ستمبر 2018

ستمبر 20 تا 26 ستمبر ، 2018

خشک سالی

ڈپٹی کمشنر تھرپارکر محمد آصف جمیل کے مطابق تھر میں امدادی کاموں کا آغاز آج (24 ستمبر) سے شروع کردیا جائیگا۔ امدادی کاموں کے دوران 208,247 خاندانوں کو مفت گندم فراہم کیا جائے گا۔ نادرا کی جانب سے تھرپارکر کے مستحق خاندانوں کی فہرست ضلعی انتظامیہ کو فراہم کی گئی ہے۔ امداد کا یہ سلسلہ تھرپاکر کے تمام سات تعلقوں میں قائم گندم کی تقسیم کے مراکز سے شروع کیا جارہا ہے۔
(ڈان، 24 ستمبر، صفحہ17)

تھر کے خشک سالی سے متاثرہ عوام شدید گرمی میں کئی کئی میل پیدل چل کر گندم کی تقسیم کے مراکز پہنچے۔ متاثرین شکایت کررہے ہیں کہ 50 کلو گندم کی معمولی مقدار کے لیے سرکاری عملے کا رویہ ان کے ساتھ تضحیک آمیز ہے۔ متاثرین کا کہنا تھا کہ انہیں گندم کے حصول کے لیے سینکڑوں میل کا سفر طے کرنا پڑا اور اس کے ساتھ ساتھ تذلیل بھی برداشت کرنی پڑی۔ پہلے سندھ حکومت گندم متاثرہ خاندانوں کو ان کے گھر پر فراہم کرتی تھی لیکن اس بار ان خاندانوں کو امداد کے لیے کئی میل سفر کرکے تعلقہ ہیڈکوارٹر جانا پڑا۔ پیپلزپارٹی، تھرپارکر کے سیکریٹری اطلاعات نندلال مالہی نے مقامی زرائع ابلاغ میں شائع ہونے والے ایک بیان میں کہا ہے کہ گندم کی حالیہ تقسیم تھر کے عوام کے ساتھ سنگین مذاق ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے سندھ حکومت کو ہدایت کی تھی کہ تھرپارکر کے عوام کو فوری مدد ان کے دروازے پر فراہم کی جائے لیکن اس کے برعکس گندم کی معمولی مقدار کے لیے تھرباسیوں کی تذلیل کی جارہی ہے۔
(ڈان، 25 ستمبر، صفحہ17)

غذائی کمی

ڈائریکٹر جنرل پنجاب فوڈ اتھارٹی کیپٹن ریٹائرڈ محمد عثمان نے خوراک میں مصنوعی طور پر اضافی غذائیت شامل کرنے کے منصوبے فوڈ فورٹیفیکیشن پروگرام کے حکام کے ساتھ ایک اجلاس میں کہا ہے کہ اتھارٹی نے اس منصوبے پر عملدرآمد یقینی بنانے کے لیے کمرکس لی ہے۔ ڈائریکٹر جنرل نے تکنیکی عملہ کو اس حوالے سے دو ہفتوں میں ابتدائی حکمت عملی مرتب کرنے کی ہدایت کی ہے۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی پالیسی سازی، فورٹیفیکیشن پر عملدرآمد کے لیے منصوبہ بندی اور اس کے اثرات و مسائل کے حوالے سے ماہرین سے مدد لے گی۔ اس منصوبہ کا مقصد غذائیت سے بھرپور خوراک کی فراہمی اور پنجاب میں غذائی کمی پر قابو پانا ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 20 ستمبر، صفحہ11)

منصوبہ بندی کمیشن نے غذائی کمی پر قابو پانے کے لیے اقوام متحدہ کا عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت اور عالمی غذائی پروگرام کے اشتراک سے 250 آٹا ملوں کے عملے کو آٹے میں اضافی غذائیت شامل کرنے (فورٹیفیکیشن) کی تربیت فراہم کی ہے۔ ان ملوں کو آٹے میں فولاد، فولک ایسڈ اور زنک شامل کرنے کے لئے ضروری آلات (مائیکرو فیڈر) بھی فراہم کیے گئے ہیں تاکہ بچوں اور عورتوں کو غذائیت سے بھر پور خوراک ملے سکے۔ اب تک 100,000 ٹن آٹے میں اضافی غذائیت شامل کی جاچکی ہے۔ اس منصوبے کے تحت پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا کے 76 گھی اور تیل بنانے والے کارخانوں کو بھی وٹامن ڈی شامل کرنے کی غرض سے غذائی اجزاء (پری مکس) فراہم کیے گئے ہیں۔ ان ملوں نے 950,000 ٹن گھی اور تیل کی پیداوار کی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 21 ستمبر، صفحہ15)

زمین

چیف سیکریٹری پنجاب اکبر حسین درانی نے کہا ہے کہ حکومت صوبے بھر میں زمینوں پر قبضہ کرنے والوں کے خلاف بلاامتیاز کاروائی کرے گی اور اس حوالے سے ایک جامع منصوبہ بندی بھی کی جائے گی۔ ابتدائی طور پر قبضہ گیروں کو سرکاری زمین خالی کرنے کا انتباہ جاری کیا جائے گا اور اس کے بعد ان کے خلاف موثر کارروائی کا آغاز کیا جائے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ محکمہ جنگلات، اوقاف اور دیگر محکموں کی ہزاروں ایکڑ سرکاری زمین پر قبضہ ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 21 ستمبر، صفحہ5)

زراعت

ترجمان محکمہ زراعت پنجاب کے مطابق محکمہ پانی اور توانائی کے تحفظ کے لیے قطرہ قطرہ آبپاشی نظام کو شمسی توانائی کے ذریعے چلانے کے لئے 100 دنوں میں شمسی توانائی پیدا کرنے والے 1,000 پینل نصب کرے گا۔ حکومت شمسی توانائی کے پینل کی تنصیب پر 80 فیصد زرتلافی کی پیشکش کرے گی۔ وہ کسان جنہوں نے مالی سال 2018-19 میں قطرہ قطرہ آبپاشی اور فوارہ آبپاشی نظام نصب کیا ہو وہ زرتلافی کے حامل شمسی توانائی پیدا کرنے والے پینل حاصل کرنے کے مجاز ہونگے۔ اس کے علاوہ محکمہ سبزیوں کی پیداوار کے لیے ٹنل فارمنگ کی تنصیب پر بھی 50 فیصد زرتلافی دے گا۔
(ڈان، 20 ستمبر، صفحہ2)

پانی

زرعی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ دریاؤں میں پانی کی کمی کی وجہ سے آنے والے ربیع کے موسم میں گندم کی کاشت کے دوران پنجاب کی تمام موسمی نہروں (نان پیرینیل کنال) میں پانی دستیاب نہیں ہوگا۔ اس سال ربیع کے موسم میں 45 فیصد پانی کی کمی کا خدشہ ہے اور اس صورتحال میں پنجاب حکومت کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہوگا کہ اکتوبر کے وسط سے ان نہروں میں پانی روک دیا جائے۔ ان موسمی نہروں سے صوبے کے کل زیر کاشت رقبے کا ایک تہائی حصہ سیراب ہوتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق گندم کا 32 فیصد زیرکاشت رقبہ ان موسمی نہروں کے ذریعے ہی کاشت کیا جاتا ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 20 ستمبر، صفحہ20)

گندم

وزیر خوراک خیبر پختونخوا قلندر خان لودھی نے کہا ہے کہ حکومت نے کسانوں کو خصوصی مراعات کی فراہمی کے ذریعے گندم اور دیگر زرعی پیداوار میں اضافے کے لیے جامع حکمت عملی مرتب کرلی ہے۔ اگلے پانچ سالوں میں ضلعی سطح پر طلب کے مطابق گندم ذخیرہ کرنے کے لیے گودام بنائے جائیں گے اور پہلے سے موجود گوداموں کی گندم ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کیا جائے گا۔ اس حکمت عملی کے تحت حکومت کسانوں کو معاشی و مالی فوائد پہنچانے کے لیے ان سے گندم براہ راست خریدے گی۔ خیبرپختونخوا میں گندم کی مجموعی طلب 4200,000 ٹن ہے جبکہ صوبے میں 1200,000 ٹن گندم پیدا ہوتا ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 23 ستمبر، صفحہ6)

چاول

وزارت تجارت نے کینیا کی بندرگاہ پر رکی ہوئی پاکستانی چاول کی کھیپ جلد از جلد جاری کرنے کے لیے کینیا کے حکام سے رابطہ کیا ہے۔ محکمہ کے ترجمان کے مطابق پاکستانی چاول کی کسی کھیپ کو کینیا میں حفظان صحت کے میعار پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے نہیں روکا گیا ہے۔ کینیا میں موجود پاکستانی سفارتکار نے وہاں کے عہدیداروں سے رابطہ کیا ہے جن کا کہنا ہے کہ پاکستان کی کسی بھی خاص کھیپ کی خصوصی جانچ نہیں کی جارہی۔ موجودہ صورتحال وقتی ہے اور کچھ ہفتوں میں صورتحال معمول پر آجائے گی۔ ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ دیگر ممالک سے آنے والے اجناس غذائی میعار پر پورا نہیں اترے جس کی وجہ سے (عارضی طور پر) پاکستانی کھیپ بھی روکی گئی تھی۔
(ڈان، 25 ستمبر، صفحہ10)

کھاد

ایک سال سے زائد عرصے سے گیس کی عدم فراہمی کی وجہ سے بند کھاد کے کارخانوں کو گیس کی فراہمی بحال کردی گئی ہے۔ کارخانوں کو گیس کی فراہمی سے آنے والے ربیع کے موسم میں یوریا کی طلب پوری ہونے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔ ان کارخانوں کو اگلے چار ماہ تک گیس کی فراہمی جاری رہے گی۔ دو کارخانوں نے یوریا کی پیداوار شروع کردی ہے اور توقع ہے کہ دونوں کارخانے مشترکہ طور ہر اگلے چار مہینوں میں 300,000 ٹن یوریا تیار کریں گے جبکہ کل طلب 400,000 ٹن ہے۔ بقیہ 100,000 ٹن یوریا درآمد کرنے کے انتظامات کیے جارہے ہیں۔
(دی نیوز، 23 ستمبر، صفحہ15)

ٹریکٹر

ٹریکٹر کے تیار کنندگان نے گزشتہ تین ماہ میں ٹریکٹر کی فروخت میں کمی اور حکومت کی جانب سے استعمال شدہ ٹریکٹر کی درآمد کی اجازت دینے کی اطلاعات پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان ایسوسی ایشن آف آٹوموٹو پارٹس اینڈ ایسی سریز مینوفیکچررز کے سابق چیرمین نبیل ہاشمی کے مطابق معاشی سرگرمیوں میں کمی اور بلند شرح سود کی وجہ سے گزشتہ تین ماہ سے ٹریکٹر کی فروخت میں 21 فیصد کمی ہوئی ہے۔ رواں مالی سال کے ابتدائی دو ماہ میں 7,913 ٹریکٹر فروخت کیے گئے جبکہ پچھلے سال اسی دورانیہ میں یہ تعداد 9,757 تھی۔
(بزنس ریکارڈر، 26 ستمبر، صفحہ5)

نکتہ نظر

اس ہفتے کی خبروں میں ملک میں غذائی کمی کی صورتحال پر خبریں سرفہرست ہیں۔ مجموعی طور پر ملک میں غذائی کمی کی صورتحال پر گزشتہ کئی سالوں سے تشویشناک اعداوشمار پیش کیے جاتے رہے ہیں اور اس کی شدت کا اندازہ سندھ کے ضلع تھرپارکر میں جاری صورتحال سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ لیکن تھرپارکر میں غذائی کمی اور بچوں کی اموات کو صرف خشک سالی کا سبب قرار دے کر عوام کو فریب دینے والے حکمران سب سے زیادہ خوراک پیدا کرنے والے صوبہ پنجاب میں غذائی کمی کا جواز کیا دیں گے؟ یقیناًمسئلہ خوراک کی دستیابی نہیں اس کی منصفانہ تقسیم کا ہے۔ مسئلہ درحقیقت پیداواری وسائل کی منصفانہ تقسیم کا ہے جو ملک میں غربت اور غذائی کمی کی بنیادی وجہ ہے۔ ملکی پیداواری وسائل پر قابض حکمران طبقہ اشرافیہ کی پالیسیاں غیرملکی سرمایہ دار کمپنیوں کے مفادات کو سرکاری اخراجات پر تحفظ فراہم کرتی نظرآتی ہیں۔ غیرملکی کمپنیوں کو منافع پہنچانے کے لیے ہی آٹا اور گھی میں مصنوعی غذائی اجزاء شامل کرنے کی ٹیکنالوجی متعارف کروائی جارہی ہے اور اس پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے پنجاب فوڈ اتھارٹی سرتوڑ کوشش کرنے کا عزم ظاہر کررہی ہے۔ یہ یاد رہے کہ اجناس میں غذائیت کی کمی کے ذمہ دار بھی یہی سرمایہ دار ممالک اور ان کی کمپنیاں ہیں جنہوں نے پاکستان میں غیر پائیدار ہائبرڈ ٹیکنالوجی متعارف کروائی جس میں غذائیت روایتی فصلوں کے مقابلے کم ہے جبکہ ماحولیاتی نقصان کہیں زیادہ۔ قومی وسائل پر قابض سرمایہ دار جاگیردار حکمرانوں نے خوراک اگلنے والی سرزمین پر کسان مزدوروں کو بھوک و غذائی کمی سے دوچار کرکے اور تھر کے عوام کی گندم کی معمولی مقدار کے بدلے جو تذلیل کی ہے اس کا حساب اس ملک کے کسان مزدور عوام متحد ہوکر ظلم و استحصال پر مبنی اس جاگیردار سرمایہ دار نظام کے خاتمے کی صورت ایک دن ضرور لیں گے۔

ستمبر 13 تا 19 ستمبر ، 2018

غربت

گلگت بلتستان کے تین اضلاع میں عالمی غذائی پروگرام (ورلڈ فوڈ پروگرام) کی تکنیکی معاونت سے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) نے آزمائشی غذائی منصوبہ شروع کرنے کی تیاری مکمل کرلی ہے۔ یہ آزمائشی غذائی منصوبہ وفاقی حکومت اور عالمی ادارہ صحت (ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن) کے اہداف کے مطابق ملک میں بچوں میں نشونما میں کمی کے اہم ترین مسئلہ کے لیے معاون ہو گا۔ بی آئی ایس پی کے ایڈشنل ڈائریکٹر جنرل نوید اکبر کے مطابق منصوبے کے تحت گلگت بلتستان کے تین اضلاع کی 12,000 حاملہ اور دودھ پلانے والی ماؤں، چھ سے 23 ماہ کی عمر کے 15,000 بچوں پر توجہ مرکوز کی جائے گی اور انہیں غذائی کمی سے تحفظ کے لیے لازمی غذائی اجزاء پر مشتمل تیار خوراک (سپلیمنٹ) فراہم کی جائے گی۔ اگر اس آزمائشی منصوبے کے نتائج توقع کے مطابق ہوئے تو اس غذائی منصوبے کو پورے ملک تک بڑھایا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ ایک سال سے عالمی غذائی پروگرام کی تکنیکی مدد سے ہی غذائی کمی خاتمے کے لیے سندھ کے کچھ اضلاع میں کام جاری ہے جس کے نتائج کا انتظار ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 14 ستمبر، صفحہ8)

ایک خبر کے مطابق یونائیٹڈ نیشنز ڈیولپمنٹ پروگرام (یو این ڈی پی) کی جاری کردہ سالانہ رپورٹ ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس 2018 میں دنیا کے 189 ممالک میں پاکستان 150 نمبر پر ہے۔ انڈیکس کی درجہ بندی اوسط عم، تعلیم اور اور آمدنی کے اعدوشمار کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ اس دورانیہ میں پاکستان میں ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس کی قدر 0.562، اوسط عمر 66.6 سال، سالانہ فی کس اوسط آمدنی 5,311 ڈالر اور اوسط اسکول کا دورانیہ 5.2 سال ہے۔ دیگر جنوبی ایشیائی ممالک میں بھارت 130، بنگلہ دیش 136، سری لنکا 76، مالدیپ 101، نیپال 149 اور بھوٹان 130 نمبر پر ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 16 ستمبر، صفحہ2)

غذائی کمی

اسکیلنگ اپ سول سوسائٹی الائنس پاکستان اور نیوٹریشنل انٹرنیشنل کے تحت ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن ڈیولپمنٹ سوسائٹی (ہینڈز) کے تعاون سے منعقد کیے گئے اجلاس میں صحت اور بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ماہرین نے سندھ بھر میں خوراک کی شدید کمی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ صوبہ میں پانچ سال سے کم عمر تقریباً آدھے بچے نشونما میں کمی کا شکار ہیں۔ ماہرین نے مطالبہ کیا ہے کہ تین سال پہلے حکومت کی جانب سے اس حوالے سے تیار کرد حکمت عملی پر عملدرآمد کیا جائے اور بچوں کو ماں کا دودھ پلانے کے عمل کو فروغ دینے کے لیے سندھ پروٹیکشن اینڈ پروموشن آف بریسٹ فیڈنگ ایکٹ کو صوبے میں غذائی کمی کی شدید صورتحال پر قابو پانے کے لیے نافذ کیا جائے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 13 ستمبر، صفحہ5)

وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشن اینڈ کوآرڈینشن کی جانب سے جاری کردہ ایک تحقیق (نیشنل کومپلیمنٹری فیڈنگ اسسمنٹ کے مطابق پاکستان میں 6 سے 23 ماہ کی عمر کے صرف 15 فیصد بچے کو ہی مؤثر نشونما کے لئے لازمی خوراک کی کم سے کم (مقرر کردہ) مقدار میسر ہے۔ غربت اور طبی و غذائی سہولیات تک محدود رسائی کی وجہ سے دو سال سے کم عمر بچوں میں غذائیت سے بھر پور خوراک کا استعمال انتہائی کم ہے جہاں انڈا، گوشت، وٹامن اے اور فولاد سے بھرپور خوراک عام طور پر ان بچوں کی غذا میں شامل نہیں ہوتی۔ مقامی طور پر دستیاب خوراک میں وٹامن بی 12، وٹامن اے، کیلشیم اور فولاد کم پایا جاتا ہے۔ یہ تحقیق برطانیہ کا ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (ڈپارٹمنٹ فار انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ) کی مالی اور یونیسیف کی تیکنیکی معاونت سے کی گئی ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 13 ستمبر، صفحہ2)

پانی

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے بوتل بند پانی فروخت کرنے والی مختلف کمپنیوں کی جانب سے حد سے زیادہ پانی استعمال کرنے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے ان کمپنیوں کی جانب سے پانی کے استعمال کے اعداوشمار طلب کیے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا بوتل بند پانی فروخت کرنے والی کمپنیاں زیر زمین پانی مفت استعمال کرکے اپنی مصنوعات مہنگے داموں فروخت کررہی ہیں۔ سپریم کورٹ ملک میں پانی کے تحفظ کے لیے ہرممکن قدم اٹھائے گی۔
(ڈان، 15 ستمبر، صفحہ1)

چیف جسٹس میاں نثار نے ملک میں ڈیم کی تعمیر کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف آئین کی دفعہ چھ (غداری) استعمال کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’میں جائزہ لے رہا ہوں ہیں کہ آیا یہ (دفعہ) اس قومی مفاد (ڈیموں کی تعمیر) کے مخالفین پر عائد ہوسکتی ہے یا نہیں۔‘‘ چیف جسٹس بوتل بند پانی فروخت کرنے ولی کمپنیوں کی جانب سے زیر زمین پانی استعمال کرنے کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کررہے تھے۔ ایڈشنل اٹارنی جنرل نے دوران سماعت بتایا کہ کراچی میں بوتل بند پانی کے تقریبا 82، اسلام آباد میں 12، حیدرآباد میں 15، سکھر میں 16 اور لاہور میں 8 کارخانے قائم ہیں۔ ان کارخانوں میں 30 فٹ سے 410 فٹ گہرے کنویں موجود ہیں جن سے پانی نکالا جارہا ہے۔ عدالت نے تمام بوتل بند پانی کی کمپنیوں کے سربراہان (چیف ایگزیکٹوز) کو اگلی سماعت پر عدالت میں طلب کیا ہے۔
(ڈان، 16 ستمبر، صفحہ1)

سپریم کورٹ نے بیرسٹر اعتزاز احسن سمیت بوتل بند پانی تیار کرنے والی کمپنیوں کے وکلاء کو ایک ساتھ بیٹھنے اور زیر زمین پانی کی معقول قیمت کے تعین کے حوالے سے قابل عمل منصوبہ کے ساتھ پیش ہونے کی ہدایت کی ہے۔ پانی فروخت کرنے والی مختلف کمپنیوں کے سربراہان بھی عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے دوران سماعت کہا ہے کہ پانی فروخت کرنے والی کمپنیاں سالوں سے زیر زمین پانی تقریباً مفت استعمال کررہی ہیں۔ چیف جسٹس نے بوتل بند پانی فروخت کرنے والی کمپنی نیسلے کے وکیل اعتزاز احسن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ “اب اس ملک کو واپس لوٹانے کا وقت آگیا ہے۔‘‘
(ڈان، 17 ستمبر، صفحہ1)

محکمہ موسمیات پاکستان نے کہا ہے کہ آئندہ تین مہینوں کے دوران بارشیں کم ہونے کی وجہ سے موسم سرما میں پانی کی قلت کا امکان ہے۔ محکمہ کے ڈائریکٹر جنرل غلام رسول کے مطابق موسم سرما میں زیادہ بارشوں کی توقع نہیں ہے۔ اگر برف باری بھی ہو تو بھی پانی گرمیوں میں برف پگھلنے تک دستیاب نہیں ہوگا۔ اس صورتحال میں پانی کے بحران کا سامنا ہوسکتا ہے۔ محکمہ موسمیات پہلے ہی ملک میں خشک سالی کا انتباہ جاری کرچکا ہے۔
(ڈان، 17 ستمبر، صفحہ4)

دادو اور میرپور خاص اضلاع میں نہر کے آخری سرے کے کسانوں نے احتجاج کرتے ہوئے محکمہ آبپاشی کے افسران پر جاگیرداروں کی ملی بھگت سے پانی چوری کا الزام عائد کیا ہے۔ ضلع دادو کی پیر گنیو شاخ کے آخری سرے کے چھوٹے کسانوں نے احتجاجی ریلی نکالی اور پریس کلب سمیت خشک نہر کے مختلف مقامات پر احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔ مظاہرین کی قیادت کرنے والے کسان محمد سلیمان کا کہنا تھا کہ انہیں فصلوں اور پینے کے لئے پانی کی سنگین کی قلت کا سامنا ہے۔ جاگیرداروں نے نہروں کے ساتھ اپنے مسلح کارندے تعینات کئے ہوئے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پوری نہر پر اس طرح کا قبضہ محکمہ آبپاشی کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ مسلح افراد نہری پانی کو آخری سرے تک پہنچنے سے روک رہے ہیں۔ کئی ہفتوں سے جاری اس پانی کی چوری کی وجہ سے چھوٹے کسان کپاس، گنا اور سبزیاں کاشت نہیں کر پائے ہیں۔ اسی طرح میرپورخاص میں بھی کھیراؤ شاخ کے آخری سرے کے کسانوں نے پانی کی قلت کے خلاف مقامی پریس کلب پر احتجاجی مظاہرہ کیا ہے۔
(ڈان، 18 ستمبر، صفحہ17)

  کپاس

کاٹن کروپ اسسمنٹ کمیٹی نے پانی کی کمی کی وجہ سے بوائی ہدف سے آٹھ فیصد کم ہونے کے بعد سال 2018-19 کے لیے کپاس کا پیداواری ہدف 25 فیصد کم کرکے 14.37 ملین گانٹھوں سے 10.84 ملین گانٹھیں کردیا ہے۔ اس سال کپاس 2.95 ملین ہیکٹر ہدف کے مقابلے 2.68 ملین ہیکٹر رقبے پر کاشت کی گئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کپاس کے زیر کاشت علاقے میں گنے کی کاشت میں اضافہ، گندم کی کٹائی میں تاخیر اور پانی کی قلت کی وجہ سے کپاس کی کاشت میں کمی آئی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 13 ستمبر، صفحہ1)

ماہی گیری

پاکستان کی سمندری حدود میں شکار کرنے پر 18 بھارتی ماہی گیروں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ ترجمان پاکستان میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی کے مطابق ان ماہی گیروں کو دو کشتیوں سمیت حراست میں لیا گیا تھا جنہیں بعد میں مزید قانونی کارروائی کے لیے ڈاکس تھانے کے حوالے کردیا گیا ہے۔
(ڈان، 13 ستمبر، صفحہ16)

گنا

سندھ میں گنے کے کاشتکار اس سال بھی گنے کی کرشنگ تاخیر سے شروع ہونے کے خدشہ سے دوچار ہیں۔ حکومت سندھ کی جانب کرشنگ کا موسم شروع کرنے اور گنے کی قیمت مقرر کرنے کے لیے شوگر مل مالکان اور کاشتکاروں کے درمیان مذاکرات کا عمل اب تک شروع نہیں کیا گیا ہے۔ نائب صدر ایوان زراعت سندھ (سندھ چیمبر آف ایگری کلچر) نبی بخش سہتونے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن اس سال بھی گنے کی قیمت کو چینی کی برآمد پر سرکاری زرتلافی سے مشروط کرے گی۔
(ڈان، 16 ستمبر، صفحہ17)

چینی

سپریم کورٹ نے حسیب وقاص شوگر مل، چوہدری شوگر مل اور اتفاق شوگر مل کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر کی گئی اپیل خارج کرتے ہوئے کپاس کے زیرکاشت جنوبی پنجاب کے اضلاع سے شوگر ملیں واپس اپنے پرانے مقام پر منتقل کرنے کا حکم دیا ہے۔ تاہم اپنے مختصر حکم نامے میں تین رکنی بینچ نے ملوں کو اجازت دی ہے کہ وہ شوگر مل کی مشینری منتقل کرنے کے بعد اس جگہ کو کسی بھی قانونی کاروبار کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔ 2006 میں پنجاب حکومت نے ایک پالیسی جاری کی تھی جس کے تحت صوبے میں نہ کوئی نئی شوگر مل قائم کی جاسکتی ہے اور نہ ہی پہلے سے قائم شوگر مل کی پیداواری صلاحیت بڑھائی جاسکتی ہے۔ اس پالیسی کا مقصد کپاس کے زیر کاشت علاقے میں گنے کی کاشت کی حوصلہ شکنی تھا کیونکہ گنے کی فصل میں دیگر فصلوں کے مقابلے 18 فیصد زیادہ پانی استعمال ہوتا ہے۔
(ڈان، 14 ستمبر، صفحہ1)

نکتہ نظر

اس ہفتے کی خبریں پاکستان میں مجموعی طور پر پیداواری اور موسمی حالات کے تناظر میں تشویشناک صورتحال کی طرف اشارہ کررہی ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ دنیا میں خوراک پیدا کرنے والے بڑے ممالک میں شامل پاکستان میں بچوں کی بڑی تعداد غذائی کمی کا شکار ہے۔ ایسے ملک میں جہاں مال مویشی، گندم، چاول کی بہتات ہو اور قوم کے بچے بھوک اور غربت کی وجہ سے نشونما میں کمی کا شکار ہوکر معاشرے میں اپنا وہ کردار ادا کرنے سے قاصر رہ جاتے ہیں جس کا تقاضہ ملک و قوم ان سے کرتی ہے۔ ملک میں اس درجہ غربت اور غذائی کمی کی بنیادی وجہ پیداواری وسائل پر اشرافیہ کا قبضہ اور نیولبرل پالیسیوں کا فروغ ہے۔ ان سرمایہ دارانہ پالیسیوں کی ہی بدولت ایک چھوٹا اور بے زمین کسان پیداواری لاگت بڑھ جانے کے نتیجے میں نقصان سے دوچار ہے۔ غیر پائیدار صنعتی طریقہ پیداوار کی ہی بدولت پاکستان اور اس جیسے تیسری دنیا کے ممالک موسمی تبدیلی کے بدترین اثرارت کے مقابلہ کررہے ہیں۔ خشک سالی اور خصوصاً پانی کی کمی نے ملک کے کسانوں کو شدید نقصان سے دوچار کررکھا ہے۔ کپاس کی پیداوار میں کمی کسانوں کے لیے پہلے ہی نقصان کا باعث تھی کہ اب ربیع کے موسم میں بھی پانی کی شدید قلت کی پیشنگوئی کی جارہی ہے۔ افسوس کے اس صورتحال میں بھی پانی فروخت کرنے والی سرمایہ دار کمپنیاں زیر زمین آبی وسائل کا بے رحمی سے استعمال کرکے اپنے منافع میں بے تحاشہ اضافہ کرتی جارہی ہیں اور ملکی ایوانوں میں بیٹھنے والے نام نہاد سیاستدان ان ہی کمپنیوں کی وکالت کرتے نظر آتے ہیں۔ ضروری ہے کہ ملک میں زمین پانی اور بیج جیسے اہم پیداواری مداخل اور وسائل ان سرمایہ دار کمپنیوں سے چھین کر عوامی اختیار میں لائے جائیں کہ ان کا پائیدار استعمال ملک کے عوام خصوصا چھوٹے اور بے زمین کسان مزوروں کی خوراک کی ضرورت پوری کرکے ملک میں بھوک غربت اور غذائی کمی کے خاتمے کا سبب ہو۔ اس تبدیلی کے لیے تمام مظلوم عوام کو ایک ہوکر جدوجہد کی راہ پر چلنے کی ضرورت ہے۔

ستمبر 6 تا 12 ستمبر، 2018

کھاد

کا بینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ کمیٹی نے ربیع کے موسم میں 100,000 ٹن کھاد درآمد کرنے اور کسانوں کو فی بوری 960 روپے زرتلافی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس وقت مقامی منڈی میں یوریا کی قیمت تقریباً 1,615 روپے فی بوری (50کلو) ہے جبکہ درآمدی یوریا کی قیمت 2,575 روپے فی بوری ہوگی جس پر حکومت 960 روپے فی بوری زرتلافی ادا کرے گی۔
(ڈان، 11 ستمبر، صفحہ1)

چینی

ایک خبر کے مطابق پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن نے ایک ملین ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت طلب کی ہے۔ چینی برآمد کرنے کی تجویز شوگر ایڈوائزری بورڈ کے اجلاس میں پیش کی گئی۔ وزارت صنعت و پیداوار کی جانب سے پیش کیے گئے اعداوشمار کے مطابق 2017-18 میں ملک میں 7.158 ملین ٹن چینی دستیاب تھی۔ مقامی طلب 5.200 ملین ٹن کے بعد 1.959 ملین ٹن اضافی چینی کے ذخیرے کا اندازہ لگایا گیا تھا۔ چیئرمین پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن جاوید کیانی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ وقت پر گنے کی کرشنگ شروع کرنا اور ضرورت سے زیادہ چینی کا ذخیرہ ختم کرنا اہم مقصد ہے اس لیے فوری طور پر ایک ملین ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت مانگی گئی ہے۔ اس وقت افغانستان سے 360 سے 380 ڈالر فی ٹن قیمت پر چینی فروخت کرنے کی پیشکشیں موصول ہو رہی ہیں۔ اس سال بھارت میں چینی کی بہت زیادہ پیداوار (36 ملین ٹن) متوقع ہے۔ جب بھارتی چینی منڈی میں آئے گی تو پاکستان افغانستان چینی برآمد کرنے کا موقع کھودے گا۔ وزارت صنعت و پیداوار اگلے کچھ دنوں میں متعلقہ وزارتوں سے مشاورت کے بعد اس معاملے کو کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی میں پیش کرے گی۔
(بزنس ریکارڈر، 12 ستمبر،صفحہ1)

چاول

ایک خبر کے مطابق کینیا کے کسٹم حکام نے پاکستانی چاول کے 600کنٹینروں کو ممباسا بندرگاہ پر روک لیا ہے۔ پاکستانی چاول کے برآمد کنندگان کا کہنا ہے کہ کینیا کے حکام اس کھیپ کو 100 فیصد جانچ اور تصدیق کا معاملہ قرار دے رہے ہیں۔ چیئرمین رائس ایکسپورٹر ایسوسی ایشن آف پاکستان سمیع اللہ چوہدری نے اس معاملے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ چاول کی برآمد کے لیے کسٹم کے تمام تقاضوں کو پورا کیا گیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی سفارت خانے کی مداخلت اور کوششوں کے باوجود کینیا کے حکام تعاون نہیں کررہے ہیں۔
(بزنس ریکارڈر، 8 ستمبر، صفحہ3)

چنا

محکمہ زراعت پنجاب بھکر، لیہ سمیت دیگر اضلاع میں قطرہ قطرہ آبپاشی نظام کے ذریعے چنے کی پیداوار میں اضافے کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔ محکمے کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس نظام کے ذریعے چنے کی بہتر پیداوار ہوسکتی ہے جس کے لئے حکومت اس نظام کو خوشاب، بھکر، لیہ، مظفر گڑھ، جھنگ اور میانوالی کے علاقوں میں فروغ دے رہی ہے جہاں اس نظام کی تنصیب پر 75 فیصد زرتلافی دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ چنا ربیع کی مختصر مدت پر مبنی اہم فصل ہے جسے ستمبر اور نومبر کے درمیان کاشت کیا جاسکتا ہے۔ عام حالات میں چنے کی فصل 4 ماہ یا اس سے کچھ زیادہ وقت میں تیار ہوجاتی ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 10 ستمبر، صفحہ11)

پانی

نصیرآباد، بلوچستان میں سینکڑوں کسانوں نے علاقے کی مختلف نہروں میں پانی کی عدم فراہمی کے خلاف قومی شاہراہ (نیشنل ہائی وے) پر احتجاج کیا ہے۔ کسانوں نے احتجاجاً قومی شاہراہ گاڑیوں کی آمد ورفت کے لیے بند کردی۔ مظاہرین نے محکمہ آبپاشی اور کمشنر کے دفتر کے سامنے دھرنا بھی دیا اور تھمبو، مگسی اور روپالی نہر میں بلاتاخیر پانی فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
(ڈان، 6 ستمبر، صفحہ5)

ایک خبر کے مطابق خریف کے بعد ربیع کے موسم میں بھی پاکستان کو 45 فیصد تک پانی کی کمی کا سامنا ہوسکتا ہے جس کے زرعی پیداوار پر منفی اثرات مرتب ہونگے۔ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) نے سینٹر مولا بخش چانڈیو کی زیر صدارت ہونے والے سینٹ کی خصوصی کمیٹی برائے آبی قلت کے اجلاس میں بتایا ہے کہ ملک میں اس وقت پانی کا مجموعی ذخیرہ 9.255 ملین ایکڑ فٹ ہے جو پانی ذخیرہ کرنے کی مجموعی گنجائش 13.681 ملین ایکڑ فٹ سے 32.4 فیصد کم ہے۔ گزشتہ سال اس وقت پانی کا مجموعی ذخیرہ 24 فیصد کمی کے ساتھ 12.08 ملین ایکڑ فٹ تھا۔ ملک میں ربیع کا موسم اکتوبر تا دسمبر شروع ہوکر اپریل تا مئی جاری رہتا ہے۔ گندم ربیع کے موسم کی اہم ترین فصل ہے۔
(ڈان، 7 ستمبر، صفحہ10)

خشک سالی

فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے بزنس مین پینل نے حکومت پر زور دیا ہے کہ کم ہوتے ہوئے آبی وسائل اور پینے و دیگر اہم مصارف کے لیے پانی محفوظ کرنے کے لیے زیادہ پانی استعمال کرنے والی گنا اور چاول کی فصلوں کی پیداوار کو محدود کیا جائے جب تک کہ دیامربھاشا اور مہمند ڈیم تعمیر نہیں ہوجاتے۔ محکمہ موسمیات خبردار کرچکا ہے کہ اس سال مون سون بارشوں اور برفباری میں کمی کی وجہ سے خشک سالی جیسی صورتحال ہوسکتی ہے۔ منگلا ڈیم میں بھی 50 فیصد سے کم پانی ذخیرہ ہوسکا ہے جس کی وجہ سے ملک میں ربیع کے موسم میں بیجائی کے وقت پانی کی کمی ہوگی۔ اس لئے ضروری ہے کہ صوبائی حکومتیں گنا اور چاول کی کاشت کو محدود کریں جن میں بہت زیادہ پانی استعمال ہوتا ہے اور ان نقد آور فصلوں کو فروغ دیں جو کم پانی سے کاشت ہوتی ہیں۔
(بزنس ریکارڈر، 10 ستمبر، صفحہ 5)

محکمہ زراعت اور آبپاشی حکام کے ساتھ ایک اجلاس میں وزیر زراعت سندھ اسماعیل راہو نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ پانی کی قلت چاول کی پیداوار میں واضح کمی کا سبب بن سکتی ہے جس سے ناصرف صوبے کی بلکہ ملکی معیشت بھی متاثر ہوسکتی ہے۔ صوبائی وزیر نے وفاق پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ کو اس کے جائز حصے سے کم پانی دیئے جانے کی وجہ سے صوبے میں فصلیں تباہ ہورہی ہیں۔ انھوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر وفاق کی جانب سے سندھ کے پانی میں کٹوتی جاری رہی تو ٹھٹہ، بدین، حیدرآباد، میرپورخاص کی زرعی زمینیں بنجر ہوجائیں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ سندھ کی 40 فیصد زمینوں کو خشک سالی جیسی صورتحال کا سامنا ہے۔
(ڈان، 6 ستمبر، صفحہ17)

منگلا ڈیم میں پانی کی کمی اور آئندہ تین ماہ میں متوقع انتہائی کم بارشوں کی وجہ سے محکمہ موسمیات نے خبردار کیا ہے کہ ربیع کے موسم میں پانی کی قلت کے قوی امکانات ہیں۔ محکمہ موسمیات کے مطابق پانی کی کمی کی وجہ سے ربیع کی فصلوں کی بیجائی کا عمل متاثر ہوسکتا ہے۔ اس صورتحال کے تناظر میں تمام شراکتداروں کو حالات سے نبٹنے کے لئے تیار رہنے کی سفارش کی گئی ہے۔ مون سون بارشیں کم ہونے کی وجہ سے ملک کے زیاددہ تر علاقوں میں درمیانے درجہ کی خشک سالی کی صورتحال پیدا ہونے کا خدشہ ہے جبکہ سندھ کے اہم علاقوں میں درمیانی سے شدید درجے کی خشک سالی کی صورتحال پہلے ہی جاری ہے جن میں تھرپاکر، مٹیاری، حیدرآباد، جیکب آباد، دادو، کراچی، قمبرشہدادکوٹ، عمرکوٹ، سانگھڑ، سجاول، شہید بینظیر آباد، جامشورو اور خیرپور شامل ہیں۔ خشک سالی نے بلوچستان کے علاقے دالبدین، گوادر، جیوانی، پنجگور، پسنی، نوکنڈی، اوماڑہ، کوئٹہ اور تربت کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ معمول سے درمیانے درجہ کی خشک سالی نے پنجاب کے کچھ علاقوں ملتان، میانوالی اور گلگت بلتستان کے علاقے بنجی، چلاس، گلگت اور گوپس کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 8 ستمبر، صفحہ3)

سندھ حکومت نے مون سون کے موسم میں بارشیں کم ہونے کی وجہ سے تھر پارکر سمیت چھ اضلاع کے وسیع علاقوں کو آفت زدہ قرار دیدیا ہے۔ دیگر اضلاع میں ٹھٹھہ، سانگھڑ، دادو، قمبر شہداد کوٹ اور عمر کوٹ شامل ہیں۔ ریلیف کمشنر نے ضلع دادو کے جوہی، خیرپورناتھن شاہ اور مہر تعلقہ کے 88 دیہات، ضلع عمرکوٹ کے 25 دیہات، ضلع قمبر شہدادکوٹ کے تعلقہ قمبر اور وارہ کے 22 دیہات، ضلع سانگھڑ کے تعلقہ کھپرو اور سانگھڑ کے 6 دیہات، اور ٹھٹھہ کے 6 دیہات کو آفت زدہ قرار دیا ہے۔ محکمہ مال مویشی سندھ نے دعوی کیا ہے کہ متاثرہ اضلاع میں مویشیوں کے لیے 235 امدادی کیمپ لگائے گئے ہیں جہاں تقریباً تین ملین مویشیوں کو حفاظتی ٹیکہ جات لگائے جاچکے ہیں۔ اس کے علاوہ 40,000 بیمار مویشیوں کو امدادی کیمپ میں مفت علاج اور ادویات فراہم کی گئی ہیں۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 6 ستمبر، صفحہ4)

کسان تنظیموں نے حکومت سندھ سے مطالبہ کیا ہے کہ پورے صوبے کو خشک سالی سے آفت زدہ قراردیا جائے جہاں اگست کے مہینے تک مسلسل چھ ماہ پانی کی قلت رہی ہے۔ سندھ حکومت نے 5 ستمبر کو 6 اضلاع کے مخصوص علاقوں کو آفت زدہ قرار دیا تھا۔ حکومت کے اس اقدام کے بعد ایوان زراعت سندھ (سندھ چیمبر آف ایگری کلچر) نے مطالبہ کیا ہے صوبے کے باقی اضلاع کو بھی جہاں معیشت کی بنیاد زرعی پیداوار پر ہے آفت زدہ قرار دیا جائے۔ ایوان کے صدر قبول محمد کھاتیان کا کہنا تھا کہ سکھر، گڈو اور کوٹری بیراج سے سیراب ہونے والی 12.7 ملین ایکڑ زمین کا 80 فیصد علاقہ پانی کی قلت سے متاثر ہوا ہے۔ 9 ملین ایکڑ زیر کاشت زمین خشک ہوچکی ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 10ستمبر، صفحہ5)

زراعت

ایک مضمون کے مطابق پنجاب میں زیر زمین پانی کی سطح میں اضافہ (واٹرلوجنگ) اور سیم وتھور کی وجہ سے 7,044,000 ایکڑ زرعی زمین پیداوار کے قابل نہیں رہی ہے۔ ایک نجی کمپنی نے ریتیلی اور غیر پیداواری زمین کو قابل کاشت بنانے کے لئے نامیاتی طریقہ اپنایا ہے، جس کے ذریعے مختلف اقسام کے باغات، فصلوں اور سبزیوں کی کامیابی سے کاشت کی گئی ہے۔ قصور میں دریائے ستلج کی ریتیلی زمین جہاں سیم وتھور سے متاثرہ زمین پر ناشپاتی کا باغ ایسی زمین کو کارآمد بنانے کی ایک مثال ہے۔ نجی کمپنی کے سربراہ سید بابر شاہ کا کہنا ہے کہ کئی سالوں کی سخت محنت اور تحقیق سے ایک نامیاتی کھاد تیار کی گئی ہے جو سیم و تھور کی شکار زمین کو قابل کاشت بناتی ہے۔ ماہر زراعت ڈاکٹر مبشر کا کہنا ہے کہ فصلوں پر کیمیائی کھاد اور دیگر کیمیائی اجزاء کا استعمال ماحولیاتی آلودگی اور انسانوں میں سرطان سمیت دیگر کئی بیماریوں کا باعث بن رہا ہے۔ کیمیائی کھاد کے مسلسل استعمال سے زمین کی زرخیزی بھی متاثر ہوتی ہے۔ اس کے برعکس قدرتی اجزاء سے تیار کردہ نامیاتی کھاد کے استعمال سے ناصرف مہنگی کیمیائی کھاد اور دیگر کیمیائی اجزاء کے اخراجات کم کرنے مدد ملتی ہے بلکہ پیداوار بھی بہتر اور معیاری ہوتی ہے۔ نامیاتی طریقہ سے تیار کی گئی زمین پر ہر قسم کی فصل کاشت کی جاسکتی ہے۔ نامیاتی کھاد کے استعمال سے پاکستان کو ایک سرسبز ملک میں تبدیل کیا جاسکتا ہے اور بڑے پیمانے پر سبزیوں اور اجناس کی کاشت کی مدد سے خوراک کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔
(آصف محمود، دی ایکسپریس ٹریبیون، 8 ستمبر، صفحہ11)

مال مویشی

یونیورسٹی آف ویٹنری اینڈ انیمل سائنس لاہور اور چین کی ہوژونگ ایگرکلچرل یونیورسٹی نے ادارہ جاتی، سائنسی و تدریسی روابط بڑھانے کے لئے مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط کیے ہیں۔ یادداشت کے مطابق دونوں یونیورسٹیاں مشترکہ طور پر تعلیم و تحقیق، تجارتی ترقی اور ٹیکنالوجی کا تبادلہ کریں گی۔ اس کے علاوہ محقیقین، طلبہ، اساتذہ کا تبادلہ کیا جائے گا اور کچھ تعلیمی وظائف (اسکالر شپس) بھی دیے جائیں گے۔ دونوں فریق مشترکہ سیمینار، تعلیمی پروگرام اور کانفرنس بھی منعقد کریں گے۔
(بزنس ریکارڈر، 9 ستمبر، صفحہ5)

ماہی گیری

بھارتی جیلوں میں قید پاکستانی ماہی گیروں کے خاندانوں نے کراچی میں آرٹس کونسل سے پریس کلب تک احتجاجی ریلی نکالی۔ ماہی گیروں کے حقوق کے لیے سرگرم ایک غیرسرکاری تنظیم نے اس ریلی کا انعقاد کیا۔ تنظیم کے چیئرمین محمد علی شاہ کا کہنا تھا کہ اس وقت 94 پاکستانی ماہی گیر بھارتی جیلوں میں جبکہ 391 بھارتی ماہی گیر پاکستانی جیلوں میں قید ہیں۔ ان قیدیوں میں بچے اور وہ ماہی گیر بھی شامل ہیں جنہوں نے چھ ماہ سے زیادہ قید کاٹ لی ہے۔ ان ماہی گیروں کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رہا کرنے کی ضرورت ہے۔ دونوں ممالک کے ماہی گیر ساحلی محافظوں کی جانب سے گرفتار کیے جانے کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔
(ڈان، 11 ستمبر، صفحہ 17)

موسمی تبدیلی

ایک خبر کے مطابق سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے موسمی تبدیلی کو ایک اجلاس کے دوران بتایا گیا ہے کہ شمالی علاقہ جات میں 50 تجزیہ گاہوں اور خودکار موسمی مراکز (آٹومیٹڈ ویدر اسٹیشن) کی تنصیب کے ذریعے برفانی پہاڑوں (گلیشئرز) کے پگھلنے کی رفتار کا جائزہ لینے کے لئے پاکستان کو ایک بلین ڈالر کے گرین کلائمیٹ فنڈ میں سے 37 ملین ڈالر ملیں گے۔ سیکریٹری وزارت موسمی تبدیلی نے کمیٹی کو مزید بتایا کہ کلائمٹ چینج ایکٹ 2017 کے تحت کلائمٹ چینج کونسل، کلائمٹ چینج فنڈ اور کلائمٹ چینج اتھارٹی قائم کی جائے گی۔ وزارت نے ان تمام اقدامات کے لیے وزارت قانون اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے منظوری حاصل کرلی ہے اور 124 نئی اسامیاں بھی منظور کرلی گئی ہیں۔
(بزنس ریکارڈر، 11 ستمبر، صفحہ8)

کسان /مزدور

گھروں میں کام کرنے والی مزدور عورتوں کی تنظیم ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن کی جانب سے منعقد کیے گئے ایک مشاورتی اجلاس میں مقررین کا کہنا تھا کہ ہوم بیسڈ ورکرز ایکٹ 2018 کے تحت قوانین کو جلد از جلد مرتب کیا جائے تاکہ مزدور اس نئے قانون سے فائدہ اٹھاسکیں۔ اس قانون کی منظوری کے بعد گھروں میں (مختلف شعبہ جات میں) کام کرنے والے قانونی طور پر مزدور شمار ہوتے ہیں اور انہیں وہ تمام فوائد حاصل ہیں جو صنعتی مزدوروں کو حاصل ہیں۔ نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے رہنما ناصر منصور کا کہنا تھا کہ اس قانون کے تحت جلد از جلد قوائد و ضوابط مرتب کیے جائیں گے تاکہ گھروں میں کام کرنے والے مزدوروں کے اندراج کا عمل شروع کیا جاسکے اور یہ مزدور دیگر شعبہ جات کے مزدوروں کی طرح فوائد حاصل کرسکیں۔ پاکستان میں سندھ حکومت نے سب سے پہلے یہ قانون منظور کیا لیکن اس قانون پر اس وقت تک عملدرآمد نہیں ہوسکتا جب تک اس کے قوائد و ضوابط مرتب نہ کرلیے جائیں۔
(ڈان، 8 ستمبر، صفحہ16)

نکتہ نظر

پاکستان میں مون سون کا موسم ختم ہونے کو ہے اس کے باوجود ملک میں پانی کی دستیابی کے حوالے سے تحفظات اور خدشات گزشتہ کئی ماہ کی طرح اب بھی تقریباً اس ہی طرح برقرار ہیں۔ پانی کی کمی اور ملک میں خشک سالی جیسی صورتحال جاری رہنے کی صورت میں ربیع کے موسم میں فصلوں خصوصاً گندم کی بیجائی کے متاثر ہونے کا امکان ناصرف ملکی معیشت بلکہ قومی غذائی تحفظ کے لیے بھی ایک بڑے خطرے کی صورت منڈلا رہا ہے۔ حکمرانوں کی سرمایہ دار دوست پالیسیاں ملک میں پانی کے شدید بحران کی ذمہ دار ہیں جنہوں نے پائیدار اصولوں پر آبی ذخائر کی تعمیر میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا۔ دوسری طرف حکومت نے نیولبرل پالیسیوں پر عمل کرتے ہوئے غیرملکی منڈیوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے غیر پائیدار طریقہ زراعت اور نقدآور فصلوں کو فروغ دیا۔ اس کا نتیجہ گنا اور اس جیسی زیادہ پانی سے کاشت ہونے والی فصلوں کی ضرورت سے کہیں زیادہ پیداوار کے رجحان کی صورت سامنے آیا۔ اگر صرف گنے کی ہی بات کریں تو پاکستان کے عوام اضافی چینی برآمد کرنے کے لیے تقریبا ہر سال قومی خزانے سے دی جانے والی زرتلافی کا بوجھ بھی برداشت کررہے ہیں اوراس کی اضافی پیداوار میں استعمال ہونے والے پانی کی صورت پانی کی کمی برداشت کررہے ہیں۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ گنا اگانے والے چھوٹے کسان خود مداخل بنانے والی کمپنیوں اور گنے سے چینی بنانے والے کارخانوں کے شدید استحصال کا شکار ہوکر خسارے سے دوچار رہتے ہیں اور ہرسال گنے کی سرکاری قیمت کے لیے بھی احتجاج پر مجبور ہوتے ہیں۔ پانی جیسے پیداواری وسائل محدود ہونے پر سرمایہ دار گروہوں کی منافع کے حصول کے لیے کھینچا تانی فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے گنا اور چاول کی پیداوار میں کمی کے مطالبے سے ظاہر ہوتی ہے۔ اس صوتحال کا تقاضہ ہے کہ ملک کے چھوٹے اور بے زمین کسان پائیدار زرعی اصولوں کو اپناکر پانی کے تحفظ کو یقینی بنائیں تمام تر پیداواری وسائل پر اختیار کے لیے جدوجہد کی راہ اپنائیں جو ملک کے عوام کے لیے خوشحالی کی راہ ہے۔

اگست 30 تا 5 ستمبر، 2018

زراعت

گزشتہ دور حکومت میں زرعی شعبہ کی غیر متاثرکن کارکردگی کو دیکھتے ہوئے تحریک انصاف کی نئی حکومت نے اپنی ابتدائی ترجیحات کے تحت زرعی ہنگامی حالت کے اعلان کا فیصلہ کیا ہے۔ وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کے ایک اعلی افسر کا کہنا ہے کہ حکومت نے زرعی شعبہ کے لیے وزیر خزانہ اسد عمر، وزیر اعظم کے مشیر برائے تجارت، ٹیکسٹائل و صنعت رزاق داؤد اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔ مال مویشی شعبہ کی بہتری اور اس میں اصلاحات کے لیے بھی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 5 ستمبر، صفحہ13)

کھاد

کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے کیمیائی کھاد تیار کرنے والے تین بند کارخانوں کو رعایتی قیمت پر گیس فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق آنے والے ربیع کے موسم میں کیمیائی کھاد کی طلب زیادہ ہوگی اور موجودہ کھاد کا ذخیرہ اگلے چار ماہ کی ضروریات کے لیے ناکافی ہے۔ اس دوران 0.3 ملین ٹن کھاد کی کمی کا خدشہ ہے۔ طلب پوری کرنے کے لیے حکومت کے پاس دو راستے تھے، یا تو کھاد درآمد کی جائے یا کھاد کے کارخانوں کو زرتلافی فراہم کی جائے۔ کمیٹی نے اپنے حالیہ اجلاس میں بند کارخانوں کو فوری طور پر رعایتی قیمت پر گیس فراہم کرکے دوبارہ کھولنے کا فیصلہ کیا۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 5 ستمبر، صفحہ20)

بیج

ایک مضمون کے مطابق عام طور پر پاکستان میں تمام اقسام کی فصلوں کے بیجوں کی ترسیل محدود ہے۔ زیادہ تر بیج کی اقسام غیر معیاری ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فی ہیکٹرپیداوار کم ہے جس کے منفی اثرات پیداواری لاگت اضافے، کسانوں کو بھاری زرتلافی کی فراہمی، غذائی اجناس، چینی اور کپاس وغیرہ کی بلند قیمتوں کی صورت میں نظر آتے ہیں۔ ملکی معیشت پر خوراک کی قیمت میں اضافے کی صورت اثرات مرتب ہوتے ہیں، مقامی پیداوار بین الاقوامی منڈیوں میں مقابلہ نہیں کرپاتی اور برآمدات کم ہوجاتی ہیں۔ ان مسائل کا سادہ حل یہ ہے کہ ملکی بیج کے شعبہ پر نظرثانی کی جائے، بڑے پیمانے پر کم قیمت معیاری بیج پیدا کرنے اور اس کی ملک بھر میں کسانوں تک رسائی کے نظام کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ بیج کے شعبہ کا اہم ترین مسئلہ یہ ہے کہ معیاری بیجوں کی ترسیل نجی شعبہ کے ہاتھ میں ہے۔ گزشتہ مالی سال کسانوں نے 82 فیصد معیاری بیج نجی شعبہ سے اور 12 فیصد سرکاری اداروں سے حاصل کیا جبکہ بقیہ 6 فیصد ضرورت درآمدی بیج سے پوری کی گئی۔ صنعتی ذرائع کا کہنا ہے کہ سرکاری ادارے گندم، کپاس اور دالوں کے بیجوں کی بہت تھوڑی طلب ہی پوری کرپاتے ہیں جبکہ دیگر کئی فصلوں کے بیجوں کی فراہمی میں حکومتی کردار نا ہونے کے برابر ہے۔
(محی الدین عظیم، ڈان، 3 ستمبر، صفحہ4، بزنس اینڈ فنانس)

جنگلات

وزیر اعظم عمران خان نے عالمی حدت اور جنگلات میں کمی کے مسائل سے نبٹنے کے لیے ملک میں آئندہ پانچ سالوں میں 10 بلین درخت لگانے کی مہم کا آغاز کیا ہے۔ وزیر اعظم نے مہم کا آغاز مکھنیال، پنجاب میں دیودار کا پودا لگا کر کیا جہاں 2015 میں بھی انہوں نے ’’بلین ٹری سونامی‘‘ مہم کا آغاز کیا تھا۔ اس موقع پر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان عالمی حدت کے اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ساتواں ملک ہے۔ اس صورتحال میں جنگلات میں اضافہ انتہائی اہم ہے۔
(ڈان، 3 ستمبر، صفحہ3)

ایک خبر کے مطابق سوات میں محکمہ جنگلات کے حکام سڑک کنارے لگے دہائیوں پرانے درخت کاٹنے میں مصروف ہیں جبکہ حکومت ملک بھر میں درخت لگانے کی مہم کا آغاز کررہی ہے۔ سیدو شریف کے رہائشی وکیل اور سماجی کارکن عطااللہ جان کا کہنا ہے کہ محکمہ جنگلات اور ضلعی انتظامیہ تاریخی ریاست سوات دور کے درخت عوام کے احتجاج کے باوجود کاٹنے میں مصروف ہے۔ ڈپٹی کمشنر نے محکمہ جنگلات کے حکام کو درختوں کی کٹائی روکنے کا حکم دیا تھا لیکن حکام ان احکامات پر عمل نہیں کررہے۔
(ڈان، 3 ستمبر، صفحہ7)

جنگلی حیات

گلگت بلتستان کی ایک مقامی عدالت میں حال ہی میں ضلع استور کے علاقے منی مرگ میں نایاب بھورے ریچھ کو ہلاک کرنے والے دو افراد کو ایک سال قید اور 300,000 روپے فی کس جرمانے کی سزا سنائی ہے۔ بھورے ریچھ کو زہر دے کر ہلاک کیا گیا تھا۔ ضلع اٹک، پنجاب کے رہائشی ان دونوں افراد کو محکمہ تحفظ جنگلی حیات نے پولیس کی مدد سے گرفتار کیا تھا۔ محکمہ کے مطابق بھورا ریچھ گلگت بلتستان میں معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے۔ اس ریچھ کے مختلف اعضاء ادویات بنانے اور اس کی کھال چرمی اشیاء بنانے میں استعمال کی جاتی ہے۔
(ڈان، 5 ستمبر، صفحہ7)

غذائی کمی

محکمہ صحت بلوچستان ماں اور بچوں کی صحت کے غذائی پروگرام ’’نیوٹریشن پروجیکٹ فار مدر اینڈ چلڈرن‘‘ کے پہلے مرحلہ میں سات اضلاع میں کامیابی کے بعد اس کا دائرہ کار وسیع کرنے کے لیے صوبائی کابینہ کی منظوری کا منتظر ہے۔ سیکریٹری محکمہ صحت صالح محمد نصر کا کہنا ہے کہ محکمہ نے ماں اور بچوں کی شرح اموات کو قابو کرنے کے لیے اس منصوبے کو بقیہ24 اضلاع میں وسعت دینے کے لیے کارروائی مکمل کرلی ہے۔ اس منصوبہ کے تحت مخصوص اضلاع میں پانچ سال سے کم عمر بچوں اور حاملہ عورتوں کی غذائی صورتحال کے حوالے سے سروے کیا جائے گا۔ منصوبہ کے تحت 6 سے 23 ماہ کے بچوں میں غذائی کمی (مائیکرو نیوٹرینٹ ڈیفشنسی) دور کرنے کے لیے مصنوعی غذائی اجزاء (ملٹی پل مائیکرو نیوٹرینٹ کے ساشے) فراہم کیے جارہے ہیں۔ فوری استعمال کے لیے تیار غذائیت سے بھرپور خوراک (ریڈی ٹو یوز تھراپیٹک فوڈ) بھی شدید غذائی کمی کی شکار ماؤں اور بچوں کو فراہم کی جارہی ہے۔ سیکریٹری صحت کا مزید کہنا تھا کہ بدقسمتی سے صوبے کے 44 فیصد بچے نشونما میں کمی اور تقریباً آدھے گھرانے بھوک یا غذائی عدم تحفظ کے شکار پائے گئے ہیں۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 3 ستمبر، صفحہ7)

تھرپارکر کے سول ہسپتال میں زیر علاج غذائی کمی کے شکار مزید 5 بچے جانبحق ہوگئے ہیں۔ ضلعی محکمہ صحت کے مطابق مرنے والے بچوں کی عمریں 6 دن سے 1 سال کے درمیان تھیں۔ رواں ماہ تھرپارکر میں مرنے والے بچوں کی تعداد 14 ہوگئی ہے۔ اگست کے مہینے میں تھرپاکر میں غذائی کمی سے 40 بچے جانبحق ہوئے تھے۔ ہر سال تھرپاکر کے مضافاتی علاقوں میں 1,500بچے غذائی کمی، جراثیمی بیماریوں اور مناسب طبی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے مرجاتے ہیں۔
(بزنس ریکارڈر، 5 ستمبر، صفحہ3)

مال مویشی

وزیر صحت سندھ ڈاکٹر عذرا پیجوہو نے جان لیوا کانگو جراثیم سے تحفظ کے لیے محکمہ مال مویشی حکام کو ہدایت کی ہے کہ سندھ اور بلوچستان کی سرحدی چوکیوں سے داخل ہونے والے تمام مویشیوں پر چھڑکاؤ کیا جائے۔ خبر کے مطابق جناح ہسپتال کراچی میں داخل ہونے والے کانگو جراثیم سے متاثرہ 12 میں سے 4 مریض عیدالاضحی کے بعد جانبحق ہوگئے ہیں جبکہ تین مریض اب بھی زیر علاج ہیں۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 5 ستمبر، صفحہ5)

پانی

پاکستان نے بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ دریائے چناب پر 1,000 میگاواٹ کے پاکل دل اور 48 میگاواٹ کے لوئر کلنال پن بجلی منصوبوں کی تعمیر پر پاکستانی تحفظات دور کرے۔ پاکستان نے واضح الفاط میں بھارتی وفد کو کہا ہے کہ اگر پاکستانی تحفظات دور نہیں کیے گئے تو پاکستان عالمی عدالت سے رجوع کرے گا۔ بھارتی آبی کمشنر پردیپ کمار سکسینہ کی سربراہی میں 9 رکنی بھارتی وفد پاکستان سے آبی تنازعات پر مذاکرات کے لیے لاہور میں ہے۔ مزاکرات کے پہلے مرحلے میں پاکستانی آبی کمشنر مہر علی شاہ نے اعتراضات اور ان کے ممکنہ حل بھارتی وفد کے سامنے پیش کیے ہیں۔
(ڈان، 30 اگست، صفحہ1)

وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے ایک اجلاس کے دوران حکام کو پانی کی فراہمی کے تمام ذرائع بشمول ریورس اوسموسس پلانٹ ایک مہینے کے اندر فعال کرنے کا حکم دیا ہے۔ اجلاس کے دوران وزیر اعلی کو بتایا گیا تھا کہ 1,620 آر۔او پلانٹ سمیت 2,190 پانی صاف کرنے کے کاخانوں (فلٹریشن پلانٹس) میں سے 818 کارخانے غیر فعال ہیں۔ وزیر اعلی کا کہنا تھا کہ جو کارخانے بجلی کی عدم فراہمی کی وجہ سے بند ہیں انہیں شمسی توانائی پر منتقل کیا جائے۔
(ڈان، 30 اگست، صفحہ17)

تھر کے مختلف دیہات کے مکینوں نے، جو تھرکی واحد نہر رن مائنر سے پانی حاصل کرتے ہیں، گزشتہ کئی سالوں سے جاری پانی کی قلت کے خلاف کالوئی ٹاؤن میں جمع ہوکر احتجاجی مظاہرہ کیا ہے۔ مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ ان کے دیہات کو بھی خشک سالی سے متاثرہ علاقوں کی فہرست میں شامل کرکے امدادی کاموں کا آغاز کیا جائے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ مسلسل احتجاج اور حکومتی اعلی عہدیداروں کی جانب سے یقین دہانیوں کے باوجود انہیں پانی فراہم نہیں کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے علاقے میں خشک سالی جیسی صورتحال کا سامنا ہے۔
(ڈان، 30اگست، صفحہ19)

وزیر اعلی سندھ سے ملاقات میں ایشیائی ترقیاتی بینک کے وفد نے نمکین پانی کو قابل استعمال بنانے والے کارخانوں (ڈی سیلی نیشن پلانٹس) کی تنصیب، کراچی سمیت سندھ کے دیگر اضلاع میں فراہمی و نکاسی آب کی اسکیموں کے لئے تکنیکی و مالی معاونت فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے۔ ملاقات میں اتفاق کیا گیا ہے کہ محکمہ منصوبہ بندی و ترقی کے ذریعے مجوزہ منصوبوں کی تفصیلات بینک کو فراہم کی جائیں گی۔
(ڈان، 31 اگست، صفحہ18)

سندھ آبادگار بورڈ نے صوبے میں تیزی سے کم ہوتے جنگلات کو سرکاری زمین کی غیرقانونی لیز اور قبضہ ختم کرکے بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ بورڈ ارکان نے حیدرآباد میں صدر عبدالمجید نظامانی کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں محکمہ آبپاشی میں سیاسی سرپرستی کے خاتمے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ اجلاس میں محکمہ آبپاشی پر زور دیا گیا ہے کہ وہ نہروں کے آخری سرے کے کسانوں تک پانی کی فراہمی یقینی بنائے اور پانی چوروں کے خلاف کارروائی کرے۔ سندھ میں ماہ جولائی تک بھی کسانوں کو پانی دستیاب نہیں تھا جو عموماً اپریل سے ملنا شروع ہوجاتا ہے۔ سندھ حکومت اکثر وفاق سے پانی کا مقررہ حصہ نہ ملنے کی شکایت کرتی ہے لیکن خود حکومت سندھ صوبے میں منصفانہ طور پر پانی تقسیم نہیں کرتی۔
(ڈان، 3 ستمبر، صفحہ17)

لاہور میں پاک بھارت مستقل آبی کمیشن کے تحت ہونیوالے مذاکرات میں بھارت کشن گنگا ڈیم سمیت دریائے جہلم پر جاری بھارتی منصوبوں کے معائنہ کے لئے پاکستان کو رسائی دینے پر راضی ہوگیا ہے۔ پاکستان نے بھی سندھ طاس معاہدہ کے تحت بھارت کو کوٹری بیراج کا معائنہ کرنے کی اجازت دیدی ہے۔ پاکستانی آبی کمشنر ستمبر 2018 کے آخری ہفتے میں بھارت کا دورہ کریں گے جس کے بعد بھارتی آبی کمشنر کوٹری بیراج کا دورہ کریں گے۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت دونوں ممالک نے معائنہ مکمل ہونے بعد اگلا اجلاس جلد منعقد کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
(ڈان، 4 ستمبر، صفحہ1)

ایشیائی ترقیاتی بینک نے بلوچستان میں پانی کی قلت سے نبٹنے اور زرعی آمدنی میں اضافہ کے لئے 100 ملین ڈالر قرض کی منظوری دیدی ہے۔ بینک کے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق بلوچستان میں آبی وسائل کی ترقی کا منصوبہ بلوچستان واٹر ریسورسس ڈیولپمنٹ سیکٹر پروجیکٹ آبپاشی ڈھانچے میں بہتری اور ساتھ ژوب اور مولا دریا کے آبی وسائل کے انتظام کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کرے گا۔ اس منصوبے کے تحت نہریں اور ڈیم بنائے جائیں گے۔ اس کے علاوہ خوراک کی پیداوار میں اضافے کے لیے کسانوں کو مدد فراہم کرنے کے لیے پانی کے استعمال کے موثر طریقے متعارف کروائے جائیں گے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 4ستمبر، صفحہ7)

وزیر اعظم کے مشیر برائے موسمی تبدیلی ملک امین اسلم نے وزارت موسمی تبدیلی کے ایک اجلاس میں کہا ہے کہ پاکستان میں سیلابی پانی ایک ماحولیاتی وسیلہ ہے جسے ہر سال ضائع کرنے کے بجائے ذخیرہ کرکے استعمال کرنا چاہیے۔ یہ آبی ذخیرہ جھیلوں کا پانی تبدیلی کرنے، تالاب بنانے اور ہجرت کرکے آنے والے پرندوں کے مسکن تیار کرنے میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ملک امین اسلم نے متعلقہ محکمہ جات کو چین اور دیگر ممالک کے تجربات کی روشنی میں موجودہ سیلاب سے بچاؤ کی حکمت عملی میں سیلابی پانی سے فائدہ اٹھانے کے لیے اصلاحات اور تحقیق پر مبنی سفارشات تیار کرنے کی ہدایت کی ہے۔
(ڈان، 5 ستمبر، صفحہ4)

کپاس

سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قومی غذائی تحفظ و تحقیق کے اجلاس میں بتایا گیا ہے کہ پانی کی غیر معمولی قلت کی وجہ سے اس سال ملک میں کپاس کی بیجائی مقررہ ہدف سے آٹھ فیصد کم ہوئی ہے۔ پانی کی قلت کی وجہ سے سندھ میں31 سے 35 فیصد کپاس کی بیجائی کا ہدف پورا نہیں کیا جاسکا ہے جس کی وجہ سے کپاس کی 14.37 ملین گانٹھوں کی پیداوار کا ہدف حاصل ہونے کا امکان نہیں ہے۔ مجموعی طور پر 2.95 ملین ہیکٹر ہدف کے مقابلہ 2.71 ملین ہیکٹر رقبے پر کپاس کی بیجائی کی گئی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 30 اگست، صفحہ2)

صوبہ سندھ اور پنجاب کے کچھ علاقوں میں کپاس کی چنائی کا آغاز ہوگیا ہے۔ کپاس کمشنر ڈاکٹر خالد عبداللہ کے مطابق کپاس کی پیداوار میں اضافے کے رجحان کی کئی وجوہات ہیں جن میں زیر کاشت رقبے میں گزشتہ سال کے مقابلے دو فیصد اضافہ شامل ہے۔ صوبہ پنجاب میں کپاس کی بوائی میں 11 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ سندھ میں کپاس کی بوائی میں پانی کی قلت اور خشک موسم کی وجہ سے 31 فیصد کمی آئی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 4 ستمبر، صفحہ8)

غربت

ادارہ شماریات پاکستان نے خیبر پختونخوا کے سات قبائلی اضلاع میں سماجی و اقتصادی سروے (سوشل اینڈ لیونگ اسٹینڈرڈز اینڈ ہاؤس ہولڈ انٹی گریٹڈ سروے) کا آغاز کردیا ہے۔ اس سروے کے ذریعے صحت، تعلیم، غربت، معیار زندگی سمیت 35 اشاریوں (انڈیگیٹرز) کے لیے اعداد و شمار اکھٹے کئے جائینگے۔ پاکستانی قبائلی علاقوں میں پہلی بار اس نوعیت کا سروے کیا جارہا ہے۔ حکام کے مطابق محکمے نے اگست کے آخری ہفتے میں تمام قبائلی اضلاع میں اپنا عملہ تعینات کردیا تھا۔ اس سروے کی تکمیل 2019 کے وسط تک متوقع ہے۔
(ڈان، 2 ستمبر، صفحہ7)

بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق ایشیائی ترقیاتی بینک نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لئے 2019 تا 2021 دورانیہ کے لیے 300 ملین ڈالر کی رقم مختص کی ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کے وسطی و مغربی ایشیا کے ڈائریکٹر کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ یہ رقم بی آئی ایس پی کے جاری اور نئے منصوبوں خصوصاً غربت کے خاتمے اور عورتوں کو بااختیار بنانے کے لیے استعمال ہوگی۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 4 ستمبر، صفحہ2)

نکتہ نظر

پاکستانی زرعی معیشت تقریباً آدھی آبادی کو روزگار فراہم کرتی ہے اور اس شعبے سے جڑی آبادی میں بھوک، غربت اور غذائی کمی کی بنیادی وجہ پیداواری وسائل پر ان کا اختیار نہ ہونا اور نیولبرل پالیسیاں ہیں جو اس شعبہ کو جدید بناکر، پیداوار میں اضافہ کرکے بھی کسی طور اس اکثریتی طبقہ کو خوشحال نہیں بناسکتیں کیونکہ یہ تمام تر پالیسی سازی بین لاقوامی سرمایہ داروں کے گٹھ جوڑ سے ملکی سرمایہ داروں پر مشتمل طبقہ اشرافیہ اپنے منافع کے لیے ہی ترتیب دیتا ہے۔افسوس کا مقام یہ ہے کہ زرعی شعبہ میں ہنگامی حالات کا اعلان متوقع ہے اور مسائل کے ذمہ دار جاگیردار اور سرمایہ داروں کو ہی مسائل کے حل کے لیے منتخب کیا جارہا ہے۔ بلکل اس ہی طرح جس طرح ملک بھر میں شجرکاری مہم کا آغاز تو کیا جاتا ہے، جو یقیناً قابل تعریف عمل ہے، لیکن صنعتوں سے خطرناک کیمیائی فضلے کا اخراج بلاروک ٹوک جاری ہے اور زرعی شعبہ میں استعمال ہونے والے مہلک کیمیائی زہر بنانے والے کارخانوں کو مراعات دے کر ان کی حوصلہ افزائی بھی کی جاتی ہے۔ بین الاقوامی بیج کمپنیوں کو منافع خوری کے مواقع فراہم کرنے کے لیے سرکاری سطح پر بیج کی پیداوار مسلسل کم کی جارہی ہے اور بیج جیسی اہم ترین پیداواری جنس کے لیے کسانوں کو ملکی و غیرملکی سرمایہ دار کمپنیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ زرعی شعبہ اور اس سے جڑی آبادیوں کی خوشحالی پائیدار زرعی پیداوار سے ہی ممکن ہے جس میں زمین، بیج اور پانی جیسے مداخل پر اختیار ملک کے ان چھوٹے اور بے زمین کسانوں کا ہو جن کی محنت کے بل پر یہ زرعی معیشت کھڑی ہے ناکہ جاگیردار، سرمایہ دار اور طبقہ اشرافیہ کا۔