زرعی خبریں جولائی 2020

جولائی 1 تا 31 جولائی، 2020

زراعت

وفاقی کمیٹی برائے زراعت (ایف سی اے) نے 2020-21 میں خریف کے موسم کے لیے کپاس، گنا، چاول جیسی اہم فصلوں کے پیداواری اہداف مقرر کردیے ہیں۔ 1.18 ملین ہیکٹر رقبے پر 69.80 ملین ٹن گنے کی پیداوار کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ چاول 2.95 ملین ہیکٹر رقبے پر 7.99 ملین ٹن، کپاس 2.31 ملین ہیکٹر پر 10.8 ملین گانٹھیں اور 1.33 ملین ہیکٹر رقبے پر مکئی کی 5.01 ملین ٹن پیداوار ہوگی۔ دال ماش کا پیداواری ہدف 0.605 ملین ٹن اور مرچ کا پیداواری ہدف 2.481 ملین ٹن مقرر کیا گیا ہے۔
(ڈان، 9 جولائی، صفحہ9)

عالمی بینک کا ایگزیکٹو بورڈ رواں ماہ کے آخر میں پاکستان کو ٹڈی دل پر قابو پانے، متاثرہ علاقوں میں معیشت کی بحالی میں مدد اور ملکی غذائی تحفظ کی نگرانی اور انتظامی نظام کو مستحکم کرنے کے لیے 200 ملین ڈالر امداد کی منظوری دے گا۔ 2010 میں آٹھارویں آئینی ترمیم کے تحت زرعی شعبہ کی صوبوں کو منتقلی کے بعد عالمی بینک کا پاکستان میں یہ پہلا زرعی منصوبہ ہوگا جس میں براہ راست وفاقی سطح پر کام کیا جائے گا۔
(ڈان، 13 جولائی، صفحہ3)

وفاقی وزیر برائے قومی غذائی تحفظ و تحقیق فخر امام کے مطابق 14 اگست کو کسانوں کے لیے 30 بلین روپے کے ایک پیکچ کا علان کیا جائے گا۔ صوبے بھی یوم آزادی پر کسانوں کے لیے پیکج کا اعلان کریں گے۔ زرعی شعبہ میں بہتری کے موضوع پر انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی ریفارمز میں بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ”ہماری زراعت درآمدی بیجوں پر منحصر ہے، اور یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ہم بیج ٹیکنالوجی میں بڑے پیمانے پر بہتری لائیں۔ پاکستان میں فرسودہ بیج ٹیکنالوجی ہی کم پیداوار کی وجہ ہے اور اس ہی وجہ سے ملک دالیں اور روغنی بیج درآمد کرتا ہے۔ دوسری طرف ہماری جینیاتی انجینئرنگ بھی زرعی پیداوار میں بڑی تبدیلی لانے میں ناکام ہے اور اب تک مقامی بیج کی صنعت بھی زرعی پیداوار میں اضافے کے لیے کردار ادا کرنے سے قاصر ہے “۔
(ڈان، 15 جولائی، صفحہ12)

کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے زراعت و رہائشی شعبہ (ہاوسنگ سیکٹر) کے لیے 49 بلین روپے زرتلافی اور پاکستان فوج کے لیے سرکاری ذخائر سے 150,000 ٹن گندم مختص کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ اجلاس میں زرعی شعبہ کے لیے بطور زرتلافی 14 بلین روپے فوری طور پر جاری کرنے اور تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس رقم میں چھ بلین روپے سفید مکھی (وائٹ فلائی) کے خلاف کرم کش زہر کے لیے، 1.5 بلین روپے ٹریکٹروں پر زرتلافی کے لیے اور 12.5 ایکڑ تک زمین رکھنے والے کسانوں کے زرعی ترقیاتی بینک سے لیے گئے قرض پر سود کی ادائیگی کے لیے 6.8 بلین روپے شامل ہیں۔
(ڈان، 23 جولائی، صفحہ1)

گندم

پنجاب کابینہ نے آٹا ملوں کو گندم کے اجراء کی عبوری پالیسی 2020-21 کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت 20 کلو آٹے کا تھیلا منڈی میں 1,050 روپے کے بجائے 850 روپے میں دستیاب ہوگا۔ کابینہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ آٹا ملوں کو گندم 1475 روپے فی من قیمت پر فراہم کیا جائے گا اور یہ عبوری پالیسی دو ماہ تک جاری رہے گی۔ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ عوام کو مناسب قیمت میں آٹے کی فراہمی کے لیے کیا گیا ہے اور اس عبوری پالیسی کی سخت نگرانی کی جائے گی۔
(بزنس ریکارڈر، 3 جولائی، صفحہ12)

پنجاب کابینہ کی منظوری کے بعد محکمہ خوراک پنجاب نے صوبے بھر میں آٹا ملوں کو گندم کی فراہمی شروع کردی ہے۔ عموماً محکمہ خوراک سے ملوں کو گندم کا اجراء ہر سال ستمبر کے آخر میں شروع کیا جاتا ہے، اس وقت تک مل اپنا ذخیرہ استعمال کرتے ہیں جو وہ کٹائی کے وقت خریدتے ہیں۔ لیکن اس موسم میں حکومت نے ملوں کو کسانوں سے گندم خریدنے سے روک دیا تھا اور وہ کھلی منڈی سے گندم حاصل کرنے پر مجبور تھے جہاں گندم کی قیمت یومیہ بنیادوں پر بڑھ رہی ہے۔ اس صورتحال میں تاریخ میں پہلی بار آٹے کی قیمت اس وقت بڑھی جب گندم کی نئی فصل منڈی میں پہنچی اور 20 کلوگرام آٹے کی قیمت جو اپریل میں 805 روپے تھی جون میں بڑھ کر 1,055 روپے تک پہنچ گئی۔
(ڈان، 8 جولائی، صفحہ2)

وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت ملک میں گندم اور آٹے کی دستیابی کے حوالے سے ہونے والے اجلاس میں وفاقی حکومت نے ملک بھر میں گندم کے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اجلاس میں چیف سیکریٹری کے پی اور بلوچستان کو گندم کی غیرقانونی برآمد کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت کی گئی ہے۔ اجلاس میں چیف سیکریٹری سندھ کو گزشتہ سال کے تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے گندم کے اجراء کی پالیسی کو جلد از جلد حتمی شکل دینے کی ہدایت کی گئی ہے۔ چیف سیکریٹری پنجاب کا کہنا تھا کہ گندم کی دستیابی یقینی بنانے کے لیے یومیہ 18,000 ٹن گندم جاری کی جارہی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 15 جولائی، صفحہ1)

وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی سربراہی میں اقتصادی رابطہ کمیٹی نے صوبوں اور متعلقہ اداروں کی جانب سے گندم کی خریداری کا ہدف حاصل نہ کرنے اور گندم درآمد کرنے میں ناکامی پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ گندم کی مجموعی خریداری اپنے ہدف 8.8 ملین ٹن سے 21 فیصد کم ہوئی ہے اور اب تک گندم کی درآمد شروع نہیں ہوئی ہے۔ اجلاس میں مزید بتایا گیا کہ بین الاقوامی منڈی میں قیمت زیادہ ہونے کی وجہ سے گندم اور اس سے بنی اشیاء افغانستان اور دیگر ممالک غیرقانونی طور پر برآمد ہورہی ہیں۔ خبر کے مطابق وزیر خزانہ نے اجلاس میں برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ”درآمدی اجازت نامے کیوں 500,000 کی اقساط میں جاری کیے گئے، جبکہ کمیٹی نے واضح طور پر لامحدود گندم درآمد کرنے کی اجازت دی تھی“۔ ترجمان وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کا کہنا ہے کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی کو بھیجی گئی سفارشات کے مطابق 1.5 ملین ٹن گندم کی درآمد کا اعلامیہ جاری کیا گیا تھا اور اب تک 120 درآمد کنندگان نے گندم درآمد کرنے میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔
(ڈان، 16 جولائی، صفحہ9)

وفاقی وزیر قومی غذائی تحفظ و تحقیق نے قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران کٹائی کے موسم کے فوراً بعد ہی گندم اور آٹے کی بلند قیمت پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔ وفاقی وزیر کے اس بیان کو اس اشارے کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں آٹے کی قیمت میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ”چھ ملین ٹن گندم خریدا گیا لیکن (کوئی نہیں جانتا کہ) گندم کہاں گیا“۔ عوامی ضرورت کے لیے ملک کو اضافی 1.5 ملین ٹن گندم کی ضرورت ہے، اسی لیے 0.7 ملین ٹن گندم درآمد کیا جارہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کاشتکاروں نے گندم 1,400 روپے فی من قیمت پر فروخت کیا لیکن اب منڈی میں گندم 1,800 سے 2,000 روپے فی من فروخت ہورہا ہے۔
(ڈان، 18 جولائی، صفحہ1)

وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کے محکمہ تحفظ نباتات (ڈی پی پی) نے کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے فیصلے کے مطابق دو مرحلوں میں گندم درآمد کرنے کے اجازت نامے (امپورٹ پرمٹس) جاری کردیے ہیں۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی کے فیصلے کے مطابق درآمدی گندم تصدیقی دستاویزات پیش کرنے کی صورت میں صوبائی حکومت کی جانب سے ذخیرہ اندوزی کے خلاف عائد کردہ قانون اینٹی ہورڈنگ ایکٹ سے مستثنی ہوگا۔ اس کے علاوہ نجی شعبہ کے ذریعے درآمد کیے گئے گندم پر کئی محصولات بشمول 60 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی، 11 فیصد کسٹم ڈیوٹی، 17 فیصد جنرل سیلز ٹیکس اور چھ فیصد ودہولڈنگ ٹیکس ختم کردیے گئے ہیں۔
(بزنس ریکارڈر، 18 جولائی، صفحہ1)

آٹا مل مالکان نے پنجاب سے کے پی گندم کی ترسیل پر پابندی پر تحفظات کا اظہار کیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ اگر معمول کے مطابق گندم کی ترسیل فوری طور پر بحال نہ کی گئی تو آٹے کا بحران بدتر ہوسکتا ہے۔ پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن (پی ایف ایم اے) خیبر پختونخوا کے صدر حاجی محمد اقبال کا کہنا ہے کہ صوبے کی سالانہ ضرورت 4.6 ملین ٹن ہے جبکہ اس وقت صوبے کے پاس موجود ذخائر میں 150,000 ٹن گندم دستیاب ہے جس سے بمشکل دو ہفتے کی ضرورت پوری کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پنجاب حکومت نے گندم کی افغانستان غیرقانونی ترسیل روکنے کے لیے چوکیاں قائم کی ہیں۔ انہوں گندم کی اسمگلنگ کی اطلاعات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان نے گندم اور آٹے کی قازقستان سے مناسب قیمت پر درآمد شروع کردی تھی، افغانستان کو ضرورت نہیں کہ وہ پاکستان سے زیادہ قیمت پر گندم خریدے۔
(ڈان، 20 جولائی، صفحہ9)

وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق نے درآمد کنندگان کو گندم کی نقل حمل سمیت ہر ممکن مدد فراہم کرنی کی یقین دہانی کروائی ہے۔ نجی شعبہ نے 270,000 ٹن گندم درآمد کرنے کے معاہدے کیے ہیں جو اگلے دو ماہ میں پاکستان پہنچے گی۔ سیکریٹری وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق عمر حامد خان نے کہا ہے کہ حکومت گندم کی درآمد پر زرتلافی دے رہی ہے تاکہ گندم کی ملکی صارفین تک مناسب قیمت میں رسائی یقینی بنائی جاسکے۔
(ڈان، 23 جولائی، صفحہ9)

پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن، خیبرپختونخوا کے رہنما محمد نعیم بٹ نے پشاور پریس کلب پر پریس کانفرنس کے دوران وزیر خوراک قلندر خان لودھی اور ان کے محکمہ کے حکام کو کے پی میں آٹے کی قیمت میں اضافے کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ انہوں نے وزیر اعظم پر زور دیا ہے کہ وہ صوبے میں آٹے کا بحران حل کرنے میں ناکام ہونے والے وزیر اور حکام کو تبدیل کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ صوبے میں گندم کا ذخیرہ صرف 150,000 ٹن بچا ہے جو دو ہفتوں کے لیے بھی ناکافی ہے۔ صوبے کی سالانہ گندم کی ضرورت 4.6 ملین ٹن ہے۔
(ڈان، 25 جولائی، صفحہ8)

محکمہ انسداد بدعنوانی پنجاب (اینٹی کرپشن اسٹیبلیشمنٹ) نے سال 2018 میں گندم کے بحران میں ملوث 10 افسران کو گرفتار کرلیا ہے۔ ادارے کی جانب سے ہونے والی تفتیش میں محکمہ خوراک کے 155 اہلکاروں کو ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ تمام ملزمان کے خلاف مقدمہ (ایف آئی آر) درج کرلیا گیا ہے۔ اس سے پہلے ادارہ آٹا ملوں سے ماہ رمضان میں دی جانے والی زرتلافی کی مد میں 200 ملین روپے کی وصولی کرچکا ہے۔
(ڈان، 26 جولائی، صفحہ2)

خیبرپختونخوا کے آٹا مل مالکان نے دھمکی دی ہے کہ اگر کے پی حکومت نے ایک ہفتے میں پنجاب کے نرخوں پر ضرورت کے مطابق گندم جاری نہ کی تو وہ صوبہ بھر میں آٹا ملیں بند کردیں گے۔یہ فیصلہ پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن (پی ایف ایم اے)، خیبر پختونخوا کے چیئرمین محمد اقبال خان کی زیر صدارت ہونے والے ایک اجلاس میں کیا گیا۔ پی ایف ایم اے کے رہنما نعیم بٹ نے خبردار کیا ہے کہ اگر حکومت نے مسئلے کو حل کرنے کے لیے فوری سنجیدہ اقدامات نہیں کیے تو بہت جلد گندم کا شدید بحران پیدا ہوسکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ وزیر خوراک اور ان کے عملے کی غفلت کی وجہ سے آٹا ملوں میں کام کرنے والے سینکڑوں مزدور روزگار سے محروم ہوگئے ہیں اور آٹے کی قیمت میں اضافہ ہوگیا ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 28 جولائی، صفحہ7)

ایک خبر کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے کابینہ کے 16 جولائی کے فیصلے کے مطابق 1.5 ملین ٹن گندم کی درآمد پر چھ فیصد ودہولڈنگ ٹیکس ختم کردیا ہے۔ ایف بی آر پہلے ہی 21 جولائی سے گندم کی درآمد پر عائد 60 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی بھی ختم کرچکا ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 30 جولائی، صفحہ1)

وزیر اعلی محمود خان کی سربراہی میں ہونے والے کابینہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت آٹے کی قیمت پر قابو پانے کے لیے وفاق سے 300,000 ٹن گندم درآمد کرنے کی درخواست کرے گی۔ صوبائی حکومت کے ترجمان کامران خان بنگش کا کہنا ہے کہ صوبائی محکمہ خوراک نے پاسکو سے 500,000 ٹن گندم کی ترسیل کے لیے رابطہ کیا تھا۔ وفاقی حکومت سے بقیہ 300,000 ٹن گندم کی درآمد کے لیے رابطہ کیا جائے گا۔
(ڈان، 31 جولائی، صفحہ8)

کپاس

وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کے کپاس کمشنر ڈاکٹر خالد عبداللہ کے مطابق رواں سال 2020-21 میں کپاس کی بوائی میں گزشتہ سال کے مقابلے 1.3 فیصد کم ہوئی ہے۔ 2.663 ملین ہیکٹر کے مقابلے 2.457 ملین ہیکٹر رقبے پر کپاس کاشت کی گئی ہے اور بوائی کا 92 فیصد ہدف حاصل کیا گیا ہے۔ پنجاب میں کپاس کے زیر کاشت رقبے میں 2.5 فیصد کمی ہوئی ہے جبکہ سندھ میں کپاس کے زیر کاشت رقبے میں 2.7 فیصد اضافہ ہوا ہے۔کپاس کمشنر کا مزید کہنا تھا کہ رواں خریف کے موسم میں گنے کی کاشت میں گزشتہ سال کے مقابلے 16 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر فصلوں جیسے مکئی اور چاول کی کاشت میں بھی واضح بڑھوتری دیکھی گئی ہے۔
(ڈان، 15 جولائی، صفحہ9)

آم

آم کی کم ہوتی ہوئی پیداوار، طلب میں کمی، کورونا وائرس کی وجہ سے متاثرہ برآمد، پاکستانی آم کی صنعت کو شدید متاثر کررہی ہے۔ سندھ اور پنجاب میں آم کے پیداواری علاقوں کے کسانوں کا کہنا ہے کہ سردی کا طویل دورانیہ اور بارش کے تبدیل ہوتے ہوئے نظام نے اس سال آم کی پیداوار تقریباً آدھی کردی ہے۔ پنجاب میں کئی نسلوں سے آم کی کاشت کرنے والے کاشتکار رانا محمد عظیم کا کہنا ہے کہ کئی طرح کے مسائل ہیں جن کا آم کے کاشتکار سامنا کررہے ہیں۔ آم کی فصل تیار ہے لیکن کوئی بھی برآمد کنندہ نقصان کے پیش نظر اسے خریدنے پر راضی نہیں ہے۔ ملک میں سال 2019 میں 1.5 ملین ٹن سے زیادہ پیداوار ہوئی تھی اور 80 ملین ڈالر مالیت کا 115,000 ٹن آم برآمد کیا گیا تھا۔ (ڈان، 9 جولائی، صفحہ3)

کھجور

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت نے وزارت تجارت کو ہدایت کی ہے کہ بھارت سے تجارتی تعلقات معطل ہونے کے بعد کھجور کی برآمد کے لیے دیگر منڈیاں تلاش کرے۔ پاکستان کھجور پیدا کرنے والا دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں کھجور کی سالانہ پیداوار کا تخمینہ 550,000 ٹن ہے، جس میں سے 50 فیصد صرف سندھ میں ہی پیدا ہوتی ہے جبکہ بقیہ بلوچستان، کے پی اور پنجاب میں پیدا ہوتی ہے۔ ملک میں کھجور کی تقریباً 160 اقسام ہیں۔ بھارت سے تجارتی تعلقات کے خاتمے سے پہلے ملک کی 90 فیصد خشک کھجور بھارت برآمد ہورہی تھی۔
(ڈان، 25 جولائی، صفحہ9)

لہسن

نیشنل ایگری کلچرل ریسرچ سینٹر (نارک) میں تیار کی گئی لہسن کی ایک نئی قسم سے 24 ٹن فی ہیکٹر لہسن کی پیداوار حاصل ہوئی ہے جو مقامی طور پر اگنے والی لہسن کی کاشت کے مقابلے اب تک کی سب سے زیادہ پیداوار ہے۔ نارک جی 1 نامی اس قسم میں لہسن کے گنڈے (بلب) کا وزن تقریباً 185.43 گرام ہے جبکہ مقامی قسم ”لہسن گلاب“ کے گنڈے کا وزن صرف 35.45 گرام ہے۔ چیئرمین پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل (پارک) ڈاکٹر محمد عظیم خان کے مطابق اس نئی قسم سے ناصرف کاشتکاروں کی آمدنی میں اضافہ ہوگا بلکہ لہسن کے درآمدی اخراجات بھی کم ہونگے۔
(ڈان، 7 جولائی، صفحہ3)

آٹا

صوبہ سندھ میں حکام کی جانب سے قیمت، ذخیرہ اندوزی اور ذخائر کی عدم نگرانی کی صورتحال میں آٹا ملوں نے ڈھائی نمبر آٹے کی قیمت میں مزید چار روپے فی کلو اضافہ کردیا ہے جس کے بعد آٹے کی قیمت 54 روپے فی کلوگرام ہوگئی ہے۔ گزشتہ دو ہفتوں میں آٹا ملوں نے قیمت میں بلترتیب ڈیرھ اور دو روپے فی کلو اضافہ کیا تھا۔ مل مالکان کا کہنا ہے کہ کھلی منڈی میں 100 کلوگرام گندم کی بوری کی قیمت 4,600 روپے سے بڑھ کر 4,800 روپے ہوگئی ہے جو اپریل کے مہینے میں 3,500 روپے میں دستیاب تھی۔
(ڈان، 15 جولائی، صفحہ13)

چینی

چیئرمین آل پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن (پی ایس ایم اے) جاوید کیانی نے وزیراعظم عمران خان پر زور دیا ہے کہ وہ چینی کی پیداواری لاگت کے تناظر میں اس کی قیمت مقرر کریں۔ انہوں نے کہا کہ ”شوگر مل مالکان گنا 65 روپے قیمت پر خریدتے ہیں جبکہ چینی کی پیداواری لاگت 72 روپے فی کلو ہے“۔ انہوں نے وزیر اعظم سے قیمت کے مسئلے پر بات چیت کرنے اور مسئلے کا سب کے لیے قابل قبول تلاش کرنے کے لیے ملاقات کی درخواست کی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 11 جولائی، صفحہ18)

چینی کے حوالے سے تحقیقاتی رپورٹ جاری ہونے کے دو ماہ بعد وفاقی حکومت نے متعلقہ حکام کو بڑے پیمانے پر کارروائی کرنے اور 90 دن میں اپنی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب و داخلہ مرزا شہراز اکبر نے وزیر اعظم سے منظوری کے بعد اسٹیٹ بینک، مسابقتی کمیشن (سی سی پی) اور چاروں صوبوں کے چیف سیکریٹریوں کو بھیجے گئے خط میں چینی مافیا کے خلاف تحقیقاتی رپورٹ کی روشنی میں کارروائی کا آغاز کرنے کی ہدایت کی ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو ملک کی تمام شوگر ملوں کا آڈٹ کرنے اور قومی احتساب بیورو (نیب) کو شوگر کمیشن کی رپورٹ کے مطابق چینی کا کاروبار کرنے والوں پر ذمہ داری عائد کرنے کے لیے خط لکھ دیا ہے۔ نیب کو غیرقانونی طور پر شوگرملوں کو دی گئی زرتلافی کی تحقیقات کا بھی ہدف دیا گیا ہے۔
(ڈان، 28 جولائی، صفحہ1)

ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان (ٹی سی پی) نے مقامی ضروریات کے لیے گندم اور چینی کی درآمد شروع کرنے کی تیاری کرلی ہے۔ زرائع کے مطابق وفاقی حکومت نے بروقت درآمد کو یقینی بنانے کے لیے پیپرا (پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی) قوانین میں رعایت فراہم کی ہے۔ وفاقی حکومت پہلے ہی نجی شعبہ کو بلا محصول گندم درآمد کرنے کی اجازت دے چکی ہے جس نے 0.5 ملین ٹن گندم کی درآمد کو حتمی شکل دے دی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 5 اگست، صفحہ1)

کارپوریٹ

ایک خبر کے مطابق حکومت مقامی طور پر تیار کردہ ٹریکٹر وں پر ایک سال کے لیے 1.5 بلین روپے زرتلافی دے گی۔ اس زرتلافی کا زرعی شعبہ کے لیے کرونا وائرس کے تناظر میں سالانہ پیکج کے تحت اعلان کیا گیا تھا۔ 2020-21 کے لیے کابینہ ڈویژن کی جانب سے جاری کردہ اس پیکج کے مطابق مقامی طور پر تیار ہونے والے ٹریکٹروں پر سیلز ٹیکس میں چھوٹ کی شکل میں دی جانے والی زرتلافی کی شرح پانچ فیصد ہوگی۔ میسی فرگوسن اور الغازی ٹریکٹر دو اہم پیداواری کمپنیاں ہیں جن کی پیداوار 2019 میں 41,000 ٹریکٹر تھی۔ اوسطاً ایک ٹریکٹر پر جنرل سیلز ٹیکس کی رقم تقریباً 60,000 روپے بنتی ہے۔
(ڈان، 26 جولائی، صفحہ10)

مال مویشی

آل پاکستان میٹ پروسیسرز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن (اے پی ایم پی ای اے) نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ گوشت کے برآمد کنندگان کو مذبح خانوں اور گوشت کی عملکاری (پروسیسنگ) میں استعمال ہونے والی بجلی پر عائد ٹیکسوں میں چھوٹ دے کر مراعات فراہم کرے، اس کے بدلے برآمد کنندگان چند سالوں میں پاکستان سے حلال گوشت اور اس کی مصنوعات کی برآمد کو دگنا کردینگے۔ چیئرمین اے پی ایم پی ای اے نصیب احمد سیفی کا مزید کہنا تھا کہ مذبح خانوں اور کارخانوں کو بلا سود قرضے دیے جانے چاہیے تاکہ وہ اپنی بجلی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے شمسی توانائی کا نظام نصب کرسکیں اور بروقت برآمدی طلب پوری کرسکیں۔ حکومت کو اس شعبہ کو صنعت کا درجہ دینا چاہیے اور حلال گوشت پروسیسنگ یونٹوں کو قدر میں اضافے (ویلیو ایڈیشن) کے لیے مشینری کی تنصیب پر بلاسود قرض بھی فراہم کرنا چاہیے۔
(بزنس ریکارڈر، 1 جولائی، صفحہ10)

ڈیری

پاکستان ڈیری ایسوسی ایشن (پی ڈی اے) نے حالیہ بجٹ میں وفاقی حکومت کی جانب سے ڈیری شعبہ کی مدد کے لیے اقدامات نہ کرنے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت فوری طور پر صفر درجہ محصول کی سہولت بحال کرے بصورت دیگر ان کے پاس کاروبار بند کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔ چیئرمین پی ڈی اے ڈاکٹر شہزاد امین کا کہنا ہے کہ اگر فوری امدادی اقدامات نہ کیے گئے تو خدشہ ہے کہ یہ صنعت بند ہوجائے گی اور لاکھوں خاندان بیروزگار ہونگے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت 10 ملین سے زیادہ خاندان دودھ کمپنیوں سے وابستہ ہیں۔ پاکستان سالانہ 60 بلین لیٹر دودھ پیدا کرتا ہے اور فی جانور دودھ کی پیداوار میں اضافہ کرکے مجموعی پیداوار کو دوگنا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دودھ کی صنعت نے دیہی کسانوں کے ترقیاتی پروگرام پر 500 ملین روپے سے زیادہ خرچ کیے ہیں اور مقامی کسانوں سے ہر سال 120 بلین روپے سے زیادہ کا دودھ خریدتی ہے۔
(ڈان، 17 جولائی، صفحہ14)

ماہی گیری

ماہی گیر اور سماجی و سیاسی تنظیموں نے کینجھر جھیل کے گرد زمین (رامسر سائٹ) پر ضلعی پولیس اور محکمہ آبپاشی کی مدد سے قبضے کے خلاف جھیل کے قریب ایک احتجاجی ریلی منعقد کی۔ مظاہرین نے اعلان کیا کہ وہ اپنی احتجاجی مہم 28 جولائی سے دوبارہ شروع کریں گے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ ضلعی پولیس اور محکمہ آبپاشی ایک سابق پروجیکٹ ڈائریکٹر کو مقدمہ میں نامزدگی سے بچانے کی سخت کوششیں کررہا ہے جس نے راتوں رات جھیل کی 500 ایکڑ زمین پر باڑ لگائی۔ بدقسمتی سے پوری ضلعی انتظامیہ بشمول پولیس اور محکمہ آبپاشی اپنے ساتھی کا نام مقدمے میں شامل ہونے سے روکنے کے لیے بھرپور قوت استعمال کررہے ہیں۔ آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے پولیس نے دو تعمیراتی مشینری چلانے والے اور زمین جائیداد کا کام کرنے والوں کو نامزد کرکے بنیادی ملزم کا نام مقدمے سے نکال دیا۔
(ڈان، 26 جولائی، صفحہ17)

بھٹ آئی لینڈ کے رہائشی 35 سالہ ماہی گیر عبدالکریم بھٹی کی لاش بھارت کی جانب سے دو دن پہلے موصول ہونے کے بعد مواچھ گوٹھ کے قبرستان میں سپردخاک کردی گئی۔ اس موقع میں نیٹیو جیٹی پل پر بڑی تعداد میں ماہی گیروں کی جانب سے احتجاج کیا گیا۔ ماہی گیروں نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ اس موقع پر چیئرمین فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی (ایف سی ایس) حافظ عبدل بر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بھی جیلوں میں بھارتی ماہی گیر ہیں جو پاکستانی سمندری حدود کی خلاف ورزی پر گرفتار ہیں، لیکن ہم سمجھ سکتے ہیں کہ سمندر میں ایسی کوئی لکیر نہیں جو ان غریب ماہی گیروں کو ان کی چھوٹی کشتیوں پر آگاہ کرسکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 1999 سے 119 پاکستانی ماہی گیر بھارتی جیلوں میں ہیں، 21 سال گزرنے کے بعد بھی انہیں ملک واپس لانے کے لیے کچھ نہیں کیا جارہا۔
(ڈان، 31 جولائی، صفحہ13)

پاکستان اور بھارت نے سال 2008 کے معاہدے کے تحت شہری اور ماہی گیر قیدیوں کی فہرستوں کا تبادلہ کیا ہے۔ دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق حکومت پاکستان نے اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن کو پاکستان میں موجود 324 بھارتی قیدیوں کی فہرست فراہم کی ہے جن میں 270 ماہی گیر اور 54 شہری شامل ہیں۔ بھارت کی جانب سے فراہم کردہ فہرست کے مطابق 362 پاکستانی اس وقت بھارتی جیلوں میں قید ہیں جن میں 265 شہری اور 97 ماہی گیر شامل ہیں۔ دفتر خارجہ کے مطابق حکومت پاکستان 15 سول قیدیوں اور 47 ماہی گیروں کی جلد رہائی اور وطن واپسی کا مطالبہ کررہی ہیں جن کی سزائیں مکمل ہوچکی ہیں۔
(بزنس ریکارڈر، 2 جولائی، صفحہ3)

جنگلات

سندھ حکومت نے کارپوریٹ شعبہ بشمول بین الاقوامی کمپنیوں کو کراچی اور صوبے کے دیگر شہروں میں شہری جنگلات کی مہم میں شامل ہونے اور جنگلات قائم کرنے کی پیشکش کی ہے۔ یہ پیشکش سیکریٹری محکمہ جنگلات و جنگلی حیات عبدالرحیم سومرو نے مون سون شجرکاری مہم کے حوالے سے ہونے والے ایک مزاکرے میں کی۔ اس مزاکرے کا اہتمام فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) کی قائمہ کمیٹی برائے ماحولیات نے کیا تھا۔ سیکریٹری جنگلات کا کہنا تھا کہ ”ہم شہری جنگل کی کاشت کے لیے زمین بھی فراہم کریں گے، لیکن ہم عدلیہ کی ہدایت کے مطابق زمین کی ملکیت منتقل نہیں کرسکتے“۔
(بزنس ریکارڈر، 31 جولائی، صفحہ3)

وزیر اعظم کے مشیر برائے موسمی تبدیلی امین اسلم نے کہا ہے کہ ملک بھر میں جاری سب سے بڑی مون سون شجرکاری مہم میں تقریباً 200 ملین پودے لگانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم نے کہوٹہ میں اس شجرکاری مہم کا افتتاح کردیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق 80 ملین پودے کے پی، 60 ملین سندھ، 37 ملین پنجاب، 14 ملین آزاد جموں و کشمیر، 2.050 ملین گلگت بلتستان، 0.602 بلوچستان میں اور بقیہ پودے مختلف شہری سماجی تنظیموں کے ذریعے کاشت کیے جائیں گے۔
(ڈان، 20 جولائی، صفحہ3)

کسان / مزدور

انسانی حقوق، مزدور حقوق کے لیے متحرک ارکان اور سندھ کمیشن آن دی اسٹیٹس آف وومن نے کراچی پریس کلب پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے صوبہ سندھ میں جبری مشقت کے خاتمے اور ہاریوں خصوصاً زرعی مزدور عورتوں کے حالات بہتر بنانے کے لیے ہاری عدالتیں اور فوری طور پر ضلعی سطح پر فعال نگراں کمیٹیاں بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ مقررین نے زمینی تقسیم دوبارہ شروع کرنے کا مطالبہ کیا جو پیپلز پارٹی نے 2018 میں شروع کی تھی لیکن پھر نامعلوم وجوہات کی بناء پر روک دی گئی تھی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ زرعی مزدور عورتوں کے لیے 2013 میں بنایا گیا سندھ انڈسٹریل ریلیشن ایکٹ (سیرا) ایک انقلابی قانون ہے لیکن اس کے ضوابط اب تک ترتیب نہیں دیے گئے ہیں۔ اس قانون سے مزدور عورتوں کو اس وقت ہی فائدہ حاصل ہوسکتا ہے جب اس کا نفاذ ہو۔
(ڈان، 26 جولائی، صفحہ15)

غربت

وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت کم قیمت پر لازمی غذائی اشیاء کی فراہمی کے لیے ملک بھر میں 50,000 یوٹیلٹی اسٹور قائم کرے گی۔ حکومتی اعلان کے مطابق اس منصوبے پر کام شروع ہوگیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نوجوان ”کامیاب جوان پروگرام“ کے تحت یوٹیلٹی اسٹور قائم کرنے کے لیے قرض کی درخواست بھی دے سکتے ہیں۔
(بزنس ریکارڈر، 25 جولائی، صفحہ11)

وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے غربت و سماجی تحفظ ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے کہا ہے کہ کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے غریب اور کم آمدنی والے افراد کے لیے حکومت نے احساس ایمرجنسی کیش پروگرام 144 بلین روپے سے بڑھا کر 203 بلین روپے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس پروگرام کے پہلے حصے میں 12 ملین خاندانوں میں 144 بلین روپے تقسیم کیے گئے ہیں۔ اس اضافے کے بعد اس پروگرام سے فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد 17 ملین خاندان ہوجائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ”یعنی ملک کی تقریباً آدھی آبادی اس منصوبہ کے دائرہ کار میں ہوگی“۔
(ڈان، 17 جولائی، صفحہ1)

پانی

وزیر اعظم عمران خان نے دیامربھاشا ڈیم کے تعمیراتی کام کا آغاز کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ حکومت سستی پن بجلی کی پیداوار کے لیے دریاؤں پر مزید ڈیم تعمیر کرے گی۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا ہے کہ 6.4 ملین ایکڑ فٹ کے اس آبی ذخیرے کی تعمیر سے ناصرف 1.2 ملین ایکڑ فٹ زمین زیر کاشت آئے گی بلکہ 4,500 میگاواٹ ماحول دوست بجلی بھی حاصل ہوگی۔اس کے علاوہ ڈیم کی تعمیر سے لوہا، سیمنٹ اور تعمیراتی صنعت کو 16,000 نئی ملازمتوں کے ذریعے فروغ حاصل ہوگا۔
(ڈان، 16 جولائی، صفحہ1)

سیکریٹری آبپاشی سندھ رفیق احمد بریونے بااثر سیاسی جاگیرداروں کو پانی چوری سے روکنے کے لیے رینجرز سے مدد طلب کی ہے۔ سیکریٹری نے ایک ہفتے کے لیے دادو، سہون اور جوہی میں پانی چوروں کے خلاف کارروائی کے لیے کیمپ قائم کیا تھا۔ اس کارروائی میں بڑے پیمانے پر پانی چوری کی شکایات سامنے آئیں اور سینکڑوں غیر قانی طور پر نصب کیے گئے پائپ، پمپ اور دیگر تعمیرات کو ہٹا دیا گیا تاکہ نہر کے آخری سرے تک پانی کے بہاؤ کو یقینی بنایا جاسکے۔ تاہم کئی بااثر جاگیرداروں نے کارروائی کے بعد دوبارہ پانی چوری شروع کردی ہے۔
(ڈان، 26 جولائی، صفحہ17)

تعلقہ جوہی، دادو، سندھ کے کسانوں نے پانی کی قلت اور دادو کنال سے زرعی پانی کی چوری کے خلاف مقامی پریس کلب پر احتجاجی ریلی نکالی۔ احتجاجی بینر اٹھائے کسانوں نے محکمہ آبپاشی کے حکام کے خلاف نعرے لگائے۔ کسانوں کا کہنا تھا کہ دادو کے منتخب نمائندے جوہی برانچ نہر سے پانی چوری میں ملوث ہیں کیونکہ صرف بااثر جاگیرداروں کی زمینیں سیراب ہورہی ہیں جبکہ غریب کسانوں کو پانی کی قلت اور بنجر زمینوں کے ساتھ بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا ہے۔ جوہی برانچ کے اوپر کے علاقوں میں پانی پہنچ رہا ہے لیکن نیچے کے 19 میل علاقے میں کسی کو بھی پانی کا مطلوبہ بہاؤ دستیاب نہیں ہے۔
(ڈان، 27 جولائی، صفحہ15)

نکتہ نظر

ملک میں سبز انقلاب کے نام سے شروع ہونے والی نام نہاد زرعی جدت آج عالمگیریت کے زیر سایہ جدید یا اسمارٹ زراعت کے نام پر ملک کو اس نہج پر لے آئی ہے جہاں پیداوار میں اضافہ بھی اس ملک کے چھوٹے اور بے زمین کسان مزدور عوام کو خوشحالی سے دوچار تو کیا کرتا، اس کے برعکس ان کی خوراک کا تحفظ ہی خطرے سے دوچار ہے جس کے نتیجے میں ملک کی تقریباً آدھی عوام بھوک، غربت کا شکار بناکر سرکاری نقد امداد پر گزارہ کرنے پر مجبور کردی گئی ہے، اس کی تصدیق خود حکومت احساس ایمرجنسی کیش پروگرام کے تحت 17 ملین خاندانوں کو وظیفہ فراہم کرکے کررہی ہے۔ ماہ جولائی کی زیادہ تر زرعی خبریں گندم، آٹا، چینی، کے بحران، موسمی و ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجے میں آم کی پیداوار میں واضح کمی، گوشت و دودھ، آٹا و چینی کا کاروبار کرنے والے سرمایہ داروں کی جانب سے مراعات کے مطالبہ پر مبنی ہیں جو کسی حد تک نیولبرل پالیسیوں کے چھوٹے اور بے زمین کسان مزدوروں اور عوام پر پڑنے والے بدترین اثرات اور اس ان کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی بھوک وغربت اور خوراک کی محتاجی کی عکاسی کررہی ہیں۔ وفاقی وزیر قومی غذائی تحفظ و تحقیق کے مطابق ملکی زراعت درآمدی بیجوں پر انحصار کررہی ہے، تو یہ سوال بھی حق بجانب ہے کہ حکومت اس انحصار کو ختم کرنے کے لیے ماحول دشمن غیرپائیدار کیمیائی زراعت کو فروغ دینے والی بیج، کھاد زرعی زہر کی دیوہیکل کمپنیوں کا کردار ختم کیوں نہیں کرتی اور اس کے برعکس اربوں روپے کی زرتلافی کے زریعے حکومت ان کمپنیوں کی منافع خوری کو تحفظ اور عوام کے غذائی تحفظ و صحت کو خطرات سے دوچار کیوں کررہی ہے۔ سرمایہ دار طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے پالیسی ساز کابینہ میں اس بات پر تو برہمی کا اظہار کرتے ہیں کہ ”گندم کی درآمد میں تاخیر کیوں ہورہی ہے“ کیونکہ اس سے ان ہی کے طبقے کے کاروباری مفاد جڑے ہیں،لیکن اس بحران کے ذمہ داروں کو صاف بچالیتی ہے کیونکہ حکومت خود گندم اور دیگر لازمی غذائی اشیاء کی پیداوار و ترسیل و فروخت پر سے سرکاری اختیار کے خاتمے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ اس حوالے سے حکومتی دلچسپی کا اندازہ وفاقی وزیر فخر امام کے اس بیان سے لگایا جاسکتا ہے کہ ”کسانوں سے چھ ملین ٹن سے زیادہ گندم خریدا گیا تھا (لیکن کوئی نہیں جانتا) یہ کہاں گیا“۔ پاکستان اور اس جیسے تیسری دنیا کے ممالک کو ان نیولبرل پالیسیوں کے تحت سرمائے و منافع کے ایسے شیطانی چکر میں جھونک دیا گیا ہے جس میں چھوٹے اور بے زمین کسان مزدوروں کو کمپنیوں کے مداخل کا محتاج بناکر دنیا میں خوراک پیدا کرنے والے بڑے ممالک میں شامل پاکستان کو عالمی منڈی کا محتاج بنادیا ہے، کپاس ہو یا گندم، چینی بھی اب ملک میں درآمد کی جارہی ہے جہاں ملکی ضرورت سے کہیں زیادہ شوگر ملیں کسانوں کا استحصال کرکے زیادہ سے زیادہ چینی بنارہی ہیں کیونکہ ان ملوں کی ترجیح عالمی منڈی میں ماحول دوست ایندھن یعنی ایتھنول کی برآمد سے منافع کا حصول ہے، جبکہ گنے کی زیادہ پیداوار ملک میں کپاس کے زیر کاشت رقبے میں کمی اور گنے کی کاشت میں پانی کے غیر پائیدار استعمال کی بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ اب بڑے پیمانے پر ڈیری اور گوشت کمپنیوں میں سرمایہ کاری اس خدشہ کو جنم دیتی ہے کہ منافع خوری کے لیے مصنوعی قلت کی شکار اشیاء میں دودھ اور گوشت بھی شامل ہوسکتا ہے جس کے بعد ان کی قیمتیں مزید بڑھنے سے ملک میں بھوک و غذائی کمی کی صورتحال مزید ابتر ہوسکتی ہے۔ پالیسی سازی اور پیداواری وسائل پر قابض استحصالی طبقہ صرف عوام کو غریب قرار دے کر برائے نام نقد رقم کی فراہمی کے زریعے ”احساس“ کو شرمندہ ہی کرسکتا ہے ناکہ پیداواری وسائل کی منصفانہ تقسیم اور قومی خودمختاری و انحصاری پر مبنی پالیسی سازی، ضرورت اس بات کی ہے کہ استحصال کے شکار چھوٹے اور بے زمین کسان مزدور عوام تمام تر اختیارات اور وسائل پر اختیار اس طبقہ اشرافیہ سے چھین لیں، جس کے لیے انہیں متحد ہوکر جدوجہد کرنی ہوگی۔