مئی 2018

مئی 24 تا 30 مئی، 2018
زراعت
وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق نے پہلی قومی غذائی تحفظ پالیسی (نیشنل فوڈ سیکیورٹی پالیسی) جاری کردی ہے۔ پالیسی کا مقصد غربت و بھوک کا خاتمہ اور خوراک کی (زراعت، مال مویشی اور ماہی گیری شعبے میں) پیداوار کے پائیدار نظام کا فروغ ہے۔ وفاقی کابینہ نے تقریباً دو ماہ قبل اس پالیسی کی منظوری دی تھی لیکن حکومت نے اپنی مدت ختم ہونے سے صرف دو دن قبل اس پالیسی کا اعلان کیا ہے۔ پالیسی کے مطابق گندم کی موجودہ سرکاری خریداری اور امدادی قیمت پر نظرثانی کی جائے گی اور اسے مرحلہ وار ختم کردیا جائے گا۔ پالیسی مسودے کے مطابق (بظاہر یہ لگتا ہے کہ) حکومت گندم و چینی کی برآمد پر زرتلافی دینے کے بجائے درآمدی دالوں اور روغنی بیجوں کی خریداری پر امدادی قیمت متعارف کرواسکتی ہے۔ پالیسی غذائی تحفظ کے چاروں عوامل خوراک کی دستیابی، اس تک رسائی، اس کے استعمال اور استحکام کے حوالے سے مسائل کے حل کا طریقہ کار پیش کرتی ہے۔ اس پالیسی کا مقصد زراعت میں پیداوار میں اضافہ کرنا، اسے منافع بخش بنانا، موسمی تبدیلی سے مطابقت پیدا کرنا اور زراعت میں مسابقت پیدا کرنا بھی ہے۔ وفاقی زیر قومی غذائی تحفظ و تحقیق سکندر حیات خان بوسن کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کی سربراہی میں قومی غذائی تحفظ کونسل (نیشنل فوڈ سیکیورٹی کونسل) قائم کی جارہی ہے جس میں وزرائے اعلی اور متعلقہ سرکاری اداروں کے نمائندگان شامل ہونگے۔ یہ کونسل غذائی تحفظ کی صورتحال کا جائزہ لے گی اور حوالے سے ضروری اقدمات کرے گی۔
(بزنس ریکارڈر، 30 مئی، صفحہ8)

پنجاب اسمبلی نے صوبے میں زرعی منڈی کو ضابطے میں لانے کے لئے پنجاب ایگریکلچرل مارکیٹ ریگولیٹری اتھارٹی ایکٹ کی منظوری دیدی ہے جو صوبہ میں رائج موجودہ کئی دہائی پرانے نظام کی جگہ لے گا۔ سیکریٹری زراعت پنجاب محمد محمود کا کہنا ہے کہ پرانا قانون محدود تھا جو مسابقت کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ نیا قانون زرعی پیداواری منڈیوں میں مسابقت میں اضافے کی راہ ہموار کرے گا اورکسانوں کو نئی جہتیں فراہم کرے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ منڈیوں میں بڑھتے ہوئے مسابقتی عمل سے کسانوں و خوردہ فروشوں اور صارفین کی سودے بازی کی قوت بہتر ہوگی جس کے نتیجہ میں کسانوں کو اپنی پیداوار کی فروخت سے آمدنی میں اضافہ ہوگا۔
(دی یکسپریس ٹریبیون، 24 مئی، صفحہ20)

زمین
قومی احتساب بیورو (نیب) نے سپر ہائی وے، کراچی کے نزدیک 10,000 ایکڑ سرکاری زمین واگزار کرنے کا دعوی کیا ہے جس پر محکمہ ریونیو کی مدد سے بڑے رہائشی منصوبوں کا اعلان کیا گیا تھا۔ نیب ترجمان کا کہنا ہے کہ تھانہ بولا خان، ضلع جامشورو میں زمین کی جعلی منتقلی کے الزام میں ریونیو حکام کے خلاف جاری ایک تفتیش میں نیب حکام کو کامیابی ملی ہے۔ اس سلسلے میں تین افسران کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے۔ نیب ترجمان کا کہنا ہے کہ دیہہ ببر بند، تعلقہ بولا خان کی 731 ایکڑ زمین ایک بڑے رہائشی منصوبے کا حصہ تھی جبکہ دیہہ ہتھل بتھ میں واقع بقیہ ماندہ زمین سپر ہائی وے پر قائم مختلف رہائشی منصوبوں کا حصہ تھی۔ خبر کے مطابق ابتدائی طور پر نیب نے 731 ایکڑ زمین کا معاملہ اٹھایا اور ادارے کی پریس ریلیز میں اس زمین کا تعلق ’’ایک بڑے رہائشی منصوبے‘‘ کے نام سے ظاہر کیا۔ درحقیقت یہ منصوبہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کا ’’ڈی ایچ اے سٹی‘‘ ہے جو چند ہزار ایکڑ پر مشتمل ہے، جس کی کل زمین میں سے 731 ایکڑ زمین ریونیو ریکارڈ میں تبدیلی کرکے حاصل کی گئی تھی۔
(ڈان، 25 مئی، صفحہ17)

خیبرپختونخوا حکومت نے ضلع طورگر کے جنگلات کے مالکانہ حقوق مقامی قبائلیوں کو واپس کردیئے ہیں۔ 2011 میں عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت نے اس علاقے کے تمام جنگلات کو اپنی ملکیت قرار دے کر طورگر کی حیثیت کو قبائلی علاقے سے تبدیل کرکے اسے ضلع کا درجہ دے دیا تھا۔ وزیر اعلی خیبرپختونخوا کے مشیر زرگل خان کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے وزیر اعلی کی جانب سے قائم کی گئی کمیٹی نے جنگلات مقامی قبائل کو واپس کرنے کی سفارش کی تھی جس پر عملدرآمد کے لیے صوبائی کابینہ نے منظوری دی تھی۔
(ڈان، 26 مئی، صفحہ7)

پانی
گذشتہ چھ ماہ سے پانی کی عدم فراہمی کے خلاف بڑی تعداد میں کسانوں و ہاریوں نے نوکوٹ ۔ مٹھی شاہراہ کو ٹریکٹر ٹرالیاں کھڑی کرکے بند کردیا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ ان کے علاقے کے محکمہ آبپاشی کے حکام اور سیاسی شخصیات کوئی بھی ان کے مسائل سننے کو بھی تیار نہیں ہیں۔ محکمہ آبپاشی کی بدانتظامی کی وجہ سے نارا کنال کے نوکوٹ سب ڈویژن میں پانی نہر کے آخری سرے تک نہیں پہنچ رہا ہے۔ پانی کی قلت کی وجہ سے ان کے مویشی مررہے ہیں اور زرعی زمین بنجر ہورہی ہے۔ کسانوں نے پانی فراہم کرنے اور محکمہ آبپاشی کے بدعنوان افسران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
(ڈان، 24 مئی، صفحہ19)

غذائی کمی
تھرپارکر، سندھ کے علاقے چھاچھرو میں غذائی کمی کی وجہ سے مزید دو بچے جانبحق ہوگئے ہیں جس کے بعد مئی کے مہینے میں مرنے والے بچوں کی تعداد 34 ہوگئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق ضلع کے مختلف ہسپتالوں میں 70 سے زائد بچے تاحال زیر علاج ہیں۔ سندھ حکومت کے مسائل کے حل کے لیے ناکافی اقدامات کی وجہ سے غذائی کمی کے شکار خاندانوں نے مویشیوں کے لیے چارہ دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے بدین اور دیگر علاقوں کی طرف ہجرت شروع کردی ہے۔ تھرپارکر میں 6,000,000 گائے موجود ہیں جو مقامی لوگوں کے لیے آمدنی کا زریعہ ہیں۔ حکومت سندھ نے تھرپارکر میں غذائی کمی کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے 2014 میں تھر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے قیام کا اعلان کیا تھا جس کا مسودہ تاحال تاخیر کا شکار ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 27 مئی، صفحہ3)

مال مویشی
سندھ حکومت نے حیران کن طور پر سال 2018-19 میں مال مویشیوں کے اندراج اور شناخت کے ایک آزمائشی منصوبہ کے لئے 1.16 بلین روپے مختص کردیئے ہیں۔ یہ منصوبہ سالانہ ترقیاتی منصوبوں کا حصہ نہیں ہے جس کے لیے وزیر اعلی نے ابتدائی تخمینی لاگت (PC-I) کے روایتی طریقہ کار کے تحت منظوری دی تھی۔ منصوبہ بندی و ترقی کی صوبائی وزارت کو منصوبہ 15 مارچ 2018 کو موصول ہوا جس کی تکنیکی کمیٹی جو عموماً منصوبے پر طویل مشاورت کرتی ہے، نے اسی دن اس منصوبے کی منظوری دے دی۔ لہذا اس منصوبے کو پرونشل ڈیولپمنٹ ورکنگ پارٹی نے بھی صرف چھ دنوں میں (21 مارچ، 2018 کو) منظوری دے دی اور اس کے بعد منصوبے کو سندھ کے بجٹ 2018-19 میں شامل کرکے 1.16 بلین روپے مختص کردیے گئے۔
(بزنس ریکارڈر، 24 مئی، صفحہ7)

چاول
رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان (ریپ) نے قطر کی حکومت سے پاکستانی سپر باسمتی چاول کی خریداری کے لئے ٹھیکہ دینے کی درخواست کی ہے۔ چیئرمین ریپ سمیع اللہ نعیم کے مطابق قطر حکومت ہر سال 50,000 ٹن چاول خریدتی ہے۔ پاکستان ہر سال قطر کو 25 سے 30 ہزار ٹن چاول برآمد کرسکتا ہے لیکن قطر حکومت کی چاول فروخت کنندہ ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نام شامل نہیں ہے۔ سمیع اللہ نعیم کا مزید کہنا تھا کہ انہوں پاکستان میں قطر کے سفیر سے ملاقات میں یہ مسئلہ اٹھایا ہے اور سفیر نے مسئلے کے حل کے لیے ہرممکن اقدامات کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔
(بزنس ریکارڈر 26 مئی، صفحہ5)

کپاس
ایک خبر کے مطابق کپاس کی منڈی میں پھٹی کی قیمت چھ سالوں کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ کپاس کے تجزیہ کار نسیم عثمان کا کہنا ہے کہ پھٹی کی قیمت 2,000 روپے فی من سے بڑھ کر 4,000 روپے فی من تک پہنچ گئی ہے۔ منڈی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ملوں کی کپاس کی خریداری کے رجحان میں اضافے کی وجہ سے تجارتی سرگرمیوں میں بہتری آئی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 30 مئی، صفحہ12)

موسمی تبدیلی
ڈائریکٹر جنرل زراعت (تحقیق) پنجاب ڈاکٹر عابد محمود نے ایک جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ محکمہ زراعت پنجاب نے زرعی پیداور پر موسمی تبدیلی کے اثرات کا درست اندازہ لگانے کے لئے ایوب ایگریکلچر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، فیصل آباد میں موسمی تبدیلی کا مرکز (کلائمٹ چینج سینٹر) قائم کیا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ جدید زرعی تحقیق سے ہی زرعی شعبے میں انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے۔ اس وقت ملکی برآمدات میں زرعی شعبہ کا حصہ 60 سے 70 فیصد ہے۔ لہذا یہ وقت کی اہم ضرورت ے کہ زرعی شعبہ کی ترقی کے لئے جدید بنیادوں پر کام کیا جائے۔ محکمہ زراعت کپاس کی ایسی اقسام پر تحقیق کررہا ہے جن میں زیادہ حرارت برداشت کرنے کی صلاحیت ہو، جو پانی کے کم سے کم استعمال سے زیادہ پیدوار دے سکے۔
(بزنس ریکارڈر، 30مئی، صفحہ20)

نکتہ نظر
سرفہرست خبروں میں قومی غذائی تحفظ پالیسی کے اجراء کی خبر شامل ہے۔ اس پالیسی کے بیان کردہ بنیادی مقاصد میں بھوک اور غربت کا خاتمہ شامل ہے اور اس ہدف کے حصول کے لیے جو حکمت عملی اپنائی گئی ہے وہ ہے ’’پائیدار پیداواری نظام کا فروغ‘‘۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ جن لوگوں کے لیے یہ پالیسی تشکیل دی گئی ہے یعنی زرعی شعبے سے وابستہ بھوک اور غربت کے شکار افرادکے لیے اس پالیسی میں (جتنی کہ اب تک بیان کی گئی) کوئی تحفظ نظر نہیں آتا۔ یقیناًیہاں ’تحفظ‘ سے مراد کسان مزدور طبقے کے لیے پیداواری وسائل پر اختیار ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس پالیسی سے ان مظلوم طبقات کو تحفظ ملنا تو دور جو ہے وہ بھی خطرے میں پڑسکتا ہے کیونکہ موسمی تبدیلی سے مطابقت، خوراک کی ترسیل، اس کے استعمال کو معیاری بنانے کے لیے اصلاحات کا جو عمل شروع کیا گیا ہے اس کی رو سے اس شعبے میں کسان کا کردار صرف اور صرف کمپنیوں کے مخصوص یا مقرر کردہ بیجوں، کھاد اور زرعی زہر کے استعمال سے، کمپنیوں کے ہی متعارف کردہ آبپاشی نظام اور عالمی مقرر کردہ معیارات کے تحت عالمی منڈی کے لیے ہی خوراک کی پیداوار تک محدود ہوسکتا ہے اور یہی عالمی سامراجی قوتوں کا آزاد تجارتی ایجنڈا ہے جس پر ہماری حکومت من و عن عمل پیرا نظر آتی ہے۔ اس سارے عمل کی ایک مثال ملک کے سب سے بڑے صوبے میں پنجاب ایگری کلچر مارکیٹنگ ریگولیٹری اتھاری ایکٹ کی منظوری ہے۔ قومی غذائی تحفظ پالیسی کی چند بیان کردہ خصوصیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت غیر پائیدار جدید طرز زراعت کو متعارف کرواکر بین الاقوامی کمپنیوں کے لیے کاروبار میں اضافے کے راستے کھول رہی ہے چاہے معاملہ نت نئی مشین کی درآمد ہو یا موسمی تبدیلی سے مطابقت رکھنے والے بیجوں اور زرعی زہر کا ہو یا زرعی پیداوار کی قدر میں اضافے کے لیے درکار ٹیکنالوجی کی درآمد ہو، بین الاقوامی کمپنیاں ہی منافع سمیٹیں گی۔ اس صورتحال کا نتیجہ وہی رہے گا جو سبز انقلاب کے بعد سامنے آیا کہ اگانے والا زمین، بیج جیسے پیداواری وسائل پر اختیار نہ ہونے کی وجہ سے پیداوار میں اضافے کے فوائد سے محروم رہے گا جو کسی طور غربت اور بھوک میں کمی کا سبب نہیں بن سکتا۔

مئی17 تا 23 مئی، 2018

پانی

ایک مضمون کے مطابق ملک میں جاری پانی کی شدید کمی نے کپاس، چاول اور مکئی جیسی خریف کی اہم فصلوں پر گہرے منفی اثرات مرتب کیے ہیں جس سے 2018-19 کا زرعی بڑھوتری کا 3.8 فیصد کا ہدف ناممکن ہوجائے گا۔ وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کا کہنا ہے کہ خریف کے موسم میں 47 فیصد پانی کی کمی کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ رواں موسم میں گندم کی کٹائی میں تاخیر اور پانی کی شدید کمی کی وجہ سے گزشتہ سال کے مقابلے میں کپاس کی بوائی 40 فیصد کم ہے۔ اگر پانی کی فراہمی میں بہتری نہیں ہوئی تو جولائی میں شروع ہونے والی خریف کی اہم فصل چاول کی پیداوار بھی متاثر ہوگی جس کے نتیجے میں 7.2 ملین ٹن چاول کے پیداواری ہدف کا حصول مشکل ہوجائیگا۔ اسی طرح سال 2018-19 میں 5.301 ملین ٹن مکئی کی پیداوار کا ہدف مقرر کیا گیا ہے جو پانی کی کمی کی وجہ سے متاثر ہوسکتا ہے۔ محکمہ موسمیات کے اندازے کے مطابق موسم سرما میں ہونے والی برف باری اوسط برفباری سے 20 سے 25 فیصد کم تھی اور اپریل تا جون کے درمیان بارشیں بھی معمول سے کم رہنے کی پیشنگوئی کی گئی ہے۔ حکومت نے 2017-18 میں زرعی شعبہ میں 3.8 فیصد بڑھوتری کو گزشتہ 13 سال کی بلند ترین شرح قرار دیا ہے۔ تاہم حکومتی اہلکاروں کے ساتھ ساتھ ماہرین اقتصادیات نے بھی دستیاب اعداد وشمار کے مطابق اس دعوی پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
(طاہر امین، بزنس ریکارڈر، 19 مئی، صفحہ19)

سندھ کو گڈو بیراج سے اس وقت گزشتہ سال کے مقابلے 50 فیصد کم پانی مل رہا ہے جس سے خریف کی چاول و کپاس کی کاشت بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ آبپاشی حکام کے مطابق گزشتہ سال مئی میں صورتحال کافی بہتر تھی جبکہ اس سال پانی کی کمی کا رجحان آنے والے دنوں میں بھی جاری رہنے کا امکان ہے۔ اس وقت سب سے زیادہ متاثر ہونے والا بیراج کوٹری بیراج ہے جس کی چار کنالوں میں پانی کی کمی 66 فیصد ہے اور صرف پینے کے پانی کی فراہمی کے لیے نہروں میں پانی چھوڑا جارہا ہے۔ پانی کی مسلسل کمی کی وجہ سے سندھ میں کپاس کی بوائی برح طرح متاثر ہوئی ہے اور اب تک 620,000 ہیکٹر رقبے پر کپاس کی بوائی کے ہدف میں سے صرف 22 فیصد رقبے پر بوائی کی گئی ہے۔
(ڈان، 21 مئی، صفحہ17)

وزیر آبی وسائل سید جاوید شاہ نے قومی اسمبلی کو تحریری طور پر آگاہ کیا ہے کہ پاکستان کے مختلف ڈیموں میں پانی ذخیرہ کرنے کی زیادہ سے زیادہ صلاحیت 14 ملین ایکڑ فٹ ہے جو دریاؤں کے سالانہ بہاؤ کا دس فیصد بنتا ہے۔ پانی ذخیرہ کرنے کی یہ صلاحیت ملکی ضروریات کے لیے ناکافی ہے۔ ملک میں پانی کی کمی کی وجوہات میں نئے بڑے ڈیموں کی تعمیر نہ ہونا، موجودہ آبی ذخائر میں مٹی کا جمع ہونا، آبادی اور پانی کی طلب میں اضافہ اور موسمی تبدیلی شامل ہیں۔
(بزنس ریکارڈر، 22 مئی، صفحہ12)

کپاس

سیکریٹری محکمہ زراعت پنجاب محمد محمود نے دعوی کیا ہے کہ کپاس کی پیداور کے حوالے سے کی گئی منصوبہ بندی ’’کاٹن مشن 2025‘‘ پنجاب میں کپاس کی 20 ملین گانٹھوں کی پیداوار یقینی بنائے گا۔ کاٹن مشن کی حکمت عملی کے ذریعے کپاس کی صنعت کی بڑھوتری کے لیے مواقع دستیاب ہونگے اور کاشتکاروں کے لیے زیادہ سے زیادہ آمدنی کا حصول یقینی بنایا جائے گا۔ حکومت کپاس کے منظورشدہ بیجوں پر 50 فیصد زرتلافی فراہم کررہی ہے۔ اس کے علاوہ کاشتکاروں کے لئے زرعی مشینری کی فراہمی کے لئے بھی 14 ملین روپے خرچ کئے جارہے ہیں۔ حکومت کپاس کی زیادہ پیداوار دینے والے بیج پر تحقیق کے لئے 350.889 ملین روپے اور سفید مکھی کے خاتمے کے لئے 39.612 ملین روپے کپاس کے جینیاتی بیج فراہم کرنے کے لیے خرچ کررہی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 23 مئی، صفحہ17)

گرمی کی لہر/ موسمی تبدیلی
ایک خبر کے مطابق کراچی میں جاری گرمی کی لہر سے تین دنوں میں تقریباً 60 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی کا کہنا ہے کہ ادارے کو روزانہ تقریباً 25 لاشیں موصول ہوتی ہیں لیکن پچھلے تین دنوں میں انھیں ہر عمر کے افراد کی 160 لاشیں موصول ہوئی ہیں۔ تقریبا 60 خاندانوں کا کہنا ہے کہ ان کے پیاروں کی موت شدید گرمی کی وجہ سے ہوئی ہے۔ سیکریٹر صحت سندھ نے گرمی سے کسی بھی فرد کی ہلاکت کی تردید کی ہے۔ شہر میں پیر (21 مئی) کو درجہ حرارت 44 ڈگری سیلسیس تک پہنچ گیا تھا۔
(ڈان، 22 مئی، صفحہ17)

آلودگی 
ایک خبر کے مطابق 2017 میں کیے گئے منچھر جھیل کے ماحولیاتی تجزیے کے مطابق جھیل کا پانی انتہائی آلودہ اور پینے کے لئے انتہائی غیر موزوں ہے۔ جھیل کے پانی کا معیار، موجودہ صورتحال اور ماحولیاتی نظام پر اسکے اثرات کا جائزہ لینے کے لئے آبی وسائل پر تحقیق کا قومی ادارہ پاکسان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسس (PCRWR) نے یوایس۔پاکستان سینٹر فار ایڈوانس اسٹڈیز ان واٹر اور مہران یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (MUET) کے اشتراک سے یہ تحقیق کی ہے۔ تحقیقی پورٹ میں کہا گیا ہے کہ جھیل میں آبی فضلہ پھینکنے پر پابندی عائد کرنے کے لئے فوری اقدامات کرنے اور جھیل کی مستقل اور طویل المدت بنیادوں پر جانچ کرنے کی فوری ضرورت ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 20 مئی، صفحہ3)

کمشنر قلات ڈویژن، بلوچستان محمد ہاشم گلزئی کے مطابق ضلع آوران میں گزشتہ چار دنوں میں آلودہ پانی پینے سے چھ افراد ہلاک ہوگئے ہیں اور 120 افراد جام غلام قادر ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ یہ واقع آوران کے ایک مضافاتی گاؤں میں پیش آیا جہاں مکینوں نے 16 مئی کو ایک زمینی گڑھے میں موجود پانی استعمال کیا تھا۔
(بزنس ریکارڈر، 21 مئی، صفحہ5)

غذائی کمی
ایک خبر کے مطابق ملک کے تقریباً آدھے بچے غذائی کمی کی وجہ سے نشونما میں کمی کے شکار ہیں۔ حکومت نے اس حوالے سے وزارت منصوبہ بندی و ترقی، منصوبہ بندی کمیشن اور عالمی غذائی پروگرام (WFP) کے اشتراک سے پاکستان میں غذائی کمی دور کرنے کے لیے پہلی غذائیت پر مبنی حکمت عملی کا آغاز کر دیا ہے۔ منصوبہ بندی کمیشن کے رکن ڈاکٹر عظیم خان کا کہنا ہے کہ حکومت غذائی قلت اور اس کے معیشت پر ہونے والے اثرات سے باخبر ہے اور غذائی کمی کو دور کرنے کے لیے حکومت نے بجٹ 2018-19 میں 10 بلین روپے مختص کیے ہیں۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 17 مئی، صفحہ10)

نکتہ نظر
اس ہفتے کی منتخب کردہ خبریں بھی ناصرف ملکی زرعی شعبے بلکہ ماحولیات کے لیے بھی انتہائی تشویشناک صورتحال کا اظہار کررہی ہیں۔ ملک میں گزشتہ کئی ماہ سے جاری پانی کا بحران دن بہ دن شدید تر ہوتا جارہا ہے جس کے نتیجے میں ہر طرف سے ماہرین زرعی پیداوار میں واضح کمی کے خدشے کا اظہار کررہے ہیں۔ خریف کے موسم میں ملک میں بڑے پیمانے پر کسان کپاس، چاول اور مکئی کاشت کرتے ہیں۔ پانی کی کمی کے نتیجے میں پیداوار میں کمی براہ راست ان کسانوں کوشدید مالی نقصان سے دوچار کرے گی جو کسانوں بلخصوص چھوٹے کسانوں میں مزید غربت اور قرض کے بوجھ میں اضافے کا سبب بن سکتی ہے۔ ملک میں پانی کی کمی کے پیچھے کارفرما عوامل میں موسمی تبدیلی ایک اہم عنصر ہے لیکن اس میں ماضی کی اور موجودہ حکومت کا کردار بھی کچھ کم نہیں جس کا اعتراف خود حکومتی وزیر کرتے ہیں کہ ملک میں دستیاب پانی کا صرف دس فیصد ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے۔ حکومت گزشتہ پانچ سالوں میں اربوں روپے سڑکوں کی تعمیر پر صرف کرسکتی ہے تو یقیناً پائیدار بنیادوں پر آبی ذخائر کی تعمیر اور پانی کے تحفظ پر بھی توجہ دی جاسکتی تھی۔ اس صورتحال میں یہ کسی المیے سے کم نہیں کہ منچھر جھیل اور اس جیسے دیگر آبی ذخائر بھی بتدریج ناقابل استعمال ہوتے جارہے ہیں جو نہ صرف ان جھیلوں سے وابستہ ماہی گیروں کی بیروزگاری کی وجہ بن رہے ہیں بلکہ آلودہ پانی استعمال کرنے والے عوام میں پانی سے ہونے والی بیماریوں کی بھی بنیادی وجہ ہے۔ دنیا بھر میں جاری غیر پائیدار طریقہ پیداوار ہی ساری دنیا میں بڑھتی آلودگی اور موسمی تبدیلی کی بنیادی وجہ ہے جس کے نتیجے میں پاکستان جیسے ممالک شدید موسمی بحران سے دوچار ہیں جو ملک میں غربت، بھوک، بیروزگاری جیسے مسائل میں اضافہ کررہی ہے۔ بیشک ان مسائل سے نمٹنے کے لیے پائیدار بنیادوں پر وسائل کا استعمال ضروری ہے۔

مئی 10 تا 16 مئی، 2018

 زمین
ضلع مردان کے بخشالی گاؤں کے متعدد مکینوں نے شکایت کی ہے کہ سوات ایکسپریس وے منصوبے کے لیے ان کی قیمتی زرعی زمین باقائدہ طور پر بروقت مناسب زرتلافی ادا کیے بغیر حاصل کی گئی ہے۔ بخشالی اور اس کے اردگرد کے علاقوں میں 600 کنال زمین سڑک کی تعمیر کے لیے حاصل کی گئی ہے جبکہ شہباز گڑھی گاؤں میں 1,000 کنال زمین حاصل کی گئی ہے۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ جو زمین ان سے لی گئی ہے وہ زرخیز زرعی زمین ہے جس کی منڈی میں موجودہ قیمت 50,000 روپے فی مرلہ ہے۔ حکومت کی جانب سے زمین کے حصول کے لئے مقرر کی گئی قیمت سے اب تک زمین مالکان کو باقاعدہ طور پر آگا ہ نہیں کیا گیا ہے۔ بخشالی، شہبازگڑھی، نارسک، چم ڈھری اور دیگر متاثرہ دیہات کو ابھی تک ان کی زمین اور فصلوں کا معاوضہ نہیں دیا گیا ہے۔ حکومت کا دعوی ہے کہ اس نے منصوبے کی تعمیر کے لیے زمین کی خریداری کی مد میں 1.8 بلین روپے مختص کیے ہیں لیکن متاثرین کا کہنا ہے کہ انہیں مناسب معاوضہ نہیں دیا گیا۔
(دی نیوز، 13 مئی، صفحہ5)

زراعت
حکومت سندھ نے وفاقی حکومت کے نقش قدم پر چلتے ہوئے صوبائی بجٹ 2018-19 میں زرعی شعبہ کے لئے بھاری امداد وزرتلافی دی ہے۔ وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ صوبائی محکمہ زراعت مشینی زراعت کے فروغ میں مصروف عمل ہے۔ اس مقصد کے لئے صوبائی حکومت کی جانب سے کاشتکاری کے کاموں جیسے زمین کی تیاری، کھیریاں بنانے، بوائی، کھاد و کیمیائی ادویات ڈالنے کے آلات و مشینری کی خریداری پر زرتلافی دی جائیگی۔ بجٹ میں ٹریکٹرز، زرعی مداخل، شمسی توانائی سے چلنے والے ٹیوب ویل وغیرہ کی خریداری پر کسانوں کو 9.650 بلین روپے کی زرتلافی دی جائیگی۔ اس کے علاوہ بھاپ سے عملکاری (ہاٹ واٹر ٹریٹمنٹ) اور مصنوعی ماحول (کنٹرولڈ انوائرنمنٹ) کے ذریعے پھل اور سبزیوں کو محفوظ اور ذخیرہ کرنے میں کسانوں کو مدد فراہم کرنے کے لیے زرتلافی کی مد میں 508.8 ملین روپے مختص کیے گئے ہیں۔ 2018-19 کے سالانہ ترقیاتی منصوبوں میں حکومت نے جاری زرعی منصوبوں کے لیے پانچ بلین روپے مختص کیے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ زرعی شعبہ میں غیر ملکی امداد سے چلنے والے منصوبوں کے لیے 5.94 بلین روپے مختص کئے ہیں۔ صوبائی حکومت نے پہلے سے بہتر بنائی گئی واٹر کورسوں کو پختہ کرنے کے لیے بھی 2.54 بلین روپے مختص کئے ہیں۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 11 مئی، صفحہ20)

پانی
انڈس ریور سسٹم اتھارٹی نے تونسہ بیراج اور کوٹری بیراج کے درمیان ایک ملین ایکڑ فٹ پانی کے زیاں کی جانچ کے لئے محکمے کے ڈائریکٹر کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی ہے۔ پنجاب اور سندھ کو اس وقت خریف کی فصلوں کے لیے پانی کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ ان حالات میں ارسا نے ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا جس میں چاروں صوبوں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ ترجمان ارسا خالد رانا کے مطابق پانی کے کم بہاؤ کی وجہ سے سندھ کو 53 جبکہ پنجاب کو 47 فیصد پانی کی کمی کا سامنا ہے۔ اجلاس میں شریک محکمہ موسمیات کے نمائندے کا کہنا تھا کہ مون سون کے حوالے سے پیشنگوئی جون کے وسط میں دستیاب ہوگی۔ ترجمان ارسا کے مطابق ملک اس وقت مون سون بارشوں پر منحصر ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 16مئی، صفحہ12)

آم
ایک مضمون کے مطابق پانی کی کمی کی وجہ سے اس بار سندھ میں آم کی پیداوار متاثر ہوگی۔ کاشتکاروں کے مطابق آم منڈی میں پہنچنا شروع ہوگیا ہے لیکن اس سال انھیں بہتر فصل کی امید نہیں ہے۔ یکم اپریل سے ہی سکھر بیراج میں پانی معمول سے 75 فیصد کم ہے۔ صوبے میں آم کی کے کل باغات میں سے 80 فیصد باغات سکھر بیراج سے نکلنے والی نارا اور روہڑی کنال سے سیراب ہوتے جو زرعی شعبے کے لئے زندگی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ڈائریکٹر سندھ ہورٹی کلچر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ محمد خان بلوچ کا کہنا ہے کہ آم کی پیداوار میں 25 سے 30 فیصد تک کمی کا خدشہ ہے۔ سندھ میں 61,943 ہیکٹر رقبے پر آم کے باغات موجود ہیں جن سے گزشتہ سال 399,686 ٹن آم کی پیداوار ہوئی تھی۔
(محمد حسین خان، ڈان، 14 مئی، صفحہ4، بزنس اینڈ فنانس)

چاول
مالی سال 2018 کے ابتدائی دس ماہ میں چاول کی برآمد میں 27 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ پاکستان نے جولائی سے اپریل کے دوران 1.573 بلین ڈالر مالیت کا 3.228 ملین ٹن چاول برآمد کیا ہے جبکہ گزشتہ سال اس عرصے کے دوران 2.8 ملین ٹن چاول برآمد کیا تھا۔ سینئر وائس چیرمین رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن رفیق سلیمان کا کہنا ہے کہ چاول کی تجارت جو پچھلے تین سال سے مسائل کا شکار تھی اب بحران سے نکل آئی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 10 مئی، صفحہ5)

کھاد 
کھاد بنانے والی صنعتوں نے گیس کی ترسیل میں کمی کی وجہ سے یوریا کھاد کے کارخانوں کی بندش پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ فرٹیلائزر منیوفیکچررز آف پاکستان ایڈوائزری کونسل کے مطابق حکومت کی نامناسب پالیسیوں کی وجہ سے کھاد کی صنعت خطرے میں ہے۔ کھاد کی صنعتوں نے وزیر اعظم پر زور دیا ہے کہ کھاد کی صنعتوں کو بند ہونے سے بچایا جائے کیونکہ مناسب قیمت پر گیس کی عدم دستیابی کی وجہ سے کھاد کے کارخانے اپنی ممکنہ پیداواری صلاحیت 100,000 ٹن کے مطابق پیداوار نہیں کرسکتے۔ مقامی گیس کی کمی اور مہنگی درآمدی مائع قدرتی گیس نے صنعت کے لیے گھمبیر مسائل کھڑے کردیے ہیں۔
(دی نیوز، 13 مئی، صفحہ15)

وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کے ذرائع کا کہنا ہے کہ کمپنیوں کی جانب سے کھاد کی قیمت میں 200 روپے فی بوری مزید اضافے کا امکان ہے۔ وفاقی وزیر قومی غذائی تحفظ و تحقیق سکندر حیات خان بوسن نے کھاد کی صنعت کے نمائندوں کے ساتھ ایک اجلاس بھی منعقد کیا جس میں کھاد کی قیمت میں اضافہ کی وجوہات طلب کی گئی ہیں۔ وفاقی وزیر نے قیمت میں اضافے پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے حکومت کی جانب سے کھاد کی صنعت کو آئندہ بجٹ میں ٹیکسوں میں دی جانے والی چھوٹ کا زکر بھی کیا۔ اس سے پہلے کمپنیاں کھاد کی قیمت میں 100 روپے فی بوری اضافہ کرچکی ہیں۔
(بزنس ریکارڈر، 14 مئی، صفحہ5)

غربت
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام نے نیسلے پاکستان کے ساتھ مل کر دیہی روزگار پروگرام (رورل لائیولی ہڈ پروگرام) کا آغاز کیا ہے۔ اس حوالے سے منعقد کردہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیئرپرسن بی آئی ایس پی ماروی میمن کا کہنا تھا کہ ’’مجھے خوشی ہے کہ نیسلے پاکستان نے عورتوں کو نیسلے کی مصنوعات کی فروخت کے ذریعے بہتر روزگار حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا‘‘۔ سیکریٹری بی آئی ایس پی عمر حامد خان کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ یہ صرف شروعات ہے بی آئی ایس پی اس طرح کی سرکاری و نجی شراکت کو کارپوریٹ سوشل رسپونسبلٹی کے تحت بڑھارہی ہے۔
(دی ایکسپریس ٹربیون، 12 مئی، صفحہ3)

ماہی گیری
ماہ جون اور جولائی میں حکومت کی جانب سے موسم گرما میں ماہی گیری پر پابندی متوقع ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ یہ اب تک واضح نہیں کہ حکومت ماہی گیری پر پابندی دو ماہ کے لیے عائد کرے گی کیونکہ ماضی میں پیپلزپارٹی کی حکومت نے ماہی گیروں کو عایت دیتے ہوئے ایک مہینے کی پابندی عائد کی تھی۔ ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ جون جولائی میں بحیرہ عرب میں لہریں اونچی ہوتی ہیں اور ماہی گیری پر پابندی جھینگوں کی افزائش کا موقع فراہم کرتی ہے۔ پابندی کیا یہ دورانیہ جھینگوں اور دیگر اقسام کی مچھلیوں کی افزائش کا موسم ہوتا ہے۔ ادارہ شماریات پاکستان کے مطابق پاکستان کی سمندری خوراک کی برآمد میں اضافہ جاری ہے۔ سال 2017-18 میں جولائی تا مارچ 315.597 ملین ڈالر مالیت کی سمندری خوراک برآمد کی گئی جو گزشتہ سال کے مقابلے 14.43 فیصد زیادہ ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 12 مئی، صفحہ3)

نکتہ نظر
ملک میں زرعی شعبے میں جاری سرگرمیوں میں دو واضح رجحانات نظر آتے ہیں۔ ایک جدید زراعت کے فروغ کے لیے بھرپور کوششوں پر مبنی ہے جس کا اندازہ سندھ کے بجٹ میں اعلان کردہ منصوبوں سے لگایا جاسکتا ہے کہ کس طرح اربوں روپے کی زرتلافی صوبے کے ’’غریب ‘‘ کسانوں کو دی جائے گی۔ یہاں یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ گزشتہ خبروں کے مطابق زرعی مشینری کی فراہمی صرف بڑے زمینداروں تک محدود ہوگی۔ یعنی اس طرح کے منصوبوں سے چھوٹے اور بے زمین کسان کی تکالیف میں کوئی کمی نہیں آسکتی۔ یہ امکان اس حقیقت سے اور بھی مظبوط ہوتا ہے کہ اس صوبے کی آدھی سے زیادہ زمین پر جاگیرداروں کا قبضہ ہے جس پر کام کرنے والے ہاری بدترین حالات میں غربت اور بھوک کاشکار ہیں۔ دوسرا رجحان اس وقت ملک میں خریف کے موسم میں جاری پانی کے بحران کا ہے کہ جس کے لیے حکومت اور اس کے ادارے بے بسی سے مون سون بارشوں کا انتظار کررہے ہیں جبکہ ماہرین مسلسل خطرے کی گھنٹی بجارہے ہیں کہ پانی کی کمی سے بڑے پیمانے پر زرعی پیداوار میں کمی ہوسکتی ہے۔ اس ملک کے عوام کی بدقسمتی ہے کہ یہاں طبقہ حکمران صرف وہاں مستعد نظر آتا ہے جہاں اس کا اپنا مفاد ہو یا اس کے غیر ملکی آقاؤں کا جن کی نیولبرل پالیسیوں کے نفاذ کے لیے تو تیزی کے ساتھ قانون سازی اور اس کا نفاذ کیا جاتا ہے اور قرض لے کر اربوں روپے زرتلافی دی جاتی ہے لیکن پانی جیسے اہم شعبے کے لیے منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے حکومتیں ضرورت کے مطابق چھوٹے ڈیم یا آبی ذخائر کی تعمیر سے قاصر ہیں اس کے ساتھ ساتھ ملک میں موجود صدیوں پرانے آبپاشی نظام کی بحالی اور پختگی پر کوئی توجہ نہیں دی گئی جو پانی کے زیاں کی وجوہات میں سے ایک ہے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ غیرملکی منڈیوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر گنے جیسی نقدآور فصلوں کی کاشت کو کنٹرول کیا جائے جن کی کاشت پر دیگر فصلوں کے مقابلے کئی گنا پانی صرف ہوتا ہے۔

مئی 3 تا 9 مئی، 2018

زمین

خیبر پختونخوا میں باغات کے لئے مشہور مالاکنڈ کے علاقے پالائی کے رہائشیوں نے خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے علاقہ میں سیمنٹ فیکٹری کی تعمیر اور اس مقصد کے لئے 400 ایکڑ زمین حاصل کرنے کے لئے غیر اعتراضی سند (این او سی) جاری کرنے کے خلاف پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ 15 سے زائد درخواست گذاروں نے عدالت سے سیمنٹ فیکٹری کی تعمیر کے لیے جاری کردہ این او سی کالعدم قرار دینے کی درخواست کی ہے۔ درخواست گزاروں نے زمین کے حصول کے لیے سیکشن۔ چار کے تحت جاری کردہ متنازع اعلامیہ بھی منسوخ کرنے کی درخواست کی ہے۔ درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ ان کا علاقہ پالائی عموماً سرسبز کھیت اور خصوصاً سنگترے کے باغات کے لیے مشہور ہے جسے مقامی لوگوں نے ماحول دوست بنائے رکھنے کے لیے حکومتی مدد کے بغیر ہرممکن کوشش کی ہے۔ سرکاری اندازوں کے مطابق اس علاقے میں 171,000 پھلوں کے درخت موجود ہیں۔
(ڈان، 6 مئی، صفحہ7)

فصلیں

ایک خبر کے مطابق پاکستان سال 2017-18 میں اپنی اہم فصلوں گندم، کپاس، مکئی اور دالوں کا پیداواری ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ زرعی شعبے میں بڑھوتری کے حکومتی دعوی 3.8 فیصد کے برعکس بڑھوتری کی شرح 3.1 فیصد ہے۔ سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے اخبار سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ زرعی پیداوار کے لئے کھاد ایک اہم جز ہے جس کی کھپت میں سال کے ابتدائی نو ماہ میں چار فیصد کمی ہوئی ہے۔ ملک میں پانی کی کمی ہے اور یہ صورتحال ہر گزرتے دن کے ساتھ خراب ہورہی ہے۔ اخبار کو دستیاب معلومات کے مطابق گندم کی پیداوار ہدف کے مقابلے چار فیصد، کپاس کی سات فیصد، مکئی کی 4.74 فیصد اور دالوں کی 34.7 فیصد کم ہوئی ہے۔
(بزنس ریکارڈر، 7 مئی، صفحہ7)

کھاد

وزارت صنعت و پیداوار نے مالی سال 2018 میں یوریا کھاد کی کمی پوری کرنے کے لئے کھاد کے بند کارخانے بحال کرنے کے بجائے یوریا درآمد کرنے کی تجویز کی توثیق کی ہے۔ فرٹیلائزر رویو کمیٹی کے اجلاس میں نیشنل فرٹیلائزر مارکیٹنگ لمیٹڈ نے 0.6 ملین ٹن یوریا درآمد کرنے کی تجویز دی تھی۔ اندازوں کے مطابق موجودہ خریف کے موسم میں 0.2 تا 0.3 ملین ٹن کھاد کی کمی کا امکان ہے اور کھاد کی یہ کمی دسمبر 2018 تک جاری رہنے کی توقع ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 4 مئی، صفحہ20)

پھل

وانا، جنوبی وزیرستان میں 880 ملین روپے لاگت کے زرعی پارک میں چلغوزہ، پھل اور سبزیوں کو محفوظ کرنے اور ان کی عمل کاری (پروسیسنگ) کا آغاز جلد متوقع ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ ماہ اس پارک کا افتتاح کیا تھا۔ مقامی فوجی حکام کے مطابق زرعی پارک پولیٹکل انتظامیہ کے حوالے کرنے کے لیے اقدامات کرلیے گئے ہیں۔ منصوبے کے ڈائریکٹر میجر محمد عمران خان نیازی کا کہنا ہے کہ پہاڑی سلسلے سلیمان رینج میں دنیا کا سب سے بڑا چلغوزے کا جنگل ہے جو 260 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ وزیرستان میں 4,460 ٹن چلغوزہ پیدا ہوتا ہے اور صرف جنوبی وزیرستان میں ہی پاکستان کا 90 فیصد چلغوزہ پیدا ہوتا ہے۔ زرعی پارک میں مقامی تاجروں کے لیے 128 دکانیں اور 10,000 ٹن ذخیرے کی صلاحیت رکھنے والا سردخانہ بھی موجود ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس خطے میں 749 ٹن بادام، 990 ٹن انار، 788 ٹن خوبانی، 842 ٹن تربوز، 1,260 ٹن آڑو، 46,203 ٹن سیب اور 4,460 ٹن چلغوزے کی پیداوار ہوتی ہے۔ (ڈان، 6 مئی، صفحہ7)

آم

میرپورخاص اور سندھ کے دیگر علاقوں میں گزشتہ چار ماہ سے پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے دیگر فصلوں کی طرح آم کی پیداوار بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ کاشتکار خصوصاً نہر کے آخری سرے کے علاقوں کے کسان کئی ماہ سے نارا کنال سے پانی کی فراہمی میں کمی یا مکمل طور پرمعطلی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ چھوٹے کسان مزدور اور سرکاری فارمز پر کام کرنے والے کسانوں نے رواں موسم میں آم کی اہم اقسام کی پیداوار میں کمی کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
(ڈان، 9 مئی، صفحہ19)

کپاس

پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کے مطابق ملک میں یکم مئی کو ختم ہونے والے کپاس کے موسم (2017-18) میں 11.58 ملین گانٹھیں کپاس کی پیداوار ہوئی ہے۔ گزشتہ سال 2016-17 میں 15 اپریل تک 10.72 ملین گانٹھیں کپاس کی پیداوار ہوئی تھی۔ کپاس کی پیداوار کے حتمی اعداد وشمار کے مطابق پنجاب میں کپاس کی پیداوار 7.32 ملین جبکہ سندھ میں 4.25 ملین گانٹھیں پیداوار ہوئی۔ جنرز کے پاس اس وقت غیرفروخت شدہ 279,894 گانٹھیں کپاس موجود ہے۔
(ڈان، 4 مئی، صفحہ11)

گنا

کسان بورڈ خیبر پختونخوا کے صدر رضوان اللہ خان نے پشاور پریس کلب میں پریس کانفرنس کے دوران کہا ہے کہ خیبر پختونخوا کی شوگر ملوں نے کسانوں سے گنا 120 سے 130 روپے فی من خریدا۔ کسانوں نے اس نامناسب قیمت پر احتجاج بھی کیا۔ سپریم کورٹ نے اس معاملے پر کارروائی کی اور حکم جاری کیا کہ کسانوں کو 180 روپے فی من قیمت کے حساب سے گنے کی بقایا رقم ادا کی جائے، لیکن شوگر مل مافیا کھلے عام عدالتی حکم سے انکار کررہی ہے اور اب تک کے پی کے میں کسانوں کے بقایاجات ادا نہیں کیے گئے ہیں۔ انہوں نے متعلقہ حکام پر زور دیا کہ وہ کسانوں کے بقایات کی جلد ادائیگی کے لیے اپنا کردار ادا کریں تاکہ کسان اگلی فصل کاشت کرسکیں۔
(بزنس ریکارڈر، 8مئی، صفحہ21)

غذائی کمی

صحت مند اور غذائیت سے بھر پور خوراک کے حوالے سے عوام میں آگاہی فراہم کرنے کے لیے پنجاب فوڈ اتھارٹی غذائیت کے حوالے سے معلومات فراہم کرنے کے لیے پہلے نیوٹریشن کلینک کا آغاز کررہی ہے۔ ڈائریکٹر پنجاب فوڈ اتھارٹی نورالامین مینگل کا کہنا ہے کہ 14 اگست 2018 تک تمام ڈویژنل ہیڈ کوارٹر میں جبکہ اس کے اگلے مرحلے میں پنجاب کے تمام 36 اضلاع میں نیوٹریشن کلینک کھولے جائیں گے۔ ان مراکز پر غذائی ماہرین عوام کو صحت مند خوراک کے حوالے سے رہنمائی فراہم کریں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ غذائی سروے کے مطابق پنجاب کی آدھی آبادی غذائی کمی کی شکار ہے جس کی ایک اہم وجہ غذائیت کے حوالے سے آگاہی نہ ہونا ہے۔ نیوٹریشن کلینک سے ہر فرد غذائی ماہرین سے 232 روپے ادا کرکے مشورہ حاصل کرسکتا ہے۔
(دی ایکسپریس ٹریبیون، 4 مئی، صفحہ11)

خوردنی تیل

فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی جانب سے بجٹ 2018-19 میں خوردنی تیل کی درآمد پر ٹیکس میں 30 فیصد اضافے کی تجویز دی گئی ہے۔ تجویز کے مطابق سویابین کے تیل پر محصول میں 32.6 فیصد اور پام آئل پر 29.5 فیصد اضافہ متوقع ہے۔ ملک میں خردنی تیل کی ضرورت کا 75 فیصد درآمد کیا جاتا ہے جبکہ بقیہ ضرورت مقامی بنولہ اور سرسوں کے تیل سے پوری کی جاتی ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے حکام نے انکشاف کیا ہے کہ بورڈ نے یہ تجویز پنجاب کے ایک وفاقی وزیر کے اسرار پر پیش کی۔ اس وفاقی وزیر کا تعلق شیخوپورہ سے جن کے رشتہ دار تیل کشید کرنے کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ تاہم زرائع کا کہنا ہے کہ حکومت پر درآمدی محصول میں اضافے کے خلاف دباؤ بڑھا ہے اور ہوسکتا ہے کہ اس اضافے کو واپس لینے پر غور کیا جائے۔ اس مجوزہ اضافے کے بعد صارفین کو فی کلو تیل پر پانچ روپے اضافی ادا کرنے ہونگے۔ (دی ایکسپریس ٹریبیون، 3 مئی، صفحہ13)

موسمی تبدیلی

محکمہ موسمیات نے تصدیق کی ہے کہ اپریل کے مہینے میں پاکستان دنیاکا گرم ترین مقام بن گیا تھا جب نواب شاہ، سندھ میں درجہ حرارت 50 ڈگری سیلسیس سے بھی تجاوز کرگیا تھا۔ 30 اپریل 2018 کو نواب شاہ میں درجہ حرارت 50.2 ڈگری سیلسیس تک پہنچ گیا تھا۔ عالمی اور ملکی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ اپریل کے مہینے میں درجہ حرارت 50 ڈگری سیلسیس تک جاپہنچا ہو۔ گزشتہ سال نواب شاہ میں ہی 22 اپریل کو 49.2 ڈگری سیلسیس درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا تھا۔
(ڈان، 3 مئی، صفحہ19)

نکتہ نظر

اس ہفتے کی خبروں میں سرفہرست خبر کے پی کے میں مالاکنڈ کے علاقے پلائی کی ہے جہاں صرف درختوں کی تعداد ہی اس علاقے کے عوام کے لیے وہاں کے ماحول کی اہمیت ظاہر کرتی ہے جو یقیناًان کی خوراک کی خودمختاری اور روزگار کے لیے لازم ہے۔ کے پی کے حکومت کی یہ منافقانہ روش کہ ایک طرف تو اربوں روپے ماحول کے تحفظ کے لیے بلین ٹری منصوبے پر خرچ کررہی ہے اور دوسری طرف عوامی رضامندی کے بغیر پہلے سے موجود درختوں اور دیگر قدرتی وسائل کو برباد کرنے کا سامان پیدا کررہی ہے، علاقے کی آبادی کو ان کی زمین سے بیدخل کرنے اور ماحول پر منحصر ان کے روزگار کو ختم کرنے کی مجرمانہ کوشش ہے۔ وسائل کو اپنے ہاتھوں برباد کرکے انہیں پھر سے نیولبرل پالیسیوں کے تحت پیدا کرنے کا یہ سلسلہ صرف کے پی کے تک محدود نہیں بلکہ سارا ملک اس شیطانی جال میں جکڑا ہوا ہے۔ وانا میں زرعی پارک کی تعمیر ہو، یا پنجاب میں نیوٹریشن کلینک کی ابتداء، ایسی سرکاری پالیسیوں کی مثالیں ہرطرف واضح ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ سوال اٹھایا جائے کہ آخر کار اس صوبے کے آدھے بچے غذائی کمی کا شکار کیوں ہیں جہاں ملک کی تقریباً 70 فیصد خوراک پیدا ہوتی ہے؟ یہ سوال اٹھانے کی ضرورت ہے کہ موسمی تبدیلی کے نتیجے میں ملک گرم ترین خطوں میں شمار ہورہا ہے اور آبی وسائل کم ہوکر ہماری پیداوار کو متاثر کررہیں، اس کے ذمہ دار عناصر کون ہیں؟ اور یہ بھی کہ کچھ ماہ پہلے تک کھاد بنانے والے کارخانے زیادہ پیداور کا رونا روکر کھاد برآمد کرنے کی اجازت طلب کررہے تھے اور کھاد برآمد کی بھی گئی، تو آج اچانک یہ مطالبہ کیوں کیا جارہا ہے کہ کھاد کی کمی ہوگئی ہے اور اب کھاد درآمد کی جائے؟ ان تمام سوالوں کا جواب یہ ہوسکتا ہے کہ عوام کے لیے پالیسی سازی کرنے والے صرف اور صرف مخصوص طبقے کے مفادات کے تحفظ کے لیے پالیسی سازی کرتے ہیں جن میں عوام کے لیے کوئی رعایت یا بھلائی کبھی ہونہیں سکتی کیونکہ اس میں عوام کی حقیقی نمائندگی شامل نہیں۔ حقیقی مالکان سے زمین چھین کر سیمنٹ فیکٹری کا قیام بھی بڑی تعداد میں عوام کو بے گھر اور بے روزگار کرکے مخصوص سرمایہ دار طبقے کو نوازنے کی پالیسی ہے، وانا، وزیرستان میں باقی تمام مسائل کو پس پشت ڈال کر پھلوں کی پروسیسنگ کا مقصد بھی ان پھلوں کی برآمد کے ذریعے عالمی منڈی کی ضروریات پوری کرنا اور سرمایہ داروں کے لیے منافع پہنچانا ہی معلوم ہوتا ہے۔ عوامی خزانے سے بڑے پیمانے پر زرتلافی حاصل کرکے کھاد تیار کرنے والے اس کی برآمد سے تو منافع کماہی رہے تھے اب یہی ادارے کھاد درآمد کرکے بھی اپنے منافع میں مزید اضافہ کرینگے۔ ملک میں جاری معاشی پالیسیاں غربت، بھوک، غذائی کمی، ماحولیاتی تباہی اور بے زمینی کی بنیادی وجہ ہیں، جن کا خاتمہ ہی اس ملک کے عوام کو معاشی خوشحالی دے سکتا ہے جس کے لیے اس ملک کے عوام کو ہی سب سے پہلے سوال اٹھانا ہوگا، منظم ہونا ہوگا اور جدوجہد کرنی ہوگی۔