2018 جولائی

جولائی 19 تا 25 جولائی، 2018

پانی
انڈس ریور سسٹم اتھارٹی نے دریائے سندھ، چناب، جہلم اور دریائے کابل میں پانی کا بہاؤ مجموعی طور پر 400,000 کیوسک تک پہنچنے کے بعد تربیلا اور منگلا ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کا آغاز کردیا ہے۔ محکمہ آبپاشی پنجاب کے انجینئروں کا کہنا ہے ارسا ڈیموں میں پانی ذخیرہ کرنے کے اپنے سالانہ شیڈول سے بہت پیچھے ہے اور موسم سرما کی فصلوں بشمول گندم کی بوائی کے لیے 13.5 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنا شاید ممکن نہ ہو۔
(بزنس ریکارڈر، 21 جولائی، صفحہ7)

چیئرمین واپڈا مزمل حسین نے سپریم کورٹ کی جانب سے دیامربھاشا ڈیم عملدرآمد کمیٹی کے اجلاس کے بعد زرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان دیامربھاشا اور منڈا ڈیم کی تعمیر کے لیے مالی وسائل کے حصول کے لیے ایشین انفرا اسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک اور سوئز بینک سے 2 بلین ڈالر قرض لینے کی کوشش کررہا ہے اور اس مقصد کے لیے بجلی کے استعمال پر خصوصی محصول (اسپیشل سرچارج) بھی عائد کیا جاسکتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ 1.5 سے 2 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری بیرونی ذرائع سے مطلوب ہے جس کے لیے حکام ان بینکوں سے رابطہ کررہے ہیں۔
(ڈان، 21 جولائی، صفحہ10)

زراعت
ایک خبر کے مطابق ایشیائی ترقیاتی بینک نے اپنی ایک رپورٹ (ایشین ڈیولپمنٹ آؤٹ لک سپلیمنٹ) میں کہا ہے کہ جون میں ختم ہونے والے مالی سال 2018 میں پاکستانی زرعی شعبہ میں واضح بہتری آئی ہے۔ اہم فصلوں اور مال مویشی شعبے میں بڑھوتری اپنے ہدف 3.5 فیصد سے زیادہ رہی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 20 جولائی، صفحہ7)

گندم
مالی سال 2018 میں پاکستان سے گندم کی بڑے پیمانے پر برآمد کے باوجود گندم اور اس سے تیار کردہ اشیاء کا دو ملین ٹن برآمد کا ہدف پورا نہیں کیا جاسکا۔ حکومت نے دسمبر 2017 میں 30 جون 2018 تک دو ملین ٹن گندم برآمد کرنے کی اجازت دی تھی جس پر حکومت کی جانب سے زمینی راستے سے گندم کی برآمد پر فی ٹن 120 ڈالر اور بحری راستے سے برآمد پر 169 ڈالر فی ٹن زرتلافی دی جاری ہی تھی۔ تاجر پر امید تھے کہ وہ 1.4 ملین ٹن گندم سمندری راستے سے برآمد کرلیں گے لیکن جون میں گندم کی برآمدات کم ہوکر 69,299 ٹن پر آگئی جو مئی میں 326,133 ٹن تھی۔
(ڈان، 22 جولائی، صفحہ10)

کپاس
کراچی کاٹن ایسوسی ایشن نے کپاس کی پیداوار میں متوقع کمی کی وجہ سے حکومت سے اس کی درآمد پر ڈیوٹی اور محصول ختم کرنے کا مطالبہ کہا ہے۔ ایسوسی ایشن کے مطابق پیداوار میں کمی کی وجہ سے طلب و رسد میں چار ملین گانٹھوں کا فرق پیدا ہوسکتا ہے۔ نگراں حکومت نے 15 جولائی سے کپاس کی درآمد پر تین فیصد کسٹم ڈیوٹی، دو فیصد اضافی کسٹم ڈیوٹی، پانچ فیصد سیلز ٹیکس اور ایک فیصد انکم ٹیکس عائد کیا تھا۔ ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ محصولات میں اضافے کی وجہ سے درآمدی کپاس مہنگی ہوجائے گی جس کے نتیجے میں کپڑے سے تیار شدہ مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔
(ڈان، 21 جولائی، صفحہ10)

ایک خبر کے مطابق منڈی کے زرائع کا کہنا ہے کہ پانی کی کمی کی وجہ سے کپاس کی بوائی کا ہدف خصوصاً سندھ میں حاصل نہیں ہوسکا ہے۔ سرکاری اندازوں کے مطابق گزشتہ سال کے مقابلے پنجاب میں کپاس کی بیجائی 99 فیصد جبکہ سندھ میں 66 فیصد ہوئی ہے۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ منڈی میں کپاس کی قیمت 9,300 روپے (فی من) جبکہ سندھ میں پھٹی کی قیمت 4,200 سے 4,500 روپے اور پنجاب میں 3,700 سے 4,400 روپے (فی من) ہوگئی ہے۔
(بزنس یکارڈر، 24 جولائی، صفحہ18)

مال مویشی
پاکستان میں مویشیوں کے چارے میں تیزی سے کمی کے تناظر میں پنجاب لائیو اسٹاک اینڈ ڈیری ڈیولپمنٹ بورڈ نے چارے کی بڑھتی ہوئی طلب پوری کرنے کے لئے پھلوں اور مکئی کے فضلے کو استعمال میں لاکر مویشیوں کی خوراک تیار کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے۔ بورڈ کے مشیر ڈاکٹر مسعود پرویز کے مطابق آم کا فضلہ ملک بھر میں وافر مقدار میں موجود ہوتا ہے جو چارہ بنانے کے لیے اہم جز کے طور پر استعمال ہوسکتا ہے۔ صرف پنجاب میں ہی 320,000 ٹن آم گودا بنانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ آم کا تقریباً پچاس فیصد حصہ چھلکے اور گٹھلی کی صورت بچ جاتا ہے جسے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ بورڈ کے مینجر وصی محمد کا کہنا ہے کہ ملک میں چارے کی شدید کمی ہے اور اس کمی کو پورا کرنے کے لیے بورڈ پھلوں کے فضلے سے سائیلج یعنی خمیری چارہ بنانے کے لیے کام کررہا ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 20 جولائی، صفحہ20)

ماحول
نگراں وزیر صحت و دیہی ترقی سندھ مشتاق احمد شاہ نے ایک اجلاس کے دوران کہا ہے کہ حکومت سندھ نے 1,455 ملین روپے کی لاگت سے ضلعی سطح پر پانی کی جانچ کرنے والی 23 لیبارٹریاں قائم کرنے اور سندھ کے دیہی علاقوں میں پانی کی فراہمی اور نکاسی آب کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کے لئے 1,575 ملین روپے مختص کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اجلاس میں بتایا گیا ہے کہ شہری و دیہی علاقوں میں فلٹر پلانٹ کی بحالی کے لیے بھی 666.124 ملین روپے مختص کیے جاچکے ہیں۔
(ڈان، 19 جولائی، صفحہ19)

نکتہ نظر
پانی کی خبروں میں شامل منگلا اور تربیلا ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کے حوالے سے خبر ملک بھر کے کسانوں کے لیے پریشان کن ہے۔ خبر کے مطابق پنجاب کے آبپاشی ماہرین اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ ربیع کے موسم میں بیجائی کے لیے درکار پانی ذخیرہ نہیں ہوپائے گا۔ ماہرین کے اندیشے اگر درست ثابت ہوتے ہیں تو اس صورتحال میں ملک بھر کے چھوٹے اور بے زمین کسانوں کے لیے گندم اور دیگر اہم غذائی فصلیں کاشت کرنامشکل ہوجائے گا۔ خریف کے موسم میں کسان خصوصاً سندھ کے کپاس کاشت کرنے والے کسان پہلے ہی پانی کی کمی کا شکار ہوکر شدید نقصان سے دوچار ہوچکے ہیں۔ ایسے میں ربیع کے موسم میں پانی کی کمی ان کسانوں کو اپنی سارے سال کی خوراک سے محروم کرسکتی ہے۔ اس صورتحال میں اشد ضرورت ہے کہ ملک میں گنے کی کاشت کو محدود کیا جائے کہ جس میں پانی گندم کے مقابلے کہیں زیادہ استعمال ہوتا ہے خاص کر اس صورتحال میں کہ جب ملک میں چینی کے ذخائر ضرورت سے کہیں زیادہ موجود ہیں۔ یہ بھی انتہائی ضروری ہے کہ کسان ہائبرڈ بیجوں کے ذریعے کاشت کے بجائے پائیدار اصولوں پر دیسی بیجوں کی کاشت کو بڑہائیں جو ناصرف کم پانی سے پیداوار دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ کھاد اور دیگر کیمیائی زہر سے محفوظ خوراک فراہم کرتے ہیں۔ اپنے محفوظ کردہ دیسی بیج کے استعمال سے چھوٹے اور بے زمین کسان کمپنیوں کی محتاجی سے بھی چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں جن کی منافع خوری پیداواری لاگت میں کئی گنا اضافے اور ان کسانوں میں غربت کی اہم وجہ ہے۔

جولائی 12 تا 18 جولائی، 2018

جنگلات
پیپلز پارٹی کے مخالفین اس پر سندھ میں جنگلات کی زمین کوڑیوں کے مول پٹے (لیز) پر دینے کے الزامات عائد کرتے رہے ہیں۔ نگران حکومت میں شامل وزیر زراعت، جنگلات و ماہی گیری خیر محمدجونیجو نے حیدرآباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران جنگلات کی زمین لیز پر دینے کے معاملے میں ان بے قائدگیوں کی تصدیق کی ہے۔ صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ جنگلات کی زمین 3,500 روپے فی ایکڑ قیمت پر پٹے پر دی گئی ہے جبکہ منڈی میں اس کی قیمت تقریباً 20,000 روپے فی ایکڑ ہے۔ محکمہ جنگلات کی 104,000 ایکڑ زمین پر غیر قانونی قبضہ ہے جبکہ 150,000 ایکڑ زمین پٹے پر دے دی گئی ہے۔ جنگلات کی زمین پٹے پر دینے کا مقصد یہ ہے کہ موسمی تبدیلیوں کے اثرات سے بچنے کے لئے درخت لگائے جائیں لیکن زیادہ تر زمین زراعت کے لئے استعمال کی جارہی ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 17 جولائی، صفحہ 4)

کھاد
کھاد بنانے والی کمپنیوں نے یوریا پر دی جانے والی زرتلافی کے خاتمے اور اس کی طلب میں اضافے کی وجہ سے جولائی کے مہینے میں ہی دوسری بار قیمتوں میں اضافہ کردیا ہے۔ جولائی کے آغاز میں حکومت نے یوریا پر دی جانے والی 100 روپے فی بوری کی نقد زرتلافی ختم کرکے یوریا کی فروخت پر ٹیکس (جی ایس ٹی) پانچ فیصد سے کم کرکے دو فیصد کردیا تھا۔ اس اضافے کے بعد مقامی منڈی میں یوریا کی فی بوری قیمت 1,650 سے 1,670 روپے ہوگئی ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 18 جولائی، صفحہ 20)

ٹماٹر
ایک مضمون کے مطابق پاکستان ان چند خوش قسمت ممالک میں شامل ہے جہاں (فصلوں کی) تباہ کن بیماریاں اور کیڑے مکوڑوں محدود پیمانے پر پائے جاتے ہیں۔ اس کے باوجود اس وقت ملک پر ٹوٹا ایبسو لوٹا (Tuta absoluta) نامی مکھی کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ اس مکھی کو جنوبی امریکہ کی ”ٹماٹو لیف مائنر“ کے نام سے جانا جاتا ہے۔گو کہ یہ جنوبی امریکہ سے تعلق رکھتی ہے لیکن 2006 میں چلی سے اسپین پہنچی اور پورے یورپ، میڈیٹیرین، وسطی اور جنوبی افریقہ تک پھیل گئی۔ 2014 میں یہ مکھی بھارت پہنچی اور 2016 میں نیپال میں بھی پائی گئی۔ تمام تر حفاظتی اقدامات کے باوجود یہ مکھی بنگلہ دیش، ایران، ترکی اور مشرق وسطی میں بھی داخل ہوگئی ہے۔ ہم باآسانی کہہ سکتے ہیں کہ یہ مکھی ہمارے دروازے پر دستک دے رہی ہے۔ اگر یہ پاکستان میں داخل ہوگئی تو ہمارے ٹماٹر کے کاشتکاروں کے لیے تباہ کن ہوگی جو ٹماٹر اور اس کے پتوں کو نقصان پہنچاتی ہے۔ ضروری ہے کہ محکمہ تحفظ نباتات اور دیگر متعلقہ ادارے ایران اور بھارت سے درآمد شدہ ٹماٹر پر کڑی نگاہ رکھیں۔ اگر ٹماٹر کی درآمدی کھیپ میں مکھی کی تصدیق ہو تو اسے ضبط کرنا چاہیے اور ضائع کردینا چاہیے۔
(محمود ضیاء الدین،ڈان، 16 جولائی، صفحہ4، بزنس اینڈ فنانس)

دالیں
ملک میں دالوں کی پیداوار میں اضافے اور اس کے درآمدی حجم کو کم کرنے کے لیے 2.599 بلین روپے لاگت کا ایک منصوبہ تیار کیا گیا ہے۔ اس منصوبے کو منظوری کے لئے سینٹرل ڈیولپمنٹ ورکنگ پارٹی کے اگلے اجلاس میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔ منصوبے کے تحت وفاقی اور صوبائی سرکاری تحقیقی اداروں میں درآمد شدہ جینیاتی وسائل کے ذریعے دالوں کی نئی اقسام تیار کی جائیں گی اور اس کی کاشت کے طریقوں کو بہتر بنایا جائے گا۔ دالوں کی طلب و رسد کے فرق کو ختم کرنے کے لیے اس کی درآمد پر انحصار بڑھتا جارہا ہے۔ پاکستان اس وقت سالانہ تقریباً ایک بلین ڈالر مالیت کی دالیں درآمد کررہا ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 15جولائی، صفحہ17)

لہسن
پاکستانی سائنسدانوں نے اضافی پیداوار کی حامل لہسن کی ایک قسم تیار کی ہے جو تمام صوبوں میں کاشت کے لئے موزوں ہے۔ لہسن کی پیداوار و طلب کے فرق کو مد نظر رکھتے ہوئے نیشنل ایگریکلچرل ریسرچ سینٹرز میں سبزیوں پر جاری تحقیقی پروگرام کے تحت لہسن کی اقسام کی تیاری کا منصوبہ شروع کیا گیا تھا۔ لہسن کی نئی قسم نارک۔جی ون (NARC-G1) کی فی ہیکٹر پیداوار 26 ٹن ہے جو ملک میں کاشت ہونے والی لہسن کی تمام اقسام کی پیداوار سے کہیں زیادہ ہے۔ لہسن کی یہ نئی قسم گھریلو استعمال، غذائی اشیاء اور ادویات سازی کی صنعت میں استعمال کے لئے موزوں ہے۔ پاکستان اس وقت طلب کے مقابلے کم پیداوار کی وجہ سے بھاری زرمبادلہ لہسن کی درآمد پر خرچ کرتا ہے۔ تازہ اعداوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ اس وقت 66 ملین روپے مالیت کا 34,375 ٹن لہسن چین، بھارت اور چلی سے درآمد کیا جارہا ہے۔ ملک میں لہسن کی پیداوار 70,925 ٹن ہے اور فی ہیکٹر اوسط پیداوار 8.99 ٹن ہے۔ سب سے زیادہ لہسن کی پیداوار کے پی کے میں ہوتی ہے جہاں پیداوار 32,205 ٹن ہے جبکہ پنجاب میں 24,143 ٹن، بلوچستان 7,880 ٹن اور صوبہ سندھ میں 6,557 ٹن لہسن پیدا ہوتا ہے۔
(ڈان، 12 جولائی، صفحہ11)

چاول
رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے مطابق چاول کی برآمد میں 28 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ پاکستان نے مالی سال 2018 میں دو بلین ڈالر مالیت کا 4.023 ملین ٹن چاول برآمد کیا جبکہ گزشتہ سال 1.6 بلین ڈالر مالیت کا 3.44 ملین ٹن چاول برآمد کیا گیا تھا۔ انڈونیشیا کی جانب سے 200,000 ٹن چاول کی خریداری کے بعدچاول کی برآمد میں اضافہ ممکن ہوا۔ ریپ کے سینئر وائس چیرمین رفیق سلیمان نے پانی کی کمی پرسخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ تھائی لینڈ، چین اور ویتنام جیسے ممالک سال میں دو سے تین چاول کی فصل حاصل کرتے ہیں اور ان کی سالانہ چاول کی پیداوار تقریباً 100 ملین ٹن ہوتی ہے۔ جبکہ پاکستان میں چاول کی سالانہ پیداوار بمشکل سات ملین ٹن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی چاول کی برآمد چار ملین ٹن پر رکی ہوئی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ نئے ڈیموں کی تعمیر کے بعد پاکستان دیگر ممالک کی طرح پانی ذخیرہ کرسکتا ہے اور سال میں ایک سے زائد مرتبہ چاول کی فصل حاصل کرسکتا ہے جس سے زراعت کے شعبے میں ایک انقلاب برپا ہوسکتا ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 12 جولائی، صفحہ 12)

ایک خبر کے مطابق گارڈ ایگری کلچر ریسرچ اینڈ سروسز لمیٹڈ نے چاول کی پانچ گرمی برداشت کرنے والی ہائبرڈ اقسام تیار کی ہیں۔ ان اقسام کی سندھ کے منتخب علاقوں میں پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل کی جانب سے آزمائشی کاشت جاری ہے۔ گارڈ کمپنی کے سربراہ شہزاد علی ملک کا کہنا ہے کہ وہ چاول کے نئے ہائبرڈ بیج متعارف کروانے کے لیے تحقیق کررہے ہیں جو موسمی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے مسائل اور ممکنہ خطرات جیسے کہ بڑھتی ہوئی حدت اور پانی کی کمی کا مقابلہ کرسکتے ہوں۔
(بزنس ریکارڈر، 18 جولائی، صفحہ13)

کپاس
کپاس کی منڈی میں ترسیل میں کمی کی وجہ سے اس کی قیمت میں مسلسل اضافے کا رجحان جاری ہے۔ اس وقت کپاس کی تجارت سے جڑے تمام شراکت داروں کو بحران کی سی صورتحال کا سامنا ہے۔ کپاس کی فی من قیمت اپنی بلند ترین سطح 8,700 روپے پر کھڑی ہے۔ اسی طرح سندھ کی پھٹی کی قیمت بھی 3,900 سے 4,150 روپے فی من جبکہ پنجاب کی 3,700 سے 4,300 روپے کی بلند سطح پر آگئی ہے۔
(ڈان، 13 جولائی، صفحہ11)

پانی
جیکب آباد کے مختلف دیہات سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں کسانوں نے نور واہ (نہر) میں پانی کی بندش کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے بیگاری نہر کے نزدیک قومی شاہراہ پر ریلی نکالی اور دھرنا دیا۔ مشتعل مظاہرین نے نعرے بازی کرتے ہوئے قومی شاہرا بند کردی۔ زرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے مظاہرین کا کہنا تھا کہ بیگاری نہر میں بھرپور پانی موجود ہے لیکن محکمہ آبپاشی کے بدعنوان افسران نور واہ میں پانی جاری نہیں کررہے۔ نور واہ میں پانی نہ ہونے کی وجہ سے لاکھوں ایکڑ زمین بنجر ہوری ہے۔ کئی بار محکمہ آبپاشی کے دفتر سے رابطہ کیا گیا لیکن کسانوں کی شنوائی نہیں ہوئی۔ کسانوں نے الزام لگایا کہ محکمہ آبپاشی کے افسران رشوت لے کر گڑھی خیرو اور دیگر علاقوں کو پانی ترسیل کررہے ہیں۔
(ڈان، 14 جولائی، صفحہ19)

ڈائریکٹر جنرل محکمہ زراعت پنجاب ملک محمد اکرم نے کہا ہے کہ پانی کی قلت پر قابو پانے کے لیے پنجاب حکومت عالمی بینک کے اشتراک سے پنجاب ارریگیٹڈ ایگری کلچر پروڈکٹوٹی امپرومنٹ پراجیکٹ کے تحت قطرہ قطرہ آبپاشی نظام کو فروغ دے رہی ہے۔ اس منصوبے کے تحت محکمہ زراعت عالمی بینک کی مالی مدد سے قطرہ قطرہ آبپاشی نظام اور فوارہ آبپاشی نظام (اسپرنکلر اریگیشن) کی تنصیب پر 60 فیصد زرتلافی اور آلات رعایتی قیمت پر فراہم کررہی ہے۔
(بزنس ریکارڈر،14 جولائی، صفحہ7)

چیئرمین واپڈا مزمل حسین نے کہا ہے کہ اگلے سال کے وسط میں دیامر بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کا تعمیراتی کام شروع ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی (پیپرا) کے قوانین میں ترمیم کرنے کی ضرورت ہے جو بڑے ڈیموں کی تعمیر میں سست روی کا سبب ہیں۔ پیپرا کی تمام قانونی شقوں پر بڑے ڈیموں کی تعمیر کے دوران عمل نہیں کیاجاسکتا۔ تیزی سے ڈیموں کی تعمیر کے لیے پیپرا قوائد میں ترمیم کے لیے تجاویز زیر غور ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ڈیموں کی تعمیر سے 9.3 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کیا جاسکے گا اور 5,300 میگاواٹ ماحول دوست توانائی حاصل ہوگی۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 13 جولائی، صفحہ12)

نکتہ نظر
اس ہفتے سرفہرست خبر سندھ میں جنگلات کی زمین کوڑیوں کے مول پٹہ پر دینے اور قبضے سے متعلق ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت پر بارہا یہ الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ وہ سرکاری زمین بشمول جنگلات کی زمین بڑے پیمانے پر بااثر افراد کو نواز رہی ہے۔ اب خود وزیر زراعت و جنگلات نے زمین کی اس بندر بانٹ کی تصدیق کردی ہے۔ ایسی صورتحال میں کہ جب سندھ کے زیادہ تر اضلاع پسماندگی، بھوک، غذائی کمی اور غربت کی تصویر نظر آتے ہیں، سندھ کی نمائندہ جماعت کی جانب سے زمینوں کی بندربانٹ قابل سزا جرم ہے۔ سندھ بھر میں جنگلات کی زمین پر قبضہ اس وقت کے حکمرانوں کی جاگیردارانہ سوچ کی بھرپور عکاسی کرتا ہے جو پہلے ہی سندھ کی زیادہ تر زرعی زمین پر نسل در نسل قابض ہیں جبکہ ان زمینیوں پر بطور ہاری کام کرنے والے کھیت مزدور دو وقت کی روٹی سے بھی محروم ہوتے جارہے ہیں۔
چھوٹے اور بے زمین کسانوں کا استحصال ملک میں صرف بے زمینی کی صورت ہی نہیں نیولبرل پالیسیوں کے ذریعے کیمیائی زراعت کو فروغ دینے صورت بھی بھرپور طریقے سے جاری ہے۔ پہلے کسانوں کو زیادہ پیداوار اورکھاد جیسے مداخل مفت اور رعایتی قیمت پر دے کر انہیں ماحول دشمن زراعت پر لگا کر روایتی زراعت کا خاتمہ کیا گیا اور اب ان ہی کسانوں کے لیے ان مداخل کو مہنگا کرکے سرمایہ دار دونوں ہاتھوں سے منافع سمیٹنے میں لگے ہیں۔ اسی طرح جب زراعت میں غیر ملکی مداخل استعمال ہونگے تو یقیناً ملکی زراعت و خوراک غیرملکی بیماریوں اور کیڑے مکوڑوں سے بھی متاثر ہوگی جس کا اظہار اب ماہرین حشریات بھی کررہے ہیں اور ملک میں ٹماٹر کی فصل کو تحفظ دینے کے لیے اقدامات تجویز کررہے ہیں۔ زرعی شعبہ کو پائیدار بنیادوں پر ترقی دینے کے لیے لازم ہے کہ کسان ماحول دشمن کیمیائی زراعت پر انحصار ختم کرکے اپنے روایتی بیج، روایتی مداخل کے ساتھ کاشت کریں جو ناصرف پیداواری لاگت میں کمی کا سبب بنے گا بلکہ ملک کو خوراک کی خودمختاری کی راہ پر بھی گامزن کرے گا۔

جولائی 5 تا 11 جولائی، 2018

کسان مزدور
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج بدین جاوید احمد بلوچ نے جبری مشقت کے شکار 32 کسانوں کو آزاد کردیا ہے۔ کسانوں کو ایک روز قبل گل محمد تنگڑی ولیج کے نزدیک تلہار ٹاؤن میں نجی جیل سے بازیاب کرایا گیا۔ تلہار پولیس نے عدالت کے حکم پر کسانوں کو نجی جیل سے بازیاب کیا تھا۔ عدالت میں شیوا جی کولہی کی جانب سے دائر کردہ درخواست میں اس کے خاندان اور قریبی رشتہ داروں کو نجی جیل سے رہا کروانے کی اپیل کی گئی تھی۔ درخواست گزار کا کہنا تھا کہ گزشتہ دو سالوں سے جاگیردار اس کے خاندان کو فصل سے حصہ نہیں دے رہا ہے اور وہ جب بھی اپنا حق مانگتے ہیں انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
(ڈان، 11 جولائی، صفحہ19)

زراعت
محکمہ زراعت پنجاب نے کسانوں پر زور دیا ہے کہ وہ کپاس کی فصل میں جڑی بوٹیوں پر خصوصی توجہ دیں جو سفید مکھی، پتہ مروڑ بیماری اور ملی بگ کے حملے کی وجہ بنتی ہیں۔ کسانوں کے لیے جاری ہدایات میں کہا گیا ہے کہ بارش کے موسم میں اگر 48 گھنٹوں تک پانی کھیت میں کھڑا رہے تو کپاس کے پودے مرسکتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں کپاس کی مجموعی پیداوار متاثر ہوسکتی ہے۔ اگر پانی بڑی مقدار میں کھیت میں کھڑا ہے تو نقصان سے بچنے کے لیے اس پانی کو پمپ کے ذریعے دوسرے کھیت میں منتقل کیا جاسکتا ہے۔ محکمے کے ترجمان نے کسانوں کو مشورہ دیا ہے کہ کپاس کو کیڑے مکوڑوں اور بیماری سے محفوظ رکھنے کے لیے وہ ہفتے میں دوبار اسپرے کریں۔
(بزنس ریکارڈر، 6 جولائی، صفحہ 13)

پھل سبزی
ملک میں باغبانی شعبے کی ترقی کے لیے تیار کئی گئی حکمت عملی ’’پاکستان ہورٹی کلچر ویژن 2030‘‘ کی کراچی میں تقریب رونمائی سات جولائی کو منعقد کی جائے گی۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس حکمت عملی کو اپناکر پھلوں اور سبزیوں کی برآمد کو آئندہ دوسالوں کے دوران ایک بلین ڈالر، اگلے پانچ سالوں کے دوران 3.5 بلین ڈالر اور دس سالوں میں چھ بلین ڈالر تک بڑھایا جاسکتا ہے۔ شعبہ باغبانی کی ترقی اور برآمدات میں اضافے کے لیے دس سالہ حکمت عملی تمام شراکتداروں کے ساتھ مشاورت کے بعد مکمل کی گئی ہے جسے عام انتخابات میں حصہ لینے والی تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ وفاقی و صوبائی حکومتوں کو بھی بھیجا جائیگا۔ آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹبل ایکسپورٹرز، امپورٹرز اینڈ مرچنٹس ایسوسی ایشن کے صدر وحید احمد کا کہنا ہے کہ ویژن 2030 نجی شعبے کی طرف سے جاری کی جانے والی پہلی جامع تحقیق ہے جس میں مقامی اور غیرملکی ماہرین کی تجاویز اور مشاورت شامل ہے۔ اس حکمت عملی کے ذریعے باغبانی شعبے میں پھل اور سبزیوں کی پیداوار سے لیکر ان کی نقل و حمل اور برآمد تک تمام مراحل مزید جدید اور موثر بنائیں جائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹبل ایکسپورٹرز، امپورٹرز اینڈ مرچنٹس ایسوسی ایشن کی تیار کردہ یہ حکمت عملی اگلے دس سالوں میں غیرملکی سرمایہ کاری پاکستان لانے کا ذریعہ بنے گی جس سے دیگر شعبہ جات میں بھی غیرملکی سرمایہ کار راغب ہونگے۔
(بزنس ریکارڈر، 6 جولائی، صفحہ2)

چاول
پاکستان کی زرعی معیشت کو پانی کے بحران کی وجہ سے مشکل حالات کا سامنا ہوسکتا ہے۔ اس سے قبل پانی کا بحران کپاس کی بیجائی کا ہدف پورا نہ ہونے کی وجہ بنا تھا اب اس بحران سے سندھ میں چاول کی بوائی ایک سے دو مہینے تاخیر کی وجہ سے متاثر ہورہی ہے۔ چاول موسم گرما کی فصل ہے اور گرم موسم اس کی نشو نما کے لئے انتہائی مفید ہے۔ چاول کی بوائی میں تاخیرکی وجہ سے اس کی پیداوار اکتوبر و نومبر تک جاسکتی ہے جب درجہ حرارت کم ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں چاول کی پیداوار متاثر ہوسکتی ہے۔ سندھ آبادگار بورڈ کے صدر عبدالمجید نظامانی کا کہنا ہے کہ چاول کی بوائی ایک سے دو ماہ تاخیر کا شکار ہوچکی ہے۔ موجودہ موسم کے چاول کی پیداوار پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ مستقبل کی صورتحال بارشوں کے وقت پر ہونے پر منحصر ہے۔ تاہم کچھ اندازوں کے مطابق چاول کی بیجائی میں تاخیر کی وجہ سے پیداوار 30 سے 40 فیصد کم رہنے کا امکان ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 8 جولائی، صفحہ13)

کپاس
فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے ایک اعلامیہ کے ذریعے 15 جولائی سے کپاس کی درآمد پر دی گئی چھوٹ ختم کردی ہے۔ حکومت نے رواں سال 8 جنوری سے کپاس کی درآمد پر پانچ فیصد سیلز ٹیکس اور چار فیصد کسٹم ختم کردی تھی۔ مقامی کسانوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے کپاس کی درآمد پر یہ رعایت واپس لی گئی ہے۔
(ڈان، 6 جولائی، صفحہ10)

آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) نے نگراں حکومت سے کپاس کی درآمد پر عائد محصولات ختم کرنے پر زور دیا ہے۔ نائب چیئرمین اپٹما زاہد مظہر نے کپاس کی درآمد پر محصولات میں دی جانے رعایت کو ختم کرنے کے فیصلہ کو ٹیکسٹائل صنعت کے تابوت میں آخری کیل قرار دیا ہے۔ انکا کہنا تھا مسلسل تین سالوں سے ملک میں کپاس کی پیداوار اس کی طلب 15 ملین گانٹھوں کے مقابلے کہیں کم ہے اور کپڑے کی صنعت اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے دیگر ممالک سے کپاس درآمد کرنے پر مجبور ہے۔ اپٹما نے وزیراعظم ناصرالملک سے فوری طور پر کپاس کی درآمد پر عائد محصولات ختم کرکے ملک کی معیشت اور کپڑے کی برآمدی صنعت کو تحفظ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 10 جولائی، صفحہ7)

جنگلات
سینٹر سرتاج عزیز کی سربراہی میں ہونے والے سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے موسمی تبدیلی کے اجلاس میں بتایا گیا ہے کہ سرسبز پاکستان پروگرام (گرین پاکستان پروگرام) کے تحت ملک میں فروری 2017 تا جون 2018 تک 27 ملین درخت لگائے گئے ہیں۔ چھ ملین درخت پنجاب میں، 2.68 ملین سندھ میں، 7.8 ملین خیبر پختونخوا، 0.7 ملین بلوچستان، 2.5 ملین گلگت بلتستان، 0.2 ملین اسلام آباد اور 0.5 ملین وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں لگائے گئے ہیں۔ کمیٹی کے رکن سینیٹر سکندر میندھرو کا کہنا تھا کہ درخت لگانا کوئی مشکل ہدف نہیں ہے لیکن اس کی بڑھوتری تک حفاظت کرنا مشکل مرحلہ ہے۔ ضروری ہے کہ وزارت موسمی تبدیلی تین ماہ بعد ان درختوں کے حوالے سے رپورٹ کمیٹی میں جمع کرائے۔
(بزنس ریکارڈر، 5 جولائی، صفحہ3)

ایک مضمون کے مطابق ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر ملک میں جنگلات کی کٹائی کا سلسلہ موجودہ رفتار سے جاری رہا تو اگلے 50 سالوں میں پاکستان میں جنگلات ختم ہوجائیں گے۔ جنگلات میں اضافہ عالمی حدت کے اثرات کو ختم کرنے کا واحد راستہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پانی زندگی کا لازمی جز ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ جنگلات کی کٹائی ہمیں پانی جیسی بنیادی ضرورت سے محروم کررہی ہے۔ زیارت و چترال میں بلوط، صنوبر اور چلغوزہ سمیت دنیا کے کچھ نایاب درخت تیزی سے کم ہورہے ہیں۔ ملک کے شمالی علاقہ جات میں پائے جانے والے زیادہ تر جنگلات کم ہوگئے ہیں کیونکہ وہاں رہنے والی آبادی کے لیے توانائی کے حصول کا دوسرا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ بہت سے علاقے جو قیام پاکستان سے پہلے جنگل قرار دیئے گئے تھے اب ختم ہوچکے ہیں۔
(ایم ضیاالدین، بزنس ریکارڈر، 11جولائی، صفحہ20)

نکتہ نظر
اس ہفتے کی خبروں میں سرفہرست خبر سندھ کے ضلع بدین میں بے زمین کسان مزدوروں، جنہیں عام طور پر سندھ میں ’’ہاری‘‘ کہا جاتا ہے، کی نجی جیل سے بازیابی کی ہے۔ آئے دن جبری مشقت کے شکار ہاریوں کی نجی جیل سے عدالتی حکم پر پولیس کے ذریعے بازیابی کی خبر اخبارات کی زینت بنتی ہے۔ اس طرح کے واقعات کا (اخباری اطلاعات کے مطاق) افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ایک درخواست گزار عدالت میں اپیل کرتا ہے، عدالت متعلقہ تھانے کو ہاریوں کی بازیابی کا حکم دیتی ہے، عدالت میں پیشی کے بعد ہاریوں کو آزاد کردیا جاتا ہے لیکن پولیس کے ہاتھوں جاگیردار کی گرفتاری اور عدالت سے سزا کی کوئی ایک مثال سامنے نہیں آتی۔ کیا ملکی قوانین کے مطابق کسی کو جبراً قید رکھ کر اس سے مشقت کروانا جرم نہیں؟ اگر ہاں تو مجرم گرفتار کیو ں نہیں ہوتے اور کیفرکردار تک کیوں نہیں پہنچتے؟ ملک میں خصوصاً سندھ میں کسانوں میں بے زمینی، بھوک، غربت، جبری مشقت جاگیردارنہ نظام کی سفاکیت کو صاف ظاہر کرتی ہے جو ملکی آئین و قانون کی کھلے عام دھجیاں اڑا کربنیادی حقوق سلب کرنے اور کسانوں کا استحصال کرنے کے لیے ہر طرح سے آزاد ہے۔ ملک سے اس ناانصافی، ظلم اور بھوک و غربت کا خاتمہ صرف اور صرف پیداواری وسائل کی منصفانہ تقسیم سے ہی ممکن ہے جس کے لیے ملک بھر کے استحصال کے شکار طبقات کو جاگیردار، سرمایہ دار، بدعنوان افسرشاہی کے خلاف یکجا ہوکر جدوجہد کا آغاز کرنا ہوگا۔ تاریخ گواہ ہے کہ اقوام عالم میں وہی قومیں سرخرو ہوئیں جنہوں نے اپنے حق کو پیچان کر اس کے حصول کے لیے جدوجہد و قربانی کو اپنا مقصد بنایا۔

جون 28 تا 4 جولائی، 2018

زمین
ایک خبر کے مطابق صوبہ پنجاب میں جنگلات کا رقبہ بڑھانے کے لیے ساؤتھ پنجاب فوریسٹ کمپنی نے تجارتی بنیادوں پر شجرکاری منصوبے کا آغاز کیا ہے۔ اس منصوبے سے ماحولیاتی فوائد کے علاوہ اگلے 20 سالوں کے دوران 20 بلین روپے آمدنی متوقع ہے۔ کمپنی کے سربراہ طاہر رشید نے زرائع ابلاغ کو بتایا ہے کہ کمپنی نے تجارتی بنیادوں پر شجرکاری پاکستان میں پہلی بار نجی سرکاری شراکتداری کے تحت متعارف کی ہے۔ منصوبے کے تحت حکومت نے جنگلات کی زمین نجی اور کاروباری شعبے کو تجارتی بنیادوں پر جنگلات قائم کرنے کے لیے فراہم کی ہے۔ اس منصوبے کو سرمایہ کاروں کی جانب سے جنوبی پنجاب میں 99,077 ایکڑ زمین کے لیے مختلف پیکششیں (پروپوزلز) جمع کروانے سے پہلے ہی متعلقہ محکموں سے منظوری مل چکی ہے۔ ساؤتھ پنجاب فاریسٹ کمپنی ایک سرکاری کمپنی ہے جس کا مقصد ہے کہ جنگلات میں اضافے اور پائیدار بنیادوں پر جنگلات کے تحفظ کے لیے سرکاری سرمایہ کاری کے ساتھ نجی شعبے کی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 29 جون، صفحہ11)

زراعت
محکمہ زراعت پنجاب نے خریداری کا جدید کمپیوٹرائیزڈ نظام ’’ای پری کیورمنٹ سسٹم‘‘ کا آغاز کردیا ہے۔ حکام کے مطابق یہ نظام پنجاب پری کیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی کے قوانین پر مکمل طور پر عملدرآمد کو یقینی بنائے گا اور جانچ کے عمل کو مزید موثر بنائے گا۔ محکمہ کے افسر شیخ افضل رضا کا کہنا ہے کہ پنجاب پری کیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی کے قوانین پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ ان قوانین کی سمجھ بوجھ نہ ہونا اور عملدرآمد کے لیے صلاحیتوں کی کمی ہے۔ شیخ افضل نے دعوی کیا کہ استعمال میں آسان جدید اطلاعاتی ٹیکنالوجی سے خریداری کے عمل میں دستاویزی طریقہ کار میں صرف ہونے والے 60 گھنٹے کا وقت کم ہوکر 30 منٹ رہ جائے گا۔ سیکریٹری زراعت پنجاب واصف خورشید نے امید کا ظہار کیا ہے کہ اس نظام سے سرکاری خریداری میں مالی منصوبہ بندی، شفافیت اور کارکردگی بہتر ہوگی۔
(ڈان، 4 جولائی، صفحہ2)

وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کے حکام کے مطابق مون سون کی بارشیں گنا ، چاول اور کپاس سمیت خریف کی فصلوں پر مثبت اثرات مرتب کریں گی۔ اس کے علاوہ ان بارشوں سے آبی ذخائر کی سطح میں بھی اضافہ ہوگا۔ مون سون کی جاری بارشیں چاول کی فصل کے لئے بھی بہتر ہیں لیکن اگر یہ بارشیں مسلسل جاری رہیں تو چاول کی فصل پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ مسلسل بارشوں سے کپاس کی فصل پر بھی متاثر ہوسکتی ہے کیونکہ بارشیں کپاس کی فصل میں کئی طرح کی بیماریوں کی وجہ بنتی ہیں۔ ملک میں کپاس کی بیجائی تقریباً مکمل ہوچکی ہے اور چاول کی اس وقت جاری ہے ۔وفاقی زرعی کمیٹی (فیڈرل کمیٹی آن ایگری کلچر) نے خریف کے موسم 2018-19 کے لیے گنے کا 68.175 ملین ٹن، چاول کا سات ملین ٹن جبکہ کپاس کی 14.370 ملین گانٹھوں کی پیداوار کا ہدف مقرر کیا ہے۔
( بزنس ریکارڈر، 1 جولائی، صفحہ 20)

پانی
ترجمان انڈس ریور سسٹم اتھارٹی رانا خالد نے کہا ہے کہ اتھارٹی نے ایک اجلاس میں پانی کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا ہے۔ ترجمان کے مطابق دریا کا بہاؤ 23,100 ہوگیا ہے جس میں موجودہ بارشوں کے سلسلے کی وجہ سے مزید بہتری آنے کی توقع ہے۔ پنجاب کو پانی کی فراہمی 115,000کیوسک سے بڑھا کر 125,900کیوسک جبکہ سندھ کو 145,000کیوسک سے بڑھا کر 160,000 کیوسک کردی گئی ہے۔ اسی طرح بلوچستان کو فراہم کیا جانے والا پانی 14,000 کیوسک سے بڑھا کر 16,000 کیوسک کردیا گیا ہے جبکہ خیبر پختونخوا کے حصے میں کوئی اضافہ کیے بغیر 3,100 کیوسک پانی فراہم کیا جارہا ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 4 جولائی، صفحہ 8)

کپاس 
محکمہ زراعت پنجاب نے کپاس کے کاشتکاروں پر زور دیا ہے کہ وہ فصل کو بارش کے پانی سے بچانے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کریں۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ مسلسل بارشیں کپاس کی فصل کے لئے فائدہ مند نہیں ہیں۔ بارش کے پانی کی وجہ سے جڑی بوٹیاں تیزی سے اگتی ہیں اور فصل کو کیڑوں سے بچانا مزید مشکل ہوجاتا ہے۔ اگر بارش کا پانی 24 گھنٹے تک فصل میں کھڑا رہے تو کپاس کی فصل کی بڑھوتری رک جاتی ہے۔ کسانوں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ اگر زیادہ پانی جمع ہو تو اسے دوسرے کھیت میں منتقل کردیں۔
(بزنس ریکارڈر، 30 جون، صفحہ 8)

غذائی کمی
محکمہ خوراک پنجاب ، نیشنل فورٹیفیکیشن الائنس اور عالمی غذائی پروگرام (ورلڈ فوڈ پروگرام) نے پنجاب میں غذائی کمی (مائیکرو نیوٹرینٹ ڈیفشنسی) کے سدباب کے لیے خوراک میں اضافی غذائیت شامل کرنے کی حکمت عملی (پنجاب فوڈ فورٹیفیکیشن اسٹریٹجی 2018) جاری کردی ہے۔ آسٹریلوی حکومت نے اس حکمت عملی کی تیاری اور اسے جاری کرنے کے لئے مالی معاونت فراہم کی ہے۔ قومی غذائی سروے 2011 کے مطابق پنجاب میں پانچ سال سے کم عمر کے 39 فیصد بچے عمر کے حساب سے نشونما میں کمی، 30 فیصد بچے وزن میں کمی اور 14 فیصد بچے جسمانی نشو نما میں کمی کا شکار ہیں۔
(بزنس ریکارڈر، 28 جون، صفحہ13)

ماحول
ایک خبرکے مطابق سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی (SECMC) اور محکمہ جنگلات سندھ کے درمیان تھرپارکر خصوصا تھر بلاک II اور اس کے گردونواح میں بڑے پیمانے پر درخت لگانے کے حوالے سے مفاہمت کی ایک یاداشت پر دستخط کیے گئے ہیں۔ معاہدے کے تحت محکمہ جنگلات درخت لگانے کے لیے کمپنی کو مسلسل تکنیکی مدد فراہم کرے گا اور سرسبز پاکستان منصوبے کے تحت کمپنی کو درختوں کی پنیری مفت فراہم کرے گا۔ محکمہ جنگلات کمپنی کی کھارے پانی سے چارے کی پیداوارکے لیے بھی مدد فراہم کرے گا۔ شجرکاری منصوبے کو درست سمت میں رکھنے اور تکنیکی مدد فراہم کرنے کے لیے محکمہ جنگلات کے حکام مستقل بنیادوں پر تھرکول بلاک II کا دورہ بھی کریں گے۔
(بزنس ریکارڈر، 28 جون، صفحہ7)

نکتہ نظر
اس ہفتے سرفہرست خبر جنوبی پنجاب میں جنگلات کی زمین کے حوالے سے ہے۔ خبر کے مطابق 99,000 ایکڑ زمین پر تجارتی بنیادوں پر جنگلات قائم کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے اور اس مقصد کے لیے حکومت پنجاب جنگلات کی سرکاری زمین نجی تجارتی کمپنیوں کو دے گی۔ پنجاب حکومت کا یہ قدم اس کی کسان مزدور دشمن پالیسیوں کے نفاذ میں دن بہ دن شدت کو ظاہر کرتا ہے۔ پنجاب حکومت اب تک صوبے کے مختلف زرخیز اضلاع میں خصوصی اقتصادی زونز اور توانائی منصوبوں کے قیام کے لیے بڑے بڑے زمینی رقبے مختص کرتی چلی آئی ہے اور اب ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے دریائے سندھ کے ساتھ جنگلات کی زرخیز زمین اور دیگر قدرتی وسائل کو بھی تجارتی کمپنیوں کے حوالے کرنے پر کمربستہ ہے۔ جنوبی پنجاب کے اضلاع پہلے ہی نیم قبائلی جاگیرداری نظام میں شدید غربت، بھوک اور بیروزگاری جیسے مسائل کا شکار ہیں اس پہ مزید ستم یہ کہ حکومت جنگلات کی سرکاری زمین جس پر چھوٹے اور بے زمین کسان مزدور گزشتہ کئی دہائیوں سے آباد ہیں، ان سے زمین چھین کر بڑے بڑے سرمایہ داروں کو منتقل کررہی ہے۔ اس کی ایک واضح مثال ضلع راجن پور کی تحصیل جام پور میں رکھ عظمت والا کی ہے جہاں پنجاب حکومت تقریباً 3,500 ایکڑ زمین سے کسان آبادیوں کو بیدخل کررہی ہے۔ حکومت پنجاب کا یہ منافقانہ دہرا رویہ قابل مزمت و گرفت ہے کہ دوسری طرف یہی حکومت سرمایہ داروں اور غیرملکی غذائی کمپنیوں کے کاروباری مفادات کو تحفظ دینے کے لیے صوبے میں خوراک میں اضافی غذائی اجزا شامل کرنے کی منصوبہ بندی کررہی ہے بجائے اس کے کہ بھوک اور غذائی کمی کی بنیادی وجہ بے زمینی کو ختم کرے۔ وقت کی اشد ضرورت ہے کہ ملک بھر کے چھوٹے اور بے زمین کسان مزدور جنگلات ہوں یا پہاڑ، زرعی زمین ہو یا پانی ہر طرح کے پیداواری وسائل پر اپنے اختیار کے لیے منظم ہوکر جدوجہد کریں کہ یہی رستہ انہیں خوشحالی اور آسودگی کی منزل کی طرف لے جاسکتا ہے۔