اگست 1 تا 31 اگست، 2020
زراعت
ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) نے اپنی تازہ ترین مختصر رپورٹ (کووڈ۔19 امپیکٹ آن فارم ہاؤس ہولڈ ان پنجاب، پاکستان: اینالسس آف ڈیٹا فرام اے کراس سیکشنل سروے) میں کہا ہے کہ زرعی مداخل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے شدید خدشات پیدا کردیے ہیں کیونکہ کسان کورونا وائرس کے دوران اپنی نقد آمدنی سے محروم ہوگئے ہیں جو پاکستانی معیشت کے لیے اہم مسائل کی وجہ بن ہوسکتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس کی وباء سے پہلے 2019-20 میں پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار میں اضافے کی شرح 3.2 فیصد تھی جس میں زراعت کا حصہ 2.9 فیصد تھا۔ تاہم کورونا وائرس کے بعد مجموعی قومی پیداوار میں اضافے کی شرح کا اندازہ منفی 0.4 فیصد لگایا گیا ہے جس میں زراعت وہ واحد شعبہ ہے جس میں بڑھوتری کی شرح مثبت 2.7 فیصد ہے۔ پنجاب میں 400 سے زیادہ کسانوں سے کورونا وائرس کی وجہ سے نافذ کیے گئے لاک ڈاؤن اور ٹڈی دل حملے کے اثرات پر سروے کیا گیا تھا۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ایک تہائی کسان آمدنی سے محروم ہوئے اور سروے کیے گئے 22 فیصد گھرانوں کے افراد شہروں سے واپس گھر آگئے تھے۔ لاک ڈاؤن نے زیادہ قدر والی زرعی اشیاء جیسے پھل، سبزی اور دودھ کے ترسیلی نظام (فوڈ سپلائی چین) کو متاثر کیا ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 11 اگست، صفحہ14)
قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی برائے زراعت کی ذیلی کمیٹی نے اگلے سات سالوں کے لیے ایک جامع زرعی اصلاحات پر مبنی حکمت عملی کی سفارش کی ہے۔ ذیلی کمیٹی کی سربراہ شندانہ گلزار خان نے مجوزہ حکمت عملی کے متعلق مختصر معلومات فراہم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس حکمت عملی کا مقصد پائیدار بنیادوں پر زرعی بڑھوتری کو سالانہ پانچ فیصد تک لانا ہے۔ مجوزہ حکمت عملی کا بنیادی ہدف زرعی برآمدات کو بڑھانا، دیہی ترقی کے ذریعے اقتصادی بڑھوتری میں اضافہ، دیہی غربت میں کمی اور زرعی شعبہ میں مالی و صنفی شمولیت (انکلوژن) کو بڑھانا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ حکمت عملی، نجی شعبہ، صوبوں، ترقیاتی شعبہ، قانون سازوں اور ترقی پسند کاشتکاروں سمیت تمام شراکت داروں کے ساتھ جامع مشاورت کے بعد تیار کی گئی ہے۔ اس حکمت عملی میں 7.4 ملین چھوٹے کسانوں کے طریقہ کاشت (بزنس ماڈل) کی تبدیلی پر توجہ دی گئی ہے جو کل زیر کاشت رقبے کا 48 فیصد کاشت کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید وضاحت کی کہ اس منصوبہ بندی کا مقصد زرعی شعبہ میں جدت کو بڑھانا ہے تاکہ یہ خود انحصاری کے ساتھ معیشت کی مستقل ترقی کے لیے وسائل پیدا کرسکے۔
(ڈان، 13 اگست، صفحہ9)
عالمی وبا اور لاک ڈاون کے باوجود مالی سال 2020 میں پھلوں اور سبزیوں کی برآمد 12.5 فیصد اضافے کے بعد 730 ملین ڈالر ہوگئی ہے۔ تاہم ان اشیاء کی مقدار کے حوالے سے برآمد میں 7.6 فیصد کمی ہوئی ہے۔ آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجی ٹیبل ایکسپورٹرز، امپورٹرز اینڈ مرچنٹز ایسوسی ایشن (پی ایف وی اے) کے سربراہ وحید احمد کے مطابق برآمد کنندگان کی بہتر حکمت عملی، وفاقی حکومت کی مدد اور برآمدات خصوصاً ایران و افغانستان برآمدات کے لیے بروقت رکاوٹوں کا خاتمہ اس اضافے کی وجہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جس وقت کورونا وائرس تیزی سے پھیل رہا تھا تو ساری دنیا کو پھل و سبزیوں کی اشد ضرورت تھی جن میں اس بیماری کے اثرات کم کرنے کے لیے وٹامن موجود ہوتے ہیں۔ ”پاکستان نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور ترسیل و برآمد کے مسائل کے باوجود کینو، آلو اور پیاز برآمد کی“۔
(ڈان، 12 اگست، صفحہ9)
عالمی بینک نے پاکستان کے لیے 400 ملین ڈالر کے دو منصوبوں کی منظوری دے دی ہے جن میں ایک منصوبہ ٹڈی دل حملے کے تناظر میں غذائی تحفظ میں کمی لانے کے لیے امدادی اقدامات پر مبنی ہے۔ ”لوکسٹ ایمرجنسی اینڈ فوڈ سیکیورٹی پرجیکٹ“ نامی منصوبے کے تحت 200 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری ٹڈی دل پر قابو پانے کے لیے ہنگامی اقدامات میں معاون ہوگی اور پاکستان و جنوبی ایشیائی خطے میں اس کے مزید پھیلاؤ کو روکنے میں مددگار ہوگی۔ حکومتی اندازوں کے مطابق بدترین صورتحال میں زرعی نقصان بشمول ربیع اور خریف کی فصلوں کے 15 بلین ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔ یہ پاکستان کے لیے واضح خطرہ ہے جہاں تقریبا 20 فیصد آبادی (تقریباً 40 ملین افراد) غذائی کمی کا شکار ہیں۔ 40 فیصد آبادی مختلف اقسام کی غربت کا شکار ہے اور 25 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔
(ڈان، 4 اگست، صفحہ3)
ایک خبر کے مطابق کسانوں کو سفید مکھی سے بچاؤ کے لیے زرعی زہر پر زرتلافی کی فراہمی کے لیے وزارت خزانہ نے رواں مالی سال (2020-21) کے لیے چھ بلین روپے جاری کردیے ہیں۔ وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کے مطابق صوبے رجسٹرڈ کسانوں میں زرتلافی تقسیم کریں گے۔ مقامی طور پر تیار کردہ ٹریکٹروں پر سیلز ٹیکس میں چھوٹ کے ذریعے بھی زرتلافی فراہم کی جائے گی۔
(ڈان، 12 اگست، صفحہ9)
ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) کی جانب سے پنجاب میں زراعت سے وابستہ گھرانوں پر کورونا وائرس کے اثرات پر کیے گئے سروے کے مطابق پنجاب میں وبائی صورتحال میں کسان آمدنی سے محروم ہوئے ہیں اور خدشہ ہے کہ کسان زرعی مداخل کی قیمتیں زیادہ ہونے کی وجہ سے مداخل کی خریداری نہیں کرسکیں گے۔ چاول ایک اہم غذائی اور برآمدی فصل ہے جس کے لیے درکار مداخل کی قیمت میں اضافہ ملکی معیشت کے لیے مسائل کا سبب ہوسکتی ہے۔ اے ڈی بی نے پنجاب کے 10 اضلاع میں کمپیوٹر کی مدد سے بذریعہ ٹیلی فون سروے کیا اور 400 سے زیادہ کسانوں سے معلومات حاصل کی ہیں۔ سروے میں تقریباً 62 فیصد کسانوں نے کورونا وائرس کی وجہ سے حالیہ مہینوں میں مالی مشکلات کا اظہار کیا اور تقریباً 89 فیصد کسانوں نے اپنا بنیادی مسئلہ مداخل کی خریداری کو قرار دیا۔
(ڈان، 13 اگست، صفحہ9)
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے ملک سے غذائی اشیاء کی غیرقانونی برآمد روکنے کے لیے سخت ہدایت جاری کی ہے۔ جاری کردہ ایک سرکاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ایف بی آر نے ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن کسٹم اسلام آباد، چیف کلیکٹرز آف کسٹمز (بلوچستان، کوئٹہ) چیف کلیکٹرز آف کسٹمز (نارتھ، اسلام آباد) کو وزیر اعظم عمران خان کی ہدایات پر عملدرآمد کی ہدایت کی گئی ہے۔ وزیر اعظم نے ملک میں گندم، آٹا، چینی، مکئی، میدہ، مرغبانی اشیاء، تازہ پھل سبزی اور مال مویشی سے متعلق غذائی اشیاء کی قلت کا نوٹس لیتے ہوئے ان اشیاء کی غیرقانونی برآمد پر قابو پانے کے لیے تمام اقدامات کی ہدایت کی تھی۔
(ڈان، 29 اگست، صفحہ5)
زرعی قرضہ
ایک خبر کے مطابق گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر نے کہا ہے کہ مالی سال 2019-20 میں بینکوں کی جانب سے کل فراہم کردہ 1,215 بلین روپے کے قرضوں کا صرف 25 فیصد چھوٹے کسانوں کو دیا گیا ہے۔ گورنر نے قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی برائے زراعت کو بذریعہ مواصلاتی اجلاس آگاہ کیا ہے کہ 2019-20 میں قرض حاصل نے والے 91 فیصد چھوٹے کسان تھے لیکن انہوں نے کل فراہم کردہ قرض کی صرف 25 فیصد رقم ہی بطور قرض لی ہے۔ کل قرض دہندگان کی تعداد 3.74 ملین ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت پنجاب میں زمینی ریکارڈ کی کمپیوٹرائزڈ تصدیق (الیکٹرانک لینڈ ویری فیکیشن) لازمی ہے، ایسا ہی منصوبہ دیگر صوبوں میں شروع ہونا چاہیے جس سے بینکوں کو قرض فراہم کرنے میں درپیش رکاوٹوں کو دور کرنے میں مدد ملے گی۔ کورونا وائرس کے دوران کسانوں کو دی گئی مراعات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد 56 بلین روپے کے قرضہ جات کو ازسر نو ترتیب (ری اسٹرکچر) دیا گیا جس کا 70 فیصد زرعی قرضوں پر مشتمل تھا۔
(بزنس ریکارڈر، 26 اگست، صفحہ16)
پانی
منچھر جھیل کے اطراف رہائشی آبادی نے جھیل میں پانی کی بڑھتی ہوئی سطح کے نتیجے میں شگاف کے خوف سے محفوظ مقام کی طرف منتقل ہونا شروع کردیا ہے۔ جھیل میں پانی کی سطح 117 فٹ تک پہنچ گئی ہے۔ تاہم آبپاشی حکام آبادی کو یقین دہانی کروارہے ہیں کہ بند اس موجودہ دباؤ کو برداشت کرنے کے قابل ہے۔ انجینئر منچھر جھیل مہیش کمار کا کہنا ہے کہ جھیل کے بند کو اس وقت کوئی خطرہ نہیں ہے۔
(ڈان، 29 اگست، صفحہ15)
لیفٹ بینک آؤٹ فال ڈرین (ایل بی او ڈی) میں پڑنے ولا چھوٹا شگاف 70 فٹ تک بڑھ جانے اور اس کے نتیجے میں کئی دیہات میں سیلاب نے بدین اور تھرپارکر، سندھ کے وسیع علاقے کو خوف وہراس میں مبتلا کردیا ہے۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ شگاف پانی کے شدید دباؤ کی وجہ سے پڑا لیکن مقامی آبپاشی حکام نے وزیر اعلی سندھ کے شہر میں دورے کی وجہ سے شگاف کو نظرانداز کیا۔ شگاف بڑھتا رہا لیکن ایک دن گزرنے کے باوجود اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔
(ڈان، 29 اگست، صفحہ15)
ملک کے بڑے آبی ذخائر مکمل طور پر بھرچکے ہیں اور ملک بھر میں ہونے والی بارشوں کی وجہ سے کچھ دریاؤں میں درمیانے اور اونچے درجہ کا سیلاب دیکھا گیا ہے۔ فیڈرل فلڈ کمیشن (ایف ایف سی) اور واپڈا کا کہنا ہے کہ تربیلا اور منگلا دونوں ڈیم اپنی انتہائی حد بلترتیب 1,550 فٹ اور 1,242 فٹ کی سطح پر ہیں۔
(ڈان، 29 اگست، صفحہ1)
دریائے چناب میں ہیڈ مرالہ کے مقام پر پانی کی سطح بڑھ رہی ہے۔ بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں دریائے چناب پر قائم سلال ڈیم میں پانی کی سطح خطرناک حد تک بڑھ جانے کے بعد ڈیم سے پانی کے اخراج کے سارے دروازے کھول دیے ہیں۔ ہیڈ مرالہ پر پانچ گھنٹوں میں پانی کا بہاؤ 76,000 کیوسک سے بڑھ کر 140,000 کیوسک ہوگیا ہے۔ ڈپٹی کمشنر چنیوٹ نے متعلقہ حکام اور دریا کے ساتھ رہنے والی آبادیوں کو دریائے چناب میں ممکنہ سیلاب کے لیے پیشگی اقدامات کرنے کی ہدایت کی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 23 اگست، صفحہ1)
گندم
وفاقی وزیر قومی غذائی تحفظ و تحقیق فخر امام نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا ہے کہ سندھ حکومت کی جانب سے عوامی مفاد کے پیش نظر منڈی میں گندم کی قیمت میں استحکام کے لیے سرکاری ذخائر سے گندم کے اجراء سے مسلسل انکار کی وجہ سے وفاقی حکومت کے لیے مشکلات پیدا ہورہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ”ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ سندھ حکومت کیوں ملک میں گندم کا بحران پیدا کرنے کی کوشش کررہی ہے باجود اس حقیقت کے کہ حالیہ موسم میں گندم کی پیداوار ہدف سے زیادہ ہوئی ہے۔ اگر سندھ حکومت جلد از جلد سرکاری ذخائر سے گندم جاری کردے تو منڈی میں آٹے کی قیمت میں کمی ہوجائے گی“۔ سندھ حکومت نے اس سال 1.25 ملین ٹن گندم کسانوں سے خریدا ہے جبکہ گزشتہ سال سندھ حکومت نے گندم کی خریداری نہیں کی تھی۔
(ڈان، 4 اگست، صفحہ3)
ضلع میرپور خاص میں گندم کی کمی کی وجہ سے عوام کو آٹا 60 روپے فی کلو گرام قیمت پر خریدنا پڑرہا ہے جبکہ چکی مالکان کی تنظیم نے ڈپٹی کمشنر سے چکیوں کو زرتلافی کے حامل گندم کی بلاتاخیر ترسیل کو یقینی بنانے کی درخواست کی ہے۔ تنظیم نے ایک خط کے ذریعے ڈپٹی کمشنر کو آگاہ کیا ہے کہ وہ 2,000 روپے فی من قیمت پر کھلی منڈی سے گندم خرید رہے ہیں کیونکہ انہیں سرکاری گندم فراہم نہیں کیا جارہا۔ اس لیے چکی مالکان اور تاجروں کو آٹا 60 روپے فی کلو گرام قیمت پر فروخت کرنا پڑرہا ہے جو آٹے کی سرکاری قیمت سے 12 روپے فی کلو سے زیادہ ہے۔ میرپورخاص کا ضلعی محکمہ خوراک پہلے ہی نادہندہ ہے جسے ایک ملین روپے گندم حاصل کرنے کے لیے جمع کروائیں گئے تھے، نا تو چکی مالکان کو گندم فراہم کیا گیا اور نہ ہی انہیں رقم واپس کی گئی۔
(ڈان، 4 اگست، صفحہ15)
حکومت پنجاب نے بدعنوانی میں ملوث 148 آٹا ملوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے 261.37 ملین روپے میں سے 206.48 ملین روپے وصول کرلیے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ان ملوں نے عوام کو سہولت فراہم کرنے بجائے محکمہ خوراک کے عہدہ داروں کیساتھ مل کر زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے کے لیے رعایتی قیمت پر حاصل کیا گیا گندم کھلی منڈی میں زیادہ قیمت پر فروخت کیا تھا۔ محکمہ خوراک کی جانب سے 2018 میں رمضان پیکج کے تحت 800 روپے فی من قیمت پر ملوں کو گندم فراہم کیا گیا تھا تاکہ عوام کو کم قیمت آٹا میسر ہو۔ آٹا ملوں نے اس سہولت کو عوامی مفاد کے لیے استعمال نہیں کیا اور رعایتی قیمت پر حاصل کیا گیا گندم کھلی منڈی میں مہنگے داموں فروخت کردیا تھا۔
(بزنس ریکارڈر، 4 اگست، صفحہ2)
مکئی و گندم کی بہتری کے عالمی مرکز انٹرنیشنل میز اینڈ ویٹ امپرومنٹ سینٹر (سی آئی ایم ایم وائی ٹی) اور حکومت نے پرانے بیجوں کو تبدیل کرنے کے لیے زیادہ پیداوار دینے والے بیجوں کے فروغ کے ذریعے گندم کی پیداوار میں اضافہ کی حکمت عملی پر بات چیت کی ہے۔ امریکی امدادی ادارے یو ایس ایڈ کے مالی وسائل سے کی گئی ایک تحقیق ایگری کلچر انوویشن پروگرام (اے آئی پی) میں انکشاف کیا گیا ہے کہ گندم کی نئی اقسام کی پیداوار پانچ سے 17 فیصد زیادہ ہے۔ سی آئی ایم ایم وائی ٹی کے پاکستان میں نمائندے ڈاکٹر محمد امتیاز نے وفاقی وزیر قومی غذائی تحفظ و تحقیق فخر امام کو زیادہ پیداوار دینے والی، موسمی تبدیلی اور پھپوندی کے خلاف مزاحمت رکھنی والی بیج کی اقسام کے استعمال میں اضافے کی ممکنہ حکمت عملی کے حوالے سے معلومات فراہم کی ہیں۔ سی آئی ایم ایم وائی ٹی نے مقامی بیج کے پائیدار نظام کے لیے 10,000 کسانوں کو معیاری گندم کے بیج کی پیداوار، اس کی خرید و فروخت کی تربیت دی ہے۔
(ڈان، 6 اگست، صفحہ9)
وفاق نے خیبرپختونخوا حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ افغانستان سے متصل علاقوں میں گندم کی قیمت پر نظر رکھے اور مزید گندم کی درآمد کے لیے حقیقی ضرورت کا اندازہ لگانے کے لیے پنجاب حکومت سے رابطہ میں رہے۔ کے پی حکومت کے ساتھ گندم کی صورتحال پر اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے کہا ہے کہ حکومت سال بھر عوام کو گندم اور آٹے کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے تمام اقدامات کرے گی۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ اگر دیگر صوبوں میں کڑی نگرانی نہیں کی گئی تو پنجاب کو بھی گندم کی کمی کا سامنا ہوسکتا ہے۔
(ڈان، 18 اگست، صفحہ9)
وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کے مطابق محکمہ تحفظ نباتات (ڈی پی پی) اب تک نجی درآمد کنندگان کو 1,576,000 ٹن گندم کی خریداری کے لیے 380 اجازت نامے جاری کرچکا ہے۔ 60,804 ٹن گندم سے لدے پہلے بحری جہاز کی آمد 26 اگست کو متوقع ہے۔ 65,000 ٹن گندم سے لدا دوسرا جہاز 28 اگست جبکہ 69,000 ٹن گندم کے تیسرے جہاز کی آمد آٹھ ستمبر کو متوقع ہے۔ اسی طرح 55,000 ٹن گندم کا چوتھا جہاز 12 ستمبر کو پاکستان پہنچے گا۔
(ڈان، 20 اگست، صفحہ9)
یوکرائن سے 60,804 ٹن گندم کراچی پہنچنے کے بعد پاکستان ایک بار پھر گندم درآمد کرنے والا ملک بن گیا ہے۔ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر قومی غذائی تحفظ و تحقیق فخر امام نے کہا ہے کہ ستمبر کے آخر تک ملک میں 488,000 ٹن گندم درآمد ہوگی جس سے گندم کی منڈی میں استحکام آئے گا۔ وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ مختصر مدت پر مبنی پالیسی کے تحت وزارت نے اگلے ربیع کے موسم کے لیے اندازے لگانا شروع کردیے ہیں۔ ملک بھر میں 20 ملین ایکڑ پر گندم کاشت ہوتی ہے جس کے لیے 1,100,000 ٹن بیج کی ضرورت ہوتی ہے۔
(ڈان، 27 اگست، صفحہ9)
پاکستان مسابقتی کمیشن (سی سی پی) نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ گندم کی کم سے کم امدادی قیمت مقرر کرنے کی پالیسی معیشت میں بگاڑ اور خوراک کے شعبہ میں گردشی قرضہ جات پیدا کررہی ہے۔ حکومت موجودہ قوانین میں تھوڑی ترامیم کے ذریعے سرکاری محکموں میں شفافیت لاسکتی ہے۔ گندم کے شعبہ پر سرکاری اختیار سے چھوٹے کسان اور چکی مالکان دونوں کو کم فائدہ ہوتا ہے۔ اس وقت آٹا چکیوں کا حصہ کل گندم کی ترسیل میں 75 فیصد ہے لیکن 95 فیصد سے زیادہ زرتلافی اور گندم کا کوٹا بڑے آٹا ملوں (رولر فلور ملز) کو جاری کیا جاتا ہے۔ حکومت صرف دو اقدامات کرکے گندم اور آٹے کے بحران کا خاتمہ کرسکتی ہے۔ ایک یہ کہ تمام آٹے کے تھیلوں پر لیبل لازمی قرار دے کر جس میں آٹے کے اجزاء جیسے کہ چوکر کی شرح وغیرہ نمایاں ہوں۔ دوسرا یہ کہ حکومت زرتلافی کے حامل گندم سے میدہ، فائن آٹا، سوجی اور چوکر بنانے کے بجائے صرف آٹے کی تیاری کو لازمی قرار دے۔ کیونکہ یہ اشیاء منافع بخش ہیں اور آٹا ملوں کی ترجیح ان اشیاء کی تیاری ہوتی ہے جو غیر قانونی طور پر افغانستان برآمد ہوتی ہیں۔
(ڈان، 27 اگست، صفحہ9)
سندھ میں آٹا ملوں نے یوکرین سے 60,000 ٹن دررآمدی گندم کراچی پہنچنے پر آٹے کی قیمت میں دو روپے فی کلو کمی کردی ہے۔ ڈھائی نمبر آٹا اس وقت 56 روپے فی کلو جبکہ فائن آٹا اور اس کی دیگر اقسام 60 روپے فی کلو فروخت ہورہی ہیں۔ اسی طرح 10 کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت 585 روپے سے کم ہوکر 565 روپے ہوگئی ہے۔ کھلی منڈی میں 100 کلو گرام گندم کی قیمت بھی 5,200 روپے سے کم ہوکر 4,800 روپے ہوگئی ہے جس کی اپریل کے مہینے میں قیمت 3,500 روپے تھی۔
(ڈان، 26 اگست، صفحہ9)
کپاس
فارمرز بیورو آف پاکستان (ایف بی پی) کے صدر ڈاکٹر ظفرحیات کے مطابق ملک میں گزشتہ تین سالوں سے کپاس کا زیرکاشت رقبہ مسلسل کم ہورہا ہے جو آمدنی میں کمی کی وجہ سے کپاس کی کاشت میں کسانوں کی عدم دلچسپی ظاہر کرتا ہے۔ ناصرف کپاس کے زیر کاشت رقبے میں کمی ہوئی ہوئی ہے بلکہ فی ایکڑ پیداوار بھی کم ہوگئی ہے۔ سرکاری اور نجی دونوں شعبے کسانوں کو معیاری اور اچھے بیج فراہم کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکے ہیں۔ قومی کمپنیوں نے حکومت کی جانب سے عائد کردہ نرم قوانین کا فائدہ اٹھایا ہے اور بین لاقوامی کمپنیاں بجائے اس کے کہ دوسروں سے مسابقت کریں کھلی منڈی میں کام کرنے کے لیے اضافی سرکاری تحفظ کے لیے حکومت سے فوائد حاصل کررہی ہیں اور یہ توقع کرتی ہیں کہ یہ کمپنیاں حکومت کی منظور نظر ہوں۔
(بزنس ریکارڈر، 16 اگست، صفحہ8)
وزیر زراعت پنجاب ملک نعمان احمد لنگریال کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں بتایا گیا ہے کہ محکمہ زراعت پنجاب بہت جلد سرکاری اور نجی شعبہ کی جانب سے تیار کردہ کپاس کی نئی اقسام پنجاب سیڈ کونسل (پی ایس سی) سے منظوری کے لیے جمع کروائے گا۔ یہ اقسام گلابی سنڈی، سفید مکھی کے خلاف مزاحمت، پیداوار میں ممکنہ اضافے اور مداخل کی لاگت میں 40 فیصد کمی کی حامل ہیں۔ صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ تمام ضابطوں کی تکمیل کے بعد کپاس کی نئی اقسام جلد کسانوں کے لیے دستیاب ہونگی۔
(بزنس ریکارڈر، 22 اگست، صفحہ12)
ایک خبر کے مطابق مون سون کے آغاز اور مرطوب موسم کی وجہ سے فصل پر بڑھتے ہوئے کیڑے مکوڑوں کے حملے سے صوبہ سندھ کے کسانوں کو تقریباً 0.5 ملین گانٹھیں کپاس کا نقصان ہوا ہے۔ پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن (پی سی جی اے) کے سابق چیئرمین ڈاکٹر جیسو مل لیمانی کا کہنا ہے کہ میرپورخاص، سانگھڑ، عمرکوٹ، کھپرو وغیرہ میں رواں مہینے میں تقریباً 400,000 سے 500,000 گانٹھیں کپاس کا نقصان ہوا ہے، اور اگر فصل بارش سے بچ بھی جائے تو کم معیار کی ہوگی جو منڈی سے کم قیمت پر فروخت ہوگی۔ ان اضلاع میں بارش نے کسانوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے اور یہاں فصلوں کے بیمے (انشورنس) کا کوئی تصور نہیں ہے۔ حکومت نے اب تک ان کسانوں کے لیے کسی مالی مدد کا اعلان نہیں کیا ہے۔
(ڈان، 30 اگست، صفحہ9)
چلغوزہ
شوال، شمالی وزیرستان کے بے گھر قبائلی افراد نے بنوں۔میران شاہ سڑک احتجاجاً بند کرکے چلغوزے کی کاشت کے لیے اپنے علاقوں میں جانے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ چلغوزے کی فصل تیار ہے لیکن حکام انہیں شوال جاکر چنائی کرنے کی اجازت نہیں دے رہے۔ 2014 میں آپریشن ضرب عضب کے آغاز اور تقریباً ایک ملین افراد کی قبائلی علاقوں سے بیدخلی کے بعد سے اب تک یہ علاقہ حفاظتی وجوہات کی وجہ سے بند ہے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ اربوں روپے مالیت کی فصل تیار ہے، اگر انہیں علاقے میں جانے کی اجازت نہ دی گئی تو مقامی افراد کو بھاری نقصان ہوگا۔
(ڈان، 24 اگست، صفحہ9)
چینی
وزیر اعظم عمران خان نے 27 جولائی کو چینی کے کاروبار سے وابستہ بااثر حلقوں کے خلاف کارروائی کی منظوری دے دی ہے لیکن صارفین کو چینی کی خوردہ قیمت میں اضافے کا سامنا ہے جو 87 تا 88 روپے فی کلوگرام سے 93 تا 95 روپے فی کلوگرام تک بڑھ گئی ہے جبکہ گزشتہ ہفتوں میں چینی خودرہ منڈی میں 85 روپے فی کلو گرام فروخت ہورہی تھی۔ کراچی ہول سیلر گروسرز ایسوسی ایشن کے سربراہ انیس مجید کا چینی کی درآمد کے حوالے سے کہنا ہے کہ عالمی منڈی میں اس وقت چینی قیمت 370 ڈالر فی ٹن ہے، اس طرح درآمدی چینی کی قیمت 62 روپے فی کلوگرام ہوگی۔ اعداد وشمار کے مطابق جولائی تا مئی 2019-20 کے دوران چینی کی پیداوار 5.245 ملین ٹن کے مقابلے سات فیصد کم ہوکر 4.876 ملین ٹن ہوئی جبکہ چینی کی سالانہ کھپت 4.8 ملین ٹن سے پانچ ملین ٹن کے درمیان ہے۔
(ڈان، 4 اگست، صفحہ14)
سندھ ہائی کورٹ نے چینی کے بحران کی تحقیقات کے لیے شوگر انکوائری کمیشن کی تشکیل اور اس کی رپورٹ کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے قومی احتساب بیورو (نیب)، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کو چینی بحران کی آزادانہ اور علیحدہ تفتیش کا حکم دیا ہے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ کمیشن کی تشکیل کے وقت ضروری قوائد و ضوابط پر عمل نہیں کیا گیا اور مقررہ وقت میں کمیشن کے قیام کا اعلامیہ جاری کرنے میں ناکامی ہوئی۔ کمیشن کی تشکیل نامکمل اور متعصب ہے جس میں درخواست گزار (شوگر ملوں) کے موقف کو سننے سے انکار کیا گیا ہے۔
(ڈان، 18 اگست، صفحہ1)
سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے ایک دن پہلے ہی وفاقی حکومت کے تشکیل دیے گئے کمیشن کے قیام اور اس کی رپورٹ کو غیر آئینی قرار دیے جانے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے ناصرف اس کمیشن کی آئینی حیثیت کو تسلیم کیا ہے بلکہ اس کی رپورٹ کی بھی توثیق کی ہے جس میں شوگر ملوں کے خلاف عوامی سرمائے کے غلط استعمال اور گٹھ جوڑ کرنے، جو چینی کی قمت میں بے تحاشہ اضافہ کی وجہ ہے، پر فوجداری مقدمات قائم کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سندھ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ متضاد ہے، لہذا سپریم کورٹ اس تعطل کو ختم کرنے کے لیے حکم جاری کرسکتی ہے۔
(ڈان، 19 اگست، صفحہ1)
مال مویشی
کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے زندہ جانور، گوشت اور گوشت سے بنی اشیاء کی درآمد کی منظوری دے دی ہے۔ 12 اگست کو وزارت تجارت نے کمیٹی کو آگاہ کیا تھا کہ 2001 میں مویشیوں میں ہونے والی بیماری (بی ایس ای)کی وجہ سے برطانیہ، آئرلینڈ، بیلجیم، ڈنمارک، فرانس، جرمنی، اٹلی، لگزمبرگ، ہالینڈ، اسپین، کینیڈا، فاکلینڈ جیسے بیماری سے متاثرہ ممالک سے گائے، بھینس، بھیڑ بکریوں، گوشت اور گوشت سے بنی اشیاء کی درآمد پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ اسی طرح 2005 میں برڈ فلو (ایوان انفلوئنزا) کی وجہ سے ویتنام، جنوبی کوریا، تھائی لینڈ، جاپان، انڈونیشیا، میانمار، کمبوڈیا، لاؤس، تائیوان، ہانگ کانگ، ملیشیا، ساؤتھ افریقہ، روس، قازقستان، منگولیا، ترکی، یونان، رومانیہ اور چین سے پولٹری اور اس سے بنی اشیاء کی درآمد پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ مذکورہ تمام ممالک سے زندہ مویشیوں، گوشت اور اس سے بنی اشیاء کی درآمد پر پابندی جاری تھی تاہم 2017 میں یورپی یونین سے بغیر ہڈی گوشت کی درآمد پر پابندی میں نرمی کی گئی تھی۔ درآمدی ضوابط میں یہ تبدیلیاں امپورٹ پالیسی آڈر 2016 کا حصہ بنادی گئی تھیں۔ اس حوالے سے وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق نے امپورٹ پالیسی آڈر 2016 میں ترامیم کی تجویز دی تھی۔
(بزنس ریکارڈر، 19 اگست، صفحہ1)
مرغبانی
پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن (پی پی اے) نے حکومت پر زور دیا ہے کہ مرغبانی شعبہ کو بچانے کے لیے امدادی پیکچ کا اعلان کیا جائے کیونکہ 35 سے 40 فیصد پولٹری فارم بند ہوچکے ہیں جبکہ باقی فارموں کو کورونا وائرس کے نتیجے میں شادی ہال اور ہوٹلیں بند ہونے کی وجہ سے بھاری نقصانات کا سامنا ہے۔ پی پی اے، شمالی زون کے چیئرمین چوہدری محمد فرغام نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ مرغبانی شعبہ کو گزشتہ چھ ماہ سے پیداواری اخراجات میں اضافے اور صارفین کی قوت خرید کم ہونے کی وجہ سے بھاری نقصان ہورہا ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ حکومت کو بند صنعتوں کے لیے مالی منصوبوں کے ساتھ ساتھ کورونا سے متاثرہ کاروبار کو مستحکم کرنے کے لیے بھی پالیسی متعارف کروانی چاہیے۔ بینکوں کو اسٹیٹ بینک کی ہدایات کے مطابق پچھلے کھاتے ظاہر کرنے کی شرط کے بغیر قرض فراہم کرنا چاہیے۔ انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ مرغبانی شعبہ کو کم شرح سود پر قرض فراہم کیا جائے، فارموں کو نئے قرضے فراہم کیے جانے چاہیے تاکہ وہ مرغبانی کی پیداوار کو جاری رکھ سکیں اور پولٹری ویکیسن، دواؤں، خام مال و مشینری پر تمام درآمدی ڈیوٹی اور دیگر تمام محصولات ختم کیے جائیں۔
(بزنس ریکارڈر، 16 اگست، صفحہ3)
کارپوریٹ
اینگرو فرٹیلائزر نے مٹی کی جانچ کی دوسری گشتی لیبارٹری (موبائل لیبارٹری) کا آغاز کردیا ہے۔ اس لیبارٹری کا مقصد سندھ کے کسانوں کی مدد کرنا اور ملک میں غذائی عدم تحفظ کے خلاف مدد فراہم کرنا ہے۔ گشتی لیبارٹری زمین کی صحت سے متعلق اہم جزیات (فیکٹرز) کا مفت تجزیہ کرے گی۔ کسان کمپنی سے رابطہ کرکے مٹی کی مفت جانچ کی سہولت حاصل کرسکتے ہیں۔ مٹی کی جانچ کی سہولت کی فراہمی اینگرو فرٹیلائزر کی ملک میں کیمیائی کھاد کے متناسب استعمال کو فروغ دینے کا حصہ ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 19 اگست، صفحہ12)
ایک خبر کے مطابق اینگرو کارپوریشن نے سال 2020 کی دوسری سہماہی میں 5.742 بلین روپے بعد از ٹیکس منافع کا اعلان کیا ہے۔
(ڈان، 20 اگست، صفحہ9)
ایک خبر کے مطابق منڈی میں ڈبہ بند دودھ کی قیمت میں واضح اضافہ دیکھا گیا ہے۔ روالپنڈی اور اسلام آباد میں تھوک فروش منڈی کے تاجروں کا کہنا ہے کہ دو بڑی ڈبہ بند دودھ کمپنیوں نیسلے اور اولپرز نے اپنی مصنوعات کی قیمت میں اضافہ کردیا ہے جس کے نتیجے میں خوردہ فروشوں نے بھی ایک لیٹر دودھ کے ڈبے کی قیمت 150 روپے سے بڑھا کر 160 روپے اور ایک پاؤ دودھ کے ڈبے کی قیمت 38 روپے سے بڑھا کر 40 روپے کردی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 23 اگست، صفحہ7)
موسمی بحران
خیبر پختونخوا حکام کے مطابق صوبے کے مختلف علاقوں میں موسلادھار بارش اور سیلاب سے کم از کم 20 افراد ہلاک اور نو زخمی ہوگئے ہیں۔ خیبرپختونخوا کی پرونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کا کہنا ہے کہ ہلاکتیں سوات، بالائی کوہستان اور شانگلہ میں ہوئی ہیں۔
(ڈان، 29 اگست، صفحہ8)
موسمی تبدیلی
وزیر اعظم کے مشیر برائے موسمی تبدیلی ملک امین اسلم نے شہری جنگل کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہری جنگل ترقی یافتہ علاقوں میں گرمی کی لہر کا مقابلہ، درجہ حرارت میں کمی اور ایئر کنڈیشنر کے استعمال میں 30 فیصد کمی کرسکتے ہیں۔ جاری کردہ بیان میں ملک امین اسلم نے فاؤ (ایف اے او) کی تحقیق کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا ہے کہ شہری علاقوں میں شجرکاری درجہ حرارت میں دو سے آٹھ ڈگری سیلسیس کمی کے لیے مددگار ہوسکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آبادیوں، طالبعلموں، کارپوریٹ شعبہ اور دیگر شہری سماجی تنظیموں کو شامل کرکے جنگلات کو فروغ دیے بغیر شہری علاقے مختلف سماجی و اقتصادی، ماحولیاتی اور موسمی تبدیلی سے متعلق مسائل سے دوچار رہیں گے۔
(ڈان، 17 اگست، صفحہ4)
نکتہ نظر
زرعی خبروں میں وفاقی کمیٹی برائے زراعت کی جانب سے حکومت کو بھیجی گئی سفارشات پر مبنی خبر بھی شامل ہے۔ اس حکمت عملی میں ”پائیدار بنیادوں“ پر پیداوار اور زرعی برآمدات میں اضافے کو بنیادی ہدف بنایا گیا ہے۔ ہمیشہ کی طرح دیہی غربت کا خاتمہ، کسانوں کی خوشحالی اور خودانحصاری کے ذریعے معیشت کو مستحکم کرنے کی نوید دی جارہی ہے جبکہ تاریخی حقائق اور ملک بھر میں چھوٹے اور بے زمین کسان مزدوروں کے موجودہ حالات اس کے برعکس ہیں، چاہے سبز انقلاب کی نام نہاد ”کرشمہ سازی“ ہو یا جینیاتی فصلوں کا فروغ، بھوک، غربت، صرف چھوٹے اور بے زمین کسان مزدوروں کا ہی نہیں بلکہ ہر سطح پر عوام کا استحصال کہیں بیج، کھاد، زرعی زہر فروخت کرنے والی کمپنیوں کی صورت تو کہیں آٹا، گندم، چینی، دودھ، گوشت کا درآمدی و برآمدی مافیا بن کررہے ہیں۔ 50 فیصد زرعی زمین کاشت کرنے والے چھوٹے کسان عالمگیریت پر مبنی پالیسیوں کے نتیجے میں سرمایہ دار ممالک اور ان کی کمپنیوں کی ٹیکنالوجی و جدت اور برآمدی منڈی پر انحصار کرکے اس محتاجی کے دلدل میں دھنستے چلے جارہے ہیں جس سے نکلنے کے لیے چھوٹے کسانوں کی اکثریت کو زرعی طریقوں کو تبدیل کرکے اور ان کے روایتی بیجوں سے محروم کرکے کمپنیوں کے بیجوں کی کاشت اور زہریلے مداخل کے استعمال کے لیے سرکاری خزانے سے اربوں روپے کی مراعات فراہم کی جارہی ہیں۔ یقینا اس کا مقصد ان کمپنیوں کے کاروبار اور منافع کو بڑھاتے ہوئے پیداوار اور اس کی فروخت کے نظام پر ان کی اجارہ داری قائم کرنا ہے ناکہ کسان مزدور طبقہ کی خوشحالی و خوراک کی خودمختاری۔ اس صورتحال میں کہ ملک میں گندم، چینی جیسی لازمی غذائی اشیاء اور مقامی صنعت کے لیے کپاس درآمد کی جاری ہوں وہاں زرعی برآمدات کے لیے پالیسی سازی اشرافیہ پر مبنی ارباب اقتدار کے منصوبوں کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ پیداواری وسائل پر سرمایہ دار، جاگیردار اشرافیہ کا قبضہ اور درآمدی مداخل کی بنیاد پر پیداوار کی برآمد کا یہ گھورکھ دھندا ہی خوراک کی خودمختاری و خود انحصاری میں رکاوٹ ہے۔ پیداواری وسائل بشمول بیج، زمین، آبی وسائل، جنگلات پر جاگیردار اور سرمایہ داروں کا قبضہ اور منڈی کی بنیاد پر اپنایا گیا غیرپائیدار طریقہ پیداوار ہی ناصرف ماحولیاتی، موسمی تبدیلی اوراس کے نتیجے میں بڑھتی ہوئے آفات، بلکہ وبائی حالات میں چھوٹے اور بے زمین کسان مزدوروں اور استحصال کے شکار دیگر طبقات میں بھوک و غربت میں اضافے کی اہم وجہ ہے۔ ملک بھر کے چھوٹے اور بے زمین کسان مزدورجان لیں کہ استحصال کی بنیاد پر قائم اس پیداواری نظام کا خاتمہ اور پیداواری وسائل کی منصفانہ اور مسایانہ تقسیم ہی انہیں خوراک کی خودمختاری اور خودانحصاری پر گامزن کرسکتی ہے۔