جون 21 تا 27 جون، 2018
چاول
ایک مضمون کے مطابق حکام اور تاجر چاول کی پیداوار اور اس کی برآمد پر خوش ہیں جو پہلے ہی خطرے کا شکار ہے۔ منڈی میں جینیاتی چاول کے بیج کی یلغار کی اطلاعات نے چاول کی برآمدی صنعت میں خدشات پیدا کردیے ہیں۔ قومی اقتصادی سروے 2017-18 کے مطابق ملک میں چاول کے زیرکاشت رقبے میں گزشتہ سال کے مقابلے 6.4 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ رواں مالی سال میں جولائی تا مارچ کے دوران چاول کی برآمد میں 29 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس کامیابی کا ایک پس منظر یہ ہے کہ وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق نے 2015 میں پیداوار اور برآمد میں اضافے کے لئے چینی حکومت اور کمپنیوں کو چاول کی پیداوار میں شامل کیا اور چاول کے معیاری ہائبرڈ بیج کی درآمد کا آغاز کیا۔ دو سالوں تک دونوں ممالک کے درمیان کئی وفود کا تبادلہ ہوا جس کے نتیجے میں بہتر معیار کے ہائبرڈ چاول کی پیداوار میں اضافہ ہوا اور چاول کی اوسط فی ایکڑ پیداوار جو 2010-11 میں 825 کلو گرام فی ایکڑ تھی اس سال بڑھ کر 1,000 کلو گرام فی ایکڑ ہوگئی۔ چین سے ہائبرڈ چاول کی درآمد 7,000 ٹن سے بڑھ کر 10,000 ہزار ٹن تک پہنچ گئی۔ اس سال کے آغاز میں بندرگاہ پر چاول کے بیج کی جانچ کے دوران کچھ درآمدی کھیپوں میں جینیاتی چاول کے بیج پائے گئے جنہیں ضبط کرلیا گیا۔ محکمہ تحفظ نباتات (پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ) نے درآمد شدہ ہائبرڈ بیج کی مزید جانچ کے لئے 1,800 ٹن بیج لیبارٹری بیج دیا۔ لیکن یہ مسئلہ اس وقت مزید پیچیدہ ہوگیا جب کراچی کی ایک لیبارٹری نے اس میں جینیاتی مواد کی تصدیق کی جبکہ فیصل آباد کی ایک لیبارٹری نے اس کی نفی کی۔ بیج کے تاجروں کے مطابق بیج کے کاروبار میں بڑے پیمانے پر اضافے سے کچھ تجارتی کمپنیاں جن کے پاس نہ تو تحقیق کی سہولیات ہیں اور نہ ہی جانچ کی وہ بھی اس کاروبار میں شامل ہوگئی ہیں۔
(احمد فراز خان، ڈان، 25 جون، صفحہ4، بزنس اینڈ فنانس)
کھاد
زرعی ماہرین کا کہنا ہے کہ کیمیائی کھاد کی قیمتوں میں حالیہ اضافے سے کسانوں کو سالانہ 30 بلین روپے کا اضافی مالی بوجھ برداشت کرنا پڑیگا جس سے کاشتکاروں کی آمدنی میں کمی ہوگی۔ گزشتہ سال 2017 میں یوریا کی قیمت 1,300 روپے فی بوری تھی جو اس سال اصافے کے بعد 1,600 روپے فی بوری ہوگئی ہے۔ فارمرز ایسوسی ایٹ پاکستان کے فاروق باجوہ کا کہنا ہے کہ کسان ضلع بہاولپور میں یوریا کی قیمت 1,650 روپے فی بوری ادا کررہے ہیں جبکہ ڈائی امونیم فاسفیٹ (ڈی اے پی) کھاد 3,300 روپے فی بوری فروخت ہورہی ہے جو کسانوں کے لیے بہت زیادہ ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، جون 21، صفحہ20)
پانی
سندھ آبادگار اتحاد کے صدر نواب زبیر تالپور نے حیدرآباد پریس کلب پر پریس کانفرنس کے دوران کہا ہے کہ پانی کی شدید کمی کی وجہ سے لاکھوں ایکڑ زرعی زمین بنجر ہوگئی ہے اور صوبے کے کسان پیداوار نہ ہونے کی وجہ سے مالی مسائل کا سامنا کررہے ہیں۔ انھوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ صوبے کو آفت زدہ قرار دے کر تمام زرعی محصولات ختم کیے جائیں تاکہ کسانوں کے مسائل کم ہوسکیں۔ نواب زبیر تالپور نے انڈس ریور سسٹم اتھارٹی کو پانی کی شدید کمی کا ذمہ دار قرار دیا جس نے سندھ کے کسانوں کو وقت پر فصل کی کاشت سے محروم کیا یہاں تک کے عوام اور مویشیوں کو پینے کا پانی میسر نہیں ہے۔ انھوں نے کسانوں کو مزید معاشی نقصان سے بچانے کے لئے نہروں کے آخری سرے کے کسانوں کو پانی فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 22 جون، صفحہ5)
انڈس ریور سسٹم اتھارٹی کے ترجمان رانا خالد کے مطابق بارشیں نہ ہونے اور شمالی علاقہ جات میں درجہ حرارت میں کمی کے نتیجے میں برفانی پہاڑوں کے پگھلنے کا عمل سست ہونے کی وجہ سے منگلا ڈیم میں پانی انتہائی کم ترین سطح پر آگیا ہے۔ اس وقت منگلا ڈیم میں پانی کی سطح تاریخ کی کم ترین سطح پر ہے جس میں آنے والے دنوں میں اضافے کے امکانات کم ہیں۔ عموماً اس موسم میں منگلا ڈیم میں پانی کی سطح میں اضافہ ہوتا ہے لیکن اس سال اس میں کمی ہورہی ہے جو پریشان کن ہے۔ اس موسم میں منگلا ڈیم میں عام طور پر تین ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ ہوتا ہے جو اس وقت 0.88 ملین ایکڑ فٹ ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 24 جون، صفحہ2)
زراعت
محکمہ زراعت پنجاب نے پھلوں، سبزیوں اور دیگر اہم فصلوں کی عالمی سطح پر اہمیت اجاگر کرنے کے لیے زرعی نمائش ’’ایگری ایکسپو 2018‘‘ کا انعقاد کیا ہے جو 24 جون تک جاری رہے گی۔ وزیر زراعت پنجاب سردار تنویر الیاس نے نمائش کا افتتاح کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ نمائش کسانوں، برآمد کنندگان اور کمپنیوں کے لئے نئے مواقع فراہم کرے گی۔ سیکریٹری زراعت پنجاب ڈاکٹر واصف خورشید کا اس موقع پر کہنا تھا کہ 80 فیصد سے زیادہ زرمبادلہ زرعی شعبے سے حاصل ہوتا ہے جس میں 60 فیصد حصہ پنجاب کا ہے۔ پاکستان کینو اور کھجور پیدا کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے جبکہ آم پیدا کرنے والا چوتھا بڑا ملک ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 24 جون، صفحہ5)
گندم
ایک خبر کے مطابق جولائی تا مارچ 2017-18 کے دوران گندم کی برآمد 1.120 ملین ٹن تک پہنچ گئی ہے جو گزشتہ سال اسی دورانیے میں صرف 3,937 ٹن تھی۔ یہ گندم بنگلہ دیش، انڈونیشیا، ویتنام، دبئی، مسقط سمیت دیگر ممالک میں 185 سے 200 ڈالر فی ٹن قیمت پر برآمد کیا جارہا ہے۔ تاجروں کو امید ہے کہ اس سال بحری راستے سے گندم کی برآمد کا 1.4 ملین ٹن کا ہدف مکمل ہوجائے گا۔ حکومت نے دسمبر میں ملک میں موجود گندم کے ذخیرے کو فروخت کرنے کے لیے 30 جون تک دو ملین ٹن گندم برآمد کرنے کی اجازت دی تھی۔ حکومت زمینی راستے سے گندم کی برآمد پر 120 ڈالر فی ٹن جبکہ سمندری راستے سے برآمد پر 169 ڈالر فی ٹن زرتلافی فراہم کررہی ہے۔
(ڈان، 22 جون، صفحہ10)
کپاس
ایک خبر کے مطابق نئی فصل کی زبردست مانگ کی وجہ سے کپاس کی قیمت رواں موسم کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔ منڈی میں مانگ میں اضافے کی وجہ سے قیمت 8,050 سے 8,100 روپے فی من پر برقرار ہے۔ پھٹی کی قیمت بھی 3,800 سے 4,150 روپے فی من کی بلند سطح پر ہے۔ منڈی کے زرائع کا کہنا ہے کہ زیریں سندھ سے آنے والی کپاس کا معیار ناقص ہے، پانی کی کمی اور گرمی میں اضافے سے کپاس کی فصل متاثر ہوئی ہے۔ اب تک کپاس کی نئی فصل کی پانچ سے چھ ہزار گانٹھیں منڈی میں آچکی ہیں۔
(ڈان، 23 جون، صفحہ11)
ماحول
ایک خبر کے مطابق سپریم کورٹ کے مقرر کردہ عدالتی کمیشن برائے پانی و نکاسی نے پورٹ قاسم اتھارٹی کی تمام صنعتوں کو تین میں فضلہ صاف کرنے والے کارخانے (ٹریٹمنٹ پلانٹ) نصب کرنے کی ہدایت کی ہے۔ کمیشن نے 10 صنعتکاروں کو تنبیہ کی ہے کہ اگر انہوں نے دی گئی ہدایت پر مقررہ وقت تک عمل نہیں کیا تو ان کے کارخانے سربمہر کردیے جائیں گے۔ کمیشن نے پورٹ قاسم اتھارٹی کو بھی ہدایت کی ہے کہ وہ دو ماہ میں ان کارخانوں کے باہر نکاسی آب کی لائنیں بچھائے جو کارخانوں سے صفائی کے بعد نکلنے والے آبی فضلے کی لائن سے منسلک ہونگی۔
(ڈان، 26 جون، صفحہ17)
نکتہ نظر
اخبارات سے منتخب کردہ اس ہفتے کی خبروں میں چاول کے حوالے سے لکھا گیا ایک مضمون بھی شامل ہے۔ مضمون نگار نے ملک میں چاول کے درآمدی جینیاتی بیج کے حوالے سے جو معلومات فراہم کی ہیں وہ ملکی معیشت اور کسانوں کے لیے قابل تشویش ہیں۔ ملک بھر کے کسان پہلے ہی اسمگل شدہ جینیاتی کپاس کے بیج کی بدولت اپنے کپاس کے روایتی بیج سے تقریباً محروم ہوچکے ہیں اور آج کپاس کے کاشتکار جینیاتی بیج کاشت کرکے فصل پر بیماریوں کے حملے، اس سے بچاؤ کے لیے زہریلے اسپرے کی مد میں خراجات کی وجہ سے بدحالی کا شکار ہوکر دوسری فصلوں پر منتقل ہورہے ہیں جس سے ملکی معیشت کو بھی شدید دھچکہ لگا جبکہ کپاس کی کاشت سے جڑے کسان مزدور بھی شدید متاثر ہوئے۔ ملکی معیشت اور غذائی تحفظ کے لیے ذمہ دار ادارے بغیر تحقیق اور جانچ کے بیجوں کی درآمد کی اجازت دے کر اس ملک کے لاکھوں چاول کاشت کرنے والے کسانوں کے روزگار کو داؤ پر لگارہے ہیں چونکہ یورپی ممالک اور دیگر ممالک جہاں جنیاتی ردوبدل کی حامل خوراک پر پابندی عائد ہے، پاکستانی چاول کے بڑے خریدار ہیں اور زرمبادلہ کے حصول کا اہم زریعہ بھی ہیں۔ ملکی معیشت اور زراعت اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتی جب تک چھوٹے اور بے زمین کسانوں کا زمین، بیج اور دیگر پیداواری وسائل پر اختیار نہ ہو۔ غیرملکی ہائبرڈ اور جینیاتی بیج مقامی کسانوں کو نا صرف محتاج بنارہے ہیں بلکہ ماحول کو آلودہ اور حیاتیاتی تنوع کو برباد کررہے ہیں جسے صرف اور صرف پائیدار بنیادوں پر مقامی بیجوں کو فروغ اور تحفظ دے کر ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔
جون 14 تا 20 جون، 2018
زراعت
ترجمان محکمہ زراعت پنجاب کے مطابق کسانوں اور ان کی زرعی پیداوار کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے نجی سرکاری شراکت داری کے تحت ’’زرعی گودام ۔ رسید منصوبہ‘‘ (ایگری کلچرل ویئرہاوس ریسپٹ پروگرام) شروع کردیا گیا ہے ۔ اس منصوبے کے تحت کسان اپنی زرعی پیداوار کو گوداموں میں محفوظ کرسکیں گے ۔ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے یہ گودام اشیاء کو طویل عرصے تک محفوظ رکھنے کے قابل ہونگے ۔ منصوبے کے تحت کسان مقرر کردہ بینک میں کھاتہ کھلوائیں گے اور اس کے بعد مقررہ گودام کی انتظامیہ سے رابطہ کریں گے ۔ اس کے بعد کسان مطلوبہ معیار کی پیداوار گودام میں منتقل کریں گے ۔ پیداوار کا وزن اور گودام میں ماحول کا معیار یقینی بنانے کے بعد کسانوں کو گودام انتظامیہ رسید جاری کرے گی ۔ کسان کو گودام کی اس رسید کے بدلے ضروری کارروائی کے بعد مقرر کردہ بینک سے اپنی پیداوار کی منڈی میں قیمت کی بنیاد پر 70 فیصد تک قرض فراہم کیا جائے گا ۔ کسان کسی بھی وقت اپنی پیداوار کسی فرد یا ادارے کو فروخت کرسکے گا جس کی قیمت اسی بینک کے ذریعے کسان کو وصول ہوگی ۔ اس منصوبے کے تحت مسلم کمرشل بینک کسانوں کو قرض کی سہولت فراہم کرے گا ۔ منصوبے کے دیگر سہولت کاروں میں ڈائریکٹریٹ آف ایگری کلچرل انفارمیشن پنجاب اور پنجاب اینڈ اسلام آباد فیلڈ ملز، اوکاڑہ بھی شامل ہے جو ان گوداموں سے پیداوار خریدے گا ۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 14 جون، صفحہ20)
ترجمان محکمہ زراعت پنجاب کے مطابق پنجاب حکومت عالمی بینک کے اشتراک سے پانی کی کمی دور کرنے کے لئے قطرہ قطرہ آبپاشی نظام کو فروغ دے رہی ہے ۔ پنجاب اریگیٹڈ ایگری کلچر پروڈکٹوٹی امپرومنٹ پروجیکٹ کے تحت ادارہ کھیتوں میں قطرہ قطرہ آبپاشی اور اسپرنکلر (فوارہ) آبپاشی نظام نصب کررہا ہے ۔ اس ٹیکنالوجی سے کسان ڈیزل اور بجلی کی مد میں ہونے والے اخراجات کو 60 فیصد کم کرسکتے ہیں اس کے علاوہ فی ایکڑ پیداوار میں 100 فیصد اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے ۔ حکومت کسانوں کو آبپاشی کے اس جدید نظام کی تنصیب میں مدد کے لیے 60 فیصد زرتلافی فراہم کررہی ہے جبکہ ضروری آلات رعایتی قیمتوں پر فراہم کیے جارہے ہیں ۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 16 جون، صفحہ20)
ترجمان محکمہ زراعت پنجاب کے مطابق محکمہ 23 اور 24 جون کو لاہور میں دو روزہ زرعی نمائش ’’ایگری ایکسپو 2018‘‘ منعقد کررہا ہے جس کا افتتاح گورنر پنجاب ملک محمد رفیق رجوانہ کرینگے ۔ یہ نمائش کاشتکاروں ، برآمدکنندگان اور دیگر متعلقہ صنعتوں کے لیے ملکی اور غیرملکی سطح پر روابط قائم کرنے کے لیے مواقع فراہم کرے گی ۔
(بزنس ریکارڈر، 20 جون، صفحہ13)
پانی
کسانوں کی بڑی تعداد نے پانی کی قلت کے خلاف بدین کے علاقے ملکانی شریف میں پنگریو جھڈو شاہرا پر تین گھنٹے تک دھرنا دیا ۔ دھرنے میں شریک سندھ آبادگار ایسوسی ایشن کے عہدیداران کے مطابق با اثر افراد محکمہ آبپاشی کے افسران کی مدد سے ان کے حصے کا پانی چوری کررہے ہیں ۔ پانی کی قلت کی وجہ سے علاقے میں قحط جیسی صورتحال پیدا ہوگئی ہے ۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ 2013 میں سپریم کورٹ کے جاری کردہ پانی کی منصفانہ تقسیم کے حکم کے باوجود بھی انہیں پانی کے حق سے محروم کیاجارہا ہے ۔
(ڈان، 14 جون، صفحہ19)
پاکستان پیپلزپارٹی سندھ کے صدر نثار احمد کھوڑو نے الزام عائد کیا ہے کہ پنجاب نے سندھ کا پانی چوری کرنے کے لئے دریائے سندھ پر کئی مقامات پر پانی نکالنے کے لیے 1,500 بڑی مشینیں نصب کی ہوئی ہیں ۔ تونسہ بیراج سے سندھ کے لیے 135,000 کیوسک پانی جاری کیا جارہا ہے جبکہ صرف 60,000 کیوسک پانی گڈو بیراج پہنچ رہا ہے کیونکہ پنجاب کی جانب سے دریا کے کنارے نصب 1,500 بڑی مشینوں کے زریعے پانی چوری کیا جارہا ہے ۔ کئی ماہ سے جاری پانی کی کمی کی وجہ سے سندھ میں ٹھٹھہ اور بدین کی لاکھوں ایکڑ زرخیز زمین سمندری پانی آگے بڑھنے سے پہلے ہی خراب ہوچکی ہے ۔
(ڈان، 16 جون، صفحہ17)
مال مویشی
اسلام آباد ہائی کورٹ نے تحاءف کی آڑ میں لاکھوں مویشی ملک سے برآمد کرنے کے خلاف دائر ایک درخواست پر وزیراعظم کے سابق پرنسپل سیکریٹری اور دیگر کئی سرکاری حکام کو نوٹس جاری کردیا ہے ۔ درخواست گزار کا کہنا ہے کہ ملک میں تحاءف کے حوالے سے کوئی واضح پالیسی موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے تحاءف اسکیموں کو پاکستان سے کالا دھن سفید کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے ۔ اس کے علاوہ مویشیوں کی کمی کے ساتھ ساتھ گوشت کی قیمت میں بھی اضافہ ہوتا ہے ۔ 2013 میں زندہ مویشیوں کی برآمد پر پابندی عائد کردی گئی تھی جس کے بعد ہزاروں زندہ مویشی تحاءف اسکیم کے تحت خلیجی مماک برآمد کیے گئے ہیں ۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 16 جون، صفحہ3)
کھاد
ایک خبر کے مطابق گزشتہ چھ ہفتوں میں یوریا کی قیمت 15 فیصد اضافے کے بعد 1,600 روپے فی بوری ہوگئی ہے ۔ منڈی کے زراءع کا کہنا ہے کہ فصلوں کے لیے لازمی جز یوریا کی قیمت میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے کیونکہ مقامی سطح پر یوریا کے کارخانے گیس کی عدم فراہمی سے متاثر ہوئے ہیں ۔ اس وقت تین یوریا کے کارخانے گیس کی عدم فراہمی کی وجہ سے گزشتہ سات ماہ سے بند ہیں ۔ ملک میں یوریا کی مجموعی پیداواری صلاحیت 6;46;5 ملین ٹن سالانہ ہے ۔ تاہم تین کارخانوں کی بندش کی وجہ سے یہ پیداوار کم ہوکر 5;46;5 ملین ٹن سالانہ ہوگئی ہے جبکہ یوریا کی سالانہ طلب 5;46;5 سے 6 ملین ٹن سالانہ ہے ۔
(بزنس ریکارڈر، 19 جون، صفحہ16)
ٹریکٹر
ایک خبر کے مطابق ملت ٹریکٹرز لمیٹڈ نے سال 2017-18 میں 42,500 ٹریکٹر کی پیداوار اور فروخت کرکے ایک نیا سنگ میل عبور کیا ہے ۔ اس فروخت میں ملکی اور غیرملکی دونوں منڈیوں کی فروخت شامل ہے ۔ اس حوالے سے منعقد کی گئی ایک تقریب میں کمپنی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ یہ کامیابی کمپنی کے ملازمین اور دیگر شراکت داروں کی عمدہ کارکردگی کا نتیجہ ہے ۔
(بزنس ریکارڈر، 15 جون، صفحہ5)
نکتہ نظر
خبروں کا آغاز محکمہ زراعت پنجاب کے ایک اور ’’جدیدیت‘‘ سے بھرپور منصوبے سے ہوتا ہے جسے کسانوں اور ان کی پیداوار کا محافظ کہا جارہا ہے ۔ یقیناً محفوظ گودام کسانوں کی اولین ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی پیداوار کو موسمی شدت اور آفات سے بچاسکیں ۔ لیکن یہاں کچھ سوالات اٹھتے ہیں کہ کیا نجی سرکاری شراکت میں دی جانے والی یہ سہولیات بشمول قرض کسانوں کو مفت میسر ہوگا;238; اگر نہیں تو کیا یہ سہولیات کسانوں کی پیداواری لاگت میں مزید اضافے کا باعث نہیں بنیں گی;238; یہ صاف ظاہر ہے کہ اب تک متعارف کردہ منصوبوں میں کوئی بھی سہولیات مفت فراہم نہیں کی گئی ہیں ۔ پنجاب حکومت کا یہ منصوبہ بھی آزاد تجارتی پالیسیوں کا تسلسل ہے کہ جس میں زرعی منڈی میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرکے اسے عالمی منڈی سے جوڑ کر چھوٹے کسانوں کے لیے زراعت اور منڈی میں مسابقت کے دروازے بند کیے جارہے ہیں ۔ حکومت کا یہ دعوی کہ وہ کسان کو خوشحال بنانا چاہتی ہے خود ایک دلیل ہے کہ ماضی میں عالمی سرمایہ دار ممالک کے ایجنڈے پر متعارف کردہ اصلاحات اور مشینی زراعت نے کسانوں کو کوئی فائدہ نہیں دیا الٹا کسانوں کو زرعی کمپنیوں کا محتاج بنادیا جو ان کسانوں میں غربت کی بنیادی وجہ ہے ۔ ان مسائل سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ کسان قرض اور منڈی کے اس شیطانی چکر سے آزاد ہو اور منڈی کے لیے نہیں بلکہ اپنی غذائی ضرورت کے لیے اپنے ہی بیج سے پائیدار ماحول دوست زراعت کرے ۔
جون 7 تا 13 جون، 2018
بیج
ایڈیشنل سیکریٹری محکمہ زراعت پنجاب ڈاکٹر غضنفر علی خان نے بیج کے شعبے کے تمام شراکت داروں کے ساتھ ایک اہم اجلاس کے دوران سیڈ ایسوسی ایشن آف پاکستان کو کہا ہے کہ وہ اپنی تفصیلی سفارشات محکمے کو جمع کروائیں کہ آیا کس طرح بیج کی مقامی پیداوار کی حوصلہ افزائی کرکے اور ٹیکنالوجی کی منتقلی کو یقینی بنا کر درآمدی بیج پر انحصار کم کیا جا سکتا ہے۔ گارڈ ایگریکلچرل ریسرچ اینڈ سروسز کے سربراہ شہزاد علی ملک نے اجلاس میں تجویز دی ہے کہ محکمہ زراعت کو ان بیج کمپنیوں کے لیے مراعات کا اعلان کرنا چاہیے جو مختلف فصلوں کے بیجوں کی مقامی سطح پر پیداوار کررہی ہیں۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو بیج درآمد کرنے والی تمام کمپنیوں کو کہا جائے کہ وہ 20 سے 30 فیصد بیج ملک میں ہی کاشت کریں اور اس مقدار کو اگلے سات سے 10سالوں میں بتدریج سو فیصد کردیا جائے۔ جو کمپنیاں بیج کی پیداوار کا یہ ہدف پورا کرنے میں ناکام رہیں ان کے لیے بیج کی درآمد پر بھاری محصول عائد کیا جائے۔
(بزنس ریکارڈر، 13 جون، صفحہ20)
پانی
چیئرمین واٹر اینڈ پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) مزمل حسین نے سینٹ کمیٹی کو تفصیلی جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر پاکستان کو تباہ کن مستقبل سے محفوظ رکھنا ہے تو کاشتکاری کے طریقوں، پانی کے استعمال کے حوالے سے منصوبہ بندی، آبی ذخائر کی تعمیر اور سندھ طاس معاہدے کو اپنی جارہانہ خارجی پالیسی کا حصہ بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ کالا باغ ڈیم کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے مزمل حسین نے تجویز دی ہے کہ کالا باغ ڈیم کے انتظامی اختیارات سندھ کے سپر د کردئے جائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک کو منصوبہ بندی کے دہائیوں پرانے فرسودہ، وقت طلب اور سست عمل سے چھٹکارا حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک میں12 ملین ایکڑ فٹ پانی اس کے موثر استعمال کے ذریعے بچایا جاسکتا ہے۔
(ڈان، 7 جون، صفحہ1)
رواں سال جنوری تا مئی کے دوران ملک میں ناکافی بارشوں کی وجہ سے محکمہ موسمیات پاکستان نے خشک سالی کا انتباہ (وارننگ) جاری کردیا ہے۔ محکمہ نے اس صورتحال کو سنگین قرار دیتے ہوئے تمام متعلقہ محکموں کو پانی کے انتظام کے حوالے سے حکمت عملی اپنانے کی سفارش کی ہے تاکہ بارشوں میں کمی کے زراعت پر پڑنے والے منفی اثرات کو زائل کیا جاسکے۔ خشک سالی کی نگرانی کرنے والے قومی مرکز نیشنل ڈراؤٹ مانیٹرنگ سینٹر کے مطابق ملک کے بیشتر حصوں میں خشک سالی جیسی صورتحال ہے۔ تاہم زیریں خیبر پختونخوا، پنجاب کے بارانی علاقے، جنوبی پنجاب، جنوب مغربی بلوچستان اور جنوب مشرقی سندھ میں درمیانی اور انتہائی درجے کی خشک سالی کا سامنا ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 7 جون، صفحہ2)
ملک کے بالائی علاقوں میں درجہ حرار ت میں اضافہ کے بعد گزشتہ دو روز کے دوران دریاؤں کے بہاؤ میں واضح بہتری آئی ہے۔ پانی کے بہاؤ میں اضافے کے بعد انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) نے تربیلا اور منگلا ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کا آغاز کردیا ہے۔ دریائے سندھ پر قائم تربیلا ڈیم میں پانی کی آمد 167,000 کیوسک ہے جس میں سے 100,000 کیوسک بجلی کی پیداوار اور صوبوں کی پانی کی ضروریات کے لیے جاری کیا جارہا ہے جبکہ 67,000 کیوسک پانی ڈیم میں ذخیرہ کیا جارہا ہے۔ اسی طرح منگلا ڈیم میں 24,000 کیوسک پانی کے بہاؤ میں سے 20,000 کیوسک پانی بجلی کی پیداوار اور زراعت کے لیے جاری کیا جارہا ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 12 جون، صفحہ5)
کپاس
پانی کی کمی اور موسمی تبدیلی کی وجہ سے ملک خصوصاً سندھ میں کپاس کی بوائی کا ہدف مکمل نہیں کیا جاسکا ہے۔ موجودہ صورتحال کپاس کی پیداوار مقررہ ہدف (14 ملین گانٹھ) سے کم ہونے کی وجہ بن سکتی ہے۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق یکم جون تک 2.31 ملین ہیکٹر رقبے پر کپاس کاشت کی گئی ہے جو مقررہ ہدف 2.95 ملین ہیکٹر کے مقابلے 22 فیصد کم ہے۔ پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین مختار احمد خان کا کہنا ہے کہ مارچ اور اپریل میں بارشیں نہیں ہوئیں جو عموماً ہر سال ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نہروں میں پانی کا بہاؤ نہیں ہے جس کی وجہ سے کسان کپاس کاشت نہیں کرسکے۔ اعداد وشمار کے مطابق سندھ میں اب تک کسانوں نے 0.62 ملین ہیکٹر رقبے پر کپاس کی کاشت کے ہدف کے مقابلے صرف 0.29 ملین رقبے (50 فیصد) پر بیجائی کی ہے۔ خبر کے مطابق سندھ میں جون کے اختتام تک بیجائی کا 80 سے 85 فیصد ہدف مکمل کرلیا جائیگا۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 7 جون، صفحہ13)
عالمی منڈی میں کپاس کی قیمت میں اضافے کے رجحان اور مقامی منڈی میں کپاس کی نئی فصل کی سست رفتار رسد کی وجہ سے کپاس اور پھٹی کی قیمت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ کپاس اور پھٹی کی قیمت میں اضافہ کی اہم وجوہات میں عالمی منڈی میں قیمت میں اضافہ، گرم موسم سے فصل کو ہونیوالا نقصان، بجلی کی بندش، فصل کے لئے پانی کی عدم دستیابی، بھارتی تاجروں کی جانب سے کپاس کے درآمدی معاہدوں کی منسوخی اور پیداور کے حوالے سے پائی جانے والی غیر یقینی صورتحال شامل ہے۔ خبر کے مطابق ٹنڈو باگو میں پھٹی کی قیمت 4,050 روپے، ٹھٹھہ میں 4,025 روپے، بدین میں 4,075 روپے اور کنری میں 4,025 روپے (فی من) ہے۔
(ڈان، 10 جون، صفحہ11)
سیلاب
خیبر پختونخوا میں چترال کی وادی بمبوریٹ میں موسلادھار بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب سے کئی گھر بہہ گئے جس سے تقریبا 100 افراد بے گھر ہوگئے ہیں۔ سیلاب سے بہہ کر آنے والی مٹی سے کئی ایکڑ پر گندم اور مکئی کی فصلیں اور باغات کو نقصان پہنچا ہے۔ علاقے میں انتباہی نظام کی وجہ سے لوگ پہلے ہی محفوظ مقامات پر منتقل ہوگئے تھے جس کی وجہ سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
(ڈان، 11 جنوری، صفحہ7)
نکتہ نظر
سر فہرست خبر پنجاب میں بیج کی پیداوار کے حوالے سے ہے۔ خبر کے مطابق محکمہ زراعت پنجاب کی جانب سے درآمدی بیج پر انحصار کم کرنے کے لیے بیج کمپنیوں سے تجاویز طلب کی گئی ہیں کہ کس طرح ملک میں ہی بیج کی کاشت کو فروغ دیا جائے۔ بیج کا ترمیمی قانون اور پلانٹ بریڈرز رائٹس کا قانون منظور کرکے ملٹی نیشنل کمپنیوں کو بیج درآمد کرنے کے لیے ملکی اداروں کی جانب سے کھلی چھوٹ دینے کے بعد خودانحصاری کی دہائی دینا سراسر مضحکہ خیز ہے۔ زراعت کو کمپنیوں کے تیار کردہ بیج، زہر اور کھاد کا محتاج بنا کر، کسان سے بیج محفوظ کرنے، تبادلہ اور فروخت کرنے کا حق چھین کر کسی طور زرعی شعبے اور ملک کو خودانحصار نہیں بنایا جاسکتا۔ سیکریٹری زراعت شاید لاعلم ہیں کہ حکومت نے خود سرمایہ دار ممالک کی دیوہیکل بیج کمپنیوں کو قوانین میں ترمیم کرکے ملک میں مہنگے ہائبرڈ اور جینیاتی بیج فروخت کرنے کی اجازت دی ہے۔ زرعی شعبے میں خود انحصاری اور خودمختاری کے لیے لازم ہے کہ کمپنیوں کا زرعی شعبے خصوصاً بیج کے شعبے میں کردار کا مکمل خاتمہ کیا جائے۔ بیج پر حق صرف کسان کا ہے اور اس حق سے انکار کرکے کسی طور ملک و قوم کو خودانحصاری اور خوراک کی خومختاری نہیں دی جاسکتی۔
مئی 31 تا 6 جون، 2018
پانی
سندھ آباد گار بورڈ، لاڑکانہ کے صدر اسحاق مغیری نے خبردار کیا ہے کہ رائس کنال میں پانی جاری کرنے میں تاخیر اور ضلع قمبر شہدادکوٹ کی نہروں میں پانی کی قلت کی وجہ سے چاول کی کاشت پر سخت منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سندھ اور بلوچستان کے مابین پانی کی تقسیم پر تنازعہ بھی کھڑا ہوسکتا ہے۔ اسحاق مغیری کا کہنا تھا کہ سکھر بیراج سے شمال مغربی کنال میں تھوڑا پانی جاری کیا گیا تھا جو رتوڈیرو اور دیگر علاقوں تک نہیں پہنچا۔
(ڈان، 1 جون، صفحہ19)
بدین میں کسان تنظیموں کے ارکان اور کسانوں نے پانی کی شدید قلت اور پانی کی وارہ بندی کی خلاف ورزی کے خلاف شٹر بند ہڑتال کی اور کھوسکی، پنگریو، ٹنڈو باگو میں احتجاجی ریلی نکالی۔ مظاہرین نے سندھ اریگیشن اینڈ ڈرینج اتھارٹی (سیڈا) کے چیئرمین، ڈائریکٹر اور پیپلز پارٹی کے مقامی رہنماؤں پر الزام لگایا ہے کہ وہ ان کے حصے کا پانی اپنے علاقوں اور زرعی زمینوں کی طرف موڑ رہے ہیں۔ مظاہرین نے محکمے کے بدعنوان افسران کو فوری طور پر برطرف کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
(ڈان، 4 جون، صفحہ17)
ایک مضمون کے مطابق خریف کے رواں موسم کے دوران پانی کی شدید کمی کی وجہ سے سندھ میں کپاس کی کاشت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ محکمہ زراعت سندھ کے اعداد وشمار کے مطابق مئی کے اختتام تک 620,000 ہیکٹر ہدف کے مقابلے 269,000 ہیکٹرز (40 فیصد) رقبے پر کپاس کاشت کی گئی ہے۔ کاشتکاروں اور متعلقہ حکام کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال جاری رہنے کی صورت میں کپاس کی کاشت کا 50 فیصد ہدف ہی پورا کیا جاسکے گا۔
(محمد حسین خان، ڈان، 4 جون، صفحہ4، بزنس اینڈ فنانس)
انڈس ریور سسٹم اتھارٹی کے ترجمان رانا خالد کے مطابق سکردو میں درجہ حرارت میں اضافے اور برف پگھلنے سے پانی کی بہاؤ میں اضافے کے بعد ارسا نے صوبوں کو ان کے حصے کے مطابق پانی فراہم کرنا شروع کردیا ہے۔ اسکردو میں درجہ حرارت 32 ڈگری تک پہنچ گیا جس کے بعد دریا میں پانی کا بہاؤ 122 فیصد اضافے کے بعد 108,000 کیوسک سے بڑھ کر 240,000 کیوسک ہوگیا ہے۔ پانی کے بہاؤ میں اس اضافے کے بعد ارسا نے پنجاب کے پانی کے حصے میں 34 فیصد، سندھ کے حصے میں 41.66 فیصد، بلوچستان کے حصے میں 75 فیصد اضافہ کردیا ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 5 جون، صفحہ8)
غذائی کمی
تھرپارکر، سندھ میں مزید پانچ بچے غذائی کمی کی وجہ سے موت کا شکار ہوگئے ہیں جس کے بعد گزشتہ پانچ ماہ میں مرنے والے بچوں کی تعداد 250 ہوگئی ہے۔ تھرپارکر میں صرف گزشتہ ایک ہفتے میں ہی 16 بچے جانبحق ہوئے ہیں۔ 20,000 مربع کلومیٹر پر مشتمل پاکستان کے غریب ترین اضلاع میں شمار ہونے والے تھرپاکر کے سول ہسپتال، مٹھی میں ماہر تجربہ کار ڈاکٹروں کی کمی ہے۔ نرسوں کی 19 اسامیوں پر صرف نو نرسیں تعینات ہیں جبکہ ضلع تھرپارکر کی 1.6 ملین آبادی کے لیے صرف ایک گائنوکلوجسٹ تعینات ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 31 مئی، صفحہ2)
ماہی گیری
ایک خبر کے مطابق سندھ حکومت اپنی مدت کے آخری ایام میں سمندر میں جون تا جولائی دو ماہ کے لئے ماہی گیری پر پابندی عائد نہیں کی۔ مچھلی اور جھینگوں کی افزائش کے ان دو ماہ میں بھی سندھ کے ساحلوں پر شکار جاری رہے گا۔ تاہم کراچی فش ہاربر اتھارٹی نے اپنی حدود میں دو ماہ کے لئے ماہی گیری پر پابندی عائد کردی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ کراچی فش ہاربر اتھارٹی نے صرف بندرگاہ کی حدود میں ماہی گیری پر پابندی عائد کی ہے جبکہ دیگر ساحلوں پر ماہی گیری جاری رہ سکتی ہے کیونکہ سندھ حکومت نے جون تا جولائی مچھلیوں اور جھینگوں کی افزائش کے موسم میں ماہی گیری پر پابندی کا سرکاری اعلامیہ جاری نہیں کیا۔ سندھ حکومت نے اپنی پانچ سالہ مدت 28 مئی 2018 کو مکمل کرلی تھی لیکن اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے ماہی گیری پر پابندی عائد نہیں کی۔
(بزنس ریکارڈر، 2 جون، صفحہ3)
چاول
محکمہ زراعت پنجاب نے چاول کے کاشتکاروں کو منظور شدہ چاول کی اقسام اری۔6، کے ایس۔282، کے ایس کے۔133، کے ایس کے۔434، نایاب اری۔9 اور نایاب۔2013 سے زیادہ سے زیادہ پیداوار کے حصول کے لئے سات جون تک بوائی مکمل کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ محکمے کی جانب سے جاری کردہ تجاویز میں باسمتی کی مختلف اقسام کی یکم تا 20 جون تک بوائی کا مشورہ دیا گیا ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 1 جون، صفحہ17)
محکمہ زراعت پنجاب کے مطابق خریف کے موسم میں پنجاب میں 44.45 لاکھ ایکڑ رقبے پر چاول کی فصل کاشت کی جائیگی۔ محکمے نے چاول کی کاشت کے حوالے سے تربیتی ٹیمیں تشکیل دی ہیں جو گاؤں گاؤں جاکر مداخل کے مناسب استعمال، پنیری تیار کرنے اور اسے منتقل کرنے کے لیے کسانوں کی رہنمائی اور انہیں مدد فراہم کررہی ہیں۔ اس تربیتی پروگرام کا بنیادی مقصد تجویز کردہ بیجوں اور کھاد کے مناسب استعمال کے بارے میں کاشتکاروں میں آگہی پیدا کرنا ہے۔ محکمے نے کسانوں کو ہدایت کی ہے بہتر پیداوار کے لیے صرف تجویز کردہ بیج ہی استعمال کریں۔
(بزنس ریکارڈر، 4 جون، صفحہ5)
گارڈ ایگریکلچرل ریسرچ اینڈ سروسز نے چاول کی نئی قسم ’’سپر ہائبرڈ رائس‘‘ کی آزمائشی کاشت کا آغاز کردیا ہے۔ چاول یہ قسم فی ایکڑ 180 من سے زیادہ پیداوار دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ کمپنی کا کہنا ہے ضلع بدین میں 100 ایکڑ زمین پر اس چاول کی آزمائشی کاشت کی جارہی ہے۔ گزشتہ سال بھی چینی کمپنی کی تیارکردہ چاول کی قسم ’’403‘‘ کی (ضلع بدین میں ہی) آزمائشی کاشت کی گئی تھی جس کے بہترین نتائج سامنے آئے تھے۔ چاول کی اس چینی قسم سے فی ایکڑ 135 سے 140 من پیداوار ہوئی تھی۔ اس سال کاشت کی جانے والی چاول کی یہ قسم بھی اسی چینی کمپنی کی تیار کردہ ہے جو پاکستان میں گارڈ ایگریکلچرل ریسرچ اینڈ سروسز کے اشتراک سے کام کررہی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 3 جون، صفحہ5)
گندم
ڈپٹی کمشنر لاہور سمیر احمد سید نے کہا ہے کہ لاہور میں قائم گندم کی خریداری کے چاروں مراکز باردانہ فراہم کررہے ہیں اور کسانوں سے گندم خرید رہے ہیں۔ اب تک 214,490 باردانہ تقسیم کیا جاچکا ہے جس میں سے 212,801 بوریاں گندم کسانوں سے خرید لیا گیا ہے جس کے بعد گندم کی 87 فیصد خریداری مکمل ہوچکی ہے۔ (بزنس ریکارڈر، 5 جون، صفحہ12)
کینو
رواں مالی سال دسمبر تا مئی کے دوران پاکستان نے 222 ملین ڈالر مالیت کے 370,000 ٹن کینو برآمد کئے ہیں جو اب تک کی کینو کی برآمد کی بلند ترین سطح ہے۔ گذشتہ سال 325,000 ٹن کینو برآمد کئے گئے تھے۔ پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹرز، امپورٹرز اینڈ مرچنٹز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ روس کو کینو کی برآمد میں مسائل کا سامنا ہے۔ 10 کلو گرام پاکستانی کینو کی اصل قدر چھ سے سات ڈالر ہے جبکہ روسی حکام 10 کلو گرام کینو کی قدر 9.5 ڈالر مقرر کرہے ہیں جس سے مقامی برآمد کنندگان کو روس کو کینو کی برآمد میں مزید مسابقت کا سامنا ہے۔ ایسوسی ایشن نے حکومت سے روس برآمد کیے جانے والے کینو کے فی کنٹینر پر عائد 250 ڈالر محصولات کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
(ڈان، 6 جون، صفحہ10)
کھاد
کھاد کی قیمتوں میں اضافہ اور پانی کی کمی کے خدشے کے پیش نظر کیمیائی کھاد کی طلب میں کمی کا امکان ہے۔ مئی کے مہینے میں کھاد کے کارخانوں نے یوریا کی قیمت میں 100 روپے فی بوری مزید اضافہ کیا تھا۔ حالیہ بجٹ میں یوریا پر زرتلافی کے خاتمے کے بعد جولائی تک اس کی قیمت میں مزید 100 روپے فی بوری اضافہ متوقع ہے۔ بڑی کھاد کمپنیوں کی پیداوار میں اضافے کے بعد فروری کے مہینے تک کھاد بنانے والے کارخانوں نے 635,000 ٹن یوریا برآمد کی تھی جس کے نتیجے میں جنوری تا مارچ کھاد کی صنعت کے منافع میں 44 فیصد اضافہ ہوا تھا۔
(ڈان، 1 جون، صفحہ10)
گرمی کی لہر
سندھ میں ایک ہفتہ سے جاری شدید گرمی کی لہر سے دادو میں تین افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ دادو میں درجہ حرارت 51 ڈگری سیلسیس ریکارڈ کیا گیا جبکہ نواب شاہ میں زیادہ زیادہ سے درجہ حرارت 50.5 ڈگری سیلسیس ریکارڈ کیا گیا۔ موئن جو دڑو، جیکب آباد اور لاڑکانہ کے شہریوں کو بھی 50 ڈگری سیلیس کی شدید گرمی برداشت کرنا پڑی۔
(ڈان، 2 جون، صفحہ19)
نکتہ نظر
گزشتہ کئی ہفتوں کی طرح اس ہفتے بھی زرعی خبریں ملک میں پانی کی شدید کمی کے نتیجے میں کپاس اور چاول جیسی اہم ترین فصلوں کی پیداوار میں واضح کمی کے خدشات سے بھری پڑی ہیں اور کسان پانی کی کمی کے خلاف مسلسل احتجاج پر مجبور ہیں۔ خصوصاً صوبہ سندھ میں جہاں پانی کی کمی کی وجہ سے اب تک کپاس صرف 45 فیصد رقبے پر ہی کاشت کی گئی ہے۔ سندھ میں کپاس اور چاول جیسی بنیادی فصلوں کی پیداوار میں کمی صوبے میں مزید غربت اور بھوک و بیروزگاری کا سبب بن سکتی ہے جہاں چاول اور کپاس کی بیجائی سے لے کر چنائی تک وابستہ لاکھوں کسان مزدور کام کرکے اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کپاس کے کھیتوں میں مزدوری کرنے والے اکثر خاندان غربت کے شکار تھرپارکر جیسے اضلاع سے ہی روزگار کے حصول کے لیے کپاس کی پیداوار کے مرکز سانگھڑ اور دیگر اضلاع کا رخ کرتے ہیں۔افسوس کا مقام یہ ہے کہ سرمایہ دار توکپاس کی پیداوار میں کمی کے نتیجے میں اپنی ملوں کو رواں دواں رکھنے کے لیے کپاس درآمد کرلیتے ہیں اور اکثر ٹیکس میں چھوٹ کی صورت حکومتی مراعات بھی حاصل کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے پیداوار میں کمی سے براہ راست متاثر ہونے والے اس کسان مزدور طبقے کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔گزشتہ کئی سالوں سے حکومتی عدم توجہی تھرپارکر کے عوام کے مصائب کم کرنے میں بھی ناکام ہے۔ ترقی اور خوشحالی کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کے لیے شرم کا مقام ہے کہ ان کی حکومت نے 16 لاکھ کی آبادی پر ایک لیڈی ڈاکٹر تعینات کرکے اور دیگر طبی ماہرین کی کمی پوری نہ کرکے تھر کے غذائی کمی کے شکاربچوں سے جینے کا حق بھی چھین لیا ہے۔ وقت کی اشد ضرورت ہے کہ استحصال اور ظلم کے شکار عوام اپنی کمرکس لیں اور ظالم، سرمایہ دار طبقہ اشرافیہ کے خلاف جدوجہد کو اپنی راہ بنائیں جس کی منزل پیداواری وسائل پر ان کا اختیار اور خوراک کی خودمختاری ہے۔