2018 اپریل: 5 تا 11 اپریل
مال مویشی
ایک مضمون کے مطابق یونیورسٹی آف ویٹنری اینڈ اینمل سائنسز لاہور کے ماتحت کام کرنے والے ادارے دی سینٹر فار اپلائیڈ پالیسی ریسرچ ان لائیو اسٹاک نے حال ہی میں ایک پالیسی مسودہ (ریواؤل آف ڈیری سیکٹر فار اکنامک ڈیولپمنٹ) تیار کیا ہے جس میں مال مویشی شعبے کی بحالی کے لیے آٹھ تجاویز دی گئی ہیں۔ تجاویز میں کہا گیا ہے کہ تمام اقسام کے خشک دودھ کی درآمد پر محصولات 45 فیصد سے بڑھا کر 100 فیصد کرنا چاہیے اور مویشیوں کی صحت اور خوراک کے معیارات پر سختی سے عملدرآمد کیا جائے۔ خام دودھ اور اس کی مصنوعات پر صفر درجہ محصول بحال کرنے کے لیے ان اشیاء کو سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 کے پانچویں درجے میں منتقل کیا جائے۔ اس کے علاوہ زرعی شعبے کو دستیاب مراعات کا ڈیری شعبے پر بھی اطلاق ہونا چاہیے جیسے کہ بجلی کے نرخوں میں کمی، آمدنی پر محصول سے استثنیٰ اور مشینری و خام مال کی درآمد پر محصولات میں کمی یا مکمل چھوٹ۔ دودھ اور گوشت کی قیمت پر بے اختیار ہو (یعنی منڈی کی بنیاد پر ہو) اور ان کی قیمت کا تعین طلب و رسد کی بنیاد پر ہو۔ مقامی طور پر تیار کردہ خشک دودھ (فل کریم) اور بچوں کے خشک دودھ (فارمولا ملک) پر عائد 10 فیصد سیلز ٹیکس کو ختم کردیا جائے۔ اس کے علاوہ ڈیری شعبے کی ترقی کے لیے طویل المدت قومی پالیسی بنانے اور اس کے نفاذ کی ضرورت ہے جس پر تمام شراکت دار بشمول حکومت، ماہرین و محقق، نجی شعبہ اور کسان عمل کریں۔
(احمد فراز خان، ڈان، 9 اپریل، صفحہ4، بزنس اینڈ فنانس)
ماہی گیری
کراچی کے ساحلی علاقے سے وابستہ ماہی گیر آبادیوں کے مرد، عورتوں اور بچوں نے کراچی پریس کلب کے سامنے جاگیرداروں اور جرائم پیشہ افراد کی جانب سے کیے گئے زمینی قبضے کے خلاف احتجاج کیا۔ ڈلبا محلہ، ابراہیم حیدری اور ریڑھی گوٹھ کے ماہی گیروں کا کہنا تھا کہ ان کے دیہات کے سامنے کی تقریبا تمام ساحلی زمین پر قبضہ کیا جاچکا ہے۔ قبضے کا یہ سلسلہ 1980 سے جاری ہے۔ گزشتہ کچھ سالوں میں مقامی افراد کی جانب سے قبضے کے خلاف مزاحمت کے نتیجے میں 10 مقامی افراد قتل کیے جاچکے ہیں جن میں دو عورتیں بھی شامل ہیں۔ مظاہرے کی قیادت کرنے والی خاتون خدیجہ کا کہنا تھا کہ حال ہی میں جرائم پیشہ افرد نے داؤد جٹ کی ایما پر ڈالہ محلہ میں سینکڑوں ایکڑ زمین پر قبضہ کرلیا ہے جو ان کے گاؤں کی ملکیت ہے۔ مارچ کے وسط میں جب مکینوں نے مزاحمت کی تو جرائم پیشہ افراد نے ان کے بیٹے عثمان قسمانی کو قتل کردیا۔ مظاہرین نے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سے اس معاملے پر ازخود نوٹس لینے اور متعلقہ اداروں سے کارروائی کرنے اور انہیں انصاف فراہم کرنے کی اپیل کی ہے۔ (دی ایکسپریس ٹریبیون، 6 اپریل، صفحہ5)
شاہد جاوید برکی انسٹی ٹیوٹ آف پبلک پالیسی کی سی پیک اور ملکی معیشت کے حوالے سے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق سندھ اور بلوچستان میں سی پیک سے متعلق ترقیاتی ڈھانچے کی تعمیر سے پاکستان کی سمندری خوراک کی برآمدات کو سالانہ ایک بلین ڈالر تک بڑھایا جاسکتا ہے جو اس وقت تقریباً 400 ملین ڈالر ہے۔ پاکستان کی سمندری خوراک کی برآمد اس وقت کل عالمی برآمدات کا 0.25 فیصد ہے۔ پاکستانی سمندری خوراک کی 30 فیصد پیداوار دنیا کے 30 ممالک کو برآمد کی جاتی ہے۔ (دی ایکسپرس ٹریبیون، 11 اپریل، صفحہ 20)
زراعت
ایگری کلچر جرنلسٹس ایسوسی ایشن کی طرف سے بجٹ کے حوالے سے منعقد کیے گئے سیمینار میں کسان تنظیموں نے وفاقی بجٹ کے اعلان کے موقع پر پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دینے کا عندیہ دیا ہے اور ساتھ ساتھ گنا، چاول، آلو اور کپاس کی کم قیمتوں کی وجہ سے کسانوں کو ہونیوالے نقصانات کے ازالے کامطالبہ کیا ہے۔ کسانوں نے تمام اہم فصلوں کی کم سے کم امدادی قیمت مقرر کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے جس طرح پڑوسی ملک میں کی جاتی ہے۔ کسان نمائندوں کا کہنا تھا کہ کپاس اور خشک دودھ کی درآمد کو بھاری محصولات عائد کرکے محدود کیا جائے اور پانی کی کمی دور کرنے کے لیے جنگی بنیادوں پر آبی ذخائر کی تعمیر کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 6 اپریل، صفحہ20)
سیکریٹری وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو آگاہ کیا ہے کہ وفاقی کابینہ نے قومی غذائی پالیسی (نیشنل فوڈ سکیورٹی پالیسی) کی منظوری دیدی ہے۔ جس کے لیے وزارت نے پالیسی پر عملدرآمد کرنے کے لیے لائحہ عمل تیار کرنے کا کام شروع کردیا ہے۔ غربت، بھوک اور غذائی کمی کا خاتمہ، خوراک کے پیداواری وتقسیم کے نظام کو جدید و مؤثر بنانا اس پالیسی کے اہم مقاصد میں شامل ہے جس سے خوراک کے تحفظ کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔پالیسی میں پائیدار طریقہ پیداوار، زرعی شعبہ کو مزید منافع بخش بنانے، موسمی تبدیلی سے مطابقت پیدا کرنے اور کسانوں کی بیج، کھاد اور زرعی مشینری جیسے معیاری مداخل تک رسائی پر توجہ مرکوز کی جائیگی۔پالیسی میں ہنگامی صورتحال و آفات سے نمٹنے کے لیے منصوبہ بندی بھی شامل ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 6 اپریل ، صفحہ3)
فیڈرل کمیٹی آن ایگری کلچر نے کپاس و گنا سمیت خریف کی اہم فصلوں کا پیداواری ہدف مقرر کردیا ہے۔ کپاس کی 14.37 ملین گھانٹوں کی پیداوار کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔گنے کا پیداواری ہدف 68.157 ملین ٹن، چاول کا 6.931 ملین ٹن اور مکئی کا پیداواری ہدف 5.3 ملین ٹن مقرر کیا گیا ہے۔کپاس 2.955 ملین ہیکٹراور چاول 2.805 ملین ہیکٹررقبے پر کاشت کیا جائے گا۔ خریف کی دیگر فصلوں میں سے دال مونگ کا ہدف 120,600 ٹن، دال ماش 11,300 ٹن، مرچ 117,900 ٹن اور ٹماٹر کا 166,700 ملین ٹن پیداواری ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ خریف کی فصلوں کو جون سے ستمبر کے دوران پانی کی کمی کا خطرہ ہے۔ کمیٹی کے اجلاس میں وفاقی وزیر قومی غذائی تحفط و تحقیق نے بتایا کہ 69.4 ملین ایکڑ فٹ پانی کی طلب کے مقابلہ میں 62.03 ملین ایکڑ پانی دستیاب ہوگا۔
(ڈان، 11 اپریل، صفحہ11)
کیمیائی کھاد
کیمیائی کھاد بنانے والی صنعت کے زرائع کا کہنا ہے کہ گیس کی عدم فراہمی کی وجہ سے تین یوریا کارخانے بند ہونے کے نتیجے میں خریف کے موسم میں یوریا کی قلت اور اس کی قیمت میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ مئی کے مہینے سے یوریا کی ترسیل میں کمی متوقع ہے جس کے زرعی شعبے پر منفی اثرارت مرتب ہوسکتے ہیں۔ اس وقت تین یوریا کے کارخانے گیس نہ ہونے کی وجہ سے گزشتہ چھ ماہ سے بند ہیں جس کے نتیجے میں ہر ماہ 85,000 ٹن پیداوار میں کمی ہوئی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 4 اپریل، صفحہ5)
پانی
اس تصدیق کے بعد کہ بھارت نے متنازعہ کشن گنگا پن بجلی منصوبہ مکمل کرلیا ہے، پاکستان نے عالمی بینک کو کہا ہے کہ وہ 1960 کے سندھ طاس معاہدہ کے تحت دو متنازعہ ڈیموں پر پاکستان کے تحفظات دور کرنے کے لئے اپنی ذمہ داری محسوس کرے۔ سرکاری افسر کے مطابق وزارت توانائی نے گذشتہ ہفتہ عالمی بینک کے نائب صدر کو لکھے گئے ایک خط میں عالمی بینک کو اپنی ذمہ داری کا ادراک کرنے اور بھارت کو سندھ طاس معاہدہ کا پابند بنانے کے لئے کردار ادا کرنے پر زور دیا ہے۔ اگست 2017 میں پاکستان کو قابل اعتراض نقشہ کے مطابق کشن گنگا ڈیم مکمل ہونے کی رپورٹ مل گئی تھی۔
(ڈان، 5 اپریل، صفحہ1)
عالمی بینک نے تصدیق کی ہے کہ اسے بھارت کی جانب سے کشن گنگا ڈیم کی تعمیر مکمل کرنے کی پاکستانی شکایات موصول ہوگئی ہے اور بینک دونوں ممالک کے ساتھ اس مسئلے کے تصفیے کے لیے کام کررہا ہے۔ پاکستان نے اعتراض اٹھایا ہے کہ بھارت نے کشن گنگا ڈیم کی تعمیر عالمی بینک کی جانب سے (2016 میں) تعمیری کام سے روکے جانے کے دوران جاری رکھی ہے۔
(ڈان، 6 اپریل، صفحہ16)
ملک میں آج سے بارشوں کا نیا سلسلہ شروع ہونیکا امکان ہے اور یہ توقع کی جارہی ہے کہ بارشیں دو بڑے آبی ذخائر منگلا اور تربیلا ڈیم میں پانی سطح میں بہتری کے لیے معاون ہونگی۔ دونوں آبی ذخائر 22 فروری سے انتہائی نچلی یعنی سطح خطرے کے نشان پر ہیں۔ محکمہ موسمیات کے مطابق مغربی علاقے سے درمیانے درجے کا بارشوں کا سلسلہ داخل ہوگا جس کے اثرارت ممکنہ طور پر وسطی اور بالائی علاقوں پر پڑیں گے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق خیبر پختونخواہ، فاٹا، شمالی پنجاب، اسلام آباد، کشمیر، گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں وقفے وقفے سے گرج چمک کے ساتھ بارش کا امکان ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 8 اپریل، صفحہ2)
انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کے مطابق ملک میں جاری بارشوں کی وجہ سے پاکستان کے اہم آبی ذخائر منگلا اور تربیلا ڈیم میں پانی کی سطح میں واضح بہتری آئی ہے۔ پانی کے ذخائر میں اضافے کے بعد ارسا نے سندھ اور پنجاب کو پانی کی ترسیل میں 3,000 کیوسک اضافہ کردیا ہے۔ اس وقت پنجاب کو 34,700 کیوسک جبکہ سندھ کو 31,000 کیوسک پانی فراہم کیا جارہا ہے اس کے باوجود پنجاب کو 52 فیصد جبکہ سندھ کو 31 فیصد پانی کی کمی کا سامنا ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 11 اپریل، صفحہ2)
چاول
مالی سال 2018 کے ابتدائی نو ماہ میں چاول کی برآمد میں 29 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ پاکستان نے جولائی تا مارچ 2.95 ملین ٹن چاول برآمد کیا ہے جبکہ گزشتہ سال اسی عرصے کے دوران 2.53 ملین ٹن چاول برآمد کیا گیا تھا۔ رائس ایکسپورٹر ایسوسی ایشن آف پاکستان (ریپ) کے سینئر وائس چیئرمین رفیق سلیمان کا کہنا ہے کہ ریپ اور ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کے تعاون سے چاول کی برآمد کو بہتر بنایا گیا ہے۔ ریپ مسلسل اپنے وفود پاکستانی چاول کی تشہیر کے لیے مختلف ممالک روانہ کررہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یورپی ممالک کی جانب سے بھارت کے چاول پر جراثیم کش ادویات کے زیادہ استعمال کی وجہ سے پابندی عائد کی جارہی ہے اور پاکستانی برآمد کنندگان اس صورتحال کا فائدہ اٹھارہے ہیں۔
(بزنس ریکارڈر، 11 اپریل، صفحہ7)
زیتون
ایک خبر کے مطابق پنجاب حکومت امریکی امدادی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) کے اشتراک سے پوٹھوہار کے علاقے کو زیتون کی وادی میں تبدیل کرنے کے لئے 279.88 ملین روپے لاگت سے ایک مہم کا آغاز کررہی ہے۔ اس حوالے سے بارانی ایگری کلچر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، چکوال میں ہونے والے ایک اجلاس میں سیکریٹری محکمہ زراعت پنجاب محمد محمود کا کہنا تھا کہ وادی پوٹھوہار کی زمین اور آب و ہوا زیتون کی کاشت کے لئے مناسب ہے جہاں پانچ سالوں میں 15,000 ایکڑ زمین زیتون کے زیر کاشت لائی جاچکی ہے۔ بارانی ایگری کلچر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، چکوال میں زیتون سے تیل کشید کرنے والا کارخانہ بھی نصب کیا گیا ہے جس نے کسانوں کو 19,134 کلوگرام زیتون کا تیل بلا معاوضہ کشید کرکے دیا۔
(بزنس ریکارڈر، 11 اپریل، صفحہ13)
غربت
وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے پاکستان میں ورلڈ فوڈ پروگرام کے ڈائریکٹر ڈیوڈ ایم بیسلے کی قیادت میں ایک وفد سے ملاقات میں کہا ہے کہ ٹھٹھہ اور سجاول میں غذائی کمی کی وجہ سے جسمانی نشونما میں ہونے والی کمی سے تحفظ کا منصوبہ ’’دی اسٹنٹنگ پریونشن پروگرام‘‘ جاری ہے جس سے دونوں اضلاع میں غذائی کمی کے شکار بچوں کی تعداد میں 19.6 فیصد اور غذائی کمی کی وجہ سے قد میں کمی کے شکار بچوں کی تعداد میں آٹھ فیصد کمی کرنے میں مدد ملی ہے۔ وزیر اعلی نے مزید کہا کہ جنوری سے ستمبر 2016 میں غذائی کمی کے شکار بچوں کی صحت کی بحالی کا تناسب 98.94 فیصد جبکہ حاملہ اور دودھ پلانے والی ماؤں میں صحت کی بحالی کا تناسب 95.19 فیصد تھا۔ سندھ حکومت عالمی غذائی پروگرام اور دیگر امدادی اداروں کی مدد سے غذائی کمی کے مسائل حل کرنے کے لیے سخت کوششیں کررہی ہے۔
(ڈان، 6 اپریل، صفحہ19)
ماحول
ماحول اور انسانی زندگی دونوں کے لئے نقصاندہ ہونے کی بناپر حکومت سندھ نے ناقابل تلف (نان بائیو ڈی گریڈیبل) پلاسٹک کی مصنوعات کے استعمال پر پابندی عائد کردی ہے۔ سندھ انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایکٹ 2014 کے تحت کوئی بھی شخص پلاسٹک کی ایسی مصنوعات کی درآمد، پیداوار، ذخیرہ، تجارت، ترسیل، تقسیم و فروخت نہیں کرسکتا جو ناقبل تلف ہوں۔
(بزنس ریکارڈر، 7 اپریل، صفحہ3)
نکتہ نظر
اس ہفتے کی خبروں میں مال مویشی شعبے کی ترقی کے حوالے سے تجاویز پر مبنی خبر پنجاب حکومت کی سرمایہ داروں کو نوازنے اور غریب کسانوں کو مزید افلاس میں مبتلا کرنے کی پالیسیوں کو واضح کررہی ہے۔ ماضی میں ہفتہ وار خبروں میں عالمی بینک کے زرعی منڈی میں اصلاحات کے حوالے 300 ملین ڈالر کے منصوبے کی خبر بھی شامل کی گئی تھی جس کی شرائط میں گندم کی سرکاری خریداری بند کرنے اور دودھ و گوشت کی قیمت پر سرکاری اختیار کا خاتمہ شامل تھا۔ اب ملکی یونیورسٹیوں سے بھی ایسی ہی پالیسی دستاویزات کا اجراء کیا جارہا ہے جن پر عملدرآمد کے لیے پنجاب حکومت بیتاب رہتی ہے۔ دودھ اور گوشت کی قیمت کو منڈی پر چھوڑنے کا مقصد مال مویشی شعبے میں غیرملکی سرمایہ کاروں کو تحفظ دینا ہے جو اس وقت ڈبہ بند دودھ کمپنی کی صورت چھوٹے کسانوں سے انتہائی کم قیمت دودھ خرید کر انہتائی مہنگے داموں صارفین کو فروخت کررہے ہیں اور تاحال نقصان کا رونا رو کر حکومتی مراعات اور پالیسیوں میں تبدیلی کا مطالبہ کررہے۔ مال مویشی شعبے کی ترقی کے لیے عوامی خزانے سے مراعات یا ٹیکسوں میں چھوٹ طلب کی جارہی ہیں جن سے صرف بڑی بڑی ڈیری کمپنیاں اور گوشت برآمد کرنے والے ہی فائدہ اٹھاسکیں گے، چند مویشی پالنے والا چھوٹا کسان نہ خام مال اور نہ ہی فارم میں استعمال ہونے والی مشینری درآمد کرسکتا ہے۔ گوشت اور دودھ کی قیمت طلب و رسد کی بنیاد پر مقرر کرنا ملکی منڈی میں ان اشیاء کی قیمت میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔ حکومت جس طرح ٹیکسوں میں چھوٹ دے کر برآمدات کی حوصلہ افزائی کرتی ہے یہ ممکن ہے کہ بڑے پیمانے پر دودھ اور گوشت کی برآمدات سے ملکی منڈی میں ان اشیاء کی قیمت میں ہوشربا اضافہ ہو خاص کر ایسے حالات میں کہ جب درآمدی دودھ پر بھی بھاری محصولات عائد ہوں۔ پالیسی سازی اور حقائق کا تضاد ماہی گیری شعبے کی دو خبروں سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ ایک خبر میں سی پیک کی بدولت برآمدات دگنی ہوجانے کی امید ظاہر کی جارہی ہے جبکہ دوسری خبر میں یہی ماہی گیر جن کی محنت کے بل پر سمندری خوراک کی برآمدات کے زریعے زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے اس گلے سڑے نظام میں زمینی قبضے کا شکار ہوکر اپنا آبائی پیشہ چھوڑنے پر مجبور کیے جارہے ہیں۔ ایوان اقتدار و عدالت میں ان بااثر سرمایہ داروں کے منافع میں رکاوٹ پر ’’نوٹس‘‘ لیے جاتے ہیں لیکن اس ملک کے اکثریتی کسان مزدور طبقے کو سفاک سرمایہ داروں، بے رحم جاگیرداروں اور بدعنوان افسرشاہی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ استحصال کے شکار اس اکثریتی طبقے کو اپنے زندہ رہنے، زمین اور روزگار جیسے بنیادی حقوق کے لیے ایک جٹھ ہوکر ظالم طبقے کے خلاف صف آرا ہونا ہوگا۔
2018 اپریل: 12 تا 18 اپریل
زراعت
محکمہ زراعت پنجاب کے ترجمان کے مطابق کسانوں کو آمدنی کی غیر یقینی صورتحال سے نجات دلانے کے لئے حکومت پنجاب نے فصلوں کی بیمہ اسکیم (تکافل) کا آغاز کردیا ہے۔ اس حوالے سے خریف کے موسم میں منصوبے کے پہلے مرحلے کا آغاز شیخوپورہ، ساہیوال، لودھراں اور رحیم یار خان سے کیا جائیگا۔ اس منصوبے کے تحت پانچ ایکڑ زمین رکھنے والے کسانوں کی بیمہ کی تمام رقم (پریمیم) بطور زرتلافی حکومت ادا کرے گی جبکہ چھ ایکڑ سے 25 ایکڑ تک کے زمین مالکان کی بیمہ کی رقم کا 50 فیصد حصہ بھی حکومت بطور زرتلافی ادا کرے گی۔ پہلے مرحلے میں یہ بیمہ اسکیم صرف چاول اور کپاس کی فصلوں تک محدود ہوگی جبکہ دوسرے مرحلہ میں گنا، مکئی، گندم، پھلوں، سبزیوں سمیت دیگر فصلوں پر بھی اس منصوبے کا اطلاق کیا جائیگا۔ منصوبے کے تحت قدرتی آفات اور کم پیداوار کی صورت میں کسانوں کو معاوضہ کی رقم ادا کی جائے گی۔
(بزنس ریکارڈر، 12 اپریل، صفحہ20)
کسانوں کو بلاسود قرض کی فراہمی کے منصوبے (ای کریڈت اسکیم) کے تحت تقریباً 314,000 کسانوں کو قرضے دیئے جا چکے ہیں۔ محکمہ زراعت پنجاب اس سال خریف کے موسم میں 40 ہزار روپے فی ایکڑ قرضہ فراہم کررہا ہے۔ محکمہ زراعت پنجاب کے ترجمان کے مطابق حکومت نے 50 ایکڑ تک زمین رکھنے والے کسانوں کو بھی اس منصوبے میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ منصوبے کے تحت کسان اخوت، نیشنل رورل سپورٹ پروگرام، ٹیلی نار بینک، نیشنل بینک آف پاکستان اور زرعی ترقیاتی بینک سے قرض حاصل کرسکتے ہیں۔ سود سے پاک قرضوں کا اجراء زرعی شعبہ میں 5.73 فیصد شرح نمو کے حصول میں اہم کردار کرے گا۔
(بزنس ریکارڈر، 12 اپریل، صفحہ20)
ایک مضمون کے مطابق کابینہ نے قومی غذائی پالیسی (نیشنل فوڈ سیکیورٹی پالیسی) منظور کرلی ہے اور وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق نے پالیسی پر عملدرآمد کے لیے منصوبہ بندی کا آغاز کردیا ہے۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں وزارت کے اعلی حکام نے اس کی خصوصیات بتاتے ہوئے کہا ہے کہ اس پالیسی کا بنیادی مقصد ایسا جدید اور موثر خوراک کی پیداوار اور اس کی تقسیم کا نظام یقینی بنانا ہے جو غذائی تحفظ، خوراک میں غذائیت، خوراک تک رسائی اور اس کے استعمال میں معاون ہو۔اس کے علاوہ اس پالیسی میں کسانوں کی بیج، کھاد، زرعی مشینری جیسے معیاری مداخل تک رسائی میں اضافے پر توجہ مرکوز ہوگی۔ اس پالیسی کے دیگر اہم مقاصد میں غربت کا خاتمہ، بھوک اور غذائی کمی کا خاتمہ، خوراک کی پائیدار پیداوار کے نظام کا فروغ اور زراعت کو مزید فائدہ مند، منافع بخش اور موسمی تبدیلی سے مطابقت کے قابل بنانا ہے۔
(امین احمد، ڈان، 16اپریل، صفحہ4، بزنس اینڈ فنانس)
محکمہ زراعت پنجاب نے زرعی شعبے میں جامع اصلاحات کا منصوبہ اسٹرینتھنگ مارکیٹ فار ایگری کلچر اینڈ رورل ٹرانسفورمیشن پرجیکٹ (اسمارٹ) کا آغاز کردیا ہے جس سے پانچ سالوں میں زرعی شعبے کی اقتصادی قدر میں 2.2 بلین ڈالر اضافہ اور 350,000 ملازمتیں پیدا ہونے کی توقع ہے۔ اس کے علاوہ امکان ہے کہ منصوبے سے 1.7 ملین افراد غربت سے باہر آجائیں گے۔ سیکریٹری زراعت پنجاب محمد محمود نے صحافیوں کو منصوبے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا ہے کہ اس منصوبے کے اہم مقاصد میں نجی شعبے کو زرعی منڈی قائم کرنے کی اجازت، دودھ اور گوشت کے میعار کی بہتری اور اس کی پیداوار کی حوصلہ افزائی، مویشیوں کی افزائش اور ان کی بہتر دیکھ بھال اور آبپاشی کے پانی کا بہتر استعمال شامل ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 17 اپریل، صفحہ13)
سندھ حکومت نے حال ہی میں اعلان کردہ زرعی پالیسی پر عمل درآمد کے لئے ’ایگری کلچر پالیسی امپلی مینٹیشن کمیشن‘ کے نام سے ایک کمیشن قائم کیا ہے جس کا مقصد اعلان کردہ زرعی پالیسی پر عملدرآمد کے لئے حکمت عملی تیار کرنا ور پالیسی کے حوالے سے سامنے آنے والے مسائل کو حل کرنا ہے۔ وزیر زراعت سندھ سہیل انور سیال نے ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا ہے کہ کمیشن کے سربراہ وزیر زراعت سندھ ہونگے جبکہ اس کے دیگر ارکان میں محکمہ منصوبہ بندی، زراعت، جنگلات، آبپاشی، خزانہ اور سندھ ایگریکلچرل گروتھ پراجیکٹ کے سیکریٹری، ایوان زراعت سندھ اور سندھ آبادگار بورڈ کے چیئرمین بھی شامل ہونگے۔ اس کمیشن میں مال مویشی، ماہی گیری شعبے کے نمائندے اور نجی شعبے کے ماہرین بھی شامل ہونگے۔
(ڈان، 18 اپریل، صفحہ 19)
ڈیری
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے بین االصوبائی رابطہ میں سیکریٹری لائیو اسٹاک اینڈ ڈیری ڈیولپمنٹ نسیم صادق نے انکشاف کیا ہے کہ دودھ کے کارخانوں میں اوسطاً ایک ٹرک تازہ دودھ سے پروسیسنگ کے بعد 14 ٹرک دودھ تیار کیا جاتاہے۔ تازہ دودھ میں چربی کی مقدار چھ فیصد جبکہ ڈبہ بند دودھ میں یہ مقدار تین فیصد ہوتی ہے۔ کمپنیوں کو خشک دودھ تیار کرنے کے لئے اجازت نامے (لائسنس) فراہم کیے گئے تھے لیکن 20 سے زائد کمپنیاں خشک دودھ کے بجائے چائے کو سفید کرنے والا محلول (ٹی وائٹنر) بنا رہی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ زیادہ تر خشک دودھ بھارت سے درآمد کرکے یہاں فروخت کیا جارہا ہے۔ مقامی دودھ پر زرتلافی اور درآمدی دودھ پر محصولات میں اضافہ کیا جانا چاہیے۔ اس طرح کے اقدمات سے مویشیوں کی آبادی کو محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ ماضی میں مال مویشی شعبے کی ترقی کے لیے امریکی اور آسٹریلوی طرز پیداوار اپنائے گئے لیکن یہ دیکھا گیا ہے کہ یہاں صرف مقامی طریقے ہی کامیاب ہوسکتے ہیں۔ پاکستان میں بھیڑوں کی تقریبا 200 نسلیں پائی جاتی ہے اور ہر 150 کلومیٹر کے بعد بھینس اور گائے کی نئی نسل دیکھی جاسکتی ہے۔ ملک کی 46 فیصد آبادی کے پاس مال مویشی موجود ہیں جن کی دیکھ بھال کرنے والوں میں 95 فیصد عورتیں ہیں۔اگر ان عورتوں کوتربیت دی جائے تو مال مویشی شعبے میں بہتری آسکتی ہے۔
(ڈان، 14 اپریل، صفحہ 4)
وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کسانوں اور ملک کی ڈیری صنعت کے تحفظ کے لیے خشک دودھ کی درآمد پر محصولات میں اضافے کے لیے مختلف تجاویز پر غور کررہی ہے۔ اس سلسلے میں وزارت نے کسانوں اور ڈیری کی صنعتوں سے بھی تجاویز طلب کی ہیں۔ پاکستان ڈیری ایسوسی ایشن نے تجویز دی ہے کہ کسانوں سے تازہ دودھ کی خریداری کی بنیاد پر درآمد کیے جانے والے خشک دودھ کے لیے کوٹہ سسٹم نافذ کیا جائے۔ کوٹے کے تحت درآمد کیے گئے خشک دودھ پر درآمدی محصول (ریگولیٹری ڈیوٹی) پانچ فیصد کردیا جائے اور بغیر کوٹہ کے درآمدی خشک دودھ پر 60 فیصد محصول عائد کیا جائے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے اعداوشمار کے مطابق ڈیری کی صنعت خشک دودھ (بشمول وے پاؤڈر) کی کل درآمد کا 55 فیصد استعمال کرتی ہے جبکہ 45 فیصد دیگر صنعتیں استعمال کرتی ہیں۔ڈیری ایسوسی ایشن نے وزارت پر زور دیا کہ وہ مقامی کسانوں سے دودھ خریدنے والوں کو فائدہ فراہم کریں۔ مجوزہ طریقہ کار انڈونیشیا، تھائی لینڈ اور ترکی میں بھی نافذ ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 14 اپریل، صفحہ7)
ڈیری اینڈ کیٹل فارمرز ایسوسی ایشن کے مرکزی صدر شاکر عمر گجر نے پشاور پریس کلب پر ایک نیوز کانفرنس میں مطالبہ کیا ہے کہ حکومت فوری طور ملک میں خشک دودھ کی درآمد اور فروخت پر پابندی عائد کرے اور دودھ و گوشت کی پیداوار میں بہتری کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ڈیری شعبہ حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے مسائل کا شکار ہے جس کی وجہ سے فارمر اپنے مویشی قربان کرنے پر مجبور ہیں۔ اس شعبے کو درپیش مسائل کی وجہ سے ڈیری فارمر یہ پیشہ چھوڑنے پر مجبور ہورہے ہیں۔ کراچی میں تقریباً 200 ڈیری فارمر دیوالیہ ہوگئے ہیں اور قریب 100 ٖڈیری فارمر نے اپنا کاروبار سندھ سے پنجاب منتقل کردیا ہے۔ گزشتہ پانچ سالوں میں ہزاروں ٹن خشک دودھ (وے پاؤڈر اور اسکمڈ ملک پاؤڈر) درآمد کیا گیا ہے جس سے مقامی ڈیر فارمرز کے لیے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک میں مصنوعی (سنتھیٹک) دودھ کی فروخت بھی بڑھ رہی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 17 اپریل، صفحہ8)
گندم
اعلی سرکاری حکام کے مطابق پنجاب میں اس سال گندم کی 19.96 ملین ٹن پیداوار متوقع ہے جو گزشتہ سال 20 ملین ٹن تھی۔ گندم کی کٹائی کے موسم میں اہم مسئلہ منڈی میں گندم کی گرتی ہوئی قیمت ہے جو باعث تشویش ہے۔ جنوبی پنجاب کے کچھ علاقوں میں گندم کی قیمت 1,100 روپے فی من ہوگئی ہے جبکہ سرکاری قیمت 1,300 روپے فی من ہے۔ گذشتہ چند دنوں میں میاں چنوں، بھاولنگر، پاکپتن، عارف والاکی تھوک منڈیوں میں گندم کی قیمت 1,040سے 1,120 روپے فی من تھی۔ چیئرمین پاکستان کسان اتحاد خالد کھوکھر کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے آئندہ ہفتے سے گندم کی خریداری کا عمل شروع نہیں کیا تو گندم کی قیمت مزید کم ہونے کا امکان ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 14 اپریل، صفحہ20)
حکومت پنجاب نے گندم کی خریداری پالیسی2018-19 جاری کردی ہے جس کے تحت چار ملین ٹن گندم کی خریداری کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ گندم کی فی من قیمت 1,300 روپے مقرر کی گئی ہے۔ پالیسی کے تحت 10 ایکڑ تک زمین رکھنے والے کسان باردانے کے حصول کے اہل ہونگے۔ پہلے مرحلے میں382 گندم خریداری مراکز سے اہل کسانوں سے درخواستیں وصول کی جائیں گی۔ دوسرے مرحلے میں درخواستوں کی جانچ کی جائے گی اور 24 اپریل کو باردانے کی فراہمی کا عمل شروع ہوگا جو 30 دنوں تک جاری رہے گا۔ گندم کی خریداری کے تمام عمل کی نگرانی ڈویژنل کمشنر، محکمہ خوراک کے ڈائریکٹر اور سیکریٹری کرینگے۔
(ڈان، 15 اپریل، صفحہ2)
آٹا مل مالکان اور پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن کے سابق چیرمین حاجی محمد بشیر اور حاجی محمد خلیق ارشاد نے پنجاب حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ آنے والے رمضان پیکیچ میں آٹے کو شامل نہ کرے کیونکہ آٹے پر زرتلافی سے عام صارفین کے بجائے دوسروں کو فائدہ ہوتا ہے۔ حکومت کی گندم خریداری مہم رمضان کے دوران بھی جاری رہے گی۔ اس مہم کے دوران حکومت 1,300 روپے فی من گندم کسانوں سے خریدے گی جبکہ رمضان پیکج کے تحت سرکاری گوداموں سے آٹا ملوں کو فراہم کیے جانے والے گندم کی قیمت 800 روپے فی من ہوگی۔ دونوں قیمتوں میں 500 روپے کا فرق ہے جس سے بدعنوانی کی حوصلہ افزائی ہوسکتی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ خود کو گندم کی خریداری کے عمل سے الگ کرے اور (بجائے اس کہ کے کسانوں کو گندم پر زرتلافی دے) اس کی قیمت کی فہرست جاری کرے تاکہ نجی شعبہ بھی اس خریداری میں حصہ لے سکے۔ زرتلافی کی یہی رقم بیج، کھاد، ڈیزل، بجلی اور پانی کی قیمت کم کرنے کے لیے استعمال کی جاسکتی ہے۔ اس طرح گندم کی قیمت کم ہوجائے گی جس کے نتیجے میں آٹے کی قیمت بھی کم ہوگی۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 15 اپریل، صفحہ11)
سندھ اسمبلی کے اجلاس میں گندم کی خریداری اور باردانے کی تقسیم پر بحث کے دوران مسلم لیگ ن کی رکن اسمبلی صورٹھ تھیبو نے کہا ہے کہ صوبے میں گندم کی خریداری مہم شروع کی گئی ہے لیکن کسانوں کو باردانہ فراہم نہیں کیا جارہا۔ سندھ کے کئی علاقوں میں گندم کے خریداری مراکز قائم نہیں کیے گئے اور متعلقہ حکام کسانوں سے ملنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ ان کے ٹیلی فون بندپڑے ہیں اور کوئی بھی کسان بااثر سیاسی شخصیات کی پرچی کے بغیر باردانہ حاصل نہیں کرسکتا۔ کسان احتجاج کررہے ہیں لیکن کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔ وزیر خوراک سندھ نثار احمد کھوڑو نے ان الزامات کے جواب میں اسمبلی کو بتایا کہ حکومت نے 1.4 ملین ٹن گندم خریدنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ سندھ میں 5.5 ملین ٹن گندم کی پیداوارہوئی ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ تمام گندم 1,300 روپے فی من امدادی قیمت پر خریدی جاسکے۔ حکومت نے گندم کی خریداری اور کسانوں کو زرتلافی دینے کے لیے ایک بلین روپے بینکوں سے قرض لیا ہے۔ سندھ کے کئی اضلاع میں فوڈ انسپکٹر کی غیر موجودگی کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اس وقت تقرریوں پر پابندی ہے جس کے باعث پاس فوڈ انسپکٹرز کی کمی ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 17 اپریل، صفحہ5)
غربت
سندھ کے ضلع تھرپارکر میں شدید گرمی میں غذائی کمی اور طبی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کی اموات کا سلسلہ جاری ہے۔ غیرمصدقہ اطلاعات کے مطابق صرف سول ہسپتال مٹھی میں اس ماہ کے ابتدائی 16 دنوں میں 27 بچے جانبحق ہوچکے ہیں۔اس کے علاوہ دور دراز علاقوں میں درجنوں دیگر طبی مراکز میں بھی بچوں کی اموات کی اطلاعات ہیں۔ یونیسیف کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان ان دس ممالک میں پہلے درجے پر ہے جہاں بچوں کی شرح اموات سب سے زیادہ ہے۔ ملک میں ہر 1,000 میں سے 46 نومولود بچے پیدائش کے پہلے مہینے میں ہی مرجاتے ہیں۔
( دی ایکسپریس ٹریبیون، 18 اپریل، صفحہ12)
آبپاشی
نیسلے پاکستان نے ناقص زرعی طریقوں کی وجہ سے پانی کے زیاں کے مسئلہ کو اجاگر کرنے کے لئے پاکستان ایگری کلچرل ریسرچ کونسل (پارک) سے اشتراک کیا ہے۔ دنیا بھر میں تقریباً 70 فیصد پانی زرعی مقاصد کے لئے استعمال ہوتا ہے جبکہ پاکستان میں یہ شرح 90 فیصد ہے جس میں سے 50 فیصد پانی ناقص زرعی طریقوں کی وجہ سے ضائع ہوجاتا ہے۔ اس اشتراک کے ذریعے نیسلے پاکستان قطرہ قطرہ آبپاشی نظام کی تنصیب کے ذریعے پارک کی تکنیکی صلاحیت کو بڑھا رہا ہے۔ اس اشتراک کے تحت چھ ایکڑ رقبے پر آزمائشی بنیادوں پر قطرہ قطرہ آبپاشی نظام نصب کیا جائیگا جو جدت، ماحول دوست ٹیکنالوجی، کم سے کم پانی کے استعمال کے ذریعے پیداوار میں اضافے کا عملی نمونہ ہوگا۔ یہ منصوبہ کسانوں کے لیے پارک کے تحقیقی مرکز میں معلومات کے حصول کا مرکز ہوگا۔
(بزنس ریکارڈر، 12 اپریل، صفحہ20)
پاکستان اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے پنجاب میں آبپاشی نظام کو بہتر بنانے اور نجی و سرکاری شراکتداری (پبلک پرائیوٹ پاٹنر شپ) کو فروغ دینے کے لیے 375 ملین ڈالر قرض کے دو معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ 275 ملین ڈالر لاگت کے جلال پور آبپاشی منصوبہ کے تحت جہلم اور خوشاب اضلاع میں نہری نظام تشکیل دیا جائے گا جس کے لیے دریائے جہلم کا پانی رسول بیراج کے مقام سے حاصل ہوگا۔ منصوبہ سے 68,000 ہیکٹر کم پیداوار دینے والی بارانی زمین کو آبپاشی نظام کی سہولت حاصل ہوگی جس سے 384,000 افراد کو فائدہ پہنچے گا۔ 100 ملین ڈالر کے نجی و سرکاری شراکت داری کو فروغ دینے کے منصوبے سے مختلف شعبہ جات میں ترقیاتی منصوبوں کو استحکام حاصل ہوگا۔
(دی ایکسپریس ٹربیون، 14 اپریل، صفحہ20)
چاول
یورپی تاجروں کے مطابق انڈونیشیا نے پاکستان سے 150,000 ٹن چاول خرید لیا ہے جسے مئی سے جولائی کے درمیان برآمد کیا جائے گا۔ وائس چیئرمین رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان (ریپ) رفیق سلیمان نے کہا ہے کہ چاول کی فروخت کے اس معاہدے سے پاکستان کو 70 ملین ڈالر کا زرمبادلہ حاصل ہوگا۔
(ڈان، 14 اپریل، صفحہ10)
کھاد
حکومت کی جانب سے بجٹ 2018-19 میں یوریا کی فروخت پر دی جانے والی نقد زرتلافی ختم کرکے دو فیصد سیلز ٹیکس عائد کیے جانے کا امکان ہے جو اس وقت پانچ فیصد ہے۔ فلحال حکومت کھاد کی ہر بوری پر کسانوں کو 100 روپے زرتلافی فراہم کررہی ہے۔ تاہم کھاد تیار کرنے والے کارخانوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے 2016-17 میں دی گئی زرتلافی کی 13 بلین روپے کی رقم اب تک انہیں ادا نہیں کی ہے۔ رواں مالی سال بھی کھاد کے کارخانوں نے رعایتی قیمت پر کھاد فروخت کی جس کی مد میں حکومت پر 12 بلین روپے واجب الادا ہیں لیکن حکومت نے اب تک ایک پیسہ ادا نہیں کیا جس کی وجہ سے انہوں مسائل کا سامنا ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 17 اپریل، صفحہ20)
نکتہ نظر
اس ہفتے کی خبروں کی ترتیب پر غور کریں تو ملک میں پیداوار خصوصاً گندم کی پیداوار، فصلوں کے بیمے کے منصوبے، پانی کے موثر استعمال کے منصوبے، عوام کو ان منصوبوں کے ذریعے غربت سے نکالنے اور ملازمتیں فراہم کرنے کے منصوبے ہیں تو کہیں ملک میں مال مویشی شعبے میں ترقی کے امکانات اور اس کی فادیت کے چرچے ہیں، اور ان تمام خبروں کے عین نیچے تھرپارکر میں 16 دنوں میں 27 بچوں کی موت کی خبر حکمرانوں اور ان پالیسی سازوں کی منصوبہ بندی کا مزاق اڑا رہی ہے۔ ملک میں گندم کی بھرپور فصل، مویشیوں کی کثیر آبادی اور دودھ و گوشت کی فراوانی مل کر بھی اب تک ملک کے پسماندہ علاقوں میں قوم کے معصوم بچوں کو جینے کا حق دینے اور عوام کو غربت، بھوک، غذائی کمی، بیروزگاری سے نجات دلانے میں ناکام نظر آتی ہے جس کی بنیادی وجہ پیداواری وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم ہے۔ وہ زمین جو خوراک اگلتی ہے اس پر جاگیردار اور طبقہ اشرافیہ قابض ہے، وہ صنعت جو دودھ اور گوشت کا کاروبار کرتی ہے اور خود سرمایہ داروں کی حکومت غیرملکی کمپنیوں کو نوازنے کے لیے کسانوں کا استحصال کررہی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ چھوٹے کسانوں کو باردانے سے بھی محروم کرکے بے شرمی کے ساتھ اسمبلی میں کہا جارہا ہے کہ حکومت گندم کی تمام پیداوار پر زرتلافی نہیں دے سکتی، لیکن یہی حکومت چینی کے صنعتکاروں کو اربوں روپے زرتلافی دے سکتی ہے تاکہ وہ کھل کر کسانوں کا مزید استحصال کرسکیں۔ ان حالات کا مقابلہ صرف اور صرف عوامی جدوجہد کے ذریعے ہی ممکن ہے جس کے لیے عوام کو تمام تفریقات سے بالاتر ہوکر متحد ہونا ہوگا۔
اپریل: 19 تا 25 اپریل 2018
زمین
گلگت کے علاقہ چلمس داس کے سینکڑوں رہائشیوں نے زمینی تنازعہ پر دو دن سے جاری احتجاجی دھرنا ختم کردیا ہے۔ دھرنا گلگت بلتستان حکام کی جانب سے لینڈ ریفارمز کمیشن کے ذریعے تنازعہ حل کرنے کی یقن دہانی کے بعد ختم کیا گیا۔ مظاہرین نے دھرنا دے کر گلگت ۔نومل شاہراہ بند کردی تھی۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ 5,500 کنال زمین قریبی وادی نومل کے مکینوں کی ملکیت ہے جس پر حکومت زبردستی قبضہ کررہی ہے اور ان کی اجازت اور زرتلافی دیے بغیر زمین سرکاری اداروں کو منتقل کررہی ہے۔ گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی میں حزب اختلاف کے رہنما محمد شفیع خان نے دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چلمس داس کی زمین صدیوں سے نومل کے رہائیشیوں کی ملکیت ہے۔ حکومت اور مقامی افراد کے درمیان زمین کا تنازعہ ختم کرنے کے لئے 2004 میں کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔کمیٹی نے مقامی افراد کی رضامندی سے 1,600 کینال زمین قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کو دینے کا فیصلہ کیا تھا لیکن اب اس فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حکومت سرکاری اداروں کو زمین منتقل کررہی ہے۔
(ڈان، 19 اپریل، صفحہ7)
مالاکنڈ ڈویژن کی کاشتکاران کمیٹی نے وزیر اعلی کے پی کے کی جانب سے زمینی ملکیت کے بل پر دستخط میں تاخیر کے خلاف پشاور میں وزیر اعلی ہاؤس کے سامنے دھرنا دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ بل صوبائی اسمبلی سے منظور ہوچکا ہے لیکن اب تک وزیر اعلی کی منظوری کا منتظر ہے۔ کمیٹی ارکان کا کہنا ہے کہ مالاکنڈ، ہزارہ اور کوہستان کے پہاڑی علاقوں کی زمین پر ہزاروں کسان دہائیوں سے کاشتکاری کررہے ہیں اور وہ ہی اس زمین کے حقیقی مالک ہیں لیکن محکمہ ریونیو کے ریکارڈ میں یہ زمین محکمہ جنگلات کی ملکیت ظاہر کی گئی ہے۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ پانچ دن پر مشتمل احتجاج کرینگے اور اگر ان کے مطالبات پورے نہیں ہوئے تو احتجاج کو مزید بڑھایا جاسکتا ہے۔
(ڈان، 23 اپریل، صفحہ7)
زراعت
آئندہ بجٹ میں حکومت کی جانب سے کسانوں کے لئے محصولات میں چھوٹ اور بھاری زرتلافی وی جانے کا امکان ہے۔ انتخابات کا سال ہونے کی وجہ سے حکمراں جماعت نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کو اس حوالے سے جامع پیکج بنانے کا ہدف دیا ہے جس میں کسان تنظیموں کے مطالبات بھی شامل کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ بجٹ کے لیے پیش کردہ تجاویز میں حکومت زرعی مشینری پر سیل ٹیکس میں چھوٹ دینے پر غور کررہی ہے جو اس وقت سات فیصد عائد ہے۔ یہ تجویز بھی زیر غور ہے کہ ہر قسم کی کیمیائی کھاد پر ایک ہی شرح سے سیل ٹیکس عائد کیا جائے جبکہ اس وقت یہ ٹیکس پانچ، سات، آٹھ فیصد کی شرح سے عائد ہے۔ اس پیکج کا اہم ترین حصہ زرعی ٹیوب ویلوں کے لیے بجلی کے نرخوں پر زرتلافی کی فراہمی ہے جو یکم جولائی 2018 سے 24گھنٹوں کے لیے 5.35 روپے فی یونٹ متوقع ہے۔
(ڈان، 19 اپریل، صفحہ10)
سندھ حکومت کی جانب سے زرعی شعبہ کے لئے سالانہ ترقیاتی پروگرام 2018-19 میں 70 بلین روپے مختص کئے جانے کا امکان ہے۔ مجوزہ رقم سندھ کی نئی زرعی پالیسی 2018-30 کے تناظر میں مختص کی جائیگی جو صوبائی کابینہ میں منظور ہوچکی ہے۔ نئی زرعی پالیسی میں فصلوں، مال مویشی اور ماہی گیری شعبوں میں حکومتی سرمایہ کاری بڑھانے پر زور دیا گیا ہے۔ 2016-17 تک گذشتہ پانچ سالوں میں ماہی گیری، مال مویشی، جنگلات اور آبپاشی کے شعبہ جات میں اوسطاً 20 بلین روپے خرچ کئے گئے ہیں جس میں سے تقریبا 80 فیصد رقم آبپاشی شعبے میں خرچ کی گئی۔ سندھ کی مجوعی زرعی پیداوار (جی ڈی پی) تقریباً 1,600 بلین روپے ہے جس میں پانچ فیصد بڑھوتری حاصل کرنے کے لیے سرکاری اور نجی دونوں شعبہ جات کی جانب سے 320 بلین روپے سالانہ سرمایہ کاری کی ضرورت پڑے گی۔ زرعی شعبہ میں ہر سطح پر سرکاری اخراجات کے حوالے سے دو خامیوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ ایک، منصوبوں کے لیے مختص کی گئی رقم میں انتہائی کم رقم خرچ کی جاتی ہے اور دوسری، سالانہ جاری کی جانیوالی رقم کا پیشتر حصہ پہلے سے جاری منصوبوں پر ہی خرچ کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے نئے منصوبے کے لیے رقم مختص کرنے کی گنجائش نہیں رہتی۔
(ڈان، 20 اپریل، صفحہ10)
ایک خبر کے مطابق چھوٹے کاشتکاروں نے سندھ حکومت کی جانب سے حالیہ اعلان کردہ زرعی پالیسی کو مسترد کردیا ہے۔ چھوٹے کسانوں کی نمائندہ تنظیم سندھ ایگری کلچر ریسرچ کونسل کے صدر علی پالھ ایڈوکیٹ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ حکومت نے عجلت میں عالمی بینک کے دباؤ پر زرعی پالیسی تیار کی ہے جس میں تھرپارکر کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ پانی، چھوٹے ڈیم، پانی کے انتظامی شعبے میں مہارت اور مشینری کے بغیر کس طرح پائیدار خوشحالی حاصل کی جاسکتی ہے؟ صوبہ سندھ کو پانی کی سنگین قلت کا سامنا ہے اور پانی کے بغیر کوئی بھی زرعی پالیسی کامیاب نہیں ہوسکتی ہے۔ سندھ ایگری کلچر ریسرچ کونسل اس زرعی پالیسی کو مسترد کرتی ہے جو چھوٹے اور بے زمین کسانوں کو دھوکہ دینے کی ایک اور کوشش ہے۔ یہ کسان اور مزدور دشمن پالیسی بند کمرے میں بیٹھ کر بنائی گئی ہے۔ محکمہ آبپاشی اور محکمہ خوراک میں بڑے پیمانے پر بدانتظامی اور بد عنوانی پائی جاتی ہے جبکہ زرعی تحقیق کے شعبہ میں کارکردگی صفر ہے اور کسانوں کے لیے کوئی زرتلافی نہیں دی گئی ہے۔
(ڈان، 20 اپریل، صفحہ19)
پانی
وزیر اعظم کی زیر صدارت مشترکہ مفادات کونسل نے باظابطہ طور پر قومی آبی پالیسی (نیشنل واٹر پالیسی) صوبوں کے درمیان اتفاق رائے سے منظوری کرلی ہے۔ گزشتہ ایک دہائی سے تاخیر کی شکار یہ پالیسی صوبوں کے تحفظات دور ہونے کے بعد منظور ہوئی۔ پالیسی میں وفاق اور صوبوں نے اتفاق کیا ہے کہ نئے آبی ذخائر کی تعمیر صوبوں کے درمیان اتفاق رائے سے 1991 میں ہونیوالے پانی کی تقسیم کے معاہدے کے تحت اور ان منصوبوں کے ماحولیاتی اثرات کی تفصیلی جانچ کے بعد ہوگی۔ قومی آبی پالیسی کے ابتدائی اہداف میں ملک کی پانی ذخیرہ کرنے کی موجودہ صلاحیت کو بڑھانے کا ہدف بھی شامل ہے۔ 14 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی موجودہ صلاحیت کو فوری طور پر بڑھانے کے لئے 6.4 ملین ایکڑ فٹ مزید پانی ذخیرہ کرنے کے لیے دیامر بھاشا ڈیم کی فوری تعمیر بھی ہدف میں شامل ہے۔ پالیسی میں صوبوں کو قومی دائرہ کار میں رہتے ہوئے پانی کے حوالے سے بنیادی منصوبہ بندی کا اختیار بھی دیا گیا ہے۔ پالیسی میں پانی کا استعمال، ترجیحی بنیادوں پر پانی کی فراہمی، آبی ذخائر کی تعمیر و استعمال کی جامع منصوبہ بندی، آبی ماحولیاتی نظام کا تحفظ، موسمی تبدیلی کے اثرات، صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم، نہری و بارانی زراعت، پینے کا پانی، نکاسی، پن بجلی، صنعت، زیر زمین پانی، آبی حقوق و ذمہ داری، پائیدار بنیادی ڈھانچہ، آبی خطرات، معیار، آگاہی و تحقیق، حفاظتی اقدامات، قانونی دائرہ کار، آبی اداروں کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں میں اضافے جیسے پانی سے متعلقہ تمام مسائل کو شامل کیا گیا ہے۔ پالیسی کے نفاذ کے لئے قومی آبی کونسل (نیشنل واٹر کونسل) قائم کی جائے گی جس کی سربراہی وزیر اعظم کرینگے۔ کونسل وفاقی وزراء برائے آبی وسائل، خزانہ، توانائی، منصوبہ بندی، ترقی و اصلاحات اور چاروں وزرائے اعلی پر مشتمل ہوگی۔ پالیسی میں سرکاری ترقیاتی پروگرام (پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام) کا 10 فیصد حصہ آبی شعبہ کے لئے فراہم کرنے کی ضرورت پر بھی اتفاق کیا گیا ہے جسے بتدریج بڑھا کر 2030 تک 20 فیصد تک کردیا جائیگا۔
(ڈان، 25 اپریل، صفحہ3)
کپاس
کپاس کے کاشتکاروں میں آگاہی پھیلانے کے لیے منعقد کیے گئے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے سیکریٹری محکمہ زراعت پنجاب محمد محمود نے کہا ہے کہ صوبے میں کپاس کی بوائی شروع ہوچکی ہے اور محکمہ چھ ملین ایکڑ رقبے پر کپاس کی بوائی کا ہدف حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ کسانوں کو کپاس کی منظور شدہ اقسام کاشت کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے جس کا محکمہ پہلے ہی اعلان کرچکا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ محکمہ زراعت کی کوششوں اور اقدامات سے کپاس کی پیداوار میں سال 2015-16 کے مقابلے میں 2017-18 میں 14 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ محکمہ ملاوٹ شدہ زرعی زہر اور جعلی کیمیائی کھاد کے خلاف کارروائی کررہا ہے۔ اس کارروائی کے دوران 121 مقدمات درج کیے گئے ہیں جبکہ 30 ملین روپے سے زیادہ مالیت کی ملاوٹ شدہ زرعی ادویات ضبط کی گئی ہیں۔
(بزنس ریکارڈر، 19 اپریل، صفحہ13)
محکمہ زراعت پنجاب نے ایک بار پھر کسانوں کو کپاس کے صرف منظور شدہ بیج استعمال کرنے کی تجویز دی ہے۔ بی ٹی کپاس کی منظور شدہ اقسام میں ایم ان ایچ ۔ 886، وی ایچ ۔ 259، بی ایچ ۔ 178، سی آئی ایم ۔ 602، ایف ایچ لالہ زار، ایف ایچ ۔ 142، آئی یو بی ۔ 13، ایم این ایچ ۔ 988، وی ایچ ۔ 305، اے جی سی ۔ 999، اے جی سی ۔ 777 شامل ہیں۔ جبکہ روایتی کپاس کے تجویز کردہ بیجوں میں سی ایم ۔ 554، نایاب ۔ 777، سی آئی ایم ۔ 608، سی آر ایس ایم ۔ 38، ایس ایل ایچ ۔ 317، بی ایچ ۔ 167، این آئی بی جی ۔ 115، نیاب ۔ 852، نایاب ۔ 846، نایاب کرن، نایاب ۔ 112، سائٹو ۔ 124، سی آئی ایم ۔ 620 اور نایاب ۔ 2008 شامل ہیں۔ ترجمان محکمہ زراعت پنجاب کا کہنا ہے کہ حکومت نے تجویز کردہ بیجوں کی مطلوبہ مقدار کی منڈی میں موجودگی یقینی بنانے کا بندوبست کیا ہے اور ان بیجوں کی منڈی میں کوئی کمی نہیں ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 21 اپریل، صفحہ7)
ایک خبر کے مطابق سال 2018-19 میں کپاس کے موسم کے آغاز پر سندھ میں ایک بلین روپے کی لاگت سے 14 جننگ کے کارخانے قائم کئے جانے کا امکان ہے۔ نئے کارخانوں کا قیام حیدرآباد، سانگھڑ، نواب شاہ (بینظیر آباد) اور خیر پور اضلاع میں متوقع ہیں۔ کراچی کاٹن بروکرز فورم کے چیئرمین نسیم عثمان کا کہنا ہے کہ نئے کارخانوں کا قیام پھٹی کی خریداری کے لئے کارخانوں کے درمیان سخت مقابلہ کا باعث بنے گا۔ سندھ میں کپاس کی کم پیداوار کی وجہ سے جنرز کو پہلے ہی پھٹی کی فراہمی میں کمی کا سامنا ہے۔ ضروری ہے کہ سندھ حکومت پہلے کپاس کی پیداوار بڑھانے پر توجہ دے اس کے بعد نئے کارخانوں کے قیام کی اجازت دی جائے۔
(ڈان، 21 اپریل، صفحہ11)
گنا
چینی کے مل مالکان کی جانب سے کاشتکاروں کو گنے کی قیمت ادا نہ کرنے اور ادائیگی میں تاخیر کے معاملے پر ازخود نوٹس کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے تمام مل مالکان کو ذاتی حیثیت میں عدالت کے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے مل مالکان کو 26 اپریل کو اسلام آباد میں پیش ہوکر اپنا موقف واضح کرنے کی ہدایت کی ہے۔
(ڈان، 25 اپریل، صفحہ3)
ڈیری
پنجاب لائیواسٹاک اینڈ ڈیری ڈیولپمنٹ بورڈ کی سربراہ سائرہ افتخار نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ خالص اور سستا دودھ فراہم کرنے کے لیے دودھ فراہم کرنے والی پہلی خودکار مشین (آٹو میٹڈ ڈسپنسر یونٹ) کا اگلے ماہ آغاز کیا جارہا ہے۔ یہ مشین پاکستان میں ہی 600,000 روپے کی لاگت سے تیار کی گئی ہے۔ سرگودھا کے قریب ساہیوال نسل کی گائیوں کے افزائشی فارم سے حاصل ہونے والا 2,000 لیٹر دودھ لاہور کی ایک منڈی میں 75 روپے فی لیٹر قیمت پر فروخت کیا جائے گا۔ صارفین خود اس مشین سے قیمت ادا کرنے کے بعد دودھ کو پیک ہوتا دیکھ سکیں گے۔ اس دودھ میں چار فیصد چکنائی اور 3.6 فیصد لحمیات (پروٹین) شامل ہونگے جس پر اے ۔ 2 کا لیبل چسپاں ہوگا۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 25 اپریل، صفحہ13)
حلال خوراک
پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچول فورم کے صدر میاں زاہد حسین نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ عالمی منڈی میں حلال خوراک کی برآمد میں اضافے کے لئے اقدامات کرے۔ تاجر برادری سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں حلال خوراک کی منڈی تیزی سے بڑھتی ہوئی منڈیوں میں شامل ہے کیونکہ امریکہ اور یورپ میں مسلم آبادی میں اضافے کی وجہ سے حلال اشیاء کی طلب میں واضح اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان حلال خوراک برآمد کرنے والا دنیا کا 19 واں بڑا ملک ہے۔ دنیا میں دو بلین مسلمانوں کے علاوہ 500 ملین غیر مسلم بھی حلال اشیاء استعمال کرتے ہیں۔
(بزنس ریکارڈر، 20 اپریل، صفحہ5)
نکتہ نظر
اس ہفتے کی خبروں میں سرفہرست زمین کی خبریں ہیں۔ ہفتہ وار خبروں میں اس سے پہلے بھی اسی قسم کی کچھ خبریں شامل کی جاچکی ہیں جن میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ یہ تمام زمینی قبضے ملک میں سی پیک کی تعمیر کے آغاز سے بڑھتے جارہے ہیں۔ ایک طرف حکومت ملک میں پیداوار میں اضافے اور غربت میں خاتمے کے لیے اربوں روپے قرض لے کر قوم کو عالمی امدادی اداروں کی شرائط میں جکڑتی جارہی ہے اور دوسری طرف کسانوں اور دیہی آبادیوں کی زمینوں پر جبراً قبضہ کرکے خود بھوک و غربت کا سامان پیدا کررہی ہے جو پیداوار میں اضافے اور برآمدات میں اضافے کے ذریعے ملکی معیشت کو استحکام دینے کے خود حکومتی منصوبوں کی نفی ہے۔ بات چاہے کپاس کی پیداوار میں اضافے کی ہو یا گوشت اور دودھ کی پیداوار و برآمد میں اضافے کی، سرمایہ دار حکومت کا مقصد صرف اور صرف اپنے طبقہ اشرافیہ کے لیے مزید منافع پیدا کرنے کے مواقع مہیا کرنا ہے یہی وجہ ہے کہ ملک میں پیداواری وسائل پر قبضے کا یہ سلسلہ دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے۔ کپاس، گنا، پانی اور زرعی مداخل کے لیے بنائی جانے والی پالیسیاں اس وقت تک کارگر نہیں ہوسکتیں جب تک پالیسی سازی میں خود کسانوںکو شامل نہیں کیا جاتا اور پیداواری وسائل پر ان کا اختیار قائم نہیں ہوجاتا۔
اپریل 26 تا 2 مئی، 2018
زراعت
قومی اقتصادی سروے 2017-18 کے مطابق زرعی شعبے میں بڑھوتری کے ہدف 3.5 فیصد کے مقابلے میں 3.81 فیصد مثبت بڑھوتری ہوئی ہے۔ سروے کے مطابق گندم اور مکئی کی فصل میں بلترتیب 4.43 اور 7.04 فیصد کمی ہوئی ہے جبکہ خریف کی اہم فصلوں میں گنا اور چاول کی پیداوار ہدف سے زیادہ ہوئی ہے۔ گنے کی پیداوار میں 7.45 اور چاول کی پیداوار میں 8.65 فیصد بڑھوتری ہوئی جبکہ کپاس کی فصل میں گزشتہ سال کے مقابلے 11.85 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ سروے کے مطابق زرعی شعبے میں مثبت بڑھوتری کی وجہ حکومتی زراعت دوست پالیسیاں، بہتر پیداوار، مداخل کی پرکشش قیمتیں، تصدیق شدہ بیجوں کی دستیابی، زرعی قرضے، زرعی زہر اور کیمیائی کھادوں کا زیادہ استعمال ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 27 اپریل، صفحہ 5)
وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے بجٹ میں زرعی قرضوں کی فراہمی کے لیے مختص رقم بڑھا کر 1,100 بلین روپے کردی ہے جو گزشتہ سال 1,001 بلین روپے تھی۔ اس کے علاوہ زرعی قرضوں پر شرح سود میں بھی واضح کمی کردی گئی ہے۔ کیمیائی کھاد کی تمام اقسام پر جو اہم زرعی مداخل میں شامل ہیں، وفاقی حکومت نے سیلز ٹیکس کم کرکے دو فیصد کردیا ہے۔ بجٹ میں زرعی مشینری پر سیلز ٹیکس کی شرح بھی سات فیصد سے کم کرکے پانچ فیصد کی گئی ہے۔ حکومت زرعی ٹیوب ویلوں کو بجلی رعایتی قیمت پر فراہم کررہی ہے جو سال 2018-19 میں بھی جاری رہے گی۔ حکومت پیداوار میں اضافے کے لیے فصلوں اور بیجوں پر زرعی تحقیق کے لیے ایک فنڈ قائم کررہی ہے جس کے لیے ابتدائی طور پر پانچ بلین روپے مختص کیے جارہے ہیں۔ اس کے علاوہ علیحدہ سے ابتدائی طور پر پانچ بلین روپے کی لاگت سے ہی ایک اور فنڈ قائم کیا جائے گا جو جدید زرعی ٹیکنالوجی کے استعمال کو فروغ دینے کے لیے استعمال ہوگا۔ مال مویشی شعبہ زراعت کا سب سے بڑا ذیلی شعبہ ہے جس کی بڑھوتری کے لیے افزائش نسل کے لیے استعمال ہونے والے بیلوں کی درآمد پر عائد تین فیصد کسٹم ڈیوٹی ختم کردی جائے گی۔ مویشیوں کے چارے کی درآمد پر بھی موجودہ 10 فیصد محصول کو کم کرکے پانچ فیصد کیا جائے گا اور ڈیری کمپنیوں (کارپوریٹ ڈیری فارمرز) کو مویشیوں کے باڑوں میں استعمال ہونے والے پنکھوں کی درآمد پر تین ٖفیصد رعایتی محصول ادا کرنے کی سہولت فراہم کی جائے گی۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 28 اپریل، صفحہ13)
مختلف کسان تنظیموں نے بجٹ 2018-19 پر ملے جلے تاثرات کا اظہار کیا ہے۔ کسان تنظیموں نے حکومت پر زور دیا ہے کہ زرعی ٹیوب ویل کے لیے بجلی کے یکساں نرخ کا اعلان کیا جائے اور ڈیزل پر عائد محصولات کا خاتمہ کیا جائے جس سے مداخل کی قیمتوں میں کمی ہوگی۔ پاکستان متحدہ کسان محاذ کے چیرمین ایوب خان میو نے کہا ہے کہ کسان خوش ہیں کہ حکومت نے زرعی مشینری اور بیجوں کی درآمد پر محصولات میں کمی کی ہے کیونکہ 95 فیصد بیج درآمد کیا جاتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ٹیوب ویل کے لیے بجلی پر زرتلافی مستقل بنیادوں پر فراہم کرے بجائے اس کے کہ اس میں ہر تین ماہ بعد نظرثانی کی جائے۔ زرعی شعبے میں سالانہ 300 بلین روپے کا ڈیزل استعمال ہوتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ڈیزل پر عائد 40 فیصد محصولات واپس لے جس سے زرعی شعبے پر بوجھ ختم ہوجائے گا۔ کسان بورڈ پاکستان کے مرکزی صدر چودھری نثار احمد نے بجٹ کے حوالے سے کہا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ ایک بار پھر زراعت حکمرانوں کی پہلی ترجیح نہیں ہے۔ حکومت زرعی قرضوں پر سود کا مکمل خاتمہ کرے۔ چودھری نثار نے مزید کہا حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ زرعی مداخل کو سیلز ٹیکس سے مکمل طور مستثنی قرار دیتی۔
(بزنس ریکارڈر، 28 اپریل، صفحہ 51)
ایک مضمون کے مطابق مسلم لیگ ن کی حکومت نے اس سال بجٹ میں زرعی شعبہ میں بڑھوتری کا ہدف 3.8 فیصد مقرر کیا ہے۔ حکومتی دعوے کے مطابق اس سال زرعی شعبے میں بڑھوتری بھی 3.8 فیصد ہی تھی۔ کیا ہمارا ترقی پزیر زرعی شعبہ مسلسل دوسری مرتبہ بڑھوتری کا 3.8 فیصد کا مشکل ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیگا؟ وزیر خزانہ نے اپنی بجٹ تقریر میں اشارہ دیا ہے کہ ایسا اس وقت ممکن ہے جب پاکستان زرتلافی کے اصولوں کو چھوڑ کے منڈی پر مبنی پالیسیوں کو اپنائے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کو ایک اور سبز انقلاب کی ضرورت ہے جو بہتر پیداوار کے حصول، زرعی ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری میں اضافے، تحقیق و ترقی میں بہتری، پیداواری طریقوں کو مزید موسمی تبدیلی کے مطابق بنانے میں مددگار ہوگا۔ تاہم وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر میں جو اقدامات تجویز کیے ہیں ان میں زرعی شعبہ کو دی جانے والی مراعات کو جاری رکھنا، کھاد پر سیلز ٹیکس میں کمی اور زرعی مشینری کی درآمدپر عائد محصول میں کمی شامل ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ کے بیان میں تضاد پایا جاتا ہے۔ ایک طرف وہ کہتے ہیں کہ زرعی شعبہ میں ترقی کے لئے زرتلافی سے جان چھڑاکر منڈی کے اصولوں کو اپنانا چاہئے اور دوسری طرف وہ اس بیان کے برعکس بجٹ تجاویز پیش کررہے ہیں۔
(محی الدین اعظم، ڈان، 30 اپریل، صفحہ4، بزنس اینڈ فنانس)
زرتلافی
پنجاب حکومت نے کھاد پر دی جانے والی 150 روپے فی بوری زرتلافی بڑھا کر 300 روپے فی بوری کردی ہے۔ سیکریٹری محکمہ زراعت پنجاب محمد محمود کے مطابق یہ زرتلافی تمام فاسفورس والی یوریا کھاد پر بھی دستیاب ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کپاس کے اہم پیداواری علاقوں میں کپاس کے منظور شدہ بیج 50 فیصد تک رعایتی قیمت پر فراہم کررہی ہے اور کسانوں کو بیج کے ہر تھیلے پر 700 روپے زرتلافی کی رسید (سبسڈی واؤچر) بھی دی جارہی ہے۔
(ڈان، 27 اپریل، صفحہ 2)
پانی
سرکاری ذرائع کے مطابق پاکستان نے عالمی بینک پر زور دیا ہے کہ وہ اس ماہ کے آخر میں پاک بھارت آبی تنازع پر بات چیت کے لیے پاکستان کے ساتھ ایک اجلاس منعقد کرے۔ رواں ماہ کے آغاز میں پاکستان نے عالمی بینک کو کہا تھا کہ وہ بھارت میں تعمیر ہونیوالے کشن گنگا اور رتلے ڈیم پر پاکستان کے خدشات دور کرے۔ پاکستان کو تحفظات ہیں کہ دونوں ڈیموں کی تعمیر سندھ طاس معاہدہ کی خلاف ورزی ہے۔ دسمبر 2016 میں عالمی بینک کی جانب سے تعمیراتی کام روکے جانے کے باوجود بھارت کی جانب سے کشن گنگا ڈیم کی تعمیر پر بھی پاکستان کو تحفظات ہیں۔ عالمی بینک کے ترجمان نے پاکستان کی شکایت موصول ہونے کی تصدیق کی ہے۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ عالمی بینک اس تنازعہ کے حل کے لیے دونوں ممالک کے ساتھ کام کررہا ہے۔
(ڈان، 26 اپریل، صفحہ16)
ایک خبر کے مطابق ملک میں پانی کی کمی بڑھ رہی ہے۔ حکام کے مطابق تربیلا ڈیم میں پانی کی سطح انتہائی نچلی سطح (ڈیڈ لیول) کی طرف بڑھ رہی ہے اور فوری طور پر شمالی علاقوں کی جانب سے دریا کے بہاؤ میں اضافے کا امکان بھی نہیں ہے۔ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی نے موسم خریف کے آغاز میں 40 فیصد پانی کی کمی کا اندازہ لگایا تھا۔ اگر دریا کے بہاؤ میں بہتری نہیں ہوئی تو امکان ہے کہ پانی کی یہ کمی 44 فیصد ہوجائے گی۔ پانی کی مسلسل کمی سندھ اور بلوچستان میں خریف کی فصلوں کے لیے انتہائی نقصادن دہ ثابت ہوگی۔
(ڈان، 1 مئی، صفحہ10)
گندم
سندھ ہائی کورٹ، حیدرآباد سرکٹ بنچ نے زیریں سندھ کے 12 اضلاع کے سیشن جج صاحبان کو حکم دیا ہے کہ وہ ہر تعلقہ میں ایک عدالتی مجسٹریٹ کا تقرر کریں جو محکمہ خوراک کے افسران کی جانب سے باردانے کی تقسیم کے عمل کی نگرانی کریں۔ مختلف علاقوں کے کاشتکاروں کی جانب سے دائر کردہ ایک جیسی 18 درخواستوں کو نمٹاتے ہوئے جسٹس عزیزالرحمن اور فہیم احمد صدیقی پر مشتمل بنچ نے یہ حکم جاری کیا۔ درخواست گزاروں کا کہنا تھا کہ متعلقہ حکام پالیسی اور ضرورت کے مطابق باردانہ فراہم نہیں کررہے ہیں۔ عدالت نے متعلقہ ڈپٹی کمشنروں اور پولیس سپرٹنڈنٹ کو بھی حکم دیا ہے کہ وہ عدالتی مجسٹریٹ سے تعاون کریں اور اس حوالے سے اپنے عملے کو ضروری ہدایات جاری کریں۔
(ڈان، 26 اپریل، صفحہ19)
یورپی تاجروں کے مطابق حکومت نے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت اجلاس میں 500,000 ٹن اضافی گندم 155 ڈالر فی ٹن زرتلافی کے ساتھ برآمد کرنے کی منظوری دی ہے۔ یہ گندم پاکستان ایگری کلچرل اسٹوریج اینڈ سروسس کارپوریشن (سپارکو) کے ذریعے فروخت کیا جائے گا۔ برآمد کنندگان اس سلسلے میں مزید معلومات کا انتظار کررہے ہیں کیونکہ گندم کی برآمد کے حوالے اب تک کوئی باقائدہ اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ تاہم امکان ہے کہ یہ گندم مئی اور جون میں برآمد کیا جائے گا۔
(بزنس ریکارڈر، 1 مئی، صفحہ 19)
گنا
سپریم کورٹ نے تمام شوگر ملوں کو پانچ ہفتوں کے اندر کسانوں کے بقایاجات ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کسانوں کی جانب سے بقایاجات ادا نہ کیے جانے کی شکایت پر کئی مل مالکان کو ذاتی حیثیت میں عدالت طلب کیا تھا۔ جے ڈی ڈبلیو شوگر مل کے جہانگیر ترین، رمضان شوگر مل کے سلمان شہباز اور گلف شوگر مل کے مالک میاں عامر محمود بھی عدالت کے سامنے پیش ہونے والے مالکان میں شامل ہیں۔ باری باری تمام مل مالکان عدالت میں پیش ہوئے جنہیں عدالت کی جانب سے ہدایت کی گئی کہ وہ پانچ ہفتوں میں کسانوں کے تمام بقایاجات ادا کریں۔
(ڈان، 27 اپریل، صفحہ 3)
چاول
ادارہ شماریات پاکستان کے جاری کردہ تازہ اعداد وشمار کے مطابق سال 2017-18 کے ابتدائی نو ماہ میں چاول کی برآمد میں گزشتہ سال کے مقابلے 27.67 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جولائی تا مارچ 2017-18 تقریباً 3,132,997 ٹن چاول برآمد کیا گیا جس کی مالیت 1.494 بلین ڈالر تھی۔
(ڈان، 2 مئی، صفحہ 10)
غربت
وفاقی حکومت کے جاری کردہ قومی اقتصادی سروے 2016-17 میں دعوی کیا گیا ہے کہ 2015-16 میں ملک میں غربت کم ہوکر 24.3 فیصد پر آگئی ہے جو 2013-14 میں 29.5 فیصد تھی۔ سروے کے مطابق 2015-16 میں 10.8 ملین افراد انتہائی غربت سے باہر آگئے ہیں۔ وزارت منصوبہ بندی و ترقی کے زرائع کا کہنا ہے کہ حکومت نے صوبائی سطح پر غریب افراد کے اعداد وشمار جاری نہیں کیے کیونکہ خیبرپختونخوا میں غربت میں نمایاں کمی ہوئی ہے جہاں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ کے پی کے میں غربت میں کمی کی شرح 10 فیصد ہے جبکہ قومی سطح پر غربت میں کمی کی شرح 5.2 فیصد ہے۔ کے پی کے میں غربت میں کمی کی بنیادی وجہ وہاں امن و امان کی بحالی ہے جس سے وہاں روزگار کے مواقع بحال ہوئے ہیں۔ وفاقی حکومت اور بین الاقوامی امدادی اداروں نے کے پی کے میں ضرب عضب کے بعد بنیادی ڈھانچے کی بحالی کے لیے اربوں روپے خرچ کیے ہیں۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 27 اپریل، صفحہ3)
قومی اقتصادی سروے 2017-18 کے مطابق 2008 میں اپنے آغاز سے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام نے مستحقین میں 15 جنوری 2018 تک 563.57 بلین روپے تقسیم کئے ہیں۔ پروگرام سے امداد حاصل کرنے والوں کی تعداد جو 2008-09 میں 1.7 ملین تھی دسمبر 2017 میں 5.63 ملین تک پہنچ چکی ہے۔ اس کے علاوہ سہماہی نقد امدادی رقم جو 3,000 روپے فی خاندان تھی بڑھ کر 4,834 روپے فی خاندان ہوگئی ہے۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا بجٹ جو 2012-13 میں 70 بلین روپے تھا ہر سال اضافے کے بعد 2016-17 میں 115 بلین روپے ہوگیا تھا جو اب رواں سال 2017-18 میں 121 بلین روپے ہے۔
( بزنس ریکارڈر، 27 اپریل، صفحہ15)
نکتہ نظر
اس ہفت کی خبروں میں بجٹ کے حوالے سے بھی خبریں شامل ہیں۔ بجٹ میں زرعی شعبے کے لیے اعلان کردہ اہم منصوبوں میں 10 بلین روپے کے دو منصوبوں کا بھی ذکر موجود ہے جن کے تحت پیداوار میں اضافے کے لیے تحقیق اور جدید زرعی ٹیکنالوجی کے استعمال کو عام کیا جائے گا۔ اسی مقصد کے تحت زرعی مشینری پر محصولات میں چھوٹ، کھاد پر محصولات میں چھوٹ جیسی حکمت عملی اپنائی گئی ہے تو دوسری طرف مال مویشی شعبے میں بھی چارے کی درآمد اور افزائش نسل کے لیے بیلوں کی درآمد پر محصولات میں کمی تجویز کی گئی ہے۔ حکومت کی جانب سے زرعی شعبے میں دی جانے والی یہ مراعات خصوصا مال مویشی شعبے میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافے اور بڑے پیمانے پر ماحول دشمن مشینی زراعت کو فروغ دینے کا منصوبہ ہے جس سے خدشہ ہے کہ غیر ملکی نسلوں کے مویشیوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا اور ہمارے مویشیوں کی روایتی اعلی نسلیں خطرے میں پڑجائیں گی، یاد رہے کہ عین اسی طرح ہمارے کسان اپنے روایتی بیجوں سے محروم ہو کر پہلے ہی کمپنیوں کے غیر ملکی مہنگے بیج خریدنے اور ان پر مہنگے ترین زہریلے مداخل استعمال کرنے پر مجبور کردیے گئے ہیں جو زیادہ پیداوار حاصل کرکے بھی ان کے لیے نقصان کا باعث ہی بنتی ہے۔ دوسری طرف یہی صنعتی زراعت پورے ماحولیات نظام اور ہماری خوراک کو زہر آلود کرنے کا سبب بھی بنتی ہے۔ یہ تعجب کی بات نہیں کہ بجٹ پیش کرنے والی حکومت نے بجٹ کے لیے مشاورت میں صرف اور صرف طبقہ اشرافیہ اور سرمایہ دار کو ہی شامل کیا اور عین اسی کے مفادات کے تحفظ کے لیے سرکاری بجٹ پیش کردیا گیا۔ کیونکہ نہ صرف حکومت پر بلکہ پیداواری وسائل پر بھی یہی طبقہ اشرافیہ قابض ہے۔ درآمدی محصولات میں چھوٹ اور جدید صنعتی زراعت کے فروغ جیسی سرمایہ دار دوست پالیسیوں کے نتیجے میں ہی ملک کے چھوٹے اور بے زمین کسان مزدور سبز انقلاب جیسی جدت کا شکار ہوکر بھوک اور غربت کے شیطانی چکر میں پھنسے ہیں، اور آج بھر ملک کا وزیر خزانہ ایک اور سبز انقلاب درآمد کرنے پر کمربستہ ہے، جس نے بیج، کھاد اور دیگر مداخل بنانے والی کمپنیوں کو تو زمین سے آسمان پر پہنچادیا لیکن چھوٹا اور بے زمین کسان ان مہنگے مداخل کا محتاج ہوکررہ گیا ہے جو دن رات محنت کرکے بھی بنیادی ضروریات کے حصول سے محروم ہے، حتی کہ بھوک اور غذائی کمی کا شکار ہے۔ قابل شرم امر ہے کہ ایک طرف خود غربت میں کمی کی نوید دی جارہی ہے اور دوسری طرف بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ہرسال بڑھتے بجٹ کا حکومت فخریہ اعلان بھی کررہی ہے۔ یہ ہرگز ممکن نہیں کہ ملک کی تقریباً آدھی زرعی زمین پر 11 فیصد جاگیرداروں اور بڑے زمیندار قابض ہوں اور یہ توقع کی جائے ان زمینوں پر غلاموں کی طرح کام کرنے والے کسان، ہاری، مزدور خوشحال ہوجائیں گے۔ ملک کے چھوٹے اور بے زمین کسان مزدوروں کی خوشحالی کی ضمانت صرف پیداواری وسائل پر انہیں اختیار دے کر ہی حاصل ہوسکتی ہے جس کے لیے لازم ہے کہ زمینوں کا منصفانہ اور مساویانہ بٹوارہ ہو۔