مئی 7 تا 13 مئی، 2020
زمین
سندھ ہائی کورٹ سکھر بینچ نے محکمہ جنگلات کو حکم دیا ہے کہ وہ کیٹی ممتاز، کیٹی کھرل، کیٹی فرید آباد، کیٹی جتوئی اور دیگر علاقوں میں غیر قانونی طور پر قبضہ کی گئی جنگلات کی زمین واگزار کروائے۔ عدالت نے یہ حکم کئی اضلاع میں جنگلات کی ہزاروں ایکڑ زمین پر قبضے سے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران جاری کیا۔ گزشتہ سماعت پر عدالت نے قومی احتساب بیورو (نیب) کو 1985 سے اب تک جنگلات کی زمین کی منتقلی (الاٹمنٹ) کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔ نیب کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا ہے کہ اب تک کی تحقیق کے مطابق خیرپور میں 10 اور نوشہروفیروز میں کچے کے علاقے میں واقع ایک قطعہ اراضی جنگلات کی زمین پر کچھ بااثر سیاسی شخصیات کا غیرقانونی قبضہ ہے۔ عدالت نے ڈائریکٹر جنرل سندھ رینجرز کو سرکاری حکام کو زمین واگزار کروانے کے لیے تحفظ فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے۔
(ڈان، 13 مئی، صفحہ15)
زراعت
وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے ٹڈی دل کے خلاف چھڑکاؤ شروع کرنے کے لیے محکمہ زراعت کے منجمد شدہ 132 ملین روپے جاری کرنے کے علاوہ مزید 286 ملین روپے کی منظوری دیدی ہے۔ ٹڈی دل پہلے ہی صوبے میں 166,701 ایکڑ پر کھڑی فصلوں کو متاثر کرچکے ہیں۔ وزیر اعلیٰ کی زیرصدارت مواصلاتی اجلاس میں وزیر زراعت سندھ اسماعیل راہو نے بتایا کہ ٹڈی دل کی پہلی اطلاع جیکب آباد سے 25 اپریل کو موصول ہوئی تھی۔ دیگر متاثرہ اضلاع میں شکارپور، لاڑکانہ، کندھ کوٹ، کشمور، گھوٹکی، سکھر، دادو، جامشورو، حیدرآباد اور کراچی میں ملیر اور گڈاپ شامل ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر بروقت چھڑکاؤ نہ کیا گیا تو حال ہی میں کاشت کی گئی گنا، کپاس اور دیگر فصلیں شدید متاثر ہوسکتی ہیں۔
(ڈان، 10 مئی، صفحہ15)
کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے اثرات کے تناظر میں زرعی شعبہ کے لیے 56 بلین روپے کا امدادی پیکج منظور کرنے کی تیاری کرلی ہے۔ وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق نے کئی ضمنی شعبہ جات میں کورونا کے اثرات کا مقابلہ کرنے میں کسانوں کی مدد کے لیے یہ امدادی پیکچ تیار کیا ہے۔ وزارت نے اقتصادی رابطہ کمیٹی میں اپنی سفارشات جمع کروادی ہیں۔ وزارت نے ڈی اے پی کھاد پر 925 روپے فی بوری اور دیگر کیمیائی کھادوں پر 243 روپے فی بوری زرتلافی دینے کی تجویز دی ہے۔ اس زرتلافی پر 37 بلین روپے لاگت آئے گی۔ یہ زرتلافی کھاد کی بوری میں موجود پرچی (اسکریچ کارڈ اسکیم) کے زریعے تقسیم ہوگی جس پر پنجاب میں پہلے ہی عملدرآمد جاری ہے۔ حکومت اس وقت کھاد بنانے والوں کو گیس پر زرتلافی دیتی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مکمل طور پر کسانوں تک نہیں پہنچتی۔ اس بار حکومت نے براہ راست کسانوں کو پرچی اسکیم کے زریعے زرتلافی فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس وقت زرعی ترقیاتی بینک کی جانب سے دیے جانے والے زرعی قرضوں پر شرح سود 18.4 فیصد ہے جس میں 10 فیصد کمی کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ شرح سود پر دی جانے والی اس زرتلافی کے لیے 8.8 بلین روپے درکار ہونگے۔ اس کے علاوہ سندھ اور پنجاب میں کپاس کے بیج پر 150 روپے فی کلو زرتلافی دینے کی تجویز دی گئی ہے جس کے لیے 2.3 بلین روپے درکار ہونگے۔ اس کے ساتھ ہی سفید مکھی سے بچاؤ کے لیے زرعی زہر (پیسٹی سائیڈ) کے فی تھیلے پر 300 روپے زرتلافی دینے کی تجویز دی گئی ہے جس پر چھ بلین روپے خرچ ہونگے۔ وزارت نے مقامی طور پر تیار ہونے والے ٹریکٹروں پر ایک سال کے لیے پانچ فیصد سیلز ٹیکس میں چھوٹ بطور زرتلافی دینے کی سفارش کی ہے جو 2.5 بلین روپے بنتی ہے۔ زرائع کے مطابق فنانس ڈویژن نے زرعی شعبہ کو زرتلافی فراہم کرنے کی توثیق کی ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 12 مئی، صفحہ11)
گندم
کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے گندم خریداری مہم پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاسکو اور خوراک کے صوبائی محکموں سے اس حوالے سے تفصیلی رپورٹ طلب کی ہے۔ کمیٹی کو آگاہ کیا گیا ہے کہ اب تک پاسکو اور صوبائی محکمہ خوراک 3.96 ملین ٹن گندم خرید چکے ہیں جو مقررہ ہدف کا تقریباً 48 فیصد ہے۔ تاہم کے پی اور بلوچستان میں گندم کی خریداری کا عمل سست ہے۔ مقررہ ہدف حاصل کرنے کے لئے پنجاب کو 4.5 ملین ٹن، سندھ کو 1.4 ملین ٹن، جبکہ خیبر پختونخوا، بلوچستان اور پاسکو کو بالترتیب 0.4، 0.1، 1.8 ملین ٹن گندم کی خریداری کرنی ہوں گی تا کہ مجموعی طور پر 8.25 ملین ٹن گندم کی خریداری کا ہدف حاصل کیا جاسکے۔
(بزنس ریکارڈر، 7 مئی، صفحہ1)
ایک خبر کے مطابق پاکستان اب تک مکمل طور پرآٹا اور گندم کے بحران سے باہر نہیں آیا ہے اور ایسا ہی ایک اور بحران اگلے سال پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ کیونکہ حکومت کی جانب سے رواں موسم میں گندم کی پیداوار اور خریداری کا ہدف مکمل نہ ہونے کا خدشہ ہے۔ اضافی بارشیں اور پنجاب کے کچھ علاقوں میں گندم پر زرد پھپھوندی (یلورسٹ) کا حملہ نقصانات کا سبب ہوسکتا ہے۔ وفاقی زرعی کمیٹی (فیڈرل کمیٹی آن ایگری کلچر نے سال 2020 کے لیے 22.73 ملین ایکڑ پر 27.03 ملین ٹن گندم کی پیداوار کا ہدف مقرر کیا ہے۔ (دی ایکسپریس ٹریبیون، 7 مئی، صفحہ11)
پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن، بلوچستان کے صدر سید صالح آغا نے حکومت بلوچستان پر الزام عائد کیا ہے کہ حکومت کرونا وائرس لاک ڈاؤن کے نام پر گندم کی بین الاضلاع ترسیل پر پابندی عائد کرکے جان بوجھ کر صوبے میں گندم کا بحران پیدا کررہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو اضلاع کے دوران گندم کی نقل و حمل پر عائد دفعہ 144 ختم کرنی چاہیے کیونکہ اس پابندی سے صوبہ بھر میں آٹے کی قیمت بڑھ رہی ہے۔ اس کے علاوہ آٹا ملوں کو گندم خریدنے کی بھی اجات دی جائے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 10 مئی، صفحہ7)
ڈیری
حکومت نے بجٹ میں دودھ کی مصنوعات پر سیلز ٹیکس صفر کرنے کی تجویز پر غور کے لیے ایک کمیٹی قائم کی ہے، کیونکہ گزشتہ حکومت کی ٹیکس پالیسی کی وجہ سے ڈیری کمپنیوں کو پیداواری لاگت بڑھ جانے کی وجہ سے بھاری نقصان ہوا تھا۔ اس کمیٹی کی صدارت سیکریٹری خزانہ کریں گے۔ کمیٹی ڈیری فارموں کے مالیاتی کھاتوں کا جائزہ لے گی اور انہیں گزشتہ حکومت کی جانب سے صفر درجہ ٹیکس کی سہولت واپس لیے جانے کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کا تجزیہ کرے گی۔ وزیراعظم کے مشیر خزانہ حفیظ شیخ نے پاکستان ڈیری ایسوسی ایشن کے ساتھ بزریعہ ویڈیو لنک ملاقات بھی کی ہے۔ ڈیری ایسوسی ایشن کا دعوی ہے کہ اس کی 30 فیصد پیداواری صلاحت استعمال نہیں ہورہی ہے، 2017 سے پہلے کی (صفر درجہ) ٹیکس پالیسی کی بحالی ان کے کاروبار میں اضافے کے لیے معاون ہوگی۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 8 مئی، صفحہ11)
مرغبانی
ایک خبرکے مطابق کراچی میں خوردہ فروشوں نے مرغی کی قیمت میں اضافہ کردیا ہے۔ گزشتہ چند روز میں مرغی کے گوشت کی قیمت 70 سے 80 روپے فی کلو بڑھ کر 350 سے 400 روپے فی کلو ہوگئی ہے۔ حیرت انگیز طور پر مرغی کے گوشت کی سرکاری قیمت 214 روپے فی کلو ہے۔ مرغبانی کے تاجروں کا کہنا ہے کہ مارچ کے آخری ہفتے میں مرغبانی صنعت نے آنے والے دنوں میں قیمت میں اضافے سے متعلق خبردار کیا تھا کیونکہ پولٹری فارمر مرغیوں کی فروخت میں واضح کمی کی وجہ سے چوزوں کی فارمنگ نہیں کررہے تھے۔
(ڈان، 13 مئی، صفحہ14)
پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن (پی پی اے)، شمالی ریجن نے حکومت پنجاب سے مرغبانی شعبہ میں طلب و رسد کو قابو میں رکھنے کے لیے قیمت میں مداخلت کرنے کے بجائے آزاد منڈی کے طریقہ کار کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ پی پی اے شمالی ریجن کے نائب چیئرمین چوہدری فرغام کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت کی زندہ مرغی اور گوشت کی قیمت برقرار رکھنے کے لیے کارروائی سے مرغبانی کی صنعت متاثر ہورہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب منڈی میں پولٹری فارمر اپنا نقصان پورا کرسکتے ہیں لیکن انتظامیہ مرغی کا گوشت فروخت کرنے والوں کو گرفتار کررہی ہے اور انہیں گوشت 260 روپے فی کلو فروخت کرنے پر مجبور کررہی ہے۔ ایسے اقدامات پولٹری فارم بند ہونے کی وجہ بنیں گے جس سے ناصرف مرغی کے گوشت کی قیمت میں بے تحاشہ اضافہ ہوگا بلکہ گائے، بکرے کے گوشت اور دالوں کی قیمت میں بھی اضافہ ہوگا۔
(بزنس ریکارڈر، 13 مئی، صفحہ7)
پانی
وزیر اعظم عمران خان نے ایک اجلاس کے دوران متعلقہ حکام کو ملک میں فوری طور پر ڈیموں کی تعمیر شروع کرنے ہدایت کی ہے۔ اجلاس میں وزیر اعظم کو دیامیر بھاشا ڈیم میں تعطل سے متعلق معلومات سے بھی آگاہ کیا گیا۔ دیامر بھاشا ڈیم منصوبہ کئی وجوہات کی بناء پر ایک دہائی سے تعطل کا شکار ہے۔ 6.4 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کے مجوزہ ڈیم سے ملک میں پانی کی کمی 12 ملین ایکڑ فٹ سے کم ہوکر 6.1 ملین ایکڑ فٹ ہوجائے گی۔
(ڈان، 12 مئی، صفحہ4)
نکتہ نظر
اس ہفتے کی خبروں میں شامل ٹڈی دل کے حملے کی خبریں اور پیشنگوئیاں کورونا کی وبائی صورتحال سے پہلے ہی متاثر زرعی شعبہ اور اس سے جڑے لاکھوں چھوٹے اور بے زمین کسان مزدوروں کے لیے مزید مسائل کا اشارہ دے رہی ہیں، جس سے نمٹنے کے لیے ناقص حکومتی پالیسیوں اور اقدامات کی ایک طویل فہرست ہے۔ دیگر اہم خبروں میں حکومت کی جانب سے زرعی شعبہ کے لیے ”مراعات“ کی فراہمی سے متعلق خبر شامل ہے۔ ہمیشہ کی طرح حکومت سرمایہ داروں جاگیرداروں کو کو تحفظ دینے کے لیے عوامی خزانے کا منہ کھولنے پر تلی ہے۔ زرعی قرضے ہوں یا کھاد و دیگر اشیاء پر دی جانے والی زرتلافی، ہمیشہ اس سے فائدہ اٹھانے کے اہل بڑے بڑے جاگیر دار، سرمایہ دار اور وہ کاروباری طبقہ ہی رہا ہے جو آدھی سے زیادہ زرعی زمین پر قابض ہے اور مداخل کے کاروبار سے وابستہ ہے۔ غرض ان مراعات کا بظاہر مقصد زرعی کمپنیوں چاہے وہ کھاد بنانے والی ہوں، بیج یا زرعی زہر، فائدہ پہنچانا نظر آتاہے۔ اس خدشے کو مزید تقویت بڑی بڑی بین الاقوامی ڈیری کمپنیوں کو ٹیکس سے مستثنی قرار دینے کی بجٹ تجاویز سے بھی ملتی ہے۔ کورونا وائرس کی وبائی صورتحال میں ملک بھر کے چھوٹے اور بے زمین کسان اپنی دودھ کی پیداوار آدھی قیمت پر فروخت کرنے پر مجبور ہوئے جن کے لیے حکومت کی جانب سے مراعات کا اعلان کرنا تو دور انہیں منڈی میں اپنی پیداوار فروخت کرنے سے روکنے کے لیے فوڈ اتھارٹیاں سرگرم رہتی ہیں۔ نیولبرل پالیسی کے تحت سرمایہ دار کمپنیوں اور ان کے مقامی پالیسی ساز ایجنٹوں کے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے خوراک کی پیداوار سے لے کر اس کی ترسیل و فروخت کو آزاد منڈی کے اصولوں کے مطابق ڈھالنے کا نتیجہ گزشتہ دنوں گندم اور آٹے جیسی بنیادی خوراک کی قیمت میں بے تحاشہ اضافے کی صورت دیکھا گیا۔ ملک میں بے زمینی، بھوک و غربت اور استحصال کی موجودہ صورتحال ناصرف اس جاگیر دار، سرمایہ دار نظام پیداوار و معیشت بلکہ اس کو تحفظ دینے والے پالیسی سازوں سے بھی فوری چھٹکارا حاصل کرنے کا تقاضہ کرتی ہے، جس کے لیے لازم ہے کہ چھوٹے اور بے زمین کسان مزدورں سمیت تمام تر استحصال کے شکار طبقات متحد ہوکر اس نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔
اپریل 30 تا 6 مئی، 2020
زمین
ندھ ہائی کورٹ نے میرپور خاص میں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو ٹاؤن منصوبے کے لیے حاصل کی گئی زمین سندھ ہارٹی کلچر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، میرپورخاص کو واپس کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ سندھ ہائی کورٹ حیدرآباد بینچ نے حکومت کو اس فیصلے پر عملدرآمد کے لیے دو ہفتے کا وقت دیا ہے۔ سال 2010-11 میں صدر آصف علی زرداری نے کم قیمت رہائشی منصوبے کی تعمیر کے لیے سندھ حکومت کو زمین کی تلاش کا حکم دیا تھا۔ سرکاری حکام نے سندھ ہارٹی کلچر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی 282 ایکڑ زمین میں سے 78.13 ایکڑ زمین کی اس رہائشی منصوبے کے لیے نشاندہی کی تھی۔ تاہم اس فیصلے کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 1 مئی، صفحہ5)
زراعت
سندھ کے کئی اضلاع بشمول سکھر، دادو، جیکب آباد، کندھ کوٹ، کشمور، شکارپور میں کھڑی فصلوں اور سبزے پر ٹڈی دل حملے سے تشویشناک صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ جیکب آباد کے کسانوں اور دیگر شہریوں کا کہنا ہے کہ مضافاتی علاقوں میں انہوں نے بڑی تعداد میں ٹڈی دلوں کے جھنڈ آسمان پر دیکھے ہیں۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ ہزاروں ایکڑ زمین پر کٹائی کے بعد جانوروں کا چارہ اور گھاس ذخیرہ کی گئی ہے۔ یہ ذخیرہ مویشیوں کے لیے زندگی کی حیثیت رکھتا ہے جسے ٹڈی دل برباد کررہے ہیں۔ بطور روزگار مویشی پالنے والے ہاری کسان اس صورتحال سے شدید پریشان ہیں۔
(ڈان، 1 مئی، صفحہ15)
وفاقی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے وزیر زراعت سندھ اسماعیل راہو نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے ٹڈی دل کے حملوں سے بچاؤ کے لیے صوبوں کو تنہا چھوڑ دیا ہے۔ یہ صورتحال عالمی وباء کے دوران شدید خوراک کے بحران کی وجہ بن سکتی ہے۔ وفاقی حکومت نے اب تک فضائی چھڑکاؤ کے لیے ہوائی جہاز فراہم نہیں کیے ہیں۔ فضائی چھڑکاؤ میں تاخیر نے صوبے کے کئی علاقوں میں صورتحال کو سنگین بنادیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بڑے پیمانے پر ٹڈی دل بلوچستان سے سندھ میں داخل ہوگئے ہیں۔ ٹڈی دل کا حملہ کورونا وباء سے زیادہ تباہ کن ہوگا اور پاکستان کو قحط اور شدید خوراک کی کمی کا سامنا ہوگا۔
(ڈان، 2 مئی، صفحہ14)
عالمی ادارہ خوراک وزراعت (فاؤ) نے یو ایس ایڈ کے تعاون سے خیبر پختون خواہ کے سابقہ قبائلی علاقوں میں ٹنل فارمنگ متعارف کروائی ہے۔ فاؤ کا کہنا ہے کہ ٹنل فارمنگ سے اس خطے میں زرعی پیداوار بڑھانے میں مدد ملے گی۔ فاؤ کے مطابق خیبر، جنوبی وزیرستان، شمالی وزیرستان اور اورکزئی اضلاع میں 75 ٹنل نصب کی جاچکی ہیں۔ کسانوں کو ٹنل کا ڈھانچہ اور اعلی معیار کے سزیوں کے مصدقہ بیج فراہم کیے گئے تھے جن سے تیار ہونے والی فصلیں کٹائی کے لیے تیار ہیں۔
(ڈان، 2 مئی، صفحہ8)
اقوام متحدہ کا ادارہ خوراک و زراعت (فاؤ) نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ (ڈیزرٹ لوکسٹ سچوئشن ان پاکستان) میں ٹڈی دل حملوں کی وجہ سے پاکستان سمیت خطے کے کئی ممالک میں خوراک کے ممکنہ شدید بحران سے خبردار کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کا 38 فیصد علاقہ (بلوچستان 60 فیصد، سندھ 25 فیصد، پنجاب 15فیصد) ٹڈی دل کی افزائش گاہ بنا ہوا ہے۔ اگر ٹڈی دل کو ان کے افزائشی مقام تک محدود نہ کیا گیا تو پورے ملک پر ان کے حملوں کا خطرہ ہے۔
(ڈان، 3 مئی، صفحہ3)
حکومت پنجاب نے عالمی بینک کے پنجاب میں زراعت اور دیہات میں اصلاحات پروگرام کے تحت گندم کی منڈی میں اصلاحات کے منصوبے کو ازسرنو تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ 300 ملین ڈالر کے اس اسٹرینتھنگ مارکیٹ فار ایگری کلچر اینڈ رورل ٹرانسفورمیشن (اسمارٹ پروگرام) پر فروری 2018 میں عملدرآمد شروع ہوا تھا جس پر مجموعی طور پر پیشرفت منصوبے کے مطابق جاری ہے۔ تاہم گندم کی منڈی میں اصلاحات کے حوالے سے اصل منصوبے کے مطابق عملدرآمد نہیں ہوا۔ اسمارٹ منصوبے کے تحت حکومت کو گندم اور آٹے کی قیمت کم کرنے کے لیے گندم کی منڈی پر سرکاری اختیار ختم (ڈی ریگولیٹ) کرنا تھا۔ ابتدائی منصوبے کے تحت پنجاب حکومت کو گندم کی سرکاری خریداری کو 2019 تک کم کرکے تین ملین ٹن، 2020 تک دو ملین ٹن اور 2021 تک گندم کی سرکاری خریداری کو صفر کرنا تھا۔
(ڈان، 3 مئی، صفحہ9)
گندم
وزیر اعلی بلوچستان جام کمال خان کی صدارت میں بلوچستان میں غذائی تحفظ اور گندم کی خریداری کے حوالے سے ہونے والے اجلاس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بلوچستان حکومت نصیرآباد ڈویژن میں گندم کی سرکاری خریداری کا آغاز نہیں کرسکتی۔ سیکریٹری خوراک نور محمد نے اجلاس میں بتایا کہ قومی احتساب بیورو نے کاشتکاروں پر یہ شرط عائد کی ہے کہ انہیں گندم فروخت کرنے سے پہلے زمین کے ملکیتی دستاویزات پیش کرنے ہونگے۔ سیکریٹری خوراک کا مزید کہنا تھا کہ اگر نیب نے یہ شرط واپس نہ لی تو نصیرآباد ڈویژن میں گندم کی سرکاری خریداری ناممکن ہوگی۔ اجلاس میں سیکریٹری کو ہدایت کی گئی ہے کہ نیب سے رابطہ کرکے گندم کی خریداری کے حوالے سے جاری کردہ اعلامیے میں ضروری ترمیم کی جائے۔
(ڈان، 2 مئی، صفحہ5)
وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کی جانب سے وزراء اعلی سندھ و پنجاب کو لکھے گئے خط میں وفاقی حکومت نے دونوں صوبوں میں گندم کی خریداری میں سست روی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ خط میں خبردار کیا گیا ہے کہ نجی شعبہ کو گندم کی خریداری سے روکنے جیسے سخت اقدامات طلب و رسد میں فرق اور قیمت میں اضافے کی وجہ بن سکتے ہیں۔ خط میں مزید کہا گیا ہے کہ بیج کمپنیوں کو گندم کی خریداری سے روکنا اگلے موسم میں بحران کی وجہ بن سکتا ہے۔ ایسی شکایات ہیں کہ بیج کمپنیوں کو اگلے سال کے لیے بطور بیج گندم کی خریداری سے روکا جارہا ہے اور آٹا ملوں کو بھی گندم کی خریداری سے روکا جارہا ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 4 مئی، صفحہ3)
وزیر خوراک پنجاب عبدالعلیم خان نے کہا ہے کہ حکومت نے خفیہ ایجنسی کی مدد سے گندم کی غیرقانونی ترسیل کی کئی کوششوں کو ناکام بنایا ہے اور اب نیشنل ہائی وے اینڈ موٹروے پولیس کے تعاون کی ضرورت ہے۔ گندم کی خریداری کا 45 فیصد ہدف حاصل ہوگیا ہے اور گندم کی سرکاری خریداری کی مہم عروج پر ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جنوبی پنجاب میں گندم کی پیداوار اور اس کی سرکاری خریداری ہدف سے زیادہ ہوگی۔ صوبہ پنجاب گندم خریدے گا اور اسے دوسرے صوبوں خصوصاً کے پی کو فراہم کرے گا۔
(ڈان، 5 مئی، صفحہ2)
چاول
رائس ایکسپورٹ ایسوسی ایشن آف پاکستان (ریپ) نے کابینہ کی جانب سے خوردنی اشیاء کی بر آمد پر پابندی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ اس فیصلے کو فوری واپس لیا جائے کیونکہ اس فیصلے سے معیشت بری طرح متاثر ہوگی۔ ریپ کا کہنا ہے کہ ”غذائی اشیاء کی برآمد پر پابندی غیرعقلی، غیرمنطقی اور کاروبار دشمن فیصلہ ہے“۔ اس فیصلے سے چاول کی برآمد بری طرح متاثر ہوگی جس سے ملک کو سالانہ 2.2 بلین ڈالر کا زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 30 اپریل، صفحہ11)
مرغبانی
وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق نے ملک میں ابھرتے ہوئے مرغبانی کے شعبہ کو مراعات فراہم کرنے کی تجویز دی ہے جو دیگر شعبہ جات کی طرح کورونا وائرس کی وباء سے متاثر ہورہا ہے۔ وزارت کی جانب سے تیار کی گئی دستاویزات میں اقتصادی رابطہ کمیٹی کو بینکوں کی اقساط میں تاخیر کرنے اور مرغبانی شعبہ کی جانب سے لیے گئے قرض پر ایک سال کے لیے سود کو موخر کرنے پر زور دیا ہے جس کے لیے تقریباً 4.7 بلین روپے درکار ہونگے۔ یہ تجویز حکومت کی جانب سے کورونا وائرس کے تناظر میں ملکی معیشت کے لیے 1.2 ٹریلین روپے کے امدادی پیکج کے اعلان کے بعد تیار کی گئی ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 3 مئی، صفحہ18)
نکتہ نظر
اس ہفتے کی خبریں قومی غذائی تحفظ کے حوالے سے انتہائی تشویشناک صورتحال کی پیشنگوئی کررہی ہیں۔ سندھ کے بالائی اضلاع میں ٹڈی دل کے جھنڈ نمودار ہونا شروع ہوگئے ہیں، گو کہ سندھ میں گندم کی کٹائی تقریباً پوری ہوچکی ہے لیکن کٹائی کے بعد بڑی مقدار میں حاصل ہونے والا بھوسہ اور گھاس اکثر زمینوں پر ہی ذخیرہ کردی جاتی ہے جسے اطلاعات کے مطابق جیکب آباد اور اس سے ملحقہ دیگر اضلاع میں ٹڈی دل برباد کررہے ہیں۔ دیہی معیشت میں مویشیوں کا چارہ چھوٹے اور بے زمین مویشی پالنے والے کسانوں کے لیے زندگی کی حیثیت رکھتا ہے۔ مویشیوں سے حاصل ہونے والی پیداوار اس طبقہ کے لیے خوراک اور دیگر ضروریات پوری کرنے کے لیے لازمی جز ہے۔ کورونا وائرس کی وبائی صورتحال میں یہ طبقہ پہلے ہی کھیت مزدوری سے محرومی، دودھ اور سبزیوں جیسی پیداواری اشیاء کی قیمت میں کمی جیسے مسائل سے دوچار ہیں، ان حالات میں ٹڈی دل کا حملہ چھوٹے اور بے زمین کسان مزدوروں میں مزید بھوک و غربت کا سبب بن سکتا ہے۔ اس معاملے پر وفاقی حکومت کی مجرمانہ غفلت ظاہر کرتی ہے کہ اسے سرمایہ داروں کا مفاد عزیز ہے ناکہ چھوٹے اور بے زمین کسان مزدوروں کا۔ مرغبانی شعبہ ہو یا تعمیرات کا، حکومتی مشینری فوری حرکت میں آتی ہے اور تجاویز اقتصادی رابطہ کمیٹی تک پہنچ جاتی ہیں کیونکہ ملکی پالیسی سازی پر بھی وہی جاگیردار سرمایہ دار طبقہ اشرافیہ ہی قابض ہے جو کہیں مرغبانی کی صنعت تو کہیں چاول و چینی کی برآمدی صنعت سے بلواسطہ یا بلاواسطہ جڑا ہے۔ منافع کی بھوک میں، وبائی حالات میں بھی یہ طبقہ اشرافیہ عالمی سامراجی پالیسیوں کا دفاع کرتے ہوئے چاول جیسی غذائی اشیاء برآمد کرنے پر تلا ہے۔ جبکہ ملک میں ٹڈی دل کے ممکنہ اثرات اور موجودہ عالمی وبائی صورتحال میں صرف اور صرف خوراک کی خودمختاری اور خودانحصاری ہی قوم کو ان وباؤں سے بچاسکتی ہے۔ سرمایہ دارانہ عالمی سماج نے سابقہ فاٹا کے علاقوں میں پہلے اپنے مفادات اور منافع کی ہوس میں جنگ و جدل کے بیج بوکرعوام کو علاقائی خودمختاری اور وسائل سے محروم کیا اور اب یہی سامراجی ادارے وہاں اپنی سرمایہ دار کمپنیوں کے بیج اور ٹیکنالوجی کو فروغ دے کر انہیں مزید بھوک اور محتاجی میں دھکیلنے کے لیے کود پڑے ہیں۔ یہ تمام تر حالات ملک کے ہر کونے میں ظلم و استحصال کے شکار چھوٹے اور بے زمین کسان مزدور عوام کو واضح پیغام دے رہے ہیں کہ وہ صرف متحد ہوکر جدوجہد کے زریعے ہی منافع کی ہوس میں مبتلا طبقہ اشرافیہ اور اس سرمایہ دارانہ نظام سے چھٹکارہ حاصل کرسکتے ہیں۔