یکم تا 31 دسمبر، 2020
زمین
پنجاب کابینہ نے چولستان اور رحیم یار خان میں متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے صدر کو دی گئی سرکاری زمین کی لیز میں گزشتہ نرخوں پر ہی توسیع دے دی ہے۔ کابینہ کے اجلاس میں وزیر اعلی عثمان بزدار کا کہنا تھا کہ زمین کی لیز میں توسیع کا عمل پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تعلقات کو مستحکم کرے گا۔ اجلاس میں راوی اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی (آر یو ڈی اے)کی زمین کے حصول کے لیے پانچ بلین روپے قرض اور اس کے ماسٹر پلان کے لیے سرکاری زمین کی منظوری بھی دی گئی ہے۔
(ڈان، 18 دسمبر، صفحہ2)
سندھ یونائیٹڈ پارٹی (ایس یو پی) کے صدر سید جلال محمود شاہ نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے بڈو اور بنڈل آئی لینڈ سے سندھ اور بلوچستان کے جزائر پر قبضے کا آغاز کردیا ہے۔ پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آرڈننس کے حوالے سے ایک روزہ قومی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت 31 اگست کو آئین کو نظرانداز کرتے ہوئے آرڈننس لیکر آئی۔ ”سندھ کے عوام کے ساتھ دھوکہ بازی کرتے ہوئے پیپلز پارٹی اور وفاقی حکومت نے اس آرڈننس کو خفیہ رکھا“۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت کی سندھ اور بلوچستان کے جزائر پر نظر ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آئین کی دفعہ 172 (2) اور میری ٹائم ایکٹ 1976 کے تحت یہ واضح ہے کہ سمندر میں 12 بحری میل (ناٹیکل مائل) کے اندر جو بھی معدنیات ہیں وہ صوبے کی ہیں۔
(ڈان، 29 دسمبر، صفحہ13)
زراعت
ایک مضمون کے مطابق تقسیم ہندوستان کے وقت زراعت کا پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار میں حصہ 53 فیصد تھا اور آج یہ شرح تقریباً 24 فیصد ہے۔ موجودہ شرح اب بھی صنعتی شعبہ کے 19 فیصد حصے سے زیادہ ہے۔ تاہم عام طور پر اس حقیقت کو تسلیم نہیں کیا جاتا کہ زرعی شعبہ کا دیگر شعبہ جات سے گہرا تعلق ہے جو کپڑا، چینی، تمباکو، مشروبات وغیرہ کی صنعت کو خام مال فراہم کرتا ہے۔ اس شعبہ کا کیمیائی کھاد، کیمیکل اور ٹریکٹر کی صنعت سے بھی تعلق ہے۔ اس کے علاوہ تھوک اور خوردہ تجارت میں پیدا ہونے والی تقریباً 53 فیصد آمدنی زرعی اشیاء کی فروخت سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ مجموعی قومی پیداوار کا 39 فیصد بلواسطہ یا بلاواسطہ زرعی شعبہ سے حاصل ہوتا ہے۔ 39 فیصد روزگار زرعی شعبہ سے وابستہ ہے۔ کل برآمدات میں زرعی برآمدات کا براہ راست حصہ 20 فیصد اور بلا واسطہ 34 فیصد ہے۔30 فیصد نجی سرمایہ کاری بھی زرعی شعبہ میں ہی ہے۔ بیان کردہ حقائق پاکستان کی معیشت میں زراعت کے بنیادی کردار کو صاف ظاہر کرتے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ طویل عرصہ سے یہ شعبہ عدم توجہ کا شکار چلا آرہا ہے۔ حکومتوں اور پالیسی سازوں کی ساری توجہ توانائی کی پیداوار، بڑی شاہراوں اور صنعتوں کی طرف منتقل ہوگئی ہے۔ نتیجتاً زرعی شعبہ میں بڑھوتری کی شرح انتہائی کم ہوگئی ہے۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کیوں زرعی شعبہ کی کارکردگی مایوس کن ہے؟ چار عوامل میں سے ایک زرعی زمین کی غیر منصفانہ ملکیت ہے۔ ایک فیصد بڑے زمیندار 23 فیصد زرعی زمین کے مالک ہیں جبکہ دوسری طرف 43 فیصد کسانوں کے پاس 2.5 ایکڑ سے بھی کم زمین ہے اور ان کے پاس بہتر بیج اور ٹیکنالوجی کے لیے وسائل نہیں ہیں۔ زمین کی غیرمنصفانہ تقسیم پاکستان میں سب سے زیادہ ہے لیکن پالیسی بحث میں زمینی اصلاحات کہیں موجود نہیں جیسے کہ 70 کی دہائی میں موجود تھیں۔
(حفیظ اے پاشا، بزنس ریکارڈر، 1 دسمبر، صفحہ14)
ایک خبر کے مطابق ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) پاکستان میں غذائی تحفظ کو مستحکم کرنے، کورونا وائرس اور ٹڈی دل حملہ کے خلاف موافقت (ریزیلنس) کے لیے تکنیکی مدد فراہم کرے گا۔ ”اسٹرینتھگ فوڈ سیکیورٹی پوسٹ کووڈ۔19 اینڈ لوکسٹ اٹیکز“ نامی منصوبہ کے تحت تکنیکی مدد 1.5 ملین ڈالر ہوگی جس میں سے 600,000 ڈالر کی رقم بینک کے خصوصی فنڈ (ٹیکنکل اسسٹنس اسپیشل فنڈ) سے امداد کی صورت فراہم کی جائے گی۔ خبر کے مطابق پاکستان کیڑے مکوڑوں اور بیماریوں کے خاتمے کے لیے فرسودہ طریقوں پر انحصار کرتا ہے جنہیں عالمی معیار کے حصول کے لیے بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔
(ڈان، 13 دسمبر، صفحہ9)
پاکستان ایگری کلچرل ریسرچ کونسل (پارک) نے میرام شاہ میں قبائلی اضلاع میں زراعت کو دوبارہ فروغ دینے کے لیے ایک تحقیقی مرکز قائم کیا ہے۔ ضلع میرام شاہ کے علاقے کام سورابی میں واقع دی ایڈاپٹو ریسرچ کم ڈیمونسٹریشن انسٹی ٹیوٹ (اے آر ڈی آئی) نامی مرکز تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کرے گا، معیار زندگی بڑھائے گا، مقامی افراد کو روزگار فراہم کرے گا اور زراعت میں کم خرچ ٹیکنالوجی کے استعمال سے غذائی خودمختاری فراہم کرے گا۔ چیئرمین پارک کا کا کہنا ہے کہ نئے اداروں کے قیام کا بنیادی مقصد زیادہ پیداوار دینے والی فصلوں کی اقسام، دودھ و گوشت کی مزید پیداوار اور بیماریوں سے پاک مویشیوں کی افزائش، نئی نسل اور مقامی زمینداروں کے لیے جدید کاشت کے طریقوں کا تعارف شامل ہے۔ تحقیقی کام میں بارانی علاقوں میں آبپاشی ٹیکنالوجی پر بھی توجہ مرکوز ہوگی جو پیداوار میں کمی کی بنیادی وجہ ہے۔
(ڈان، 21 دسمبر، صفحہ5)
ایک مضمون کے مطابق پنجاب کے انتہائی جنوب میں واقع ضلع رحیم یار خان جغرافیائی طور پر متنوع ضلع ہے۔ یہ ضلع بڑے ریگستان اور وسیع دریائی علاقہ پر مشتمل ہے جہاں تین نہریں اس کی زرعی زمینوں کو پانی فراہم کرتی ہیں۔ یہ ضلع اعلی معیار کی کپاس کے لیے مشہور ہے اور پاکستان کی گوشت اور دودھ کی ضروریات پوری کرنے میں معاون ہے، اب یہ علاقہ گنے کی زیادہ پیداوار دے کر چینی کی صنعت کو استحکام دے رہا ہے۔ ضلع میں دریائی علاقوں کی وجہ سے مال مویشی شعبہ کی بھی ایک کامیاب داستان ہے۔ جنوبی پنجاب کے 11 اضلاع صوبے بھر کی 60 فیصد گوشت کی ضروریات پوری کرتے ہیں جس میں صرف ضلع رحیم یارخان کا ہی حصہ 12 سے 14 فیصد ہے۔ ضلع رحیم یار خان یومیہ 500,000 لیٹر دودھ پیدا کرتا ہے اور بین الاقوامی ڈیری کمپنیوں کو دودھ کی ترسیل کرنے والا بڑا ضلع ہے جو صارفین کو دودھ فروخت کرتی ہیں۔
(احمد فراز خان، ڈان، 7 دسمبر، صفحہ2، بزنس اینڈ فنانس)
وزیر اعلی خیبرپختونخوا محمود خان نے صوبے کی پہلی غذائی تحفظ پالیسی کی منظوری دے دی ہے جو مختصر، طویل اور وسط مدتی پالیسیوں پر مبنی ہے۔ وزیر اعلی کو پالیسی کا حتمی مسودہ ایک اجلاس میں پیش کیا گیا تھا۔ پالیسی کے تحت مختصر مدت پر مبنی منصوبہ دو سے تین سال پر مشتمل ہوگا جس کے لیے 56 بلین روپے درکار ہونگے۔ وسط مدتی منصوبہ چار سے سات سالوں پر مبنی ہوگا جس کی لاگت کا تخمینہ 109 بلین روپے لگایا گیا ہے۔ جبکہ طویل مدتی منصوبہ آٹھ سے 10 سالوں پر مشتمل ہوگا جس پر عملدرآمد کی لاگت تقریباً 70 بلین روپے ہوگی۔ مختصر مدت پر مبنی منصوبے میں صوبے میں زرعی پیداوار میں اضافے کے لیے 19 اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔ پالیسی میں چھوٹے ڈیموں کی تعمیر، موجودہ ڈیموں کی صلاحیت میں اضافے جیسے اقدامات شامل ہیں۔ وسط مدتی منصوبے میں بڑے ڈیموں کی تعمیر اور بڑے پیمانے پر زیتون کے درختوں کی کاشت شامل ہے۔ اس پالیسی میں ایگری بزنس ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے قیام کی تجویز بھی شامل ہے۔
(ڈان، 24 دسمبر، صفحہ8)
کسانوں نے موجودہ زرتلافی کے نظام کو مسترد کردیا ہے جو کہ نامناسب طریقہ کار ہے اور مقصد کے حصول میں ناکام ہے۔ ایک آن لائن مباحثے میں کاشتکار رائے ارسلان علی نے اس نظام کو رد کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ دیگر چیزوں کی طرح کسانوں کو براہ راست زرتلافی فراہم کرے کیونکہ کسانوں کی بڑی تعداد یہ نہیں جانتی کہ موبائل فون کس طرح استعمال کیا جاتا ہے، لہذا وہ موبائل فون کے ذریعے دی گئی مالی مدد سے فائدہ نہیں اٹھاسکتے۔ زرتلافی کے نام پر کسانوں کو بوری میں سے ایک ٹوکن ملتا ہے جس سے انہیں زرتلافی کی رقم تین ماہ میں واپس ملتی ہے۔ زرتلافی کی فراہمی کا یہ دورانیہ چھوٹے کسانوں کے لیے طویل ہے۔
(ڈان، 28 دسمبر، صفحہ2)
پاکستان ایگری کلچر ریسرچ کونسل (پارک) نے تھرپارکر میں غذائی تحفظ کو یقینی بنانے، مقامی افراد کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور زراعت کو فروغ دینے کے لیے مختلف اقسام کے پھل، سبزیاں اور چارا کاشت کیا ہے۔ چیئرمین پارک ڈاکٹر محمد عظیم کا کہنا ہے کہ کونسل زراعت و مال مویشی شعبہ کو ترقی دے کر بھوک و غذائی کمی کے خاتمے کی حکومتی کوششوں کو مستحکم کررہی ہے۔ پارک نے غیرسرکاری تنظیموں کے اشتراک سے مختلف کسان گروہ تشکیل دیے ہیں اور پیداوار میں اضافے کے لیے انہیں مختلف بیج فراہم کیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ”ہم 200 سے 300 من مختلف اقسام کے بیج فراہم کررہے ہیں“۔ پارک شمالی زون کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عطااللہ کا کہنا ہے کہ مقامی ماحول سے موافقت رکھنے والی امرود کی 14 اقسام بھی تیار کی گئی ہیں اور کسانوں میں تقسیم کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ کھجور کی 38 اقسام بھی کاشت کی گئی ہیں اور 10 ایکڑ زمین پر 13 مختلف اقسام کی گھاس کاشت کی گئی ہے۔
(ڈان، 30 دسمبر، صفحہ9)
بیج
ایسوسی ایشن آف آل سندھ سیڈز (اے اے ایس ایس) کے رہنماؤں نے وفاقی حکومت پر زور دیا ہے کہ بیج سے متعلق معاملات کی مرکزی (وفاقی) حیثیت ختم نہ کی جائے کیونکہ صوبے پہلے ہی زیادہ کام کے دباؤ میں ہیں اور زراعت کے اس اہم شعبہ کو متاثر کرسکتے ہیں۔ اے اے ایس ایس کے صدر ندیم شاہ اور دیگر رہنماؤں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بیج کا شعبہ فیڈرل سیڈ سرٹیفیکیشن اینڈ رجسٹریشن ڈپارٹمنٹ کے زیر انتظام ہے لیکن وفاقی حکومت اس شعبہ کو صوبوں کے حوالے کرنا چاہتی ہے۔ محکمہ زراعت سندھ کیمیائی کھاد اور کیڑے مار زہر کی فروخت سے متعلق مسائل پر قابو پانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
(ڈان، 21 دسمبر، صفحہ15)
پانی
ایک خبر کے مطابق یورپین یونین بلوچستان حکومت کو پانی کی کمی پر قابو پانے اور تعلیم کی فراہمی میں مدد کے لیے 11.1 بلین روپے فراہم کرے گی۔ 40 ملین یوروکے اس آبی منصوبہ پر 2021 میں عملدرآمد ہوگا۔ اس منصوبہ کا مقصد بلوچستان کے بنجر علاقوں کو پائیدار، کم پانی سے کاشت ہونے والی فصلوں اور مویشی بانی کے نظام پر منتقلی کے لیے مدد فراہم کرنا ہے۔ توقع ہے کہ منصوبہ میں کسانوں کو پانی کے موثر استعمال پر مراعات کی فراہمی شامل ہوگی۔یہ منصوبہ ناصرف آبی وسائل کے بہتر استعمال کے ذریعے پیداوار میں بہتری لائے گا بلکہ زیر زمین پانی میں اضافے میں مددگار ہوگا۔
(ڈان، 13 دسمبر، صفحہ5)
محکمہ آبپاشی پنجاب نے ادارہ ترقیات اسلام آباد (سی ڈے اے) کی جانب سے روال جھیل سے اسلام آباد کو فوری طور پر یومیہ دو ملین گیلن پانی فراہم کرنے کی درخواست مسترد کردی ہے اور اس معاملے کو بقایاجات کی دائیگی سے مشروط کردیا ہے۔ 1996 میں منقطع کی گئی پانی کی ترسیل بحال کرنے کے جواب میں محکمہ آبپاشی نے سی ڈے اے سے مطالبہ کیا ہے کہ اسے پہلے 32.35 ملین روپے کے پرانے واجبات ادا کرنے چاہیے۔ واجبات کے علاوہ پانی کی بحالی میں دوسرا تنازع پانی کے نرخ کا ہے۔ سی ڈے اے چاہتا ہے کہ وہ پرانے نرخ 0.19 روپے فی 1,000 گیلن کے نرخ سے ادائیگی کرے جبکہ محکمہ آبپاشی پنجاب تقریباً چھ روپے فی 1,000 گیلن قیمت کا مطالبہ کررہا ہے۔
(ڈان، 20 دسمبر، صفحہ4)
واٹر اینڈ پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) نے دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم کی تعمیر کے لیے یورو بانڈ کے زریعے عالمی تجارتی قرض حاصل کرنے کی تیاری کرلی ہے۔ کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کی جانب سے اس ہفتے واپڈا بانڈ کے بیرون ملک اجراء کی منظوری دیے جانے کی توقع ہے۔ واپڈا پہلے ہی دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کا 442 بلین روپے اور مہمند ڈیم کا 310 بلین روپے کا ٹھیکہ دو الگ چینی اورپاکستانی کنسورشیم کو دے چکا ہے۔ ابتدائی مرحلے میں واپڈا نے وزارت آبی وسائل کے زریعے یورو بانڈ کے اجراء کے لیے سمری بھیجی ہے۔
(ڈان، 23 دسمبر، صفحہ1)
کھاد
ایک خبر کے مطابق کھاد کے شعبہ میں حکومتی زرتلافی کی وجہ سے نومبر میں یوریا کی فروخت 515,000 ٹن تک بڑھ گئی ہے جو گزشتہ سال اسی دورانیہ میں 362,000 ٹن تھی۔ یوریا کی فروخت میں اضافے کی یہ شرح 42.26 فیصد ہے۔ ادارہ شماریات پاکستان (پی بی ایس) کے دستیاب اعداد وشمار کے مطابق یوریا کی قیمت میں کمی کے بروقت حکومتی اقدام اور اس کے مناسب ذخائر کے نتیجے میں اس کی قیمت 2,100 روپے فی بوری سے مسلسل کم ہوکر 1,700 روپے فی بوری سے نیچے آگئی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 15 دسمبر، صفحہ7)
گندم
نیشنل پرائس مانیٹرنگ کمیٹی (این پی ایم سی) نے وزارت خوراک کو ہدایت کی ہے کہ وہ یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن (یو ایس سی)کو گندم جاری کرے۔ یو ایس سی کو جاری کی جانے والی گندم کی مقدار 8,000 سے 10,000 ٹن ہوگی۔ یو ایس سی نے کمیٹی کو آگاہ کیا تھا کہ اس کے گندم کے ذخائر ختم ہورہے ہیں۔ کمیٹی نے وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کو بھی ہدایت کی ہے کہ آزاد جموں و کشمیر حکومت کو بھی 10,000 ٹن اضافی گندم فراہم کی جائے۔
(ڈان، 15 اگست، صفحہ9)
قومی احتساب بیورو (نیب)، سکھر نے بشمول ڈپٹی ڈائریکٹر نو سرکاری اہلکاروں کے خلاف احتساب عدالت میں مقدمہ دائر کیا ہے۔ ان اہلکاروں کے خلاف مقدمہ 120 ملین روپے مالیت کی گندم کی خوردبرد کی تفتیش مکمل ہونے کے بعد دائر کیا گیا ہے۔ ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ ملزمان نے سکھر، جیکب آباد، کشمور، نوشہرو فیروز اور دیگر اضلاع میں اپنی تعیناتی کے دوران اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے 628 ملین روپے مالیت کے 19,324 ٹن گندم کی خردبرد کی۔ 500 ملین روپے کچھ ملزمان سے (پلی بارگین کے زریعہ) وصول کیے گئے ہیں۔
(ڈان، 18 دسمبر، صفحہ15)
وزیر خوراک پنجاب عبدالعلیم خان نے محکمہ خوراک پنجاب کو ہدایت کی ہے کہ وہ نئی گندم کی خریداری اور اس کی تقسیم کے طریقہ کار کو وزیر اعظم سے حتمی منظوری کے لیے اس ماہ کے آخر تک حتمی شکل دے۔ نئے طریقہ کار پر مبنی مسودہ اس طرز پر ہونا چاہیے کہ آٹے پر دی جانے والی زیادہ سے زیادہ زرتلافی ضرورتمند اور اہل صارفین تک پہنچے۔ پنجاب حکومت کو سالانہ 100 بلین روپے زرتلافی کا بوجھ برداشت کرناپڑتا ہے لیکن موجودہ نظام میں عام آدمی اب بھی فوائد سے محروم ہے جس کی وجہ سے اس نظام کو تبدیل کیا جارہا ہے۔ نئے نظام میں آٹے پر زرتلافی صرف غریبوں کے لیے ہوگی۔
(بزنس ریکارڈر، 22 دسمبر، صفحہ12)
پالیمانی کمیٹی نے حکومت کو گندم کی امدادی قیمت کے حوالے سے تجویز دی ہے کہ کم از کم قیمت 1,650 روپے فی من کو بڑھا کر 1,800 روپے فی من کی جائے تاکہ پیداواری لاگت میں اضافے کی تلافی کی جاسکے۔ کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے اپنے چھ نومبر کے اجلاس میں 1,650 روپے فی من قیمت منظور کی تھی۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قومی غذائی تحفظ و تحقیق نے راؤ محمد اجمل خان کی سربراہی میں گندم کی سرکاری قیمت میں اضافے کی سفارش کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کمیٹی نے پہلے ہی بروقت 1,800 روپے فی من قیمت مقرر کرنے کی تجویز دی تھی جبکہ سندھ حکومت نے 2,000 روپے فی من قیمت مقرر کی تھی۔ تحریک انصاف کے رکن اسمبلی محمد ابراہیم خان کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں گندم کی قیمت ایک ہی ہونی چاہیے۔
(بزنس ریکارڈر، 29 دسمبر، صفحہ15)
چاول
سندھ اور جنوبی پنجاب میں ہائبرڈ چاول کی بڑھتی ہوئی مقبولیت نے شراکت داروں میں یہ خدشات پیدا کردیے ہیں کہ چاول کی یہ ہائبرڈ قسم پنجاب کے باسمتی چاول کے پیداواری علاقوں کا رخ کرسکتی ہے۔ چیئرمین رائس ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ بورڈ پنجاب شہزاد علی ملک نے ہائبرڈ چاول کی بڑھتی ہوئی کاشت کو مدنظر رکھتے ہوئے سائنسدانوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ زیادہ پیداوار دینے والی باسمتی چاول کی اقسام تیار کریں۔ زرائع کے مطابق بورڈ کے اجلاس میں بتایا گیا ہے کہ کسان ہائبرڈ اقسام کو باسمتی پر فوقیت دے رہے ہیں کیونکہ انہیں پرانی اقسام کے مقابلے اب 100 من فی ایکڑ پیداوار حاصل ہورہی ہے۔ اس لیے یہ خدشہ ہے کہ ہائبرڈ اقسام کی بڑھتی ہوئی کاشت باسمتی کے اہم علاقے گجرانوالہ ڈویژن میں اس کی کاشت میں کمی کا سبب ہوسکتی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 2 دسمبر، صفحہ14)
وزیر اعظم کے مشیر تجارت رزاق داؤد نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان ایک غیرملکی کمپنی کی جانب سے ”کرنل“ ٹریڈ مارک کی سعودی عرب میں غیرقانونی رجسٹریشن منسوخ کروانے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ مشیر تجارت نے کسی ملک اور کمپنی کا نام ظاہر نہیں کیا جس نے سعودی عرب میں رجسٹریشن کے لیے رجوع کیا۔ یہ دوسری مرتبہ ہوا ہے کہ سعودی عرب میں کسی کمپنی نے مشہور کرنل چاول کی رجسٹریشن کی کوشش کی ہے۔ تاہم جدہ میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے بروقت اقدامات نے سعودی حکومت کو رجسٹریشن مسترد کرنے پر مجبور کیا۔
(ڈان، 9 دسمبر، صفحہ9)
رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان (ریپ) باسمتی چاول پر بھارتی دعوے کے خلاف دوسرے مرحلے کی تیاری کا آغاز کررہی ہے اور 60 دنوں میں وجوہات سے متعلق اپنا موقت پیش کرے گی۔ اس مقدمے کی موجودہ صورتحال یہ ہے کہ ریپ نے سات دسمبر کو باسمتی پر بھارتی دعوے کے خلاف یورپی یونین میں اختلافی نوٹس جمع کیا تھا جس کی یورپی یونین نے توثیق کردی تھی۔ زرائع کے مطابق ریپ اب اپنے دوسرے مرحلے پر ہے اوراس مخالفت کی وجہ پر مبنی بیان جمع کرانے کی تیاری کررہی ہے جس پر سماعت 60 دنوں کی مدت پوری ہونے کے بعد فروری 2021 میں ہوگی۔اس سماعت کے بعد باسمتی چاول کی رجسٹریشن کا حتمی فیصلہ جاری ہوگا۔
(بزنس ریکارڈر، 18 دسمبر، صفحہ10)
پاکستان یورپی یونین میں بھارت کے خلاف باسمتی چاول کی رجسٹریشن کا مقدمہ لڑ رہا ہے لیکن باسمتی چاول خود پاکستان میں بطور مقامی پیداوار رجسٹرڈ نہیں ہے۔ قانون کے مطابق کسی بھی اشیاء کی بین الاقوامی منڈی میں رجسٹریشن کے لیے اس اشیاء کا مقامی (جیوگرافک انڈیگیشن یا جغرافیائی شناخت) قوانین کے تحت رجسٹرڈ ہونا ضروری ہے۔ اس سال مارچ میں نافذ ہونے والے رجسٹریشن اینڈ پروٹیکشن ایکٹ 2020 میں جغرافیائی شناخت کے کوئی قوائد نہیں ہیں جس کے نتیجے میں باسمتی اب تک پاکستان میں تحفظ کی حامل شے نہیں ہے۔ ریپ کا کہنا ہے کہ برآمدکنندگان سال 2000 سے حکومت سے مطالبہ کررہے تھے کہ جغرافیائی شناخت (جی آئی) کے قوانین بنائے جائیں۔ بلاآخر یہ قوانین اس سال مارچ میں بنائے گئے لیکن حکام نے اب تک اس قانون کے ضوابط وضح نہیں کیے ہیں۔
(ڈان، 28 دسمبر، صفحہ3)
کپاس
کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے برآمدات میں اضافے کے لیے سوتی دھاگے (کاٹن یارن) کی درآمد پر عائد پانچ فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ وزیر اعظم کے مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی سربراہی میں کابینہ نے وزارت تجارت کی تجویز پر 30 جون 2021 تک کے لیے ریگولیٹری ڈیوٹی میں چھوٹ دی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 3 دسمبر، صفحہ1)
پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن (پی سی جی اے) کی رپورٹ کے مطابق کپاس کی پیداوار میں 2.8 ملین گانٹھوں کی تشویشناک کمی دیکھی گئی ہے۔ ملک بھر میں 15 دسمبر تک پانچ ملین گانٹھیں کپاس کی پیداوار ہوئی ہے جو گزشتہ سال اسی مدت میں سات ملین گانٹھیں تھی۔ پنجاب میں 2.9 ملین گانٹھوں کی پیداوار ہوئی جو گزشتہ سال کے مقابلے 1.4 ملین گانٹھیں کم ہے۔ اسی طرح سندھ میں 2.8 ملین گانٹھیں پیداوار ہوئی جو گزشتہ سال سے 1.3 ملین گانٹھیں کم ہے۔
(ڈان، 19 دسمبر، صفحہ1)
پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن (پی سی جی اے) کے سابق چیئرمین حاجی ابراہیم نے کہا ہے کہ حکومت کو کپاس کے کاشتکاروں کو مدد فراہم کرنے کے لیے ایک جامع زرعی پالیسی بنانی چاہیے کیونکہ اس سال کپاس کی پیداوار بہت کم ہوئی ہے۔ مقامی طور پر تیار کی گئی کپاس کی اقسام اب بہت کم پیداوار دیتی ہیں، حکومت کو اعلی معیار کے کپاس کے بیج درآمد کرنے چاہیے جو زیادہ پیداوار کے حصول کے لیے بدلتے ہوئے موسمی حالات کے خلاف مزاحمت رکھتے ہوں۔
(ڈان، 21 دسمبر، صفحہ8)
ایک خبر کے مطابق کپاس کے ماہر ندیم عثمان کا کہنا ہے کہ کپاس کے کاشتکار شدید متاثر ہیں۔ ملک میں کپاس کی پیداوار نچلی ترین سطح پر ہے جو گزشتہ دہائیوں میں کبھی نہیں دیکھی گئی۔ پیداوار میں کمی کی وجہ غیرمعیاری بیج، فرسودہ بیج ٹیکنالوجی اور کپاس کے پودوں کے لیے غیرموافق موسمی حالات ہیں۔ ایک بار پھر حکومت طویل عرصہ سے جاری خصوصاً بیج کی اقسام اور ٹیکنالوجی مسائل نمٹنے کے لیے منصوبہ بندی میں میں ناکام رہی۔ اس سال مقامی پیداوار میں کمی کی وجہ سے کپاس، گندم اور چینی کی درآمد کے لیے حکومت کو دو سے تین بلین ڈالر کی ضرورت پڑسکتی ہے۔ اگر حکومت نے اس شعبہ کو مزید نظرانداز کیا تو آئندہ سالوں میں یہ درآمدی لاگت مزید بڑھ سکتی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 29 دسمبر، صفحہ8)
گنا
گنا کمشنر پنجاب نے ملوں کی جانب سے پیش کردہ گنے میں شکر کی مقدار (سکروز لیول) کی جانچ کے لیے مہم کا آغاز کردیا ہے تاکہ کسانوں کے لیے ان کی پیداوار کی بہتر قیمت کو یقینی بنایا جاسکے۔ شوگر کین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اور گنا کمشنر کی جانب سے گشتی لیبارٹری مختلف ملوں میں حقیقی سکروز لیول کی جانچ کرے گی۔ گنا کمشنر پنجاب زمان وٹو نے اخبار سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ کچھ ملیں سکروز لیول کم ظاہر کررہی ہیں۔ اگر مل 1,000 من گنا خریدے اور اس گنے سے 111 من چینی حاصل کرے تو مل صرف 90 من چینی کی پیداوار ظاہر کرتی ہے تاکہ وہ 20 سے 21 من چینی کی پیداوار پر سیلز ٹیکس ادا کرنے سے بچ جائے۔
(بزنس ریکارڈر، 15 دسمبر، صفحہ12)
سورج مکھی
پنجاب حکومت نے درآمدی خوردنی تیل پر انحصار کم کرنے کے لیے سورج مکھی کی کاشت کے فروغ کے لیے 5,000 روپے فی ایکڑ زرتلافی کی فراہمی میں توسیع کر دی ہے۔ محکمہ زراعت پنجاب نے صوبے کو سورج مکھی کی بروقت بوائی کے لیے دو علاقوں میں تقسیم کیا ہے۔ شیڈول کے مطابق سورج مکھی کی بوائی ڈیرہ غازی خان، راجن پور میں 31 جنوری تک مکمل ہوجانی چاہیے۔ جبکہ بھاولپور، رحیم یار خان، خانیوال، ملتان، مظفرگڑھ، ڈیرہ غازی خان، لیہ، لودھران، بھکر، ویہاڑی اور بھاولنگر میں سورج مکھی کی بیجائی یکم جنوری تا 31 جنوری تک ہونی چاہیے۔
(بزنس ریکارڈر، 29 دسمبر، صفحہ12)
چینی
سندھ اور پنجاب میں گنے کی کرشنگ شروع ہونے کے بعد چینی کی قیمت تیزی سے کم ہورہی ہے۔ خودرہ منڈی میں چینی کی قیمت میں 20 تک کمی ہوئی ہے۔ وزیر اعظم نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے پیغام میں حکومت کے موثر اقدامات کو اس کی وجہ قرار دیا ہے جس کے تحت حکومت نے بروقت چینی کی کرشنگ شروع کروائی اور چینی درآمد کی۔ خودرہ منڈی میں چینی کی اوسط قیمت 85 روپے فی کلو گرام ہے جو کچھ دن پہلے 100 روپے فی کلو گرام تھی۔
(ڈان، 3 دسمبر، صفحہ9)
مرغبانی
ملک بھر میں سرد موسم میں طلب میں اضافے کی وجہ سے انڈے کی قیمت اب تک کی بلند ترین سطح 200 سے 240 روپے فی درجن تک پہنچ گئی ہے۔ صارفین کا کہنا ہے کہ حکومت بڑھتی ہوئی قیمت پر قابو پانے میں ناکام ہوچکی ہے اور عوام کو پولٹری فارمر اور خودرہ فروشوں کے رحم و کرم پر چھوڑدیا گیا ہے۔ جنرل سیکریٹری سندھ پولٹری ہول سیلرز ایسوسی ایشن (ایس ڈبلیو پی اے) کمال اختر صدیقی کا کہنا ہے کہ سردیوں میں عام طور پر طلب 15 فیصد بڑھتی ہے لیکن اب مسئلہ منڈی میں اسی تناسب سے انڈوں کی ترسیل میں کمی کا ہے۔ انہوں انڈوں اور زندہ مرغی کی قیمت میں اضافے کی وجہ مرغیوں کی خوراک کی قیمت میں اضافے کو قرار دیا۔ پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن (پی پی اے) اخبارات میں اشتہاری مہم چلارہی ہے جس میں مرغیوں کی خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمت کو پولٹری اشیاء کی قیمت میں اضافے کی وجہ قرار دیا جارہا ہے جس کی 50 کلوگرام کی بوری کی قیمت 3,085 روپے سے بڑھ کر 3,780 روپے ہوگئی ہے۔
(ڈان، 19 دسمبر، صفحہ9)
کینو
سری لنکا نے پاکستانی سفارت خانے کی درخواست پر ملک میں کینو کی درآمد پر عائد ٹیکس میں بڑے پیمانے پر کمی کردی ہے۔ گزشتہ ماہ سری لنکا نے اچانک کینو کی درآمد پر عائد ٹیکس 30 روپے فی کلو سے بڑھا کر 160 سری لنکن روپے تک بڑھا دیا تھا جس کی وجہ سے پاکستان سے سری لنکا کو کینو کی برآمد چار گنا مہنگی ہوئی تھی۔ وزارت تجارت کا کہنا ہے کہ درآمدی ٹیکس میں دوبارہ کمی کورونا کی صورتحال میں پاکستانی کینو کے برآمدکنندگان کے لیے مددگار ہوگی۔
(ڈان، 19 دسمبر، صفحہ2)
چائے
پاکستان میں درآمدی چائے کا حجم 26.72 فیصد بڑھ گیا ہے۔ رواں مالی سال کے ابتدائی پانچ ماہ میں پاکستانیوں نے 233.632 ملین ڈالر مالیت کی چائے استعمال کی۔ خبر کے مطابق مجموعی طور پر ملک میں خوراک کی درآمد رواں مالی سال میں 44.53 فیصد اضافے کے بعد 3019.072 ملین ڈالر ہوگئی ہے جو گزشتہ سال 2088.96 ملین ڈالر تھی۔
(بزنس ریکارڈر، 28 دسمبر، صفحہ2)
کارپوریٹ
فوجی فاؤنڈیشن اور کارگل پاکستان میں طویل مدتی شراکتداری میں داخل ہوگئے ہیں۔ اس سرمایہ کاری کے زریعے کارگل نے فوجی اکبر پورشیا مرین ٹرمینل لمیٹیڈ (ایف اے پی) میں اقلیتی شراکت حاصل کرلی ہے اور کمپنی پورٹ قاسم پر پاکستان کے اس اہم ٹرمینل میں اجناس، چاول، خوردنی بیج، کھاد کا انتظام سنبھالے گی۔ یہ کارگل کی پاکستان میں 2019 کے بعد پہلی سرمایہ کاری ہے۔ کارگل پہلے ہی پاکستان میں پام اور سویابین کی مرکزی ترسیل کار ہے اور بطور زرعی درآمد کنندہ اپنی حیثیت کو مزید مستحکم کرے گی۔
(بزنس ریکارڈر، 9 دسمبر، صفحہ3)
غربت
کرک میں احساس کفالت مرکز کے عملہ کے خلاف عورتوں نے مبینہ طور پر قسط کی فراہمی کے عوض رشوت طلب کرنے پر کرک۔صابرآباد سڑک بند کرکے احتجاج کیا ہے۔ عورتوں کا کہنا تھا کہ وہ کئی دنوں سے روزانہ احساس کفالت کے دفتر چکر لگارہی ہیں اور قسط وصول کیے بغیر جاتی ہیں۔ جن کے تعلقات ہیں انہیں قسط کی فراہمی میں ترجیح دی جاتی ہے جبکہ دیگر لوگوں کو انتظار کروایا جاتا ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ عملہ ہر درخواست گزار سے 200 سے 300 روپے رشوت وصول کررہا ہے اور قسط وصول کرنے والوں سے ہتک آمیز سلوک کررہا ہے۔
(ڈان، 13 دسمبر، صفحہ8)
وزیر اعظم کی مشیر برائے غربت و سماجی تحفظ ثانیہ نشتر نے ایک اجلاس کے دوران وزیر اعظم عمران خان کو آگاہ کیا گیا ہے کہ عالمی بینک نے احساس پروگرام کے لیے امداد دگنی کردی ہے۔ پاکستان میں عالمی بینک کے ڈائریکٹر ناجی بینہاسن نے اس موقع پر احساس پروگرام کو سماجی تحفظ کا مثالی منصوبہ قرار دیا ہے۔ وزیر اعظم نے ثانیہ نشتر کو ہدایت کی ہے کہ احساس پروگرام کو توسیع دینے کے لیے ایک جامع حکمت عملی وضع کی جائے۔
(بزنس ریکارڈر، 15 دسمبر، صفحہ1)
وفاقی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ اگلے سال جون سے پہلے احساس سروے مکمل کیا جائے گا۔ اس سروے کا مقصد شہریوں کے سماجی و معاشی اعداد وشمار جمع کرنا ہے تاکہ ان مستحق گھرانوں کی شناخت کی جاسکے جو حکومت سے سماجی تحفظ پر مبنی امداد وصول کرنے کے اہل ہیں۔ اس سروے کا آغاز اس سال اگست میں کیا گیا تھا۔ یہ سروے صوبائی حکومتوں اور ادارہ شماریات پاکستان (پی بی ایس) کے اشتراک سے کیا جارہا ہے جس میں مقرر کردہ اہلکار گھر گھر جاکر معلومات جمع کرتے ہیں۔
(بزنس ریکارڈر، 18 دسمبر، صفحہ3)
صدر پاکستان بزنس مین اینڈ انٹی لیکچولز فورم (پی بی آئی ایف) میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ کورونا وائرس اور گندم کے بحران نے گھروں کا بجٹ برباد کردیا ہے اور یہ صورتحال کئی ملین لوگوں کو غربت میں دھکیل رہی ہے۔ گندم دنیا کی اہم ترین فصل ہے اور پاکستان دنیا میں گندم پیدا کرنے والا ساتواں بڑا ملک ہے لیکن اس شعبہ میں موجود مافیا نے غذائی تحفظ کے شدید مسائل پیدا کردیے ہیں۔ گندم بحران سے پہلے عام آدمی اپنی آمدنی کا 22 فیصد گندم خریدنے پر خرچ کرتا تھا لیکن اب یہ شرح دگنی ہوئی ہے جبکہ کورونا نے ان کی آمدنی کو بھی متاثر کیا ہے۔ حکومت نے مزید مہنگائی سے بچنے کے لیے گندم کی امدادی قیمت 1,650 روپے فی من مقرر کی ہے لیکن اس عمل نے عوام کو مایوس کیا ہے جس سے اسمگلنگ کو فروغ ملے گا اور گندم کی قلت پیدا ہوگی کیونکہ خطے کے دیگر ممالک میں گندم کی قیمت اس سے زیادہ ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 22 دسمبر، صفحہ5)
پھل سبزی
سندھ میں تھرپارکر، بدین، میرپور خاص، ٹھٹھہ، سجاول، ٹنڈو محمد خان، عمرکوٹ، ٹنڈو الہ یار اور سانگھڑ سے تعلق رکھنے والے ٹماٹر کے کاشتکاروں نے کئی علاقوں میں احتجاج کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے ٹماٹر کی درآمد بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ کسانوں کا کہنا تھا کہ اب سندھ میں ٹماٹر کی کوئی کمی نہیں ہے تو وفاقی حکومت کو کسانوں کو نقصان سے بچانے کے لیے ٹماٹر کی درآمد روک دینی چاہیے۔ گزشتہ ہفتے سے ملک میں ٹماٹر کی قیمت تیزی سے کم ہورہی ہے اور منڈی میں آنے والی نئی فصل سندھ اور پنجاب کی ضرورت پوری کرنے کے لیے کافی ہے۔
(ڈان، 12 دسمبر، صفحہ15)
سندھ کے اضلاع حیدرآباد، بدین اور عمرکوٹ میں کاشتکار سڑکوں پر آگئے ہیں جنہوں نے مقامی پیداوار منڈی میں آنے کے بوجود پیاز و ٹماٹر کی درآمد کے حکومتی فیصلے خلاف احتجاجی ریلیاں نکالیں اور مظاہرے کیے۔ کسانوں نے مقامی زرعی شعبہ کو تحفظ دینے اور کسانوں کو مزید نقصان سے بچانے کے لیے فوری طور پر سبزیوں کی درآمد پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
(ڈان، 19 دسمبر، صفحہ15)
موسمی تبدیلی
وزیر اعظم کے مشیر برائے موسمی تبدیلی امین اسلم نے کہا ہے کہ حکومت اور عالمی بینک پاکستانی سمندر میں سمندری پانی اور تیمر کے جنگلات کے زریعے کاربن کی تشخیص کے لیے تین ماہ پر مبنی تحقیق کرے گا۔ زرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک میں سمندی پانی اور تیمرکے جنگلات میں جمع کئی ملین ٹن کاربن کی اقتصادی قدر (اکنامک ویلیو) کی جانچ کے لیے منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ اس تحقیق سے پاکستان کے سمندری پانیوں کی کاربن کے ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کو ناپنے میں مدد ملے گی۔ اس کے علاوہ ملکی سمندری ماحولیاتی نظام میں کاربن ذخیرہ کرنے کی گنجائش کے ساتھ ساتھ سمندی پانی اور تیمر کے جنگلات میں اب تک ذخیرہ شدہ کاربن کو ناپنے میں بھی مدد ملے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ”ہمیں یقین ہے کہ اب تک سمندری پانی میں جمع ہونے والے کاربن کی اقتصادی قدر اندازاً کئی بلین ڈالرز ہوگی“۔
(ڈان، 21 دسمبر، صفحہ4)
ماحول
ملک میں درختوں کی تیزی سے کٹائی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کے بلین ٹری سونامی منصوبہ پر جامع رپورٹ طلب کی ہے جس میں لگائے گئے درختوں کی درست تعداد اور ان کا مقام ظاہر ہو کیا گیا ہو۔ چیف جسٹس گلزار احمد اور جسٹس اعجازالحسن پر مشتمل دورکنی بینچ نے ملک میں جنگلات میں تیزی سے کمی پر ازخود نوٹس لیا تھا۔ عدالت نے پہاڑی علاقے کلر کہار میں ہر قسم کی تجارتی سرگرمیاں اور رہائشی کالونیوں کی تعمیر بھی روکنے کا حکم دیا تھا۔ عدالت نے سیکریٹری موسمی تبدیلی ناہید درانی کے اس بیان پر حیرت کا اظہار کیا کہ گزشتہ ایک سال میں اس منصوبے کے تحت 430 ملین درخت لگائے گئے ہیں۔
(ڈان، 2 دسمبر، صفحہ12)
ایک خبر کے مطابق وفاقی حکومت نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور شاہی خاندان کے دیگر دو افراد کو عالمی سطح پر تحفظ فراہم کیے گئے پرندے تلور کے شکار کے لیے خصوصی اجازت نامے جاری کیے ہیں۔ زرائع کے مطابق دیگر دو شکاری گورنر ہیں جن میں سے ایک نادہندہ ہیں کیونکہ انہوں نے گزشتہ سال کے لائسنس کے بقایاجات ادا نہیں کیے ہیں۔ وسط ایشیائی خطے کے یہ پرندے سخت سردی سے بچنے کے لیے ہر سال نسبتاً گرم علاقوں کا رخ کرتے ہیں جہاں حکومت کی جانب سے خصوصی طور پر مدعو کیے گئے عرب شکاری ان پرندوں کا شکار کرتے ہیں۔
(ڈان، 2 دسمبر، صفحہ13)
وفاقی حکومت نے بحرین کے شاہ حماد بن عیسی اور شاہی خاندان کے دیگر چھ ارکان کو سال 2020-21 کے تلور کے شکار کے موسم کے لیے خصوصی اجازت نامے جاری کردیے ہیں۔ خصوصی اجازت نامے کے تحت شکار 10 دنوں تک کیا جاسکتا ہے اور شکار کیے گئے پرندوں کی مقرر کردہ حد 100 ہے۔ زرائع کے مطابق خصوصی اجازت نامے وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے ہیں۔
(ڈان، 22 دسمبر، صفحہ3)
نکتہ نظر
ملک بھر میں مختلف شعبہ جات میں دن بادن بڑھتی ہوئی سامراجی پالیسیوں کے اثرات اور ان سے متاثر ہونے والی آبادیوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے جن میں چھوٹے و بے زمین کسان، مزدور، ماہی گیر بھی شامل ہیں۔ پاکستان بھر میں جہاں صرف ایک فیصد اشرافیہ 26 فیصد زرعی زمین پر قابض ہو، کسانوں کی آدھی سے زیادہ تعداد 2.5 ایکڑ سے بھی کم زمین رکھتی ہو وہاں غیرملکی شاہوں کو کوڑیوں کے مول زمین کی فراہمی، سرمایہ کاروں کے منافع کی خاطر راوی اربن ڈیولپمنٹ جیسے منصوبوں کے زریعے کسان مزدور آبادیوں کو بیدخل اور بے روزگار کرنے کی منصوبہ بندی، صدارتی آرڈننس کے زریعے جزائر پر قبضہ کرکے ماہی گیروں کے روزگار پر ڈاکہ ڈالنے کا عمل ملک میں بھوک اور غربت کو مزید بڑھانے کا سبب ہوگا۔ یاد رہے خود حکومتی اعداد وشمار ملک میں بھوک اور غربت میں تشویشناک اضافے کی خبر دیتے ہیں اور اس کا حل مزید قرض و امداد کی صورت نکالا جارہا ہے۔ جبکہ قرض و امداد کے بدلے ہی یہ عوام دشمن سامراجی پالیسیاں مسلط کی جاتی ہیں۔
ملک میں پیداواری لاگت میں اضافہ، خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور درآمد و برآمد کے زریعے چھوٹے کسانوں کا استحصال سرمایہ دار دوست آزاد تجارتی پالیسیوں کا ہی شاخسانہ ہے جس کی بدولت کسان اپنے روایتی بیجوں سے محروم ہوکر کمپنیوں کے درآمدی بیجوں اور زہریلے مداخل کا محتاج ہوا اور آج اس کا نتیجہ کپاس کی پیداورار میں شدید ترین کمی کی صورت سامنے ہے جس سے ناصرف کسان مزدور بلکہ کپڑے کی صنعت سے وابستہ مزدور بھی بھوک و بیروزگاری سے دوچار ہوئے۔ ایک طرف حکومت عالمی منڈی میں باسمتی چاول کے جغرافیائی حقوق کے لیے مقدمہ دائر کررہی ہے اور دوسری طرف کمپنیوں کے منافع کی خاطر پاکستان کی باسمتی چاول جیسی اہم فصل بھی ہائبرڈ بیجوں کی خطرے سے دوچار کردی گئی ہے۔ یہ آزاد منڈی کا ہی کرشمہ ہے کہ ماحول دوست نباتاتی ایندھن یعنی ایتھنول کی عالمی ضرورت پوری کرنے کے لیے ملک میں پانی کی شدید کمی کے باجود گنے کی پیداورا میں ضرورت سے زیادہ اضافے کیا گیا، مزید ستم یہ کہ اضافی پیداوار کے باوجود ملک بھر کے عوام مہنگی ترین مقامی یا درآمدی چینی خریدنے پر مجبور کردیے گئے، اور تو اور گندم جیسی بنیادی خوراک کی قیمت بھی دگنی ہوچکی ہے۔ یہی نہیں اب کارگل جیسی دیوہیکل غذائی اجناس کا کاروبار کرنے والی کمپنی ملکی منڈی پر بھی اجارہ داری قائم کرنے کے لیے مقامی سرمایہ داروں کے ساتھ اشتراک کررہی ہے۔ درآمدی ٹماٹر،پیاز کی بھاری قیمت صرف عوام نے ہی نہیں چکائی اب چھوٹے کسان فصل منڈی میں لانے کے بعد اس کی گرتی ہوئی قیمت کی وجہ سے نقصان سے دوچار ہیں جن کی فصلیں اس سال شدید بارشوں اور موسمی تبدیلی کی وجہ سے پہلے ہی تباہی کا شکار ہیں۔ آج ملک میں چھوٹے اور بے زمین کسان ان ہی سامراجی پالیسیوں کی بدولت پیداواری لاگت میں اضافے اور کہیں پیداوار میں کمی کا شکار ہیں۔ بے زمینی اور مہنگے کمپنیوں کے زرعی مداخل ہی ان کی غربت و بھوک کی وجہ ہے جس سے نکلنے کے لیے کسانوں کو اپنے بیجوں کو محفوظ کرکے پائیدار زراعت پر منتقل ہونا پڑے گا جو ناصرف خوراک کی خودمختاری بلکہ محفوظ ماحول دوست خوراک کی بھی ضامن ہے۔