یکم تا 7 مارچ، 2018
زراعت
ایک مضمون کے مطابق حکومت پنجاب نے زرعی شعبہ میں اصلاحات کے لئے حال ہی میں عالمی بینک سے 300 ملین ڈالر قرض کی سہولت حاصل کی ہے۔ زرعی منڈی کے استحکام و دیہات میں اصلاحات کے اس منصوبہ کے تحت قرض کے حصول کے لئے 13 اہداف (ڈسبرسمنٹ لنکڈ انڈیگیٹرز) مقرر کئے گئے ہیں جن سے نہ صرف دیہی معیشت متاثر ہوگی بلکہ ان اہداف نے کسانوں اور صارفین میں تشویش کی لہر پیدا کردی ہے۔ ان اہداف میں سال 2019 میں ربیع کے موسم سے سرکاری سطح پر گندم کی خریداری اور دودھ و گوشت کی قیمتوں پر سے سرکاری اختیار کا خاتمہ شامل ہے۔ وفاقی وزارت خزانہ کے ایک افسر کا کہنا ہے کہ انھوں نے عالمی بینک سے اس قرض کے معاہدہ کی مخالفت کی تھی جس کے تحت پنجاب حکومت 50 ملین ڈالر کی پہلی قسط وصول کرچکی ہے۔ سرکاری حکام کے مطابق پنجاب حکومت عالمی بینک کے اس قرض کی شرائط عوام سے چھپارہی ہے کیونکہ اس پر آنے والا ردعمل اگلے عام انتخابات پر اثرانداز ہوسکتا ہے۔ یہ خدشہ ہے کہ سرکاری سطح پر 150 بلین روپے کی گندم کی خریداری روک دینے سے اجناس کی منڈی متاثر ہوگی جبکہ دیہی معیشت پر اس کے خوفناک اثرات مرتب ہونگے۔ پاکستان کسان اتحاد کے صدر خالد محمود کھوکھر کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ حکومت پنجاب کی جانب سے گندم کی خریداری کے عمل سے دستبرداری غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کی حکومتی آئینی ذمہ داری کی خلاف ورزی ہے۔ کسان بورڈ پاکستان کے سابق صدر سردار ظفر حسین کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ کھلی منڈی میں (قیمت کے حوالے سے) غیر یقینی کیفیت اور زیادہ پیداواری لاگت کی وجہ سے کسان گندم کی کاشت روک دیں گے۔ گندم کی کمی کے نتیجے میں قیمت بڑھنے سے صارفین متاثر ہونگے۔ دنیا بھر میں حکومتیں عوام کے لیے کچھ بنیادی غذائی اشیاء کا حصول یقینی بنانے کے لیے زرتلافی سمیت دیگر طریقے استعمال کرتی ہیں اور صارفین کو کھلی منڈی کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا جاتا۔
(امجد محمود، ڈان، 5 مارچ، صفحہ 4 بزنس اینڈ فنانس)
کپاس
پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کے مطابق پچھلے سال کے مقابلے اس سال یکم مارچ تک کپاس کی پیداوار میں 7.63 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ کپاس کی پیداوار مقرر کردہ ہدف 12.6 ملین گانٹھوں کے مقابلے 11.5 ملین گانٹھیں ہوئی۔ سندھ میں کپاس کی پیداوار میں بہتری ہوئی ہے جہاں پیداوار میں 12.32 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ پنجاب میں کپاس کی پیداوار میں 5.07 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
(ڈان، 4 مارچ، صفحہ10)
پنجاب حکومت نے خادم پنجاب کسان پیکج کے تحت کپاس کے منظور شدہ بیجوں پر زرتلافی کی مد میں کئی ملین روپے اضافے کی منصوبہ بندی کی ہے۔ کسان پیکج کے تحت ضلع ملتان، خانیوال، لودھراں، ویہاڑی، بہاولنگر، بہاولپور، لیہ اور راجن پور کے اندراج شدہ کسانوں کو محکمہ زراعت کے منظور شدہ کپاس کے بیج کی خریداری پر 700 روپے فی تھیلا زرتلافی فراہم کی جائے گی۔ ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ یہ زرتلافی صرف منظور شدہ کپاس کے بیج آئی یو بی۔2013، ایف ایچ۔142، ایف ایچ۔لالہ زار، ایم این ایچ۔886 پر دی جائے گی۔ بیج کا تھیلا کھولنے پر کسانوں کو اندر سے 700 روپے زرتلافی کی رسید ملے گی۔ کسانوں کو رسید کا نمبر، اپنا قومی شناختی کارڈ نمبر اور ضلع کا نام اپنے موبائل فون سے 8070 پر پیغام کی صورت بھیجنا ہوگا۔ زرتلافی کے حامل بیج کے تھیلے کسانوں کو اپریل تک فراہم کردیے جائیں گے۔
(بزنس ریکارڈر، 4 مارچ، صفحہ17)
وفاقی کابینہ نے پاکستان سینٹرل کاٹن کمیٹی کے انتظامی اختیارات اور کپاس سے متعلق معاملات وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کو کو واپس منتقل کرنے کی منظوری دیدی ہے۔ منصوبہ بندی کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین سرتاج عزیز کی سربراہی میں کمیٹی نے کپاس کی تحقیق میں نجی سرکاری شراکت کو حکومتی سرمایہ کاری میں اضافے کے ذریعے مستحکم کرنے اور کپاس کی پیداوار کو ترقی دینے کے لیے پی سی سی سی کو وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کے سپرد کرنے کی تجویز دی تھی۔ کمیٹی کی سفارشات کے مطابق پی سی سی سی کو بجٹ کپاس پر عائد فی گانٹھ 50 روپے ٹیکس وصول کرکے فراہم کیا جاتا ہے۔ کمیٹی نے ملتان اور سکرنڈ سمیت ملک بھر میں سات کپاس کے تحقیقی مراکز قائم کیے ہیں۔ کمیٹی نے 1990 سے اب تک مثبت نتائج دیے ہیں لیکن گزشتہ کچھ سالوں سے مختلف وجوہات کی وجہ سے کمیٹی کپاس کی پیداوار میں ہونے والی کمی پر قانو نہیں پاسکی جس پر کپاس کی صنعت نے پی سی سی سی پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا اور کپاس کی گانٹھ پر ٹیکس کی وصولی کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا۔
(بزنس ریکارڈر، 7 مارچ، صفحہ1)
سندھ اسمبلی کے اجلاس کے دوران مسلم لیگ (فنکشنل) کے رکن اسمبلی سعید خان نظامانی نے کہا ہے کہ سندھ کو پانی کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ پانی کی کمی نے صوبے کے مختلف علاقوں خصوصاً جمڑاؤ کنال سے متصل علاقوں اور سانگھڑ میں خشک سالی جیسی صورتحال پیدا کردی ہے۔ وزیر صحت سندھ ڈاکٹر سکندر میندھرو نے سعید خان نظامانی سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ سندھ کو منگلا اور تربیلا ڈیم میں پانی کی کمی کی وجہ سے 65 سے 70 فیصد کم پانی فراہم کیا جارہا ہے۔
(ڈان، 6 مارچ، صفحہ18)
برآمدات
متحدہ عرب امارات میں پاکستانی سفیر معظم احمد اور فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) کی قائمہ کمیٹی برائے باغبانی کے چیئرمین وحید احمد کے درمیان ملاقات میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ ایف پی سی سی آئی کی زیر سرپرستی پاکستان متحدہ عرب امارات میں ستمبر 2018 میں نمائش کا انعقاد کرے گا۔ پاکستانی سفیر کا کہنا تھا کہ متحدہ عرب امارات پاکستانی پھلوں، سبزیوں، گوشت اور مرغبانی کی مصنوعات کی بڑی منڈی ہے جہاں سے پاکستانی اشیاء زمینی راستے سے دیگر عرب ممالک میں بھی ترسیل کی جاتی ہیں۔ متحدہ عرب امارات کی جانب سے پاکستان کی مرغبانی مصنوعات پر عائد پابندی بھی ختم کردی گئی ہے جس سے برآمد میں اضافہ متوقع ہے۔ متحدہ عرب امارات پاکستانی کینو اور آم کی بھی بڑی منڈی ہے جس کے لیے تشہیری مہم چلائی جائے گی۔
(دی ایکسپرس ٹریبیون، 1 مارچ، صفحہ13)
ایک خبر کے مطابق بھارتی کمپنیاں اپنے نام سے پاکستانی چاول انڈونیشیا برآمد کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ رائس ایکسپورٹر ایسوسی ایشن آف پاکستان (ریپ) نے پاکستانی چاول کو بھارتی نام سے برآمد کرنے پر سخت تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے وزارت تجارت کو مناسب کارروائی کے لیے آگاہ کردیا ہے۔ حال ہی میں انڈونیشیا کے سرکاری ادارے نے چاول کی خریداری کے لیے مختلف ممالک کی کمپنیوں کو ٹھیکہ دیا تھا جس میں بھارت بھی شامل ہے۔ برآمد کنندگان کو ایک ماہ میں چاول انڈونیشیا ترسیل کرنا ہے۔ کچھ بھارتی کمپنیوں نے وقت پر ترسیل کے لیے پاکستانی برآمد کنندگان سے چاول (اری۔ چھ) کی خریداری کے لیے رابطہ کیا ہے۔ ریپ کا کہنا ہے کہ بھارتی کمپنیوں نے بغیر چھپائی کے تھیلے کی شرط پر پاکستانی کمپنیوں سے چاول کی خریداری کے لئے رجوع کیا ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 6 مارچ، صفحہ5)
ماحول
یو ایس پاکستان سینٹر فار ایڈوانس سٹیڈیز ان واٹر کے پانچ ماہرین کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق کے مطابق 1833 میں دریائے سندھ کا ڈیلٹا اندازے کے مطابق 12,900 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا تھا۔ تاہم انسانوں کے ماحول پر پڑنے والے اثرات اور دریا کے قدرتی بہاؤ میں کمی وجہ سے ڈیلٹا 92 فیصد سکڑ کر 1,000 مربع کلومیٹر رہ گیا ہے۔ کئی دہائیوں سے متاثرہ آبادیاں، ماحولیاتی ماہرین اور کارکنان سمندر کے بڑھنے اور اس کے ڈیلٹا، ساحل اور مقامی آبادیوں پر پڑنے والے اثرات کی طرف توجہ دلاتے آرہے تھے تاہم ماہرین کی جانب سے سمندر کے آگے بڑھنے کے مستند اندازے کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی جسے ادارے کے ماہرین نے پوری کرنے کی کوشش کی ہے۔ 15 ماہ پر مشتمل اس تحقیق کے لیے مواصلاتی تصویروں اور تحقیق کے دیگر طریقوں سے مدد لی گئی ہے۔ اس وقت انڈس ڈیلٹا کو کئی خطرات کا سامنا ہے جن میں زمینی کٹاؤ اور سمندر کا بڑھنا، دریا کے بہاؤ میں کمی اور موسمی تبدیلی شامل ہے۔ ماہرین نے تجویز کیا ہے کہ پنیاری اور کے بی فیڈر نہر میں پانی کے بہاؤ کو بڑھایا جائے جبکہ مینگروز کے جنگلات میں بھی اضافہ کیا جائے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 3 مارچ، صفحہ4)
وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی ڈاکٹر محمد اجمل خان نے یونیورسٹی میں شجر کاری مہم کا افتتاح کیا ہے۔ افتتاحیتقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا عالمی حدت اور بڑھتی ہوئی گرمی کی لہر ماحول کے توازن کے لئےخطرہ ہے۔ طوفان، سیلاب اور خشک سالی جیسی آفات اور عالمی حدت سے جنوبی ایشیائی ممالک کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔ درخت ان قدرتی آفات کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہے۔ شجرکاری ہی وہ ذریعہ ہے جس سے دنیا کو عالمی حدت کے خطرات سے محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ اس مہم کے دوران 2,500 سے زائد درخت لگائے جائینگے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 1 مارچ، صفحہ5)
نکتہ نظر
سرفہرست گندم کے حوالے سے لکھا گیا مضمون اور کپاس کی پیداوار و زرتلافی کے حوالے سے خبریں خصوصاً قابل ذکر ہیں۔ حکومت پنجاب کی جانب سے عالمی بینک سے قرض کے حصول کی خبر اس پہلے بھی شائع ہوچکی ہے جس میں بظاہر سارا زور زرعی پیداوار (بشمول مال مویشی شعبہ) میں اضافے، زرعی منڈیوں کے استحکام اور موسمی تبدیلی سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے اصلاحات پر ہے۔ ڈان اخبار میں شائع ہونے والے مضمون میں اس منصوبے کے حوالے سے کچھ تفصیلات پیش کی گئی ہیں جن کے مطابق پنجاب حکومت گندم کے سرکاری ذخائر اور گندم کی خریداری (بتدریج) ختم کردے گی اور ساتھ ہی گوشت اور دودھ کی قیمت پر بھی سرکاری اختیار ختم کردیا جائے گا۔ دوسری طرف پنجاب حکومت کپاس کے بیجوں پر زرتلافی دینے کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔ بظاہر لگتا ہے کہ پیداوار میں اضافے کے لیے کپاس کے بیج اور زرعی ادویات کی صنعت کے ساتھ ساتھ کپڑے کی مقامی صنعت کو تحفظ دینا مقصود ہے جو اس وقت کپاس کے زیرکاشت رقبے میں کمی کی وجہ سے متاثر ہورہی ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کپاس کی کاشت کرنے والا چھوٹا کسان کپاس کے ناقص جینیاتی بیج سے کاشت کردہ فصل پر بیماریوں کے حملے سے بری طرح متاثر تو ہوا ہے لیکن اس سے پہلے بھی کپاس اگانے والے یہ کسان کوئی بہت اچھے حالات میں نہیں تھے یعنی کپاس کی بہتر پیداوار ہرگز کسان کی خوشحالی کی ضمانت نہیں ہے۔ پنجاب میں کپاس کے پیداواری علاقے خصوصا جنوبی پنجاب اور سندھ کے علاقوں میں کسانوں کی غربت اور بدحالی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ پیداوار اچھی ہو تو بھی چھوٹا کسان بمشکل پیٹ بھر روٹی حاصل کرپاتا ہے جبکہ منافع بیج اور دیگر مداخل بنانے والی کمپنیوں اور دیگر صنعتوں کے حصے میں آتا ہے جو دن با دن ترقی کرتی جارہی ہیں۔
یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ اگر حکومت زرتلافی ختم کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے تو پھر صرف گندم کی فصل پر ہی کیوں؟ چینی کی برآمد ہو یا گندم کی برآمد، کپاس کی درآمد ہو یا چاول کی برآمد، سرمایہ داروں کو نفع پہنچانے کے لیے بھاری زرتلافی اور مراعات دی جاتی ہیں لیکن گندم جیسی اہم غذائی فصل پر زرتلافی کا خاتمہ کرکے حکومت پنجاب صوبے بھر کے چھوٹے کسانوں کو منڈی کے رحم و کرم پر چھوڑ کرانہیں بھوک، غربت اور غذائی عدم تحفظ میں دھکیلنے کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔ پنجاب حکومت کا یہ عمل پاکستان کی غذائی خودمختاری پر ایک کاری ضرب ثابت ہوگا جو ملک میں نہ صرف گندم بلکہ گوشت اور دودھ کی قیمتوں میں اضافے کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے۔ یہاں یہ ذکر بھی انتہائی ضروری ہے کہ حالیہ یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات دنیا میں سب سے زیادہ ہے جس کی بنیادی وجہ یقیناً بھوک، غربت اور غذائی کمی ہی ہے۔ عوام کے غذائی تحفظ کو یقینی بنانا حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے اور دنیا بھر میں حکومتیں عوام کے غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرتی ہیں اس کے برعکس ’خادموں‘ کی یہ حکومت عوام کا غذائی تحفظ چھین لینے پر کمربستہ ہے۔ ملک کو غربت، بھوک اور غذائی کمی جیسے مسائل سے نجات صرف اور صرف پائیدار طریقہ زراعت سے دی جاسکتی ہے جو خوراک کی خودمختاری کا ضامن ہے۔
مارچ : 8 تا 14 مارچ 2018
زراعت
محکمہ زراعت پنجاب ایک خصوصی موبائل ایپلیکیشن کا اجراء کررہی ہے تاکہ کسان بہتر فصلوں کے لیے زرعی ماہرین سے مشاورت کرسکیں، موسمی صورتحال اور پیشنگوئی حاصل کرسکیں اور مختلف فصلوں کی جدید پیداواری ٹیکنالوجی پر مبنی ویڈیو دیکھ سکیں۔ خادم پنجاب کسان پیکچ کے تحت ابتدائی طور پر اندارج شدہ کسانوں میں 110,000 جدید (اسمارٹ) موبائل فون تقسیم کیے جائیں گے اور منصوبے کے اگلے مرحلے میں تمام اندارج شدہ کسانوں کو موبائل فون فراہم کردیے جائیں گے۔ اس منصوبے کو ’’کنیکٹڈ ایگریکلچرل پلیٹ فارم پنجاب‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ محکمہ زراعت پنجاب نے موبائل کمپنی ٹیلی نار اور پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کے تعاون سے یہ موبائل ایپلیکیشن تیار کی ہے اور محکمہ زراعت کسانوں کو اس کے موثر استعمال کی تربیت دینے کے لئے ٹیلی نار کے تعاون سے سہولت مراکز بھی قائم کریگا۔
(بزنس ریکارڈر، 11 مارچ، صفحہ5)
خوراک
اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری کردہ تفصیلات کے مطابق مالی سال 2018 کے پہلے چھ ماہ میں درآمدات کا حجم 21.3 بلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے اور حیرت انگیز طور پر ان درآمدات کا بڑا حصہ زرعی و ڈیری مصنوعات پر مشتمل ہے جو ملک میں باآسانی دستیاب ہیں۔ ان اشیاء کی درآمد ملکی سطح پر شاہ خرچیوں کو ظاہر کرتی ہے جسے روک کر قیمتی زرمبادلہ بچایا جاسکتا ہے۔ رواں مالی سال کے ابتدائی چھ ماہ میں سبزیوں کی درآمدات پر خرچ ہونیوالی رقم گذشتہ سال کے مقابلے 29 فیصد زیادہ ہے۔ پھلوں کی درآمد پر گذشتہ سال 49 ملین ڈالر کے مقابلہ میں اس سال 74.9 ملین ڈالر خرچ کئے گئے ہیں جبکہ ڈیری مصنوعات، انڈے، شہد اور دیگر خوردنی اشیاء پر 64.6 ملین ڈالر خرچ کیے گئے۔
(ڈان، 10 مارچ، صفحہ10)
مزدور کسان
سندھڑی، میرپورخاص پولیس نے عورتوں اور بچوں سمیت 19 ہاریوں کو مقامی زمیندار محمد انور کی زمین سے بازیاب کرکے سیشن کورٹ میرپور خاص میں پیش کردیا ہے۔ عدالت نے گوردھن بھیل کی درخواست پر پولیس کو چھاپہ مارنے کا حکم دیا تھا۔ گوردھن بھیل نے درخواست میں کہا تھا کہ اس کا خاندان اور دیگر قریبی رشتہ داروں، جن میں بچے بھی شامل ہیں، کو زمیندار نے جبری مشقت پر رکھا ہوا ہے جنہیں کہیں آنے جانے کی اجازت نہیں اور انہیں اجرت دینے سے انکار کیا جارہا ہے۔ ان ہاریوں کو سندھ ٹیننسی ایکٹ 2013 کے مطابق طبی سہولیات اور پیداوار میں حصے سے بھی محروم کیا گیا ہے۔ عدالت نے بیان قلمبند کرنے کے تمام ہاریوں کو رہا کردیا۔
(ڈان، 13 مارچ، صفحہ19)
پانی
چیرمین واپڈا لیفٹنٹ جنرل ریٹائرڈ مزمل حسین نے ایوان صنعت و تجارت لاہور کے صدر ملک طاہر جاوید اور دیگر حکام سے ملاقات میں کہا ہے کہ پہلی قومی آبی پالیسی کا جلد اعلان کیا جائے گا جو پانی کے حوالے سے مسائل حل کرنے میں معاون ہوگی۔ اس حقیقت کے باجود کہ پانی کے وسائل ختم ہورہے ہیں ملک میں صرف 10 فیصد پانی ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ پاکستان پانی سے محرومی کے شکار ممالک کی فہرست میں 15 ویں نمبر پر ہے جو (معاشی طور پر) 14.5 بلین ڈالر مالیت کا پانی سمندر میں گرادیتا ہے۔ چیئرمین واپڈا کا مزید کہنا تھا کہ تین دہائی پہلے تک پاکستان 70 فیصد بجلی پانی جبکہ 30 فیصد دیگر ذرائع سے حاصل کرتا تھا تاہم اب یہ تناسب تقریبا الٹ ہوچکا ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 8، مارچ، صفحہ20)
محکمہ زراعت پنجاب کے ترجمان کا کہنا ہے کہ حکومت صوبے میں پانی کی قلت پر قابو پانے کے لیے قطرہ قطرہ آبپاشی نظام (ڈرپ اریگیشن) کو فروغ دے رہی ہے۔ یہ نظام ان علاقوں میں موثر ہے جہاں نہری اور بارش کا پانی کاشت کے لیے ناکافی ہے۔ اس نظام کی بدولت فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ اور پیداواری لاگت میں کمی کے تناظر میں ضروری ہے کہ کسانوں میں اس نظام سے متعلق آگاہی پیدا کی جائے۔ کسان اس ٹیکنالوجی سے ڈیزل اور بجلی پر آنے والی لاگت میں 60 فیصد کمی کرسکتے ہیں۔ حکومت اس نظام کی تنصیب کے لیے کسانوں کو مختلف آلات اور مکمل نظام پر 60 فیصد زرتلافی دے رہی ہے۔ فلحال یہ نظام محدود رقبے یعنی 12.5 ایکڑ تک زمین پر عالمی بینک کی مدد سے استعمال کیا گیا ہے جسے مزید بڑھانے کے لیے دیگر طریقہ کار اور ٹیکنالوجی پر کام جاری ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 9 مارچ، صفحہ13)
وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ سے عالمی بینک کے وفد کی ملاقات کے دوران بینک نے اصولی طور پر سکھر بیراج کی مرمت و بحالی کے لئے قرض فراہم کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے اور منصوبے کی باضابطہ منظوری کے لیے سندھ حکومت کو منصوبے کے ابتدائی تخمینے پر مبنی رپورٹ جمع کروانے کے لیے کہا ہے۔ اس منصوبہ کی لاگت 16.256 بلین روپے ہوگی جو چار سال میں مکمل ہوگا۔ وزیر اعلی سندھ نے کہا ہے کہ منصوبہ کا ابتدائی تجزیاتی مطالعہ (فزیبلیٹی رپورٹ) اورمنصوبہ کے ماحولیاتی اثرات کا جائزہ لینے کے لئے کھلی کچہری کاانعقاد بھی کیا جاچکا ہے۔
(ڈان، 14 مارچ، صفحہ17)
گنا
سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قومی غذائی تحفظ و تحقیق نے رواں موسم میں صوبوں کی جانب سے گنے کی مقرر کردہ امدادی قیمت پر عملدرآمد نہ کرائے جانے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ سینٹر مظفر حسین شاہ کی زیرصدارت ہونے والے اجلاس میں یہ بات سامنے آئی کہ سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے گنے کی قیمت 160 روپے فی من مقرر کی گئی تھی جس پر اب تک عملدرآمد نہیں ہوسکا۔ ان حالات میں گنے کی کاشت بری طرح متاثر ہوگی اور کسان دیگر فصلوں کی کاشت کی طرف راغب ہونگے جس سے ملک میں چینی کا شدید بحران پیدا ہوسکتا ہے۔ کمیٹی نے صوبوں اور وفاق سے کسانوں کے حقوق کے تحفظ اور گنے کی قیمت مقرر کرنے کے مناسب طریقہ کار تیار کرنے کی سفارش کی ہے تاکہ کسان گنے کی جائز قیمت حاصل کرسکیں۔ کمیٹی نے صوبائی حکومتوں کو کہا ہے کہ وہ گنا کمشنروں کے ذریعے گنے کی امدادی قیمت پر عملدرآمد کروائیں۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 8 مارچ، صفحہ13)
سندھ آباد گار اتحاد کے صدر نواب زبیر تالپور نے ایک پریس کانفرنس میں شوگر ملوں کی جانب سے کسانوں کو سندھ ہائی کورٹ کے احکامات کے مطابق گنے کی قیمت ادا نہ کیے جانے کی مزمت کی ہے۔ اتحاد کے صدر کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت نے بھی اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا جس کے نتیجے میں کسانوں کو نقصان ہورہا ہے۔ سندھ حکومت نے 2017-18 کے لئے گنے کی امدادی قیمت 182 روپے فی من مقرر کی تھی لیکن حکومت اس اعلامیہ پر عملدرآمد میں ناکام ہوئی۔ ملوں نے حکومتی اعلامیہ کے خلاف عدالت سے رجوع کیا جس پر عدالت نے 160روپے فی من گنے کی قیمت ادا کرنے کا حکم دیا لیکن مل مالکان نے عدالتی احکام پر بھی عملدرآمد نہیں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت ملیں کسانوں کو 130 روپے فی من گنے کی قیمت ادا کررہی ہیں جو سندھ ہائی کورٹ کے احکام کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
(ڈان، 13 مارچ، صفحہ 19)
چاول
رواں مالی سال کے ابتدائی آٹھ ماہ کے دوران پاکستان سے چاول کی برآمد میں واضح اضافہ ہوا ہے۔ گذشتہ مالی سال کے مقابلہ میں جولائی تا فروری کے دوران چاول کی برآمد 27 فیصد تک بڑھ گئی ہے۔ پاکستان نے ابتدائی آٹھ ماہ میں گذشتہ سال 961 ملین ڈالر کے مقابلہ میں اس سال 1.224 بلین ڈالر مالیت کا (2.59 ملین ٹن) چاول برآمد کیا ہے۔ نائب چیئرمین ریپ رفیق سلیمان کا کہنا ہے کہ پاکستان اس بحران سے نکل آیا جس کا وہ گزشتہ تین سالوں سے شکار تھا۔ چاول کی برآمدات میں بہتری ملکی معیشت کے لیے نیک شگون ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 10 مارچ، صفحہ5)
خوراک
پنجاب فوڈ اتھارٹی نے بچوں کے لیے خشک دودھ کے حوالے سے قانون (پنجاب فوڈ اتھارٹی انفینٹ فارمولا مارکیٹنگ ریگولیشن 2017) کے نفاذ کے بعد خصوصی مہم کے دوران دودھ کے 60,000 ڈبے ضبط کرلیے ہیں۔ اتھارٹی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ دودھ کے ڈبے قوانین کی خلاف ورزی پر ضبط کیے گئے ہیں۔ منڈی میں دودھ کے ڈبے نیدرلینڈ اور فرانس کے لیبل کے ساتھ فروخت کیے جارہے تھا جبکہ یہ دودھ چین سے درآمد کیا گیا تھا۔ غیر معیاری دودھ کے استعمال کی وجہ سے بچوں کو غذائی کمی کا سامنا ہے جبکہ دودھ بنانے والی کمپنیاں اپنی تشہیری مہم میں گمراہ کن معلومات کا پرچار کررہی ہیں۔ اتھارٹی کے قوانین کے مطابق ہر کمپنی پابند ہے کہ وہ ڈبے کے 15 فیصد حصے پر ’’یہ دودھ ماں کے دودھ کا نعم البدل نہیں ہے‘‘ تحریر کرے۔
(بزنس ریکارڈر، 8 مارچ، صفحہ17)
ایک خبر کے مطابق مسابقتی کمیشن (کمپٹیشن کمیشن آف پاکستان) نے پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن کو بظاہر مسابقتی اصولوں کی خلاف ورزی کرنے اور آٹے کی قیمت مقرر کرنے پر اظہار وجوہ کا مراسلہ جاری کیا ہے۔ کمیشن نے اس خبر پر کارروائی کا آغاز کیا جس میں کہا گیا تھا کہ فلور ملز ایسوسی ایشن اور اس کے اراکین نے 2015 اور 2016 میں گندم، آٹا اور اس سے حاصل ہونے والی دیگر اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کیا تھا۔ کمیشن نے ایسوسی ایشن کے دفتر کی چھان بین کی ہے اور متعلقہ دستاویزات بھی قبضے میں لے لی ہیں۔ (ڈان، 9 مارچ، صفحہ11)
نکتہ نظر
اس ہفتے کی خبروں سے ملکی زرعی معیشت کی سمت اور اس کے اثرات کا اندازہ لگانا شاید قارئین کے لیے مشکل نہ ہو۔ خادم پنجاب کسان پیکج کے تحت کسانوں کو جدید موبائل فون فراہم کیے جارہے ہیں تاکہ کسان ’جدید ٹیکنالوجی‘ استعمال کریں اور خوشحال ہوجائیں! محکمہ زراعت پنجاب ہی کسانوں کو ’جدید‘ آبپاشی نظام کی طرف بھی راغب کررہی ہے تاکہ پیداوار میں اضافہ کیا جائے۔ سندھ و پنجاب حکومت کے عالمی بینک اور دیگر اداروں سے قرض لے کر شروع کیے گئے منصوبے ان حالات میں مضحکہ خیز ہیں کہ وہ چھوٹے اور بے زمین کسان جو پیداواری وسائل سے ہی محروم ہیں یا بہت ہی کم وسائل رکھتے ہیں، اس مسلط کردہ جدت کو اپنا سکیں گے جس کے تحت انہیں زیادہ پیداوار کے طریقے تو سکھائے جاتے ہیں لیکن ان کی خومختاری کی قیمت پر۔ ان اقدامات سے سرمایہ دار کمپنیوں کے اب تک بیج، کھاد، زرعی زہر، مشینری تو فروخت ہوہی رہی تھی اب موبائل فون بھی زراعت کا حصہ بننے جارہے ہیں۔ عالمی سرمایہ دار اداروں کے اشاروں پر زرعی اصلاحات کو جدت کے لبادے میں صرف اور صرف کسانوں کے استحصال کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جس کی ایک نہیں کئی مثالیں موجود ہیں۔ ایک طرف کسانوں کو کھاد پر زرتلافی موبائل فون کے ذریعے دینے کی اسکیم ہے دوسری طرف گندم کی امدادی قیمت ختم کرنے، دودھ اور گوشت جیسی بنیادی غذائی اشیاء کی قیمت پر سرکاری اختیار ختم کرنے کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کسان زیادہ پیداوار موبائل ٹیکنالوجی، ڈرپ اریگیشن ٹیکنالوجی اور غیر پائیدار طریقہ زراعت کے زریعے حاصل بھی کرلے تو کیا اسے اس کی پیداوار کی جائز قیمت اسے منڈی سے ملے گی؟ ہر گز نہیں! سرمایہ دار ممالک اور ان کے امدادی اداروں کی ایما پر ہی نیولبرل پالیسیوں کے نتیجے میں ملک میں درآمد ہونے والی خوراک کو بھی نہیں روکا جاسکتا جس پر بھاری زرمبادلہ تو خرچ ہوتا ہی ہے ملک کا کسان بھی مقامی منڈی میں سستی غیر ملکی اشیاء کی بھر مار سے خسارے میں جارہا ہے۔ سبزیوں کی درآمد کے اسٹیٹ بینک کے اعداوشمار خود اس بات کی گواہی دے رہے ہیں۔ ان دونوں خبروں کے ساتھ ہی ایک اور خبر عالمی بینک کی جانب سے سکھر بیراج کی مرمت و بحالی کے لیے قرض فراہم کرنے کی ہے۔ لیکن یہ خبر بھی ضلع میرپورخاص، سندھ کی ہی ہے کہ زمیندار کی قید سے 19 ہاری بازیاب کروالیے گئے جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔ بیراجوں کی تعمیر، پانی کی فراوانی اور دیگر زرعی اصلاحات اس وقت تک کسانوں کی مشکلات کا مداوا نہیں کرسکتیں جب تک جاگیردار وڈیروں سے زمین چھین کر کسانوں میں منصفانہ اور مساویانہ تقسیم نہیں کردی جاتیں۔ ان ہاریوں کی قید اور رہائی بے معنی ہے جسے روکا نہیں جاسکتا اس وقت تک جب تک وہ خوراک کے حصول میں خومختار نہیں ہوجاتے اور اس خودمختاری کی پہلی سیڑھی زمین کی تقسیم ہے۔
فروری : 15 تا 21 مارچ 2018
زراعت
محکمہ زراعت پنجاب زرعی مشینری کے فروغ کے لئے 6 اور 7 اپریل کو لاہور ایکسپو سینٹر میں عالمی زرعی نمائش 2018 منعقد کررہا ہے۔ محکمہ کے ترجمان کے مطابق نمائش کا بنیادی مقصد جدید طریقہ پیداوار کو فروغ دینا اور کسانوں کو یہ آگاہی فراہم کرنا ہے کہ کس طرح کھیت کی سطح پر جدید ٹیکنالوجی استعمال کی جاسکتی ہے جو فی ایکڑ اخراجات میں کمی کے لیے معاون ہوتی ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 15 مارچ، صفحہ20)
حکومت پنجاب زراعت کو جدید خطوط پر استوار کرنے، اسے منافع بخش بنانے اور پیداوار میں اضافے کے لئے رواں مالی سال 2.25 بلین روپے خرچ کررہی ہے۔ محکمہ زراعت کے مطابق اس منصوبے سے صوبے کے مختلف علاقوں میں زرعی شعبے میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہونگی۔ موسمی تبدیلی سے نمٹنے کے لئے جدید آبپاشی کی تکنیک متعارف کرنے پر توجہ دی جارہی ہے۔ اس پروگرام کے تحت 11,000 ایکڑ زمین پر قطرہ قطرہ آبپاشی نظام قائم کیا جاچکا ہے جبکہ 1,500 ایکڑ زمین پر شمسی توانائی سے چلنے والا فواروں کے ذریعے آبپاشی کا نظام (اسپرنکلر اریگیشن) بھی نصب کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ 350 ایکڑ زمین پر ٹنل فارمنگ تکنیک بھی نصب کی گئی ہے جو سال بھر بے موسم سبزیوں کی فراہمی میں معاون ہوگی۔ حکومت شمسی نظام کی تنصیب پر 80 فیصد، ٹنل فارمنگ پر 50 فیصد جبکہ سپرنکلر ایریگیشن کی تنصیب پر 60 فیصد زرتلافی فراہم کررہی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 19 مارچ، صفحہ5)
زمین
ایک خبر کے مطابق پنجاب کے علاقے چولستان میں وزیر اعلی پنجاب پیکج کے تحت یکم اپریل سے زمین کی فراہمی کا آغاز کیا جائے گا۔ پہلے مرحلے میں 15,000 اہل درخواست گزاروں کو 12.5 ایکڑ فی کس کے حساب سے تقریباً 200,000 ایکڑ زمین منتقل کی جائے گی۔
(ڈان، 19 مارچ، صفحہ6)
کسان مزدور
ایڈشنل سیشن جج نواب شاہ نے ماں باپ اور 14 بچوں پر مشتمل خاندان کو رہا کردیا ہے جنہیں پولیس نے عدالتی حکم پر دولت پور کے قریب زمیندار غلام محمد کی زمینوں پر چھاپہ مار کر خاندان کو بازیاب کروایا تھا۔ متاثرہ خاندان سے تعلق رکھنے والے میر خان لاشاری نے عدالت میں درخواست دائر کی تھی کہ اس کے خاندان کے افراد گزشتہ آٹھ ماہ سے زمیندار کے پاس کام کر رہے جنہیں نہ کہیں آنے جانے کی اجازت ہے نہ ہی انہیں کام کی اجرت دی جارہی ہے۔ رہا ہونے والے خاندان کا تعلق گاؤں اللہ ڈنو لاشاری ضلع ٹنڈومحمد خان سے ہے۔
(ڈان، 20 مارچ، صفحہ19)
خشک سالی
وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے تھر میں غربت کے شکار عوام میں مفت گندم تقسیم کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ اس حوالے سے وزیر بلدیات سندھ جام خان شورو کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس نے کئی متاثرہ علاقوں کا دورہ کرکے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ سندھ حکومت نے ان علاقوں میں گزشتہ سال گندم اور مویشیوں کا چارہ تقسیم نہیں کیا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ متاثرہ علاقوں میں مفت گندم تقسیم کی جائے جہاں خشک سالی کی صورتحال گزشتہ سال جیسی ہی ہے۔ وزیر اعلی نے کمیٹی کی سفارش پر تھر کے 287,000 خاندانوں کو فی خاندان 100 کلوگرام گندم تقسیم کرنے کی منظوری دی ہے۔ گندم کی تقسیم فوری طور پر شروع ہوگی جو اپریل کے آخر تک مکمل ہوگی۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 17 مارچ، صفحہ5)
گنا
ایک خبر کے مطابق ملک بھر میں شوگر ملوں کی جانب سے مقرر کردہ سرکاری قیمت پر گنا نہ خریدنے کی وجہ سے کسانوں کو اب تک 66 بلین روپے سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے۔ اس سلسلے میں وزیراعظم کی زیر صدارت ہونے والے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں وفاقی وزیر قومی غذائی تحفظ وتحقیق سکندر حیات خان بوسن کا کہنا تھا کہ جنوبی پنجاب میں ایک یا دو شوگر ملوں کے علاوہ کوئی بھی مل حکومت کی مقرر کردہ قیمت پر گنا نہیں خرید رہا ہے۔ ملیں کسانوں سے 120 سے 130 روپے فی من گنا خرید رہی ہیں جبکہ کسان سے رسید پر دستخط 180 روپے فی من قیمت پر لیے جارہے ہیں۔ اکثر ملیں کسانوں کو رسید ادا ہی نہیں کررہیں اور متبادل کے طور پر بغیر چھپی رسید کسانوں کو دی جارہی ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 20 مارچ، صفحہ3)
پانی
تمام صوبوں نے پانی کی کمی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وفاق پر مسئلے کے حل کے لئے اقدامات کرنے پر زور دیا ہے۔ بلوچستان کے سینیٹر محمد عثمان کاکڑ نے اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ 2025 تک پاکستان کو پانی کی شدید کمی کا سامنا ہوگا۔ بلوچستان میں عوام کو پینے کا پانی میسر نہیں اور زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے کم ہورہی ہے۔ ماضی میں بلوچستان میں زیر زمین پانی کی سطح 10 سے 100 فٹ تھی، اب یہ سطح 600 فٹ ہے جبکہ پانی کی شدید کمی کے شکار کوئٹہ میں زیر زمین پانی کی سطح 1,500 فٹ ہوگئی ہے۔ اگر وفاقی حکومت نے اس حوالے سے اقدامات نہیں کیے تو مستقبل میں صورتحال بدترین ہوجائے گی۔ پنجاب اریگیشن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر غلام ذاکر حسین کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ پنجاب میں پینے کا صاف پانی موجود نہیں جبکہ زیر زمین پانی کی سطح میں ہر سال 2.5 فٹ کمی ہورہی ہے۔ اگر یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا تو ایک وقت آئے گا کہ ملک میں پینے کا پانی بھی نہیں ہوگا۔ آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان پانی کی کمی شدید کمی کے شکار ممالک کی فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 20 مارچ، صفحہ13)
نکتہ نظر
اس ہفتے کی خبروں میں بھی زراعت میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے لیے پنجاب حکومت کی نام نہاد کوششیں سرفہرست ہیں لیکن ان کے ساتھ جڑی دیگر خبریں بھی قابل غور ہیں۔ چولستان میں زمینی تقسیم کے حوالے سے خبر پنجاب حکومت کے معمولات سے مختلف نظرآتی ہے جس کی پزیرائی کی جاسکتی ہے اگرچہ یہ زمین زراعت کے قابل ہوکر کسانوں کے روزگار کا ذریعہ ثابت ہو۔ یہ امکان یوں بھی کم محسوس ہوتا ہے کہ ملک بھر میں پانی کی کمی کے جو اعداوشمار سامنے آرہے ہیں وہ انتہائی تشویشناک ہیں۔ خود پنجاب اریگیشن کے حکام مستقبل میں خوفناک صورتحال کی منظر کشی کررہے ہیں جو ملکی غذائی تحفظ اور کسانوں کے روزگار پر سوالیہ نشان کھڑا کررہی ہے۔ پانی کی کمی کی موجودہ صورتحال میں ضروری ہے کہ زیادہ پانی سے کاشت ہونے والی فصلوں کی پیداوار کو محدود کیا جائے اور ان کی جگہ غذائی فصلوں کی کاشت کو فروغ دیا جائے۔ خصوصاً گنے کی پیداوار کہ جس کی ضرورت سے زیادہ پیداوار نہ ناصرف اس کی امدادی قیمت میں کمی اور کسانوں کے نقصان کا سبب بن رہی ہے دوسری طرف گنے سے تیارکردہ چینی پر بھی حکومت اشرافیہ کے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے سرکاری خزانے سے بھاری زرتلافی ادا کرتی ہے۔ موجودہ غیر پائیدار زراعت میں ہائبرڈ بیج کا استعمال پانی کے بحران میں اضافے کی وجوہات میں سے ایک وجہ ہے کیونکہ ہائبرڈ بیج سے کاشت میں روایتی بیج کے مقابلے دگنا پانی استعمال ہوتا ہے۔ صوبہ سندھ میں ہاریوں کی زمیندار کی قید سے بازیابی اور رہائی اب ایک معمول بن چکا ہے لیکن شاز ونادر ہی کسی زمیندار کی گرفتاری اور سزا کی خبر اخبارات کی زینت بنتی ہو۔ دور جدید میں اس بدترین غلامی کو صرف اور صرف جاگیرداری نظام کا خاتمہ کرکے زمین کی منصفانہ اور مساویانہ تقسیم کے ذریعے ہی ختم کیا جاسکتا ہے جس کے لیے ملک بھر کے چھوٹے اور بے زمین کسان مزدورں کو متحد ہو کر منظم انداز میں مزاحمت کرنے کی ضرورت ہے۔
مارچ 22 تا 28 مارچ، 2018
زراعت
حیدر آباد میں ایک غیر سرکاری تنظیم کی جانب سے منعقد کردہ مزاکرے میں آغا خان یونیورسٹی کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر نوشین علی نے قدرتی بیجوں کے استعمال پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ بین الاقوامی کمپنیوں نے عالمی منڈی میں سبز انقلاب کے نام پر ہائبرڈ اور جینیاتی بیچ متعارف کروائے ہیں۔ بین الاقوامی کمپنیوں سے بیج خریدنے کے رجحان کی وجہ سے کسانوں نے بیج محفوظ کرنے اور اسے دوبارہ کاشت کے لیے استعمال کرنا ترک کردیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یورپ کے 15 ممالک نے ہائبرڈ اور جینیاتی بیج پر پابندی عائد کی ہے لیکن پاکستان جیسے غریب ممالک میں ان بیجوں کی آزادانہ فروخت کی اجازت دی جارہی ہے۔ زرائع ابلاغ یہاں تک کہ یونیورسٹیاں ان کمپنیوں کے زیر اثر ہائبرڈ بیج کے منفی اثرات ظاہر کرنے سے کتراتی ہیں۔ پاکستان اور بھارت میں کپاس کی 90 فیصد پیداوار نقصان دہ بی ٹی یعنی جینیاتی بیج سے کی جارہی ہے اور اس کپاس کے صحت پر پڑنے والے منفی اثرات جاننے کے لیے کوئی تحقیق نہیں کی گئی۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 27 مارچ، صفحہ5)
پانی
ارسا کی تکنیکی کمیٹی نے خریف کے موسم میں پانی کی دستیابی کا اندازہ لگانے کے لیے ایک اجلاس منعقد کیا ہے تاکہ صوبے پانی کی دستیابی کے مطابق فصلوں کی بیجائی کے لیے منصوبہ بندی کرسکیں۔ اپریل کے مہینے میں 40 فیصد پانی کی کمی کا اندازہ لگایا گیا ہے جس کی وجہ سے خریف کی فصلوں کی بیجائی میں سخت مشکلات اور بیجائی میں تاخیر کا سامنا ہوسکتا ہے۔ خریف کا موسم یکم اپریل سے 30 نومبر تک ہوتا ہے جس کی اہم فصلوں میں چاول، گنا، کپاس اور مکئی شامل ہیں۔ حکام کے مطابق تربیلا اور منگلا ڈیم میں پانی کی سطح خطرے کے نشان تک نیچے گر گئی ہے اور دونوں ڈیموں میں مجموعی طور پر پانی کی مقدار 0.105 ملین ایکڑ فٹ رہ گئی ہے۔ پنجاب اور سندھ میں پانی کی کمی بلترتیب 56 اور 47 فیصد ہے۔
(ڈان، 22 مارچ، صفحہ10)
22 مارچ کو دنیا پانی کا عالمی دن منارہی ہے لیکن سندھ کی تقریباً 80 فیصد آبادی خطرے سے دوچار ہے جو آلودہ پانی استعمال کررہی ہے۔ عدالتی کمیشن کی جانب سے سپریم کورٹ میں پیش کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صوبے کے مختلف علاقوں سے جمع کئے گئے 336 پانی کے نمونوں میں سے 251 نمونے انسانی استعمال کے لئے غیر محفوظ اور صرف 85 محفوظ پائے گئے ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پانی کے ان نمونوں میں فلورائیڈ، سلفیٹ، نائٹریٹ، فولاد، سوڈیم، کلورائیڈ سلفیٹ، رنگ، بدبو، پوٹاشیم اور خوردبینی جراثیم پائے گئے ہیں۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 22 مارچ، صفحہ4)
مال مویشی
امریکی امدادی ادارے یو ایس ایڈ نے عورتوں کے لیے مال مویشی شعبے میں وومن انویسٹمنٹ ان نیٹ ورک آف ڈیری انوسٹمنٹ نامی ایک منصوبہ متعارف کروایا ہے۔ ایوان صنعت و تجارت سیالکوٹ میں اس حوالے سے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امریکی کونسل جنرل الزبتھ کینیڈی کا کہنا تھا کہ اس پانچ سالہ منصوبے میں پنجاب اینبلنگ انوائرنمنٹ پروجیکٹ کے تحت دیہی عورتوں کے لیے ڈیری شعبے میں سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کیے جائیں گے۔ منصوبے کے تحت منتخب کردہ 30 مقامی عورتوں کو تین ملین روپے سرمایہ فراہم کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ یو ایس ایڈ کی جانب سے ان عورتوں کو ڈیری شعبے کی ترقی کے لیے دودھ کی جانچ اور اسے محفوظ کرنے کی تربیت بھی دی جائے گی۔
(ڈان، 23 مارچ، صفحہ11)
گندم
پانچ مہینے کے وقفے کے بعد صرف فروری کے مہینے میں ہی ملک سے 65,649 ٹن گندم کی برآمد کے ذریعے 12.5 ملین ڈالر کا زرمبادلہ حاصل کیا گیا ہے۔ عالمی منڈی میں گندم کی قیمت میں بہتری اور برآمدی زرتلافی میں اضافہ گندم کی برآمد میں اضافے کی وجہ ہے۔ رواں مالی سال کے ابتدائی آٹھ ماہ (جولائی تا فروری) میں 12.6 ملین ڈالر مالیت کا 65,822 ٹن گندم برآمد کیا گیا جو گزشتہ سال اسی مدت کے دوران 3,676 ٹن (0.967 ملین ڈالر) تھا۔ آل پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن کے مرکزی چیرمین چودھری انصر جاوید کے مطابق عالمی منڈی میں گندم کی قیمت میں پانچ فیصد اضافہ اور حکومت کی جانب سے زمینی راستے کے ذریعے برآمد پر 120 ڈالر اور سمندری راستے سے برآمد پر 169 ڈالر فی ٹن زرتلافی دینے سے برآمد کنندگان کا اعتماد بحال ہوا ہے۔ اس سال گندم کا پیداواری ہدف 26 ملین ٹن مقرر کیا گیا ہے۔ ملک میں اس وقت 6.5 سے سات ملین ٹن گندم کا ذخیرہ موجود ہے جبکہ مقامی کھپت 23 ملین ٹن ہے۔
(ڈان، 25 مارچ، صفحہ10)
چاول
وزارت تجارت کے مطابق پاکستانی کمپنی نے انڈونیشیا کو 65,000 ٹن سفید غیر باسمتی چاول برآمد کرے گی۔ یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان انڈونیشیا کو سفید چاول برآمد کرے گا۔ دونوں ممالک نے حال ہی میں ترجیحی تجارتی معاہدے پر درآمدی اور برآمدی توازن قائم کرنے کے لیے نظرثانی کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان 2013 میں ہونے والے اس ترجیحی تجارتی معاہدے کے بعد انڈونیشیا کو پاکستانی برآمدات جو 2012-13 میں 196 ملین ڈالر تھی 2016-17 میں کم ہوکر 138 ملین ڈالر ہوگئی تھی۔
(بزنس ریکارڈر، 22 مارچ، صفحہ2)
کپاس
حکومت نے کپاس کی درآمد پر اس کی چنائی کے موسم میں پابندی عائد کرنے پر اتفاق کیا ہے تاکہ کسانوں کے لیے کپاس کی پرکشش قیمت کے حصول کو یقینی بنایا جاسکے اور اگلے سال دوبارہ کپاس کی کاشت کے لیے کسانوں کی حوصلہ افزائی ہو۔ اس سے پہلے کپڑے کی صنعت کے مسلسل مطالبہ پر موجودہ حکومت نے بغیر کسی محصول کے کپاس درآمد کرنے کی اجازت دی تھی لیکن اس سے پاکستانی کسانوں کو نقصان جبکہ بھارتی کسانوں کو فائدہ ہوا جن کی کپاس بھاری مقدار میں پاکستان نے درآمد کی۔ کپاس کے حوالے سے قائم کردہ خصوصی کمیٹی کی کابینہ میں پیش کردہ رپورٹ میں چنائی کے موسم میں کپاس کی درآمد پر پابندی کے علاوہ سیڈ ایکٹ اور پلانٹ بریڈرز رائٹس ایکٹ کے باقائدہ طور پر نفاذ اور کے پی کے اور بلوچستان میں کپاس کی پیداوار میں اضافہ کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ رپورٹ میں تجویز کیا گیا ہے کہ 2025 تک کپاس کا زیرکاشت رقبہ 2.4 ملین ہیکٹر سے بڑھا کر 3.5 ہیکٹر اور پیداواری ہدف 25 ملین گانٹھیں مقرر کیا جائے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 25 مارچ، صفحہ13)
سورج مکھی
ایک مضمون کے مطابق سندھ میں کم پیداوار دینے اور بیج مہنگا ہونے کی وجہ سے سورج مکھی کی کاشت میں مسلسل کمی ہورہی ہے۔ سال 2010-11 میں سندھ میں سورج مکھی کی پیداوار 350,000 ٹن تھی جوگذشتہ مالی سال کم ہوکر 69,305 ٹن تک محدود ہوگئی ہے۔ اسی طرح سورج مکھی کا زیر کاشت رقبہ بھی 660,000 ایکڑ سے کم ہوکر 166,000 ایکڑ تک محدود ہوگیا ہے۔ پنجاب میں بھی گذشتہ سالوں میں سورج مکھی کی کاشت میں کمی آئی ہے۔ اس سال پنجاب حکومت نے کسانوں کو روغنی بیجوں کی کاشت کی طرف راغب کرنے کے لئے دو پروگرام شروع کئے ہیں۔ حکومت نے سورج مکھی کی کاشت پر فی ایکڑ 5,000 روپے زرتلافی اور منڈی میں قیمت کم ہونے کی صورت میں فی من 2,500 روپے قیمت دینے کا اعلان کیا تھا۔ محکمہ زرعی تحقیق سندھ نے حال ہی میں کچھ کسانوں کو سورج مکھی کی مقامی قسم کا (اوپن پولینیٹڈ) بیج کاشتکاروں میں تقسیم کیا ہے۔ امید ہے کہ یہ بیج درآمدی ہائبرڈ بیج کے مقابلے، جو مہنگا بھی ہے، مقامی موسمی حالات کے موافق ہوگا۔
(محمد حسین خان، ڈان، 26 مارچ، صفحہ4، بزنس اینڈ فنانس)
نکتہ نظر
یوایس ایڈ کا پنجاب میں مال مویشی شعبے میں متعارف کردہ منصوبہ صوبے میں سرمایہ دار دوست پالیسیوں کے نفاذ کا تسلسل ہے کہ جس میں کہیں کسانوں کی حالت بہتر بنانے اور کہیں غربت کے خاتمے کے لیے پیداوار میں اضافے کے منصوبے تواتر کے ساتھ پیش کیے جارہے ہیں۔ مال مویشی شعبے میں عورتوں کو تربیت دینے اور مویشیوں کی خریداری کے لیے سرمایہ فراہم کرنے کا بظاہر مقصد یہ ہی نظرآتا ہے کہ مویشیوں کی خوراک اور ادویات فروخت کرنے والی غیر ملکی کمپنیوں کے کاروبار میں اضافہ کیا جائے۔ ساتھ ساتھ دودھ محفوظ کرنے کی تربیت اور سہولیات کی فراہمی کے ذریعے ڈبہ بند دودھ تیار کرنے والوں کے مفادات کا تحفظ کیا جائے۔ یہی نہیں یہ منصوبہ ملک میں غیر ملکی نسل کے مویشیوں کی منڈی کو بھی وسعت دینے کا ایک حربہ معلوم ہوتا ہے جس میں مویشیوں کی افزائش کے لیے غیر ملکی کمپنیوں کا تیار کردہ سمن یعنی مادہ منویہ تو فروخت ہوتا ہی ہے ساتھ ان مخصوص نسل کے مویشیوں کے لیے مخصوص مہنگی خوراک بھی کسانوں کے لیے خریدنا لازم ہوجاتا ہے بصورت دیگر یہ مویشی بیماریوں کا شکار ہوکر مرجاتے ہیں۔ ان منصوبوں اور ٹیکنالوجی کے فروغ اور اس کے نتائج کی ایک اہم کھلی مثال ہم سب کے سامنے کمپنیوں کے بیجوں پر انحصار کی صورت موجود ہے۔ جدت اور زیادہ پیداوار کی لالچ دے کر کسان کو اس کے روایتی بیجوں سے تو ان کمپنیوں نے محروم کیا ہی تھا ساتھ ساتھ ماحول کو بھی زہر آلود کردیا۔ سرمایہ دار ممالک کے امدادی ادارے پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں بیج اور دیگر پیداواری وسائل پر قابض ہوکر ان ممالک میں بھوک غربت اور غذائی کمی کا سبب بن رہے ہیں ناکہ ان کے خاتمے کا۔ چھوٹے اور بے زمین کسانوں کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی خوراک کی خودمختاری اور خوشحالی کے لیے نہ صرف اپنے روایتی بیج بلکہ مویشیوں کی روایتی اقسام کو اپنا کر پائیدار طریقہ پیداوار کو اپنائیں جو ناصرف ان کی بلکہ پاکستان کی بھی خودمختاری کی ضمانت بن سکتا ہے۔
مارچ 29 تا اپریل 4، 2018
پانی
پاکستان کا چھ رکنی وفد 29 اور 30 مارچ کو ہونے والے انڈس واٹر کمیشن کے اجلاس میں شرکت کے لئے نئی دہلی روانہ ہوگیا ہے۔ 1960 میں ورلڈ بینک کی ثالثی میں ہونے والے سندھ طاس معاہدے کے مطابق پاکستان اور بھارت کے لیے ضروری ہے کہ ہر سال کم از کم ایک بار معاہدے سے متعلق تنازعات پر بات کرنے کے لیے اجلاس منعقد کریں۔ پاکستان بھارت کی جانب سے دریائے جہلم اور چناب پر تعمیر کیے جانے والے ڈیموں پر اعتراضات اٹھارہا ہے۔ پاکستانی وفد کی قیادت قائم مقام کمشنر انڈس واٹر کمیشن اور جوائنٹ سیکریٹری وزارت پانی و بجلی سید مہر علی شاہ کرینگے۔ پاکستانی وفد اجلاس میں پاکل دل، رتلے اور کالانی پن بجلی منصوبے کی تعمیر کے معاملے کو اٹھائے گا جو سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ اس کے علاوہ کشن گنگا پن بجلی منصوبے کا تنازعہ بھی اٹھائے جانے کا امکان ہے جس پر بھارت کام کا آغاز کرچکا ہے۔
(ڈان، 29 مارچ، صفحہ 16)
انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) نے ملک میں پانی کی کمی سے نمٹنے کے لیے ایک ساتھ کم از کم دو بڑے ڈیم بنانے کی سفارش کی ہے۔ چاروں صوبوں کے نمائندوں اور دیگر شراکت داروں کے ساتھ مشاورتی کمیٹی کے اجلاس بعد ارسا کے ترجمان خالد رانا نے صحافیوں کو بتایا کہ ماہرین کے مطابق اس سال خریف کے موسم کے آغاز میں 32 فیصد جبکہ آخر میں 10 فیصد پانی کی کمی کا سامنا ہوگا۔ خریف کے موسم میں 95.12 ملین ایکڑ فٹ پانی کی دستیابی کا اندازہ لگایا گیا ہے جبکہ پچھلے سال 107 ملین ایکڑ فٹ پانی دستیاب تھا۔ اس سال موسم خریف کی فصلوں کا انحصار مون سون بارشوں اور دریا کے غیر معمولی طور کم بہاؤ پر ہوگا۔ اجلاس میں یہ بات سامنے آئی کہ دریائے جہلم میں پانی کا بہاؤ اوسط بہاؤ سے 40 سے 45 فیصد کم ہوگا۔ محکمہ موسمیات نے بھی خبردار کیا ہے کہ اگر مون سون بارشیں معمول سے کم ہوئیں تو فصلوں کے لیے یہ صورتحال نقصاندہ ہوسکتی ہے۔ خریف کا موسم ملک کے مختلف حصوں میں اپریل تا جون میں شروع ہوکر اکتوبر تا دسمبر ختم ہوتا ہے۔ چاول، گنا، کپاس، مکئی اور معاش موسم خریف کی اہم فصلیں ہیں۔
(ڈان، 30 مارچ، صفحہ10)
گندم
سندھ آباد گار بورڈ کے صدر عبدالمجید نظامامی اور دیگر ارکان نے ایک پریس کانفرنس میں عدلیہ کی زیر نگرانی کسانوں میں باردانہ تقسیم کرنے اور سینٹ، قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی کے اراکین اور حکمران جماعت کے ارکان کا باردانے میں حصہ (کوٹہ) ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ چیف جسٹس جسٹس سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ اس صورتحال کا ازخود نوٹس لیکر وقت پر باردانہ کی تقسیم کا حکم دیں۔ ہر صورت یکم اپریل سے گندم کی خریداری کا آغاز کیا جائے اور خریداری کے مراحل میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی میں ملوث سرکاری اداروں اور شخصیات کے خلاف کارروائی کی جائے۔ پانچ ہفتے گزرچکے ہیں لیکن سندھ میں اب تک باردانہ تقسیم کرنے کا عمل شروع نہیں کیا گیا۔ کسانوں کو اس صورتحال کا ہرسال سامنا کرنا پڑتا ہے اور زیادہ تر کسانوں کو بدعنوانی کی وجہ سے باردانہ فراہم نہیں کیا جاتا۔ سندھ حکومت نے اس سال گندم کی خریداری کا ہدف 1.4 ملین ٹن مقرر کیا ہے جس کے لئے 14 ملین باردانہ تقسیم کیا جائے گا۔
(ڈان، 29 مارچ، صفحہ19)
زرعی قرضے
محکمہ زراعت پنجاب کے ترجمان کا کہنا ہے کہ 5,447 کسانوں کو 300.7 ملین روپے کے بلاسود قرضے فراہم کئے جاچکے ہیں۔ قرضے جدید الیکٹرونک کارڈ (ای کریڈٹ کارڈ) کے ذریعے فراہم کیے گئے ہیں جو پہلے ہی کسانوں کو جاری کیے جاچکے ہیں۔ محکمہ زراعت نے 25,538کسانوں کا بھی اندارج کیا ہے جنہیں کسان کارڈ جاری کیے جائیں گے۔ اس کارڈ سے کسان زرعی آلات کی خریداری پر زرتلافی حاصل کرسکیں گے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 29 مارچ، صفحہ11)
حکومت پنجاب نے زرعی شعبہ کو ٹیکس کے دائرہ کار میں لانے کا منصوبہ مؤخر کردیا ہے کیونکہ پالیسی ساز سمجھتے ہیں کہ صوبے میں اس وقت زرعی شعبہ مشکل حالات سے دوچار ہے۔ وزیر خزانہ پنجاب عائشہ غوث پاشا کا کہنا ہے کہ صوبے میں زرعی شعبے میں بڑھوتری صرف دو فیصد ہے۔ پڑوسی ملک بھارت اپنے کسانوں کو پاکستان کے مقابلے زیادہ زرتلافی دے رہا ہے جبکہ یہاں زرعی شعبہ پر محصولات عائد کرنے کی باتیں کی جارہی ہیں۔ پنجاب حکومت نے وفاقی حکومت کے ذریعے زرعی مداخل پر آنے والی لاگت کم کرنے کے لیے کیمیائی کھاد اور زرعی ادویات پر محصولات میں کمی کی ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 31 مارچ، صفحہ13)
کپاس
کابینہ ڈویژن نے پاکستان سینٹرل کاٹن کمیٹی کو ٹیکسٹائل ڈویژن کے اختیار سے نکال کر وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کے ماتحت کرنے کا اعلامیہ جاری کردیا ہے۔ یہ توقع کی جارہی ہے کہ اس تبدیلی سے گزشتہ چار سالوں سے کپاس کی گرتی ہوئی پیداوار کو روکنے میں مدد حاصل ہوگی۔ چھ مارچ کو کابینہ کے اجلاس میں اس تبادلے کی منظوری دی گئی تھی۔ تاہم کپاس کمشنر کی حیثیت ابھی تک غیر واضح ہے۔ کابینہ ڈویژن نے کپاس کمشنر کے معاملے کو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے سپرد کردیا ہے کیونکہ یہ تعیناتی کا معاملہ ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے کپاس کمشنر کی تعیناتی پر رائے معلوم کرنے کے لیے وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کو ایک خط لکھ دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں کپاس کمشنر کو وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق سے نکال کر ٹیکسٹائل ڈویژن کے ماتحت کردیا گیا تھا۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 31 مارچ، صفحہ20)
ملک میں یکم اپریل تک کپاس کی 11.57 ملین گھانٹوں کی پیداوار ہوئی ہے جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 7.88 فیصد زیادہ ہے۔ گزشتہ سال اسی دورانیے میں کپاس کی پیداوار 10.72 ملین گھانٹوں تک محدود تھی۔ سندھ میں کپاس کی پیداوار میں 12.31 فیصد بڑھوتری اور پیداوار 4.24 ملین گانٹھیں ہوئی۔ پنجاب میں بھی 5.46 فیصد بڑھوتری ہوئی ہے جہاں 7.31 ملین گانٹھیں کپاس کی پیداوار ہوئی ہے۔ کپاس کے تجزیہ کار نسیم عثمان کے مطابق اس دفعہ نہ تو گرمی کی لہر آئی اور نہ ہی کپاس پر کیڑوں کا حملہ ہوا ہے، لیکن یہ خدشہ ہے کہ پنجاب اور سندھ میں اگلے سال کپاس کی پیداوار میں کمی ہوسکتی کیونکہ دونوں صوبے پہلے ہی پانی کی شدید کمی کا سامنا کررہے ہیں۔
(ڈان، 4 اپریل، صفحہ10)
زمین
دیا مر بھاشا ڈیم کے تعمیراتی کام کو آگے بڑھانے کے لئے کل 18,357 ایکڑ رقبے میں سے مقامی افراد سے حاصل کی گئی 14,325 ایکڑ زمین واپڈا کے حوالے کردی گئی ہے۔ یہ زمین گلگت بلتستان کے ضلع دیامر میں چلاس سے 40 کلومیٹر دور دریا کے زریں علاقہ میں واقع ہے۔ زمین کی منتقلی سے دریا کے دائیں اور بائیں جانب 32 گاؤں کے 4,266 گھرانوں کے 30,350 افراد بے گھر ہونگے۔ اس منصوبہ کے لئے کل 37,149 ایکڑ زمین درکار ہے جس میں 19,062 ایکڑ سرکاری زمین جبکہ 18,357 ایکڑ نجی زمین شامل ہے۔
(ڈان، 2 اپریل، صفحہ2)
تھرپارکر کے علاقے مٹھی میں بجیر قوم اور ان کی حمایت کرنے والی متعدد سیاسی و قوم پرست جماعتوں کی جانب سے سینکڑوں خاندانوں کو انکی زمین سے بے دخل کرکے سفاری پارک قائم کرنے کے سندھ حکومت کے منصوبے کے خلاف احتجاجاً آدھے دن ہڑتال کی گئی اور ریلی نکالی گئی۔ حکومت نے بجیر کالونی کی زمین پر ڈیزرٹ سفاری پارک بنانے کا منصوبہ بنایا ہے اور علاقہ مکینوں کو زمین خالی کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ تعلقہ مٹھی کے سابق ناظم اللہ ڈنو بجیر اور دیگر مظاہرین نے بیدخلی کے نوٹس موصول ہونے کے بعد سے یومیہ بنیادوں ہر عوامی احتجاج کے باوجود گھروں کو مسمار کرنے کی شدید مزمت کی۔ مظاہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ گھروں کو مسمار کرنے کی کارروائی روکی جائے۔ بصورت دیگر سڑکوں پر ہونے والے احتجاج میں مزید شدت آئے گی۔
(ڈان، 3 اپریل، صفحہ19)
کھاد
کھاد کی صنعت نے وفاقی حکومت سے کھاد پر زرتلافی دینے کے بجائے صنعت کو فراہم کی جانیوالی گیس پر عائد ٹیکس (گیس انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس) ختم کرنے اور کھاد کمپنیوں کے لیے گیس کے نرخ کو مشرق وسطی میں گیس کی قیمتوں سے منسلک کرنے پر زور دیا ہے۔ فرٹیلائزر مینوفیکچررز آف پاکستان ایڈاوائزری کونسل کی جانب سے جمع کروائی گئی بجٹ تجاویز میں مقامی کھاد سازوں کو درپیش زرتلافی، گیس انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس و دیگر محصولات اور درآمد و برآمد کے حوالے سے مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے۔ کھاد کی صنعت نے زرتلافی کی مد میں حکومت پر واجب الادا رقم کی فوری ادائیگی پر بھی زور دیا ہے۔ تجاویز میں کھاد کی صنعت سے جنرل سیلز ٹیکس وصول نہ کرنے کی تجویز بھی شامل ہے۔ صنعتکاروں کا کہنا ہے کہ کھاد کی صنعت اضافی کھاد کی پیداواری صلاحیت رکھتی ہے لہذا کھاد کے برآمدی کوٹہ میں اضافہ کیا جائے۔
(بزنس ریکارڈر، 3 اپریل، صفحہ5)
نکتہ نظر
اس ہفتے کی خبروں میں بھی ملک میں پانی کی شدید کمی کے امکانات نمایاں ہیں۔ پانی کی تقسیم کا ادارہ ارسا ملک میں خریف کے موسم پانی کی 35 فیصد کمی کا امکان ظاہر کررہا ہے جو مجموعی طور پر ملکی معیشت کے لیے خطرے کی گھنٹی تو ہے ہی ساتھ ساتھ اس کمی سے ملک کے چھوٹے اور بے زمین کسان برح طرح متاثر ہوسکتے ہیں جو اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر سخت محنت سے زمین کاشت کرتے ہیں اور یہی ان کے روزگار اور خوراک کا واحد ذریعہ بھی ہے۔ پانی کی کمی اور موسمی تبدیلی سے جڑے دیگر عوامل ان کسانوں کو غربت اور بھوک کی طرف دھکیل رہے ہیں لیکن حکمران اور طبقہ اشرافیہ اپنے مفادات کے لیے کہیں اقتدار کی رسہ کشی میں مصروف ہے تو کہیں اپنی منافع کی حوس کو تسکین دینے کے لیے سرکاری خزانے سے ٹیکسوں میں چھوٹ کے لیے سرگرداں ہے۔ ملک میں پانی کی کمی کی وجوہات میں ایک وجہ موسمی تبدیلی بھی ہے۔ ارسا کے مطابق بالائی علاقوں میں بارشوں اور برفباری میں کمی اس وقت دریاؤں کے بہاؤ میں کمی کی وجہ ہے۔ پاکستان دنیا بھر میں موسمی تبدیلی سے شدید متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے جس کے ذمہ دار یقیناً پہلی دنیا کے سرمایہ دار ممالک اور ان کے غیر پائیدار پیداواری طریقے ہیں جنہیں اب پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں نیولبرل ایجنڈے کے تحت فروغ دیا جارہا ہے۔ موسمی تبدیلی جیسے عوامل سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ پائیدار طریقہ پیداوار اختیار کیا جائے جو جنگلات اور دیگر حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کا ضامن تو ہے ہی ساتھ ساتھ پانی کے کم استعمال اور اس کے تحفظ کا بھی ضامن ہے۔