمت جو گزشتہ سال 1,700 سے 1,900 روپے تھی کم ہو کر 1,400 سے 1,600 روپے ہوگئی ہے۔ اسی طرح گزشتہ سال بھینس کی کھال کی قیمت 700 سے 900 روپے، بکرے کی 200 سے 250 روپے اور بھیڑ کی کھال کی قیمت 125 سے 150 روپے سے تھی جو بلترتیب کم ہوکر 500 سے 700، 200 سے 225 اور 75 سے 100 روپے ہوگئی ہے۔ پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن کے مرکزی چیئرمین امان اللہ آفتاب کا کہنا ہے کہ اس سال کھالوں کی کل مالیت کا اندازہ 5.5 بلین روپے لگایا گیا ہے۔
(ڈان، 25 اگست، صفحہ10)

پانی
سندھ حکومت نے اپنے پہلے اہم ترین ہدف پانی کے بحران پر قابو پانے کے لیے دو صوبائی وزراء اور ایک مشیر کو آبی صورتحال کا تجزیہ اور بیراجوں کا دورہ کرکے زرعی شعبے کو مزید تباہی سے بچانے کے لیے فوری اقدامات تجویز کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اس حوالے سے صوبائی وزیر کانکنی اور معدنیات میر شبیر علی بجارانی نے سکھر بیراج کا دورہ کیا ہے جبکہ وزیر آبپاشی و خوراک اسماعیل راہو کا کوٹری بیراج کا دورہ جلد متوقع ہے۔ وزیر اعلی کے مشیر سردار محمد بخش خان مہر کو دریائے سندھ کے بالائی اور زیریں بہاؤ کا جائزہ لینے کے لئے گڈو بیراج کا دورہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
(ڈان، 26 اگست، صفحہ19)

خانپور مہرٹاؤن، ضلع گھوٹکی میں کسانوں کی بڑی تعداد نے گجی مائنر میں پانی کی شدید کمی کے خلاف احتجاجی ریلی نکالی۔ پریس کلب پر ریلی کے اختتام پر مظاہرین کا کہنا تھا کہ پانی کی مستقل قلت کی وجہ سے ان کی زمینیں اور کپاس کی کھڑی فصلیں تباہ ہوگئی ہیں۔ مظاہرین نے الزام عائد کیا کہ محکمہ آبپاشی بشمول ڈائریکٹر سندھ اریگیشن اینڈ ڈرینج اتھارٹی (سیڈا) نے ان کے حصے کا پانی کنڈائر شاخ کے دروازے بند کرکے بااثر جاگیرداروں کی زمینوں کی طرف موڑ دیا جس کے نتیجے میں پانی گجی مائنر تک نہیں پہنچا۔ مظاہرین نے متعلقہ حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں معاشی نقصان سے بچانے کے لیے گجی مائنر میں پانی جاری کیا جائے۔
(ڈان، 27 اگست، صفحہ17)

بھارتی آبی کمشنر کی سربراہی میں 9 رکنی وفد پاکستانی ہم منصب سے پاک بھارت مستقل آبی کمیشن کے تحت دو روزہ مزاکرات کے لیے لاہور پہنچ گیا ہے۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ وہ دریائے چناب پر بھارت کے 1,000 میگاواٹ کے پاکل دل اور 48 میگاواٹ کے لوئر کلنائی پن بجلی منصوں کی تعمیر پر پاکستانی تحفظات پیش کریں گے۔ پاکستان کا موقف ہے کہ بھارت کی جانب سے ایسے دنوں میں دونوں منصوبوں کی تعمیر شروع کی گئی کہ جب پاکستان شدید آبی بحران سے گزررہا ہے، بھارت کا یہ عمل سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔
(ڈان، 29 اگست، صفحہ3)

نکتہ نظر
گزشتہ کئی ماہ کی خبروں کی طرح اس ہفتے کی خبریں بھی ملک کے دیگر علاقوں کی نسبت سندھ میں زرعی شعبے کو درپیش مسائل کی سنگینی کو واضح کررہی ہیں۔ موسمی تبدیلی، پانی کی کمی، خشک سالی اور حکومتی عدم توجہ نے صوبے کے چھوٹے اور بے زمین کسانوں کی تکالیف میں بے تحاشہ اضافہ کردیا ہے، خصوصا ضلع تھرپاکر کے محدود پیمانے پر کاشت کرنے والے اور مال مویشی پالنے والے کسان ایسے المیہ سے دوچار ہیں جہاں شاید ہی کوئی دن کسی بچے کی بھینٹ لیے بغیر ڈھلتا ہو۔ سرمایہ داری نظام میں منافع کے لیے اپنایا گیا غیر پائیدار طریقہ پیداوار، قدرتی وسائل پر قبضہ اور جاگیرداری نظام میں کسانوں میں بے زمینی ہی موسمی آفات اور بھوک و غذائی کمی کی وجہ ہیں جس نے پورے ملک خصوصاً سندھ کے چھوٹے اور بے زمین کسانوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ صوبے کے حکمران بھوک اور غذئی کمی سے بچوں کی اموات کو بھی شاید اپنے خلاف سازش تصور کرتے ہیں۔ حیلہ بہانوں سے یہ ثابت کرنے کوشش کی جاتی ہے کہ تھرپارکر میں تمام طبی سہولیات موجود ہیں، خوراک پانی کی صوتحال بہتر ہے۔ یہ ملک بیش بہا قدرتی و پیداواری وسائل سے مالا مال ہے، مسئلہ وسائل پر اختیار اور اس کی منصفانہ اور مساویانہ تقسیم کا ہے جس کے لیے اس ملک کے تمام تر مظلوم طبقات کو ایک ہوکر جدوجہد کرنی ہوگی۔

 

اگست 16 تا 22 اگست، 2018
کسان مزدور
نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن اور سندھ ایگری کلچرل جنرل ورکرز یونین کی جانب سے مشترکہ طور پر مٹھی کے مہاؤ بھیل گاؤں میں منعقد کی گئی کسان کانفرنس میں شرکاء نے بے زمین کسان و کھیت مزدوروں کی غلاموں جیسی صورتحال پر سیاسی و مذہبی جماعتوں کی خاموشی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ مقررین اور کانفرنس میں شرکت کرنے والے بے زمین کسانوں و کھیت مزدوروں کی بڑی تعداد نے سندھ انڈسٹریل ریلیشن ایکٹ 2013 کے مطابق کسان مزدوروں کے حقوق دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ شرکاء نے آبادی کے تناسب سے اسمبلی میں کسانوں کو نمائندگی دینے، زمینی اصلاحات کے ذریعے جاگیرداری کے خاتمے اور تھر کول منصوبہ میں ملازمت کے لئے مقامی لوگوں کو ترجیح دینے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ مقررین کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ پانچ سالوں سے زراعت اور ماہی گیری شعبہ سے منسلک مزدوروں کو سندھ انڈسٹریل ریلیشن ایکٹ کے تحت قانونی طور پر مزدور کا درجہ حاصل نہیں ہے۔ یہ مزدور تنظیم سازی کے قانونی حق سے بھی محروم ہیں جنہیں کسی قسم کی پنشن، امداد اور فلاحی منصوبوں جیسی سہولیات میسر نہیں ہیں۔
(ڈان، 20 اگست، صفحہ17)

خشک سالی
وزیر اعلی سندھ کی سربراہی میں ہونے والے کابینہ کے اجلاس میں حکومت سندھ نے تھر کو خشک سالی سے متاثرہ علاقہ قرار دے دیا ہے۔ صوبائی وزیر سردار شاہ اور وزیر اعلی کے مشیر مرتضی وہاب نے زرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ بورڈ آف ریونیو کے اعلی افسر اقبال درانی کے مطابق تھرپارکر کے تمام 167 دیہات اور عمر کوٹ کے 25 دیہات آفت زدہ ہیں۔ مرتضی وہاب کا کہنا تھا کہ گزشتہ تین ماہ کے دوران مٹھی میں 58 ملی میٹر، اسلام کوٹ میں 24 ملی میٹر، ڈپلو میں 51 ملی میٹر، کالوئی میں 10 ملی میٹر، چھاچھرو میں 105 ملی میٹر، ڈھالی میں 120 ملی میٹر اور نگر پارکر میں 40 ملی میٹر بارش ہوئی ہے۔ تھرپارکر میں 323,435 جبکہ عمر کوٹ میں 43,240 خاندان خشک سالی سے متاثر ہیں۔ صوبائی کابینہ نے متاثرین کو ہر ماہ فی خاندان 50 کلو گرام گندم دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اعلی افسران کو خشک سالی سے متاثرہ علاقے اچھرو تھر، کاچھو اور کوہستان سے بھی متعلقہ ڈپٹی کمشنر کے ذریعے معلومات حاصل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ ان علاقوں میں مقامی افراد کی مدد کی جاسکے۔
(ڈان، 21 اگست، صفحہ17)

حکومت سندھ نے تھرپارکر اور عمرکوٹ اضلاع کو خشک سالی سے متاثرہ قرار دے دیا ہے۔ سانگھڑ میں اچھرو تھر میں رہنے والے اس ہی طرح کی خشک سالی کا شکار ہیں جنہیں نظر انداز کردیا گیا ہے۔ مقامی افراد کا دعوی ہے کہ تعلقہ سانگھڑ اور کھپرو کی سات یونین کونسلوں پر پھیلا ہوا اچھرو تھر بھی (تھرپارکر جیسی) خشک سالی کا شکار ہے جہاں پانچ یونین کونسلیں مون سون بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ علاقے کے مقامی رہائشی کھمن سنگھ چندرا ویر کا کہنا ہے کہ اچھرو تھر میں کم بارشوں کی وجہ سے فصلیں کاشت نہیں کی جاسکتیں اور انسان و مویشی دونوں کے لیے پانی نہیں ہے۔ قانون کے مطابق 15 اگست تک مطلوبہ مقدار میں بارشیں نہ ہوں تو حکومت اس علاقے کو خشک سالی سے متاثرہ علاقہ قرار دینے کی مجاز ہے۔ اسی قانون کے تحت حکومت نے تھرپارکر اور عمرکوٹ کو آفت زدہ قرار دیا ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 22 اگست، صفحہ5)

گنا
پنجاب اسمبلی کے پہلے اجلاس میں رکن اسمبلی فیصل حیات نے جھنگ میں قائم شوگر ملوں کی جانب سے گنے کے وزن میں کٹوتی، کسانوں کو گنے کی ادائیگی میں تاخیر اور گنے کی کم قیمت خریداری کے خلاف قرداد پیش کی ہے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ پنجاب حکومت نے گنے کی قیمت 180 روپے فی من مقرر کی تھی۔ ملوں نے کسانوں سے گنا ادھار پر خریدا اور ضلع جھنگ کی تین شوگر ملیں ابھی بھی کسانوں کو لوٹ رہی ہیں اور انہیں گنے کی فی من قیمت 180 روپے کے بجائے 150 سے 160 روپے ادا کررہی ہیں۔ فیصل حیات حلقہ پی پی 125 سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے کامیاب ہوئے تھے جو بعد میں تحریک انصاف میں شامل ہوگئے۔
(ڈان، 20 اگست، صفحہ6)

مال مویشی 
پاکستان ہرسال عیدالاضحی کے موقع پر قربانی کے جانور سعودی عرب برآمد کرنے کا خواہشمند ہے۔ پاکستان اور سعودی حکومت کے درمیان قربانی کے جانور برآمد کرنے کے لیے بات چیت جاری ہے۔ حال ہی میں مکہ میں ہونے والے حج مشاورتی کمیٹی کے اجلاس میں اس معاملے پر بحث کی گئی ہے اور سعودی عرب میں حاجیوں اور سعودی شہریوں میں بڑھتی ہوئی جانوروں کی طلب پر غور کیا گیا۔ حکام کے مطابق قربانی کے جانوروں کی طلب عیدالاضحی کے موقع پر بڑھ جاتی ہے اور اکثر طلب پوری کرنا دشوار ہوجاتا ہے۔ اس سال ساری دنیا سے 1.6 ملین مسلمان حج ادا کریں گے جن میں پاکستانیوں کی تعداد 184, 210ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 19 اگست، صفحہ2)

سیلاب
چترال کے علاقے دروش میں طوفانی بارشوں کی وجہ سے آنے والے سیلاب سے 60 سے زائد گھر زیر آب آگئے ہیں۔ سیلاب کی وجہ سے مکئی کی کھڑی فصلوں کے ساتھ پھلوں کے باغات بھی متاثر ہوئے ہیں۔ تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا کیونکہ انتظامیہ کی پیشگی اطلاع اور ہدایت کے مطابق متاثرہ گھروں کے افراد پہلے ہی محفوظ مقام پر منتقل ہوچکے تھے۔ سیلاب کی وجہ سے لواری سرنگ جانے والی سڑک دس گھنٹوں سے بند ہے جبکہ دیہات کو پانی کا ترسیلی نظام بھی سیلاب میں بہہ گیا ہے۔
(ڈان، 19 اگست، صفحہ7)

ایسو تھیبو، دادو میں مہر ٹاؤن کے نزدیک رائس کنال کے بند میں شگاف پڑنے کے بعد سیلاب سے سیکڑوں ایکڑ زرعی زمین، پانچ ماہی پروری کے تالاب اور25 رہائشی مکانات شدید متاثر ہوئے ہیں۔ کئی دیہات کے رہائشیوں نے فوری طور پر متاثرہ مقام پر پہنچ کر خود ہی شگاف پر کرنا کا کام شروع کیا۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ مقامی آبپاشی حکام گزشتہ کئی سالوں سے بند کے کمزور حصے کو مضبوط کرنے پر توجہ نہیں دے رہے تھے۔
(ڈان، 19 اگست، صفحہ19)

پانی
چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے کہا ہے کہ چینی توانائی کمپنی نے دیامربھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیے مالی مدد سمیت مختلف پہلؤں پر بات چیت کے لیے ایک تکنیکی ٹیم پاکستان بھیجے میں اپنی دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں مزید کہا کہ چینی توانائی کمپنی (چائنہ پاور کمپنی) کے حکام سے ملاقات میں درخواست کی گئی تھی کہ دیامربھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیے مالی مدد کی جائے جس پر چینی حکام نے یقین دہانی کروائی ہے کہ اس حوالے سے ایک تکنیکی ٹیم پاکستان بھیجی جائے گی۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 17 اگست، صفحہ3)

ماہی گیری
بھارتی ساحلی محافظوں نے 9 پاکستانی ماہی گیروں کو بھارتی سمندی حدود میں داخل ہونے پر گرفتار کرلیا ہے۔ پاکستانی ماہی گیروں کی کشتی بھی ضبط کرلی گئی ہے۔ گرفتار ہونے والے تمام ماہی گیروں کا تعلق کراچی کے علاقہ ابراہیم حیدری سے ہے۔
(ڈان، 21 اگست، صفحہ18)

چاول
رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان (ریپ) کے اجلاس میں ٹرانسپورٹرز کی جانب سے کرایوں میں اچانک اضافے پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ ریپ کے وائس چیئرمین رفیق سلیمان کا کہنا تھا کہ ٹرانسپورٹرز نے کرایوں میں 45 فیصد اضافہ کردیا ہے جو غیرمنصفانہ ہے۔ چاول کے برآمد کنندگان نقل و حمل کے لیے بڑے پیمانے پر ان ٹرانسپورٹرز کی خدمات حاصل کرتے ہیں لیکن ان کی مشاورت کے بغیر ہی اچانک کرایوں میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ چاول کی برآمد کا شعبہ پہلے ہی مسائل کا شکار ہے۔ کرایوں میں اضافے سے چاول کی تجارت بری طرح متاثر ہوگی۔
(بزنس ریکارڈر، 17 اگست، صفحہ5)

آم
ایک خبر کے مطابق پاکستان میں چین کے سفارتکار ژاؤ لی جیان (زولجیان) نے کہا ہے کہ اس سال چین کو پاکستانی آم کی برآمد 10,000 ٹن تک بڑھ جانے کی توقع ہے۔ پاکستان دنیا میں آم پیدا کرنے والا پانچواں بڑا ملک ہے جہاں آم کی سالانہ پیداوار تقریباً 1.8 ملین ٹن ہے۔ پاکستانی آم کی اہم اقسام میں چونسا اور سندھڑی شامل ہیں۔
(بزنس ریکارڈر، 16 اگست، صفحہ19)

پانی
تربیلا ڈیم پانی ذخیرہ کرنے کی اپنی انتہائی حد 1,550 فٹ تک بھر گیا ہے۔ ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 6.047 ملین ایکڑ فٹ ہے۔ تاہم منگلا ڈیم میں پانی کم ہونے کی وجہ سے ملک بھر میں پانی کا مجموعی ذخیرہ تاحال گزشتہ سال کے مقابلے 30 فیصد کم ہے۔ سرکاری حکام کے مطابق منگلا ڈیم میں پانی کی سطح ابھی بھی انتہائی سطح 1,242 فٹ سے 71 فٹ کم ہے۔
(ڈان، 21 اگست، صفحہ10)

نکتہ نظر
اس ہفتے کی خبروں میں سرفہرست خبر سندھ میں بے زمین کسان مزدوروں کے حالات تو بیان کرتی ہی ہے ساتھ ساتھ ان حالات کی وجوہات کی بھی عکاسی کرتی ہے کہ جاگیرداری نظام کی وجہ سے ہی کسان بے زمین ہیں۔ گو کہ ملک بھر میں ہی چھوٹے اور بے زمین کسان مزدور طبقے کے حالات تشویشناک ہیں، معاملہ چاہے گنے کی خریداری کا ہو، آبپاشی نظام کی بدحالی ہو یا موسمی تبدیلی کے نتیجے میں آنے والی سیلاب اور خشک سالی جیسی آفات، لیکن سندھ میں چھوٹے اور بے زمین کسان مزدور جاگیرداری اور سرمایہ داری نظام کے ہاتھوں غلاموں جیسے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں جہاں وڈیرہ شاہی بڑے بڑے زرعی رقبوں کے ساتھ ساتھ اسمبلیوں اور اقتدار پر بھی قابض چلے آرہے ہیں جن کے زیر سایہ سندھ انڈسٹریل ریلیشن ایکٹ پر مکمل طور پر عملدرآمد تقریباً ناممکن نظر آتا ہے۔ سندھ سمیت ملک بھر کے چھوٹے اور بے زمین کسان مزدوروں کے حقوق صرف اورصرف زمین سمیت پیداواری وسائل کی منصفانہ اور مساویانہ تقسیم اور پالیسی سازی میں چھوٹے اور بے زمین کسان مزدوروں کو شامل کرکے ہی حاصل ہوسکتے ہیں جس کے لیے استحصال کے شکار تمام طبقات کو متحد ہوکر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔

اگست 9 تا 15 اگست، 2018
زراعت
عالمی بینک کی 8.87 بلین روپے کی مالی مدد سے جاری سندھ ایگری کلچرل گروتھ پروجیکٹ کے اہداف کے حصول میں ناکامی کا سامنا ہے۔ اہداف کے حصول میں ناکامی کی وجہ سے متعلقہ محکمے منصوبہ کی ابتدائی تخمینہ لاگت (پی سی۔ون) میں ترمیم اور اس منصوبے کے دورانیے کو بڑھانے پر غور کررہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق محکمہ زراعت اور محکمہ مال مویشی میں انتظامی مسائل مقررہ اہداف کے حصول میں ناکامی کی اہم وجہ ہیں۔ دونوں محکموں کو منصوبہ پر مالی سال 2018-19 تک عملدرآد کا ہدف دیا گیا تھا لیکن اہداف پورے نہ ہونے کی وجہ سے اب منصوبے کی مدت میں اضافے کا امکان ہے۔ اس منصوبہ کا مقصد صوبہ سندھ میں زرعی پیداوار اور ڈیری مصنوعات کی پیداوار میں اضافہ کرنا تھا۔ منصوبے کے اہداف میں سرخ مرچ، پیاز، کھجور اور چاول کی پیداوار میں 20 فیصد جبکہ دودھ کی پیداوار میں 4 فیصد اضافہ کرنا شامل ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 13 اگست، صفحہ4)

زمین
سینٹ کمیٹی نے پاکستان ٹورازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن (پی ٹی ڈی سی) کی جانب سے گوادر فش ہاربر اتھارٹی پر 172 ایکڑ زمین پر نجی کمپنی کے قبضے کے تنازعہ کو حل کرنے میں غفلت برتنے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ کمیٹی چیئرمین مولا بخش چانڈیو کا کہنا تھا کہ پی ٹی ڈی سی انتظامیہ نے نجی کمپنی کے خلاف اس وقت کوئی کارروائی کیوں نہیں کی جب کمپنی نے زمین پر 1.25 بلین روپے سرمایہ کاری کی اور اس کے بعد زمین پر اپنا ملکیتی دعوی شروع کردیا۔ نجی کمپنی کے مالک ملک محمد خان نے کمیٹی کو بتایا کہ زمین 2014 میں کوسٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے فراہم کی گئی تھی اور اب زمین پر بھاری سرمایہ کاری کے بعد پی ٹی ڈی سی اس زمین پر ملکیت کا دعوی کررہی ہے۔ ملک محمد خان نے مزید کہا کہ وزیر اعظم کے سابق پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد نے زمین کی منتقلی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے 40 ملین روپے رشوت طلب کی تھی جسے انہوں نے مسترد کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ کمپنی کو 172 ایکڑ زمین کی منتقلی اب تک تاخیر کا شکار ہے۔
(ڈان، 9 اگست، صفحہ5)

پانی
ضلع دادوں میں نہروں میں پانی کی مصنوعی قلت کے خلاف چھوٹے کسانوں اور ہاریوں نے احتجاج کرتے ہوئے محکمہ آبپاشی حکام کے خلاف بااثر زمینداروں کو پانی فروخت کرنے پر کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ احتجاج سندھ پیپلز ہاری کمیٹی کے دفتر سے شروع ہوکر پریس کلب پر اختتام پزیر ہوا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ بااثر جاگیردار محکمہ آبپاشی کی ملی بھگت سے پانی چوری کررہے ہیں۔ کسانوں کو 15,000 ایکڑ پر کھڑی گنے کی فصل کے لیے پانی کی کمی کی وجہ سے شدید نقصان کا سامنا ہے۔ اگر پانی کی یہ قلت جاری رہی تودادو اور تعلقہ جوہی میں 25,000 ایکڑ زمین بنجر ہوسکتی ہے۔
(ڈان، 11 اگست، صفحہ19)

ایک خبر کے مطابق حالیہ بارشوں سے ملک کے اہم آبی ذخائر میں پانی کی سطح میں اضافہ ہوا ہے۔ دریائے چناب میں مرالہ، خانکی اور قادرآباد ہیڈ ورکس پر اونچے درجے کا سیلاب متوقع ہے۔ محکمہ موسمیات کے سیلاب کی پیشنگوئی کے ادارے فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن کا کہنا ہے کہ دریائے چناب پر مرالہ، خانکی اور قادر آباد کے مقام پر اگلے 36 گھنٹوں میں پانی کا بہاؤ سیلابی سطح تک پہنچ سکتا ہے۔ ارسا کے حکام نے اس پیشنگوئی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان تینوں مقامات پر پانی کے بہاؤ کی استعداد 1.1 ملین کیوسک ہے۔ جب پانی کا بہاؤ 400,000 کیوسک تک پہنچے گا تو اس خطرناک صورتحال کو اونچے درجہ کا سیلاب تصور کیا جاتا ہے۔
(ڈان، 15 اگست، صفحہ14)

کھاد کمپنیاں
اینگرو فرٹیلائزرز نے اعلان کیا ہے کہ 30 جون کو ختم ہونے والی ششماہی میں کمپنی کا منافع بعد از محصول 74 فیصد اضافے کے بعد 7.15 بلین روپے ہوگیا ہے۔ گزشتہ سال کمپنی نے اسی مدت کے دوران 4.12 بلین روپے منافع کمایا تھا۔
(ڈان، 11 اگست، صفحہ11)

زرعی قرضہ
اسٹیٹ بینک نے مالی سال 2019 کے لئے زرعی قرضوں کی فراہمی کا ہدف 25 فیصد بڑھا کر 1.25 ٹریلین روپے کردیا ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک کی سربراہی میں زرعی قرض کی فراہمی کے حوالے سے بینکوں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لئے ایگریکلچرل کریڈٹ ایڈوائزری کمیٹی کا اجلاس منعقد کیا گیا۔ اجلاس میں زرعی قرضوں کی فراہمی کے نتائج تسلی بخش قرار دئے گئے ہیں۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ بینکوں نے سال 2018 کے لیے مقرر کردہ 97 فیصد ہدف مکمل کرلیا ہے۔ پہلی بار اسلامک بینک اور تجارتی بینکوں کی اسلامک شاخوں کو 100 بلین روپے زرعی قرض فراہم کرنے کا ہدف دیا گیا ہے۔
(ڈان، 12 اگست، صفحہ12)

خشک سالی
مون سون بارشوں میں تاخیر اور غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے تھر میں سنگین خشک سالی کا خطرہ ہے۔ مکمل طور پر بارشوں پر انحصار کرنے والے اس خطے میں جون اور جولائی کے ابتدائی دنوں میں کچھ علاقوں میں اوسطاً 25 ملی میٹر بارش ہوئی ہے۔ ضلع کے مختلف علاقوں میں کاشت کی گئی روایتی فصلیں بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے اب خشک ہونے لگی ہیں۔ بارشوں کی امید پر دریائی علاقوں سے اپنے مال مویشیوں سمیت گھروں کو واپس آنے والے افراد مایوس ہو کر دوبارہ بدین، عمر کوٹ، میرپورخاص اور دیگر قریبی اضلاع کی طرف نقل مکانی کررہے ہیں۔ نوآبادیاتی دور سے ہی یہ سلسلہ چلا آرہا ہے کہ اگست کے دوسرے تیسرے ہفتہ تک ضرورت کے مطابق بارشیں نہ ہونے کی صورت میں تھرپاکر کو خشک سالی سے متاثرہ علاقہ قرار دے دیا جاتا ہے۔
(ڈان، 14 اگست، صفحہ19)

غذائی کمی
ایک مضمون کے مطابق غذائی کمی پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں اہم ترین سماجی معاشی مسائل میں سے ایک ہے۔ ناکافی و غیر متوازن خوراک اور حفظان صحت و نکاسی آب کی بدتر صورتحال خراب صحت و تعلیم کی وجہ ہے جو معاشی بڑھوتری اور انسانی ترقی میں رکاوٹ بنتی ہے۔ غذائی کمی کے مسائل سے نبٹنے کے لیے پاکستان 2013 سے غذائی کمی کے حوالے سے عالمی مہم اسکیلنگ اپ نیوٹریشن (سن) سے وابستہ ہے۔ صوبہ سندھ بڑھتی ہوئی غذائی کمی سے شدید متاثر ہے جہاں پانچ سال سے کم عمر کے 48 فیصد بچے نشونما میں کمی کے شکار ہیں جبکہ ان میں سے 35 فیصد بچے غذائی کمی کی وجہ سے شدید متاثر ہیں۔ غذائی کمی کی صورتحال کو ناپنے کے عالمی پیمانے گلوبل ایکیوٹ نیوٹریشن (جی اے ایم) کے مطابق تھرپارکر میں غذائی کمی 22.7 فیصد، سانگھڑ میں 16 فیصد اور قمبر شہداد کوٹ میں 13.8 فیصد ہے۔ حال ہی میں صوبائی حکومت کی جانب غذائی کمی کی صورتحال میں تیزی سے بہتری لانے کے منصوبے پر عملدرآمد کے باوجود بھی صورتحال بدتر ہوتی جارہی ہے۔ اس حکومتی منصوبے کا مقصد 2021 تک نشونما میں کمی کے شکار بچوں کی تعداد 48 فیصد سے 30 فیصد تک لانا اور 2026 تک اس شرح کو 15 فیصد تک لانا ہے۔ یہ اعداد و شمار سندھ میں غذائیت کے حوالے سے تشویشناک صورتحال ظاہر کرتے ہیں جس پر حکومت اور زرائع ابلاغ کی جانب سے کم توجہ دی جاتی ہے۔
(مرتضی تالپور، ڈان، 13 اگست، صفحہ4، بزنس اینڈ فنانس)

ماہی گیری
بھارتی قید سے رہا کئے گئے 14 پاکستانی ماہی گیر جن میں تین بچے بھی شامل تھے، کراچی پہنچ گئے ہیں۔ 100 سے زائد پاکستانی ماہی گیر اب بھی بھارتی قید سے رہائی کے منتظر ہیں جو بغیر کسی جرم کے بھارتی جیلوں میں قید ہیں۔
(بزنس ریکارڈر، 11 اگست، صفحہ3)

پاکستانی سمندری حدود کی خلاف ورزی پر گرفتار ہونے والے 26 بھارتی ماہی گیروں کو یوم آزادی کے موقع پر جذبہ خیر سگالی کے تحت رہا کردیا گیا ہے۔ ان ماہی گیروں کو کینٹ اسٹیشن کراچی سے لاہور بھیجا گیا ہے جہاں سے انھیں واہگہ سرحد پر بھارتی حکام کے حوالہ کیا جائیگا۔ ایدھی فاؤنڈیشن نے ان بھارتی ماہی گیروں کے سفری اخراجات ادا کرنے کا اعلان کیا ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 13 اگست، صفحہ4)

گندم
بلوچستان کی احتساب عدالت نے محکمہ خوراک بلوچستان کے چار افسران کو گندم خردبرد کرنے کے الزام میں 10 دن کے جسمانی ریمانڈ پر قومی احتساب بیورو کے حوالے کردیا ہے۔ نیب بلوچستان نے محکمہ خوراک کے ان اہلکاروں کو اختیارات کے ناجائز استعمال اور لاکھوں روپے مالیت کی گندم خردبرد کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا جس کی وجہ سے قومی خزانے کو نقصان پہنچا۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 11 اگست، صفحہ7)

نکتہ نظر
اس ہفتے کی خبروں میں حسب معمول پانی کی قلت کے خلاف دادو میں کسانوں کے احتجاج کی خبر شامل ہے۔ لیکن اگلی ہی خبر ملک میں اہم اداروں میں بد انتظامی اور بدعنوانی کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کو بھی واضح کرتی ہے۔ کیونکہ ایک طرف پانی کے بہاؤ اور ذخائر میں اضافے اور کچھ مقامات پر سیلابی صورتحال کی پیشنگوئی کی جاتی ہے جبکہ دوسری طرف کسان فصلوں کے لیے پانی نہ ملنے پر سراپا احتجاج ہیں۔ اس متضاد صورتحال سے کسانوں کے ان الزامات کی تصدیق ہوتی ہے کہ پانی کی فراہمی میں سرکاری ادارے بدعنوانی کے مرتکب ہوکر بااثر جاگیرداروں کو پانی فراہم کرتے ہیں جبکہ چھوٹے کسان پانی سے محروم ہوکر اپنی فصلوں کی تباہی پر سڑکوں پر احتجاج پر مجبور ہیں۔ ملک میں شکایات درج کرنے سے لے کر انصاف کی فراہمی تک کے ذمہ دار تقریباً تمام اداروں میں صورتحال ایک جیسی ہی ہے جہاں شنوائی صرف طبقہ اشرافیہ یا جاگیردار حکمرانوں کی ہے۔ سندھ میں زرعی پیداوار میں اضافے کے منصوبوں کے دیگر پہلوؤں کو نظر انداز کرکے صرف اس پر عملدرآمد کے حوالے سے بھی نظر ڈالی جائے تو خود افسر شاہی بدانتظامی کا اعتراف کرتی نظر آتی ہے۔ مزید ستم یہ کہ عوامی خوشحالی اور غربت و غذائی کمی کے خاتمے کے نام پر لیے گئے عالمی بینک جیسے اداروں کے قرضوں کا بوجھ بھی غریب عوام ہی برداشت کرتے ہیں۔ ملک بھر میں خصوصاً صوبہ سندھ میں غذائی کمی کے حوالے سے پیش کردہ اعداد وشمار ہی ان منصوبوں کی حقیقت بیان کرنے کے لیے کافی ہیں۔ سرمایہ دار، جاگیر دار حکمران طبقہ اور اس کی افسر شاہی ہر سطح پر ملک کے عوام خصوصاً چھوٹے اور بے زمین کسان مزدوروں کے استحصال میں عالمی سامراجی قوتوں اور اداروں کے ہمراہ پیش پیش ہے جسے صرف اور صرف ان مظلوم طبقات کے اتحاد اور اجتماعی جدوجہد سے ہی شکست دی جاسکتی ہے۔

اگست 2 تا 8 اگست، 2018 

پانی
بالائی سندھ میں پانی کی شدید قلت کی وجہ سے کسان سخت پریشانی کا شکار ہیں۔ پانی کی کمی کی وجہ سے چاول کی بوائی تاخیر کا شکار ہے۔ لاڑکانہ، دادو، خیرپور، قمبر شہدادکوٹ، کشموراور جیکب آبادکے کسان ہزاروں ایکڑ رقبے پر چاول کی کاشت کے لئے پانی کے منتظر ہیں۔ چاول کی فصل لگانے کے لیے زیادہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے اور وافر پانی نہ ہونے کی صورت میں اس کی بوائی نہیں ہوسکتی۔ کسان پانی کی قلت کے خلاف احتجاج کررہے ہیں لیکن ان کے احتجاج کا حکام پر کوئی اثر نہیں ہورہا۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ کچھ ہفتوں میں پانی کی قلت کے خلاف احتجاجی دھرنے دیے گئے اور بھوک ہڑتال بھی کی گئی ہے لیکن ملک میں انتخابات کی وجہ سے جاری سیاسی گہماگہمی کے باعث متعلقہ حکام اس مسئلہ سے آنکھیں چرارہے ہیں۔ پانی کی قلت سے ناصرف چاولوں کی فصل متاثر ہوئی ہے بلکہ پانی کی کمی مختلف برادریوں کے مابین تنازعات کا باعث بھی بن رہی ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 6 اگست، صفحہ4)

چیئرمین واپڈا مزمل حسین نے سپریم کورٹ کے چار رکنی بینچ کے سامنے دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم کا مختصر جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈیموں کی تعمیر کا آغاز اگلے سال ہوگا۔ سات ذیلی کمیٹیاں منصوبوں میں حائل رکاوٹوں کی نشاندہی اور ان کے حل کے طریقہ کار اور زرائع کی نشاندہی کے لیے قائم کردی گئی ہیں تاکہ ان رکاوٹوں کو موثر طریقے سے دور کیا جاسکے۔
(ڈان، 8 اگست، صفحہ16)

کپاس
جنرز اور کسانوں کو خدشہ ہے کہ اس سال غیر میعاری بیج، بیجائی میں تاخیر اور پانی کی کمی کی وجہ سے کپاس کی پیداوار اپنے ہدف 14 ملین گانٹھ کے بجائے 11 ملین گانٹھ ہوگی۔ سرکاری اعداد وشمار ظاہر کرتے ہیں کہ سندھ میں رواں موسم میں کپاس کی کاشت میں گزشتہ سال کے مقابلے 31 فیصد کمی آئی ہے۔ پانی کی شدید کمی کی وجہ سے سندھ میں کپاس کی کاشت ہدف کے مقابلے 68 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے۔ پاکستان کسان اتحاد کے صدر خالد محمود کھوکر کا کہنا ہے کہ کپاس کی پیداوار بمشکل 10 ملین گانٹھوں تک پہنچ سکتی ہے۔
(دی نیوز، 5 اگست، صفحہ15)

زیتون
محکمہ زراعت پنجاب نے کسانوں کو ایک بار پھر تلقین کہ ہے کہ وہ سائنسی بنیادوں پر زیتون کے باغات قائم کرنے کے لیے 13 اگست تک رابطہ کریں۔ باغات لگانے کے لیے کسانوں کو زیتون کے پودے مفت حاصل ہونگے۔ اس کے علاوہ کسانوں کو قطرہ قطرہ آبپاشی نظام پر زرتلافی بھی فراہم کی جائے گی۔ پوٹھوہار کے خطے کو زیتون کی وادی میں بدلنے کے لئے پنجاب حکومت دو ملین زیتون کے پودے کسانوں کو مفت فراہم کررہی ہے۔ اس حوالے سے چکوال، اٹک، جہلم، راولپنڈی، خوشاب اور میانوالی میں سائنسی بنیادوں پر زیتون کے باغات قائم کرنے کے لیے کسانوں سے درخواستیں طلب کی گئی ہیں۔ حکومت ان باغات کے لیے تکنیکی مہارت و مدد بھی مفت فراہم کرے گی۔
(بزنس ریکارڈر، 5 اگست، صفحہ5)

کیمیائی کھاد
صنعتی زرائع کا کہنا ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ طلب و رسد میں فرق کی وجہ سے یوریا کی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ملک کے مختلف علاقوں میں یوریا کی 50 کلو کی بوری کی قیمت 1,800 روپے تک پہنچ گئی ہے۔ خبر کے مطابق سندھ اور پنجاب میں یوریا کی بوری 1,700 روپے جبکہ خیبرپختونخوا میں 1,800 روپے تک میں فروخت ہورہی ہے۔ کسانوں کو تھوک فروشوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے جو مبینہ طور پر یوریا بنانے والے کارخانوں کی مدد سے ذخیرہ اندوزی میں ملوث ہیں۔ یوریا کے کچھ کارخانوں کی بندش کے نتیجے میں یوریا کی ترسیل سست ہونے کی وجہ سے تھوک فروش منڈی میں اس کی قیمت میں اضافہ کررہے ہیں۔ گزشتہ نو ماہ میں یوریا کی قیمت میں 450 سے 550 روپے فی بوری اضافہ ہوا ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 3 اگست، صفحہ13)

تمباکو
جنرل سیکریٹری عوامی نیشنل پارٹی خیبرپختونخوا سردار حسین بابک نے صوبے میں تمباکو کے کاشتکاروں کے استحصال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا کا بہترین معیار کا تمباکو (ورجینیا) کاشت کرنے والے کاشتکاروں کو دو کمپنیوں کے رحم و کرم پر چھوڑدیا گیا ہے جو کم قیمت پر تمباکو خریدتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ عالمی منڈی میں تمباکو کی قیمت میں اضافے کے باوجود ان کی فصل سستے داموں خرید کر انہیں تمباکو کی پیداوار بند کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ تمباکو کے کسانوں کو مخصوص کمپنیوں کی غلامی سے آزاد کروایا جائے اور کھلی منڈی میں تمباکو فروخت کرنے کی اجازت دی جائے۔
(بزنس ریکارڈر، 7 اگست، صفحہ8)

ماحول
عالمی بینک نے ماحولیاتی انتظام کو مستحکم کرنے اور ماحولیاتی شعبے میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے ’’پنجاب گرین ڈیولپمنٹ پروگرام‘‘ کی منظوری دے دی ہے۔ بینک دستاویزات کے مطابق منصوبے کا آغاز اگلے ماہ صوبہ پنجاب میں نئی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی کیا جائے گا۔ پانچ سالہ اس منصوبے پر 273 ملین ڈالر لاگت آئے گی جس میں سے 200 ملین ڈالر (انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ ایسوسی ایشن) عالمی بینک دے گا۔ منصوبے کے تحت پنجاب حکومت ماحول دوست سرمایہ کاری (گرین فنانسنگ) کو فروغ دے گی اور براہ راست نجی و سرکاری شعبے میں ماحول دوست سرمایہ کاری کے لیے مدد کرے گی۔
(ڈان، 6 اگست، صفحہ5)

سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی نے تھرپارکر، سندھ میں گرانو کے آبی ذخیرے میں مچھلی کی افزائش میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ اس حوالے سے گرانو کے مقام پر ایک تقریب کا اہمتام کیا گیا جس میں آبی ذخیرے سے پکڑی گئی مچھلی سے بنے پکوان مہمانوں کو پیش کے گئے۔ یہ آبی ذخیرہ کوئلے کی کان سے نکالے گئے نمکین پانی سے بنا ہے۔ کمپنی زرائع کا کہنا ہے کہ ماہرین ماہی پروری نے اپنی لیبارٹریوں میں نمونوں کی جانچ کی ہے، جس کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ ذخیرہ شدہ پانی بڑے پیمانے پر ماہی پروری کے لیے سازگار ہے۔ کمپنی نے مختلف اقسام کی 100,000 مچھلیوں کے بچے بطور بیج اس آبی ذخیرے میں چھوڑے تھے۔ یہ مچھلی مکمل طور پر نامیاتی ہے جس کی افزائش میں کوئی مصنوعی کیمیائی اجزاء استعمال نہیں کیے گئے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 6 اگست، صفحہ5)

غذائی کمی
محکمہ منصوبہ بندی و ترقی پنجاب نے شعبہ غذائیت (نیوٹریشن سیکشن / SUN) اور ہیومن ڈیولپمنٹ فاؤنڈیشن کے اشتراک سے پنجاب میں ماں اور بچے کی صحت سے متعلق شعور بیدار کرنے کی مہم “امید سے آگے” کا آغاز کردیا ہے۔ ملک میں غذائی کمی کی وجہ سے سالانہ چار لاکھ سے زائد مائیں و بچے موت کا شکار بن جاتے ہیں۔ شعبہ صحت و غذائیت / اسکیلنگ اپ نیوٹریشن (SUN) پنجاب کے ترجمان سلیم مسیح کا کہنا تھا کہ غذائی کمی کئی پہلو پر مشتمل مسئلہ ہے جس میں صحت، تعلیم، پانی، نکاسی جیسے دیگر عوامل کارفرما ہیں۔
(بزنس ریکارڈر، 8 اگست، صفحہ13)

غربت
سینٹ کی قائمہ کمیٹی نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کی جانب سے غربت کی شکار عورتوں کے سروے میں تاخیر پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ تین سالوں سے کمیٹی بی آئی ایس پی کو سروے مکمل کرنے کی ہدایت کررہی ہے جو دو ماہ میں مکمل کیا جاسکتا ہے۔ بی آئی ایس پی پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصول کے لیے انتہائی اہم سرکاری ادارہ ہے۔ اس پروگرام کے لیے 90 فیصد مالی وسائل حکومت فراہم کرتی ہے جبکہ بقیہ 10 فیصد رقم ایشیائی ترقیاتی بینک، عالمی بینک جیسے امدادی اداروں سے حاصل ہوتی ہے۔ قائمہ کمیٹی کے چیئرمین سینٹر محمد عثمان کاکڑ کا کہنا تھا کہ ماضی میں غربت پر کیے گئے سروے 50 فیصد غلط (اعداوشمار پر مبنی) تھے۔ غریبوں میں تقسیم کردہ 50 فیصد رقم غیرضرورتمند افراد میں تقسیم ہوئی۔ سیکریٹری بی آئی ایس پی عمرحامد خان نے کمیٹی کو بتایا کہ ستمبر میں رقم جاری ہوتے ہی سروے کا کام شروع کردیا جائے گا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ماضی میں کیے گئے سروے تقریباً 20 فیصد غلط (اعدادوشمار پر مبنی) تھے۔
(ڈان، 8 اگست، صفحہ4)

نکتہ نظر 
اس ہفتے کی سرفہرست خبر سندھ میں پانی کی قلت کے حوالے سے ہے۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے تواتر کے ساتھ ملک بھر میں خصوصاً سندھ میں پانی کی شدید قلت سے خریف کی فصلوں کو ہونے والے نقصانات کی خبریں آرہی ہیں جو اب تشویشناک صورتحال کی طرف اشارہ کررہی ہیں۔ سندھ میں کپاس کی بیجائی پانی کی کمی سے شدید متاثر ہوئی ہے اور اندازوں کے مطابق صرف 68 فیصد ہدف پورا کیا جاسکا ہے۔ اب چاول کی بوائی بھی پانی کی قلت کی وجہ سے شدید متاثر ہورہی ہے جس سے براہ راست سندھ کے کئی اضلاع کے چھوٹے کسان تو متاثر ہوہی رہے ہیں بیجائی، کٹائی اورچنائی کرنے والے کسان مزدور بھی شدید متاثر ہونگے جن کا روزگار چاول اور کپاس کی فصل سے جڑا ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ پانی کی کمی کے باوجود صوبے میں گنے کی پیداوار میں مسلسل اضافہ جاری ہے جس سے طبقہ اشرافیہ کے کارخانے منافع حاصل کرتے ہیں۔ چونکہ گنے کی فصل میں دیگر فصلوں کے مقابلے کہیں زیادہ پانی درکار ہوتا ہے ضروری تھا کہ اس کی پیداوار کو سرکاری سطح پر محدود کیا جاتا تاکہ چاول جیسی دیگر ضروری فصلوں کے لیے پانی کے شدید بحران سے کسی حد تک تحفظ حاصل کیا جاسکتا۔ جن اضلاع میں پانی کی قلت کی وجہ سے چاول کی کاشت متاثر ہورہی ہے یہ تمام اضلاع خود حکومتی اعداد وشمار کے مطابق غذائی کمی کے شکار ہیں جہاں اکثر طبی سہولیات بھی انتہائی ناقص ہیں۔ نیم جاگیرداری سرمایہ داری نظام میں جکڑے سندھ کے تقریباً تمام دیہی علاقے چاہے وہ بالائی ہوں یا زیریں غربت، بھوک، غذائی کمی کی ہولناک تصویر پیش کرتے نظر آتے ہیں جہاں حق کے بجائے خیرات دینے کی روایات کو سیاسی حلقوں میں کامیابی تصور کیا جاتا ہے۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے نقد رقم کی فراہمی ہو یا تھرپارکر میں اینگرو کی جانب سے مقامی افراد کے وسائل پر جبراً قبضے کے بعد ماہی پروری کے ذریعے دی جانے والی مچھلیوں کی خیرات، کسی طور عوام کے بنیادی حق اور اختیار کا متبادل نہیں ہوسکتی۔ وسائل پر اختیار اور حقوق کے لیے استحصال کے شکار طبقہ کو متحد ہوکر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔

جولائی 26 تا 1 اگست ،2018

جینیاتی فصلیں
ایک خبر کے مطابق لاہور میں سینٹر آف ایکسی لینس ان مولیکیولر بائیولوجی (CEMB) میں جینیاتی فصلوں کے حوالے سے تحفظات و خطرات کا اندازہ لگانے کے لیے ’’رسک اسسمنٹ آف جینٹکلی موڈیفائڈ کراپس‘‘ کے عنوان سے منعقد ہونے والے ایک ورکشاپ سے CEMB کے ڈائریکٹر ڈاکٹر طیب حسنین نے کہا ہے کہ تعلیمی و تحقیقی اداروں اور صنعتوں کو مل کر زراعت میں جدت کے حوالے سے آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے تاکہ اس حوالے سے غلط تاثرارت کو روکا جاسکے جو زرعی پیداوار میں اضافے میں رکاوٹ ہے۔ تجارتی طور پر جینیاتی فصلیں 1996 سے کاشت کی جارہی ہے۔ سال 2017 میں دنیا کے 24 ممالک میں لاکھوں کسانوں نے 469 ملین ایکڑ رقبے پر جینیاتی فصلیں کاشت کی تھیں جس سے غذائی فصلوں اور کپاس کی پیداوار میں ڈرامائی اضافہ ہوا۔ یہ ورکشاپ ماہرین نباتات کی ایک امریکی تنظیم نے منعقد کیا جو نباتاتی علوم میں جدت پر کام کرنے والی ایک بین الاقوامی تنظیم ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون،1 اگست، صفحہ20)

پانی
ملک کے آبی ذخائر میں پانی کی سطح میں اضافہ جاری ہے اور گزشتہ دو دنوں میں تقریباً ایک ملین ایکڑ فٹ پانی کا اضافہ ہوا ہے۔ مجموعی طور پر دونوں اہم ذخائر تربیلا اور منگلا ڈیم میں 4.905 ملین ایکڑ فٹ پانی کا ذخیرہ موجود ہے جو گزشتہ سال اسی عرضے کے دوران 11 ملین ایکڑ فٹ کے مقابلے میں اب بھی کہیں کم ہے۔
(ڈان، 27 جولائی، صفحہ16)

صوبہ سندھ میں پانی کی مسلسل کمی پر سندھ چیمبر آف ایگری کلچر نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے نگران حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ پانی کی کمی کو دور کرے اور اس کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنائے۔ ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے قبول محمد کاتھیان نے سندھ حکومت سے کیمیائی کھاد اور ڈیزل کی قیمتوں کو قابو کرنے، گنے کے کاشتکاروں کو ان کے بقایات کی ادائیگی اور چاول کی امدادی قیمت 1,500 روپے فی من مقرر کرنے کا بھی مطالبہ کیا ۔ اجلاس میں مزید کہا گیا کہ سکھر اور کوٹری بیراج سے تمام نہروں میں پانی کی ترسیل جاری ہے اس کے باوجود کسان پانی کی قلت سے پریشان ہیں۔ مختلف کنالوں میں پانی کی مصنوعی قلت پیدا کی گئی ہے جس کی وجہ سے کسانوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔
(ڈان، 30 جولائی، صفحہ17)

کندھ کوٹ کشمور ضلع میں توج شاخ میں شکاف پڑنے سے 15گھر اور کھڑی فصلیں تباہ ہوگئی ہیں۔ سیلابی پانی سے درگاہ پیر ہیبت شہید میں قبرستان بھی زیر آب آگیا ہے۔ مقامی افراد کے مطابق صبح کے وقت نہر میں شگاف پڑ اجس کے بعد محکمہ آبپاشی اور مقامی انتظامیہ کو آگاہ کیا گیا لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی جس کے بعد مقامی افراد نے مزید نقصان سے بچنے کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت شگاف پر کیا۔
(ڈان، 31 جولائی، صفحہ 19)

ضلع بدین کے علاقے پیرو لاشاری میں کئی کسان پانی کی قلت کے خلاف احتجاج کے دوران پولیس کے تشدد سے زخمی ہوگئے ہیں۔ پولیس نے یہ کارروائی کسانوں کی جانب سے قومی شاہراہ پر دھرنے کے دوران کی جس سے شاہراہ پر گاڑیوں کی آمد رفت معطل ہوگئی تھی۔ تلہار پولیس نے 50کسانوں کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے جن میں مختلف کاشتکار تنظیموں کے رہنماء بھی شامل ہے۔ دو کسان رہنما میر زیشان تالپور اور جمال نظامانی کو پولیس نے گرفتار کرلیاہے۔
(ڈان، 1اگست، صفحہ 19)

زراعت
وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کے حکام نے کہا ہے کہ مون سون کی جاری بارشوں سے گنا، چاول اور کپاس سمیت خریف کی اہم فصلوں پر مثبت اثرات مرتب ہونگے۔ ملک میں کپاس کے زیر کاشت علاقوں میں بھاری بارشوں کی اطلاعات موصول نہیں ہوئی ہیں اور اب تک کپاس کی فصل کو بارشوں سے کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے۔ اگر کپاس کے زیر کاشت علاقوں میں زیادہ بارشیں ہوئیں تو فصل پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ کپاس کے کھیت میں 24 گھنٹوں سے زیادہ پانی کھڑا رہنا کپاس کی فصل کے لئے سود مند نہیں ہے۔ حکومت نے سال 2018-19 کے لئے 7.3 ملین ایکڑ رقبہ پر کپاس کی 14.37 ملین گانٹھوں کی پیداوار کا ہدف مقرر کیا ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 29 جولائی، صفحہ18)

کپاس
ملک بھر میں کپاس کے زیر کاشت علاقوں میں 2.69 ملین ہیکٹرز رقبہ پر کپاس کاشت کی جاچکی ہے۔ کپاس کمشنر ڈاکٹر خالد عبداللہ کے مطابق کپاس کی کاشت میں گزشتہ سال کے مقابلے ایک فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ کپاس کی 14ملین گانٹھوں کی پیداوار کے لئے 2.95 ملین ہیکٹرز رقبہ پر کپاس کی کاشت کا ہدف مقرر کیا گیا تھا۔ مجموعی طور پنجاب میں کپاس کی بیجائی میں 11 فیصد اضافہ ہوا ہے جہاں 2.31 ملین ہیکٹرہدف کے مقابلے 2.29 ملین ہیکٹر پر کپاس کاشت کی گئی ہے۔ تاہم سندھ میں پانی کی کمی کی وجہ سے کپاس کی بیجائی میں 40 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ صوبہ سندھ میں 0.62 ملین ہیکٹر ہدف کے مقابلہ میں 0.41 ملین ہیکٹر رقبہ پر کپاس کاشت کی گئی ہے جو ہدف کا 66 فیصد ہے۔ بلوچستان اور خیبرپختونخواہ میں 0.1 ملین ہیکٹرز رقبہ پر کپاس کی کاشت کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔
(بزنس ریکا رڈر، 30 جولائی، صفحہ3)

ماہی گیری
کراچی یونیورسٹی کے شعبہ ماحولیاتی علوم کے پروفیسر معظم علی خان اور ڈاکٹر عالمگیر کی جانب سے حال ہی میں کی گئی تحقیق میں اجاگر کیا گیا ہے کہ کس طرح کراچی میں ماہی گیروں کو روزگار فراہم کرنے والی کھاڑی(کریک) میں گرنے والے صنعتی اور انسانی فضلے نے کھاڑی کا حیاتیاتی تنوع برباد کیا ہے۔ کورنگی کریک میں زرائع بشمول کورنگی اور لانڈھی کے صنعتی علاقے اور ملیر ندی سے آلودہ پانی شامل ہورہا ہے۔ بھینس کالونی سے متواتر ٹھوس اور آبی فضلہ کھاڑی میں ڈالے جانے سے اس میں نامیاتی آلودگی بڑھ گئی ہے۔ اس کھاڑی سے 100,000 افراد کا روزگار وابستہ ہے جو بلاواسطہ یا بلواسطہ ماہی گیری شعبے سے جڑے ہیں۔
(ڈان، 30 جولائی، صفحہ15)

جنگلات
ایک مضمون کے مطابق 1990 میں پاکستان میں جنگلات پر مشتمل رقبہ 3.3 فیصد تھا جو 2015 میں تشویشناک حد تک کم ہو کر 1.9 فیصد تک رہ گیا تھا۔ جنگلات پر مشتمل رقبہ کے حوالے سے پاکستان دنیا میں110 ویں نمبر پر ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 0.2 سے 0.5 فیصد سالانہ کی شرح سے ملک میں جنگلات کی کٹائی کا سلسلہ جاری ہے۔ انٹرنیشنل یونین آف کنزرویشن آف نیچر (IUCN) کے مطابق اگر جنگلات کی کٹائی کا سلسلہ یوں ہی جاری رہا تو آئندہ دس سے پندرہ سالوں میں پاکستان سے جنگلات ختم ہوجائینگے۔ 1965 سے 2001 تک مینگروز کے جنگلات کا رقبہ 400,000 ہیکٹرز سے کم ہوکر 158,000 ہیکٹرز رہ گیا ہے۔ زیارت، بلوچستان میں صنوبر کے جنگلات کا رقبہ سالانہ1.27 فیصد کی شرح سے کم ہورہا ہے۔ سانس لینے سے لکڑی کے استعمال تک ہماری بقاء جنگلات پر منحصر ہے جو جانوروں کو پناہ گاہیں اور انسانوں کو روزگار فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ سیلابی ریلوں سے تحفظ، زمینی کٹاؤ کی روک تھام، کاربن کو جذب کرکے موسمی تبدیلی کے اثرات سے بچاؤاور رکاذی ایندھن کے نعم البدل کے طور پر بطور ایندھن لکڑی بھی فراہم کرتے ہیں۔ (ڈاکٹر محمد عباس عزیز، ڈان، 30 جولائی، صفحہ4بزنس اینڈ فنانس)

نکتہ نظر
سرفہرست خبر نباتاتی شعبہ میں جدت کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیم ”امریکن سوسائٹی آف پلانٹ بائیولوجسٹ” کی جانب سے لاہور میں منعقد کیے گئے ایک ورکشاپ کی ہے جس میں جینیاتی ٹیکنالوجی کے حوالے سے غلط تصورارت کو ختم کرنے کے لیے تحقیقی اور صنعتی شعبے کو مل کر آگاہی پھیلانے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ ملک میں جینیاتی کپاس کے ہاتھوں کسانوں اور ملکی معیشت کی زبوں حالی کے بعد بھی کارپوریٹ شعبے کو خدمات فراہم کرنے والے نام نہاد کسان دوست ادارے پاکستان میں جینیاتی ٹیکنالوجی کو بڑے پیمانے پر فروغ دینے کی کوششوں میں پیش پیش ہیں اور ان تمام کوششوں کے پیچھے کسی نہ کسی حوالے سے امریکی مدد موجود ہوتی ہے، کیونکہ زیادہ تر جینیاتی بیج اور اس کے لیے ضروری کیمیائی زہر ان ہی امریکی کمپنیوں کا تیار کردہ ہے جن کا مقصد صرف اور صرف اپنے منافع میں اضافے کے لیے پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں اپنے کاروبار کو بڑھا کر کسانوں کو اپنا محتاج بنانا ہے۔
پاکستان میں نیولبرل ایجنڈے پر عمل پیرا جدت پر مبنی ہائبرڈ اور جینیاتی ٹیکنالوجی کو فروغ دینے والے زرعی ماہرین زیادہ پیداوار کو عوام خصوصاً کسانوں کے تمام تر مسائل کے حل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اگر صرف زیادہ پیداوار ہی غربت، بھوک اور غذائی کمی جیسے مسائل کا حل ہے تو ضرورت سے زیادہ گندم، چاول اور گنے کی پیداوار کے باوجود ملک کے آدھے بچے غذائی کمی کا شکارکیوں ہیں، کسان مزدور آبادیوں میں بھوک و غربت کیوں ہے؟ ملک میں استحصال کی شکار کسان مزدور آبادیوں کی خوشحالی ہی ملکی ترقی و خوشحالی ہوگی جس کے لیے ضروری ہے کہ پیداواری وسائل، چاہے وہ زمین ہو یا پانی یا پھر بیج، پر اختیار ان آبادیوں کا ہو نہ کہ بیج بنانے والی کسی کمپنی، کسی سرمایہ دار یا بڑے بڑے زمینی رقبوں پر قابض جاگیرداروں کا۔