ستمبر 26 تا 2 اکتوبر، 2019
زراعت
تعلقہ چھاچھرو، ضلع تھرپارکر، سندھ کے کچھ علاقوں میں کاشتکاروں نے ٹڈیوں کے دوبارہ ظاہر ہونے کی اطلاع دی ہے جنہوں نے کھیتوں، جھاڑیوں اور درختوں کی ہری پتیوں اور ڈنڈیوں کو کھانا شروع کردیا ہے۔ مقامی افراد نے زرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے متعلقہ حکام سے متاثرہ علاقوں میں ٹیم بھیج کر اسپرے کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ وزیر زراعت سندھ اسماعیل راہو کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ انھوں نے تھر پارکر کی ضلعی انتظامیہ کو پہلے ہی ہدایت کردی ہے کہ وہ اسپرے کرنے کے لئے تیزی سے کام کریں تاکہ پودوں کو ہونے والے نقصان سے بچایا جاسکے۔
(ڈان، 27 ستمبر، صفحہ17)
وزیر زرعت سندھ اسماعیل راہو نے کہا ہے کہ مسلسل بارشوں کی وجہ سے انھیں تھر میں ٹڈی دل کے خاتمے میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ تاہم وہ تھرپارکر اور صوبہ کے دیگر حصوں میں ٹڈی دل کے خاتمے کے لیے بھرپور کوشش کررہے ہیں۔ اب تک 24,000 ایکڑ سے زیادہ رقبے پر اسپرے کیا جاچکا ہے اور جب تک ٹڈی دل کے بڑھنے کا خطرہ موجود ہے اسپرے جاری رہے گا۔
(ڈان، 28 ستمبر، صفحہ17)
پانی
دریائے سندھ کے پانی کی ترسیل پر سندھ اور پنجاب کے درمیان طویل عرصے سے اختلافات موجود ہیں۔ اس معاملے کی مشترکہ جانچ کرنے والے ارسا اور واپڈا نے اپنی جانچ مکمل کرکے رپورٹ وزارت پانی و بجلی کو بھیج دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس دعوے کو کہ ”سندھ کو اس کے حصہ سے کم پانی مل رہا ہے“ استحکام دینے کے لیے محکمہ آبپاشی سندھ جان بوجھ کر اعدادوشمار میں ردوبدل کررہا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی ظاہر کیا گیا کہ سندھ کے آبپاشی حکام نے ارسا اور واپڈا کے تحقیق کاروں کے ساتھ تعاون نہیں کیا۔ مزید یہ کہ سندھ کے حکام نے ارسا اور واپڈا کی جانب سے مقرر کردہ پانی کی پیمائش کے قوائد و ضوابط عادتاً نظر انداز کیے ہیں۔ یہ تحقیقاتی ٹیم محکمہ آبپاشی پنجاب کی جانب سے وزارت پانی و بجلی کو لکھے گئے ایک خط کے بعد قائم کی گئی تھی جس میں سندھ کے حکام کی جانب سے پانی کے بہاؤ کے غلط اعدادوشمار پیش کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 1 اکتوبر، صفحہ6)
موسمی تبدیلی
زرعی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس صدی کے آخر تک پاکستان کا سالانہ اوسط درجہ حرارت 1.5 سے دو ڈگری سیٹی گریڈ کے درمیان بڑھ جائیگا۔ سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے موسمی تبدیلی کو مختصر جائزہ پیش کرتے ہوئے سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ 2040 سے 2060 کے درمیان پنجاب میں چاولوں کی کاشت کے میدانی علاقوں میں درجہ حرارت میں 2.8 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوگا جس کے بعد مون سون بارشوں میں 25 فیصد اور موسم سرما کی بارشوں میں 12 فیصد کمی واقع ہوگی۔ نتیجتاً گندم کی پیداوارمیں چھ سے 10 فیصد جبکہ چاولوں کی پیداوار 15.2 سے 17.2 فیصد کم ہوگی۔ زرعی سائنسدانوں نے تجویز دی ہے کہ موسمی تبدیلی کے منفی اثرات سے سے بچنے کے لیے چاول اور گندم کی کاشت میں بلترتیب 15 اور 25 فیصد نائیٹروجن کی مقدار شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ دونوں فصلوں کو دیے جانے والے پانی میں نائٹروجن کے ہی تناسب سے کمی بھی ہونی چاہیے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 30 ستمبر، صفحہ3)
کپاس
آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) نے حکومت پر زور دیا ہے کہ خام کپاس کی درآمد پر تین فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی، دو فیصد اضافی کسٹم ڈیوٹی اور پانچ فیصد سیلز ٹیکس ختم کیا جائے۔ چیئرمین اپٹما ڈاکٹر امان للہ قاسم کا کہنا ہے کہ اضافی پیدواری لاگت کے باعث کپڑے کی صنعت اپنے برآمدی اہدف پورے کرنے کے قابل نہیں ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کے حالیہ اعدادو شمار کے مطابق اس سال کپاس کی پیداوار کم ہوگی جبکہ مقامی منڈی میں کپاس کی قیمت پہلے ہی درآمدی کپاس سے زیادہ ہے، اگر یہی رجحان جاری رہا تو کپڑے کی صنعت منڈی میں مقابلہ نہیں کرسکے گی جس سے براہ راست ملکی برآمدات متاثر ہونگی۔
(ڈان، 28 ستمبر، صفحہ10)
ماہی گیری
بلوچستان میں جیوانی اور اس سے ملحقہ علاقے کے ماہی گیروں نے جیوانی میں ماہی گیری محکمے کے دفتر کے باہر بڑے تجارتی ماہی گیر جہازوں (ٹرالروں) کے ذریعے سمندر میں غیر قانونی مچھلیوں کے شکار کے خلاف دھرنا دیا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ ماہی گیری محکمے نے دوسرے صوبے کے ماہی گیروں کو شکار کے لیے غیرقانونی طور پر کارڈ فراہم کیے ہیں جو کہ مقامی ماہی گیروں کا روزگار ختم کرنے کے مترادف ہے۔ مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے جیوانی فشرمین یونین کے صدر غلام نبی اور دیگر مظاہرین کا کہنا تھا کہ ٹرالروں کا غیرقانی شکار جیوانی کے ساحلوں پر بڑھ گیا ہے جو مقامی ماہی گیروں کو ان کے روزگار سے محروم کررہا ہے۔ جبکہ دوسرے صوبے کے ماہی گیروں کی آمد مقامی ماہی گیروں کے مسائل میں مزید اضافے کا سب بن رہی ہے۔ ماہی گیروں نے خبردار کیا ہے کہ اگر ان کے مطالبات پورے نہیں کیے گئے اور ٹرالروں کے غیرقانونی شکار کو نہ روکا گیا تو وہ اپنے احتجاج کا دائرہ بڑھا دینگے۔
(ڈان، 1اکتوبر، صفحہ5)
خوراک
ادارہ شماریات پاکستان کے مطابق رواں مالی سال کے ابتدائی دو ماہ میں چاول کی برآمد پچھلے سال کے مقابلے 48.64 فیصد بڑھی ہے۔ جولائی تا اگست 2019 کے دوران 322.836 ملین ڈالر مالیت کا 590,053 ٹن چاول ملک سے برآمد کیا گیا۔ اس عرصے کے دوران اعداد وشمار کے مطابق 36 ملین ڈالر مالیت کی 16,652 ٹن مچھلی اور اس سے تیار شدہ اشیاء برآمد کی گئیں۔ خوراک کی برآمد میں ان دوماہ 14.27 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔
(دی نیوز، 29 ستمبر، صفحہ18)
غربت
بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن (بی اینڈ ایم جی ایف) نے پاکستان کے ساتھ غربت کے خاتمے کے منصوبے ”احساس“ کے لئے مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط کیے ہیں۔ بی اینڈ ایم جی ایف نشونما میں کمی کے نتیجے میں بچوں میں ہونے والی قد میں کمی (اسٹنٹنگ) کے مرض کو کم کرنے کے منصوبے، مالی شمولیاتی (فنانشل انکلوژن) اقدمات میں مدد، نومولود، عورتوں اور بچوں میں اموات میں کمی کے لئے عوامی طبی سہولیات کے نظام میں سرمایہ کاری سمیت مختلف سرگرمیوں میں حکومت پاکستان کی مدد کرے گی۔ بی اینڈ ایم جی ایف نے 2020 میں پاکستان میں 200 ملین ڈالر خرچ کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے۔
(ڈان، 27 ستمبر، صفحہ5)
نکتہ نظر
اس ہفتے کی خبروں میں شامل موسمی تبدیلی کے حوالے سے خبر زراعت اور اس سے وابستہ چھوٹے اور بے زمین کسان مزدورں کے لیے یقینا تشویشناک ہے جو اپنی غذائی ضرورت پوری کرنے کے لیے زراعت کرتے ہیں اور موسم کی شدت یا اس میں ہونے والی تبدیلیوں سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔ گو کہ دنیا بھر میں موسمی تبدیلی کے ذمہ دار کرداروں یعنی سرمایہ دار کمپنیوں اور صنعتی ممالک کا تعین ہوچکا ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک اس کے اثرات سے بری طرح متاثرہونے کے باوجود ناصرف ان سرمایہ دار ممالک اور کمپنیوں کے غیرپائیدار طریقہ پیداوار پر قائم ہیں بلکہ ان مسائل کا حل بھی غیرپائیدار زرائع سے ان ہی سے خرید بھی رہے ہیں۔ موسمی تبدیلی سے مطابقت رکھنے والے بیج اور دیگر مداخل اس کی ایک سادہ مثال ہے، نام نہاد جدید ٹیکنالوجی کی یہ تجارت کمپنیوں کو تو منافع سے مالا مال کررہی ہے لیکن چھوٹے کسان پیداواری لاگت میں اضافے کی وجہ سے آمدنی سے محروم ہورہے ہیں اور کہیں بے موسم بارشوں، ژالہ باری اور گرمی کی لہر کے نتیجے میں نقصان اٹھارہے ہیں۔ حال ہی میں گندم کی تیار فصل ایسے ہی موسمی بحران سے دوچار ہوئی جس سے پنجاب کے کئی اضلاع میں کسان اپنی تیار فصل سے محروم ہوگئے۔ اس موسمی آفت کا نتیجہ گندم کی پیداوار میں تقریباً پانچ لاکھ ٹن کمی کا سبب بنا جس کا خمیازہ پوری قوم نے آٹے کی قیمت میں تقریباً پانچ روپے فی کلو اضافے کی صورت ادا کیا۔ زرعی سائنسدانوں کے گندم اور چاول کی پیداوار میں واضح کمی کے خدشات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ملک میں خوراک کی قیمت بڑھنے سے بھوک، غذائی کمی کی صورتحال کس حد تک تشویشناک ہوسکتی ہے۔ ملک بھر کے چھوٹے کسانوں کے لیے لازم ہے کہ وہ غیرپائیدار زہریلی زراعت کو ترک کرکے اپنے روایتی دیسی بیجوں کی بنیاد پر زراعت کریں جو ناصرف انہیں کمپنیوں کی محتاجی اور بلند پیداواری لاگت سے تحفظ دیگی بلکہ ماحولیاتی توازن برقرار رکھنے میں بھی مددگار ہوگی۔
ستمبر 19 تا 25 ستمبر، 2019
زراعت
ایگری فورم پاکستان کے سربراہ محمد ابراہیم مغل نے حکومت سے مختلف فصلوں کی کم سے کم امدادی قیمت پر نظر ثانی کرنے اور نئی قیمت زرعی مداخل کی قیمتوں میں اضافے کے تناظر میں مقرر کرنے پر زور دیا ہے۔ انہوں نے دعوی کیا کہ ڈالر کے مقابلہ میں روپے کی قدر میں کمی کے بعد کیمیائی کھاد، کیڑمار زہر، ڈیزل وغیرہ کی قیمتوں میں کمپنیوں نے 30 سے 60 فیصد اضافہ کردیا ہے۔ اس صورتحال میں فصلوں کی پیداواری لاگت کا دوبارہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ گندم کی امدادی قیمت 1,500 روپے فی من، کپاس (پھٹی) 5,000 روپے فی من، گنا 350 روپے فی من، موٹا چاول 1,600 روپے فی من، باسمتی چاول 3,200 روپے فی من، مکئی 1,450 روپے فی من، سورج مکھی 4,000 روپے فی من اور کنولا کی امدادی قیمت 4,200 روپے فی من مقرر ہونا چاہیے۔ ابراہیم مغل نے مزید کہا کہ اگر حکومت نے زرعی پیداوار کی قیمت میں اضافہ نہیں کیا تو دالیں، خردنی تیل، پھل و سبزی کا درآمدی بل جو اس وقت 600 بلین روپے سالانہ ہے 1,000 بلین روپے سالانہ تک پہنچ سکتا ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 19 ستمبر، صفحہ5)
کپاس
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ سال کے مقابلہ ملک میں کپاس کی پیداوار میں 0.66 ملین گانٹھوں 26.41) فیصد(کی کمی کا سامنا ہے۔ کپاس کے ماہرین اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ ایک تشویشناک صورتحال ہے جس کا ملکی مجموعی قومی پیداوار اور زرمبادلہ کے ذخائر پر براہ راست اثر پڑے گا کیونکہ مقامی طلب پوری کرنے کے لیے تین سے چار ملین گانٹھیں کپاس درآمد کرنا پڑے گی۔ چیئرمین پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن (پی سی جی اے) میاں محمود احمد کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے کپاس کے کاشتکاروں کو وعدے کے مطابق مراعات نہیں دی گئیں۔ حکومت نے کسانوں کو ترغیب دینے کے لئے پھٹی کی اشارتی قیمت 4,000 روپے فی من مقرر کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن حکومت اس پر عمل کرنے میں ناکام رہی۔ اس ہی طرح سے کئی اعلی سطح اجلاسوں میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ کپاس کی قیمت میں استحکام برقرار رکھنے کے لئے ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان 0.5 ملین گانٹھیں کپاس کی خریداری کرے گی، لیکن حکومت اپنے اس فیصلہ سے بھی پیچھے ہٹ گئی۔
(ڈان، 19 ستمبر، صفحہ10)
گنا
سندھ ہائی کورٹ نے گنا کمشنر کو ہدایت کی ہے کہ گنے کے کاشتکاروں واجبات کی ادائیگی کے لئے عدالت کی قائم کردہ سات رکنی کمیٹی کا اجلاس 10 دنوں میں منعقد کیا جائے۔ دو رکنی بنچ کے سامنے گنا کمشنر نے رپورٹ جمع کراتے ہوئے کہا ہے کہ کسانوں کے زیادہ تر واجبات کے دعوے نمٹائے جاچکے ہیں۔ تاہم سماعت کے دوران عدالت میں موجود کچھ کاشتکاروں کا کہنا تھاکہ ان کے واجبات اب تک ادا نہیں کئے گئے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انصاری شوگرمل، باوانی شوگرمل، چمبڑ شوگرمل، کھوسکی شوگرمل، لاڑ شوگرمل، نیو دادو شوگرمل اور ٹنڈو الہ یار شوگرمل کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم پر ان کے بینک کھاتے منجمد کردیئے گئے ہیں۔ لہذا وہ واجبات کی ادائیگی کے قابل نہیں ہیں۔ ان آٹھ شوگر ملوں کے خلاف 580 ملین روپے واجبات کی 588 درخواستیں زیر التواء ہیں۔
(ڈان، 19 ستمبر، صفحہ17)
کھاد
حکومت کی جانب سے گیس انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس (جی آئی ڈی سی) آرڈننس 2019 واپس لیے جانے کی وجہ سے کھاد کمپنیوں نے حال ہی میں کیا گیا 200 روپے فی بوری یوریا کی قیمت میں اضافہ واپس لینے سے انکار کردیا ہے۔ دونوں فریقین کے اپنے مؤقف پر ڈٹے رہنے کی وجہ سے وزیر اعظم کے مشیر برائے تجارت، ٹیکسٹائل، صنعت و پیداوار عبدالزاق داؤد اور کھاد کمپنیوں کے نمائندگان کے مابین بات چیت بے نتیجہ ختم ہوگئی ہے۔ حکومت کی طرف سے آرڈیننس واپس لینے کے بعد کھاد کی مقامی صنعت نے یوریا کی قیمت میں فی بوری 200 روپے اضافہ کرکے قیمت 2,210 روپے کردی تھی۔
(بزنس ریکارڈر، 19 ستمبر، صفحہ20)
آم
پاکستان نے پانچ سال بعد آم کا برآمدی ہدف حاصل کیا ہے اور اس سال ریکارڈ 115,000 ٹن آم برآمد کیا ہے۔ برآمد کنندگان کے مطابق عالمی منڈی میں آم کی بہتر قیمت حاصل کرنے میں کامیابی ملی ہے جس کے نتیجے میں برآمدات سے 80 ملین ڈالر کا زرمبادلہ حاصل ہوا۔ سابق چیئرمین آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجی ٹیبل ایکسپورٹرز، امپورٹرز اینڈ مرچنٹز ایسوسی ایشن وحید احمد کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال آم کی پیداوار 1.3 ملین ٹن تھی جبکہ اس کی برآمد 85,000 ٹن تھی۔ اس سال 1.5 ملین ٹن آم کی پیداوار ہوئی۔
(بزنس ریکارڈر، 20 ستمبر، صفحہ7)
سورج مکھی
وزیر زراعت سندھ اسماعیل راہو نے سندھ اسمبلی کو بتایا ہے کہ پانی کی قلت اور امدادی قیمت کم ہونے کی وجہ سے صوبے میں سورج مکھی کے زیر کاشت رقبے میں مسلسل کمی ہورہی ہے۔ سورج مکھی کے بیج سے تیل نکالنے والے کارخانے بھی پیداوار کے ناقص معیار کی شکایت کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ کسان بھی اب سورج مکھی کے بجائے گندم کی کاشت کا انتخاب کررہے ہیں جس کی امدادی قیمت بھی زیادہ ہے۔ سورج مکھی کی (خراب) پیداوار کے پیچھے سب سے بڑی وجہ غیر معیاری ہائبرڈ بیج ہے جسے وفاق نے درآمد کیا تھا۔
(بزنس ریکارڈر، 25 ستمبر، صفحہ3)
کارپوریٹ
ایک خبر کے مطابق فوجی فرٹیلائزر کمپنی ملک میں غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے کام کررہی ہے جس سے اس وقت 80 ملین سے زیادہ افراد متاثر ہورہے ہیں۔ فوجی فرٹیلائزر اپنی غیرمنافع بخش تنظیم ”سونا ویلفیئر فاؤنڈیشن“ کے ذریعے پاکستان بھر میں مقامی کسانوں کو مختلف پروگراموں کے ذریعے پائیدار، موسمی تبدیلی سے مطابقت رکھنے والی زراعت کے لیے مدد فراہم کررہی ہے۔ بین الاقوامی بیج کمپنی سنجنٹانے اس حوالے سے شراکت کے لیے سونا ویلفیئر فاؤنڈیشن کے ساتھ مفاہمت کی ایک یاداشت پر دستخط کیے ہیں۔ دونوں کمپنیاں اس مشترکہ پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے کسانوں کی صلاحیت میں اضافے (کپیسٹی بلڈنگ) اور انہیں بااختیار بنانے کے لیے تعاون کریں گی۔
(بزنس ریکارڈر، 22ستمبر، صفحہ11)
نکتہ نظر
ملک میں زرعی پیداواری لاگت میں کیمیائی مداخل کے استعمال کی وجہ سے ہونے والے اضافے، غیر پائیدار طریقوں اور جینیاتی بیج کی وجہ سے کپاس کی پیداوار میں کمی کے ذمہ دار، اس کے ساتھ ساتھ زہریلی کاشت کو فروغ دینے والے ماحولیاتی تباہی کے ذمہ دار ادارے، بیج اور کھاد کمپنیاں ہی اب ملک میں نام نہاد ”پائیدار“ اور موسمی تبدیلی سے مطابقت رکھنے والی زراعت کو چھوٹے کسانوں میں فروغ دینے کے لیے مفاہمت اور اشتراک کررہے ہیں۔ کسانوں کو بیج سے محروم کرکے منافع کمانے والی بین الاقوامی بیج کمپنیاں ہی ملک میں بھوک، غذائی کمی اور غذائی عدم تحفظ کی ذمہ دار ہیں جن کے حکومتی سرپرستی میں جاری پائیدار زراعت اور موسمی تبدیلی سے مطابقت کے منصوبے چھوٹے اور بے زمین کسانوں کو ان کے آبائی روزگار سے ہی محروم کررہے ہیں کیونکہ یہ تمام تر جدید زراعت مہنگے مداخل اور زرعی مشینری کی محتاج ہے، جس پر صرف جاگیرداروں اور سرمایہ دار ہی سرمایہ کاری کرتے ہیں اور پیداوار کو برآمد، اس کی قدر میں اضافے کے ذریعے مزید منافع کمانے کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ کمپنیوں کے اس فریب کی خود سندھ حکومت گواہی دے رہی ہے کہ وفاق کی جانب سے خریدا گیا ہائبرڈ سورج مکھی کا بیج ناقص ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے پیداوار میں اضافے کے نام پر نیولبرل پالیسیوں کے تحت ملکی زرعی پیداوار کو کمپنیوں کے رحم و کرم پر چھوڑنے کا نتیجہ آج ملک میں ہر طرف بھوک، غربت، غذائی کمی اور بیروزگاری کی صورت نظر آتا ہے، بدقسمتی یہ کہ اب ان مسائل کا حل بھی یہی نیولبرل پالیسیوں کے ایجنٹ پیش کررہے ہیں، ضروری ہے کہ اس شیطانی چکر کے خاتمے کے لیے چھوٹے اور بے زمین کسان مزدور اپنا بیج محفوظ کریں اور روایتی پائیدزار زراعت کریں جو خوراک کی خودمختاری کے لیے جدوجہد میں اہم قدم ہے۔
ستمبر 12 تا 18 ستمبر، 2019
زراعت
وفاقی وزیر قومی غذائی تحفظ و تحقیق صاحبزاہ محبوب سلطان نے اعلان کیا ہے کہ حکومت ملک بھر میں زراعت کو ترقی دینے کے لیے چین کی مدد سے 13 بڑے منصوبوں کے اجراء کی تیاری کررہی ہے۔ چینی وفد سے بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان اشیاء کی قدر میں اضافے کی مطلوبہ ٹیکنالوجی (ویلیو ایڈیشن ٹیکنالوجی) نہ ہونے کی وجہ سے زرعی شعبے میں پیچھے ہے۔ چین کے ساتھ اشتراک اور بہتر طریقوں کا استعمال پاکستان کے زرعی وسائل کے موثر استعمال میں مددگار ہوگا۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 17ستمبر، صفحہ13)
گندم
وفاقی حکومت نے مقامی منڈی میں قیمت قابو میں رکھنے کے لیے فوری طور پر گندم اور آٹے کی برآمد پر پابندی عائد کردی ہے۔ کامرس ڈویژن نے 11 ستمبر 2019 کو ایکسپورٹ پالیسی آرڈر 2016 میں ترمیم کرکے گندم اور آٹے کی برآمد پر پابندی عائد کی تھی۔ اس سے پہلے وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق نے بھی ایک اعلامیہ جاری کرکے تمام شراکت داروں میں تقسیم کیا تھا۔ وزارت کے مطابق یکم اگست 2018 سے 25 اگست 2019 تک تقریبا 17,655 ٹن گندم سے تیارکردہ اشیاء سمندری اور زمینی راستوں سے برآمد کی گئی ہیں۔
(بزنس ریکارڈر، 13ستمبر، صفحہ1)
کپاس
پاکستان اور چین کے درمیان کپاس کی افزائش اور بائیو ٹیکنالوجی کے حوالے سے تیسری کانفرنس ژنجیانگ، چین میں اختتام پزیر ہوگئی ہے۔ کانفرنس میں دونوں ممالک کے 100 سے زائد ماہرین نے شرکت کی۔ ماہرین نے متعلقہ موضوعات جیسے کہ کپاس کے جینیاتی وسائل، کیڑے مکوڑوں اور جڑی بوٹیوں کے خلاف جینیاتی کپاس، مشینی بیجائی اور چنائی کی ٹیکنالوجی پر معلومات کا تبادلہ اور بحث کی۔ دونوں ممالک کے ماہرین اس بات پر متفق تھے کپاس کی پاک چین مشترکہ لیبارٹری نے اپنی تعمیر کے تین سالوں بعد کئی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ یہ کانفرنس بائیو ٹیکنالوجی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف چائینز اکیڈمی آف ایگرکلچرل سائنس، محمد نواز شریف زرعی یونیورسٹی اور بہاوالدین زکریا یونیورسٹی کی مشترکہ کوشش ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 13ستمبر، صفحہ7)
پاکستان بزنس مین اینڈ انٹی لیکچول فورم (پی بی آئی ایف) کے صدر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ کپاس کی پیداوار بڑھانے کے لیے حکومت کو کسانوں کے لیے مراعات اور امدادی قیمت پر غور کرنا چاہیے جو کسانوں کے لیے پرکشش ہوگی اور پیداوار میں اضافے کا باعث ہوگی۔ کپاس کی پیداوار میں ہونے والی کمی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ کپڑے کی صنعت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ کسانوں کی کپاس میں دلچسپی ختم ہورہی ہے جو اس کے زیر کاشت رقبے اور پیداوار میں کمی کی وجہ بن رہی ہے۔ کپاس کی پیداوار میں کمی شہروں میں کپڑے کی صنعتوں میں کام کرنے والوں کے لیے بھی مسائل کا سبب بن سکتی ہے۔ کپاس کے زیر کاشت علاقے میں سال 2018-19 میں 12.1 فیصد جبکہ اس کی پیداوار میں 17.5 فیصد کمی ہوئی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 13ستمبر، صفحہ5)
آم
سیکریٹری جنرل بزنس مین پینل احمد جواد کا کہنا ہے کہ آٹھ سال بعد آم کی برآمد 100,000 ٹن سے تجاوز کرگئی ہے اور توقع ہے کہ اس مہینے کے آخر تک آم کے موسم کے اختتام تک برآمد 120,000 ٹن تک پہنچ جائے گی جبکہ پچھلے سال برآمدات 80,000 ٹن تھیں۔ اس مقدار میں افغانستان اور ایران سے ہونے والے غیررسمی تجارت شامل نہیں ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کو اندرونی اور بیرونی سطح پر کاروبار میں آسانی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر مشرقی وسطی کی فضائی کمپنیوں کے کرائے پاکستانی برآمد کنندگان کے لیے بھارتی آم کے برآمد کنندگان کے مقابلے 20 فیصد زیادہ ہیں۔ 2018-19 میں سندھ میں درجہ حرارت زیادہ ہونے کی وجہ سے زیاد تر آم کی کھیپوں کو جہاز پر لادا ہی نہیں جاسکا تھا۔ لہذا کراچی میں حکومت کو آم ذخیرہ کرنے کے لیے سرد خانے کی سہولت فراہم کرنی چاہیے۔
(بزنس ریکارڈر، 17ستمبر، صفحہ8)
چینی
حکومت نے چینی کی صنعت کو خبردار کیا ہے کہ اگر مقامی منڈی میں چینی کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان جاری رہا تو اس کی برآمد پر پابندی زیر غور آسکتی ہے۔ چینی کی قیمت میں 29 فیصد اضافہ ہوا ہے جو 58.47 روپے فی کلوگرام سے بڑھ کر اگست 2019 میں 75.38 روپے فی کلو گرام ہوگئی ہے۔ قیمت میں یہ اضافہ حکومت کے لئے تشویش کا باعث ہے۔ حکام کے مطابق اجلاس میں چین اور افغانستان کو چینی کی برآمد پر بھی بات چیت کی گئی اور یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ مزید چینی کی برآمد کی اجازت دینے سے پہلے مقامی منڈی میں اس کی اضافی مقدار میں فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔ اکتوبر کے مہینہ میں ایک اور اجلاس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس میں چینی کی لاگت کا تعین کیا جائیگا۔
(بزنس، ریکارڈر، 14 ستمبر، صفحہ4)
ماہی گیری
سندھ حکومت نے صوبہ کی ساحلی پٹی سے ملحق نجی طور پر چلائی جانے والی غیر قانونی گودیوں (جیٹیوں) کو قانونی درجہ دینے (ریگولرائز کرنے) کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے نے سندھ کی ماہی گیر براداری میں تشویش پیدا کردی ہے جو کئی عشروں سے ان گودیوں کا انتظام چلارہے ہیں۔ صوبائی حکام کے مطابق ساحلی پٹی پر لگ بھگ 42 نجی گودیاں کام کررہی ہیں جن میں سے زیادہ تر کراچی کے علاقے ابراہیم حیدری، ریڑھی، شمس پیر، مبارک ولیج، صالح آباد اور بابا و بھٹ جزائر میں واقع ہیں۔ سندھ کے حکام سمجھتے ہیں کہ کئی ملین روپے مالیت کی پکڑی گئی مچھلی ان گودیوں پر بغیر کسی حکومتی محصول ادا کیے فروخت ہوتی ہے۔ قانون کے مطابق سمندر سے پکڑی گئی مچھلی کا تمام تر کاروبار کراچی فش ہاربر سے ہونا ضروری ہے جہاں حکومت 6.25 فیصد حصہ (کمیشن) وصول کرتی ہے۔ ماہی گیر آبادیوں کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ روایتی طور پر قائم ان گودیوں کا مقصد ماہی گیروں کی کشتیوں کو کھڑی کرنے کے لئے جگہ کی فراہمی ہے جس کا انتظام ماہی گیر خود چلاتے ہیں۔ ماہی گیر رہنماؤں نے حکام پر زور دیا ہے کہ اس قسم کے اقدام سے پہلے ان سے مشاورت کی جائے، روایتی اور نجی گودیوں میں فرق کو بھی برقرار رکھا جائے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 16ستمبر، صفحہ5)
غربت
پاکستان پاورٹی ایلی ویشن فنڈ (پی پی اے ایف) کی سمعیہ لیاقت علی خان نے کہا ہے کہ پی پی اے ایف نے ملک کے 23 پسماندہ ترین اضلاع بشمول ضلع تھرپارکر میں نیشنل پاورٹی گریجویشن پروگرام (این پی جی پی) کے تحت غربت کم کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ منصوبے سے 23 اضلاع میں 177,000 خاندانوں کو فائدہ پہنچے گا جبکہ تین اداروں تھر دیپ رورل ڈیولپمنٹ پروگرام، نیشنل رورل سپورٹ پروگرام اور سندھ رورل سپورٹ آرگنائزیشن کی مدد سے نیشنل پاورٹی گریجویشن پروگرام سندھ میں منتخب اضلاع میں 95,000 خاندانوں کو مدد فراہم کرنے کے لئے تیار ہے۔ منصوبے کا مقصد انتہائی غریب افراد کو پائیدار بنیادوں پر غربت سے نکالنے کے لئے مدد فراہم کرنا اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے غذائی تحفظ، غذائی صورتحال اور ان میں موسمی تبدیلی سے مطابقت کو بہتر بنانا ہے۔ اس منصوبہ کے لئے انٹر نیشنل فنڈ فار ایگری کلچر ڈیولپمنٹ اور حکومت پاکستان مدد فراہم کررہے ہیں۔
(ڈان، 14 ستمبر، صفحہ17)
وفاقی حکومت نے اپنے زیر انتظام 34 اداروں کو ”احساس“ پروگرام پر عملدرآمد کی ذمہ داری دی ہے۔ احساس پروگرام کے حوالے سے تحریک انصاف کی حکومت کا دعوی ہے کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سماجی منصوبہ ہے جس کا مقصد 10 ملین گھرانوں کو اس سماجی منصوبے کے دائرہ کار میں لانا ہے۔ پاورٹی ایلیویشن اینڈ سوشل سیفٹی ڈویژن کی جانب سے احساس پروگرم کے جاری کردہ دستاویزات کے مطابق منصوبے کے اہداف میں 10 ملین خاندانوں کو اس کے دائرہ کار میں لانا، 3.8 ملین افراد کے لیے روزگار کے مواقع، 10 ملین خاندانوں کے لیے طبی سہولیات کے لیے مالی رسائی، پانچ ملین طالبعلموں کے لیے تعلیمی وضائف اور سات ملین افراد، جن میں 90 فیصد عورتیں ہونگی، کے لیے جدید مالیاتی نظام میں شمولیت (فنانشل اینڈ ڈیجیٹل انکلوژن) شامل ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 17 ستمبر، صفحہ7)
نکتہ نظر
اس ہفتے کی خبروں کو مجموعی طور پر دیکھیں تو ملک میں معاشی حوالے سے مسائل صاف نظر آتے ہیں جو ملک میں بھوک، غربت اور غذائی کمی و بیروزگاری کی اصل وجہ ہیں۔
مندرجہ بالا خبروں میں ان مسائل کے حل بھی تجویز کیے گئے ہیں جو مضحکہ خیز بھی ہیں۔ جیسے کہ کپاس کی پیداوار میں اضافے کے لیے جینیاتی وسائل اور جینیاتی بیج کے لیے چینی مدد، جبکہ ملک میں کپاس کی پیداوار میں واضح کمی کی وجہ کمپنیوں کے مہنگے غیر معیاری بیج، مہنگے زہر اور کیمیائی کھادوں کا استعمال ہے، نتیجہ پیداواری لاگت بے حساب، کسان کو بھاری مالی نقصان اور ماحولیات کو شدید تر نقصان۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک میں ویلیو ایڈیشن کی صنعت نہ ہونے کی وجہ سے صنعتی شعبہ میں پیداوار نتہائی کم ہے، لیکن یہ بھی ہرگز ملک میں غربت اور بیروزگاری کی دلیل نہیں ہوسکتی کیونکہ ملک میں گنے سے متعلق ویلیو ایڈڈ صنعت موجود ہے جو چینی، مولیسس اور ایتھنول بھی بناتی ہیں بلکہ بڑے پیمانے پر برآمد بھی کرتی ہے لیکن اس کے باوجود گنا کاشت کرنے والا چھوٹا کسان بھی جائز آمدنی سے محروم ہے اور غربت کا شکار ہے۔صاف ظاہر ہے کہ خرابی ان نیولبرل پالیسیوں اور وسائل پر قبضہ میں ہے۔ پیداوار کپاس کی ہو یا گنے کی ملکی معیشت اور کسان کے حق میں پالیسی سازی کے ذریعے ہی ملکی صنعت و عوام کے لیے فائدہ مند ہوسکتی ہے اور غربت کے خاتمے کی راہ بھی۔ پالیسی سازی کا یہ حق طاقتور جاگیردار سرمایہ دار طبقہ کسان مزدور عوام کو خود نہیں دیگا، لازم ہے کہ کسان مزدور عوام اس کے لیے منظم جدوجہد کریں۔
ستمبر 5 تا 11 ستمبر، 2019
زراعت
تعلقہ نگر پارکر اور اسلام کوٹ کے کچھ دیہات میں ٹڈی دل کا حملہ جاری ہے۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ ٹڈی دل اب تک علاقے میں موجود ہیں اور ان کی فصلوں، چارا اور جھاڑیوں کو ہرے پتوں سے محرورم کررہے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سرکاری اہلکاروں نے علاقے میں کرم کش دوا کا چھڑکاؤ کیا تھا، تاہم مسلسل بارشوں کی وجہ سے وہ غیر موثر ثابت ہوا ہے۔ مقامی کسانوں نے ٹڈی دل کے خاتمے کے لیے ضروری مشینری کے ساتھ عملہ بھیجنے کا مطالبہ کیا ہے۔ وزیر زراعت سندھ اسماعیل راہو کا کہنا تھا کہ وہ تھرپارکر میں مصروف عملے کو متاثرہ علاقہ کا دورہ کرنے کے لئے پہلے ہی ہدایات دے چکے ہیں۔
(ڈان، 5 ستمبر، صفحہ17)
گنا
ایگزیکٹو کمیٹی برائے قومی اقتصادی کونسل (ایکنیک) نے صوبہ پنجاب میں گنے کی پیداوار میں اضافے کے لئے 2048.90 ملین روپے لاگت کے قومی منصوبہ کی منظوری دیدی ہے۔ ”نیشنل پروگرام فار انہانسنگ پروفٹیبلٹی تھرو انکریزنگ پروڈکٹوٹی آف شوگر کین“ نامی یہ منصوبہ پنجاب میں گنے کی پیداوار کے 13 اہم اضلاع میں شروع کیا جائیگا۔ ان اضلاع میں سرگودھا، بھکر، فیصل آباد، ٹوبہ ٹیک سنگھ، جھنگ، چنیوٹ، منڈی بہاؤالدین، قصور، مظفرآباد، لیہ، راجن پور، بہاولپور اور رحیم یار خان شامل ہیں۔ یہ ایک مشترکہ منصوبہ ہے جس کے لئے پنجاب 1737.70 ملین روپے فراہم کریگا جبکہ وفاقی حکومت کا حصہ 311.23 ملین روپے ہوگا۔ منصوبے کے مقاصد میں گنے کی پیداوار کو 200 من فی ایکڑ تک لاکر اس سے آمدنی میں اضافہ کرنا، پیداوار میں اضافے کے نتیجے میں حاصل ہونے والی زمین کو مستقبل میں روغنی بیجوں اور دیگر زیادہ قدر والی فصلوں کے لیے مختص کرنا شامل ہے۔ گنے کی پیداوار میں اضافہ مشینی زراعت کو فروغ دے کر حاصل کیا جائے گا، صوبائی حکومت 2,291 مشینی ہل، 1,142 کھیریاں بنانے کی مشینیں، 1,142 بمعہ کھاد پودے لگانے کی مشینیں، سات پودے لگانے کی مشینیں (بلٹ پلانٹر)، 1,142 کھاد ڈالنے کی مشینیں (گرینولر فرٹیلائزر ایپلی کیٹر) فراہم کریگی۔
(بزنس ریکارڈر، 10 ستمبر، صفحہ3)
کپاس
حکومتی وزارتوں اور کئی شراکت داروں کے درمیان کپاس کی امدادی قیمت مقرر کرنے اور کپاس کی کاشت پر رعایت فراہم کرنے کے حوالے سے اختلافات برقرار ہیں۔ تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کی قیادت میں کئی شراکت داروں نے وزیر اعظم کے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ سے ملاقات کی ہے۔ تاہم مشیر خزانہ کے یہ کہنے کے بعد کہ وزارت خزانہ کے پاس ٹیکسوں میں چھوٹ اور کسانوں سے کپاس کی خریداری کے لیے مالی وسائل موجود نہیں ہیں، فریقین کسی معاہدے پر نہیں پہنچ سکے۔ مشیر خزانہ کا مزید کہنا تھا کہ کپاس کے کاشتکاروں کو کسی بھی قسم کی مالی رعایت کسی دوسرے شعبہ میں کٹوتی کی وجہ بنے گی۔ وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق نے کپاس کی امدادی قیمت 4,000 روپے فی من مقرر کرکے کسانوں سے 500,000 کپاس کی گانٹھیں خریدنے کی تجویز دی تھی۔ تاہم گندم اور گنے جیسی امدادی قیمت کی حامل فصلوں کی سرکاری خریداری وفاقی اور صوبائی حکومت پر بوجھ میں اضافے کا باعث بنی ہیں۔ عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) بھی چاہتا ہے کہ فصلوں کی سرکاری خریداری بند کردی جائے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 6 ستمبر، صفحہ13)
زرعی ماہرین اور کسانوں کو خدشہ ہے کہ اس سال کپاس کی پیداوار میں مزید کمی واقع ہوسکتی ہے کیونکہ یہ شعبہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی غلط پالیسیوں کا شکار ہے۔ کپاس کی پیداوار اور زیر کاشت رقبہ میں بھی کمی آرہی ہے کیونکہ بنیادی طور پر کسان گندم اورگنے کی کاشت کی طرف منتقل ہوگئے ہیں جس میں کم سے کم امدادی قیمت کی ضمانت ہوتی ہے۔ مالی سال 2018-19 میں کپاس کا زیر کاشت رقبہ 2.37 ملین ہیکٹر (12.1 فیصد) تک کم ہوگیا جو گزشتہ سال 2.7 ملین ہیکٹر تھا۔ گزشتہ مالی سال کپاس کی پیداوار میں بھی 9.9 ملین گانٹھوں کے ساتھ 17.5 فیصد کمی دیکھی گئی۔ کپاس کی امدادی قیمت 4,000 روپے فی من مقرر کرنے کے لئے گزشتہ ہفتے ہونے والا اجلاس بے نتیجہ ختم ہوگیا۔ کپاس کے ماہرین کا کہنا ہے کہ مقامی طور پر کپاس کی کم دستیابی اور اس کی درآمد پر انحصار کی وجہ سے کپڑے کی صنعت میں صورتحال دن بادن خراب ہوتی جارہی ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 10 ستمبر، صفحہ20)
کھاد
ایک خبر کے مطابق حکومت کی جانب سے گیس انفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس آرڈننس واپس لینے کے فیصلے پر کھاد کی صنعت یوریا کی قیمت میں فی بوری 200 روپے اضافے کی تیاری کررہی ہے۔ تاہم یہ ابھی واضح نہیں کہ یہ اضافہ کب کیاجائے گا۔ اس وقت صنعت کار ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہیں کہ کوئی قیمت بڑھانے میں پہل کرے اور وہ بھی قیمت میں اضافہ کریں۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 8 ستمبر، صفحہ13)
مال مویشی
بلوچستان حکومت نے صوبے میں معاشی سرگرمیاں پیدا کرنے اور مال مویشی و ڈیری شعبہ سے بھرپور پیداوار کے حصول کے لیے ایک جامع منصوبہ تیار کیا ہے۔ ڈائریکٹر جنرل محکمہ مال مویشی غلام حسین جعفر نے منصوبے کے اہم خدوخال بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ صوبے کے 29 ڈیری اور پولٹری فارموں کو بین الاقوامی میعار اور زیادہ سے زیادہ پیداوار کے حصول کے لیے ازسر نو بحال کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ حکومت نے مویشیوں کے لیے نئے ہسپتال اور دواخانے (ڈسپنسریاں) تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی بھی کی ہے جس کے لیے 500 ملین روپے مختص کئے جائیں گے تاکہ مویشیوں کی بہتر صحت اور پیداوار کو یقینی بنایا جاسکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مشاخیل اور واہشک اضلاع میں اونٹوں پر تحقیق اور ان کے دودھ کی عمل کاری کے مراکز (پروسسنگ یونٹ) کی منظوری بھی آئندہ دنوں میں دی جائے گی۔ مزید آمدنی کے حصول کے لیے حکومت ضلع لہری میں گائے کا فارم بھی قائم کرے گی۔ اس کے علاوہ ڈیری فارموں کو جدید آلات بھی فراہم کیے جائینگے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 6ستمبر، صفحہ7)
وزیر اعظم کی مال مویشی مہم کے تحت اس ماہ حکومت نے مال مویشی شعبہ میں تین منصوبے شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان منصوبوں میں بچھڑوں کا تحفظ، بچھڑوں کو فربہ کرنے اور گھریلو مرغبانی شامل ہے۔ ان منصوبوں کا مقصد مال مویشی شعبہ کی پیداوار اور گوشت کی برآمد میں اضافہ کرنا ہے۔ بچھڑوں کے تحفظ (سیو دی کالف) منصوبے کے تحت حکومت صوبوں بشمول آزاد کشمیر اور اسلام آباد میں 0.380 ملین بچھڑے تقسیم کرے گی۔ جبکہ بچھڑوں کو فربہ کرنے کے منصوبے کے تحت حکومت گوشت کی پیداوار میں اضافے کے لیے 0.375 ملین بچھڑے تقسیم کرے گی۔ اس منصوبے کے تحت بلوچستان کو 0.320 ملین، خیبر پختونخواہ کو 80,000، پنجاب کو 0.150 ملین، سندھ 0.1 ملین، گلگت بلتستان کو 15,000، آزاد کشمیر کو 15,000 ہزار اور اسلام آباد کو بھی 15,000 ہزار بچھڑے فراہم کیے جائینگے۔ اس کے علاوہ گھریلو مرغبانی کو فروغ دینے کے لیے ملک بھر میں پانچ ملین مرغیاں تقسیم کی جائیں گی۔
(بزنس ریکارڈر، 8 ستمبر، صفحہ11)
ماہی گیری
وفاقی وزیر برائے قومی غذائی تحفظ و تحقیق صاحبزادہ محبوب سلطان نے کہا ہے کہ حکومت ماہی گیری شعبے سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے پہلی ماہی گیر پالیسی مرتب کررہی ہے۔ سوات میں ٹراؤٹ فارمنگ پروگرام کے افتتاح کے موقع پر ان کا کہنا تھا کہ ملک میں فی کس سالانہ مچھلی کی کھپت صرف دو کلو ہے جبکہ دنیا کی اوسط کھپت 20 کلو فی کس سالانہ ہے۔ پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس میں 1,100 کلومیٹر طویل ساحل ماہی پروری (فش فارمنگ) کے لیے مکمل طور پر استعمال نہیں ہوتا۔ انھوں نے ماہی گیروں پر زور دیا کہ وہ قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھائیں اور ٹراؤٹ فش فارمنگ کو فروغ دے کر ملک کی معاشی ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں۔ وزیر اعظم کے زرعی ہنگامی پروگرام کے تحت 2,355 ملین روپے لاگت کے اس ماہی پروری منصوبے کے تین جز ہیں۔ جھینگا پروری، ماہی پروری اور گلگت بلتستان و خیبرپختونخوا میں ٹراؤٹ مچھلی کی فارمنگ۔ وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ ماہی گیری شعبہ کے لیے پالیسی اقوام متحدہ کے خوراک و زراعت کے ادارے فاؤ (ایف اے او) کی تکنیکی مدد سے تیار کی جائے گی۔
(ڈان، 6 ستمبر، صفحہ11)
بہتر ٹیکنالوجی کی مدد سے چترال میں ٹراؤٹ مچھلی کی پیداوار کو فروغ دینے کے لئے صوبائی محکمہ ماہی گیری کو مچھلیوں کی افزائش کے لیے دو عمودی سینالے (ورٹیکل فلو فش انکیوبیٹر) موصول ہوگئے ہیں۔ اقوام متحدہ کا ادارہ برائے خوراک و زراعت فاؤ نے اپنے ایک منصوبے ”ملٹی ائیر ہیومنٹیرین پروگرام“ کے تحت یہ آلات فراہم کئے ہیں۔ یہ آلات ٹراؤٹ مچھلی کے انڈوں کو سینے کے لئے استعمال کئے جائینگے تاکہ ماہی پروری کرنے والوں کو چھوٹی مچھلیوں کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 7 ستمبر، صفحہ6)
کسان مزدور
کپاس کی چنائی سے وابستہ عورتوں نے سندھ حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں تمام تر مراعات کے ساتھ صنعتی مزدوروں کے برابر درجہ دیا جائے۔ ضلع مٹیاری میں جمال ڈاھری گاؤں میں کپاس چننے والی عورتوں کی پہلی یونین کی رہنما شبانہ خاتون نے کراچی پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا ہے کہ ”کپاس چننا سخت محنت کا کام ہے، ہم دن میں کم از کم 12گھنٹے انتہائی نقصاندہ ماحول میں کام کرتے ہیں“۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مزدور، خاص طور عورتیں اور بچے انتہائی سخت حالات میں کپاس کی چنائی کا کام کرتے ہیں جہاں وہ زمیندار کی جانب سے حفاظتی آلات فراہم نہ کیے جانے کی وجہ سے آنکھ کی بیماریوں اور دیگر امراض (انفیکشن) سے متاثر ہورہے ہیں۔
(ڈان، 5ستمبر، صفحہ17)
نکتہ نظر
اس ہفتے کی دو خبریں اہم ہیں جن کا یہاں تزکرہ ضروری ہے۔ ایک تو یہ کہ خود حکومت کے اعلی پائے کے رہنما جہانگیر خان ترین کی قیادت میں کپاس کی پیداوار اور اس سے جڑے دیگر شراکت داروں کا وفد مشیر خزانہ سے ملا جہاں سے انہیں یہ واضح پیغام دیا گیا کہ حکومت کپاس کی امدادی قیمت مقرر نہیں کرسکتی، ناہی کسانوں سے کپاس خریدسکتی ہے اور ناہی کپاس سے متعلق ٹیکسوں میں کوئی چھوٹ دیجائے گی کیونکہ ملکی خزانہ اس کی اجازت نہیں دیتا۔ جبکہ دوسری خبر کے مطابق ملک میں گنے کی پیداوار میں اضافے کے لیے کوششوں اور مراعات کی فراہمی کے لیے حکومت نے تقریباً دو بلین روپے کے منصوبے کی منطوری دے دی ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کے دباؤ پر پالیسی سازی کا یہ ایک چھوٹا سا نمونہ ہے کہ جس میں خود حکومت چاہ کر بھی عوامی اور کسانوں کے مفاد میں پالیسی نہیں بناسکتی حالانکہ ملک میں اس وقت کپاس کے کسانوں سے لے کر اس سے جڑی صنعتوں میں کام کرنے والے مزدور تک پیداوار میں کمی، کپاس درآمد کرنے اور دیگر مالیاتی محصولات کی وجہ سے شدید متاثر ہورہے لیکن حکومت انہیں زرتلافی، ٹیکسوں میں چھوٹ سمیت کسی قسم کی رعایت دینے انکار کررہی ہے کیونکہ عالمی مالیاتی اداروں کو ملک میں کپاس کی پیداوار سے جڑے کسان مزدوروں کی حالت سے کوئی سروکار نہیں، انہیں صرف اس منڈی کا تحفظ درکار ہے جہاں سرمایہ دار ممالک کی کپاس فروخت ہوسکتی ہے۔ یہ صاف ظاہر ہے کیونکہ پاکستان اس وقت امریکی کپاس کا بڑا خریدار ہے۔ نیولبرل پالیسی سازی میں یہ ہرگز عجب نہیں کہ ملک میں چینی کی پیداوار ضرورت سے زیادہ ہے، ملیں بھاری زخائر کی موجودگی اور عالمی منڈی میں چینی کی قیمت میں کمی کی وجہ سے کسانوں کو گنے کی قیمت کم ادا کررہی ہیں، گنے کے زیر کاشت رقبے میں اضافے کی وجہ سے کپاس کی پیداوار میں کمی اور اسے درآمد کرنے پر ملک کو بھاری زرمبادلہ خرچ کرنا پڑرہا ہے، اس کے باجود حکومت گنے کی پیداوار میں مزید اضافہ کرنے کے لیے اربوں روپے خرچ کررہی ہے۔ کیونکہ عالمی منڈی میں نباتاتی ایندھن کی طلب بدستور موجود ہے اور بڑھ رہی ہے جسے پورا کرنے کے لیے اس ملک کے کسان مزدور بھاری قیمت چکارہے ہیں۔ چونکہ اس وقت پاکستان کی تمام تر پالیسی سازی عالمی مالیاتی اداروں سے قرض کے بدلے ہی تیار کی جارہی ہے جس میں ظاہر ہے کہ سرفہرست مفاد منڈی اور سرمایہ دار ممالک کا ہوگا ناکہ پاکستان کا۔ اس معاشی غلامی سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ پیداوار سے لے کر کھپت تک کے نظام میں سرمایہ دار ممالک، ان کی کمپنیوں اور مالیاتی اداروں کا کردار ختم کرکے مقامی پیداواری وسائل کی بنیاد پر پائیدار طریقہ پیداوار اپنایا جائے جس میں وسائل اور پالیسی سازی پر اختیار پیداواری عمل سے جڑے کسان مزدور طبقہ کا ہو۔
اگست 29 تا 4 ستمبر، 2019
زراعت
زرعی یونیورسٹی فیصل آباد نے ایکسپو سینٹر میں زرعی نمائش کا آغاز کردیا ہے۔ زرعی نمائش میں یونیورسٹی کی تیار کردہ 140 سے زائد ٹیکنالوجیوں کو نمائش کے لئے پیش کیا گیا ہے۔ 70 نمائشی اسٹالوں پر یونیورسٹی کے سائنسدانوں اور طلباء کی تیار کردہ ٹیکنالوجی کی نمائش کی گئی ہے۔ نمائش زراعت، ویٹنری، حیوانیات، زرعی مشینری، انجینئرنگ، خوراک، غذائیت وغیرہ سے متعلق نئی اقسام کی تکنیک، طریقہ کار پر مشتمل ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 4 ستمبر، صفحہ16)
محکمہ موسمیات نے کسانوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بارش کا جمع ہونے والا پانی کھڑی فصلوں کے لئے مہلک ثابت ہوسکتا ہے، کسانو کو فصلوں خصوصاً کپاس کی فصل سے اس پانی کی نکاسی کرنی چاہیے۔ محکمہ نے کسانوں کو کھڑی فصلوں میں بارش کے موسم کے دوران اگنے والی جڑی بوٹیوں کے منفی اثرات سے بھی خبردار کیا ہے اور بہتر پیداوار کے لیے انہیں جلد از جلد ان جڑی بوٹیوں کو نکالنے کی ہدایت کی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 4 ستمبر، صفحہ5)
کپاس
قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی برائے زراعت نے کہا ہے کہ کمیٹی کپاس کی فی من 4,000 روپے اشارتی قیمت مقرر کرنے کی سفارش کرے گی۔ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے زیلی کمیٹی کے اجلاس کے بعد کہا ہے کہ آئندہ چار سالوں میں کپاس کی پیداوار کا ہدف 20 ملین گانٹھیں ہے اور اس کے لئے امدادی قیمت سمیت دیگر تجاویز زیر غور ہیں۔ اسپیکر قومی اسمبلی کا مزید کہنا تھا کہ کپاس پنجاب اور سندھ کی اہم فصل اور زرعی معیشت کا اہم جز ہے۔ تاہم کسانوں کی دیگر فصلوں پر منتقلی کی وجہ سے کپاس کے زیر کاشت رقبے میں کمی آرہی ہے جس کی وجہ سے اس کی پیداوار 14.7 ملین گانٹھوں سے کم ہوکر 10.7 ملین گانٹھیں ہوگئی ہے۔ ملک میں کپاس کی طلب 15 ملین گانٹھیں ہے اور پاکستان طلب پوری کرنے کے لئے چار سے پانچ ملین گانٹھیں کپاس درآمد کرتا ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 29 اگست، صفحہ3)
گنا
حکومت پنجاب نے گنے کی کرشنگ وقت پر شروع کرنے اور اس کے ساتھ ساتھ آئندہ موسم میں کسانوں کو قیمت کی ادائیگی کے لئے اقدمات شروع کردیے ہیں۔ عام طور پر گنے کی کرشنگ کا موسم 10 نومبر سے شروع ہوتا ہے۔ تاہم پچھلے دو سالوں سے کرشنگ کا موسم تاخیر کا شکار تھا کیونکہ ملیں حکومتی مطالبات تسلیم کرنے سے گریزاں تھیں۔ اس سال پنجاب حکومت نومبر کے پہلے مہینہ میں شوگر ملوں پر دباؤ ڈال کر کرشنگ کا موسم شروع کروانے کے لئے عزم ہے۔ گنا کمشنر پنجاب واجد علی شاہ کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت کی جانب سے قوانین پر نظرثانی کا بنیادی مقصد کسانوں کو وقت پر گنے کی قیمت کی ادائیگی شفاف طریقہ سے یقینی بنانا ہے۔ گنا خریدنے والے ایجنٹ سے متعلق قانون کے فقدان کی وجہ سے کسانوں کی پیداوار کی خرید و فروخت کی کوئی نگرانی نہیں ہوتی ہے۔ اس طرح کی غیر رسمی و غیر دستاویزی خریدو فروخت بے یارو مددگار کسانوں کے مفادات کے لیے نقصان دہ ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 29 اگست، صفحہ20)
کینو
فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی قائمہ کمیٹی برائے باغبانی کے سابق چیئرمین احمد جواد نے کہا ہے کہ کینو کی برآمد کی صورتحال معمول پر لانے کے لئے کوششیں جاری ہیں، برآمد کنندگان کی اکثریت سمجھتی ہے کہ کینو کی 600 روپے فی من قیمت غیر منصفانہ ہے جس کا کچھ حلقوں نے بغیر تفصیلی غور و فکر کے اعلان کیا ہے۔ اس غیر ذمہ دارانہ بیان سے برآمد کنندگان کے درمیان غیریقینی صورتحال پیدا ہوئی جس کی وجہ سے خریداری کا عمل رک گیا ہے۔ توقع ہے کہ جلد نظرثانی شدہ قیمت کا اعلان ہوگا جو مہنگائی کے تناظر میں 850 روپے فی من ہوسکتی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 4 ستمبر، صفحہ5)
آم
ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان نے کراچی میں آم کا سرد خانہ قائم کرنے کے لئے تجاویز طلب کی ہیں۔ سندھ میں درجہ حرارت زیادہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر برآمد کنندگان آم کی برآمد میں ناکام رہے تھے۔ ڈائریکٹر جنرل ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان اظہر علی نے کاشتکاروں کو درپیش مسائل پر بات کرنے اور برآمد میں اضافے کے لیے ضروری اقدامات سے آگاہ کرنے کے لیے سندھ کے آم کے کاشتکاروں سے ملاقات کی تھی۔ سال 2018-19 میں زیادہ تر آم کی کھیپ درجہ حرارت زیادہ ہونے کی وجہ سے لوڈ نہیں کی جاسکی تھی۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 31 اگست، صفحہ13)
مرغبانی
وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق اور پنجاب حکومت نے پولٹری ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں گھریلو مرغبانی منصوبے کا آغاز کیا ہے۔ یہ منصوبہ پورے ملک میں بشمول آزاد کشمیر، اسلام آباد اور گلگت بلتستان میں حفاظتی ٹیکے لگائی گئی پانچ ملین مرغیاں فراہم کرنے کے لیے ترتیب دیا گیا ہے۔ اس منصوبے پر 1.6 بلین روپے لاگت آئے گی جس کا 30 فیصد وفاقی اور صوبائی حکومتیں جبکہ 70 فیصد اس سے فائدہ اٹھانے والے برداشت کرینگے۔ وفاقی وزیر قومی غذائی تحفظ و تحقیق صاحبزادہ محبوب سلطان، وزیر مال مویشی پنجاب سردار حسنین دریشک اور تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین نے منصوبے کا افتتاح کیا، اس دوران منتخب افراد میں مرغیاں بھی تقسیم کی گئیں۔ منصوبے کے تحت پانچ ملین مرغیاں رعایتی قیمت پر تقسیم کی جائیں گی جس تک تمام لوگوں کو رسائی حاصل ہوگی۔
(ڈان، 3 ستمبر، صفحہ4)
آٹا
وزیر اعظم عمران خان نے صوبائی حکام کو ہدایت کی کہ ضروری اشیاء کی قیمتوں میں استحکام کو یقینی بنانے کے لئے مزید اقدامات کریں، عین اس ہی دن سندھ کی ملوں نے آٹے کی قیمت میں مزید دو روپے فی کلو کا اضافہ کردیا۔ 15 اگست سے اب تک آٹے کی قیمت میں یہ تیسرا اضافہ ہے۔ پہلی بار اضافہ 15 اگست کو کیا گیا اور دوسری بار 22 اگست کو۔ تین بار مسلسل اضافے کے بعد 2.5 نمبر آٹے کی قیمت اب 44.50 روپے فی کلو جبکہ فائن آٹے کی قیمت 47.50 روپے فی کلو ہوگئی ہے۔ صوبائی حکومت کی جانب سے کسی بھی قسم کی مداخلت نہ ہونے کی وجہ سے ملوں نے ماہ اپریل سے اب تک قیمت میں نو بار اضافہ کیا ہے۔
(ڈان، 30 اگست، صفحہ10)
نکتہ نظر
اس ہفتے کی خبروں میں ملک میں غذائی کمی سے نمٹنے کے لیے شروع کیے جانے والے مرغبانی منصوبے کی خبر شامل ہے، ساتھ ہی ملک میں آٹے کی قیمت میں اضافے کی خبر بھی نمایاں ہے۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے آٹے کی قیمت میں اضافے پر حکومت کا کوئی اختیار نظر نہیں آتا لیکن اخباری دعوے بے شمار نظر آتے ہیں۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا حکومت سمجھتی ہے کہ ملک میں غربت اور غذائی عدم تحفظ کی شکار تقریباًآدھی آبادی جو لگ بھگ 10کرورڑ بنتی ہے، پانچ ملین مرغیاں رعایتی قیمت پر فراہم کرکے غذائی کمی کے مسئلے پر قابو پاسکتی ہے؟ اور کیا آٹے سمیت دیگر غذائی اشیاء کی قیمتوں میں بے لگام اضافہ کے ساتھ 1.6 بلین روپے کا یہ منصوبہ غذائی کمی کو کم کرنے میں حقیقتاً مددگار ہوگا؟ ملک میں کپاس ہو یا گنا، آم ہو یا کینو، ہر پیداوار سے جڑا چھوٹا اور بے زمین کسان مزدور مسلسل پیداواری لاگت میں اضافے کی وجہ نقصان سے دوچار ہوکر غربت و بھوک کا شکار ہورہا ہے، بلکہ مجموعی طور پر ملکی معیشت و صنعت کپاس کی بڑے پیمانے پر برآمد کی وجہ سے بھی بدحالی کا شکار ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ ایک شیطانی چکر ہے جس میں ہر ادارہ جدت پر مبنی نمائشی پالیسیاں ترتیب دے کر زراعت کو ترقی دینا چاہتا ہے، جبکہ زمینی حقیقت یہ تقاضہ کرتی ہے کہ زراعت سے جڑے چھوٹے اور بے زمین کسان مزدوروں کے حق میں پالیسیاں انہیں کے ذریعے ترتیب دی جائیں، ناکہ سرمایہ دار معاشی اداروں اور قانون سازوں کے ذریعے۔ ملک کی 70 فیصد دیہی آبادی ہی خوراک پیدا کرتی ہے، حکومتی صرف ایک پالیسی ان میں بھوک، غربت اور غذائی کمی ختم کرسکتی ہے اور وہ ہے اہم پیداواری وسائل یعنی زمین، بیج پانی پر ان کا اختیار اور زراعت میں سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور زرعی کمپنیوں کے کردار کا خاتمہ۔