2018 فروری

2018 فروری: 1 تا 7 فروری

زمین

ایک مضمون کے مطابق سندھ میں گزشتہ ہفتے بے زمین کسانوں کے لیے (ٹھیکے یا دیگر شرائط پر) زمین کے حصول کو بہتر بنانے کے لیے ایک منصوبے کا آغاز کیا گیا ہے۔ صوبے میں بے زمین کسان (ہاری) عام طور پر زمین جاگیردار سے بغیر کسی کاغذی کارروائی کے کرائے پر (یا دیگر شرائط پر) حاصل کرتے ہیں۔ کاغذی کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے اکثر ہاری جبری مشقت کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ یہ منصوبہ (امپروڈ لینڈ ٹیننسی ان سندھ) عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت (فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزیشن/ ایف اے او) کی جانب سے یورپی یونین کی مالی معاونت سے شروع کیا گیا ہے۔ منصوبے کے تحت اگلے چار سالوں میں آٹھ اضلاع دادو، جامشورو، لاڑکانہ، مٹیاری، میرپورخاص، ٹنڈو الہ یار، ٹنڈو محمد خان اور سجاول میں 12,600 گھرانوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے پانچ ملین ڈالر خرچ کیے جائیں گے۔ ایف اے او کے مطابق ہاریوں اور جاگیرداروں کے درمیان روزگار کو بہتر بنانے اور غربت میں کمی لانے کے لیے 4,800 غیررسمی معاہدے کیے جائیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ یقینی بنایا جائے گا کہ ان علاقوں میں قدرتی وسائل کا بہتر استعمال کیا جائے۔ پاکستان میں ایف اے او کی نمائندہ مینا ڈاؤلاچی نے منصوبے کے فوائد بتاتے ہوئے کہا ہے کہ اس منصوبے پر زمین کے حصول (کرایہ داری)، ماہی گیری اور جنگلات کے ذمہ دارانہ انتظام کے لیے رضاکارانہ رہنما اصولوں (والینٹری گائیڈ لائنز آن دی ریسپونسبل گورنمنٹ آف ٹنیور آف لینڈ، فشریز اینڈ فوریسٹس) کی بنیاد پر عملدرآمد کیا جائے گا۔

(امین احمد، ڈان، 5 فروری، صفحہ4، بزنس اینڈ فنانس)

گندم

یورپی تاجروں کے مطابق گندم کی برآمد کے لیے شروع کیے گئے زرتلافی منصوبے کے بعد پاکستان نے جنوری میں 300,000 ٹن گندم غیرملکی خریداروں کو فروخت کیا ہے جبکہ آئندہ چند دنوں میں مزید 250,000 ٹن گندم کی برآمد کنندگان کو فروخت متوقع ہے۔ کابینہ کمیٹی نے دسمبر میں دو ملین ٹن گندم برآمد کرنے کی اجازت دی تھی جس میں سے 1.5 ملین ٹن پنجاب اور 0.5 ملین ٹن سندھ برآمد کرے گا۔

(بزنس ریکارڈر، 2 فروری، صفحہ3)

مکئی

مونسانٹو پاکستان نے پنجاب میں مکئی کی پیداوار کرنے والے اہم اضلاع میں ’’دیکالب نمبردار‘‘ نامی ایک سفارتکار کسان پروگرام (ایمبیسڈر فارمر پروگرام) کا آغاز کیا ہے۔ پروگرام مکئی کے ہر اہم پیداواری علاقے میں مثالی کسانوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے تاکہ یہ کسان اپنی کسان برادری میں اچھے کاشتکاری طریقوں کے فروغ کے لیے تبدیلی لانے والے کسان (چینج ایجنٹ) کا کردار ادا کریں۔ صوبہ پنجاب میں زیادہ تر چھوٹے کسان ہیں جن کے پاس ضروری زرعی معلومات تک رسائی محدود ہے۔ اس پروگرام کا مقصد ہے کہ کسانوں کے اجتماعی تجربے اور سفارتکار کسان کے (اثر ورسوخ کے) زریعے مکئی کی کاشت کے ہر اہم علاقے میں کسان برادری کو فصل سے متعلق معلومات فراہم کی جائیں۔ یہ سفارتکار کسان صحت مند اور منافع بخش فصل کے لیے جدید زرعی ٹیکنالوجی اور معلومات کی فراہمی کے لیے اپنا مثبت اثرورسوخ کسان ساتھیوں میں استعمال کرینگے اور ان میں آگاہی میں اضافہ کرینگے۔ یہ پروگرام اب تک سات اضلاع بشمول اوکاڑہ، پاکپتن، ساہیوال، چنیوٹ، ویہاڑی، قصور، خانیوال میں شروع کیا گیا ہے اور 500 سے زیادہ کسان سفارتکاروں کو دیکالب نمبردار منتخب کیا گیا ہے۔ مونسانٹو کا یہ پروگرام ملک بھر میں چھوٹے کسانوں تک کمپنی کی رسائی کو بہتر بنانے، انہیں جدید ٹیکنالوجی تک رسائی اور زرعی معلومات فراہم کرنے کے منصوبے کا ایک حصہ ہے۔

(بزنس ریکارڈر، 2 فروری، صفحہ13)

گنا

ضلع بدین میں فعال تمام شوگر ملوں کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ کے احکامات کی کھلی خلاف ورزی جاری ہے۔ سندھ ہائی کورٹ نے مل مالکان کو گنے کی قیمت 160 روپے فی من ادا کرنے کی ہدایت کی تھی لیکن مل مالکان 130 روپے فی من قیمت ادا کررہے ہیں۔ کھوسکی سے تعلق رکھنے والے کاشتکار خلیل احمد بھرگڑی کا کہنا ہے کہ ایک طرف تو مل مالکان گنا 130 روپے فی من خرید رہے ہیں دوسری طرف ملیں رقم کی ادئیگی کے لئے کوئی مخصوص وقت بھی مقرر نہیں کررہی ہیں۔ اس کے علاوہ ملیں مختلف عذر پیش کرکے ایک گاڑی پر لدے گنے کے کل وزن سے 30 فیصد کٹوٹی کررہی ہیں۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ کئی کسان تنظیموں کے رہنماء حکمران جماعت کی طرفداری کرتے ہوئے شوگر ملوں کے نمائندے کے طور پر کام کررہے ہیں۔

(ڈان، 5 فروری، صفحہ17)

مال مویشی

چیئرمین آل پاکستان میٹ ایکسپورٹرز اینڈ پروسسرز ایسوسی ایشن نصیب احمد سیفی نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ مویشیوں کی برآمد اور ان کی ایران اور افغانستان کو بڑھتی ہوئی غیرقانونی فروخت پر توجہ دے جو ملک میں گوشت کی قیمت میں اضافے کی وجہ ہے اور مقامی گوشت کی صنعت اور برآمد کنندگان کو متاثر کررہی ہے۔ چیئرمین نے دعویٰ کیا کہ یومیہ بنیادوں پر تقریباً 300 ٹرالر چمن اور تافتان سرحد کے زریعے افغانستان اور ایران غیرقانونی طور پر برآمد کیے جارہے ہیں۔ ایرانی تاجر ملتان اور بھاولپور کی مویشی منڈیوں میں خریداری کے لیے آتے ہیں اور پیشگی ادائیگی پر مقامی تاجر مطلوبہ مقام تک مویشی پہنچادیتے ہیں۔

(بزنس ریکارڈر، 6 فروری، صفحہ5)

ماہی گیری

حیدرآباد میں ماہی گیروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم نے سندھ میں عالمی اداروں سے کیے گئے وعدوں کی روشنی میں تازہ پانی کی جھیلوں اور آبی وسائل پر قبضے کے خاتمے کے لیے ایک مزاکرے کا اہتمام کیا۔ اس موقع پر مقررین کا کہنا تھا کہ پانی کی یہ جھیلیں دریائے سندھ میں صدیوں سے متواتر رونما ہونے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں وجود میں آئی ہیں۔ سندھ حکومت کے اعداوشمار کے مطابق اس وقت ایسی 1,200 جھیلیں موجود ہیں جن میں سے زیادہ تر جھیلیں بااثر افراد کے قبضے میں ہیں۔ مقررین نے حکومت سندھ سے مطالبہ کیا کہ آبی وسائل اور دلدلی علاقوں کے تحفظ پر مبنی رامسر کنونشن کی پاسداری کی جائے جس پر پاکستان نے 20 نومبر 1976کو دستخط کیے تھے۔ مقررین کا مزید کہنا تھا کہ ضیاء دور میں سندھ فشری آرڈننس 1980 نافذ کرکے ذولفقار علی بھٹو حکومت کے ماہی گیروں کے لیے لائسنس کے نظام کو ختم کردیا گیا تھا۔ ماہی گیروں کو اس ٹھیکیداری نظام کے خاتمے کے لیے طویل جدوجہد کرنی پڑی اور 2007 میں ماہی گیر ٹھیکیداری نظام کے خاتمے میں کامیاب ہوئے، لیکن جھیلوں پر قبضہ اب بھی جاری ہے۔

(ڈان، 3 فروری، صفحہ19)

ماہی گیروں کے حقوق کے لیے سرگرم ایک غیرسرکاری تنظیم نے اعلان کیا ہے کہ وہ سندھ ہائیکورٹ کے احکامات کے مطابق صوبے میں جھیلوں اور آبی ذخائر پر قبضہ ختم کرانے میں ناکامی کے خلاف وزیراعلی ہاؤس کے سامنے دھرنا دیگی۔ تنظیم کے صدر محمد علی شاہ نے یہ اعلان عمرکوٹ میں دھورو نارو ٹاون کے قریب کلنکار جھیل کے کنارے جاری علامتی بھوک ہڑتال کے دوران کیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ تازہ پانی کی جھیلوں کو تباہ کیا جارہا ہے اور عدالتی حکم کے باجود اب تک 600 سے زائد جھیلوں اور آبی وسائل پر سے قبضہ ختم نہیں کروایا جاسکا ہے۔ صرف کلنکار جھیل، عمرکوٹ سے ہی تقریبا 200 سے زائد خاندان جھیل میں مچھلی کا شکار اور پانی کا بہاؤ کم ہونے کی وجہ سے دیگر علاقوں کی طرف نقل مکانی کرچکے ہیں۔

(ڈان، 6 فروری، صفحہ17)

آبپاشی

بلوچستان میں بارانی علاقوں میں زرعی پیداوار کو بہتر بنانے کے لیے ایک نیا ڈیم تعمیر کیا جائے گا۔ مجوزہ سری ٹوئی ڈیم اور اس کا آبپاشی نظام ژوب سے 62 کلومیٹر شمال جنوب میں میر علی خیل یونین کونسل کے مقام پر سری ٹوئی دریا پر قائم قائم ہوگا۔ منصوبہ ایشیائی ترقیاتی بینک کو جمع کروادیا گیا ہے جو اس پر سرمایہ کاری کے لیے جانچ کررہا ہے۔ ڈیم سے متوقع طور پر 4,027 ہیکٹر زمین کو سیراب کیا جاسکے گا جسے محکمہ آبپاشی و توانائی بلوچستان تعمیر کرے گا۔

(ڈان، 5 فروری، صفحہ5)

موسمی تبدیلی

ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے جاری کردہ اور بین الاقوامی موسمی ٹیکنالوجی کے ماہر قمرالزماں چوہدری کی مرتب کردہ رپورٹ ’’کلائمٹ چینج پروفائل آف پاکستان‘‘ میں ملک پر موسمی تبدیلی کے اثرارت کے حوالے سے یہ ہولناک انکشافات کیے گئے ہیں کہ اس صدی کے آخر تک پاکستان کا سالانہ اوسط درجہ حرارت تین سے پانچ ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ سکتا ہے جس کے نتیجے میں پانی کا سنگین بحران، پن بجلی، گندم اور چاول کی پیداوار میں کمی کا امکان ہے۔ اس کے علاوہ شدید گرمی کی لہروں کی وجہ سے شرح اموات میں بھی اضافہ کا امکان ہے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ 30 سالوں میں فی سال گرم لہروں کے دورانیے میں پانچ گنا اضافہ ہوا ہے۔ ماہرین کے مطابق موسمی تبدیلی کے تناظر میں یہ امکان ہے کہ برفانی پہاڑوں کے غیر معمولی پگھلاؤ کی وجہ سے دریاؤں کے بہاؤ میں غیر معمولی تبدیلی پیدا ہونے کے امکانات ہیں۔ رواں صدی کے آخر تک سطح سمندر میں مزید 60 سینٹی میٹر اضافہ متوقع ہے جس سے زیادہ تر زیریں ساحلی علاقے(جنوبی کراچی تا کیٹی بندر اور دریائے سندھ کا ڈیلٹا) متاثر ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ درجہ حرارت میں اضافے کے نتیجے میں پانی کے بخارات میں تبدیل ہوجانے کی شرح میں اضافے کی وجہ سے نہری پانی کی طلب میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے۔

(دی ایکسپریس ٹریبیون، 6 فروری، صفحہ2)

نکتہ نظر

خبروں کا آغاز سندھ میں شروع کیے گئے ایک منصوبے پر لکھے گئے مضمون سے ہوا ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ سندھ حکومت صوبے کے بے زمین کسانوں کے غم میں گھلی جارہی ہے اور سمجھتی ہے کہ غربت میں کمی وسائل کے پائیدار استعمال اور جاگیردار اور ہاریوں کے درمیان کاغذی کارروائی کے ذریعے ہی کی جاسکتی ہے۔ سندھ حکومت کا یہ عمل صوبے کے بے زمین کسانوں کے ساتھ سنگین مزاق سے کم نہیں، لیکن اس حکومت سے اس کے سوا توقع بھی کیا کی جاسکتی ہے جس کے زیادہ تر ارکان خود بڑے بڑے جاگیردار ہیں اور اعلی حکومتی عہدوں پر فائض ہوتے ہوئے بھی قبضہ مافیا کا کردار ادا کررہے ہیں۔ منصوبے کے لیے منتخب کیے گئے تمام آٹھ اضلاع کا شمار سندھ کے غریب پسماندہ اضلاع میں کیا جاتا ہے جہاں کسانوں کی اکثریت صرف اس لیے غربت، بھوک اور غذائی کمی کا شکار ہے کہ وہ بے زمین ہیں۔ صوبے میں کرایہ داری پر مبنی معاہدے میں یورپی یونین اور فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزیشن کی دلچسپی شاید یہی ہوسکتی ہے کہ جاگیرداروں کی زمین، ہاریوں کی محنت کو مقررہ مدت تک مستعار لے کر بین الاقوامی منڈیوں کے لیے مخصوص فصلوں یا نباتاتی ایندھن کی ضروریات پوری کرنے کے لیے پیداوار میں اضافہ کیا جائے۔ مونسانٹو کی جانب سے پنجاب میں مکئی کی پیداوار میں اضافے کی کوششیں بیان کردہ خدشات کو تقویت دیتی ہیں۔ پیداوار میں اضافے کے زریعے غربت میں کمی کا یہ شیطانی چکر ہمیشہ مونسانٹو اور اس جیسی بیج اور دیگر مداخل بنانے والی کمپنیوں کے منافع میں اضافہ کا سبب بنتا ہے نہ کہ کسانوں کی۔ ملک بھر میں غربت اور غذائی کمی کے لیے جاری سرکاری منصوبے خود اس بات کی گواہی دیتے ہیں۔ خبروں میں شامل موسمی تبدیلی کے اثرات پر مبنی رپورٹ لمحہ فکریہ ہے خصوصا ارباب اقتدار کے لیے جو سرمایہ دار ممالک کی ایماء پر غیر پائیدار طریقہ پیداوار کو فروغ دے کر آبادیوں کو موسمی اور غذائی بحران کی جانب دھکیل رہے ہیں۔

2018 فروری: 8 تا 14 فروری

زراعت

ایک مضمون کے مطابق زراعت پاکستانی معیشت کا اہم ترین ستون ہے جس سے ملک کی تقریباً نصف سے زائد افرادی قوت روزگار حاصل کرتی ہے اور یہی شعبہ زرمبادلہ کے حصول کا اہم ذریعہ بھی ہے، تاہم یہ شعبہ ناقص منصوبہ بندی و انتظام کا شکار ہے۔ موجودہ رجحان جو زرعی شعبے میں پیداوار میں اضافے پر زور دیتا ہے دیہی غربت، آبی قلت، غذائی عدم تحفظ، ماحولیاتی اور صحت کے حوالے سے درپیش خطرات جیسے مسائل پر قابو پانے کے لئے ناکافی ہے۔ پاکستان جیسے وسیع زرعی شعبہ رکھنے والے تیسری دنیا کے ممالک کو اپنی افرادی قوت کو روزگار کی فراہمی کے لیے ماحول دوست طریقہ زراعت پر انحصار کرنے کی ضرورت ہے بجائے اس کے کہ زرعی پیداوار کے لئے امیر (سرمایا دار) طبقہ کی وضع کردہ منڈی پر مبنی حکمت عملی پر بھروسہ کریں۔ نام نہاد ’’سبز انقلاب‘‘ ملک میں زرعی پیداوار میں اضافے کے زریعے خوراک کی درآمد کو کم کرنے کے لیے پیش کیا گیا تھا۔ تاہم اس پالیسی کو اپنانے سے ملک کا انحصار مہنگی (کیمیائی مداخل، کمپنیوں کے بیج اور مشینری کے زریعے کی جانے والی) زراعت پر بڑھ گیا۔ اس کے علاوہ ’’سبز انقلاب‘‘ ماحول کو متاثر کرنے کا باعث بنا اور صنعتی طریقہ زراعت میں اضافہ کی وجہ سے غریب کسان خاص طور پر بٹائی پر کاشت کرنے والے کسان زمین سے محروم ہوگئے۔ زرعی بڑھوتری کے لیے متعارف کروائی جانے والی آج کی پالیسیاں اس (سبز انقلاب) سے مختلف نہیں۔ ان پالیسیوں کے فوائد بھی بڑے پیمانے پر چھوٹے اور بے زمین کسانوں کو نہیں پہنچتے اور وہ لوگ جو شہروں میں کچی آبادیوں میں منتقل نہیں ہوئے کسی اور (جاگیرداروں) کی زمین پر یومیہ یا موسمی بنیادوں پر کام کرنے پر مجبور ہیں تاکہ فصلیں پیدا کی جاسکیں اور ان سے زرمبادلہ حاصل ہو بجائے اس کے کہ اس پیداوار سے غریب گھرانوں کے غذائی تحفظ میں کوئی بہتری ہو۔

(سید محمد علی، دی ایکسپریس ٹریبیون، 9 فروری، صفحہ16)

زمین

فوج، ادارہ ترقیات اسلام آباد (کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی) اور فیڈرل گورنمنٹ امپلائز ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کے درمیان طویل عرصے سے جاری زمین کا تنازعہ اسلام آباد میں سیکریٹری وزارت دفاع کی سربراہی میں ہونے والے ایک اجلاس میں حل کرلیا گیا ہے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ادارہ ترقیات اسلام آباد سیکٹر جی۔13 میں وزارت ہاؤسنگ کے زیر قبضہ فوج کی زمین کے متبادل کے طور پر فوج کو سیکٹر ایف۔12 میں 33 ایکٹر زمین دے گا اور ادارہ ترقیات اسلاآباد کو (سیکٹر جی۔13 کی) زمین کے بدلے سیکٹر ایف۔12/3 میں فوج کی زمین دی جائے گی۔ تقسیم سے پہلے ہی اسلام آباد کے متعدد علاقوں میں زمین فوج کی ملکیت میں ہے اور سیکٹر جی۔13 میں زمین بھی برطانوی دور سے فوج کی ملکیت میں ہے۔ زرائع کے مطابق سیکٹر جی۔12، جی۔13، جی۔14 اور کشمیر ہائی وے کے ساتھ کی زمین، جس پر ملٹری لینڈ اینڈ کنٹونمنٹ ڈائریکٹوریٹ اور راولپنڈی کنٹونمنٹ بورڈ ملکیت کا دعوی کرتی ہے، کا مسئلہ بھی حل کرلیا گیا ہے اور اب فوج کو سیکٹر ایچ۔13 میں متبادل زمین دیے جانے کا امکان ہے۔

(ڈان، 8 فروری، صفحہ4)

کراچی پریس کلب کے باہر گڈاپ، ملیر اور ٹھٹھہ کے دیہات سے تعلق رکھنے والوں نے رہائشی منصوبے کی تعمیر کے لیے جبراً دیہات سے بیدخل کرکے دربدر کیے جانے کے خلاف احتجاجی مظاہ کیا ہے۔ مقامی لوگوں کے حقوق کے لیے سرگرم ادارہ انڈیجنس رائٹس الائنس کراچی نے ہزاروں ایکٹر پر بننے والے بحریہ ٹاؤن کے خلاف اس احتجاجی مظاہرے کا اہتمام کیا۔ مصنف اور مقامی لوگوں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن گل حسن کلمتی کے مطابق ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور بورڈ آف ریونیو نے بحریہ ٹاؤن کو صرف 9,000 سے 11,000 ایکڑ زمین فراہم کی تھی لیکن بحریہ ٹاؤن انتظامیہ 45,000 ایکڑ سے زیادہ زمین پر ترقیاتی کام کررہی ہے۔ اس کے علاوہ کمپنی نے کئی تاریخی مقامات کو بھی مسمار کردیا ہے۔

(ڈان، 10 فروری، صفحہ18)

پنجاب لینڈ ریکارڈ اتھارٹی نے 141 تحصیلوں میں قائم 151 اراضی ریکارڈ سینٹرز کے ڈیٹا کو مرکزی نظام سے منسلک کردیا ہے۔ مرکزی ڈیٹا بیس ارفہ کریم ٹاور، لاہور میں قائم کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے زمین کا ریکارڈ صرف متعلقہ اراضی سینٹرز پر ہی دستیاب تھا۔ ڈیٹا کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے اسلام آباد میں بھی ایک مرکز قائم کیا گیا ہے جہاں تمام ڈیٹا محفوظ کیا جاچکا ہے۔

(دی ایکسپریس ٹریبیون، 10 فروری، صفحہ11)

امرود

محکمہ زراعت پنجاب نے صوبے کے مخصوص اضلاع میں امرود کی کاشت کو فروغ دینے کے لیے منصوبہ بندی کی ہے جس کا مقصد امرد کی پیداوار میں بڑے پیمانے پر اضافہ کرنا اور مخصوص اضلاع میں کامیابی کے بعد اس منصوبے کو دیگر اضلاع تک بڑھانا ہے۔ منصوبے کے تحت تحصیل کی سطح پر امرود کی پیداوار میں اضافے اور اسے منافع بخش بنانے کے لیے 10 ایکڑ سے زیادہ زمین تیار کی جارہی ہے۔ امرود کے یہ آزمائشی باغات کسانوں کی رہنمائی کے لیے سیالکوٹ، لاہور، ناروال، گجرانوالہ اور حافظ آباد میں تیار کیے جارہے ہیں۔

(بزنس ریکارڈر، 9 فروری، صفحہ18)

چاول

سینئر وائس چیرمین رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان رفیق سلیمان کے مطابق رواں مالی سال کے ابتدائی سات ماہ میں چاول کی برآمد ایک بلین ڈالر سے بڑھ چکی ہے۔ جولائی تا جنوری 2017-18 کے درمیان 2.28 ملین ٹن چاول برآمد کیا گیا ہے جبکہ گزشتہ سال اسی مدت کے دوران 1.971 ملین ٹن چاول برآمد کیا گیا تھا۔ امید ہے کہ اس سال چار ملین ٹن چاول کی برآمد کا ہدف پورا ہوجائے گا۔

(ڈان، 10 فروری، صفحہ10)

زرعی قرضے

قومی اسمبلی کے اجلاس میں حزب اختلاف نے حکومت پر زرعی قرضوں کی غیرمنصفانہ تقسیم پر تنقید کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ زیادہ تر زرعی قرضے صوبہ پنجاب کو دیے گئے ہیں۔ قومی اسمبلی کو بتایا گیا کہ گزشتہ سال زرعی ترقیاتی بینک کی جانب سے فراہم کیے گئے کل زرعی قرضوں کا 88 فیصد پنجاب کو اور بقیہ تین صوبوں سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے درمیان تقسیم کیا گیا۔ قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے شرح سود پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ عوام کے ساتھ ناانصافی ہے کہ سرکاری بینکوں کے زرعی اور رہائشی قرضوں پر شرح سود نجی تجارتی بینکوں کے مقابلے کہیں زیادہ ہے‘‘۔ اس حوالے سے وزیر مملکت برائے خزانہ رعنا افضل نے کہا کہ گزشتہ سال زرعی ترقیاتی بینک کی جانب سے ایک بلین روپے کے زرعی قرضوں میں سے 77 فیصد پنجاب کو قابل کاشت زمین کی بنیاد پر دیے گئے تھے۔ دیگر تین صوبے قرضوں کے لیے فراہم کردہ رقم استعمال نہیں کرسکے تھے۔

(ڈان، 14 فروری، صفحہ3)

کسان مزدور

ایک خبر کے مطابق سندھ حکومت نے پہلی لیبر پالیسی (سندھ لیبر پالیسی 2018) جاری کردی ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ پالیسی تمام شراکت داروں کی باہمی مشاورت سے تیار کی گئی ہے۔ پالیسی کے اجراہ کے موقع پر صوبائی وزیر محنت و انسانی وسائل ناصر شاہ کا کہنا تھا کہ یہ پہلی سہہ فریقی لیبر پالیسی ہے جسے حکومت، محنت کشوں اور آجروں کی جانب سے متفقہ طور پر منظور کیا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی سندھ کے صدر نثار احمد کھوڑو نے کہا کہ یہ پالیسی زرعی شعبے میں کام کرنے والے مزدوروں، گھروں میں کام کرنے والے مزدوروں اور دیگر شعبہ جات کے مزدوروں کا احاطہ کرتی ہے اور مکمل طور صنفی مساوات کو یقینی بناتی ہے۔ پالیسی کے مطابق آجروں کے تعاون سے مزدوروں کو پیشہ ورانہ تربیت دینے کے لیے نظام تشکیل دیا جائے گا، دیہی اور شہری علاقوں میں نجی شعبے میں ملازمت کے مزید مواقع پیدا کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے، دیہی معیشت کو سہارا دینے اور بیروزگار محنت کشوں کے لیے دیہی علاقوں میں صنعتوں کے قیام کے لیے انڈسٹریل سپورٹ سینٹرز قائم کیے جائیں گے، عورتوں کے لیے کام کی جگہ پر ہراسانی سے پاک موزوں سماجی ماحول اور برابری کی بنیاد پر اجرت کی ضمانت دی جائے گی۔ محنت کشوں کو تنظیم سازی اور اس میں شمولیت کا حق دیا جائے گا۔ صنعتوں میں ٹریڈ یونین قائم کرنے کے لیے موجودہ مزدور قوانین میں ترمیم ہوگی اور مزدور قوانین کو سندھ حکومت کی جانب سے توثیق کردہ عالمی قوانین و ضابطوں سے ہم آہنگ کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ ٹھیکیداری نظام (کنٹریکٹ لیبر سسٹم) کو موجودہ مزدور قوانین اور اعلی عدالتوں کے احکامات کی روشنی میں ریگولیٹ کیا جائے گا۔ گھروں میں کام کرنے والے مزدوروں کے حقوق و ذمہ داریوں کی جانچ (نگرانی) کرنے اور ان کے اعداوشمار اکھٹے کرنے کے لیے سندھ ہوم بیسڈ ورکرز بورڈ قائم کیا جائے گا۔ اس کے علاہ زرعی مزدوروں کی تنظیم سازی کی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے جامع قانون سازی کی جائے گی اور ایسا ماحول تیار کیا جائے گا جس میں جاگیرداروں کی جانب سے زرعی مزدورں کے حقوق تسلیم کیے جاتے ہوں۔ ایسے مزدور قوانین اور ادارے بنائے جائیں گے جن سے زرعی مزدوروں کی ضروریات پوری ہونی چاہیے۔ پالیسی کے مطابق کم سے کم اجرت حقیقی اجرت سے تبدیل ہوگی جس کے لیے منیمم ویج کونسل قائم ہوگی جو پیشہ ورانہ اور غیرپیشہ وارانہ مزدوروں کی اجرت کا تعین کرے گی۔ پالیسی میں بچوں کی مشقت اور جبری مشقت کے مکمل خاتمے کو یقینی بنانے کا دعوی بھی کیا گیا ہے۔

(ڈان، 11 فروری، صفحہ17)

غذائی کمی

وفاقی وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشن اینڈ کوآرڈینیشن نے آغا خان یونیورسٹی اور یونیسیف کے اشتراک سے نیشنل نیوٹریشن سروے کی منصوبہ بندی کی ہے۔ 2011 کے نیشنل نیوٹریشن سروے کے بعد اس طرح کا یہ دوسرا سروے ہے۔ 2011 کا سروے پاکستان میں عورتوں اور بچوں کی صحت کے حوالے سے واضح منظر کشی کرتا ہے۔ اس سروے میں 44 فیصد بچے اپنی عمر کے حساب سے نشونما میں کمی کے شکار پائے گئے تھے جبکہ تقریبا آدھے گھرانے یا تو بھوک یا بھوک کے خطرے سے دوچار پائے گئے۔ آغا خان یونیورسٹی کے پروفیسر اقتدار احمد خان کا کہنا ہے کہ 2011 کا سروے ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان ان دس ممالک میں سے ایک ہے جہاں آدھی سے زیادہ آبادی وزن میں کمی یا وزن میں زیادتی دونوں صورتوں میں غذائی کمی سے متاثر ہے۔ وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشن اینڈ کوآرڈینیشن کے نیوٹریشن ونگ کے ڈائریکٹر بشیر اچکزئی کے مطابق 2018 کا سروے ملک بھر میں سندھ، پنجاب، خیبرپختونخوا، بلوچستان سمیت فاٹا، آزاد جموں وکشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی کیا جائے گا۔ اس سروے میں ملک بھر سے 115,500 گھرانوں سے معلومات اکھٹی کی جائیں گی۔ ادارہ شماریات پاکستان اور پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسس اس سروے میں بطور تکنیکی شراکتدار کردار ادا کرینگے جو 13 ماہ میں مکمل ہوگا۔

(ڈان، 13 فروری، صفحہ17)

متبادل توانائی

وزیر اعلی پنجاب کی ہدایت پر محکمہ زراعت پنجاب نے فصلوں سے حاصل ہونے والے نباتاتی فضلے کا تخمینہ لگانے اور متبادل ذرائع سے بجلی کی پیداوار کا جائزہ لینے کے لیے ایک ادارہ ’’کراپ بائیو ماس سیل‘‘ قائم کیا ہے۔ حکام کے مطابق اس ادارے کے قیام کا مقصد فصلوں سے حاصل ہونے والے فضلے کی جانچ اور کم رقبے پر کاشت کی جانے والی دیگر فصلوں کے اعدادوشمار اکھٹے کرنا ہے۔ ادارہ نباتاتی فضلے سے توانائی پیدا کرنے میں مہارت رکھنے والے ملکی و غیرملکی اداروں کے ساتھ تحقیق و تعاون پر بھی توجہ مرکوز کرے گا۔ پنجاب سالانہ 50 ملین ٹن زرعی فضلہ پیدا کرتا ہے جس میں سے 6.44 ملین ٹن گنے سے حاصل ہوتا ہے جسے شوگر ملیں بجلی کی پیداوار کے لیے استعمال کررہی ہیں۔

(بزنس ریکارڈر، 9 فروری، صفحہ18)

نکتہ نظر

اس ہفتے سرفہرست زرعی شعبے میں جاری پالیسیوں کے حوالے سے لکھا گیا مضمون زرعی شعبے کو درپیش مسائل، اس کے حل کے لیے کھوکھلی حکومتی پالیسوں اور چھوٹے و بے زمین کسان مزدوروں کے حالات واضح کررہا ہے۔ ملک بھر میں ترقی اور خوشحالی کے نام پر مقامی لوگوں کو دربدر کرنے کا سلسلہ ملیر اور گڈاپ کے قدیم دیہات میں رہنے والوں کو ایک بار پھر سڑک پر لے آیا ہے جو پہلے بھی اپنی آبائی زمینوں سے جبراً بیدخل کیے جانے کے خلاف آواز بلند کرچکے ہیں۔ وقت کی اشد ضرورت ہے کہ ان کمزور آوازوں میں ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد اپنی آواز شامل کریں کہ شاید یہ آواز ایوان اقتدار کی اس منزل تک پہنچ پائے جہاں ایک اجلاس میں ہی بڑے بڑے زمینی رقبوں پر قبضے اور تنازعات کا حل باہمی رضامندی سے نکل آتا ہے۔ ملک کی حقیقی خوشحالی اور ترقی کے لیے ضروری ہے کہ ملکی وسائل اور فیصلہ سازی پر اختیار عوام کا ہو۔ وسائل کا پائیدار استعمال ہی بھوک، غربت، غذائی کمی، آبی قلت، موسمی تبدیلی کے اثرات اور ماحولیاتی مسائل سے بچاؤ کا راستہ ہے۔

2018 فروری:15 تا 21 فروری

کسان مزدور

نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن اور سندھ ایگریکلچر جنرل ورکرز یونین کے ارکان نے سندھ انڈسٹریل ریلیشن ایکٹ نافذ نہ کیے جانے کے خلاف کراچی پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ چار سالوں سے سندھ انڈسٹریل ریلیشن ایکٹ صرف کاغذوں تک محدود ہے۔ صوبائی حکومت اور اس کے اداروں نے اس قانون کے نفاذ کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ 18 ویں ترمیم کے نتیجے میں صوبوں کو اختیارات منتقل ہونے کے بعد نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن اور مزدور یونینوں کا کسانوں اور ماہی گیروں کو باقاعدہ مزدور کا درجہ دینے کا دیرینہ مطالبہ منظور کرتے ہوئے صوبائی اسمبلی نے سندھ انڈسٹریل ریلیشن ایکٹ منظور کیا تھا۔ یہ ایک تاریخی قدم تھا جس میں ماہی گیروں اور ہاریوں کے تنظیم سازی، پنشن، فلاحی منصوبے اور سماجی تحفظ کے مطالبے کے حقوق تسلیم کیے گئے تھے۔ تاہم مزدور اب تک اس قانون کے فوائد سے محروم ہیں کیونکہ حکومت سندھ اور محکمہ محنت نے اب تک اس ایکٹ کے قوائد وضع نہیں کیے ہیں۔ مزدور آج بھی خطرناک، غیر انسانی ماحول میں کام کررہے ہیں۔ باقائدہ تربیت کے بغیر فصلوں پر زہریلے چھڑکاؤ اور کھاد کے استعمال سے ان کسان مزدورں کی زندگی خطرے سے دوچار رہتی ہے۔ مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ صوبے بھر میں کسان عدالتیں قائم کی جائیں، کام کی جگہ پر مزدورں کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے، ہاری اور مزدوروں کو قانون سازی کے زریعے قانونی تحفظ فراہم کیا جائے۔ مظاہرین نے مزید مطالبہ کیا کہ مزدوروں کے نمائندوں کو بھی سندھ انڈسٹریل ریلیشن ایکٹ کے قوائد بنانے کے لیے سہہ فریقی کمیٹی میں شامل کیا جائے تاکہ وہ بھی سماجی تحفظ حاصل کرسکیں۔
(ڈان، 16 فروری، صفحہ18)

زراعت

امریکی امدادی ادرہ برائے بین القوامی ترقی (یو ایس ایڈ) کی مدد سے 13 پاکستانی زرعی کاروباری ادارے 18 سے 22 فروری تک دبئی میں ہونے والی نمائش گلف ایکسپو 2018 میں اعلی معیار کا حلال گوشت، بے موسمی سبزیاں اور کینو نمائش کے لیے پیش کریں گے۔ اس نمائش میں پاکستان کی شرکت سے ملکی زرعی برآمدات کے فروغ میں مدد ملے گی اور پاکستانی زرعی کاروبار کرنے والوں کو بین الاقوامی خریداروں اور فروخت کنندگان سے رابطوں کے مواقع میسر آئیں گے۔ یو ایس ایڈ نے زرعی کاروبار سے وابستہ نو عورتوں کے لیے چار روزہ دورے کا اہتمام بھی کیا ہے۔ یہ عورتیں دبئی میں تھوک منڈیوں اور بڑی خوردہ فروش منڈیوں کا دورہ کریں گی تاکہ وہ عالمی منڈی میں زرعی اشیاء کے مطلوبہ معیار کے حوالے سے ضروریات کو بہتر طریقے سے سمجھ سکیں۔ دبئی میں ہونے والی اس نمائش میں 120 ممالک حصہ لے رہے ہیں۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 17 فروری، صفحہ20)

آسٹریلیا بلوچستان ایگری بزنس پروگرام  کے تحت ایف اے او نے حاجی سنز (رائل سیڈز اینڈ سیڈلنگز، لاہور) اور ایگریکلچر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، حکومت بلوچستان کی معاونت سے کھیتوں میں پانچ روزہ عملی تربیت کا اہتمام کیا۔ اس تربیت میں کوئٹہ، نوشکی اور چاغی سے نیا کاروبار شروع کرنے والی 20 عورتوں، 10 مردوں اور حکومت بلوچستان کے تحقیقی عملے نے بھی حصہ لیا۔ تربیت میں بیج کو سنبھالنے، پنیری تیار کرنے اور اسے منتقل کرنے اور دیگر متعلقہ موضوعات شامل تھے۔ پنیری کی پیداوار عورتوں کے لیے زرعی کاروباری سرگرمی بن سکتی ہے اور عورتیں اپنے گھروں میں کیاریوں میں بھی پنیری کاشت کرکے آمدنی حاصل کرسکتی ہیں۔

(دی ایکسپریس ٹریبیون، 19 فروری، صفحہ7)

غذائی کمی

اقوام متحدہ کی صنفی امتیاز پر جاری کردہ تازہ رپورٹ ’’ٹرننگ پرومسس ان ٹو ایکشن : جینڈر ایکویلٹی ان دی 2030 ایجنڈا‘‘ سندھ میں سنگین غذائی کمی ظاہر کرتی ہے جہاں دیہی عورتوں میں غذائی کمی کی صورتحال نائجیریا کی دیہی عورتوں سے بھی بدتر ہے۔ عالمی رہنماؤں کی جانب سے پائیدار ترقیاتی اہداف (ایجنڈا 2030) اپنانے کے دو سال بعد جاری کردہ اس رپورٹ میں تمام 17 ترقیاتی اہداف کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ خواتین و لڑکیوں کی زندگی پر ان اہداف کے اثرات بھی رپورٹ میں پیش کئے گئے ہیں۔ نائجیریا میں 18.9 فیصد دیہی عورتیں وزن میں کمی کا شکار ہیں جبکہ سندھ کے دیہی علاقوں میں 40.6 فیصد عورتیں وزن میں کمی کا شکار ہیں۔
(ڈان، 16 فروری، صفحہ17)

بچوں کی بہبود کے عالمی ادارے یونیسف کی جاری کردہ رپورٹ ’’ایوری چائلڈ الائیو، دی ارجنٹ نیڈ ٹو اینڈ نیو بورن ڈیتھس‘‘ کے مطابق پاکستان میں نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ سال 2016 میں پاکستان میں ہر 1,000 میں سے 46 بچے اپنی پیدائش کے پہلے ماہ ہی بچے موت کا شکار ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق 80 فیصد سے زیادہ ان اموات کو اعلی تربیت یافتہ ڈاکٹروں، نرسوں، دوران حمل اور زچگی کے بعد عورتوں کو غذائیت اور صاف پانی کی فراہمی کے ذریعے روکا جاسکتا ہے۔

 (ڈان، 21 فروری، صفحہ1)

گندم

یورپی تاجروں کے مطابق گزشتہ ہفتے مزید 200,000 ٹن گندم برآمد کے لیے فروخت کیا جاچکا ہے۔ حکومت کی جانب سے زرتلافی دیے جانے کے بعد جنوری سے اب تک مجموعی طور پر 700,000 ٹن گندم فروخت کیا جاچکا ہے۔ گندم بنگلہ دیش، سری لنکا، مشرقی افریقہ، ویتنام، ملیشیا، متحدہ عرب امارات اور افغانستان کو فروری سے اپریل کے آخر تک برآمد ہوگا۔

(بزنس ریکارڈر، 17 فروری، صفحہ20)

گنا

کسانوں کی جانب سے مظفر گڑھ میں واقع حسیب شوگر، بھاولپور میں واقع اتفاق شوگر مل اور رحیم یار خان میں واقع چودھری شوگر مل کو پھر سے کھولنے کے لیے دائر کردہ درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ عدالت کے حکم پر بند کی گئی شوگر ملیں دوبارہ نہیں کھولی جائیں گی البتہ شوگر ملوں کو کہا جاسکتا ہے کہ وہ کسانوں کے نقصان کی تلافی کریں۔ درخواست میں کسانوں کو موقف تھا کہ اگر بند کی گئی شوگر ملوں کو چلانے کی اجازت نہ دی گئی تو ان کی گنے کی فصل ضائع ہوجائے گی۔ عدالت نے یہ درخواست رد کرکے دیگر پانچ شوگرمل مالکان کو ہدایت کی ہے کہ وہ کسانوں سے گنا خریدیں۔

(دی ایکسپریس ٹریبیون، 20 فروری، صفحہ3)

کپاس

رواں سال (2017-18) ملک میں کپاس کی پیداوار میں گزشتہ سال کے مقابلے 7.49 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 15 فروری تک کل 11.485 ملین گانٹھیں کپاس کی پیداوار ہوئی ہے جو گزشتہ موسم میں 10.685 ملین گانٹھیں تھی۔ پیداوار میں معمولی اضافے سے یہ واضح ہے کہ کپاس کی پیداوار کو زیر کاشت رقبے میں کمی اور تحقیق کے فقدان سمیت کئی طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔ یہ مسلسل تیسرا سال ہے کہ کپاس کی پیداوار جو 2014-15 میں 15 ملین گانٹھیں تھی کم ہوتے ہوئے 10 سے 11 ملین گانٹھوں پر آگئی ہے۔ یہ حوصلہ افزا بات ہے کہ سندھ میں کپاس کی پیداوار میں بڑھوتری 12.32 فیصد ہے جبکہ پنجاب میں بڑھوتری کی شرح 4.8 فیصد ہے۔ سابق چیئرمین آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) یاسر صدیق کا کہنا ہے کہ کپاس کے حوالے سے پالیسی ترتیب دینے اور اس کو دوسری فصلوں پر فوقیت دینے کی ضرورت ہے۔ فوری طور پر گنا اور گندم کی کاشت پر پابندی کے ذریعے کپاس کے زیر کاشت رقبے میں اضافہ کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
(ڈان، 20 فروری، صفحہ10)

ورلڈ وائلڈلائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) پاکستان اور کراچی کاٹن ایسوسی ایشن کی جانب سے منعقد کردہ ایک اجلاس میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں کاشت ہونے والی نامیاتی (آرگینک) کپاس کو عالمی اداروں کی جانب سے اگلے سال تصدیقی سند دے دی جائے گی۔ یہ اجلاس تصدیق شدہ نامیاتی کپاس کی پیداوار کے لیے کی جانے والی کوششوں پر بحث کے لیے منعقد کیا گیا تھا جس میں بیج، پیداوار، طلب، ترسیلی نظام اور کاشتکاروں اور کپڑا ملوں کے درمیان روابط پر بھی بات کی گئی۔ نامیاتی کپاس بغیر کسی کیمیائی کھاد اور زہریلے چھڑکاؤ کے کاشت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ نامیاتی کپاس کے لیے جینیاتی بیج استعمال نہیں کیا جاتا اور اسے کیمیائی اجزاء سے پاک رکھا جاتا ہے۔ ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ اور کنٹرول یونین سری لنکا نے 2015 میں بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں 500 کپاس کے کاشتکاروں کی جانچ کی تھی اور 2016 میں بلوچستان کے ضلع لسبیلہ، سبی اور بارکھان میں نامیاتی کپاس کی پیداوار کے منصوبے کا آغاز کیا تھا۔ اس منصوبے کا مقصد نامیاتی کپاس کاشت کرنے والے کسانوں کی آمدنی اور پیداوار کو کسانوں کی صلاحیتوں میں اضافے کے ذریعے بڑھانا تھا۔ ابتدائی طور پر ملک میں نامیاتی کپاس کی 50,000 گانٹھوں کی پیداوار متوقع ہے۔ پاکستان اس وقت تقریبا 400,000 نامیاتی کپاس کی گانٹھیں درآمد کرتا ہے جس میں سے زیادہ تر بھارت سے درآمد کی جاتی ہیں۔
(ڈان، 21 فروری، صفحہ10)

پانی

وفاقی وزیر آبی وسائل سید جاوید علی شاہ نے سینٹ بتایا ہے کہ اگلے دس دنوں میں قومی آبی پالیسی پیش کردی جائے گی۔ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ پالیسی مسودے میں کچھ ضروری ترامیم کی ضرورت ہے جس کے لیے ماہرین کی جانب سے مزید دس دن مانگے گئے ہیں۔ اس مسودے میں صوبوں کی مشاورت سے تجاویز شامل کی گئی ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ کوٹری بیراج سے سمندر میں گرنے والے پانی کا اوسط حجم 1976-77 میں خریف کے موسم میں 64.05 ملین ایکڑ فٹ اور ربیع میں 5.03 ملین ایکڑ فٹ تھا جبکہ 2016-17 میں پانی کا اخراج خریف میں 10.49 ملین ایکڑ فٹ اور ربیع میں 0.08 ملین ایکڑ فٹ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 16 فروری، صفحہ3)

مال مویشی

ضلع مردان میں انجمن کاشتکاران نے محکمہ مال مویشی کے دفتر کی 22کنال زمین پر کھیل کا میدان بنانے کے صوبائی حکومت کے فیصلہ کو مسترد کردیا ہے۔ کسانوں کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ محکمہ مال مویشی کے دفتر کو منہدم کرکے اس پر کھیل کا میدان تعمیر کیا جائے گا جس کی کسان مزمت کرتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ کسانوں کو مراعات فراہم کرے صوبائی حکومت نے کسان دشمن فیصلے شروع کردیے ہیں۔ محکمہ مال مویشی کا یہ دفتر ضلع کے 85 فیصد کسانوں کو سہولیات فراہم کرتا ہے۔ کسانوں نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت کھیل کا میدان کسی اور کھلے مقام پر تعمیر کرے بجائے اس کے کہ محکمہ مال مویشی کا دفتر منہدم کیا جائے۔
(بزنس ریکارڈر، 16 فروری، صفحہ12)

ماحول

سپریم کورٹ کے مقرر کردہ کمیشن کے سربراہ جسٹس عامر ہانی مسلم نے کارخانوں میں فضلہ صاف کرنے کی سہولیات کا معائنہ کرنے کے لیے عدالتی مجسٹریٹ کو کارخانوں میں داخلے سے روکنے اور عملے سے بدسلوکی پر چیف سیکریٹری سندھ محمد رضوان میمن پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔ عدالتی مجسٹریٹ اور محکمہ تحفظ ماحولیات سندھ کے افسران نے شکایت کی تھی کہ انہیں 77 کارخانوں میں داخل نہیں ہونے دیا گیا۔ عدالتی عملے سے بدسلوکی کی گئی جس پر ایڈوکیٹ جنرل کو فوری طور پر پولیس سربراہ کو طلب کرنے کے لیے کہا گیا تاکہ کارخانوں کے مالکان کے خلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی کرنے کے احکامات دیں۔ تاہم پولیس سربراہ سپریم کورٹ میں مصروفیت کی وجہ سے پیش نہیں ہوسکے۔ کمیشن نے 77 کارخانوں کے مالکان کو نوٹس جاری کیا ہے کہ وہ خود پیش ہوکر تحریری وضاحت پیش کریں کے عملے کو کیوں کارخانوں میں داخل نہیں ہونے دیا گیا۔
(دی ایکسپرس ٹریبیون، 17 فروریِ، صفحہ4)

نکتہ نظر

زرعی شعبے میں عورتوں کو بااختیار بنانے کے لیے کاروباری مواقع فراہم کرنے کا یو ایس ایڈ کا منصوبہ ہو یا بلوچستان میں عورتوں کو بیج اور پنیری کے کاروبار سے وابستہ کرکے انہیں روزگار کے مواقع فراہم کرنے کا ایف اے او اور آسٹریلین حکومت کا منصوبہ، ایسے تمام تر اقدامات کے نتائج ملک میں خصوصاً سندھ میں بدترین غذائی کمی کی شکار عورتوں کے اعداوشمار سے واضح ہیں کہ جہاں نیم جاگیرداری سرمایہ داری نظام میں موجودہ غیر پائیدار طریقہ پیداوار اور پیداواری وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہرگز غربت، بھوک، غذائی کمی، بیروزگاری اورصنفی مساوات جیسے مسائل کا حل نہیں ہوسکتی جس میں ضرورت سے زیادہ غذائی پیداوار عوامی خزانے سے زرتلافی دے کر برآمد کی جاتی ہے۔ یہی وہ عوامل ہیں کہ ملک میں غذائی کمی اور دیگر بنیادی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے نومولود بچوں کی شرح اموات دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔

2018 فروری:22 تا 28 فروری

زراعت

چیئرمین پاکستان ایگری کلچرل ریسرچ کونسل (پارک) ڈاکٹر یوسف ظفر نے پاکستان میں زراعت کے مستقبل کے عنوان پر ہونے والے ایک ورکشاپ میں کہا ہے کہ سی پیک میں زرعی شعبہ کو معقول اہمیت نہیں دی جارہی۔ سی پیک منصوبہ میں زرعی شعبے کا کوئی کردار نہیں تاہم نیشنل ایگری کلچرل ریسرچ سینٹر (نارک) کی جانب سے سی پیک کے تحت ایگری کلچر زون بنانے کی کچھ تجاویز دی گئی تھیں جو زیر غور ہیں۔ چیئرمین پارک کا مزید کہنا تھا کہ کل برآمدات میں زرعی شعبے کا حصہ 57 فیصد ہے۔ مجموعی قومی پیداوار میں زراعت کا حصہ 19.8 فیصد ہے جس میں مال مویشی شعبہ کا حصہ 58 فیصد، فصلیں 40 فیصد جبکہ ماہی گیری اور جنگلات کا حصہ ایک ایک فیصد ہے۔ پاکستان میں گندم، چاول، چینی، مکئی اور آلو ضرورت سے زیادہ ہے کیونکہ ملک میں سال 2016-17 کے دوران 25 ملین ٹن گندم، 6.85 ملین ٹن چاول، 5.6 ملین ٹن چینی، 6.13 ملین ٹن مکئی اور 3.8 ملین ٹن آلو کی پیداوار ہوئی تھی۔ ڈائریکٹر جنرل محکمہ تحفظ نباتات (ڈپارٹمنٹ آف پلانٹ پروٹیکشن) ڈاکٹر وسیم الحسن کا کہنا تھا کہ چین اور امریکہ اپنے کسانوں کو تحفظ دینے کے لیے پاکستانی زرعی اشیاء درآمد کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ پاکستان نے گزشتہ سال سے ٹماٹر کی درآمد پر پابندی عائد کرکے 12 بلین روپے بچائے ہیں۔ پیاز کی درآمد پر بھی پابندی عائد کی گئی تھی اور آج پاکستان پیاز برآمد کرنے والا ملک بن چکا ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 22 فروری، صفحہ3)

زیتون

بارانی ایگریکلچر ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ، چکوال نے امریکی امدادی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) کے پنجاب میں ماحولیاتی منصوبے پنجاب انوائرنمنٹ اینبلنگ پروجیکٹ کے ساتھ مفاہمت کی ایک یاداشت پر دستخط کیے ہیں۔ معاہدے کے تحت زیتون کی کاشت کے لیے جدید ٹیکنالوجی پر مبنی تربیتی مرکز سینٹر آف ایکسیلنس فار اولیو ریسرچ اینڈ ٹریننگ قائم کیا جائے گا تاکہ کسانوں اور دیگر شراکت داروں کو جدید طریقوں پر تربیت دی جاسکے۔ معاہدے کے تحت تربیتی مرکز کے قیام کے لیے حکومت پنجاب 279.88 ملین روپے جبکہ یو ایس ایڈ 10.35 ملین روپے فراہم کرے گا۔
(بزنس ریکارڈر، 23 فروری، صفحہ5)

پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل (پارک) نے بلوچستان میں 120,000 زیتون کے درخت لگائے ہیں۔ چیئرمین پارک ڈاکٹر یوسف ظفر کا کہنا ہے کہ 60,000 زیتون کے پودے مقامی نرسریوں میں تیار کئے گئے ہیں اور بقیہ 60,000 اٹلی سے درآمد کئے گئے ہیں۔ زیتوں کے درخت کل 14,000 ایکڑ زمین پر کاشت کیے جائینگے۔ زیتون کا تیل کشید کرنے کے لئے 2.25 بلین روپے کی لاگت سے کوئٹہ میں ایک کارخانہ بھی قائم کیا جارہا ہے۔ اسکے علاوہ پارک نے تربت اور لسبیلہ میں 300 ملین روپے کی لاگت سے دو مراکز بھی قائم کیے ہیں۔ چیئرمین کا مزید کہنا تھا کہ وفاقی حکومت شمسی توانائی منصوبے کا آغاز کرے گی جس کے تحت بلوچستان کے چھوٹے کسانوں میں 30,000 شمسی توانائی سے چلنے والے پمپ تقسیم کیے جائیں گے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 23 فروری، صفحہ20)

زرعی قرضہ

اسٹیٹ بینک کے مطابق رواں مالی سال کے ابتدائی سات ماہ کے دوران تمام بینکوں نے 499.645 بلین روپے کے زرعی قرضے فراہم کئے ہیں جو گزشتہ سال اسی مدت کے دوان 351.358 بلین روپے تھے۔ اسٹیٹ بینک نے مالی سال 2018 کے لیے زرعی قرضوں کی فراہمی کا ہدف ایک ٹریلین روپے مقرر کیا ہے جو گزشتہ سال کے ہدف کے مقابلے 43 فیصد زیادہ ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 22 فروری، صفحہ22)

پانی

سندھ اسمبلی نے صوبے کا پانی چوری کرنے پر ارسا اور پنجاب کے خلاف متفقہ طور پر قرارداد منظور کرلی ہے۔ قرارداد سندھ اسمبلی میں مسلم لیگ (فنگشنل) کے پارلیمانی لیڈر نند کمار گوکلانی نے پیش کی۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ صوبہ سندھ کے احتجاج اور صوبے میں پانی کی قلت کے باوجود ارسا نے مبینہ طور پر چشمہ جہلم لنک کنال اور تونسہ پنجند کنال کھولی ہے جو صوبوں کے درمیان معاہدے کی خلاف ورزی ہے اور سندھ کو اس کے حصے کے پانی سے محروم کررہی ہے۔ نند کمار نے الزام لگایا کہ چشمہ جہلم لنک کنال میں سال بھر ہزاروں کیوسک پانی چھوڑا جاتا ہے حالانکہ یہ سیلابی کنال ہے جس میں صرف سیلاب کے موسم میں پانی چھوڑا جاتا ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 28 فروری، صفحہ4)

پشاور میں کسانوں نے وارسک لفٹ کنال میں پانی کی فراہمی میں تاخیر پر تشویش کااظہار کیا ہے۔ کسانوں کو خدشہ ہے کہ متعلقہ حکام کی غفلت کی وجہ سے کسانوں کو بھاری نقصان ہوگا۔ کسانوں کے ایک وفد نے صحافیوں کو بتایا کہ محکمہ آبپاشی نے کئی ماہ پہلے صفائی کے لیے وارسک کنال میں پانی کی فراہمی بند کی تھی لیکن ابھی تک کنال میں پانی کی ترسیل بحال نہیں کی گئی ہے۔ کئی طرح کی فصلیں اور سبزیاں کاشت کرنے والے کسان آبپاشی کے لیے وارسک کنال پر انحصار کرتے ہیں۔ اگر کنال میں پانی کی ترسیل بحال نہ کی گئی تو مطلوبہ پیداوار حاصل نہیں ہوسکے گی۔
(ڈان، 26 فروری، صفحہ7)

ڈپٹی چیئرمین منصوبہ بندی کمیشن سرتاج عزیز نے وفاقی وزارت آبی وسائل کی تیار کردہ قومی آبی پالیسی کا مسودہ مسترد کردیا ہے۔ منصوبہ بندی کمیشن کے حکام کے مطابق پالیسی میں اہداف اور سرمایہ کاری منصوبوں کا فقدان ہے۔ پاکستان کو اس وقت پانی کے حوالے سے درپیش مسائل میں ایک اہم مسئلہ متفقہ قومی آبی پالیسی کا نہ ہونا ہے۔ آبی پالیسی پر پہلا مسودہ 2003 میں مرتب کیا گیا تھا جسے 2005 اور 2008 میں ازسرنو مرتب کیا گیا لیکن صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم پر ہونے والے تنازعات کی وجہ سے یہ مسودہ منظور نہیں ہوسکا۔ حال ہی میں وزارت آبی وسائل نے صوبوں سے مشاورت کے بعد ایک اور مسودہ تیار کیا جسے کونسل آف کامن انٹرسٹ کے دسمبر 2017 میں ہونے والے اجلاس میں غور کے لیے پیش کیا گیا تھا جس میں یہ تجویز منظور کی گئی کہ ڈپٹی چیئرمین منصوبہ بندی کمیشن کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی جائے جو وزیر توانائی ڈویژن، آبی وسائل، منصوبہ بندی و ترقی کی وزارتوں کے سیکریٹری اور چاروں صوبوں کے چیف سیکریٹریوں پر مشتمل ہو اور اس پالیسی مسودے کا جائزہ لے۔ سرتاج عزیز جو اس جائزہ کمیٹی کے چیئرمین بھی ہیں، کا کہنا ہے کہ کمیٹی کی جانب سے فراہم کردہ رہنمائی اور اعتراضات کی روشنی میں ایک تفصیلی پالیسی مسودہ تیار کیا جاسکتا ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 26 فروری، صفحہ18)

مال مویشی

جاپانی حکومت نے پاکستان میں مویشیوں میں منہ اور کھر کی بیماری کے خاتمے اور فاٹا میں معاشی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے 7.7 ملین ڈالر امداد دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس حوالے سے ایک تقریب میں معاہدوں پر جاپان انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی (جائیکا) اور پاکستان میں فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) کی نمائندہ مینا ڈؤلاچی نے دستخط کیے۔ دونوں معاہدوں پر ایف اے او کے ذریعے عملدرآمد کیا جائے گا۔ 2.7 ملین ڈالر کا منصوبہ منہ اور کھر کی بیماری سے ہونے والے نقصان کو کم کرنے میں معاون ہوگا جس سے مویشیوں سے حاصل ہونے والی پیداوار میں اضافہ اور غذائی تحفظ کی صورتحال بہتر ہوگی۔ پانچ ملین ڈالر لاگت کے منصوبے کے دوسرے مرحلے میں جاپانی حکومت اف اے او کے ذریعے کرم اور خیبر ایجنسی میں 32,000 گھرانوں کو مدد فراہم کرے گی۔ پہلے مرحلے میں جاپان نے 2015 میں مقامی لوگوں کے روزگار کی بحالی اور غذائی تحفظ کے لیے پانچ ملین ڈالر کے منصوبے کے تحت 77,000 گھرانوں کو زرعی پیداوار کو پھر سے شروع کرنے میں مدد فراہم کی تھی۔ حکومتی اعداوشمار کے مطابق پاکستان میں مویشیوں کی بڑی آبادی ہے جس میں 82.1 ملین گائے اور بھینس، 102.3 ملین بھیڑ بکریاں شامل ہیں۔ مال مویشی شعبہ آمدنی کے حصول کا اہم ترین ذریعہ ہے اور صرف دودھ کی فروخت کا حجم ہی سالانہ 7.7 بلین ڈالر ہے۔ یہ شعبہ زیادہ تر دیہات میں رہنے والے چھوٹے پیمانے پر مویشی پالنے والے 8.5 ملین خاندانوں پر مشتمل ہے۔

(ڈان، 28 فروری، صفحہ11)

ماہی گیری

سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی نے ایک پریس ریلیز میں دعوی کیا ہے کہ نمکین پانی سے فصلوں کی کاشت کے کامیاب تجربے کے بعد کمپنی نے نمکین پانی میں مچھلیوں کی افزائش کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ یہ تجربہ 180 میٹر گہری کوئلے کی کان سے نکلنے والے نمکین پانی میں کیا گیا ہے۔ کمپنی نے بغیر کسی مالی فائدے کے یہ آبی ذخیرہ مقامی آبادی کے لیے مختص کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے جس سے منڈی میں فروخت کے قابل مچھلی حاصل ہوسکے گی۔ کمپنی کے سربراہ ابوالفضل رضوی کے مطابق آزمائشی طور پر مچھلی کی پانچ اقسام موراکھی، رہو، تھیلی، کریرو، گلفام، افریقن کیٹ فش اور ڈانگری کی چھوٹے تالاب میں پرورش کی گئی تھی۔ کمپنی کا گرانو میں نمکین پانی کے ذخائر میں بڑے پیمانے پر ماہی پروری کا منصوبہ ہے۔ کان سے نکالے گئے پانی میں نمکیات اور دیگر اجزاء کی مقدار (ٹوٹل ڈیزالو سالڈ) 5,000 زرات فی ملین (پارٹس پر ملین) ہے جس میں آزمائشی طور پر مچھلیاں پالی گئیں۔ گزشتہ چار ماہ میں اس پانی میں مچھلیوں کے زندہ رہنے کی شرح 90 فیصد تھی۔ کمپنی کے سربراہ کا کہنا ہے کہ نمکین پانی کے اس ذخیرے سے 200,000 کلوگرام مچھلی حاصل ہوسکتی ہے۔ نمکین پانی کے اس ذخیرے کی تعمیر کے خلاف ابتداء سے ہی احتجاجی مہم جاری ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر زمین سے نکالا گیا نمکین پانی کا ذخیرہ اس خطے کی ماحولیات اور مقامی لوگوں کے روزگار کے لیے تباہ کن ہے۔

(ڈان، 28 فروری، صفحہ19)

ماحول

محکمہ تحفظِ جنگلی حیات نے کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں پرندوں کی منڈی میں چھاپہ مار کے 154 نایاب کچھوے ضبط کرلیے ہیں جن کی بین الاقوامی منڈی میں قیمت 1.5 بلین روپے ہے۔ ان کچھوؤں میں 129 میٹھے پانی کے کچھوے، نو سمندری کچھوے اور 13 خشکی پر پائے جانیوالے کچھوے شامل ہیں۔ حکام کے مطابق ضبط کیے گئے کچھوؤں کی عمر ایک سے چھ ماہ کے درمیان ہے۔ کارروائی کے دوران ایک ملزم کو حراست میں لیا گیا ہے جس کا کہنا ہے کہ یہ کچھوے ٹھٹھہ اور بدین سے لائے گئے تھے۔

(دی ایکسپریس ٹریبیون، 24 فروری، صفحہ4)

نکتہ نظر

اگر آغاز سے خبروں کو پڑھیں تو ملکی زرعی معیشت کو دی جانے والی سمت کسی حد تک واضح ہوتی ہے۔ پہلی خبر جس میں سرکای حکام سی پیک میں زرعی شعبے کا کردار محدود ہونے پر شکوہ کررہے ہیں اور ساتھ ہی سی پیک منصوبے سے زرعی تجارت کو جوڑے جانے کی خبر دے رہے ہیں کہ زرعی زون بنائیں جائیں گے۔ شاید اس لیے کہ وہ تمام ضرورت سے زیادہ پیداوار، جس کا اسی خبر میں ذکر کیا گیا ہے، ان زونز میں اشیاء کی قدر میں اضافے یا پراسیسنگ کے بعد برآمد کی جاسکیں۔ ان اشیاء کو برآمد کرنے والے تاجر تو پہلے ہی حکومت کے نور نظر ہیں کہ گندم ہو یا چاول، یا چینی، عوامی خزانے سے بھاری زرتلافی حاصل کرکے برآمد کرتے ہیں اور بھاری منافع حاصل کرتے ہیں جبکہ دن رات سخت محنت سے ان فصلوں کو سینچنے والے چھوٹے اور بے زمین کسان مزدور خود غذائی عدم تحفظ اور غذائی کمی کا شکار ہیں جن کی محنت بیج، کھاد اور دیگر مداخل بنانے والی بڑی بڑی زرعی کمپنیاں سمیٹ کرلے جاتی ہیں۔ زیتون کی کاشت میں اضافے کے حوالے سے اگلی دو خبریں بھی کچھ ایسی ہی پالیسی نظر آتی ہے۔ ملک و قوم کو مزید مقروض بناکر لاکھوں زیتون کے درخت درآمد و کاشت کرنا اور زیتون سے تیل نکالنے کے لیے اربوں روپے کا کارخانہ لگانا دراصل غریب ٹیکس دینے والے عوام کا تیل نکال کر سرمایہ دار طبقے کو زیتون اور اس کے تیل کی برآمد کے ذریعے منافع فراہم کرنے کا منصوبہ معلوم ہوتا ہے۔ کیا زیتون کی پیداوار ان کسانوں کی خوشحالی کی ضمانت ہے! اگر زیادہ پیداوار ہی خوشحالی کا پیمانہ ہے تو دیگر فصلیں کی کاشت کرنے والے کسان مزدور ان حالات کا شکار کیوں ہیں؟ یقیناً ملک کے کسانوں کی اکثریت بے زمین ہے اور سرمایہ دار و جاگیردرار حکمرانوں کی مسلط کردہ نیولبرل پالیسیوں کی وجہ سے غیر پائیدار طریقہ پیداوار کے ہاتھوں مسلسل پس رہی ہے جس سے نجات کے لیے ملک بھر کے چھوٹے اور بے زمین کسانوں کو منظم ہوکر غیر پائیدار طریقہ پیداوار کے خلاف متحد ہوکر پیداواری وسائل پر اختیار کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی۔